الاسراء آية ۸۵
وَيَسْـــَٔلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ ۗ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّىْ وَمَاۤ اُوْتِيْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِيْلًا
طاہر القادری:
اور یہ (کفّار) آپ سے روح کے متعلق سوال کرتے ہیں، فرما دیجئے: روح میرے رب کے اَمر سے ہے اور تمہیں بہت ہی تھوڑا سا علم دیا گیا ہے،
English Sahih:
And they ask you, [O Muhammad], about the soul. Say, "The soul is of the affair [i.e., concern] of my Lord. And you [i.e., mankind] have not been given of knowledge except a little."
1 Abul A'ala Maududi
یہ لوگ تم سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں کہو "یہ روح میرے رب کے حکم سے آتی ہے، مگر تم لوگوں نے علم سے کم ہی بہرہ پایا ہے"
2 Ahmed Raza Khan
اور تم سے روح کو پوچھتے ہیں ہیں، تم فرماؤ روح میرے رب کے حکم سے ایک چیز ہے اور تمہیں علم نہ ملا مگر تھوڑا
3 Ahmed Ali
اور یہ لوگ تجھے رو ح کے متعلق سوال کرتے ہیں کہہ دو روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تمہیں جو علم دیا گیا ہے وہ بہت ہی تھوڑا ہے
4 Ahsanul Bayan
اور یہ لوگ آپ سے روح کی بابت سوال کرتے ہیں، آپ جواب دیجئے کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تمہیں بہت ہی کم علم دیا گیا ہے (١)
٨٥۔١ روح وہ لطیف شے ہے جو کسی کو نظر نہیں آتی لیکن ہر جاندار کی قوت و توانائی اسی روح کے اندر مضمر ہے اس کی حقیقت و ماہیت کیا ہے؟ کوئی نہیں جانتا۔ یہودیوں نے بھی ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی بابت پوچھا تو یہ آیت اتری (صحیح بخاری) اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ تمہارا علم، اللہ کے علم کے مقابلے میں قلیل ہے، اور یہ روح، جس کے بارے میں تم سے پوچھ رہے ہو، اس کا علم تو اللہ نے انبیاء سمیت کسی کو بھی نہیں دیا ہے اتنا سمجھو کہ یہ میرے رب کا امر (حکم) ہے۔ یا میرے رب کی شان میں سے ہے، جس کی حقیقت کو صرف وہی جانتا ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور تم سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ کہہ دو کہ وہ میرے پروردگار کی ایک شان ہے اور تم لوگوں کو (بہت ہی) کم علم دیا گیا ہے
6 Muhammad Junagarhi
اور یہ لوگ آپ سے روح کی بابت سوال کرتے ہیں، آپ جواب دے دیجئیے کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تمہیں بہت ہی کم علم دیا گیا ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
(اے رسول(ص)!) لوگ آپ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ کہہ دیجئے کہ روح میرے پروردگار کے امر سے ہے اور تمہیں بہت ہی تھوڑا سا علم دیا گیا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور پیغمبر یہ آپ سے روح کے بارے میں دریافت کرتے ہیں تو کہہ دیجئے کہ یہ میرے پروردگار کا ایک امر ہے اور تمہیں بہت تھوڑا سا علم دیا گیا ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور تم سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ کہہ دو کہ وہ میرے پروردگار کی ایک شان ہے۔ اور تم لوگوں کو (بہت ہی) کم علم دیا گیا ہے۔
آیت نمبر 85 تا 93
ترجمہ : یہود آپ سے روح کے بارے میں جس کے ذریعہ جسم انسانی زندہ ہوتا ہے سوال کرتے ہیں آپ ان کو جواب دیجئے کہ روح میرے رب کا حکم ہے جس کی حقیقت وہ جانتا ہے تم نہیں جانتے، اور اس کے علم کی نسبت سے تمہیں بہت ہی کم دیا گیا اور اگر ہم چاہیں تو جو وحی ہم نے آپ کی طرف بھیجی ہے یعنی قرآن کو سلب کرلیں بایں طور کہ اس کو سینوں سے اور مصاحف سے مٹا دیں پھر آپ کو اس کیلئے ہمارے مقابلہ میں کوئی حمایتی میسر نہ ہو لیکن اس کو تیرے رب کی طرف سے رحمت کے طور پر باقی رکھا ہے یقیناً آپ پر اس کا بڑا ہی فضل ہے، اس لئے کہ اس نے اس کو آپ پر نازل کیا اور مقام محمود آپ کو عطا کیا اور اس کے علاوہ دیگر فضائل بھی ( عطا فرماکر) آپ کہہ دیجیئے کہ اگر انسان اور جنات اس بات پر متفق ہوجائیں کہ فصاحت و بلاغت میں اس قرآن کا مثل لے آئیں تو وہ اس کا مثل نہیں لاسکتے اگرچہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے مددگارہو جائیں ، (یہ آیت) ان کے اس قول کے جواب میں نازل ہوئی کہ، اگر ہم چاہیں تو ہم بھی ایسا کلام لاسکتے ہیں، ہم نے تو اس قرآن میں لوگوں کے سمجھنے کیلئے ہر قسم کی مثالیں بیان کردیں ہیں (من کل مثل) مثلاً ، محذوف کی صفت ہے ای مثلا من جنس کل مثل تاکہ اس سے نصیحت حاصل کریں، (ہر نوح کے عمدہ عمدہ مضامین بیان کئے ہیں) مگر اہل مکہ میں سے اکثر لوگ حق کے انکار سے باز نہیں آتے، انہوں نے کہا کہ ہم آپ پر ہرگز ایمان لانے والے نہیں تاوقتیکہ آپ زمین سے ہمارے لئے کوئی چشمہ جاری نہ کردیں ایسا چشمہ کہ اس سے پانی جاری ہو یا خود آپ کیلئے کھجوروں اور انگوروں کا ایک باغ ہو اور اس کے درمیان آپ نہریں جاری کردکھائیں یا تو آسمان کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے ہمارے اوپر گرا دیں جیسا کہ تیرا دعویٰ ہے یا خدا اور فرشتوں کو ہمارے روبرو لے آؤ جن کو ہم بچشم سر دیکھیں یا تیرے لئے سونے کا ایک گھر ہو یا تو آسمان پر سیڑھی کے ذریعہ چڑھ جائے اور اگر تو آسمان پر چڑھ بھی جائے تو ہم تیرے چڑھنے کا یقین نہ کریں گے تاوقتیکہ تو ایک تحریر نہ لے آئے جس میں تیرے (چڑھنے کی) تصدیق ہو جس کو ہم پڑھیں، (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم ان سے کہو پاک ہے میرا پروردگار یہ اظہار تعجب ہے میں تو صرف دیگر رسولوں کی طرح پیغام لانے والا ایک انسان ہوں اور وہ بھی کوئی معجزہ اللہ کی اجازت کے بغیر نہیں لائے۔
تحقیق و ترکیب و تفسیری فوائد
قولہ : عن الروح، ای عن حقیقۃ الروح۔
