Skip to main content

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِى الْقَتْلٰى ۗ الْحُرُّ بِالْحُـرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِوَالْاُنْثٰى بِالْاُنْثٰىۗ فَمَنْ عُفِىَ لَهٗ مِنْ اَخِيْهِ شَىْءٌ فَاتِّبَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ وَاَدَاۤءٌ اِلَيْهِ بِاِحْسَانٍۗ ذٰلِكَ تَخْفِيْفٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ ۗ فَمَنِ اعْتَدٰى بَعْدَ ذٰلِكَ فَلَهٗ عَذَابٌ اَلِيْمٌۚ

O you
يَٰٓأَيُّهَا
اے
who
ٱلَّذِينَ
لوگو
believe[d]!
ءَامَنُوا۟
جو ایمان لائے ہو
Prescribed
كُتِبَ
لکھ دیا گیا ہے
for you
عَلَيْكُمُ
تم پر
(is) the legal retribution
ٱلْقِصَاصُ
بدلہ لینا
in
فِى
میں
(the matter of) the murdered
ٱلْقَتْلَىۖ
مقتولوں کے (بارے میں)
the freeman
ٱلْحُرُّ
آزاد
for the freeman
بِٱلْحُرِّ
بدلے آزاد کے
and the slave
وَٱلْعَبْدُ
اور غلام
for the slave
بِٱلْعَبْدِ
بدلے غلام کے
and the female
وَٱلْأُنثَىٰ
اور عورت
for the female
بِٱلْأُنثَىٰۚ
بدلے عورت کے
But whoever
فَمَنْ
تو جو کوئی
is pardoned
عُفِىَ
معاف کردیا گیا
[for it]
لَهُۥ
واسطے اس کے
from
مِنْ
سے
his brother
أَخِيهِ
اس کے بھائی (کی طرف)
anything
شَىْءٌ
کوئی چیز
then follows up
فَٱتِّبَاعٌۢ
تو پیروی کرنا ہے
with suitable
بِٱلْمَعْرُوفِ
ساتھ بھلے طریقے کے
[and] payment
وَأَدَآءٌ
اور ادا کرنا ہے
to him
إِلَيْهِ
طرف اس کے
with kindness
بِإِحْسَٰنٍۗ
ساتھ احسان کے
That (is)
ذَٰلِكَ
یہ
a concession
تَخْفِيفٌ
رعایت ہے۔ کمی ہے۔ آسانی ہے
from
مِّن
سے
your Lord
رَّبِّكُمْ
تمہارے رب کی طرف
and mercy
وَرَحْمَةٌۗ
اور رحمت ہے
Then whoever
فَمَنِ
تو جو کوئی
transgresses
ٱعْتَدَىٰ
زیادتی کرے
after
بَعْدَ
بعد
that
ذَٰلِكَ
اس کے
then for him
فَلَهُۥ
تو اس کے لیے
(is) a punishment
عَذَابٌ
عذاب ہے
painful
أَلِيمٌ
دردناک

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

ا ے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہارے لیے قتل کے مقدموں میں قصاص کا حکم لکھ دیا گیا ہے آزاد آدمی نے قتل کیا ہو تو اس آزاد ہی سے بدلہ لیا جائے، غلام قاتل ہو تو وہ غلام ہی قتل کیا جائے، اور عورت اِس جرم کی مرتکب ہو توا س عورت ہی سے قصاص لیا جائے ہاں اگر کسی قاتل کے ساتھ اس کا بھائی کچھ نرمی کرنے کے لیے تیار ہو، تو معروف طریقے کے مطابق خوں بہا کا تصفیہ ہونا چاہیے اور قاتل کو لازم ہے کہ راستی کے ساتھ خوں بہا ادا کرے یہ تمہارے رب کی طرف سے تخفیف اور رحمت ہے اس پر بھی جو زیادتی کرے، اس کے لیے دردناک سزا ہے

English Sahih:

O you who have believed, prescribed for you is legal retribution for those murdered – the free for the free, the slave for the slave, and the female for the female. But whoever overlooks from his brother [i.e., the killer] anything, then there should be a suitable follow-up and payment to him [i.e., the deceased's heir or legal representative] with good conduct. This is an alleviation from your Lord and a mercy. But whoever transgresses after that will have a painful punishment.

