البقرہ آية ۱۱۶
وَقَالُوا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا ۙ سُبْحٰنَهٗ ۗ بَلْ لَّهٗ مَا فِى السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۗ كُلٌّ لَّهٗ قَانِتُوْنَ
طاہر القادری:
اور وہ کہتے ہیں: اللہ نے اپنے لئے اولاد بنائی ہے، حالانکہ وہ (اس سے) پاک ہے، بلکہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے (سب) اسی کی (خَلق اور مِلک) ہے، (اور) سب کے سب اس کے فرماں بردار ہیں،
English Sahih:
They say, "Allah has taken a son." Exalted is He! Rather, to Him belongs whatever is in the heavens and the earth. All are devoutly obedient to Him,
1 Abul A'ala Maududi
ان کا قول ہے کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے اللہ پاک ہے ان باتوں سے اصل حقیقت یہ ہے کہ زمین اور آسمانوں کی تمام موجودات اس کی ملک ہیں، سب کے سب اس کے مطیع فرمان ہیں
2 Ahmed Raza Khan
اور بولے خدا نے اپنے لیے اولاد رکھی پاکی ہے اسے بلکہ اسی کی مِلک ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اس کے حضور گردن ڈالے ہیں،
3 Ahmed Ali
اور کہتے ہیں الله نے بیٹا بنایاہے حالانکہ وہ پاک ہے بلکہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اسی کا ہے سب اسی کے فرمانبردار ہیں
4 Ahsanul Bayan
یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالٰی کی اولاد ہے، (نہیں بلکہ) وہ پاک ہے زمین اور آسمان کی تمام مخلوق اس کی ملکیت میں ہے اور ہر ایک اس کا فرما نبردار ہے
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور یہ لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ خدا اولاد رکھتا ہے۔ (نہیں) وہ پاک ہے، بلکہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے، سب اسی کا ہے اور سب اس کے فرماں بردار ہیں
6 Muhammad Junagarhi
یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی اوﻻد ہے، (نہیں بلکہ) وه پاک ہے زمین و آسمان کی تمام مخلوق اس کی ملکیت میں ہے اور ہر ایک اس کافرمانبردار ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور وہ (اہل کتاب) کہتے ہیں کہ اللہ نے کوئی بیٹا بنا لیا ہے۔ وہ (ایسی باتوں سے) پاک ہے۔ بلکہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ سب کچھ اسی کا ہے سب اسی کے مطیع و فرمانبردار ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور یہودی کہتے ہیں کہ خدا کے اولاد بھی ہے حالانکہ وہ پاک و بے نیاز ہے. زمین و آسمان میں جو کچھ بھی ہے سب اسی کا ہے اور سب اسی کے فرمانبردار ہیں
9 Tafsir Jalalayn
اور یہ لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ خدا اولاد رکھتا ہے (نہیں) وہ پاک ہے بلکہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اسی کا ہے اور سب اس کے فرمانبردار ہیں
وَقَالُوا اتَّخَذَ اللہُ وَلَدًا سُبْحٰنَہٗ ، اِتَّخَذَ وَلَدًا کا ترجمہ ہے، لے رکھا ہے ایک بیٹا، بنا رکھا ہے ایک بیٹا، یہاں مسیحیوں کا یہ قول نہیں نقل کیا جا رہا ہے کہ خدا کے ایک بیٹا ہے بلکہ کہا جا رہا ہے خدا نے ایک بیٹا بنا لیا ہے، مطلب یہ کہ خدا نے کسی کو تنبیٰ بنا رکھا ہے۔
