مریم آية ۵۱
وَاذْكُرْ فِى الْكِتٰبِ مُوْسٰۤىۖ اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّكَانَ رَسُوْلًا نَّبِيًّا
طاہر القادری:
اور (اس) کتاب میں موسٰی (علیہ السلام) کا ذکر کیجئے، بیشک وہ (نفس کی گرفت سے خلاصی پاکر) برگزیدہ ہو چکے تھے اور صاحبِ رسالت نبی تھے،
English Sahih:
And mention in the Book, Moses. Indeed, he was chosen, and he was a messenger and a prophet.
1 Abul A'ala Maududi
اور ذکر کرو اس کتاب میں موسیٰؑ کا وہ ایک چیدہ شخص تھا اور رسول نبی تھا
2 Ahmed Raza Khan
اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو، بیشک وہ چنا ہوا تھا اور رسول تھا غیب کی خبریں بتانے والا،
3 Ahmed Ali
اور کتاب میں موسیٰ کا ذکر کر بے شک وہ خاص بندے اور بھیجے ہوئے پیغمبر تھے
4 Ahsanul Bayan
اس قرآن میں موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر، جو چنا ہوا (١) اور رسول اور نبی تھا
٥١۔١مخلص، مصطفیٰ، مجتبیٰ اور مختار،چاروں الفاظ کا مفہوم ایک ہے یعنی رسالت وپیامبری کے لیے چنا ہوا پسندیدہ شخص رسول بمعنی مرسل ہے (بھیجا ہوا) اور نبی کے معنی اللہ کا پیغام لوگوں کو سنانے والا یا وحی الہٰی کی خبر دینے والا تاہم مفہوم دونوں کا ایک ہے کہ اللہ جس بندے کو لوگوں کی ہدایت ورہنمائی کے لئے چن لیتا ہے اور اسے اپنی وحی سے نوازتا ہے، اسے رسول اور نبی کہا جاتا ہے۔ زمانہ قدیم سے اہل علم میں ایک بحث یہ چلی آ رہی ہے کہ آیا کہ ان دونوں میں فرق ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو وہ کیا ہے؟ فرق کرنے والے بالعموم کہتے ہیں کہ صاحب شریعت یا صاحب کتاب کو رسول اور نبی کہا جاتا ہے اور جو پیغمبر اپنی سابقہ پیغمبر کی کتاب یا شریعت کے مطابق ہی لوگوں کو اللہ کا پیغام پہنچاتا رہا، وہ صرف نبی ہے، رسول نہیں۔ تاہم قرآن کریم میں ان کا اطلاق ایک دوسرے پر بھی ہوا ہے اور بعض جگہ مقابلہ کرنے والے بھی آئے ہیں، مثلاً سورۃ الحج آیت ٥٢ میں۔ ْْ
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور کتاب میں موسیٰ کا بھی ذکر کرو۔ بےشک وہ (ہمارے) برگزیدہ اور پیغمبر مُرسل تھے
6 Muhammad Junagarhi
اس قرآن میں موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر بھی کر، جو چنا ہوا اور رسول اور نبی تھا
7 Muhammad Hussain Najafi
اور (اے رسول) کتاب (قرآن) میں موسیٰ کا ذکر کیجئے! بےشک وہ اللہ کے برگزیدہ بندے اور نبی مرسل تھے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور اپنی کتاب میں موسٰی علیھ السّلام کا بھی تذکرہ کرو کہ وہ میرے مخلص بندے اور رسول و نبی تھے
9 Tafsir Jalalayn
اور کتاب میں موسیٰ کا بھی ذکر کرو بیشک وہ (ہمارے) برگزیدہ اور پیغمبر مرسل تھے
آیت نمبر 51 تا 59
