البقرہ آية ۱۴۴
قَدْ نَرٰى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِى السَّمَاۤءِۚ فَلَـنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضٰٮهَاۖ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَـرَامِۗ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ شَطْرَهٗ ۗ وَاِنَّ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ لَيَـعْلَمُوْنَ اَنَّهُ الْحَـقُّ مِنْ رَّبِّهِمْۗ وَمَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُوْنَ
طاہر القادری:
(اے حبیب!) ہم بار بار آپ کے رُخِ انور کا آسمان کی طرف پلٹنا دیکھ رہے ہیں، سو ہم ضرور بالضرور آپ کو اسی قبلہ کی طرف پھیر دیں گے جس پر آپ راضی ہیں، پس آپ اپنا رخ ابھی مسجدِ حرام کی طرف پھیر لیجئے، اور (اے مسلمانو!) تم جہاں کہیں بھی ہو پس اپنے چہرے اسی کی طرف پھیر لو، اور وہ لوگ جنہیں کتاب دی گئی ہے ضرور جانتے ہیں کہ یہ (تحویلِ قبلہ کا حکم) ان کے رب کی طرف سے حق ہے، اور اﷲ ان کاموں سے بے خبر نہیں جو وہ انجام دے رہے ہیں،
English Sahih:
We have certainly seen the turning of your face, [O Muhammad], toward the heaven, and We will surely turn you to a qiblah with which you will be pleased. So turn your face [i.e., yourself] toward al-Masjid al-Haram. And wherever you [believers] are, turn your faces [i.e., yourselves] toward it [in prayer]. Indeed, those who have been given the Scripture [i.e., the Jews and the Christians] well know that it is the truth from their Lord. And Allah is not unaware of what they do.
1 Abul A'ala Maududi
یہ تمہارے منہ کا بار بار آسمان کی طرف اٹھنا ہم دیکھ رہے ہیں لو، ہم اُسی قبلے کی طرف تمہیں پھیرے دیتے ہیں، جسے تم پسند کرتے ہو مسجد حرام کی طرف رُخ پھیر دو اب جہاں کہیں تم ہو، اُسی کی طرف منہ کر کے نماز پڑھا کرو یہ لوگ جںہیں کتاب دی گئی تھی، خو ب جانتے ہیں کہ (تحویل قبلہ کا) یہ حکم ان کے رب ہی کی طرف سے ہے اور بر حق ہے، مگرا س کے باوجود جو کچھ یہ کر رہے ہیں، اللہ اس سے غافل نہیں ہے
2 Ahmed Raza Khan
ہم دیکھ رہے ہیں بار بار تمہارا آسمان کی طرف منہ کرنا تو ضرور ہم تمہیں پھیردیں گے اس قبلہ کی طرف جس میں تمہاری خوشی ہے ابھی اپنا منہ پھیر دو مسجد حرام کی طرف اور اے مسلمانو! تم جہاں کہیں ہو اپنا منہ اسی کی طرف کرو اور وہ جنہیں کتاب ملی ہے ضرور جانتے کہ یہ انکے رب کی طرف سے حق ہے اور اللہ ان کے کوتکوں (اعمال) سے بے خبر نہیں-
3 Ahmed Ali
بے شک ہم آپ کے منہ کا آسمان کی طرف پھرنا دیکھ رہے ہیں سو ہم آپ کو اس قبلہ کی طرف پھیر دیں گے جسے آپ پسند کرتے ہیں پس اب اپنا منہ مسجد حرام کی طرف پھیر لیجیئے اور جہاں کہیں تم ہوا کرو اپنے مونہوں کو اسی کی طرف پھیر لیا کرو اور بے شک وہ لوگ جنہیں کتاب دی گئی ہے یقیناً جانتے ہیں کہ وہی حق ہے ان کے رب کی طرف سے اور الله اس سے بے خبر نہیں جو وہ کر رہے ہیں
4 Ahsanul Bayan
ہم آپ کے چہرے کو بار بار آسمان کی طرف اٹھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، اب آپکو ہم اس قبلہ کی طرف متوجہ کریں گیں جس سے آپ خوش ہو جائیں آپ اپنا منہ مسجد حرام کی طرف پھیر لیں آپ جہاں کہیں ہوں اپنا منہ اسی طرف پھیرا کریں۔ اہل کتاب کو اس بات کے اللہ کی طرف سے برحق ہونے کا قطعی علم ہے (١) اور اللہ تعالٰی ان اعمال سے غافل نہیں جو یہ کرتے ہیں۔