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

ا ے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہارے لیے قتل کے مقدموں میں قصاص کا حکم لکھ دیا گیا ہے آزاد آدمی نے قتل کیا ہو تو اس آزاد ہی سے بدلہ لیا جائے، غلام قاتل ہو تو وہ غلام ہی قتل کیا جائے، اور عورت اِس جرم کی مرتکب ہو توا س عورت ہی سے قصاص لیا جائے ہاں اگر کسی قاتل کے ساتھ اس کا بھائی کچھ نرمی کرنے کے لیے تیار ہو، تو معروف طریقے کے مطابق خوں بہا کا تصفیہ ہونا چاہیے اور قاتل کو لازم ہے کہ راستی کے ساتھ خوں بہا ادا کرے یہ تمہارے رب کی طرف سے تخفیف اور رحمت ہے اس پر بھی جو زیادتی کرے، اس کے لیے دردناک سزا ہے

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

اے ایمان والوں تم پر فرض ہے کہ جو ناحق مارے جائیں ان کے خون کا بدلہ لو آزاد کے بدلے آزاد اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت تو جس کے لئے اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معافی ہوئی۔ تو بھلائی سے تقا ضا ہو اور اچھی طرح ادا، یہ تمہارے رب کی طرف سے تمہارا بوجھ پر ہلکا کرنا ہے اور تم پر رحمت تو اس کے بعد جو زیادتی کرے اس کے لئے دردناک عذاب ہے

احمد علی Ahmed Ali

اے ایمان والو مقتولوں میں برابری کرنا تم پر فرض کیا گیا ہے آزاد بدلے آزاد کے اور غلام بدلے غلام کے اور عورت بدلے عورت کے پس جسے اس کے بھائی کی طرف سے کچھ بھی معاف کیا جائے تو دستور کے موافق مطالبہ کرنا چاہیئے اور اسے نیکی کے ساتھ ادا کرنا چاہیئے یہ تمہارے رب کی طرف سے آسانی اور مہربانی ہے پس جو اس کے بعد زیادتی کرے تو اس کے لیے دردناک عذاب ہے

أحسن البيان Ahsanul Bayan

اے ایمان والو تم پر مقتولوں کا قصاص لینا فرض کیا گیا ہے، آزاد، آزاد کے بدلے , غلام , غلام کے بدلے عورت ,عورت کے بدلے (١) ہاں جس کسی کو اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معافی دے دی جائے اسے بھلائی کی اتباع کرنی چاہیے اور آسانی کے ساتھ دیت ادا کرنی چاہیے (٢) تمہارے رب کی طرف سے یہ تخفیف اور رحمت ہے (٣) اس کے بعد بھی جو سرکشی کرے اسے دردناک عذاب ہوگا (٤)۔

١٧٨۔١ زمانہ جاہلیت میں کوئی نظم اور قانون تو تھا نہیں اس لیے زورآور قبیلے کمزور قبیلوں پر جس طرح چاہتے ظلم کا ارتکاب کر لیتے۔ ایک ظلم کی شکل یہ تھی کہ کسی طاقتور قبیلے کا کوئی مرد قتل ہو جاتا وہ صرف قاتل کو قتل کرنے کے بجائے قاتل کے قبیلے کے کئی مردوں کو بلکہ بسا اوقات پورے قبیلے ہی کو تہس نہس کرنے کی کوشش کرتے اور عورت کے بدلے مرد کو اور غلام کے بدلے آزاد کو قتل کرتے۔ اللہ تعالٰی نے اس فرق و امتیاز کو ختم کرتے ہوئے کہ جو قاتل ہوگا قصاص (بدلے) میں اسی کو قتل کیا جائے گا۔ جس سے واضح ہو جاتا ہے کہ قصاص میں قاتل ہی کو قتل کیا جائے۔ (فتح القدیر) مزید دیکھیے سورۃ مائدہ آیت۔٤٥۔
١٧٨۔٢ معافی کی دو سورتیں ہیں ایک بغیر معاوضہ یعنی دیت لئے بغیر محض رضائی الٰہی کے لئے معاف کر دینا دوسری صورت میں قصاص کے بجائے دیت قبول کر لینا اگر یہ دوسری صورت اختیار کی جائے تو کہا جا رہا ہے کہ طالب دیت بھلائی کی پیروی کرے بغیر تنگ کئے اچھے طریقے سے دیت کی ادائیگی کرے۔ اولیائے مقتول نے اس کی جان بخشی کر کے اس پر جو احسان کیا ہے اس کا بدلہ احسان ہی کے ساتھ دے۔
١٧٨۔٣ یہ تخفیف اور رحمت (یعنی قصاص) معافی یا دیت تین صورتیں اللہ تعالٰی کی طرف سے خاص تم پر ہوئی ہیں ورنہ اس سے قبل اہل تورات کے لئے قصاص یا معافی تھی دیت نہیں تھی اور اہل انجیل (عیسائیوں) میں صرف معافی ہی تھی قصاص تھا نہ دیت (ابن کثیر)
١٧٨۔٤ قبول دیت یا اخذ دیت کے بعد قتل بھی کر دے تو یہ سرکشی اور زیادتی ہے جس کی سزا اسے دنیا اور آخرت میں بھگتنی ہو گی۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