ترجمہ : کتاب میں مذکور موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر کیجئے وہ بلاشبہ بڑے مخلص منتخب بندے تھے کسرہ لام اور فتحہ لام کے ساتھ مخلص مَنْ اَخْلَصَ فِی عِبَادَتِہٖ کو کہتے ہیں اور مخلص مَن اَخْلَصَہٗ اللہ مِنَ الدنَس کو کہتے ہیں (یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کو ہر قسم کی آلائشوں سے پاک کردیا) اور وہ نبی مرسل تھے اور ہم نے موسیٰ کو کوہ طور کی داہنی جانب سے یا موسیٰ اِنّی اَنَا اللہ کہہ کر پکارا طور ایک پہاڑ کا نام ہے یعنی موسیٰ (علیہ السلام) کی اس جانب سے (پکارا) جو مدین سے آتے ہوئے داہنی جانب پڑتی ہے اور ہم نے اس کو رازدارانہ گفتگو کے لئے اپنا مقرب بنایا، اس طریقہ پر کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنا کلام سنایا اور ہم نے اس کو اپنی رحمت نعمت کے سبب سے اس کا بھائی ہارون نبی بنا کر عطا کیا ہارون (اخاہ) سے بدل یا عطف بیان ہے نبِیًّا (ہارون) سے حال ہے اور وَھَبْنَا سے عطاء نبوت ہی مراد ہے موسیٰ (علیہ السلام) کی اس درخواست کو قبول کرتے ہوئے کہ اس کے ساتھ اس کے بھائی (ہارون) کو نبی بنا دیجئے اور ہارون (علیہ السلام) موسیٰ سے بڑے تھے۔ اور کتاب میں مذکور اسماعیل (علیہ السلام) کا بھی ذکر کیجئے بلاشبہ وہ وعدے کے بڑے سچے تھے انہوں نے کوئی وعدہ نہیں کیا کہ اس کو پورا نہ کیا ہو اور جس شخص سے (انتظار) کا وعدہ کیا تھا اس کا تین دن یا ایک سال تک (اسی جگہ) انتظار کیا تاآنکہ وہ شخص کہ جس سے انتظار کا وعدہ کیا تھا آپ کے انتظار کی جگہ واپس آیا اور وہ جرہم کی طرف نبی بنا کر بھیجے گئے تھے اور وہ اپنے اہل یعنی اپنی قوم کو (برابر) نماز کا اور زکوٰۃ کا حکم کرتے تھے اور وہ اپنے پروردگار کے نزدیک پسندیدہ تھے مَرضِیٌّ کی اصل مَرضُوْؤ تھی، دونوں واؤی سے بدل گئے اور ضمہ کسرہ سے بدل گیا، اور اس کتاب میں ادریس کا بھی ذکر کیجئے وہ نوح (علیہ السلام) کے والد کے دادا تھے بیشک وہ بڑی راستی والے نبی تھے اور ہم نے ان کو بلند مقام تک پہنچا دیا، وہ چوتھے یا چھٹے یا ساتویں آسمان یا جنت میں زندہ ہیں اور ان کو موت کا مزا چکھانے کے بعد جنت میں داخل کردیا گیا اور زندہ کردیا گیا اور وہ جنت سے نہیں نکلے اُوْلٰئِکَ مبتداء ہے یہی ہیں وہ لوگ جن پر اللہ تعالیٰ نے (خاص) انعام فرمایا الذین انعم اللہ علَیْھِمْ ، اوْلٰئِکَ (موصوف) کی صفت ہے اور مِنَ النبیین الذین کا بیان ہے اور یہ بیان صفت کے معنی میں ہے اور من النبیین سے لے کر جملہ شرطیہ تک نبیین کی صفت ہے (اور یہ مُنْعَمْ علیھم) آدم (علیہ السلام) کی نسل سے ہیں یعنی ادریس (علیہ السلام) اور ان میں سے بعض ان لوگوں کی نسل سے ہیں جن کو ہم نے نوح (علیہ السلام) کے ساتھ کشتی میں سوار کیا تھا یعنی ابراہیم (علیہ السلام) حضرت نوح (علیہ السلام) کے بیٹے سام کی نسل سے ہیں اور بعض ان میں سے ابراہیم (علیہ السلام) کی نسل سے ہیں یعنی اسماعیل اور اسحٰق اور یعقوب (علیہم السلام) بعض اسرائیل کی نسل سے ہیں اور وہ یعقوب (علیہ السلام) ہیں موسیٰ اور ہارون اور زکریا اور یحییٰ اور عیسیٰ (علیہم السلام) ہیں اور یہ سب (حضرات) ان لوگوں میں سے تھے جن کو ہم نے ہدایت فرمائی اور مقبول بنایا یعنی منجملہ ہدایت یافتہ مقبول لوگوں میں سے ہیں اور اُوْلٰئِکَ کی خبر اِذَا تُتْلیٰ عَلَیْھم الخ سے سُجّد ساجد کی اور بُکِیًّا باکٍ کی جمع ہے (ان حضرات کی یہ کیفیت تھی کہ) جب ان کے سامنے (حضرت) رحمٰن کے آیتیں پڑھی جاتی تھی تو سجدہ کرتے ہوئے روتے ہوئے (زمین) پر گرجاتے تھے لہٰذا اے (اہل مکہ) تم بھی ان کے جیسے ہوجاؤ اور بُکِیٌّ کی اصل بُکْویٌ تھی واؤ ی سے اور ضمہ کسرہ سے بدل گیا پھر ان کے بعد کچھ ایسے ناخلف پیدا ہوئے کہ انہوں نے نماز کو ترک کر کے ضائع کردیا جیسا کہ یہود اور نصاریٰ اور معصیت میں خواہشات کی اتباع کی تو یہ لوگ عنقریب خرابی دیکھیں گے (غیًّا) جہنم میں ایک وادی ہے یعنی اس میں پڑیں گے۔