١٤٤۔١ اہل کتاب کے مختلف مقدس کتابوں میں خانہ کعبہ کے قبلہ آخر الانبیاء ہونے کے واضح اشارات موجود ہیں۔ اس لئے اس کا برحق ہونا انہیں یقینی طور پر معلوم تھا، مگر ان کا نسلی غرور و حسد قبول حق میں رکاوٹ بن گیا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
(اے محمدﷺ) ہم تمہارا آسمان کی طرف منہ پھیر پھیر کر دیکھنا دیکھ رہے ہیں۔ سو ہم تم کو اسی قبلے کی طرف جس کو تم پسند کرتے ہو، منہ کرنے کا حکم دیں گے تو اپنا منہ مسجد حرام (یعنی خانہٴ کعبہ) کی طرف پھیر لو۔ اور تم لوگ جہاں ہوا کرو، (نماز پڑھنے کے وقت) اسی مسجد کی طرف منہ کر لیا کرو۔ اور جن لوگوں کو کتاب دی گئی ہے، وہ خوب جانتے ہیں کہ (نیا قبلہ) ان کے پروردگار کی طرف سے حق ہے۔ اور جو کام یہ لوگ کرتے ہیں، خدا ان سے بے خبر نہیں
6 Muhammad Junagarhi
ہم آپ کے چہرے کو بار بار آسمان کی طرف اٹھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، اب ہم آپ کو اس قبلہ کی جانب متوجہ کریں گے جس سے آپ خوش ہوجائیں، آپ اپنا منھ مسجد حرام کی طرف پھیر لیں اور آپ جہاں کہیں ہوں اپنا منھ اسی طرف پھیرا کریں۔ اہل کتاب کو اس بات کے اللہ کی طرف سے برحق ہونے کا قطعی علم ہے اور اللہ تعالیٰ ان اعمال سے غافل نہیں جو یہ کرتے ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
(اے رسول(ص)) تحویل قبلہ کی خاطر) تیرا بار بار آسمان کی طرف منہ کرنا ہم دیکھ رہے ہیں۔ تو ضرور اب ہم تمہیں موڑ دیں گے اس قبلہ کی طرف جو تمہیں پسند ہے۔ بس اپنا رخ مسجد الحرام کی طرف موڑ دیجئے۔ اور (اے اہل ایمان) تم جہاں کہیں بھی ہو اپنے منہ (نماز پڑھتے وقت) اسی طرف کیا کرو۔ جن لوگوں کو (آسمانی) کتاب (تورات وغیرہ) دی گئی ہے وہ بخوبی جانتے ہیں کہ یہ (تحویل قبلہ کا فیصلہ) ان کے پروردگار کی طرف سے ہے اور یہ حق ہے۔ اور جو کچھ (یہ لوگ) کر رہے ہیں اللہ اس سے بے خبر نہیں ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اے رسول ہم آپ کی توجہ کو آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں تو ہم عنقریب آپ کو اس قبلہ کی طرف موڑ دیں گے جسے آپ پسند کرتے ہیں لہٰذا آپ اپنا رخ مسجدالحرام کی جہت کی طرف موڑ دیجئے اور جہاں بھی رہئے اسی طرف رخ کیجئے. اہلِ کتاب خوب جانتے ہیں کہ خدا کی طرف سے یہی برحق ہے اور اللہ ان لوگوں کے اعمال سے غافل نہیں ہے
9 Tafsir Jalalayn
(اے محمد) ہم تمہارا آسمان کی طرف منہ پھیر پھیر کر دیکھنا دیکھ رہے ہیں سو ہم تم کو اسی قبلہ کی طرف جس کو تم پسند کرتے ہو منہ کرنے کا حکم دیں گے تو اپنا منہ مسجد حرام (یعنی خانہ کعبہ) کی طرف پھیر لو اور تم لوگ جہاں ہوا کرو (نماز پڑھنے کے وقت) اسی مسجد کی طرف منہ کرلیا کرو اور جن لوگوں کو کتاب دی گئی ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ (نیا قبلہ) ان کے پروردگار کی طرف سے حق ہے اور جو کام یہ لوگ کرتے ہیں خدا ان سے بیخبر نہیں
آیت نمبر ١٤٤ تا ١٤٧
ترجمہ : قد تحقیق کے لئے ہے، ہم آپ کے چہرے کو آسمان کی طرف وحی کی طلب اور استقبال کعبہ کے شوق میں بار بار اٹھتا ہوا دیکھ رہے ہیں، اور آپ (کعبہ) کو اس لئے پسند فرماتے تھے کہ (کعبہ) ابراہیم (علیہ السلام) کا قبلہ تھا، اور اس لئے بھی کہ کعبہ کو قبلہ قرار دینا عربوں کو اسلام کی طرف بلانے میں زیادہ مؤثر (اپیل کرنے والا) تھا، سو ہم آپ کو اسی قبلہ کی جانب پھیر دیتے ہیں جس کو آپ پسند کرتے ہیں آپ اپنا رخ نماز میں مسجد حرام یعنی کعبہ کی جانب پھیر لیں اور (اے مسلمانو ! ) تم جہاں کہیں بھی ہو یہ امت کو خطاب ہے، اپنے چہرے کا (رخ) نماز میں اسی طرف کیا