وَاِذَاۤ اَنْعَمْنَا عَلَى الْاِنْسَانِ اَعْرَضَ وَنَاٰ بِجَانِبِهٖۚ وَاِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ كَانَ يَــُٔوْسًا
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
انسان کا حال یہ ہے کہ جب ہم اس کو نعمت عطا کرتے ہیں تو وہ اینٹھتا اور پیٹھ موڑ لیتا ہے، اور جب ذرا مصیبت سے دو چار ہوتا ہے تو مایوس ہونے لگتا ہے
English Sahih:
And when We bestow favor upon man [i.e., the disbeliever], he turns away and distances himself; and when evil touches him, he is ever despairing.
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
انسان کا حال یہ ہے کہ جب ہم اس کو نعمت عطا کرتے ہیں تو وہ اینٹھتا اور پیٹھ موڑ لیتا ہے، اور جب ذرا مصیبت سے دو چار ہوتا ہے تو مایوس ہونے لگتا ہے
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
اور جب ہم آدمی پر احسان کرتے ہیں منہ پھیرلیتا ہے اور اپنی طرف دور ہٹ جاتا ہے اور جب اسے برائی پہنچے تو ناامید ہوجاتا ہے
احمد علی Ahmed Ali
اورجب ہم انسان پر انعام کرتے ہیں تو منہ پھیر لیتا ہے اور پہلو تہی کرتا ہے اور جب اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو نا امیدہوجاتا ہے
أحسن البيان Ahsanul Bayan
اور انسان پر جب ہم اپنا انعام کرتے ہیں تو وہ منہ موڑ لیتا ہے اور کروٹ بدل لیتا ہے اور جب اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ مایوس ہو جاتا ہے (١)
٨٣۔١ اس میں انسان کی حالت و کیفیت کا ذکر ہے جس میں وہ عام طور پر خوش حالی کے وقت اور تکلیف کے وقت مبتلا ہوتا ہے، خوشحالی میں وہ اللہ کو بھول جاتا ہے اور تکلیف میں مایوس ہو جاتا ہے، لیکن اہل ایمان کا معاملہ دونوں حالتوں میں اس سے مختلف ہوتا ہے۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
اور جب ہم انسان کو نعمت بخشتے ہیں تو ردگرداں ہوجاتا اور پہلو پھیر لیتا ہے۔ اور جب اسے سختی پہنچتی ہے تو ناامید ہوجاتا ہے
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
اور انسان پر جب ہم اپنا انعام کرتے ہیں تو وه منھ موڑ لیتا ہے اور کروٹ بدل لیتا ہے اور جب اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وه مایوس ہوجاتا ہے
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
اور جب ہم انسان کو کوئی نعمت عطا کرتے ہیں تو وہ منہ پھیر لیتا ہے اور پہلو تہی کرتا ہے اور جب اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو مایوس ہو جاتا ہے۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور ہم جب انسان پر کوئی نعمت نازل کرتے ہیں تو وہ پہلو بچا کر کنارہ کش ہوجاتا ہے اور جب تکلیف ہوتی ہے تو مایوس ہوجاتا ہے
طاہر القادری Tahir ul Qadri
اور جب ہم انسان پر (کوئی) انعام فرماتے ہیں تو وہ (شکر سے) گریز کرتا اور پہلو تہی کر جاتا ہے اور جب اسے کوئی تکلیف پہنچ جاتی ہے تو مایوس ہو جاتا ہے (گویا نہ شاکر ہے نہ صابر)،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
انسانی فطرت میں خیر و شر موجود ہے
خیر و شر برائی بھلائی جو انسان کی فطرت میں ہیں، قرآن کریم ان کو بیان فرما رہا ہے۔ مال، عافیت، فتح، رزق، نصرت، تائید، کشادگی، آرام پاتے ہی نظریں پھیر لیتا ہے۔ اللہ سے دور ہوجاتا ہے گویا اسے کبھی برائی پہنچنے کی ہی نہیں۔ اللہ سے کروٹ بدل لیتا ہے گویا کبھی کی جان پہچان ہی نہیں اور جہاں مصیبت، تکلیف، دکھ، درد، آفت، حادثہ پہنچا اور یہ ناامید ہوا، سمجھ لیتا ہے کہ اب بھلائی، عافیت، راحت، آرام ملنے ہی کا نہیں۔ قرآن کریم اور جگہ ارشاد فرماتا ہے آیت ( وَلَىِٕنْ اَذَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنَّا رَحْمَةً ثُمَّ نَزَعْنٰهَا مِنْهُ ۚ اِنَّهٗ لَيَـــُٔــوْسٌ كَفُوْرٌ ) 11 ۔ ھود ;9) انسان کو راحتیں دے کر جہاں ہم نے واپس لے لیں کہ یہ محض مایوس اور ناشکرا بن گیا اور جہاں مصیبتوں کے بعد ہم نے عافیتیں دیں یہ پھول گیا، گھمنڈ میں آگیا اور ہانک لگانے لگا کہ بس اب برائیاں مجھ سے دور ہوگئیں۔ فرماتا ہے کہ ہر شخص اپنی اپنی طرز پر، اپنی طبیعت پر، اپنی نیت پر، اپنے دین اور طریقے پر عامل ہے تو لگے رہیں۔ اس کا علم کہ فی الواقع راہ راست پر کون ہے، صرف اللہ ہی کو ہے۔ اس میں مشرکین کو تنبیہ ہے کہ وہ اپنے مسلک پر گو کار بند ہوں اور اچھا سمجھ رہے ہوں لیکن اللہ کے پاس جا کر کھلے گا کہ جس راہ پر وہ تھے وہ کیسی خطرناک تھی۔ جیسے فرمان ہے کہ بےایمانوں سے کہہ دو کہ اچھا ہم اپنی جگہ اپنے کام کرتے جاؤ الخ، بدلے کا وقت یہ نہیں، قیامت کا دن ہے، نیکی بدی کی تمیز اس دن ہوگی، سب کو بدلے ملیں گے، اللہ پر کوئی امر پوشیدہ نہیں۔