البقرہ آية ۱۵۴
وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ يُّقْتَلُ فِىْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌ ۗ بَلْ اَحْيَاۤءٌ وَّلٰـكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ
طاہر القادری:
اور جو لوگ اﷲ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مت کہا کرو کہ یہ مُردہ ہیں، (وہ مُردہ نہیں) بلکہ زندہ ہیں لیکن تمہیں (ان کی زندگی کا) شعور نہیں،
English Sahih:
And do not say about those who are killed in the way of Allah, "They are dead." Rather, they are alive, but you perceive [it] not.
1 Abul A'ala Maududi
اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں، انہیں مُردہ نہ کہو، ایسے لوگ تو حقیقت میں زندہ ہیں، مگر تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ہوتا
2 Ahmed Raza Khan
اور جو خدا کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں ہاں تمہیں خبرنہیں-
3 Ahmed Ali
اور جو الله کی راہ میں مارے جائیں انہیں مرا ہوا نہ کہا کرو بلکہ وہ تو زندہ ہیں لیکن تم نہیں سمجھتے
4 Ahsanul Bayan
اور اللہ تعالٰی کی راہ کے شہیدوں کو مردہ مت کہو (١) وہ زندہ ہیں، لیکن تم نہیں سمجھتے۔
١٥٤۔١ شہدا کو مردہ نہ کہنا ان کے اعزاز اور تکریم کے لئے ہے، یہ زندگی برزخ کی زندگی ہے جس کو ہم سمجھنے سے قاصر ہیں یہ زندگی اعلٰے قدر مراتب انبیاء و مومنین، حتیٰ کہ کفار کو بھی حاصل ہے۔ شہید کی روح اور بعض روایات میں مومن کی روح بھی ایک پرندے کی طرح جنت میں جہاں چاہتی ہیں پھرتی ہیں دیکھیے وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ أَمْوَاتًا ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ ﴿١٦٩﴾ آل عمران (ابن کثیر)
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جو لوگ خدا کی راہ میں مارے جائیں ان کی نسبت یہ کہنا کہ وہ مرے ہوئے ہیں (وہ مردہ نہیں) بلکہ زندہ ہیں لیکن تم نہیں جانتے
6 Muhammad Junagarhi
اور اللہ تعالیٰ کی راه کے شہیدوں کو مرده مت کہو وه زنده ہیں، لیکن تم نہیں سمجھتے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتل کیے جاتے ہیں، انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں۔ مگر تمہیں (ان کی زندگی کی حقیقت کا) شعور (سمجھ) نہیں ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور جو لوگ راہ هخدا میں قتل ہوجاتے ہیں انہیں مفِدہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور جو لوگ خدا کی راہ میں مارے جائیں ان کی نسبت یہ نہ کہنا کہ وہ مرے ہوئے ہیں (وہ مردہ نہیں) بلکہ زندہ ہیں لیکن تم نہیں جانتے