تحقیق، ترکیب وتفسیری فوائد
قولہ واذکر فی الکتاب موسیٰ کا عطف فی الکتاب مریم پر عطف قصہ علی القصہ ہے، سورة مریم میں دس انبیاء (علیہم السلام) کے اسماء مذکور ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کے کچھ اوصاف ومنافقب بیان فرمائے ہیں اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کی توقیر و تعظیم لازم ہے، اسماء مذکورہ یہ ہیں (١) زکریا (علیہ السلام) (٢) یحییٰ (علیہ السلام) (٣) ابراہیم (علیہ السلام) (٤) عیسیٰ (علیہ السلام) (٥) اسحٰق (علیہ السلام) (٦) یعقوب (علیہ السلام) (٧) اسماعیل (علیہ السلام) (٨) موسیٰ (علیہ السلام) (٩) ہارون (علیہ السلام) (١٠) ادریس علیہ السلام، مخلِصًا ای موَحِّدًا اَخْلَصَ عبادتہٗ عن الشرک (افعال) سے اسم فاعل یا اسم مفعول کا صیغہ ہے ای اَخْلَصَہٗ اللہ تعالیٰ واختارَہٗ وجعلہٗ مختارًا قولہ الدنس میل (ج) ادناس وکان رسولاً نبیًّا رسولاً کان کی خبر اول ہے اور نبیًّا خبر ثانی، رسول کے لغوی معنی مراد ہیں اور نبی کے اصطلاحی، رسولاً نبیًا میں مناسب یہ تھا کہ عام کو مقدم اور خاص کو مؤخر ذکر کرتے مگر فواصل کی رعایت کی وجہ سے عکس کردیا، جیسا کہ سورة طٔہ میں رب ہارون و موسیٰ ہیں، اور بعض حضرات نے رسول کے اصطلاحی معنی اور نبی کے لغوی معنی مراد لئے ہیں یعنی عالی مرتبہ رسول، اس وقت نبی نبوۃ سے مشتق ہوگا جس کے معنی رفعت اور بلندی کے ہیں قولہ الطور مدین اور مصر کے درمیان مشہور پہاڑ ہے جس کا نام جبل زبیر بھی ہے قولہ ایمن اگر یمین سے مشتق ہے تو اس کے معنی ہیں دایاں قولہ نجیًّا قرّبنا کے مفعول یا فاعل کی ضمیر سے حال ہے اور اَلاَیمن جانب کی صفت ہے اسی وجہ سے اعراب میں اس کے تابع ہے بعض حضرات نے کہا ہے کہ الایمن یُمنٌ سے مشتق ہے تو اس صورت میں طور کی صفت واقع ہوسکتا ہے یعنی مبارک پہاڑ کی جانب سے موسیٰ (علیہ السلام) کو ندا دی وَھَبْنَا (ف) عطا کیا، قولہ من رحمتنا من تعلیلیہ ہے ای من اجل رحمتنا اخاہ اس صورت میں وھبناہ کا مفعول بہ ہوگا، اور ہارون اخاہ سے یا بدل ہوگا یا عطف بیان یا اعنی محذوف ہونے کی وجہ سے منصوب ہوگا نبیًّا ہارون سے حال ہے جرہم یمن کا ایک قبیلہ تھا جو پانی کی سہولت دیکھ کر وادی مکہ میں حضرت ہاجرہ کے پاس مقیم ہوگیا تھا، اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) نے جوان ہو کر اسی قبیلہ میں شادی کرلی تھی، ادریس (علیہ السلام) کا نام اخنوخ ہے اور یہ نوح (علیہ السلام) کے جد امجد ہیں قولہ رَفَعْنا بعض مفسرین نے کہا ہے کہ رفع سے مراد شرف نبوت کی وجہ سے رفع مرتبہ ہے اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ رفع آسمانی مراد ہے جیسا کہ مفسر علام کی یہی رائے ہے قولہ خلْف سکون لام کے ساتھ ناخلف (نالائق) کے لئے اور فتحہ لام کے ساتھ لائق اخلاف کے لئے استعمال ہوتا ہے قولہ یَلْقَوْن مضارع جمع مذکر غائب (س) پڑیں گے، ملاقات کریں گے قولہ غیًّا اسم فعل، گمراہی، عذاب۔
