قَالَ رَبِّ اَنّٰى يَكُوْنُ لِىْ غُلٰمٌ وَّكَانَتِ امْرَاَتِىْ عَاقِرًا وَّقَدْ بَلَـغْتُ مِنَ الْـكِبَرِ عِتِيًّا
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
عرض کیا، "پروردگار، بھلا میرے ہاں کیسے بیٹا ہوگا جبکہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں بوڑھا ہو کر سوکھ چکا ہوں؟"
English Sahih:
He said, "My Lord, how will I have a boy when my wife has been barren and I have reached extreme old age?"
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
عرض کیا، "پروردگار، بھلا میرے ہاں کیسے بیٹا ہوگا جبکہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں بوڑھا ہو کر سوکھ چکا ہوں؟"
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
عرض کی اے میرے رب! میرے لڑکا کہاں سے ہوگا میری عورت تو بانجھ ہے اور میں بڑھاپے سے سوکھ جانے کی حالت کو پہنچ گیا
احمد علی Ahmed Ali
کہا اے میرے رب میرے لیے لڑکا کہاں سے ہوگا حالانکہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں بڑھاپے میں انتہائی درجہ کو پہنچ گیا ہوں
أحسن البيان Ahsanul Bayan
زکریا (علیہ السلام) کہنے لگے میرے رب! میرے ہاں لڑکا کیسے ہوگا، جب کہ میری بیوی بانجھ اور میں خود بڑھاپے کے انتہائی ضعف کو پہنچ چکا ہوں (١)۔
٨۔١ عَاقِر اس عورت کو بھی کہتے ہیں جو بڑھاپے کی وجہ سے اولاد جننے کی صلاحیت سے محروم ہو چکی ہو اور اس کو بھی کہتے ہیں جو شروع سے ہی بانجھ ہو۔ یہاں یہ دوسرے معنی میں ہی ہے۔ جو لکڑی سوکھ جائے، اسے عِتِیًّا کہتے ہیں۔ مراد بڑھاپے کا آخری درجہ ہے۔ جس میں ہڈیاں اکڑ جاتی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ میری بیوی تو جوانی سے ہی بانجھ ہے اور میں بڑھاپے کے آخری درجے پر پہنچ چکا ہوں، اب اولاد کیسے ممکن ہے؟ کہا جاتا ہے کہ حضرت زکریا علیہ السلام کی اہلیہ کا نام اشاع بنت فاقود بن میل ہے یہ حضرت حنہ (والدہ مریم) کی بہن ہیں۔ لیکن زیادہ قول صحیح یہ لگتا ہے کہ اشاع بھی حضرت عمران کی دختر ہیں جو حضرت مریم کے والد تھے۔ یوں حضرت یٰحیٰی علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام آپس میں خالہ زاد بھائی ہیں۔ حدیث صحیح سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے (فتح القدیر)
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
انہوں نے کہا پروردگار میرے ہاں کس طرح لڑکا ہوگا۔ جس حال میں میری بیوی بانجھ ہے اور میں بڑھاپے کی انتہا کو پہنچ گیا ہوں
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
زکریا (علیہ السلام) کہنے لگے میرے رب! میرے ہاں لڑکا کیسے ہوگا، جبکہ میری بیوی بانجھ اور میں خود بڑھاپے کے انتہائی ضعف کو پہنچ چکا ہوں
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
زکریا نے (از راہ تعجب) کہا اے میرے پروردگار! میرے ہاں لڑکا کیسے ہوگا؟ جبکہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں بڑھاپے کی انتہا کو پہنچا ہوا ہوں۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
زکریا نے عرض کی پروردگار میرے فرزند کس طرح ہوگا جب کہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں بھی بڑھاپے کی آخری حد کو پہنچ گیا ہوں
طاہر القادری Tahir ul Qadri
(زکریا علیہ السلام نے) عرض کیا: اے میرے رب! میرے ہاں لڑکا کیسے ہو سکتا ہے درآنحالیکہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں خود بڑھاپے کے باعث (انتہائی ضعف میں) سوکھ جانے کی حالت کو پہنچ گیا ہوں،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
بشارت قبولیت سن کر۔
حضرت زکریا (علیہ السلام) اپنی دعا کی قبولیت اور اپنے ہاں لڑکا ہونے کی بشارت سن کر خوشی اور تعجب سے کیفیت دریافت کرنے لگے کہ بظاہر اسباب تو یہ امر مستعد اور ناممکن معلوم ہوتا ہے۔ دونوں جانب سے حالت ناامیدی کی ہے۔ بیوی بانجھ جس سے اب تک اولاد نہیں ہوئی میں بوڑھا اور بیحد بوڑھا جس کی ہڈیوں میں اب تو گودا بھی نہیں رہا خشک ٹہنی جیسا ہوگیا ہوں گھر والی بھی بڑھیا پھوس ہوگئی ہے پھر ہمارے ہاں اولاد کیسے ہوگی ؟ غرض رب العالمین سے کیفیت بوجہ تعجب وخوشی دریافت کی۔ ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ میں تمام سنتوں کو جانتا ہوں لیکن مجھے یہ معلوم نہیں ہوا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ظہر عصر میں پڑھتے تھے یا نہیں ؟ اور نہ یہ معلوم ہے کہ اس لفظ کو عتیا پڑھتے تھے یا عسیا (احمد) فرشتے نے جواب دیا کہ یہ تو وعدہ ہوچکا اسی حالت میں اسی بیوی سے تمہارے ہاں لڑکا ہوگا اللہ کے ذمے یہ کام مشکل نہیں۔ اس سے زیادہ تعجب والا اور اس سے بڑی قدرت والا کام تو تم خود دیکھ چکے ہو اور وہ خود تمہارا وجود ہے جو کچھ نہ تھا اور اللہ تعالیٰ نے بنادیا۔ پس جو تمہاری پیدائش پر قادر تھا وہ تمہارے ہاں اولاد دینے پر بھی قادر ہے۔ جسے فرمان ہے ( هَلْ اَتٰى عَلَي الْاِنْسَانِ حِيْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْـــًٔا مَّذْكُوْرًا ) 76 ۔ الإنسان ;1) یعنی یقینا انسان پر اس کے زمانے کا ایسا وقت بھی گزرا ہے جس میں وہ کوئی قابل ذکر چیز ہی نہ تھا۔