فرقہ اتخاذی :
ایک فرقہ اتخاذیوں (AD۔ PTI۔ NISTS) کے نام سے گزرا ہے ان کے مرکزی عقیدہ کے لئے اصطلاحی لفظ تبنیت یا اتخاذیت (AD۔ PTI۔ NISM) ہے، اس عقیدہ کا خلاصہ یہ ہے کہ مسیح (علیہ السلام) خلیفہ خدا نہیں، وہ خدا پیدا نہیں ہوئے، وہ شروع سے خود بخود بنے بنائے خدا نہیں ہیں ؛ بلکہ اصلاً وخلقہً وہ انسان ہی تھے، البتہ اقنوم ثالث یعنی روح المقدس کا فیضان ان پر شروع ہی سے ہونے لگا تھا، اس لئے وہ قدوسیت کے ایسے اوج کمال پر پہنچ گئے کہ روح الہیٰ ان کے اندر ایسی حلول کرگئی کہ اقنوم اول یعنی خدائے برتر و اعظم نے انہیں اپنا بیٹا قرار دے کر اپنا متنبیٰ بنا کر شریک الوہیت کرلیا، اور اب وہ ربوبیت، مالکیت وغیرہ جملہ صفات الہیٰ میں شریک وسہیم ہے، اس عقیدہ کا وجود ١٨٥ ء میں ملتا ہے آٹھویں صدی عیسوی میں پا پائے روم نے اس عقیدہ کو الحاد اور زندقہ قرار دیا، بارہویں صدی میں اس عقیدہ نے پھر زور پکڑا، پھر یہ لوگ زندیق قرار پائے۔ (تفسیر ماجدی ماجدی ملخصا)
اللہ کے لئے ولد عقلاً و نقلاً ممکن نہیں :
کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اولاد رکھتا ہے، سبحان اللہ ! (کیا مہمل بات ہے) بعض یہودی حضرت عزیر (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں اور نصاریٰ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو، اور مشرکین عرب ملائکہ کو خدا کی بیٹیاں کہتے ہیں حق تعالیٰ اس قول کی قباحت اور بطلان کو بیان فرما رہے ہیں۔
دلیل بطلان : اگر اللہ کی اولاد مانی جائے تو دو حال سے خالی نہیں، یا تو اولاد غیر جنس ہوگی اور یا ہم جنس ہوگی، اگر غیر جنس ہو تو اولاد کا ناجنس ہونا عیب ہے، اور حق تعالیٰ عیب سے پاک ہے، اور اگر ہم جنس ہو تو اس لئے باطل ہے کہ حق تعالیٰ کا کوئی ہم جنس نہیں کیونکہ جو صفات کمال لوازم ذات واجبہ سے ہیں وہ اللہ کے ساتھ مخصوص اور غیر اللہ میں معدوم ہیں اور لازم کی نفی ملزوم کی نفی کو مستلزم ہے، لہٰذا ہم جنس ہونا بھی باطل ہوا۔
بَلْ لَّہٗ مَا فِی السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ مخلوق کا رشتہ اپنے خالق کے ساتھ صرف ملکیت اور مملوکیت مطلقہ کا ہے نہ کہ فرزندی اور دل بندی کا، مطلب یہ کہ کائنات کی ہر شئی اللہ کی مملوک ہے کوئی ہستی اس سے خارج نہیں اور مملوکیت وابنیت میں تضاد و تنافی ہے جو مملوک ہے وہ ابن نہیں اور جو ابن ہے وہ مملوک نہیں ہوسکتا، غرضیکہ وہ بشریت کی ہر قسم کی رشتہ داریوں سے پاک و منزہ ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿وَقَالُوا﴾یعنی یہود و نصاریٰ، مشرکین اور ان تمام لوگوں نے کہا جو کہتے ہیں : ﴿ اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا ۙ﴾ ” اللہ نے بیٹا بنا لیا۔“ انہوں نے ایسی بات اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کی جو اس کی جلالت شان کے لائق نہ تھی۔ انہوں نے بہت برا کیا اور اپنی جانوں پر ظلم کیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس گستاخی پر صبر کرتا ہے، حلم سے کام لیتا ہے، انہیں معاف کر کے انہیں رزق عطا کرتا ہے۔ اس کے باوجود کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات میں نقص ثابت کرتے ہیں۔ ﴿ سُبْحَانَهُ﴾۔ یعنی وہ ان تمام صفات سے پاک اور منزہ ہے جن سے یہ اہل شرک اور اہل ظلم اسے متصف کرتے ہیں اور جو اس کے جلال کے لائق نہیں۔۔۔ پس پاک اور ہر عیب سے منزہ ہے وہ ذات جو ہر پہلو سے کمال مطلق کی مالک ہے جسے کسی بھی پہلو سے نقص لاحق نہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ان کے قول کی تردید کرتے ہوئے اپنے منزہ ہونے پر دلیل قائم کی ہے۔ چنانچہ فرمایا : ﴿بَلْ لَّہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ﴾ یعنی زمین و آسمان کی تمام مخلوق اس کی ملکیت اور اس کی غلام ہے۔ وہ ان میں اسی طرح تصرف کرتا ہے جس طرح مالک اپنے مملوک میں تصرف کرتا ہے۔ وہ اس کے اطاعت گزار اور اس کے دست تدبیر کے تحت مسخر ہیں۔ جب تمام مخلوق اس کی غلام اور اس کی محتاج ہے اور وہ خود ان سے بے نیاز ہے تو ان میں کوئی کیسے اس کا بیٹا ہوسکتا ہے۔ بیٹا لازمی طور پر اپنے باپ کی جنس سے ہوتا ہے کیونکہ وہ اس کے جسم کا حصہ ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ مالک اور غالب ہے تم سب لوگ مملوک اور مغلوب ہو، اس کی ہستی بے نیاز اور تم محتاج محض، ایسا ہونے کے باوجود اس کا کوئی بیٹا کیسے ہوسکتا ہے؟ یہ سب سے بڑا باطل اور سب سے زیادہ قبیح بات ہے۔
” قنوت“ (اطاعت کرنا) کی دو اقسام ہیں۔ (1) قنوت عام : یعنی تمام مخلوق خالق کے دست تدبیر کے تحت اس کی اطاعت گزار ہے۔ (2)قنوت خاص : اس سے مراد اطاعت عبودیت ہے۔ پس قنوت کی پہلی قسم وہ ہے جس کا ذکر اس آیت کریمہ میں کیا گیا ہے اور قنوت کی دوسری قسم وہ ہے جس کا ذکر ﴿ وَقُومُوا لِلَّـهِ قَانِتِينَ﴾۔ لبقرہ : 2؍ 238) ” اور اللہ کے سامنے ادب اور اطاعت گزاری کے ساتھ کھڑے رہیں۔“ میں مذکور ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
yeh log kehtay hain kay Allah ney koi beta banaya huwa hai , ( halankay ) uss ki zaat ( iss qisam ki cheezon say ) pak hai , balkay aasmano aur zameen mein jo kuch hai ussi ka hai . sabb kay sabb uss kay farmanbardaar hain .
12 Tafsir Ibn Kathir
اللہ ہی مقتدر اعلیٰ ہے کے دلائل
یہ اور اس کے ساتھ کی آیت نصرانیوں کے رد میں ہے اور اس طرح ان جیسے یہود و مشرکین کی تردید میں ہے جو اللہ کی اولاد بتاتے تھے ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین و آسمان وغیرہ تمام چیزوں کا تو اللہ مالک ہے ان کا پیدا کرنے والا انہیں روزیاں دینے والا ان کے اندازے مقرر کرنے والا انہیں قبضہ میں رکھنے والا ان میں ہر تغیر و تبدل کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے پھر بھلا اس مخلوق میں سے کوئی اس کی اولاد کیسے ہوسکتا ہے ؟ نہ عزیز اور نہ ہی عیسیٰ اللہ کے بیٹے بن سکتے ہیں جیسے کہ یہود و نصاریٰ کا خیال تھا نہ فرشتے اس کی بیٹیاں بن سکتے ہیں جیسے کہ مشرکین عرب کا خیال تھا۔ اس لئے دو برابر کی مناسبت رکھنے والے ہم جنس سے اولاد ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا نہ کوئی نظیر نہ اس کی عظمت وکبریائی میں اس کا کوئی شریک نہ اس کی جنس کا کوئی اور وہ تو آسمانوں اور زمینوں کا پیدا کرنے والا ہے اس کی اولاد کیسے ہوگی ؟ اس کی کوئی بیوی بھی نہیں وہ چیز کا خالق اور ہر چیز کا عالم ہے یہ لوگ رحمٰن کی اولاد بتاتے ہیں یہ کتنی بےمعنی اور بیہودہ بےتکی بات تم کہتے ہو ؟ اتنی بری بات زبان سے نکالتے ہو کہ اس سے آسمانوں کا پھٹ جانا اور زمین کا شق ہوجانا اور پہاڑوں کا ریزہ ریز ہوجانا ممکن ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اللہ تعالیٰ صاحب اولاد ہے اللہ کی اولاد تو کوئی ہو ہی نہیں سکتی اس کے سوا جو بھی ہے سب اس کی ہی ملکیت ہے زمین و آسمان کی تمام ہستیاں اس کی غلامی میں ظاہر ہونے والی ہیں جنہیں ایک ایک کر کے اس نے گھیر رکھا ہے اور شمار کر رکھا ہے ان میں سے ہر ایک اس کے پاس قیامت والے دن تنہا تنہا پیش ہونے والی ہے پس غلام اولاد نہیں بن سکتا ملکیت اور ولدیت دو مختلف اور متضاد حیثیتیں ہیں دوسری جگہ پوری سورت میں اس کی نفی فرمائی ارشاد ہوا آیت (قل ھو اللہ احد اللہ الصمد لم یلد ولم یولد ولم یکن لہ کفوا احد) کہ دو کہ اللہ ایک ہی ہے اللہ بےنیاز ہے اس کی نہ اولاد ہے نہ ماں باپ اس کا ہم جنس کوئی نہیں ان آیتوں اور ان جیسی اور آیتوں میں اس خالق کائنات نے اپنی تسبیح و تقدیس بیان کی اور اپنا بےنظیر بےمثل اور لا شریک ہونا ثابت کیا اور ان مشرکین کے اس گندے عقیدے کو باطل قرار دیا اور بتایا کہ وہ تو سب کا خالق و رب ہے پھر اس کی اولاد بیٹے بیٹیاں کہاں سے ہوں گی ؟ سورة بقرہ کی اس آیت کی تفسیر میں صحیح بخاری شریف کی ایک قدسی حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مجھے ابن آدم جھٹلاتا ہے اسے یہ لائق نہ تھا مجھے وہ گالیاں دیتا ہے اسے یہ نہیں چاہیے تھا اس کا جھٹلانا تو یہ ہے کہ وہ خیال کر بیٹھتا ہے کہ میں اسے مار ڈالنے کے بعد پھر زندہ کرنے پر قادر نہیں ہوں اور اس کا گالیاں دینا یہ ہے کہ وہ میری اولاد بتاتا ہے حالانکہ میں پاک ہوں اور میری اولاد اور بیوی ہو اس سے بہت بلند وبالا ہوں یہی حدیث دوسری سندوں سے اور کتابوں میں بھی با اختلاف الفاظ مروی ہے صحیین میں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں بری باتیں سن کر صبر کرنے میں اللہ تعالیٰ سے زیادہ کوئی کامل نہیں۔ لوگ اس کی اولاد بتائیں اور وہ انہیں رزق و عافیت دیتا رہے پھر فرمایا ہر چیز اس کی اطاعت گزار ہے اس کی غلامی کا اقرار کئے ہوئے ہے اس کے لئے مخلص۔ اس کی سرکار میں قیامت کے روز دست بستہ کھڑی ہونے والی اور دنیا میں بھی عبادت گزار ہے جس کو کہے یوں ہوجاؤ یا اس طرح بن۔ فوراً وہ اسی طرح ہوجاتی اور بن جاتی ہے۔ اس طرح ہر ایک اس کے سامنے پست و مطیع ہے کفار نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے مطیع ہیں ہر موجود کے سائے اللہ کے سامنے جھکتے رہتے ہیں، قرآن نے اور جگہ فرمایا آیت (وللہ یسجد) الخ آسمان و زمین کی کل چیزیں خوشی ناخوشی اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتی ہیں ان کے سائے صبح شام جھکتے رہتے ہیں ایک حدیث میں مروی ہے کہ جہاں کہیں قرآن میں قنوت کا لفظ ہے وہاں مراد اطاعت ہے لیکن اس کا مرفوع ہونا صحیح نہیں ممکن ہے صحابی کا یا اور کسی کا کلام ہو اس سند سے اور آیتوں کی تفسیر بھی مرفوعاً مروی ہے لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ یہ ضعیف ہے کوئی شخص اس سے دھوکہ میں نہ پڑے واللہ اعلم۔ پھر فرمایا وہ آسمان و زمین کو بغیر کسی سابقہ نمونہ کے پہلی ہی بار کی پیدائش میں پیدا کرنے والا ہے لغت میں بدعت کے معنی نو پیدا کرنے نیا بنانے کے ہیں حدیث میں ہے ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے یہ تو شرعی بدعت ہے کبھی بدعت کا اطلاق صرف لغتہً ہوتا ہے شرعاً مراد نہیں ہوتی۔ جیسے حضرت عمر نے لوگوں کو نماز تراویح پر جمع کیا اور پھر اسے اسی طرح جاری دیکھ کر فرمایا تھا اچھی بدعت ہے بدیع کا منبع سے تصرف کیا گیا ہے جیسے مولم سے الیم اور مسمیع سے سمیع معنی متبدع کے انشا اور نو پیدا کرنے والے کے ہیں بغیر مثال بغیر نمونہ اور بغیر پہلی پیدائش کے پیدا کرنے والے بدعتی کو اس لئے بدعتی کہا جاتا ہے کہ وہ بھی اللہ کے دین میں وہ کام یا وہ طریقہ ایجاد کرتا ہے جو اس سے پہلے شریعت میں نہ ہو اسی طرح کسی نئی بات کے پیدا کرنے والے کو عرب مبتدع کہتے ہیں امام ابن جریر فرماتے ہیں مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ اولاد سے پاک ہے وہ آسمان و زمین کی تمام چیزوں کا مالک ہے ہر چیز اس کی وحدانیت کی دلیل ہے ہر چیز اس کی اطاعت گزاری کا اقرار کرتی ہے۔ سب کا پیدا کرنے والا، بنانے والا، موجود کرنے والا، بغیر اصل اور مثال کے انہیں وجود میں لانے والا، ایک وہی رب العلمین ہے اس کی گواہی ہر چیز دیتی ہے خود مسیح (علیہ السلام) بھی اس کے گواہ اور بیان کرنے والے ہیں جس رب نے ان تمام چیزوں کو بغیر نمونے کے اور بغیر مادے اور اصل کے پیدا کیا اس نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بھی بےباپ پیدا کردیا پھر کوئی وجہ نہیں کہ انہیں تم خواہ مخواہ اللہ کا بیٹا مان لو پھر فرمایا اس اللہ کی قدرت سلطنت سطوت و شوکت ایسی ہے کہ جس چیز کو جس طرح کی بنانا اور پیدا کرنا چاہئے اسے کہ دیتا ہے کہ اس طرح کی اور ایسی ہوجا وہ اسی وقت ہوجاتی ہے جیسے فرمایا آیت (اِنَّمَآ اَمْرُهٗٓ اِذَآ اَرَادَ شَـيْـــــًٔا اَنْ يَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ ) 36 ۔ یس :82) دوسری جگہ فرمایا آیت (اِنَّمَا قَوْلُــنَا لِشَيْءٍ اِذَآ اَرَدْنٰهُ اَنْ نَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ ) 16 ۔ النحل :40) اور ارشاد ہوتا ہے آیت (وَمَآ اَمْرُنَآ اِلَّا وَاحِدَةٌ كَلَمْحٍۢ بِالْبَصَرِ ) 54 ۔ القمر :50) شاعر کہتا ہے۔
اذا ما اراد اللہ امرا فانما یقول لہ کن قولتہ فیکون
مطلب اس کا ہے کہ ادھر کسی چیز کا اللہ نے ارادہ فرمایا اس نے کہا ہوجا وہیں وہ ہوگیا اس کے ارادے سے مراد جدا نہیں پس مندرجہ بالا آیت میں عیسائیوں کو نہایت لطیف پیرا یہ ہیں یہ بھی سمجھا دیا گیا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بھی اسی کن کے کہنے سے پیدا ہوئے ہیں دسری جگہ صاف صاف فرما دیا آیت (اِنَّ مَثَلَ عِيْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ ۭخَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ ) 3 ۔ آل عمران :59) یعنی حضرت عیسیٰ کی مثال اللہ تعالیٰ کے نزدیک حضرت آدم جیسی ہے جنہیں مٹی سے پیدا کیا پھر فرمایا ہوجا وہ ہوگئے۔