تفسیر وتشریح
وَاذْکُرْ فِی الکِتابِ مُوْسٰی اس سورت میں مذکور قصوں میں سے یہ چوتھا قصہ ہے، اور ذکر کرنے سے مراد سنانا ہے، اس لئے کہ ذکر کرنے والے تو اللہ تعالیٰ ہیں مُخْلَصًا بفتح اللام وہ شخص جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے خاص کرلیا ہو یعنی جس کو غیر اللہ کی طرف التفات نہ ہو یہ شان خصوصی طور پر انبیاء (علیہم السلام) کی ہوتی ہے جیسا کہ قرآن کریم میں دوسری جگہ ارشاد ہے اِنَّا اَخْلَصْنَاھُمْ بِخَالِصَۃٍ ذِکْرَی الدَّار یعنی ہم نے ان کو مخصوص کردیا ہے ایک خاص کام یعنی دار آخرت کی یاد کے لئے، امت میں جو حضرات کاملین انبیاء (علیہ السلام) کے نقش قدم پر ہوں ان کو بھی اس مقام کا ایک درجہ ملتا ہے اس کی علامت یہ ہوتی ہے کہ وہ قدرتی طور پر گناہوں سے بچا دئیے جاتے ہیں اللہ تعالیٰ کی حفاظت ان کے ساتھ ہوتی ہے۔
مِنْ جابِبِ الطُّورِ یہ مشہور پہاڑ ملک شام میں مصر اور مدین کے درمیان واقع ہے آج بھی اسی نام سے مشہور ہے۔
الاَیمن سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دائیں جانب مراد ہے اس لئے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مدین سے چل کر جب طور کے بالمقابل پہنچے تو طور ان کی دائیں جانب تھا نَجِیًّا سے سرگوشی مراد ہے موسیٰ (علیہ السلام) سے ہم کلامی کو راز اس لئے کہا گیا ہے کہ کلام کے وقت وہاں کوئی انسان موجود نہیں تھا گو بعد میں وہ گفتگو اور کلام سب کو معلوم ہوگیا وَوَھَبْنَالَہٗ مِنْ رَّحْمَتِنَا اَخَاہٗ ھارُوْنَ یہاں ہبہ سے مراد حضرت ہارون (علیہ السلام) کو نبوت عطا کر کے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا معاون و مددگار بنانا ہے اس لئے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ میرے بھائی کو میرا معاون و مددگار بنا دیجئے چناچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے دعا قبول فرمائی اور نبوت عطا کردی اسی کو ہبہ سے تعبیر کیا گیا ورنہ تو حضرت ہارون (علیہ السلام) موسیٰ (علیہ السلام) سے عمر میں بڑے ہیں بڑا چھوٹے کو ہدیہ نہیں کیا جاسکتا۔
واذْکُرْ فِی الکتابِ اِسماعِیْلَ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا ذکر ان کے والد ابراہیم اور بھائی اسحٰق کے ساتھ نہیں کیا بلکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا درمیان میں ذکر آنے کے بعد ان کا ذکر فرمایا شاید اس سے مقصود ان کے ذکر کا خاص اہتمام ہو کہ ضمناً ذکر کرنے کے بعد مستقلاً ذکر فرما دیا، یہاں جتنے انبیاء (علیہم السلام) کا ذکر کیا گیا ہے ان کے درمیان زمانہ بعثت کی ترتیب نہیں رکھی گئی کیونکہ ادریس (علیہ السلام) جن کا ذکر سب کے بعد آرہا ہے وہ زمانہ کے لحاظ سے سب سے مقدم ہیں۔
