(کہہ دو: ہم) اللہ کے رنگ (میں رنگے گئے ہیں) اور کس کا رنگ اللہ کے رنگ سے بہتر ہے اور ہم تو اسی کے عبادت گزار ہیں،
English Sahih:
[And say, "Ours is] the religion of Allah. And who is better than Allah in [ordaining] religion? And we are worshippers of Him."
1 Abul A'ala Maududi
کہو: "اللہ کا رنگ اختیار کرو اس کے رنگ سے اچھا اور کس کا رنگ ہوگا؟ اور ہم اُسی کی بندگی کرنے والے لوگ ہیں"
2 Ahmed Raza Khan
ہم نے اللہ کی رینی (رنگائی) لی اور اللہ سے بہتر کس کی رینی؟ (رنگائی) اور ہم اسی کو پوجتے ہیں،
3 Ahmed Ali
الله کا رنگ اللہ کے رنگ سے اور کس کا رنگ بہتر ہے اور ہم تو اسی کی عبادت کرتے ہیں
4 Ahsanul Bayan
اللہ کا رنگ اختیار کرو اور اللہ تعالٰی سے اچھا رنگ کس کا ہوگا (١) ہم تو اسی کی عبادت کرتے ہیں۔
١٣٨۔١ عیسائیوں نے ایک زرد رنگ کا پانی مقرر کر رکھا ہے جو ہر عیسائی بچے کو بھی اور ہر اس شخص کو بھی دیا جاتا ہے جسکو عیسائی بنانا مقصود ہوتا ہے اس رسم کا نام ان کے ہاں پبتسمہ ہے۔ یہ ان کے نزدیک بہت ضروری ہے، اس کے بغیر وہ کسی کو پاک تصور نہیں کرتے۔ اللہ تعالٰی نے ان کی تردید فرمائی اور کہا اصل رنگ تو اللہ کا رنگ ہے۔ اس سے بہتر کوئی رنگ نہیں اور اللہ کے رنگ سے مراد وہ دین فطرت یعنی دین اسلام ہے۔ جس کی طرف ہر نبی نے اپنے اپنے دور میں اپنی اپنی امتوں کو دعوت دی۔ یعنی دعوت توحید۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
(کہہ دو کہ ہم نے) خدا کا رنگ (اختیار کر لیا ہے) اور خدا سے بہتر رنگ کس کا ہو سکتا ہے۔ اور ہم اسی کی عبادت کرنے والے ہیں
6 Muhammad Junagarhi
اللہ کا رنگ اختیار کرو اور اللہ تعالیٰ سے اچھا رنگ کس کا ہوگا؟ ہم تو اسی کی عبادت کرنے والے ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
ہم نے اللہ کا رنگ اختیار کیا ہے اور اللہ کے رنگ (دین اسلام) سے بہتر کس کا رنگ ہے اور ہم اسی کے عبادت گزار ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
رنگ تو صرف اللہ کا رنگ ہے اور اس سے بہتر کس کا رنگ ہوسکتا ہے اور ہم سب اسی کے عبادت گزار ہیں
9 Tafsir Jalalayn
(کہہ دو کہ ہم نے) خدا کا رنگ (اختیار کرلیا ہے) اور خدا سے بہتر رنگ کس کا ہوسکتا ہے ؟ اور ہم اسی کی عبادت کرنے والے ہیں صِبْغَۃَ اللہِ اس سے پہلی آیت میں دین اسلام کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف منسوب کرکے کہا گیا تھا مِلَّۃ اِبْرَاھِیمَ حنیْفًا اس جگہ دین کو براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کر کے بتلا دیا کہ دین در حقیقت اللہ تعالیٰ کا ہے، کسی پیغمبر کی طرف اس کی نسبت مجازاً کردی جاتی ہے اور اس جگہ ملت کو صبغۃ کے لفظ سے تعبیر کرکے دو باتوں کی طرف اشارہ کردیا اول تو نصاریٰ کی تردید ہوگئی نصاریٰ کے یہاں ایک ضروری رسم یہ تھی کہ بچہ کو پیدائش کے ساتویں روز ایک زرد رنگ کے پانی میں نہلاتے تھے اور ختنہ کے بجائے اسی نہلانے کو بچہ کی طہارت اور دین نصرانیت کا پختہ رنگ سمجھتے تھے، نصرانیوں کی اصطلاح میں اس رسم کو ” بپتسمہ “ کہتے ہیں، اس آیت نے بتلا دیا کہ یہ پانی کا رنگ دھل کر ختم ہوجاتا ہے اسکا بعد میں کوئی اثر نہیں رہتا، اصل رنگ تو دین اور ایمان کا ہے جو ظاہری اور باطنی پاکیزگی کی ضمانت ہے، اور پائدار بھی، دوسرے دین کو رنگ فرما کر اس کی طرف اشارہ ہوگیا کہ جس طرح رنگ آنکھوں سے محسوس ہوتا ہے مومن کے ایمان کی علامت اس کے چہرہ بشرہ اور تمام حرکات و سکنات و معاملات سے ظاہر ہونی چاہیے۔ صِبْغَۃَ اللہِ کے دو ترجمے ہوسکتے ہیں اول یہ کہ ہم نے اللہ کا رنگ اختیار کرلیا، دوسرا یہ کہ اللہ کا رنگ اختیار کرو۔
10 Tafsir as-Saadi