قولہ : عَلِمَہٗ ، یعنی الروح من الامور الّتی خصَّ اللہ نَفسَہٗ بعلمِہٖ ، فالامر بمعنی الشان، ای الروح من شان ربی۔
قولہ : بالنسبۃ الی علمہ تعالیٰ یہ اس شبہ کا جواب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ومن یُؤتَ الحکمۃ فقد اوتی خیراً کثیراً اور یہاں فرمایا ” ما اوتیتم من العلم الا قلیلاً “ دونوں میں تعارض ہے۔
جواب : جواب کا حاصل یہ ہے کہ پوری کائنات کا علم اللہ کے علم کے مقابلہ میں قلیل ہے۔
قولہ : لام قسمٍ یہ حذف قسم پر دال ہے لَنَذْھَبَنَّ جواب قسم ہے جو کہ جواب شرط کے قائم مقام بھی ہے، اور بعض حضرات نے ذھبنا بہ جواب شرط محذوف مانا ہے۔
قولہ : لکن ابقیناہ اِلاَّ کی تفسیر لکن سے کرکے اشارہ کردیا کہ یہ مستثنیٰ منقطع ہے نہ کہ متصل اسلئے کہ اِلاَّ کا ماقبل رحمت کی جنس سے نہیں ہے۔ قولہ : ابقیناہ، ابقیناہ محذوف مانا تاکہ کلام تام ہوجائے اس لئے کہ اس کے بغیر کلام نا تمام ہے۔
قولہ : صفۃ لمحذوف یہ اس سوال کا جواب ہے کہ بینا، متعدی بنفسہٖ ہے اس کو من کے ذریعہ متعدی کرنے کی ضرورت نہیں ہے، جواب یہ ہے کہ اس کا مفعول محذوف ہے اور وہ مثلاً ہے اور من کلّ مثلٍ ، کائنًا کے متعلق ہو کر مفعول محذوف کی صفت ہے۔
قولہ : اِلاَّ کفوراً ۔ سوال : جب ضربت اِلاَّ زیدًا جائز نہیں تو پھر ابی اکثر الناس اِلاَّ کفوراً ، کیوں درست ہے ؟ یہ تو مثبت میں مستثنیٰ مفرغ واقع ہے اور یہ جائز نہیں ہے۔
جواب : ابیٰ نفی کا فائدہ دے رہا ہے گویا کہ کہا گیا فلم یرضوا اِلاَّ کفورا، (فارسی میں ترجمہ) پس قبول نہ کرو بیشتر مرد ماں مگر نا سپاسی را۔
قولہ : عطف علیٰ قالوا، یعنی مستثنیٰ پر عطف نہیں ہے جس کی وجہ سے معنی کا فساد لازم آئے۔
تفسیر و تشریح
روح کیا ہے ؟ روح وہ لطیف شئ ہے جو کسی کو نظر نہیں آتی لیکن ہر جاندار کی قوت و توانائی اسی روح کے اندر مضمر ہے، اس کی حقیقت و ماہیت کیا ہے ؟ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، یہود نے بھی روح کے متعلق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا تھا تو آیت یسئلونک عن الروح الخ نازل ہوئی۔
یہاں روح سے کیا مراد ہے : قرآن کریم میں روح کا اطلاق متعدد معنی پر ہوا ہے ایک معنی تو معروف ہیں یعنی جس پر کسی بھی حیوان کی زندگی کا مدار ہوتا ہے، دوسرے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کیلئے استعمال ہوا ہے قال اللہ تعالیٰ نَزَل بہ الروح الامین علی قلبک، تیسرے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کیلئے بھی روح کا لفظ کئی آیات میں بولا گیا ہے، اور قرآن کیلئے بھی روح کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جیسا کہ اَوْحینا الیک روحًا من امرنا میں بعض مفسرین نے سیاق وسباق کی رعایت سے یہ سوال وغی اور قرآن یا وحی لانے والے فرشتے جبرائیل کے متعلق قرار دیا ہے اسلئے کہ اس سے پہلے ” نُنَزِّلُ من القرآن “ میں قرآن کا ذکر تھا اور بعد کی آیات میں پھر قرآن کا ذکر ہے اس سیاق وسباق کی مناسبت سے یہ سمجھا کہ اس آیت میں مذکورہ روح سے بھی وحی، قرآن، یا جبرئیل ہی مراد ہیں، اور مطلب سوال کا یہ ہوگا کہ آپ پر وحی کس طرح آتی ہے ؟ کون لاتا ہے ؟ قرآن کریم نے اس کے جواب میں اس پر اکتفا کیا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے وحی آتی ہے تفصیلات اور کیفیات کا ذکر نہیں کیا۔
مرفوع حدیث میں مذکور شان نزول : احادیث صحیحہ مرفوعہ میں جو شان نزول مذکور ہے اور اسبات میں صریح ہے کہ سوال روح حیوانی کے بارے میں تھا کہ وہ کیا چیز ہے ؟ بدن انسانی میں کس طرح آتی ہے ؟ حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) کی ایک روایت میں ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک روز مدینہ کے غیر آباد حصہ میں چل رہے تھے میں بھی آپ کے ساتھ تھا، آپ کے دست مبارک میں کھجور کی سوکھی شاخ تھی آپ کا گذر چند یہودیوں پر ہوا، یہ لوگ آپس میں کہنے لگے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آرہے ہیں ان سے روح کے متعلق سوال کرو بعض نے منع کیا مگر ایک شخص نے سوال کر ہی ڈالا، یہ سوال سن کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لکڑی پر ٹیک لگا کر خاموش کھڑے ہوگئے جس سے مجھے اندازہ ہوگیا کہ آپ پر وحی نازل ہونے والی ہے کچھ دیر کے بعد وحی نازل ہوئی تو آپ نے آیت ” یسئلونک عن الروح “ پڑھ کر سنائی یہاں ظاہر ہے کہ قرآن یا وحی کو روح کہنا یہ قرآن کی ایک خاص اصطلاح ہے، مشرکین کے سوال کو اس پر محمول کرنا بہت بعید ہے، البتہ روح حیوانی و انسانی کا معاملہ ایسا ہے کہ اس کا سوال ہر شخص کے دل میں پیدا ہوتا ہی ہے، اسلئے جمہور مفسرین، ابن کثیر، ابن جریر، قرطبی روح المعانی سب ہی نے اس کو صحیح قرار دیا ہے کہ سوال روح حیوانی ہی کی حقیقت کے متعلق تھا، رہایہ سوال کہ سیاق وسباق میں ذکر قرآن کا چلا آرہا ہے، درمیان میں روح کا سوال بےجوڑ ہے تو اس کا جواب واضح ہے کہ اس سے پہلے آیات میں کفار مشرکین کی مخالفت اور معاندانہ سوالات کا ذکر آیا ہے جن کا مقصد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دوبارۂ رسالت امتحان کرنا تھا یہ سوال بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے اس لئے بےجوڑ نہیں، خصوصاً شان نزول کے متعلق ایک دوسری صحیح روایت منقول ہے اس میں یہ بات زیادہ وضاحت سے آئی ہے کہ سوال کرنے والوں کا مقصد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا امتحان لینا تھا، چناچہ مسند احمد میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ قریش مکہ جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جا اور بےجا ہر قسم کے سوالات کرتے رہتے تھے انہوں نے سوچا کہ یہود اہل علم ہیں ان کو گذشتہ کتابوں کا بھی علم ہے ان سے کچھ سوالات حاصل کئے جائیں جن کے ذریعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا امتحان لیا جائے اسلئے قریش نے یہود سے سوالات دریافت کرنے کے لئے اپنے آدمی بھیجے انہوں نے کہا کہ تم ان سے روح کے متعلق سوال کرو (ابن کثیر) اور حضرت ابن عباس (رض) ہی سے اس آیت کی تفسیر میں یہ بھی نقل کیا گیا ہے کہ یہود نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنے سوال میں یہ بھی کہا تھا کہ آپ ہمیں یہ بتلائیں کہ روح پر عذاب کس طرح ہوتا ہے، اس وقت تک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس بارے میں کوئی بات نازل نہ ہوئی تھی اسلئے اس وقت فوری جواب نہیں دیا پھر جبرئیل امین یہ آیت لے کر نازل ہوئے ” قل الروح من امر ربی “۔ (معارف)