مومنو! تم کو مقتولوں کے بارےمیں قصاص (یعنی خون کے بدلے خون) کا حکم دیا جاتا ہے (اس طرح پر کہ) آزاد کے بدلے آزاد (مارا جائے) اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت اور قاتل کو اس کے (مقتول) بھائی (کے قصاص میں) سے کچھ معاف کردیا جائے تو (وارث مقتول) کو پسندیدہ طریق سے (قرار داد کی) پیروی (یعنی مطالبہٴ خون بہا) کرنا اور (قاتل کو) خوش خوئی کے ساتھ ادا کرنا چاہیئے یہ پروردگار کی طرف سے تمہارے لئے آسانی اور مہربانی ہے جو اس کے بعد زیادتی کرے اس کے لئے دکھ کا عذاب ہے

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

اے ایمان والو! تم پر مقتولوں کا قصاص لینا فرض کیا گیا ہے، آزاد آزاد کے بدلے، غلام غلام کے بدلے، عورت عورت کے بدلے۔ ہاں جس کسی کو اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معافی دے دی جائے اسے بھلائی کی اتباع کرنی چاہئے اور آسانی کے ساتھ دیت ادا کرنی چاہئے۔ تمہارے رب کی طرف سے یہ تخفیف اور رحمت ہے اس کے بعد بھی جو سرکشی کرے اسے درد ناک عذاب ہوگا

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

اے ایمان والو! ان کے بارے میں جو (ناحق قتل کر دیئے گئے ہوں) تم پر قصاص (خون کا بدلہ خون) لکھ دیا گیا ہے یعنی آزاد کے بدلے آزاد، غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت۔ ہاں جس (قاتل) کے لیے اس کے (ایمانی) بھائی (مقتول کے ولی) کی جانب سے کچھ (قصاص) معاف کر دیا جائے تو اس (معاف کرنے والے) کو (چاہیے کہ) نیکی کا اتباع کرے (خون بہا کا مطالبہ کرنے میں سختی نہ کرے) اور (جسے معاف کیا گیا ہے اسے بھی چاہیے کہ) خوش اسلوبی کے ساتھ (خون بہا) ادا کرے۔ یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے رعایت و رحمت (اور آسانی و مہربانی) ہے۔ پس اس کے بعد بھی جو زیادتی کرے تو اس کیلئے دردناک عذاب ہے

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

ایمان والو! تمہارے اوپر مقتولین کے بارے میں قصاص لکھ دیا گیا ہے آزادکے بدلے آزاد اورغلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت. اب اگرکسی کو مقتول کے وارث کی طرف سے معافی مل جائے تو نیکی کا اتباع کرے اور احسان کے ساتھ اس کے حق کو ادا کردے. یہ پروردگار کی طرف سے تمہارے حق میں تخفیف اور رحمت ہے لیکن اب جو شخص زیادتی کرے گا اس کے لئے دردناک عذاب بھی ہے

طاہر القادری Tahir ul Qadri

اے ایمان والو! تم پر ان کے خون کا بدلہ (قصاص) فرض کیا گیا ہے جو ناحق قتل کئے جائیں، آزاد کے بدلے آزاد اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت، پھر اگر اس کو (یعنی قاتل کو) اس کے بھائی (یعنی مقتول کے وارث) کی طرف سے کچھ (یعنی قصاص) معاف کر دیا جائے تو چاہئے کہ بھلے دستور کے موافق پیروی کی جائے اور (خون بہا کو) اچھے طریقے سے اس (مقتول کے وارث) تک پہنچا دیا جائے، یہ تمہارے رب کی طرف سے رعایت اور مہربانی ہے، پس جو کوئی اس کے بعد زیادتی کرے تو اس کے لئے دردناک عذاب ہے،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