شان نزول : وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ اَمْوَاتٌ غزوہ بدر میں جب چند صحابہ شہید ہوگئے جن کی تعداد چودہ تھی چھ مہاجر اور آٹھ انصار تھے تو نافہم منافقوں اور کافروں نے کہنا شروع کردیا کہ انہوں نے خواہ مخواہ اپنی زندگی گنوا دی، اور زندگی کے لطف سے محروم ہوگئے، انہیں جواب دیا جا رہا ہے کہ تم جس معنی میں انہیں مردہ سمجھ رہے ہو اس معنی کے اعتبار سے وہ سرے سے مردہ ہی نہیں بلکہ زندوں سے کہیں زیادہ لذت سے لذت یاب ہو رہے ہیں، اصطلاح میں ایسے مقتول کو شہید کہتے ہیں، برزخی زندگی اپنے عام معنی میں تو سب ہی کے لئے ہے لیکن شہیدوں کو اس عالم میں ایک خصوصی اور امتیازی زندگی نصیب ہوتی ہے جو آثار حیات میں دوسروں سے کہیں زیادہ قوی ہوتی ہے، بقول حضرت تھانوی (رح) تعالیٰ شہید کی اس حیات کی قوت کا اثر اس کے جسد ظاہری تک بھی پہنچتا ہے کہ اس کا جسد باوجود گوشت پوست ہونے کے خاک سے متاثر نہیں ہوتا اور جسد زندہ کے مانند صحیح وسالم رہتا ہے، جیسا کہ احادیث اور مشاہدات ہیں اور یہی حیات ہے جس میں انبیاء کرام (رض) شہیدوں سے بھی زیادہ قوت و امتیاز رکھتے ہیں۔ ایک جماعت نے کہا ہے کہ یہ حیات روحانی ہوتی ہے لیکن ترجیح اسی قول کو ہے کہ جسمانی اور روحانی دونوں ہوتی ہے، رہی شہداء کو مردہ نہ کہنے کی تلقین تو یہ ان کے اعزازو تکریم کے لئے ہے، یہ زندگی برزخی زندگی ہے جس کے سمجھنے سے ہم قاصر ہیں یہ زندگی علی قدر المراتب انبیاء، شہداء، مومنین حتی کہ کفار کو بھی حاصل ہے، شہیدوں کی روح اور بعض روایات میں مومن کی روح بھی ایک پرندے کے جوف (سینہ) میں جنت میں جہاں چاہتی ہے پھرتی ہے۔ (ابن کثیر، آل عمران) ۔ شہداء کو اگرچہ دیگر مردوں کی طرح مردہ کہنے کی ممانعت کی گئی ہے مگر بعض احکام مثلاً غسل وغیرہ کے علاوہ میں وہ عام مردوں کی طرح ہیں، ان کی میراث تقسیم ہوتی ہے، ان کی بیویاں دوسروں سے نکاح کرسکتی ہیں اور یہی حیات ہے کہ جس میں حضرات انبیاء (علیہم السلام) شہداء سے بھی زیادہ ممتاز اور قوی ہوتے ہیں، یہاں تک کہ سلامت جسم کے علاوہ اس حیات برزخی کے کچھ آثار ظاہری احکام پر بھی پڑتے ہیں، مثلاً انبیاء کی میراث تقسیم نہیں ہوتی، ان کی ازواج سے دوسرے نکاح نہیں کرسکتے۔
شبہ کا دفع : اور اگر کسی شخص نے کسی شہید کی لاش کو خاک خوردہ پایا ہو تو سمجھنا چاہیے کہ ممکن ہے کہ اس کی نیت خالص نہ ہو، جس پر شہادت کا مدار ہے، اور بالفرض اگر ایسا شہید خاک خوردہ پایا جائے جس کا قتل فی سبیل اللہ اور اس کا جامع شرائط شہادت ہونا دلیل تو اتر وغیرہ سے ثابت ہو تو اس کی وجہ میں یہ کہا جائے گا کہ حدیث میں جو تصریح ہے وہ زمین کے اجسام شہداء کو خراب نہ کرنے کی ہے، مگر زمین میں اجزاء ارضیہ کے علاوہ دیگر عناصر بھی موجود ہیں، مثلاً پارہ، گندھک، تیزاب، ان کے علاوہ دیگر اکالہ اجزاء موجود ہیں، ممکن ہے ان اجزاء نے جسم کو خراب کردیا ہو، یہ صورت حدیث کے منافی نہیں ہے، یا زمانہ دراز تک صحیح وسالم محفوظ رہنا مراد ہے، یہ بھی عام جسموں کے اعتبار سے فضیلت اور کرامت کی بات ہے، لہٰذا یہ بات واضح ہوگئی کہ اجزاء ارضیہ کے علاوہ اگر دیگر اجزاء سے اجسام شہداء متاثر ہوجائیں تو ان سے ان احادیث پر اشکال نہیں ہوتا جس میں حرمت اجساد علی الارض وارد ہے۔ (معارف ملخصا)
10 Tafsir as-Saadi