کَان صَادِقَ الوَعْدِ ایفاء وعدہ ایک ایسا خلق حسن ہے کہ ہر شریف انسان اس ضروری سمجھتا ہے اور اس کے خلاف کرنے کو ایک رذیل حرکت قرار دیتا ہے حدیث میں وعدہ خلافی کو نفاق کی علامت قرار دیا گیا ہے اس لئے ہر نبی صادق الوعد ہوتا ہے، مگر اس سلسلہ کلام میں خاص خاص انبیاء (علیہم السلام) کے ساتھ کوئی خاص وصف بھی ذکر کیا گیا ہے اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ یہ وصف دوسروں میں نہیں بلکہ اشارہ اس طرف ہے کہ ان میں یہ وصف خاص امتیازی شان رکھتا ہے جیسے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ مخلص ہونا ذکر فرمایا گیا حالانکہ یہ صفت بھی تمام انبیاء (علیہم السلام) میں عام ہے مگر چونکہ موسیٰ (علیہ السلام) کو اس میں ایک خاص امتیاز حاصل تھا اس لئے ان کے ذکر میں خصوصیت سے اس وصف کا ذکر کردیا گیا۔
حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا صادق الوعد امتیازی وصف اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے جس چیز کا وعدہ اللہ سے یا کسی بندے سے کیا اس کو بڑی مضبوطی اور اہتمام سے پورا کیا انہوں نے اللہ سے وعدہ کیا تھا کہ میں خود کو ذبح ہونے کے لئے پیش کر دوں گا اور اس پر صبر کروں گا، اس وعدہ میں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) پورے اترے، ایک مرتبہ ایک شخص سے ایک جگہ ملنے کا وعدہ کیا تھا وہ وقت پر نہ آیا تو اس کے انتظار میں تین دن اور بعض روایات میں ایک سال تک اس کا انتظار کرتے رہے۔ (مظہری)
آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی ترمذی میں بروایت عبداللہ ابن ابی الخمساء سے ایسا ہی واقعہ وعدہ کر کے تین دن تک اسی جگہ انتظار کرنے کا منقول ہے۔ (قرطبی)
کَانَ یَاْمُرُ اَھْلَہٗ بِالصَّلوٰۃِ والزَّکٰوۃِ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے خصوصی اوصاف میں ایک وصف یہ بھی مذکور ہے کہ وہ اپنے اہل کو نماز و زکوٰۃ کا حکم دیتے تھے یہ وصف اگرچہ ہر نبی میں مشترک ہے مگر حضرت اسماعیل (علیہ السلام) اس کے اہتمام میں امتیازی کوشش کرتے تھے۔
وَاذْکُرْ فِی الکِتابِ ادریس حضرت ادریس (علیہ السلام) حضرت نوح (علیہ السلام) سے ایک ہزار سال قبل حضرت نوح (علیہ السلام) کے اجداد میں سے ہیں۔ (روح المعانی)
اور حضرت ادریس (علیہ السلام) حضرت آدم (علیہ السلام) کے بعد پہلے نبی ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے تیس صحیفے نازل فرمائے، اور ادریس (علیہ السلام) سب سے پہلے انسان ہیں جن کو علم نجوم اور علم حساب بطور معجزہ دیا گیا تھا (بحر محیط) اور سب سے پہلے انسان ہیں کہ جنہوں نے قلم سے لکھنا اور کپڑا سینا ایجاد کیا، اور انہیں نے ناپ تول کے طریقہ بھی ایجاد کئے، اور آپ ہی نے اسلحہ ایجاد کر کے بنو قابیل سے جہاد کیا۔ (بحر محیط قرطبی، مظہری، روح)
وَرَفَعْنَاہٗ مکاناً عَلِیًّا مکان رفیع سے مراد مرتبہ کی بلندی ہے یعنی نبوت و رسالت اور قرب خداوندی کا خاص مقام عطا فرمایا گیا، بعض روایات میں جو آسمانوں پر رفع جسمانی منقول ہے اس کے متعلق ابن کثیر (رح) نے لکھا ہے :
ھٰذا مِنْ اَخْبَارِ کعْبِ الاَحْبَارِ من الاسرائیلیات وفی بَعْضِہٖ نکَارَۃ یہ کعب احبار کی اسرائیلی روایات میں سے ہے اور ان میں سے بعض میں نکارت ہے۔
اُوْلٰئِکَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللہُ عَلَیْھِمْ منَ النَّبِیِّیْنَ مِنْ ذُرِّیَّۃِ آدَم اس سے مراد صرف حضرت ادریس (علیہ السلام) ہیں اور ومِن ذریۃ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نوح اس سے مراد صرف ابراہیم (علیہ السلام) ہیں وَمِنْ ذُرِّیَّۃِ ابرَاھیمِ اس سے مراد اسماعیل واسحٰق و یعقوب (علیہم السلام) ہیں وَاسرائِیل اس سے مراد حضرت موسیٰ و ہارون اور حضرت زکریا ویحییٰ و عیسیٰ (علیہم السلام) ہیں۔