واقعہ سوال، مکہ میں پیش آیا یا مدینہ میں : حضرت عبد اللہ بن مسعود کی روایت کے مطابق یہ واقعۂ سوال مدینہ میں پیش آیا اسلئے بعض مفسرین نے اس آیت کو مدنی قرار دیا ہے، اور ابن عباس کی روایت کا تعلق مکہ سے ہے ابن کثیر نے اسی احتمال کو راجح قرار دیا ہے اور ابن مسعود (رض) کی روایت کا یہ جواب دیا ہے کہ ممکن ہے کہ اس آیت کا نزول مدینہ میں دوسری مرتبہ ہوا ہو
سوال مذکور کا جواب : مذکورہ سوال کا جواب قرآن مجید نے یہ دیا ہے ” قل الروح من امر ربی “ اس جواب کی تشریح میں قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے جو طریقہ اختیار کیا وہ یہ ہے کہ اس جواب میں جتنی بات کا بتلانا ضروری تھا اور جو عام لوگوں کی سمجھ میں آنے کے قابل ہے صرف وہ بتلا دی گئی اور روح کی مکمل حقیقت جس کا سوال تھا اس کو اسلئے نہیں بتلایا گیا کہ وہ عوام کی سمجھ سے بالاتر تھی اور اس کی کوئی ضرورت اس کے سمجھنے پر موقوف بھی نہیں تھی، یہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ حکم ہوا کہ آپ ان کے جواب میں یہ فرما دیجئے کہ روح میرے پروردگار کے حکم سے ہے یعنی وہ عام مخلوقات کی طرح نہیں کہ جو مادہ کے قطروں اور توالد و تناسل کے ذریعہ وجود میں آتی ہے بلکہ وہ بلاواسطہ حق تعالیٰ کے حکم ” کن “ سے پیدا ہونے والی چیز ہے۔
روح کی حقیقت کا علم کسی کو ہوسکتا ہے یا نہیں ؟ قرآن کریم نے اس سوال کا جواب مخاطب کی ضرورت اور فہم کے مطابق دیدیا، حقیقت روح کو بیان نہیں فرمایا، مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ روح کی حقیقت کوئی سمجھ ہی نہیں سکتا، اور یہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی روح کی حقیقت معلوم نہیں تھی، صحیح بات یہ ہے کہ یہ آیت اس کی نہ نفی کرتی ہے اور نہ اثبات، اگر کسی نبی یا رسول کو وحی کے ذریعہ، کسی ولی کو کشف والہام کے ذریعہ اس کی حقیقت معلوم ہوجائے تو اس آیت کے خلاف نہیں، بلکہ عقل اور فلسفہ کی رو سے بھی اس پر کوئی بحث و تحقیق کی جائے تو اس کو فضول اور لا یعنی تو کہا جاسکتا ہے مگر ناجائز نہیں کہا سکتا، اسی لئے بہت سے علماء متقدمین اور متاخرین نے روح کے متعلق مستقل کتابیں لکھی ہیں آکر دور میں شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی (رح) تعالیٰ نے ایک مختصر رسالے میں اس مسئلہ کو بہترین انداز سے لکھا ہے اور اس میں جس قدر حقیقت عام انسان کیلئے سمجھنا ممکن ہے وہ سمجھا دی ہے جس پر ایک تعلیم یافتہ انسان قناعت کرسکتا ہے اور شبہات و اشکالات سے بچ سکتا ہے۔
روح عقل و نقل کی روشنی میں : ویسئلونک عَن الروح : ” اور سوال کرتے ہیں تجھ سے روح کی نسبت “۔ یعنی روح انسانی کیا چیز ہے، اس کی ماہیت و حقیقت کیا ہے : یہ سوال صحیحین کی روایت کے موافق یہود مدینہ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آزمانے کو کیا تھا اور ” سیر “ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ” قریش “ نے یہود سے یہ سوال کیا تھا، اسی لئے آیت کے ” مکی “ اور ” مدنی “ ہونے میں اختلاف ہے، ممکن ہے کہ نزول مکرر ہوا ہو، واللہ اعلم، یہاں اس سوال کے درج کرنے سے غالباً یہ مقصود ہوگا کہ جن چیزوں کے سمجھنے کی ان لوگوں کو ضرورت ہے، ادھر سے تو اعراض کرتے ہیں اور غیر ضروری مسائل میں ازراہ تعنت وعناد جھگڑتے رہتے ہیں، ضرورت اس کی تھی کہ وحی قرآنی کی روح سے باطنی زندگی حاصل کرتے اور اس نسخۂ شفا سے فائدہ اٹھاتے۔
وَکَذَالِکَ اَوْ حَیْنَا اِلَیْکَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا (شوری) ، یُنَزِّلُ الْمَلَائِکَۃَ بِالرُّوْحِ مِنْ اَمْرِہٖ عَلیٰ مَنْ یَّشَاءُ مِنْ عِبَادِہٖ ۔ (نحل) ۔ (مگر انہیں دوراز کار اور معاندانہ بحثوں سے فرصت کہاں ؟ )
روح کیا ہے، جو ہر ہے یا عرض ؟ مادی ہے یا مجرد ؟ بسیط ہے یا مرکب ؟ اس قسم کے غامض اور بےضرورت مسائل کے سمجھنے پر نہ نجات موقوف ہے، نہ یہ بحثیں انبیاء کے فرائض تبلیغ میں داخل ہیں، بڑے بڑے حکماء اور فلاسفر آج تک خود ” مادہ “ کی حقیقت پر مطلع نہ ہوسکے، روح جو بہر حال مادّہ سے کہیں زیادہ لطیف وخفی ہے اس کی ماہیت وکنہ تک پہنچنے کی پھر کیا ُ مید کی جاسکتی ہے ؟ مشرکین مکہ کی جہالت اور یہود مدینہ کی اسرائیلیات کا مطالعہ کرنے والوں کو معلوم ہے کہ جو قوم موٹی موٹی باتوں اور نہایت واضح حقائق کو نہیں سمجھ سکتی وہ ” روح “ کے حقائق پر دسترس پانے کی کیا خاک استعداد و اہلیت رکھتی ہوگی۔
قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ ، کہہ دے روح میرے رب کے حکم سے ہے۔ موضح القرآن میں ہے کہ حضرت کے آزمانے کو یہود نے پوچھا سو اللہ تعالیٰ نے (کھول کر) نہ بتایا کیونکہ اس کو سمجھنے کا حوصلہ نہ تھا، آگے پیغمبروں نے بھی مخلوق سے ایسی باریک باتیں نہیں کہیں، اتنا جاننا کافی ہے کہ اللہ کے حکم سے ایک چیز بدن میں آپڑی وہ جی اٹھا، جب نکل گئی وہ مرگیا۔
الفاظ قرآنی کی سطح کے نیچے عمیق حقائق مستور ہیں : حق تعالیٰ کا کلام اپنے اندر عجیب و غریب اعجاز رکھتا ہے، روح کے متعلق یہاں جو کچھ فرمایا اسکا سطحی مضمون عوام اور قاصر الفہم یا کج رومعاندین کیلئے کافی ہے، لیکن اسی سطح کے نیچے، ان ہی مختصر الفاظ کی تہ میں روح کے متعلق وہ بصیرت افروز حقائق مستور ہیں جو بڑے سے بڑے عالی دماغ نکتہ رس فلسفی اور ایک عارف کامل کی راہ طلب و تحقیق کیلئے چراغ ہدایت کا کام دیتی ہیں۔