قصاص کی وضاحت
یعنی اے مسلمانوں قصاص کے وقت عدل سے کام لیا کرو آزاد کے بدلے آزاد غلام کے بدلے غلام عورت کے بدلے عورت اس بارے میں حد سے نہ بڑھو جیسے کہ اگلے لوگ حد سے بڑھ گئے اور اللہ کا حکم بدل دیا، اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ جاہلیت کے زمانہ میں بنوقریظہ اور بنونضیر کی جنگ ہوئی تھی جس میں بنونضیر غالب آئے تھے اب یہ دستور ہوگیا تھا کہ جب نضری کسی قرظی کو قتل کرے تو اس کے بدلے اسے قتل نہیں کیا جاتا تھا بلکہ ایک سو وسق کھجور دیت میں لی جاتی تھی اور جب کوئی قرظی نضری کو مار ڈالے تو قصاص میں اسے قتل کردیا تھا اور اگر دیت لی جائے تو دوگنی دیت یعنی دو سو وسق کھجور لی جاتی تھی پس اللہ تعالیٰ نے جاہلیت کی اس رسم کو مٹایا اور عدل و مساوات کا حکم دیا، ابو حاتم کی روایت میں شان نزول یوں بیان ہوا ہے کہ عرب کے دو قبیلوں میں جدال و قتال ہوا تھا اسلام کے بعد اس کا بدلہ لینے کی ٹھانی اور کہا کہ ہمارے غلام کے بدلے ان کا آزاد قتل ہو اور عورت کے بدلے مرد قتل ہو تو ان کے رد میں یہ آیت نازل ہوئی اور یہ حکم بھی منسوخ ہے قرآن فرماتا ہے آیت (النفس بالنفس) پس ہر قاتل مقتول کے بدلے مار ڈالا جائے گا خواہ آزاد نے کسی غلام کو قتل کیا ہو خواہ اس کے برعکس ہو خواہ مرد نے عورت کو قتل کیا ہو خواہ اس کے برعکس ہو، حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ یہ لوگ مرد کو عورت کے بدلے قتل نہیں کرتے تھے جس پر (اَنَّ النَّفْسَ بالنَّفْسِ ۙوَالْعَيْنَ بالْعَيْنِ وَالْاَنْفَ بالْاَنْفِ وَالْاُذُنَ بالْاُذُنِ وَالسِّنَّ بالسِّنِّ ۙ وَالْجُرُوْحَ قِصَاصٌ) 5 ۔ المائدہ ;45) نازل ہوئی پس آزاد لوگ سب برابر ہیں جسن کے بدلے جان لی جائے گی خواہ قاتل مرد ہو خواہ عورت ہو اسی طرح مقتول خواہ مرد ہو خواہ عورت ہو جب کہ ایک آزاد انسان نے ایک آزاد انسان کو مار ڈالا ہے تو اسے بھی مار ڈالا جائے گا اسی طرح یہی حکم غلاموں اور لونڈیوں میں بھی جاری ہوگا اور جو کوئی جان لینے کے قصد سے دوسرے کو قتل کرے گا وہ قصاص میں قتل کیا جائے گا اور یہی حکم قتل کے علاوہ اور زخمیوں کا اور دوسرے اعضاء کی بربادی کا بھی ہے، حضرت امام مالک (رح) بھی اس آیت کو آیت (النفس بالنفس) سے منسوخ بتلاتے ہیں۔
٭مسئلہ٭ امام ابوحنیفہ امام ثوری امام ابن ابی لیلی اور داؤد کا مذہب ہے کہ آزاد نے اگر غلام کو قتل کیا ہے تو اس کے بدلے وہ بھی قتل کیا جائے گا، حضرت علی (رض) حضرت ابن مسعود (رض) حضرت سعید بن جبیر حضرت ابراہیم نخعی حضرت قتادہ اور حضرت حکم کا بھی یہی مذہب ہے، حضرت امام بخاری، علی بن مدینی، ابراہیم نخعی اور ایک اور روایت کی رو سے حضرت ثوری کا بھی مذہب یہی ہے کہ اگر کوئی آقا اپنے غلام کو مار ڈالے تو اس کے بدلے اس کی جان لی جائے گی دلیل میں یہ حدیث بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے جو شخص اپنے غلام کو قتل کرے ہم اسے قتل کریں گے اور جو شخص اپنے غلام کو نکٹا کرے ہم