الکہف آية ۱
اَ لْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِىْۤ اَنْزَلَ عَلٰى عَبْدِهِ الْكِتٰبَ وَلَمْ يَجْعَلْ لَّهٗ عِوَجًا ٚ
طاہر القادری:
تمام تعریفیں اﷲ ہی کے لئے ہیں جس نے اپنے (محبوب و مقرّب) بندے پر کتابِ (عظیم) نازل فرمائی اور اس میں کوئی کجی نہ رکھی،
English Sahih:
[All] praise is [due] to Allah, who has sent down upon His Servant [Muhammad (r)] the Book and has not made therein any deviance.
1 Abul A'ala Maududi
تعریف اللہ کے لئے ہے جس نے اپنے بندے پر یہ کتاب نازل کی اور اس میں کوئی ٹیڑھ نہ رکھی
2 Ahmed Raza Khan
سب خوبیاں اللہ کو جس نے اپنے بندے پر کتاب اتاری اور اس میں اصلاً (بالکل، ذرا بھی) کجی نہ رکھی،
3 Ahmed Ali
سب تعریف الله کے لیے جس نے اپنے بندہ پر کتاب اتاری اور اس میں ذرا بھی کجی نہیں رکھی
4 Ahsanul Bayan
تمام تعریفیں اسی اللہ کے لئے سزاوار ہیں جس نے اپنے بندے پر یہ قرآن اتارا اور اس میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی (١)۔
کہف کے معنی غار کے ہیں۔ اس میں اصحاب کہف کا واقعہ بیان کیا گیا ہے، اس لئے اسے سورہ کہف کہا جاتا ہے۔ اس کی ابتدائی دس آیات اور آخری دس آیات کی فضیلت حدیث میں بیان کی گئی ہے کہ جو ان کو یاد کرے اور پڑھے گا وہ فتنہ دجال سے محفوظ رہے گا (صحیح مسلم) اور اس کی تلاوت جمعہ کے دن کرے گا تو آئندہ جمعے تک اس کے لئے خاص نور کی روشنی رہے گی، اور اس کے پڑھنے سے گھر میں سکون و برکت نازل ہوتی ہے۔ ایک مرتبہ ایک صحابی نے سورہ کہف پڑھی گھر میں ایک جانور بھی تھا، وہ بدکنا شروع ہوگیا، انہوں نے غور سے دیکھا کہ کیا بات ہے؟ تو انہیں ایک بادل نظر آیا، جس نے انہیں ڈھانپ رکھا تھا، صحابی نے اس واقعہ کا ذکر جب نبی سے کیا، تو آپ نے فرمایا، اسے پڑھا کرو۔ قرآن پڑھتے وقت سکینۃ نازل ہوتی ہے (صحیح بخاری)
١۔١ یا کوئی کجی اور راہ اعتدال سے انحراف اس میں نہیں رکھا بلکہ اسے قیم یعنی سیدھا رکھا۔ یا قیم کے معنی، بندوں کے دینی و دنیاوی مصالح کی رعایت و حفاظت کرنے والی کتاب۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
سب تعریف خدا ہی کو ہے جس نے اپنے بندے (محمدﷺ) پر (یہ) کتاب نازل کی اور اس میں کسی طرح کی کجی (اور پیچیدگی) نہ رکھی
6 Muhammad Junagarhi
تمام تعریفیں اسی اللہ کے لئے سزاوار ہیں جس نے اپنے بندے پر یہ قرآن اتارا اور اس میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی
7 Muhammad Hussain Najafi
ہر قسم کی تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس نے اپنے بندہ (خاص) پر کتاب نازل کی اور اس میں کسی طرح کی کوئی کمی نہیں رکھی۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ساری حمد اس خدا کے لئے ہے جس نے اپنے بندے پر کتاب نازل کی ہے اور اس میں کسی طرح کی کجی نہیں رکھی ہے
9 Tafsir Jalalayn
سب تعریف خدا ہی کو ہے جس نے اپنے بندے (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر (یہ) کتاب نازل کی اور اس میں کسی طرح کی کجی اور پیچیدگی نہ رکھی۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سُورۃُ الکَھْفِ مکِّیَّۃ اِلاَّوَاصْبِرْ نَفْسَکَ الآیۃ مائۃ وعشر آیاتاو خمس عشرۃ آیۃ
سورة کہف مکی ہے، سوائے وَاصْبِرْ نفْسَکَ (الآیہ) کے ایک سو دس یا ایک سو پندرہ آیات ہیں
آیت نمبر 1