” روح “ کے متعلق عہد قدیم سے جو سلسلہ تحقیقات کا جاری ہے وہ آج تک ختم نہیں ہوا اور نہ شاید ہو سکے، روح کی اصلی کنہ و حقیقت تک پہنچنے کا دعویٰ تو بہت مشکل ہے، کیونکہ ابھی تک کتنی ہی محسوسات ہیں جن کی کنہ و حقیقت معلوم کرنے سے ہم عاجز رہے ہیں، تاہم میرے نزدیک آیات قرآنیہ سے روح کے متعلق چند نظریات پر صاف روشنی پڑتی ہے۔
روح قرآنی کے متعلق چند نظریات :
(1) انسان میں اس مادی جسم کے علاوہ کوئی اور چیز موجود ہے، جسے روح کہتے ہیں، وہ ” عالم امر “ کی چیز ہے اور خدا کے حکم سے فائض ہوتی ہے۔ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ (بنی اسرائیل) ، خَلَقَہٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ (آل عمران) ، ثُمَّ اَنْشَأنَاہُ خَلْقًا اٰخَرَ ، فَتَبَارَکَ اللہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ (المؤمنون) اِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَئٍ اِذَا اَرَدْنَاہُ اَنْ نقولَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ (نحل) ۔
(2) روح کی صفاتِ علم و شعور وغیرہ بتدریج کمال کو پہنچتی ہیں اور ارواح میں حصول کمال کے اعتبار سے بیحد تفاوت اور فرق مراتب ہے حتی کہ خدا تعالیٰ کی تربیت سے ایک روح ایسے بلند اور اعلیٰ مقام پر پہنچ جاتی ہے جہاں دوسری ارواح کی قطعاً رسائی نہ ہو سکے جیسے روح محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نسبت ہمارا اعتقاد ہے۔ محققین کہتے ہیں کہ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ میں امر کی اضافت رب کی طرف اور رب کی یاء متکلم کی طرف جس سے مراد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اس طرف مشیر ہے کیونکہ امام راغب (رح) تعالیٰ کی تصریح کے موافق رب اس ہستی کو کہتے ہیں جو کسی چیز کو بتدریج حدّ کمال تک پہنچائے جہاں تک پہنچنے کی اس میں استعداد پائی جاتی ہو، چناچہ دیکھ لو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اعلیٰ استعداد کے موافق اللہ نے آپکو حسیّ و معنوی حیثیت سے کس قدر بلند مقام پر پہنچایا، آپ کو علوم و معارف سے بھری ہوئی وہ کتاب مرحمت فرمائی جسکی نسبت ارشاد فرماتے ہیں۔ قُلِ لَّئِنِ اجْتَمعتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ ۔ (الآیۃ) ( سورة بنی اسرائیل) اور حسی طور پر آپ کو شب معراج میں سدرۃ المنتہیٰ سے بھی اوپر لے گئے جہاں تک کسی نبی یا فرشتے کو عروج میسر نہ ہوا تھا۔
(3) مگر روح کے یہ کمالات ذاتی نہیں، وہاب حقیقی کے عطا کئے ہوئے اور محدود ہیں چناچہ وَمَا اُوْتِیٌتُمٌ مِنَ الْعِلْمِ اِلاَّ قَلِیْلاً سے معلوم ہوا کہ علم کسی اور کا دیا ہوا ہے اور جو علم تم کو دیا گیا وہ سب، دینے والے کے علم کے سامنے نہایت قلیل اور محدود ہے، قُلْ لَوْ کَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّکَلِمَاتِ رَبِّیْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ یَمٗدُّہٗ مِنْ بَعْدِہٖ سَبْعَۃُ اَبْحُرٍ مَا نَفِدَتْ کَلِمَاتُ اللہِ (لقمان) اسی طرح آگے مشرکین کے قول لَنْ نُؤْمِنَ لَکَ حَتٰی تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْاَرضِ یَنْبُوْعًا کے جواب میں قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیْ ھَلْ کُنْتُ اِلاَّ بَشَرًا رَسُوْلاً ، فرمانا اس کی دلیل ہے کہ علم کی طرح بشر کی قدرت بھی بہر حال محدود و مستعار ہے۔
” خلق “ کیا ہے ؟ اس مثال سے یہ بات واضح ہوگئی کہ مشین کا ڈھانچہ تیار کرنا اس کے پرزوں کا ٹھیک انداز رکھنا، پھر فٹ کرنا ایک سلسلہ کے کام ہیں جس کی تکمیل کے بعد مشین کو چالو کرنے کے لئے ایک دوسری چیز بجلی یا اسٹیم اس کے خزانہ سے لانے کی ضرورت ہے اسی طرح سمجھ لو کہ حق تعالیٰ نے اول آسمان و زمین کی تمام مشینیں بنائیں جس کو ” خلق “ کہتے ہیں، ہر چھوٹا بڑا پرزہ ٹھیک اندازہ کے مطابق تیار کیا جس کو ” تقدیر “ کیا گیا ہے قَدَّرَہٗ تَقْدِیْرًا سب کل پرزوں کو جوڑ کر مشین کو فٹ کیا جسے ” تصویر “ اور ” تسویہ “ کہتے ہیں خَلَقْنٰکُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰکُمْ اور فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِیْہِ یہ سب افعال خلق کی مد میں تھے۔
” امر “ کیا ہے ؟ اب ضرورت تھی کہ جس مشین کو جس کام میں لگانا ہے، لگا دیا جائے مشین کو چالو کرنے کیلئے، ” امر الٰہی “ کی بجلی چھوڑ دی گئی شاید اس کا تعلق اسم باری سے ہے اَلْخَالِقُ الْبَارِئُ المُصَورُ وفی الحدیث فَلقَ الحَبَّۃَ وبَرأ النسمۃ وفی سورة الحدید مِنْ قَبْلِ اَنْ بَّبْرَأَھَا ای النفوس کما ھو مروی عن ابن عباس وقتادۃ والحسن۔
غرض ادھر سے حکم ہوا ” چل “ فوراً چلنے لگی، اسی ” امر الٰہی “ کو فرمایا اِنَّمَا اَمْرُہٗ اِذَا اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ دوسری جگہ نہایت وضاحت کے ساتھ امر کن کو خلق جسد پر مرتب کرتے ہوئے ارشاد ہوا خَلَقَہٗ مِنْ تُرَاب ثُمَّ قَالَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنَ بلکہ تتبع سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں ” کُنْ فَیَکُوْنُ “ کا مضمون جتنے مواضع میں آیا عموماً خلق اور ابداع کا ذکر کے بعد آیا ہے جس سے خیال گذرتا ہے کہ کلمہ ” کن “ کا خطاب ” خلق “ کے بعد تدبیر و تصرف وغیرہ کیلئے ہوتا ہوگا۔ (واللہ اعلم)