بھی اس کی ناک کاٹ دیں گے اور جو اسے خصی کرے اس سے بھی یہی بدلہ لیا جائے، لیکن جمہور کا مذہب ان بزرگوں کے خلاف ہے وہ کہتے ہیں آزاد غلام کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا اس لئے کہ غلام مال ہے اگر وہ خطا سے قتل ہوجائے تو دیت یعنی جرمانہ نہیں دینا پڑتا صرف اس کے مالک کو اس کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے اور اسی طرح اس کے ہاتھ پاؤں وغیرہ کے نقصان پر بھی بدلے کا حکم نہیں۔ آیا مسلمان کافر کے بدلے قتل کیا جائے گا یا نہیں ؟ اس بارے میں جمہور علماء امت کا مذہب تو یہ ہے کہ قتل نہ کیا جائے گا اور دلیل صحیح بخاری شریف کی یہ حدیث ہے کہ حدیث (لا یقتل مسلم بکافر) مسلمان کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے، اس حدیث کے خلاف نہ تو کوئی صحیح حدیث ہے کہ کوئی ایسی تاویل ہوسکتی ہے جو اس کے خلاف ہو، لیکن تاہم صرف امام ابوحنیفہ کا مذہب یہ ہے کہ مسلمان کافر کے بدلے قتل کردیا جائے۔
مسئلہ٭٭ حضرت حسن بصری اور حضرت عطا کا قول ہے کہ مرد عورت کے بدلے قتل نہ کیا جائے اور دلیل میں مندرجہ بالا آیت کو پیش کرتے ہیں لیکن جمہور علماء اسلام اس کے خلاف ہیں کیونکہ سورة مائدہ کی آیت عام ہے جس میں آیت (النفس بالنفس) موجود ہے علاوہ ازیں حدیث شریف میں بھی ہے حدیث ( المسلون تتکافا دماء ھم) یعنی مسلمانوں کے خون آپس میں یکساں ہیں، حضرت لیث کا مذہب ہے کہ خاوند اگر اپنی بیوی کو مار ڈالے تو خاصتہ اس کے بدلے اس کی جان نہیں لی جائے۔
مسئلہ٭٭ چاروں اماموں اور جمہور امت کا مذہب ہے کہ کئی ایک نے مل کر ایک مسلمان کو قتل کیا ہے تو وہ سارے اس ایک کے بدلے قتل کر دئے جائیں گے۔ حضرت عمر فاروق (رض) کے زمانہ میں ایک شخص کو سات شخص مل کر مار ڈالتے ہیں تو آپ ان ساتوں کو قتل کراتے ہیں اور فرماتے ہیں اگر صفا کے تمام لوگ بھی اس قتل میں شریک ہوتے تو میں قصاص میں سب کو قتل کرا دیتا۔ آپ کے اس فرمان کے خلاف آپ کے زمانہ میں کسی صحابی (رض) نے اعتراض نہیں کیا پس اس بات پر گویا اجماع ہوگیا۔ لیکن امام احمد سے مروی ہے کہ وہ فرماتے ہیں ایک کے بدلے ایک ہی قتل کیا جائے زیادہ قتل نہ کیے جائیں۔ حضرت معاذ حضرت ابن زبیر عبدالملک بن مروان زہری ابن سیرین حبیب بن ابی ثابت سے بھی یہ قول مروی ہے، ابن المندر فرماتے ہیں یہی زیادہ صحیح ہے اور ایک جماعت کو ایک مقتول کے بدلے قتل کرنے کی کوئی دلیل نہیں اور حضرت ابن زبیر (رض) سے یہ ثابت ہے کہ وہ اس مسئلہ کو نہیں مانتے تھے پس جب صحابہ (رض) میں اختلاف ہوا تو اب مسئلہ غور طلب ہوگیا۔ پھر فرماتا ہے کہ یہ اور بات ہے کہ کسی قاتل کو مقتول کا کوئی وارث کچھ حصہ معاف کر دے یعنی قتل کے بدلے وہ دیت قبول کرلے یا دیت بھی اپنے حصہ کی چھوڑ دے اور صاف معاف کر دے، اگر وہ دیت پر راضی ہوگیا ہے تو قاتل کو مشکل نہ ڈالے بلکہ اچھائی سے دیت وصول کرے اور قاتل کو بھی چاہئے کہ بھلائی کے ساتھ اسے دیت ادا کر دے، حیل وحجت نہ کرے۔