وَاِذَا تُتْلیٰ عَلَیْھِمْ آیٰتُ الرَّحمٰنِ خَرُّوْا سُجَّدًا وَّبُکِیًّا سابقہ آیات میں چند اکابر انبیاء (علیہم السلام) کا ذکر کیا گیا ہے جن میں ان کی عظمت شان کو بیان کیا گیا ہے چونکہ انبیاء (علیہم السلام) کی عظمت میں عوام سے غلو کرنے کا خطرہ تھا جیسے یہود نے حضرت عزیز (علیہ السلام) کو اور نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا ہی بنادیا اس لئے اس مجموعہ کے بعد ان سب کا اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز ہونا اور خوف و خشیت سے بھر پور رہنا اس آیت میں ذکر فرمایا ہے تاکہ افراط وتفریط کے درمیان رہیں۔ (معارف القرآن)
10 Tafsir as-Saadi
یعنی اس قرآن عظیم میں، حضرت موسیٰ علیہ السلام بن عمران کی تعظیم و توقیر، ان کے مقام عالی قدر اور اخلاق کاملہ کی تعریف کے طور پر، ان کا ذکر کیجیے۔ ﴿ إِنَّهُ كَانَ مُخْلَصًا﴾ (مُخْلَصًا ) کو لام کی زبر کے ساتھ پڑھا گیا ہے۔ اس کا معنی یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تمام جہانوں پر فضیلت دی، اسے پسند کرلیا اور اسے چن لیا۔ ایک دوسری قراءت میں (مُخْلِصًا) کو لام کی زیر کے ساتھ پڑھا گیا ہے تب اس کا معنی یہ ہوگا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے تمام اعمال، اقوال اور نیت میں اللہ تعالیٰ کے لئے مخلص تھے۔ ان کے تمام احوال میں اخلاص ان کا وصف تھا۔۔۔ دونوں معنی ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اخلاص کی بنا پر ان کو چن لیا اور ان کا اخلاص اس بات کا موجب تھا کہ اللہ تعالیٰ ان کو چن لے اور بندہ مومن کا جلیل ترین حال یہ ہے کہ وہ اپنے رب کے لئے اخلاص کا حامل ہو اور اس کا رب اسے اپنے لئے چن لے۔
﴿وَكَانَ رَسُولًا نَّبِيًّا ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کی ذات میں رسالت اور نبوت کو یکجا کردیا۔ پس رسالت، بھیجنے والے کے کلام کی تبلیغ کا تقاضا کرتی ہے، نیز یہ بھی تقاضا کرتی ہے کہ شریعت کی جو بھی چھوٹی یا بڑی چیز آئی ہے اسے بندوں تک پہنچایا جائے۔۔۔ اور نبوت اس بات کی مقتضی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر وحی آتی ہو اور اللہ تعالیٰ نے وحی کی تنزیل کے لئے اسے مختص کرلیا ہو۔ پس نبوت کا تعلق بندے اور اس کے رب کے درمیان ہے اور رسالت کا تعلق بندے اور مخلوق کے درمیان ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو وحی کی جلیل ترین اور سب سے افضل نوع کے ساتھ خاص فرمایا اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کا ان سے کلام کرنا اور انہیں اپنی سرگوشی کیلئے اپنے قریب کرنا۔ انبیاء میں سے اس فضیلت کے ساتھ صرف موسیٰ علیہ السلام کو خاص کیا گیا کہ وہ رحمان کے کلیم ہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur iss kitab mein musa ka bhi tazkarah kero . beyshak woh Allah kay chunay huye banday thay , aur Rasool aur nabi thay .