کریں اہل کتاب کو قطعی علم ہے کہ کعبہ کی طرف رخ کرنا ان کے رب کی جانب سے قطعی حق ہے اس لئے کہ ان کی کتابوں میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کئ صفات کے بارے میں یہ موجود ہے کہ وہ (نماز میں) رخ کعبہ کی طرف کریں گے، اور اللہ تعالیٰ ان کے اعمال سے بیخبر نہیں یاء اور تاء کے ساتھ، اے مومنو ! امتشال امر وغیرہ جو تم کرتے ہو اور یہود قبلہ کے حکم کا جو انکار کرتے ہیں (اللہ اس سے غافل نہیں ہے) اور اگرچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لئِنْ میں لام قسمیہ ہے، قبلہ کے معاملہ میں اپنی صداقت پر تمام دلیلیں پیش کردیں تب بھی وہ دشمنی کی وجہ سے آپ کے قبلہ کی پیروی کرنے والے نہیں اور نہ آپ ان کے قبلہ کی پیروی کرنے والے ہیں، یہ ان کے اسلام کے بارے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امید کو منقطع کرنا ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں ان کے قبلہ کی طرف لوٹنے کی امید کو منقطع کرنا ہے، اور نہ یہ یہود و نصاریٰ آپس میں ایک دوسرے کے قبلہ کی اتباع کرنے والے ہیں، یعنی نہ یہود و نصاریٰ کے قبلہ کی اور برعکس اور اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، آپ کے پاس علم آجانے کے باوجود ان کی ان خواہشوں کے پیچھے لگ جائیں جن کی طرف وہ دعوت دے رہے ہیں (یعنی) بالفرض اگر آپ ان کی اتباع کریں تو آپ یقیناً ظالموں میں سے ہوں گے، جنہیں ہم نے کتاب دی ہے، وہ تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایسا پہچانتے ہیں جیسا کوئی اپنے بیٹوں کو پہچانتا ہے ان کی کتابوں میں آپ کی صفات کے موجود ہونے کی وجہ سے، عبد اللہ بن سلام نے کہا : جب میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا تو میں آپ کو اس طرح پہچان گیا، جیسے اپنے بیٹے کو پہچانتا ہوں، بلکہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شناخت اس سے بھی زیادہ ہے۔ (رواہ البخاری) بلاشبہ ان میں ایک جماعت آپ کی صفات کو چھپاتی ہے باوجود یکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ یہ (طریقہ) جس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں حق ہے جو آپ کے رب کی جانب سے ہے، سنو ! آپ شک کرنے والوں میں نہ ہوجانا یعنی شک کرنے والوں کی قسم سے نہ ہوجانا، فَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ (طرزِ خطاب) میں لاتَمْتَرْ سے زیادہ بلیغ ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : قَدْ تحقیق کے لئے ہے کما صرّح المفسر العلام، اور بعض کے نزدیک تکثیر کے لئے ہے اور یہ کثرت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نسبت سے ہے، یعنی ہم آپ کی نظر کو بکثرت آسمان کی طرف اٹھتا ہوا دیکھتے ہیں، یہاں قَدْ تقلیل کا اس لئے نہیں ہوسکتا کہ تقلب اس کی نفی کرتا ہے اس لئے کہ تقلب کثرت کا تقاضہ کرتا ہے۔
قولہ : نُوَلِّیَنَّکَ مضارع جمع متکلم بانون تاکید ثقیلہ، مصدر تَوْلِیَۃً کاف ضمیر مفعول ہے ہم آپ کو ضرور پھیر دیں گے، مراد اس سے تحویل قبلہ ہے جو غزوہ بدر سے دو ماہ قبل ماہ رجب میں بروایت براء بن عازب (رض) زوال آفتاب کے بعد عصر کی نماز میں ہوئی، مجاہد کے قول سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحابہ کو بنی سلمہ کی مسجد میں ظہر کی نماز پڑھا رہے تھے۔
قولہ : اَیُّھَا المومنون الخ یہ تعلمون کی صورت میں ہے۔
قولہ : قَطْع لطمعِہ فی اسلامِھم وطَمعِھمْ فی غودِھَا اِلَیھَا ان میں لف و نشر مرتب ہے۔