روح کا مبدأ صفت کلام ہے : بہرحال میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ” امر “ کے معنی یہاں حکم کے ہیں اور وہ حکم یہی ہے جسے لفظ ” کن “ سے تعبیر کیا گیا، اور کن جنس کلام سے ہے جو حق تعالیٰ کی صفت قدیمہ ہے جس طرح ہم اس کی تمام صفات (مثلاً حیات، سمع، بصر وغیرہ) کو بلا کیف تسلیم کرتے ہیں، کلام اللہ اور کلمۃ اللہ کے متعلق بھی یہی مسلک رکھنا چاہیے۔ خلاصہ یہ ہوا کہ ” روح “ کے ساتھ اکثر جگہ قرآن میں ” امر “ کا لفظ استعمال ہوا ہے مثلاً قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ ، وکَذَالِکَ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ رُوْحًا مِنْ اَمْرِنَا، یُلْقِی الرُّوْحَ مِنْ اَمْرِہٖ عَلیٰ مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ ، یُنَزِّکُ الْملٰئِکَۃَ بِالرُّوْحِ مِنْ اَمْرِہٖ عَلیٰ مَنْ یَّشَاءُ مِنْ عِبَادِہٖ اور پہلے گذر چکا کہ ” امر “ عبارت ہے کلمۂ کن سے یعنی وہ کلام انشائی جس سے مخلوقات کی تدبیر و تصریف اس طریقہ پر کی جائے جس سے غرض ایجاد وتکوین مرتب ہو، لہٰذا ثابت ہوا کہ روح کا مبدأ حق تعالیٰ کی صفت قدیم کلام ہے جو صفت علم وحیات کے ماتحت ہے، شاید اسی حیثیت کا لحاظ کرتے ہوئے نَفَخْتُ فِیْدِ مِنْ رُوْحِیْ میں اسے اپنی طرف منسوب کیا ہے، کیونکہ ” کلام “ اور ” امر “ کی نسبت متکلم و آمر سے صادر ومصدر کی ہوتی ہے مخلوق و خالق کی نہیں ہوتی، اسی لئے الا لَہُ الخَلْقُ وَالاَمْرُ میں امر کو خلق کے مقابل رکھا ہاں یہ امر ” کن “ باری تعالیٰ شانہٗ سے صادر ہو کر ممکن ہے کہ جو ہر مجرد کے لباس میں یا ایک ملک اکبر اور روح اعظم کی قدرت میں ظہور پکڑے جس کا ذکر بعض آثار میں ہوا ہے اور جسے کم کہربائیہ روحیہ کا خزانہ کہہ سکتے ہیں۔
گویا یہیں سے روح حیات کی لہریں دنیا کی ذوی الارواح پر تقسیم کی جاتی ہیں اور الَارْوَاحُ جُنُوْدٌ مُّجَنَّدَۃٌ الخ کے بیشمار تاروں کا یہیں سے کنکشن ہوتا ہے، اب جو کرنٹ چھوٹی بڑی مشینوں کی طرف چھوڑا جاتا ہے وہ ہر مشین سے اس کی بناوٹ اور استعداد کے موافق کام لیتا اور اسکی ساخت کے مناسب حرکت دیتا ہے، بلکہ جن لیمپوں اور قمقموں میں یہ بجلی پہنچتی ہے انہی کے مناسب رنگ وہیئت اختیار کرلیتی ہے۔
روح کا مبدأ صفت کلام ہے پھر وہ جو ہر مجردو جسم لطیف کیونکر بن گئی ؟ رہی یہ بات کہ ” کن “ (ہوجا) کا حکم جو قسم کلام ہے جو ہر مجرد جسم نورانی لطیف کی شکل کیونکہ اختیار کرسکتا ہے، اسے یوں سمجھ لو کہ تمام عقلاء اس پر متفق ہیں، کہ ہم خواب میں جو اشکال و صور دیکھتے ہیں بعض اوقات وہ محض ہمارے خیالات ہوتے ہیں جو دریا، پہاڑ، شیر، چیتے وغیرہ کی شکلوں میں نظر آتے ہیں۔
اب غور کرنے کا مقام ہے کہ خیالات جو اعراض ہیں اور دماغ کے ساتھ قائم ہیں، وہ جواہر و اجسام کیونکر بن گئے، اور کس طرح ان میں اجسام کے لوازم و خواص پیدا ہوگئے، یہاں تک کہ بعض مرتبہ خواب دیکھنے والے سے بیدار ہونے کے بعد بھی آثار و لوازم جدا نہیں ہوتے۔
خواب کی مثال سے مطلب کی تفہیم : فی الحقیقت خدا تعالیٰ نے ہر انسان کو خواب کے ذریعہ سے بڑی بھاری ہدایت کی ہے کہ جب ایک آدمی کی قوت مصورہ میں اس نے اد قدر طاقت رکھی ہے کہ وہ اپنی بساط کے موافق غیر مجسم خیالات کو جسمی سانچہ میں ڈھال لے اور ان میں وہی خواص و آثار باذن اللہ پیدا کرلے جو عالم بیداری میں اجسام سے وابستہ تھے، پھر تماشہ یہ ہے کہ وہ خیالات خواب دیکھنے والے کے دماغ سے ایک منٹ کو علیحدہ بھی نہیں ہوئے ان کا ذہنی وجود بدستور قائم ہے، تو کیا اس حقیر سے نمونہ کو دیکھ کر ہم اتنا نہیں سمجھ سکتے کہ ممکن ہے قادر مطلق اور مصور برحق جل و علا کا امر بےکیف (کن) باوجود صفت قائمہ بذاتہ تعالیٰ ہونے کے کسی ایک یا متعدد صورتوں میں جلوہ گر ہوجائے ان صورتوں کو ہم ارواح یا فرشتے یا کسی اور نام سے پکاریں۔
روح حادث ہے اور اس کا مبدأ (امرِ رب) قدیم ہے : وہ ارواح ملائکہ وغیرہ سب حادث ہوں اور امر الٰہی بحالہٖ قائم رہے، امکان و حدوث کے احکام و آثار ارواح وغیرہ تک محدود ہیں اور ” امر الٰہی “ ان سے پاک برتر ہو جیسے جو صورت خیالیہ بحالت خواب مثلاً آگ کی صورت میں نظر آتی ہے اس صورت ناریہ میں احراق، سوزش، گرمی وغیرہ سب آثار ہم محسوس کرتے ہیں، حالانکہ اسی آگ کا تصور سالہا سال بھی دماغوں میں رہے تو ہمیں ایک لمحہ کیلئے یہ آثار محسوس نہیں ہوتے۔
ظاہر اور مظہر کے احکام جُدا جدا ہیں : پس کوئی شبہ نہیں کہ روح انسانی (خواہ جو ہر مجرد ہو یا جسم لطیف نورانی) امر ربی کا مظہر ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ مظہر کے تمام احکام و آثار ظاہر پر جاری ہوں کما ہوا لظاہر واضح رہے کہ جو کچھ ہم نے لکھا اور جو مثالیں پیش کیں ان سے مقصود محض تسہیل و تقریب الی الفہم ہے ورنہ ایسی کوئی مثال دستیاب نہیں ہوسکتی جو ان حقائق غیبیہ پر پوری طرح منطبق ہو۔
روح جوہر مجرد ہے یا جسم لطیف ؟ رہا یہ مسئلہ روح جو ہر مجرد ہے جیسا کہ اکثر حکماء قدیم اور صوفیہ کا مذہب ہے یا جسم نورانی لطیف جیسا کہ جمہور اہلحدیث کی رائے ہے اس میں میرے نزدیک قول فیصل وہی ہے جو بقیۃ السلف بحر العلوم حضرت علامہ سید محمد انور شاہ صاحب (رح) تعالیٰ نے فرمایا کہ بالفاظِ عارف جامی (رح) تعالیٰ یہاں تین چیزیں ہیں۔
(1) وہ جواہر جن میں مادہ اور کمیت دونوں ہوں جیسے ہمارے ابدان مادیہ۔
(2) وہ جواہر جن میں مادہ نہیں صرف کمیت ہے جنہیں صوفیہ ” اجسام مثالیہ “ کہتے ہیں۔
(3) وہ جواہر جو مادہ اور کمیت دونوں سے خالی ہوں جن کو صوفیہ ” ارواح “ یا حکماء جواہر مجردو کے نام سے پکارتے ہیں۔
پس جمہور اہل شرع جس کو ” روح “ کہتے ہیں وہ صوفیہ کے نزدیک بدن مثالی سے موسوم ہے جو بدن مادی میں حلول کرتا ہے اور بدن مادی کی طرف آنکھ ناک ہاتھ پاؤں وغیرہ اعضاء رکھتا ہے۔