ترجمہ : میں شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے، حمد صفات کمالیہ بیان کرنے کو کہتے ہیں، ہر قسم کی حمد اللہ تعالیٰ کے لئے ثابت ہے، اَیا جملہ خبریہ کے استعمال سے ثبوت حمد پر ایمان کی خبر دینا مقصود ہے یا (انشاء) ثناء مقصود ہے یا دونوں مقصود ہیں یہ کل تین احتمالات ہیں، ان میں تیسرا احتمال زیادہ مفید ہے جس نے اپنے بندے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کتاب قرآن نازل فرمائی اور اس میں کسی قسم کی کجی یعنی لفظی اختلاف اور معنوی تناقض نہیں رکھا، اور جملہ لَمْ یَجْعَلْ لَہٗ ، کتابٌ سے حال ہے۔
تحقیق، ترکیب وتفسیری فوائد
عِوَجٌ بالکسر فساد فی المعانی اور بالفتح فساد فی الاجسام یعنی َعَوَج ایسی کجی جو جوارح سے محسوس ہو، اور عِوَج ایسی کجی جو عقل سے محسوس ہو، مگر یہ قاعدہ اکثری ہے کلیہ نہیں۔
وَھَل المراد الاعلامُ بذلک اس سوالیہ جملہ سے شارح علام کا مقصد یہ بتانا ہے کہ جملہ خبریہ کے ذریعہ جو ثبوت حمد کی خبر دی گئی ہے اس سے تین مرادیں ہوسکتی ہیں (1) یا تو اس بات کی خبر دینا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اوصاف کمالیہ ازلی وابدی ہیں، اس صورت میں جملہ لفظاً اور معناً خبریہ ہوگا، اور خبر دینے کے لئے ثابت محذوف نکال کر جملہ اسمیہ اختیار کرنے مقصد اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بندوں کے لئے ضروری ہے کہ خداوند قدوس کے لئے کمالات کے ازلی وابدی ہونے کا اعتقاد رکھیں (2) یا مقصد انشاء حمد ہے اسی کو مفسر علام نے او الثناء بہ سے تعبیر کیا ہے، اس صورت میں جملہ لفظاً خبریہ اور معناً انشائیہ ہوگا، گویا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اَحْمدُ واُنثی حمدًا لِنَفْسِیْ لعجز خلقی من کنہ حمدی (3) یا دونوں مقصود ہیں اس کی طرف اپنے قول اوھما سے اشارہ فرمایا ہے، یعنی اخبار حمد اور انشاء حمد دونوں مقصود ہوں گے، اس صورت میں جملہ کا استعمال خبر اور انشاء دونوں میں ہوگا، اور یہ حقیقت ومجاز کے اجتماع کے طور پر ہوگا، مگر خبر میں حقیقت اور انشاء میں مجاز ہوگا، اور مقصد ثبوت حمد پر ایمان کی خبر دینا اور انشاء حمد کرنا ہوگا۔
اَفْیَدُھَا ثالث شارح علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ مذکورہ تینوں صورتوں میں تیسری صورت زیادہ مفید اور بہتر ہے، اس لئے کہ اس صورت میں اخبار اور انشاء دونوں مقصود بالذات ہوجاتے ہیں، بخلاف پہلی دونوں صورتوں کے کہ ان میں ایک مقصود بالذات اور دوسرا مقصود بالتبع ہوتا ہے، اگر تو اعتراض کرے کہ انشاءِ ثناء اخبار بالثناء کو مستلزم ہے، بایں طور کہ انشاء حمد کرنے والا بھی حمد کرنے والا ہوتا ہے، تو اس کا جواب یہ ہوگا کہ مقصود بالذات اور مقصود بالتبع میں فرق ہوتا ہے، مثلاً اگر جملہ کو فقط خبریہ قرار دیا جائے تو اس صورت میں اخبار بالحمد قصداً ہوگی مگر انشاء ثناء تبعاً ہوگی اور اگر جملہ کو فقط انشائیہ قرار دیا جائے تو اس صورت میں انشاء حمد تو قصداً ہوگی مگر اخبار بالحمد ضمناً اور تبعاً ہوگی، اور اگر دونوں یعنی جملہ خبریہ اور انشائیہ قرار دیا جائے تو اخبار اور انشاء دونوں قصداً ہوں گے قولہ اَلّذِیْ اَنْزَلَ (الآیہ) ثبوت حمد کے لئے علت کے قائم مقام ہے اس لئے کہ موصول، صلہ سے مل کر جب صفت واقع ہو اور صلہ مشتق ہو تو ایسی صفت موصوف کے لئے ثبوت حکم کی علت ہوا کرتی ہے، اسی قاعدہ کے مطابق الذی انزَلَ ، الحمد ثابت للہ کے لئے علت ہوگی، یعنی اللہ تعالیٰ کے لئے حمد اس لئے ہے کہ اس نے قرآن نازل فرمایا۔
الحمد کے بعد ھو الوصف بالجمیل کے اضافہ کا مقصد حمد کے معنی کو بیان کرنا ہے اور ثابت مقدر مان کر یہ بتانا ہے کہ الحمد مبتداء ہے اور للہ ثابت مقدر کے متعلق ہو کر مبتدا کی خبر ہے۔