قولہ : الیھور قبلۃَ النصاریٰ وبالعکس یہود کا قبلہ صخرۃ البیت المقدس تحا اور نصاریٰ کا صخرہ کی مشرق کی جانب۔
قولہ : فرضًا فرضاً کے اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔
سوال : لَئنْ اَتَیْتَ میں ان استعمال ہوا ہے جو کہ غیر یقینی چیزوں کے لئے استعمال ہوتا ہے حالانکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ان کے قبلہ کی اتباع نہ کرنا اور ان کا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قبلہ کی اتباع نہ کرنا یقینی تھا۔
جواب : علیٰ سبیل الفرض تسلیم کرتے ہوئے، اِنْ کا استعمال کیا گیا ہے۔
قولہ : ھٰذا الذی انت علیہ الحقُّ ھٰذا اسم اشارہ، الذی انت علیہ موصول صلہ سے مل کر مشار الیہ جملہ ہو کر مبتدا٫ الحقُّ اس کی خبر۔
تفسیر و تسریح
وحی خفی سے ثابت شدہ حکم کا کتاب اللہ سے نسخ : جصاص (رح) تعالیٰ نے احکام القرآن میں فرمایا کہ قرآن کریم میں کہیں اس کی تصریح نہیں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قبل ہجرت بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا گیا تھا، البتہ اس کا ثبوت صرف سنت نبوی سے ہے تو جو حکم سنت نبوی سے ثابت ہوا تھا اس کو آیت قرآنی سے منسوخ کرکے آپ کا قبلہ بیت اللہ کو قرار دیدیا تھا۔
اس سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ حدیث رسول بھی ایک حیثیت سے قرآن ہی ہے اور یہ کہ کچھ احکام وہ بھی ہیں جو قرآن میں مذکور نہیں صرف حدیث سے ثابت ہیں اور قرآن ان کی شرعی حیثیت کو تسلیم کرتا ہے کیونکہ اسی آیت کے آخر میں یہ بھی مذکور ہے کہ جو نمازیں بامر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت المقدس کی طرف پڑھی گئیں وہ عند اللہ معتبر ہیں بخاری و مسلم اور تمام معتبر کتب حدیث میں متعدد صحابہ کرام (رض) کی روایت سے منقول ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر تحویل قبلہ کا حکم نازل ہوا تو آپ نے عصر کے بجائے ظہر کی نماز مذکور ہے (ابن کثیر) بعض صحابہ کرام (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نماز پڑھ کر باہر گئے اور دیکھا کہ قبیلہ بنی سلمہ کے لوگ اپنی مسجد میں حسب سابق بیت المقدس کی جانب نماز پڑھ رہے ہیں تو انہوں نے آواز دے کر کہا کہ اب قبلہ بیت اللہ کی طرف ہوگیا ہے، ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بیت اللہ کی طرف نماز پڑھ کر آئے ہیں ان لوگوں نے درمیان نماز ہی میں اپنا رخ بیت المقدس سے بیت اللہ کی طرف پھیرلیا، نویلہ بنت مسلم کی روایت میں ہے کہ جو عورتیں پچھلی صفوں میں تھیں وہ اگلی صفوں میں اور مرد جو اگلی صفوں میں تھے وہ پچھلی صفوں میں ہوگئے اس کے بعد صفوں کی ترتیب درست ہوئی۔
بنو سلمہ کے لوگوں نے تحویل قبلہ پر عصر ہی کی نماز میں عمل کیا، مگر قباء میں یہ خبر اگلے روز صبح کی نماز میں پہنچی جیسا کہ بخاری و مسلم میں بروایت ابن عمر (رض) مذکور ہے، اہل قباء نے بھی اپنا رخ نماز ہی میں بیت المقدس سے بیت اللہ کی طرف پھیرلیا۔ (ابن کثیر، و جصاص)
لاوڈ اسپیکر پر نماز کا مسئلہ : مائک (لاوڈ اسپیکر) پر نماز جاء ز ہے یہ بات ظاہر ہے کہ اتباع لاوڈ اسپیکر کا نہیں ہوتا، بلکہ اتباع تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس حکم کا ہوتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب امام رکوع کرے رکوع کرو اور جب سجدہ کرے سجدہ کرو، لاوڈ اسپیکر تو محض امام کی آواز کو بلند کرنے کا واسطہ ہے نہ کہ مقتدیٰ ، اس لئے کہ مائک کی آواز بعینہ امام کی آواز ہوتی ہے نہ کہ حکایت و نقل لہٰذا مائک پر نماز کے جواز میں کوئی اشکال نہیں۔ (معارف ملخصا)