مسئلہ٭٭ امام مالک کا مشہور مذہب اور امام ابوحنیفہ اور آپ کے شاگردوں کا اور امام شافعی اور امام احمد کا ایک روایت کی رو سے یہ مذہب ہے کہ مقتول کے اولیاء کا قصاص چھوڑ کر دیت پر راضی ہونا اس وقت جائز ہے جب خود قاتل بھی اس پر آمادہ ہوا لیکن اور بزرگان دین فرماتے ہیں کہ اس میں قاتل کی رضامندی شرط نہیں۔
مسئلہ٭٭ سلف کی ایک جماعت کہتی ہے کہ عورت قصاص سے درگزر کر کے دیت پر اگر رضامند ہوں تو ان کا اعتبار نہیں۔ حسن، قتادہ، زہرہ، ابن شبرمہ، لیث اور اوزاعی کا یہی مذہب ہے لیکن باقی علماء دین ان کے مخالف ہیں وہ فرماتے ہیں کہ اگر کسی عورت نے بھی دیت پر رضامندی ظاہر کی تو قصاص جاتا رہے گا پھر فرماتے ہیں کہ قتل عمد میں دیت لینا یہ اللہ کی طرف سے تخفیف اور مہربانی ہے اگلی امتوں کو یہ اختیار نہ تھا، حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں بنی اسرائیل پر قصاص فرض تھا انہیں قصاص سے درگزر کرنے اور دیت لینے کی اجازت نہ تھی لیکن اس مات پر یہ مہربانی ہوئی کہ دیت لینی بھی جائز کی گئی تو یہاں تین چیزیں ہوئیں قصاص دیت اور معانی اگلی امتوں میں صرف قصاص اور معافی ہی تھی دیت نہ تھی، بعض لوگ کہتے ہیں اہل تورات کے ہوں صرف قصاصا اور معافی تھی اور اہل انجیل کے ہاں صرف معافی ہی تھی۔ پھر فرمایا جو شخص دیت یعنی جرمانہ لینے کے بعد یا دیت قبول کرلینے کے بعد بھی زیادتی پر تل جائے اس کے لئے سخت دردناک عذاب ہے۔ مثلاً دیت لینے کے بعد پر قتل کے درپے ہو وغیرہ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں جس شخص کا کوئی مقتول یا مجروح ہو تو اسے تین باتوں میں سے ایک کا اختیار ہے یا قصاص یعنی بدلہ لے لے یا درگزر کرے۔ معاف کر دے یا دیت یعنی جرمانہ لے لے اور اگر کچھ اور کرنا چاہے تو اسے روک دو ان میں سے ایک کرچکنے کے بعد بھی جو زیادتی کرے وہ ہمیشہ کے لئے جہنمی ہوجائے گا (احمد) دوسری حدیث میں ہے کہ جس نے دیت وصول کرلی پھر قاتل کو قتل کیا تو اب میں اس سے دیت بھی نہ لوں گا بلکہ اسے قتل کروں گا۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اے عقلمندو قصاص میں نسل انسان کی بقاء ہے اس میں حکمت عظیمہ ہے گو بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک کے بدلے ایک قتل ہوا تو دو مرے لیکن دراصل اگر سوچو تو پتہ چلے گا کہ یہ سبب زندگی ہے، قاتل کو خود خیال ہوگا کہ میں اسے قتل نہ کروں ورنہ خود بھی قتل کردیا جاؤں گا تو وہ اس فعل بد سے رک جائے گا تو دو آدمی قتل وخون سے بچ گئے۔ اگلی کتابوں میں بھی یہ بات تو بیان فرمائی تھی کہ آیت (القتل انفی للقتل) قتل قتل کو روک دیتا ہے لیکن قرآن پاک میں بہت ہی فصاحت و بلاغت کے ساتھ اس مضمون کو بیان کیا گیا۔ پھر فرمایا یہ تمہارے بچاؤ کا سبب ہے کہ ایک تو اللہ کی نافرمانی سے محفوظ رہو گے دوسرے نہ کوئی کسی کو قتل کرے گا نہ کہ وہ قتل کیا جائے گا زمین پر امن وامان سکون وسلام رہے گا، تقوی نیکیوں کے کرنے اور کل برائیوں کے چھوڑنے کا نام ہے۔