چونکہ اللہ تعالیٰ نے تمام احوال میں صبر سے مدد لینے کا حکم دیا ہے اس لیے اس نے ایک نمونہ ذکر فرمایا ہے جس میں صبر سے مدد لی جاتی ہے اور وہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنا ہے جو سب سے افضل بدنی عبادت ہے۔ اپنی مشقت کی وجہ سے یہ نفوس انسانی پر سب سے زیادہ گراں گزرتی ہے نیز یہ عبادت نفوس انسانی پر اس لیے بھی گراں ہے کہ اس کا نتیجہ موت اور عدم حیات ہے اور زندگی ایک ایسی چیز ہے کہ لوگ اس دنیا میں زندگی اور اس کے لوازم کے حصول میں رغبت رکھتے ہیں۔ پس ہر وہ چیز جس میں لوگ تصرف کرتے ہیں اس کے حصول کے لیے کوشش کی جاتی ہے اور اس کی ضد کو دور کیا جاتا ہے۔
اور یہ معلوم ہے کہ عقل مند شخص اپنی محبوب چیز کو اس وقت ہی چھوڑتا ہے جب اسے اس سے بڑی اور اس سے بہتر کوئی اور محبوب چیز حاصل ہونے کی امید ہو، تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ جو کوئی اللہ تعالیٰ کے راستے میں اس وجہ سے قتل ہوجاتا ہے کہ اس نے اللہ کے راستے میں جہاد کیا، تاکہ اللہ کا کلمہ بلند اور اس کا دین غالب ہو اور اس کے سوا اس کی کوئی اور غرض نہ ہو۔ تو وہ اپنی محبوب زندگی کو کھو نہیں دیتا، بلکہ اسے اس زندگی سے زیادہ عظیم اور کامل زندگی حاصل ہوجاتی ہے جس کا تم گمان اور تصور کرسکتے ہو۔
پس شہداء وہ ہیں جن کا ذکر یوں آیا ہے﴿أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ فَرِحِينَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّـهُ مِن فَضْلِهِ وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِم مِّنْ خَلْفِهِمْ أَلَّا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللَّـهِ وَفَضْلٍ وَأَنَّ اللَّـهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُؤْمِنِينَ﴾(آل عمران : 3؍ 169۔171) ” وہ اپنے رب کے ہاں زندہ ہیں اور ان کو رزق دیا جاتا ہے اور جو کچھ اللہ نے اپنے فضل سے ان کو عطا کیا اس پر وہ خوش ہیں اور جو پیچھے رہ گئے اور (شہید ہو کر) ان کے ساتھ نہ مل سکے ان کے بارے میں خوش ہو رہے ہیں کہ ان پر کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمزہ ہوں گے۔ وہ اللہ کی نعمتوں، اس کے فضل اور اس بات پر خوش ہو رہے ہوں گے کہ اللہ مومنوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔ “
کیا اس سے بھی بڑی کوئی اور زندگی ہے جو قرب الٰہی، اس کے بدنی رزق، مثلاً لذیذ ما کو لات و مشروبات سے تمتع اور روحانی رزق، مثلاً فرحت، خوشی اور عدم حزن و غم کو متضمن ہے؟ یہ برزخی زندگی ہے جو دنیاوی زندگی سے زیادہ کامل ہے، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس زندگی کے بارے میں ان الفاظ میں آگاہ فرمایا۔” شہداء کی روحیں سبز رنگ کے پرندوں کے جوف (پیٹ) میں جنت کی نہروں سے پانی پینے کے لیے وارد ہوتی ہیں جنت کے پھل کھاتی ہیں اور ان قندیلوں میں بسیرا کرتی ہیں جو عرش کے ساتھ لٹکی ہوئی ہیں۔‘‘
[صحيح مسلم، الإمارة، باب بيان أن أرواح الشهداء في الجنة...... الخ، حديث: 1887 و مسند احمد: 1؍ 116]