قَدّ نَرَیٰ تَقَلُّبَ وَجْھِکَ اس آیت سے متعلق ضروری مضمون سابق تشریح کے ضمن میں گزر چکا ہے۔
مسئلہ استقبالِ قبلہ : اگرچہ تمام جہتیں اللہ ہی کی ہیں وہ کسی خاص جہت میں محدود نہیں ہے، لیکن مصالح امت کے لئے بتقاضائے حکمت کسی ایک جہت کا تمام دنیا میں پھیلے ہوئے مسلمانوں کے لئے قبلہ بنا کر سب میں ایک دینی وحدت کا عملی مظاہرہ مقصود تھا، وہ جہت بیت المقدس بھی ہوسکتی تھی، مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تمنا و خواہش کے مطابق بیت اللہ کو قبلہ بنادیا گیا، اسی کا حکم اس آیت میں دیا گیا ہے قرآن مجید میں جہت قبلہ کے لئے جو الفاظ استعمال کئے گئے ہیں وہ یہ ہیں : فَوَلِّ وَجّھَکَ شَطْرَ الْمَسْجدِ الحرامِ اللہ تعالیٰ نے فَوَلِّ وَجْھَکَ اِلَی الْکَعْبَۃِ کی مختصر تعبیر کو چھوڑ کر شطْر المسجد الحرامِ کی طویل تعبیر اختیار فرمائی، اس تعبیر سے استقبال قبلہ کے کئی مسائل واضح ہوگئے۔
(١) اول یہ کہ اگرچہ اصل قبلہ بیت اللہ ہے جس کو کعبۃ اللہ کہا جاتا ہے جو کہ ایک چھوٹی سی مربع عمارت ہے، لیکن یہ ظاہر ہے کہ عین بیت اللہ کا استقبال اس جگہ تک تو ممکن ہے جہاں تک بیت اللہ نظر آتا ہے، لیکن وہ لوگ جو بیت اللہ سے دور ہیں جن کو بیت اللہ نظر نہیں آتا ان پر یہ پابندی عائد کعنا کہ عین بیت اللہ کی طرف رخ ضروری ہے تو اس میں بہت دشواری ہوگی، خاص آلات اور حساب کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے ہے جو نہ ہر شخص کو دستیاب اور نہ ان کے استعمال پر قادر شریعت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مدار چونکہ سہولت پر ہے اس لئے بجائے بیت اللہ یا کعبہ کے مسجد حرام کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو کہ بیت اللہ کے مقابلہ میں کافی وسیع ہے اس کی طرف رخ کرنا دور دراز کے لوگوں کے لئے آسان ہے۔
(٢) دوسری سہولت لفظ شطر اختیار کرکے دیدی گئی ورنہ اس سے مختصر لفظ الی المسجد الحرام تھا، شطر کے دو معنی ہیں ایک نصف اور دوسرے سمت باتفاق مفسرین یہاں سمت کے معنی مراد ہیں اس سے معلوم ہوگیا کہ بلاد بعیدہ میں یہ ضروری نہیں کہ خاص مسجد حرام ہی کی طرف ہر ایک کا رخ ضروری ہے بلکہ سمت مسجد حرام کافی ہے۔ (بحر محیط، معارف)
مثلاً مشرقی ممالک ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش وغیرہ کے لئے جانب مغرب مسجد حرام کی سمت ہے اور چونکہ موسم سرما
و گرما میں سمت مغرب میں اختلاف ہوتا رہتا ہے اس لئے فقہاء رحمہم اللہ نے اس سمت کو سمت مغرب و قبلہ قرار دیا ہے جو دونوں
موسموں کے درمیان ہے۔
قواعد ریاضی کے اعتبار سے سمت قبلہ : قواعد ریاضی کے حساب سے صورت مسئلہ یہ ہوگی کہ مغرب صیف اور مغرب شتا کے درمیان ٤٨ ذگری تک سمت قبلہ قرار دی جائے گی، یعنی ٢٤ ڈگری تک بھی اگر انحراف ہوجائے تب بھی سمت قبلہ فوت ہوگی۔ (شرح چغمینی، معارف)
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک حدیث سے اس کی مزید وضاحت ہوجاتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں مَا بَیْنَ المَشرِقِ والمَغْرب قبلۃ (قرمذی) آپ کا یہ ارشاد مدینہ طیبہ والوں کے لئے تھا اس لئے کہ ان کا قبلہ مشرق و مغرب کے درمیان جانب جنوب واقع تھا، اس حدیث سے گویا کہ لفظ شطر کی تشریح ہوگئی۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرماتا ہے :﴿ قَدْ نَرٰی تَـقَلُّبَ وَجْہِکَ فِی السَّمَاۗءِ ۚ﴾ ” ہم تمہارا آسمان کی طرف منہ پھیر پھیر کر دیکھنا دیکھ رہے ہیں۔