12 Tafsir Ibn Kathir
خلوص ابراہیم (علیہ السلام) ۔
اپنے خلیل (علیہ السلام) کا بیان فرما کر اب اپنے کلیم (علیہ السلام) کا بیان فرماتا ہے۔ مُخلَصاً کی دوسری قرأت مُخلِصاً بھی ہے۔ یعنی وہ بااخلاص عبات کرنے والے تھے۔ مروی ہے کہ حواریوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے دریافت کیا کہ اے روح اللہ ہمیں بتائیے مخلص شخص کون ہے ؟ آپ نے فرمایا جو محض اللہ کے لئے عمل کرے اسے اس بات کی چاہت نہ ہو کہ لوگ میری تعریفیں کریں۔ دوسری قرأت میں مخلصا ہے یعنی اللہ کے چیدہ اور برگزیدہ بندے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جیسے فرمان باری ہے (اِنِّى اصْطَفَيْتُكَ عَلَي النَّاسِ بِرِسٰلٰتِيْ وَبِكَلَامِيْ ڮ فَخُذْ مَآ اٰتَيْتُكَ وَكُنْ مِّنَ الشّٰكِرِيْنَ\014\04 ) 7 ۔ الاعراف :144) آپ اللہ کے نبی اور رسول تھے پانچ بڑے بڑے جلیل القدر اولو العزم رسولوں میں سے ایک آپ ہیں یعنی، نوح، ابراہیم، موسیٰ ، عیسیٰ ، اور محمد صلوات اللہ وسلامہ علیہم وعلی سائر الانبیاء اجمعین۔ ہم نے انہیں مبارک پہاڑطور کی دائیں جانب سے آواز دی سرگوشی کرتے ہوئے اپنے قریب کرلیا۔ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب آپ آگ کی تلاش میں طور کی طرف یہاں آگ دیکھ کر بڑھے تھے۔ ابن عباس (رض) وغیرہ فرماتے ہیں اس قدر قریب ہوگئے کہ قلم کی آواز سننے لگے۔ مراد اس سے توراۃ لکھنے کی قلم ہے۔ سدی کہتے ہیں آسمان میں گئے اور کلام باری سے مشرف ہوئے۔ کہتے ہیں انہی باتوں میں یہ فرمان بھی ہے کہ اے موسیٰ جب کہ میں ترے دل کو شکر گزار اور تیری زبان کو اپنا ذکر کرنے والی بنا دوں اور تجھے ایسی بیوی دوں جو نیکی کے کاموں میں تیری معاون ہو تو سمجھ لے کہ میں نے تجھ سے کوئی بھلائی اٹھا نہیں رکھی۔ اور جسے میں یہ چیزیں نہ دوں سمجھ لے کہ اسے کوئی بھلائی نہیں ملی۔ ان پر ایک مہربانی ہم نے یہ بھی کی کہ ان کے بھائی ہارون کو نبی بنا کر ان کی امداد کے لئے ان کے ساتھ کردیا جیسے کہ آپ کی چاہت اور دعا تھی۔
فرمایا تھا ( وَاَخِيْ هٰرُوْنُ هُوَ اَفْصَحُ مِنِّيْ لِسَانًا فَاَرْسِلْهُ مَعِيَ رِدْاً يُّصَدِّقُنِيْٓ ۡ اِنِّىْٓ اَخَافُ اَنْ يُّكَذِّبُوْنِ 34) 28 ۔ القصص :34) ، اور آیت میں ہے ( قَالَ قَدْ اُوْتِيْتَ سُؤْلَكَ يٰمُوْسٰى 36 ۔ ) 20 ۔ طه :36) موسیٰ تیرا سوال ہم نے پورا کردیا۔ آپ کی دعا کے لفظ یہ بھی وارد ہیں (فَاَرْسِلْ اِلٰى هٰرُوْنَ 13) 26 ۔ الشعراء :13) ، ہارون کو بھی رسول بنا الخ کہتے ہیں کہ اس سے زیادہ دعا اور اس سے بڑھ کر شفاعت کسی نے کسی کی دنیا میں نہیں کی۔ حضرت ہارون حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے بڑے تھے۔ صلوات اللہ وسلامہ علیھما۔