یعنی اللہ کا رنگ اختیار کرلو، اللہ کے رنگ سے مراد اللہ کا دین ہے، اس کے تمام ظاہری، باطنی اعمال اور تمام اوقات میں اس کے تمام عقائد پر عمل کرو یہاں تک کہ یہ دین تمہارا رنگ اور تمہاری صفات میں سے ایک صفت بن جائے۔ پس جب یہ دین تمہاری صفت بن جائے گا تو یہ تمہارے لیے اس بات کو ضروری کر دے گا کہ تم خوشی، اختیار اور محبت سے اللہ کے حکموں کے آگے سرتسلیم خم کر دو اور دین تمہاری فطرت اور طبیعت بن جائے گا۔ جیسے کپڑے کو مکمل طور پر رنگ دیا جائے تو یہ رنگ اس کپڑے کی صفت بن جاتا ہے، تب تمہیں دنیاوی اور آخروی سعادت حاصل ہوجائے گی، کیونکہ دین مکارم اخلاق، محاسن اعمال اور بلند متربہ امور کو اختیار کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے برسبیل تعجب، پاک اور طاہر عقلوں سے مخاطب ہو کر فرمایا : ﴿صِبْغَۃَ اللّٰہِ ۚ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبْغَۃً﴾ یعنی کوئی اور رنگ اللہ کے رنگ سے اچھا نہیں۔ جب تم کوئی ایسی مثال دیکھنا چاہو جو تمہارے سامنے اللہ کے رنگ اور کسی اور رنگ کے مابین فرق کو واضح کرے تو تم کسی چیز کا اس کی ضد کے ساتھ مقابلہ کر کے دیکھو۔ آپ اس بندہ مومن کو کیسا دیکھتے ہیں جو اپنے رب پر صحیح ایمان رکھتا ہے اور اس ایمان کے ساتھ ساتھ اس کا قلب اپنے رب کے سامنے جھک جاتا ہے اور جوارح اس کی اطاعت کرتے ہیں، پس بندہ مومن ہر اچھے وصف، خوبصورت فعل، کامل اخلاق اور بلند صفات کے زیور سے اپنے آپ کو آراستہ کرنے اور گندی صفات، رذیل عادات اور دیگر تمام عیوب سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ پس قول و فعل میں سچائی، صبر، بردباری، پاکبازی، شجاعت، قولی و فعلی احسان، محبت الٰہی، خشیت الٰہی، اللہ کا خوف اور اس سے امیدرکھنا، اس کا وصف بن جاتا ہے۔ پس اس کا حال معبود کے لیے اخلاص اور اس کے بندوں کے لیے حسن سلوک ہوجاتا ہے۔ اس کا مقابلہ اس بندے کے ساتھ کیجیے جس نے اپنے رب کا انکار کیا، اس سے منہ موڑ کر مخلوق کی طرف متوجہ ہوا اور کفر، شرک، جھوٹ، خیانت، مکرو فریب، دھوکہ، بد کرداری اور اپنے اقوال و افعال کے ذریعے سے مخلوق کے ساتھ برے سلوک جیسی صفات قبیحہ سے اپنے آپ کو متصف کیا۔ اس بندے میں اپنے معبود کے لیے اخلاص ہے نہ اس کے بندوں کے لیے حسن سلوک کا اہتمام۔ اس سے آپ کے سامنے وہ عظیم فرق ظاہر ہوجاتا ہے جو ان دو بندوں کے درمیان ہے اور آپ پر یہ حقیقت بھی واضح ہوجاتی ہے کہ کوئی دوسرا رنگ اللہ کے رنگ سے اچھا نہیں نیز ضمنی طور پر اس میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ جس نے اللہ کے دین کے سوا کوئی اور رنگ اختیار کیا اس سے بدتر کوئی اور رنگ نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿وَّنَحْنُ لَہٗ عٰبِدُوْنَ﴾میں اس رنگ کی توضیح ہے۔ اللہ کا رنگ درحقیقت دو بنیادوں کو قائم کرنا ہے، یعنی اخلاص اور متابعت کیونکہ ” عبادت“ ان تمام اعمال اور ظاہری و باطنی اقوال کا جامع نام ہے جنہیں اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے اور وہ ان پر راضی ہے۔ یہ اعمال و اقوال اس وقت تک درست قرار نہیں پاتے جب تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے رسول کی زبان پر مشروع قرار نہ دیا ہو۔ اخلاص یہ ہے کہ بندہ مومن ان اعمال میں صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کو اپنا مقصد بنائے۔ پس معمول کو مقدم رکھنا یعنی ” عَابِدُوْنَ لَہ “ کی بجائے ” لَہ عَابِدُوْنَ “ کہنا) حصر کا فائدہ دیتا ہے۔ ﴿وَّنَحْنُ لَہٗ عٰبِدُوْنَ﴾اللہ تعالیٰ نے ان کو اسم فاعل (عَابِدُوْنَ) سے موصوف کیا ہے جو ثبات و استقرار پر دلالت کرتا ہے تاکہ یہ لفظ ان کے اس صفت سے متصف ہونے پر دلالت کرے۔
11 Mufti Taqi Usmani
. ( aey musalmano ! keh do kay : ) hum per to Allah ney apna rang charha diya hai , aur kon hai jo Allah say behtar rang charrhaye-? aur hum sirf ussi ki ibadat kertay hain .