“ یعنی ہم آپ کو دیکھتے ہیں کہ آپ استقبال کعبہ کے بارے میں نزول وحی کے شوق اور انتظار میں اپنا منہ تمام جہات میں کثرت سے پھیرتے ہیں یہاں اللہ تعالیٰ نے ﴿وَجْهِكَ﴾ ارشاد فرمایا ہے ﴿بَصَرِكَ﴾ نہیں، کیونکہ اس سے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فکر و غم کی زیادتی کو بیان کرنا مقصود ہے، نیز چہرہ پھیرنا نظر پھیرنے کو بھی شامل ہے۔ ﴿فَلَنُوَلِّيَنَّكَ﴾” سو ہم آپ کو پھیر دیں گے۔“ یعنی چونکہ ہم آپ کے سرپرست اور مددگار ہیں اس لیے ہم ضرور آپ کا منہ پھیر دیں گے ﴿قِبْلَۃً تَرْضٰیھَا ۠﴾” اس قبلہ کی طرف جس کو آپ پسند کرتے ہیں۔“ یعنی ہم آپ کا منہ اس قبلہ کی طرف پھیر دیں گے جسے آپ پسند کرتے ہیں اور وہ ہے کعبہ شریف۔ اس آیت کریمہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شرف و فضیلت کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے پسندیدہ امر کے مطابق حکم نازل کرنے میں جلدی فرمائی۔ اس کے بعد اللہ نے آپ کو استقبال کعبہ کا صراحتاً حکم فرمایا۔ چنانچہ فرمایا : ﴿ فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۭ﴾” پس اپنا چہرہ مسجد حرام کی طرف موڑ لیں“ (وَجْہٌ) سے مراد انسان کے بدن کے سامنے کا حصہ ہے۔ فرمایا : ﴿ وَحَیْثُ مَا کُنْتُمْ﴾” اور تم جہاں کہیں بھی ہو“ یعنی بحر و بر، مشرق و مغرب اور شمال و جنوب جہاں کہیں بھی ہو ﴿فَوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ شَطْرَہٗ ﴾” پس اپنے چہروں کو اس جہت کی طرف پھیر لو۔“ اس آیت کریمہ سے واضح ہے کہ تمام نمازوں میں، خواہ فرض ہوں یا نفل اگر عین کعبہ کی طرف منہ کرناممکن ہو تو اس کی طرف منہ کرنا فرض ہے ورنہ اس کی طرف اور جہت میں منہ کرلیناکافی ہے اور یہ کہ نماز کے اندر بدن کے ساتھ ادھر ادھر التفات کرنا نماز کو باطل کرنے والا عمل ہے، کیونکہ کسی چیز کی بات حکم دینا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کی ضد ممنوع ہے۔
گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے کہ جہاں اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب وغیرہ میں سے اعتراض کرنے والوں کا ذکر کیا ہے وہاں ان کے اعتراض کا جواب بھی دیا ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ اہل کتاب اور ان کے اہل علم جانتے ہیں کہ آپ اس معاملے میں واضح حق پر ہیں، کیونکہ انہیں اپنی کتابوں میں اس نبی کی نشانیاں ملتی ہیں۔ اس لیے وہ عناد اور سرکشی کی وجہ سے اعتراض کرتے ہیں۔ پس جب وہ اپنے کرتوتوں کی وجہ سے مبتلائے غم ہیں تو تم ان کے اعتراضات کی پروا نہ کرو۔ اس لیے کہ انسان کو صرف اس اعتراض کرنے والے کا اعتراض غم میں ڈالتا ہے، جب معاملہ مشتبہ ہو اور اس کا امکان ہو کہ صواب (صحیح بات) اس کے ساتھ ہو۔
لیکن جب یہ یقین ہوجائے کہ حق صواب اس شخص کے ساتھ ہے جس پر اعتراض کیا جا رہا ہے اور اعتراض کرنے والا محض عناد سے کام لے رہا ہے اور اسے یہ بھی علم ہے کہ معترض کا اعتراض باطل ہے تو اسے پروا نہیں کرنی چاہئے، بلکہ اسے انتظار کرنا چاہئے کہ معترض کو دنیاوی اور اخروی عقوبت کا ضرور سامنا کرنا پڑے گا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ وَمَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعْمَلُوْنَ﴾ اللہ ان کے اعمال سے بے خبر نہیں“ بلکہ وہ ان کے اعمال کو محفوظ کرتا ہے اور ان کو ان کے اعمال کی جزا دے گا۔ اس آیت کریمہ میں اعتراض کرنے والوں کے لیے وعید اور اہل ایمان کے لیے تسلی ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