سوال : ثَبَتَ کے بعد بجائے ثابت اسم فاعل کا صیغہ محذوف ماننے میں کیا فائدہ ہے ؟
جواب : ثابت اسم فاعل استمرار اور دوام پر دلالت کرتا ہے اس سے اشارہ کردیا کہ باری تعالیٰ کے لئے ثبوت حمد دائمی اور ازلی ہے، بخلاف ثَبَتَ کے کہ یہ تجدد اور حدوث پر دلالت کرتا ہے قولہ تناقضاً حذف مضاف کے ساتھ اختلافاً کی صفت ہے تقدیر عبارت یہ ہے اختلافاً ذَا تناقضٍ ، لہ کی تفسیر فیہ سے کر کے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ لام بمعنی فی ہے۔
تفسیر وتشریح
سورة کہف کے فضائل : اس سورت کے پڑھنے سے گھر میں سکینت و برکت نازل ہوتی ہے، ایک مرتبہ ایک صحابی نے سورة کہف پڑھی گھر میں ایک جانور بھی تھا وہ بدکنا شروع ہوگیا اور کودنے لگا، تو انہوں نے غور سے دیکھا کہ کیا بات ہے ؟ تو انہیں ایک بادل نظر آیا جس نے انہیں ڈھانپ رکھا تھا، صحابی مذکورہ نے اس واقعہ کا ذکر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اسے پڑھا کرو، اس کے پڑھتے وقت سکینت نازل ہوتی ہے۔ (صحیح بخاری فضل سورة الکہف)
تمام تعریفیں اسی اللہ کے لئے سزاوار ہیں جس نے اپنے بندے پر یہ قرآن نازل کیا اور اس میں کسی قسم کی کمی باقی نہ چھوڑی۔
10 Tafsir as-Saadi
حمد سے مراد اللہ تعالیٰ کی صفات کے ذریعے سے، جو کہ صفت کمال ہیں، نیز اللہ تعالیٰ کی ظاہری و باطنی اور دینی و دنیاوی نعمتوں کے اظہار و اعتراف کے ذریعے سے اس کی ثنا بیان کرنا۔۔۔۔ اور علی الاطلاق اللہ تعالیٰ کی جلیل ترین نعمت اپنے بندے اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل کرنا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے خود اپنی حمد بیان کی اور اس ضمن میں بندوں کے لیے اس امر کی طرف راہنمائی ہے کہ وہ اس بات پر اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا بیان کریں کہ اس نے ان کی طرف اپنا رسول بھیجا اور کتاب نازل کی، پھر اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کی دو خوبیاں بیان فرمائیں جو اس بات پر مشتمل ہیں کہ یہ کتاب ہر لحاظ سے کامل ہے۔ یہ دو صفات مندرجہ ذیل ہیں۔
(1) اس کتاب عظیم سے کجی کی نفی۔
(2) اس بات کا اثبات کہ یہ کتاب کجی دور کرنے والی اور راہ راست پر مشتمل ہے۔
کجی کی نفی اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ کتاب میں کوئی جھوٹی خبر ہو نہ اس کے اوامر نواہی میں ظلم کا کوئی پہلو ہو اور نہ کوئی عبث بات ہو۔
11 Mufti Taqi Usmani
tamam tareefen Allah ki hain jiss ney apney banday per kitab nazil ki , aur uss mein kissi qisam ki koi khaami nahi rakhi ,
12 Tafsir Ibn Kathir
مستحق تعریف قرآن مجید
ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ اللہ ہر امر کے شروع اور اس کے خاتمے پر اپنی تعریف و حمد کرتا ہے ہر حال میں وہ قابل حمد اور لائق ثنا اور سزاوار تعریف ہے اول آخر مستحق حمد فقط اسی کی ذات والا صفات ہم اس نے اپنے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن کریم نازل فرمایا جو اس کتاب کو ٹھیک ٹھاک اور سیدھا اور راست رکھا ہے جس میں کوئی کجی کوئی کسر کوئی کمی نہیں صراط مستقیم کی رہبر واضح جلی صاف اور واضح ہے۔ بدکاروں کو ڈرانے والی، نیک کاروں کو خوشخبریاں سنانے والی، معتدل، سیدھی، مخالفوں منکروں کو خوفناک عذابوں کی خبر دینے والی یہ کتاب ہے۔ جو عذاب اللہ کی طرف کے ہیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ایسے عذاب کہ نہ اس کے سے عذاب کسی کے نہ اس کی سی پکڑ کسی کی۔ ہاں جو اس پر یقین کرے ایمان لائے نیک عمل کرے اسے یہ کتاب اجر عظیم کی خوشی سناتی ہے۔ جس ثواب کو پائندگی اور دوام ہے وہ جنت انہیں ملے گی جس میں کبھی فنا نہیں جس کی نعمتیں غیر فانی ہیں۔ اور انہیں بھی یہ عذابوں سے آگاہ کرتا ہے جو اللہ کی اولاد ٹھیراتے ہیں جیسے مشرکین مکہ کہ وہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں بتاتے تھے۔