روح کا بدن سے جدا ہونا موت کو مستلزم نہیں : یہ روح بدن سے کبھی جدا ہوجاتی ہے اور اس جدائی کی حالت میں بھی ایک طرح کا مجہول الکیف علاقہ بدن کے ساتھ قائم رکھتی ہے جس سے بدن پر حالت موت طاری نہیں ہونے پاتی، گویا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے قول کے موافق جو بغوی نے اللہ یَتَوَفَّی حِیْنَ مَوْتِھَا وَالَّتِیْ کَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِھَا کی تفسیر میں نقل کیا ہے اس وقت روح خود علیحدہ رہتی ہے مگر اس کی شعاع جسد میں پہنچ کر بقاء حیات کا سبب بنتی ہے جیسے آفتاب لاکھوں میل سے بذریعہ شعاعوں کے زمین کو گرم رکھتا ہے یا جیسا کہ حال ہی میں فرانس کے محکمہ پرواز نے ہوا بازوں کے بغیر طیارے چلا کر خفیہ تجربے کئے ہیں اور تعجب خیز نتائج رونما ہوئے، اطلاع موصول ہوئی ہے کہ حال میں ایک خاص بم پھینکنے والا طیارہ بھیجا گیا تھا جس میں کوئی شخص سوا نہ تھا لیکن لاسلکی کے ذریعہ سے وہ منزل مقصود پر پہنچایا گیا، اس طیارہ میں بم بھر کر وہاں گرائے گئے اور پھر وہ مرکز میں واپس لایا گیا، دعویٰ کیا جاتا ہے کہ لاسلکی کے ذریعہ سے ہوائی جہاز نے خودبخود جو کام کیا وہ ایسا ہی مکمل ہے جیسا کہ ہوا باز کی مدد سے عمل میں آتا۔
آج کل یورپ میں جو سوسائٹیاں روض کی تحقیقات کر رہی ہیں انہوں نے بعض ایسے مشاہدات بیان کئے ہیں جن میں روح جسم سے علیحدہ تھی اور روح کی ٹانگ پر حملہ کرنے کا اثر جسم مادی کی ٹانگ پر ظاہر ہوا، بہرحال اہل شرع جو روح ثابت کرتے ہیں صوفیہ کو اسکا انکار نہیں بلکہ وہ اس کے اوپر ایک اور روح مجرد مانتے ہیں جس میں استحالہ نہیں بلکہ اس روح مجرد کی بھی اگر کوئی اور روح ہو اور آخر میں کثرت کا سارا سلسلہ سمٹ کر امر ربی کی وحدت پر مبنی ہوجائے تو انکار کی ضرورت نہیں۔
روح ہر چیز میں ہے اور ہر چیز کو ایک حیثیت سے زندہ یا مُر دہ کہہ سکتے ہیں : مذکورہ بالا تقریر سے یہ نکلتا ہے کہ ہر چیز میں جو ” کن “ کی مخاطب ہوئی روح حیات پائی جائے بیشک میں یہی سمجھتا ہوں کہ مخلوق کی ہر نوع کو اس کی استعداد کے موافق قوی یا ضعیف زندگی ملی ہے یعنی جس کام کیلئے وہ چیز پیدا کی گئی ڈھانچہ تیار کرکے اس کو حکم دینا ” کن “ (اس کام میں لگ جا) بس یہی اس کی روح حیات ہے، جبتک اور جس حد تک یہ اپنی غرض ایجاد کو پورا کریگی اسی حد تک زندہ سمجھی جائے گی، اور جس قدر اس سے بعید ہو کر معطل ہوتی جائے گی، اسی قدر موت سے نزدیک یا مردہ کہلائے گی۔ یہ مضمون بہت طویل اور محتاج بسط و تفصیل ہے، ہم نے اہل علم و فہم کیلئے اپنی بساط کے موافق کچھ اشارے کر دئیے ہیں، شاید قرآن مجید پر نکتہ چینی کرنے والے اصحاب اتنا سمجھ لیں کہ روح کے متعلق بھی قرآن حکیم میں وہ رموز و حقائق بیان ہوئے ہیں جن کا عشر عشیر دوسری آسمانی کتاب میں بیان نہیں ہوا۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم وھو الملھم للصواب۔ (خطبات عثمانی ملخصا)
فائدۂ جلیلہ : امام بغوی نے اس مقام پر حضرت عبد اللہ بن عباس سے ایک مفصل روایت اس طرح نقل فرمائی ہے کہ یہ آیت مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی جبکہ مکہ کے قریشی سرداروں نے جمع ہو کر مشورہ کیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے اندر پیدا ہوئے اور جواب ہوئے ان کی امانت و دیانت اور سچائی میں کبھی کسی کو شبہ نہیں ہوا اور کبھی ان کے متعلق جھوٹ بولنے کی تہمت بھی کسی نے نہیں لگائی اور اس کے باوجود اب جو دعوائے نبوت وہ کر رہے ہیں وہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا، اس لئے ایسا کرو کہ اپنا ایک وفد مدینہ کے علماء یہود کے پاس بھیج کر ان سے ان کے بارے میں تحقیقات کرو چناچہ قریش کا ایک وفد علماء یہود کے پاس مدینہ پہنچا، علماء یہود نے ان کو مشورہ دیا کہ تمہیں تین چیزیں بتلاتے ہیں تم ان سے ان تینوں کا سوال کرو اگر انہوں نے تینوں کا جواب دیدیا تو وہ نبی نہیں اسی طرح اگر تینوں میں سے کسی کا جواب نہ دیا تو بھی نبی نہیں، اور اگر دو کا جواب دیا اور تیسری کا نہ دیا تو سمجھ لو کہ وہ نبی ہیں اور وہ تین سوال یہ بتلائے ایکؔ تو تم ان سے ان لوگوں کا حال معلوم کرو جو قدیم زمانہ میں شرک سے بچنے کیلئے کسی غار میں چھپ گئے تھے کیونکہ ان کا واقعہ عجیب ہے، دوسرےؔ اس شخص کا حال معلوم کرو جس نے زمین کے مشرق و مغرب کا سفر طے کیا کہ اس کا کیا واقعہ ہے، تیسرےؔ روح کے متعلق سوال کرو کہ اس کی حقیقت کیا ہے ؟ یہ وفد آپ کی خدمت میں واپس آیا اور مذکورہ تینوں سوال آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے پیش کر دئیے، آپ نے فرمایا کہ میں ان کا جواب کل دوں گا مگر اس پر انشاء اللہ نہیں کہا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چند روز تک وحی کا سلسلہ بند ہوگیا بارہ پندرہ سے لے کر چالیس دن کی روایات ہیں جن میں سلسلہ وحی بند رہا، قریش مکہ کو طعن وتشنیع کا موقع ملا، کہ کل جواب دینے کو کہا تھا آج اتنے دن گذر گئے جواب نہیں ملا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیلئے بھی پریشانی ہوئی پھر حضرت جبرئیل امین یہ آیت لے کر نازل ہوئے ” ولا تقولنَّ لشئٍ انی فاعل ذلک غدًا الا ان یشاء اللہ “ جس میں آپ کو یہ تلقین کی گئی کہ آئندہ کسی کام کے کرنے کا وعدہ کیا جائے تو انشاء اللہ کہہ کر کیا جائے اور اس کے بعد روح کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی جو اوپر گذر چکی ہے اور غار میں چھپنے والوں کے متعلق اصحاب کہف کا واقعہ اور مشرق سے مغرب تک سفر کرنے والے ذوالقرنین کا واقعہ پوری تفصیل کے ساتھ جواب میں بیان فرمایا گیا اور روح کے متعلق جو حقیقت کا سوال تھا اس کا جواب نہیں دیا گیا، جس سے یہود کی بتلائی ہوئی علامت صدق نبوت کی ظاہر ہوگئی، اس واقعہ کو ترمذی نے مختصراً بیان کیا ہے۔ (مظہری)