اس آیت میں اللہ کی راہ میں جہاد کرنے اور اس میں صبر کا دامن پکڑے رکھنے کی بڑی ترغیب ہے۔ پس اگر بندوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتل ہونے کا کتنا ثواب ہے تو کوئی شخص جہاد سے پیچھے نہ رہے مگر کامل علم یقینی کا فقدان، عزائم کو کمزور، نیند میں مدہوش شخص کی نیند میں مزید اضافہ، نیز غنیمتیں اور بہت بڑا ثواب حاصل کرنے سے محروم کردیتا ہے۔ ایسا کیوں نہ ہو جب کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے ان کا جان و مال خرید لیا ہے فرمایا﴿ إِنَّ اللَّـهَ اشْتَرَىٰ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ ۚ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ ﴾(التوبہ ١١١) ” اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال خرید لیے ہیں اور اس کے بدلے میں ان کے لیے جنت ہے، وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں (کافروں کو) قتل کرتے ہیں اور قتل ہوجاتے ہیں۔ “
اللہ کی قسم ! اگر انسان کو ہزار جانیں عطا کی گئی ہوں اور وہ ایک ایک کر کے سب جانیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کر دے تب بھی اس اجر عظیم کے مقابلے میں یہ کچھ بھی نہیں۔ اسی لیے شہداء جب اللہ تعالیٰ کے عنایت کردہ اس بہترین جزا اور ثواب کا مشاہدہ کرلیں گے تو دنیا کی طرف لوٹائے جانے کی تمنا کریں گے، تاکہ وہ اللہ کے راستے میں بار بار قتل ہوں۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ برزخ میں انسان کو آرام اور عذاب ملتا ہے جیسا کہ بکثرت نصوف اس پر دلالت کرتی ہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur jo log Allah kay raastay mein qatal hon unn ko murda naa kaho . darasal woh zinda hain , magar tum ko ( unn ki zindagi ka ) ehsas nahi hota
12 Tafsir Ibn Kathir
پھر فرمایا کہ شہیدوں کو مردہ نہ کہو بلکہ وہ ایسی زندگی میں ہیں جسے تم نہیں سمجھ سکتے انہیں حیات برزخی حاصل ہے اور وہاں وہ خوردو نوش پا رہے ہیں، صحیح مسلم شریف میں ہے کہ شہیدوں کی روحیں سبز رنگ کے پرندوں کے قالب میں ہیں اور جنت میں جس جگہ چاہیں چرتی چگتی اڑتی پھرتی ہیں پھر ان قندیلوں میں آ کر بیٹھ جاتی ہیں جو عرش کے نیچے لٹک رہی ہیں ان کے رب نے ایک مرتبہ انہیں دیکھا اور ان سے دریافت کیا کہ اب تم کیا چاہتے ہو ؟ انہوں نے جواب دیا اللہ ہمیں تو تو نے وہ وہ دے رکھا ہے جو کسی کو نہیں دیا پھر ہمیں کس چیز کی ضرورت ہوگی ؟ ان سے پھر یہی سوال ہوا جب انہوں نے دیکھا کہ اب ہمیں کوئی جواب دینا ہی ہوگا تو کہا اللہ ہم چاہتے ہیں کہ تو ہمیں دوبارہ دنیا میں بھیج ہم تیری راہ میں پھر جنگ کریں پھر شہید ہو کر تیرے پاس آئیں اور شہادت کا دگنا درجہ پائیں، رب جل جلالہ نے فرمایا یہ نہیں ہوسکتا یہ تو میں لکھ چکا ہوں کہ کوئی بھی مرنے کے بعد دنیا کی طرف پلٹ کر نہیں جائے گا مسند احمد کی ایک اور حدیث میں ہے کہ مومن کی روح ایک پرندے میں ہے جو جنتی درختوں پر رہتی ہے اور قیامت کے دن وہ اپنے جسم کی طرف لوٹ آئے گی، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر مومن کی روح وہاں زندہ ہے لیکن شہیدوں کی روح کو ایک طرح کی امتیازی شرافت کرامت عزت اور عظمت حاصل ہے۔