. ( aey payghumber ! ) hum tumharay chehray ko baar baar aasman ki taraf uthtay huye dekh rahey hain . chunacheh hum tumhara rukh zaroor uss qiblay ki taraf pher den gay jo tumhen pasand hai . lo abb apna rukh masjid-e-haram ki samt kerlo . aur ( aaenda ) jahan kahen tum ho apney chehron ka rukh ( namaz parhtay huye ) ussi ki taraf rakha kero . aur jinn logon ko kitab di gaee hai woh khoob jantay hain kay yehi baat haq hai jo unn kay perwerdigar ki taraf say aai hai . aur jo kuch yeh ker rahey hain Allah uss say ghafil nahi hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
خشوع و خضوع ضروری ہے
حضرت ابن عباس کا بیان ہے کہ قرآن میں قبلہ کا حکم پہلا نسخ ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ کی طرف ہجرت کی یہاں کے اکثر باشندے یہود تھے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بیت المقدس کی طرف نمازیں پڑھنے کا حکم دیا یہود اس سے بہت خوش ہوئے۔ آپ کئی ماہ تک اسی رخ نماز پڑھتے رہے لیکن خود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی چاہت قبلہ ابراہیمی کی تھی آپ اللہ سے دعائیں مانگا کرتے تھے اور نگاہیں آسمان کی طرف اٹھایا کرتے تھے بالاخر آیت (قد نری) الخ نازل ہوئی اس پر یہود کہنے لگے کہ اس قبلہ سے یہ کیوں ہٹ گئے جس کے جواب میں کہا گیا کہ مشرق اور مغرب کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے اور فرمایا جدھر تمہارا منہ ہو ادھر ہی اللہ کا منہ ہے اور فرمایا کہ اگلا قبلہ امتحاناً تھا۔ اور روایت میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز کے بعد اپنا سر آسمان کی طرف اٹھاتے تھے اس پر یہ آیت اتری اور حکم ہوا کہ مسجد حرام کی طرف کعبہ کی طرف میزاب کی طرف منہ کرو جبرائیل (علیہ السلام) نے امامت کرائی۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے مسجد حرام میں میزاب کے سامنے بیٹھے ہوئے اس آیت پاک کی تلاوت کی اور فرمایا میزاب کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم ہے۔ امام شافعی کا بھی ایک قول یہ ہے کہ عین کعبہ کی طرف توجہ مقصود ہے اور دوسرا قول آپ کا یہ ہے کہ کعبہ کی جہت ہونا کافی ہے اور یہی مذہب اکثر ائمہ کرام کا ہے۔ حضرت علی فرماتے ہیں مراد اس کی طرف ہے ابو العالیہ مجاہد عکرمہ سعید بن جبیر قتادہ ربیع بن انس وغیرہ کا بھی یہی قول ہے۔ ایک حدیث میں بھی ہے کہ مشرق و مغرب کے درمیان قبلہ ہے ابن جریج میں حدیث ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں بیت اللہ مسجد حرام والوں کا قبلہ اور مسجد اہل حرام کا قبلہ اور تمام زمین والوں کا حرام قبلہ ہے خواہ مشرق میں ہوں خواجہ مغرب میں میری تمام امت کا قبلہ یہی ہے۔ ابو نعیم میں بروایت براء مروی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سولہ سترہ مہینے تک تو بیت المقدس کی طرف نماز پڑھی لیکن آپ کو پسند امر یہ تھا کہ بیت اللہ کی طرف پڑھیں چناچہ اللہ کے حکم سے آپ نے بیت اللہ کی طرف متوجہ ہو کر عصر کی نماز ادا کی پھر نمازیوں میں سے ایک شخص مسجد والوں کے پاس گیا وہ رکوع میں تھے اس نے کہا میں حلفیہ گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مکہ شریف کی طرف نماز ادا کی یہ سن کر وہ جس حالت میں تھے اسی حالت میں بیت اللہ شریف کی طرف پھرگئے عبدالرزاق میں بھی یہ روایت قدرے کمی بیشی کے ساتھ مروی ہے نسائی میں حضرت ابو سعید بن معلی سے مروی ہے کہ ہم صبح کے وقت مسجد نبوی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں جایا کرتے تھے اور وہاں کچھ نوافل پڑھا کرتے تھے ایک دن ہم گئے تو دیکھا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر پر بیٹھے ہوئے ہیں میں نے کہا آج کوئی نئی بات ضرور ہوئی ہے میں بھی بیٹھ گیا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت (قد نری) تلاوت فرمائی میں نے اپنے ساتھی سے کہا آؤ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فارغ ہوں منبر سے اترنے سے پہلے ہی ہم اس نئے حکم کی تعمیل کریں اور اول فرمانبردار بن جائیں چناچہ ہم ایک طرف ہوگئے اور سب سے پہلے بیت اللہ شریف کی طرف نماز پڑھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی منبر سے اتر آئے اور اس قبلہ کی طرف پہلی نماز ظہر ادا کی گئی۔ ابن مردویہ میں بروایت ابن عمر مروی ہے کہ پہلی نماز جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کعبہ کی طرف ادا کی وہ ظہر کی نماز ہے اور یہی نماز صلوٰۃ وسطی ہے لیکن مشہور یہ ہے کہ پہلی نماز کعبہ کی طرف عصر کی ادا کی ہوئی اسی وجہ سے اہل قبا کو دوسرے دن صبح کے وقت اطلاع پہنچی۔ ابن مردویہ میں روایت نویلہ بنت مسلم موجود ہے کہ ہم مسجد بنو حارثہ میں ظہر یا عصر کی نماز بیت المقدس کی طرف منہ کئے ہوئے ادا کر رہے تھے دو رکعت پڑھ چکے تھے کہ کسی نے آ کر قبلہ کے بدل جانے کی خبر دی۔ چناچہ ہم نماز میں بیت اللہ کی طرف متوجہ ہوگئے اور باقی نماز اسی طرف ادا کی، اس گھومنے میں مرد عورتوں کی جگہ اور عورتیں مردوں کی جگہ آگئیں، آپ کے پاس جب یہ خبر پہنچی تو خوش ہو کر فرمایا یہ ہیں ایمان بالغیب رکھنے والے۔ ابن مردویہ میں بروایت عمارہ بن اوس مروی ہے کہ رکوع کی حالت میں ہمیں اطلاع ہوئی اور ہم سب مرد عورتیں بچے اسی حالت میں قبلہ کی طرف گھوم گئے۔ پھر ارشاد ہوتا ہے تم جہاں بھی ہو مشرق مغرب شمال یا جنوب میں ہر صورت نماز کے وقت منہ کعبہ کی طرف کرلیا کرو۔ ہاں البتہ سفر میں سواری پر نفل پڑھنے والا جدھر سواری جا رہی ہو ادھر ہی نفل ادا کرنے اس کے دل کی توجہ کعبہ کی طرف ہونی کافی ہے اسی طرح میدان جنگ میں نماز پڑھنے والا جس طرح اور جس طرف بن پڑے نماز ادا کرلے اور اسی طرح وہ شخص جسے قبلہ کی جہت کا قطعی علم نہیں وہ اندازہ سے جس طرف زیادہ دل مانے نماز ادا کرلے۔ پھر گو اس کی نماز فی الواقع قبلہ کی طرف نہ بھی ہوئی ہو تو بھی وہ اللہ کے ہاں معاف ہے۔ مسئلہ مالکیہ نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ نمازی حالت نماز میں اپنے سامنے اپنی نظریں رکھے نہ کہ سجدے کی جگہ جیسے کہ شافعی، احمد اور ابوحنیفہ کا مذہب ہے اس لیے کہ آیت کے الفاظ یہ ہیں کہ منہ مسجد الحرام کی طرف کرو اور اگر سجدے کی جگہ نظر جمانا چاہے گا تو قدرے جھکنا پڑے گا اور یہ تکلیف کمال خشوع کے خلاف ہوگا بعض مالکیہ کا یہ قول بھی ہے کہ قیام کی حالت میں اپنے سینہ کی طرف نظر رکھے قاضی شریک کہتے ہیں کہ قیام کے وقت سجدہ کی جگہ نظر رکھے جیسے کہ جمہور جماعت کا قول ہے اس لئے کہ یہ پورا پورا خشوع خضوع ہے اور اور ایک حدیث بھی اس مضمون کی وارد ہوئی ہے اور رکوع کی حالت میں اپنے قدموں کی جگہ پر نظر رکھے اور سجدے کے وقت ناک کی جگہ اور التحیات کے وقت اپنی گود کی طرف پھر ارشاد ہوتا ہے کہ یہ یہودی جو چاہیں باتیں بنائیں لیکن ان کے دل جانتے ہیں کہ قبلہ کی تبدیلی اللہ کی جانب سے ہے اور برحق ہے کیونکہ یہ خود ان کی کتابوں میں بھی موجود ہے لیکن یہ لوگ کفر وعناد اور تکبر و حسد کی وجہ سے اسے چھپاتے ہیں اللہ بھی ان کی ان کرتوتوں سے بیخبر نہیں۔