بےسروپا معاندانہ سوالات کا پیغمبر انہ جواب : وقالوا کن نؤمن۔۔۔۔ ینبوعًا، آیات مذکورہ میں جو سوالات اور فرمائشیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنے ایمان لانے کی شرط قرار دیکر کی گئیں وہ سب ایسی ہیں کہ ہر انسان ان کو سنکر ایک قسم کا تمسخر اور ایمان نہ لانے کے بیہودہ بہانے کے سوا کچھ نہیں سمجھ سکتا، ایسے سوالات کے جواب میں انسان کو فطرۃً غصہ آتا ہے اور جواب بھی اسی انداز کا دیتا ہے مگر ان آیات میں ان کے بیہودہ سوالات کا جو جواب حق تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تلقین فرمایا وہ قابل نظر اور مصلحین امت کے لئے ہمیشہ یادگار اور لائحہ عمل بنانے کی چیز ہے کہ ان سب کے جواب میں نہ ان کی بےوقوفی کا اظہار کیا گیا نہ ان کی معاندانہ شرارت کا، نہ ان پر کوئی فقرہ کسا گیا، بلکہ نہایت سادہ الفاظ میں اصل حقیقت کو واضح کردیا گیا کہ تم لوگ شاید یہ سمجھتے ہو کہ جو شخص خدا کا رسول ہو کر آئے وہ سارے خدائی اختیارات کا مالک اور ہر چیز پر قادر ہونا چاہیے یہ تخیل غلط ہے، اور رسول کا کام صرف اللہ کا پیغام پہنچانا ہے، اللہ تعالیٰ ان کی رسالت کو ثابت کرنے کیلئے بہت سے معجزات بھی بھیجتے ہیں مگر وہ سب کچھ محض اللہ کی قدرت و اختیار سے ہوتا ہے، رسول تو ایک انسان ہی ہوتا ہے اور انسانی قوت وقدرت سے باہر نہیں ہوتا الا یہ کہ اللہ تعالیٰ ہی اس کی امداد کیلئے اپنی قوت قاہرہ کو ظاہر کر دے۔
10 Tafsir as-Saadi
یہ آیت کریمہ ایسے لوگوں کو باز رکھنے کو متضمن ہے جو ایسے سوالات پوچھتے ہیں جن سے ان کا مقصد محض تعنت اور مسئول کو لاجواب کرنا ہوتا ہے۔ درآنحالیکہ وہ اہم امور کے بارے میں سوال نہیں کرتے۔ پس وہ روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں جس کا تعلق مخفی امور سے ہے۔ کوئی شخص بھی روح کا وصف اور اس کی کیفیت بیان نہیں کرسکتا اور ان کی حالت یہ ہے کہ وہ اس علم میں بھی قاصر ہیں جس کے وہ محتاج ہیں اس لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرمایا کہ وہ ان کے سوال کا یہ جواب دیں۔ ﴿قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّ﴾ ” کہہ دیجیے ! روح میرے رب کے امر سے ہے“ یعنی من جملہ مخلوقات سے ہے جن کے بارے میں میرے رب نے حکم دیا کہ ”ہوجاؤ“ اور وہ وجود میں آگئیں، لہٰذا ان کے بارے میں سوال کرنا تمہارے لیے کوئی زیادہ فائدہ مند نہیں جبکہ ان کے علاوہ دیگر امور میں بھی تمہارا علم معدوم ہے۔ اس آیت مقدسہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ جب مسؤل سے کسی معاملے میں سوال کیا جائے تو اس کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ ( لایعنی) سوال کا جواب دینے سے گریز کرے جو سائل نے پوچھا ہے اور اس امر میں اس کی راہنمائی کرے جس کا وہ محتاج ہے اور جو اس کے لیے فائدہ مند ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur ( aey payghumber ! ) yeh log tum say rooh kay baaray mein poochtay hain . keh do kay : rooh meray perwerdigar kay hukum say ( bani ) hai . aur tumhen jo ilm diya gaya hai , woh bus thora hi saa ilm hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
بخاری وغیرہ میں حضرت ابن مسعود (رض) سے مروی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینے کے کھیتوں میں جا رہے تھے آپ کے ہاتھ میں لکڑی تھی میں آپ کے ہمراہ تھا۔ یہودیوں کے ایک گروہ نے آپ کو دیکھ کر آپس میں کانا پھوسی شروع کی کہ آؤ ان سے روح کی بابت سوال کریں۔ کوئی کہنے لگا اچھا، کسی نے کہا مت پوچھو۔ کوئی کہنے لگے تمہیں اس سے کیا نتیجہ کوئی کہنے لگا شاید کوئی جواب ایسا دیں جو تمہارے خلاف ہو۔ جانے دو نہ پوچھو۔ آخر وہ آئے اور حضرت سے سوال کیا اور آپ اپنی لکڑی پر ٹیک لگا کر ٹھہر گئے میں سمجھ گیا کہ وحی اتر رہی ہے خاموش کھڑا رہ گیا اس کے بعد آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی۔ اس سے تو بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت مدنی ہے حالانکہ پوری سورت مکی ہے لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مکہ کی اتری ہوئی آیت سے ہی اس موقعہ پر مدینے کے یہودیوں کو جواب دینے کی وحی ہوئی ہو یا یہ کہ دوبارہ یہی آیت نازل ہوئی ہو۔
مسند احمد کی روایت سے بھی اس آیت کا مکہ میں اترنا ہی معلوم ہوتا ہے۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ قرشیوں نے یہودیوں سے درخواست کی کوئی مشکل سوال بتاؤ کہ ہم ان سے پوچھیں انہوں نے سوال سجھایا۔ اس کے جواب میں یہ آیت اتری تو یہ سرکش کہنے لگے ہمیں بڑا علم ہے تورات ہمیں ملی ہے اور جس کے پاس تورات ہو اسے بہت سی بھلائی مل گئی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ آیت ( قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمٰتِ رَبِّيْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ كَلِمٰتُ رَبِّيْ وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهٖ مَدَدًا\010\09 ) 18 ۔ الكهف :109) یعنی اگر تمام سمندروں کی سیاہی بن جائے اور اس سے کلمات الہٰی لکھنے شروع کئے جائیں تو یہ روشنائی سب خشک ہوجائے گی اور اللہ کے کلمات باقی رہ جائیں گے تو پھر تم اس کی مدد میں ایسے ہی اور بھی لاؤ۔ عکرمہ نے یہودیوں کے سوال پر اس آیت کا اترنا اور ان کے اس مکروہ قول پر دوسری آیت ( وَلَوْ اَنَّ مَا فِي الْاَرْضِ مِنْ شَجَـرَةٍ اَقْلَامٌ وَّالْبَحْرُ يَمُدُّهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ سَبْعَةُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ كَلِمٰتُ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ 27) 31 ۔ لقمان :27) ، کا بیان فرمایا ہے یعنی روئے زمین کے درختوں کی قلمین اور روئے زمین کے سمندروں کی روشنائی اور ان کے ساتھ ہی ساتھ ایسے ہی اور سمندر بھی ہوں جب بھی اللہ کے علم کے مقابلہ میں بہت تھوڑی چیز ہے۔ امام محمد بن اسحاق رحمۃ اللہ عیہ نے ذکر کیا ہے کہ مکہ میں یہ آیت اتری کہ تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔ جب آپ ہجرت کر کے مدینہ پہنچے تو مدینے کے علماء یہود آپ کے پاس آئے اور کہنے لگے ہم نے سنا ہے آپ یوں کہتے ہیں کہ تمہیں تو بہت ہی کم عطا فرمایا گیا ہے اس سے مراد آپ کی قوم ہے یا ہم ؟ آپ نے فرمایا تم بھی اور وہ بھی۔ انہوں نے کہا سنو خود قرآن میں پڑھتے ہو کہ ہم کو توراۃ ملی ہے اور یہ بھی قرآن میں ہے کہ اس میں ہر چیز کا بیان ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا علم الہٰی کے مقابلے میں یہ بھی کم ہے۔ ہاں بیشک تمہیں اللہ نے اتنا علم دے رکھا ہے کہ اگر تم اس پر عمل کرو تو تمہیں بہت کچھ نفع ملے اور یہ آیت اتری ( وَلَوْ اَنَّ مَا فِي الْاَرْضِ مِنْ شَجَـرَةٍ اَقْلَامٌ وَّالْبَحْرُ يَمُدُّهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ سَبْعَةُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ كَلِمٰتُ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ 27) 31 ۔ لقمان :27) ۔ حضرت ابن عباس (رض) سے منقول ہے کہ یہودیوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روح کی بابت سوال کیا کہ اسی جسم کے ساتھ عذاب کیوں ہوتا ہے ؟ وہ تو اللہ کی طرف سے ہے چونکہ اس بارے میں کوئی آیت وحی آپ پر نہیں اتری تھی آپنے انہیں کچھ نہ فرمایا اسی وقت آپ کے پاس حضرت جبرائیل (علیہ السلام) آئے اور یہ آیت اتری یہ سن کر یہودیوں نے کہا آپ کو اس کی خبر کس نے دی ؟ آپ نے فرمایا جبرائیل اللہ کی طرف سے یہ فرمان لائے وہ کہنے لگے وہ تو ہمارا دشمن ہے اس پر آیت ( قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيْلَ فَاِنَّهٗ نَزَّلَهٗ عَلٰي قَلْبِكَ بِاِذْنِ اللّٰهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَھُدًى وَّبُشْرٰى لِلْمُؤْمِنِيْنَ 97) 2 ۔ البقرة :97) نازل ہوئی یعنی جبرائیل کے دشمن کا دشمن اللہ ہے اور ایسا شخص کافر ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ یہاں روح سے مراد حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہیں ایک قول یہ بھی ہے کہ مراد ایک ایسا عظیم الشان فرشتہ ہے جو تمام مخلوق کے برابر ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کا ایک فرشتہ ایسا بھی ہے کہ اگر اس سے ساتوں زمینوں اور ساتوں آسمانوں کو ایک لقمہ بنانے کو کہا جائے تو وہ بنا لے۔ اس کی تسبیح یہ ہے سبحانک حیث کنت اے اللہ تو پاک ہے جہاں بھی ہے۔ یہ حدیث غریب ہے بلکہ منکر ہے۔ حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ یہ ایک فرشتہ ہے جس کے ستر ہزار منہ ہیں اور ہر منہ میں ستر ہزار زبانیں ہیں اور ہر زبان پر ستر ہزار لغت ہیں وہ ان تمام زبانوں سے ہر بولی میں اللہ کی تسبیح کرتا ہے۔ اس کی ہر ایک تسبیح سے اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ پیدا کرتا ہے جو اور فرشتوں کے ساتھ اللہ کی عبادت میں قیامت تک اڑتا رہتا ہے۔ یہ اثر بھی عجیب و غریب ہے۔ واللہ اعلم۔
سہیلی کی روایت میں تو ہے کہ اس کے ایک لاکھ سر ہیں۔ اور ہر سر میں ایک لاکھ منہ ہیں اور ہر منہ میں ایک لاکھ زبانیں ہیں جن سے مختلف بولیوں میں وہ اللہ کی پاکی بیان کرتا رہتا ہے۔ یہ بھی کہا گاہے کہ مراد اس سے فرشتوں کی وہ جماعت ہے جو انسانی صورت پر ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ وہ فرشتے ہیں کہ اور فرشتوں کو تو وہ دیکھتے ہیں لیکن اور فرشتے انہیں نہیں دیکھتے پس وہ فرشتوں کے لئے ایسے ہی ہیں جیسے ہمارے لئے یہ فرشتے۔ پھر فرماتا ہے کہ انہیں جواب دے کہ روح امر ربی ہے یعنی اس کی شان سے ہے اس کا علم صرف اسی کو ہے تم میں سے کسی کو نہیں تمہیں جو علم ہے وہ اللہ ہی کا دیا ہوا ہے پس وہ بہت ہی کم ہے مخلوق کو صرف وہی معلوم ہے جو اس نے انہیں معلوم کرایا ہے۔ خضر (علیہ السلام) اور موسیٰ (علیہ السلام) کے قصے میں آ رہا ہے کہ جب یہ دونوں بزرگ کشتی پر سوار ہو رہے تھے اس وقت ایک چڑیا کشتی کے تختے پر بیٹھ کر اپنی چونچ پانی میں ڈبو کر اڑ گئی تو جناب خضر نے فرمایا اے موسیٰ میرا اور تیرا اور تمام مخلوق کا علم اللہ کے علم کے سامنے ایسا اور اتنا ہی ہے جتنا یہ چڑیا اس سمندر سے لے اڑی۔ (او کما قال) بقول سہیلی
بعض لوگ کہتے ہیں کہ انہیں ان کے سوال کا جواب نہیں دیا کیونکہ ان کا سوال ضد کرنے اور نہ ماننے کے طور پر تھا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جواب ہوگیا۔ مراد یہ ہے کہ روح شریعت الہٰی میں سے ہے تمہیں اس میں نہ جانا چاہے تم جان رہے ہو کہ اس کے پہچاننے کی کوئی طبعی اور علمی راہ نہیں بلکہ وہ شریعت کی جہت سے ہے پس تم شریعت کو قبول کرلو لیکن ہمیں تو یہ طریقہ خطرے سے خالی نظر نہیں آتا واللہ اعلم۔ پھر سہیلی نے اختلاف علماء بیان کیا ہے کہ روح نفس ہی ہے یا اس کے سوا۔ اور اس بات کو ثابت کیا ہے روح جسم میں مثل ہوا کے جاری ہے اور نہایت لطیف چیز ہے جیسے کہ درختوں کی رگوں میں پانی چڑھتا ہے اور فرشتہ جو روح ماں کے پیٹ میں بچے میں پھونکتا ہے وہ جسم کے ساتھ ملتے ہی نفس بن جاتی ہے اور جسم کی مدد سے وہ اچھی بری صفتیں اپنے اندر حاصل کرلیتی ہے یا تو ذکر اللہ کے ساتھ مطمئن ہونے والی ہوجاتی ہے یا برائیوں کا حکم کرنے والی بن جاتی ہے مثلا پانی درخت کی حیات ہے اس کے درخت سے ملنے کے باعث وہ ایک خاص بات اپنے اندر پیدا کرلیتا ہے مثلا انگور پیدا ہوئے پھر ان کا پانی نکالا گیا یا شراب بنائی گئی پس وہ اصلی پانی اب جس صورت میں آیا اسے اصلی پانی نہیں کہا جاسکتا۔ اسی طرح اب جسم کے اتصال کے بعد روح کو اعلیٰ روح نہیں کہا جاسکتا اسی طرح اسے نفس اس سے اور اس کے بدن کے ساتھ کے اتصال سے مرکب ہے۔ پس روح نفس ہے لیکن ایک وجہ سے نہ کہ تمام وجوہ سے۔ بات تو یہ دل کو لگتی ہے لیکن حقیقت کا علم اللہ ہی کو ہے۔ لوگوں نے اس بارے میں بہت کچھ کہا ہے اور بڑی بڑی مستقل کتابیں اس پر لکھی ہیں۔ اس مضمون پر بہترین کتاب حافظ ابن مندہ کی کتاب الروح ہے۔