مشرکین کے سوالات
بے علمی اور جہالت کے ساتھ منہ سے بول پڑتے ہیں یہ تو یہ ان کے بڑے بھی ایسی باتیں بےعلمی سے کہتے رہے کلمۃ کا نصب تمیز کی بنا پر ہے تقدیر عبارت اس طرح ہے کبرت کلمتہم ھذہ کلمۃ اور کہا گیا ہے کہ یہ تعجب کے طور پر ہے۔ تقدیر عبارتیہ ہے اعظم بکلمتہم کلمۃ جیسے کہا جاتا ہے اکرم بزید رجلا بعض بصریوں کا یہی قول ہے۔ مکہ کے بعض قاریوں نے اسے کلمتہ پڑھا جیسے ہے کہا جاتا ہے عظم قولک وکبر شانک جمہور کی قرأت پر تو معنی بالکل ظاہر ہیں کہ ان کے اس کلمے کی برائی اور اس کا نہایت ہی برا ہونا بیان ہو رہا ہے جو محض بےدلیل ہے صرف کذب و افترا ہے اسی لئے فرمایا کہ محض جھوٹ بکتے ہیں اس سورت کا شان نزول یہ بیان ہوگیا ہے کہ قریشیوں نے نضر بن حارث اور عقبہ بن ابو محیط کو مدینے کے یہودی علماء کے پاس بھیجا کہ تم جا کر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بابت کل حالات ان سے بیان کرو ان کے پاس اگلے انبیاء کا علم ہے ان سے پوچھو ان کی بابت کیا رائے ہے ؟ یہ دونوں مدینے گئے احبار مدینہ سے ملے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حالات و اوصاف بیان کئے آپ کی تعلیم کا ذکر کیا اور کہا کہ تم ذی علم ہو بتاؤ ان کی نسبت کیا خیال ہے ؟ انہوں نے کہا دیکھو ہم تمہیں ایک فیصلہ کن بات بتاتے ہیں تم جا کر ان سے تین سوالات کرو اگر جواب دے دیں تو ان کے سچے ہونے میں کچھ شک نہیں بیشک وہ اللہ کے نبی اور رسول ہیں اور اگر جواب نہ دیں سکیں تو آپ کے جھوٹا ہونے میں بھی کوئی شک نہیں پھر جو تم چاہو کرو۔ ان سے پوچھو اگلے زمانے میں جو نوجوان چلے گئے تھے ان کا واقعہ بیان کرو۔ وہ ایک عجیب واقعہ ہے۔ اور اس شخص کے حالات دریافت کرو جس نے تمام زمین کا گشت لگایا تھا مشرق مغرب ہو آیا تھا۔ اور روح کی ماہیت دریافت کرو اگر بتادے تو اسے نبی مان کر اس کی اتباع کرو اور اگر نہ بتاسکے تو وہ شخص جھوٹا ہے جو چاہو کرو۔ یہ دونوں وہاں سے واپس آئے اور قریشیوں سے کہا لو بھئی آخری اور انتہائی فیصلے کی بات انہوں نے بتادی ہے۔ اب چلو حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوالات کریں چناچہ یہ سب آپ کے پاس آئے اور تینوں سوالات کئے۔ آپ نے فرمایا تم کل آؤ میں تمہیں جواب دوں لیکن انشاء اللہ کہنا بھول گئے پندرہ دن گزر گئے نہ آپ پر وحی آئی نہ اللہ کی طرف سے ان باتوں کا جواب معلوم کرایا گیا اہل مکہ جوش میں آگئے اور کہنے لگے کہ لیجئے صاحب کل کا وعدہ تھا آج پندرھواں دن ہے لیکن وہ بتا نہیں سکے ادھر آپ کو دوہرا غم ستانے لگا قریشیوں کو جواب نہ ملنے پر ان کی باتیں سننے کا اور وحی کے بند ہوجانے کا پھر حضرت جبرائیل (علیہ السلام) آئے سورة کہف نازل ہوئی اسی میں انشاء اللہ نہ کہنے پر آپ کو ڈانٹا گیا ان نوجوانوں کا قصہ بیان کیا گیا اور اس سیاح کا ذکر کیا گیا اور آیت ( وَيَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ ۭ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّيْ وَمَآ اُوْتِيْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِيْلًا 85) 17 ۔ الإسراء :85) میں روح کی بابت جواب دیا گیا۔