البقرہ آية ۱۸۰
كُتِبَ عَلَيْكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَكَ خَيْرًا ۚ لْوَ صِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ بِالْمَعْرُوْفِۚ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِيْنَۗ
طاہر القادری:
تم پر فرض کیا جاتاہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت قریب آپہنچے اگر اس نے کچھ مال چھوڑا ہو، تو (اپنے) والدین اور قریبی رشتہ داروں کے حق میں بھلے طریقے سے وصیت کرے، یہ پرہیزگاروں پر لازم ہے،
English Sahih:
Prescribed for you when death approaches [any] one of you if he leaves wealth [is that he should make] a bequest for the parents and near relatives according to what is acceptable – a duty upon the righteous.
1 Abul A'ala Maududi
تم پر فرض کیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آئے اور وہ اپنے پیچھے مال چھوڑ رہا ہو، تو والدین اور رشتہ داروں کے لیے معروف طریقے سے وصیت کرے یہ حق ہے متقی لوگوں پر
2 Ahmed Raza Khan
تم پر فرض ہوا کہ جب تم میں کسی کو موت آئے اگر کچھ مال چھوڑے تو وصیت کرجائے اپنے ماں باپ اور قریب کے رشتہ داروں کے لئے موافق دستور یہ واجب ہے پرہیزگاروں پر،
3 Ahmed Ali
تم پر فرض کیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت آ پہنچے اگر وہ مال چھوڑے تو ماں باپ اور رشتہ داروں کے لیے مناسب طور پر وصیت کرے یہ پرہیزگاروں پرحق ہے
4 Ahsanul Bayan
تم پر فرض کر دیا گیا کہ جب تم میں سے کوئی مرنے لگے اور مال چھوڑ جاتا ہو تو اپنے ماں باپ اور قرابت داروں کے لئے اچھائی کے ساتھ وصیت کر جائے (١) پرہیزگاروں پر یہ حق اور ثابت ہے۔
١٨٠۔١ وصیت کرنے کا یہ حکم آیت مواریث کے نزول سے پہلے دیا گیا تھا اب یہ منسوخ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اللہ تعالٰی نے ہر حق والے کو اس کا حق دے دیا ہے (یعنی ورثہ کے حصے مقر کر دئیے ہیں) پس اب کسی وارث کے لئے وصیت کرنا جائز نہیں البتہ اب ایسے رشتہ داروں کے لئے وصیت کی جا سکتی ہے جو وارث نہ ہوں یا راہ خیر میں خرچ کرنے کے لئے کی جا سکتی ہے اور اس کی زیادہ سے زیادہ حد ایک تہائی مال ہے اس سے زیادہ کی وصیت نہیں کی جا سکتی۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
تم پر فرض کیا جاتا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت کا وقت آجائے تو اگر وہ کچھ مال چھوڑ جانے والا ہو تو ماں با پ اور رشتہ داروں کے لئے دستور کے مطابق وصیت کرجائے (خدا سے) ڈر نے والوں پر یہ ایک حق ہے
6 Muhammad Junagarhi
تم پر فرض کر دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کوئی مرنے لگے اور مال چھوڑ جاتا ہو تو اپنے ماں باپ اور قرابت داروں کے لئے اچھائی کے ساتھ وصیت کرجائے، پرہیزگاروں پر یہ حق اور ﺛابت ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
تم پر لکھ دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کے سامنے موت آکھڑی ہو۔ بشرطیکہ وہ کچھ مال چھوڑے جا رہا ہو تو مناسب وصیت کر جائے اپنے ماں، باپ اور زیادہ قریبی رشتہ داروں کیلئے۔ یہ پرہیزگاروں کے ذمہ حق ہے (لازم ہے)۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
تمہارے اوپر یہ بھی لکھ دیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت سامنے آجائے تو اگر کوئی مال چھوڑا ہے تواپنے ماں باپ اور قرابتداروں کے لئے وصیت کردے یہ صاحبانِ تقویٰ پر ایک طرح کا حق ہے
9 Tafsir Jalalayn
تم پر فرض کیا جاتا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت کا وقت آجائے تو اگر وہ کچھ مال چھوڑ جانے والا ہو تو ماں باپ اور رشتہ داروں کے لئے دستور کے مطابق وصیت کر جائے (خدا سے) ڈرنے والوں پر یہ ایک حق ہے
آیت نمبر ١٨٠ تا ١٨٢
ترجمہ : تم پر فرض کیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت کا وقت آجائے یعنی موت کی علامات ظاہر ہوں اگر وہ کچھ مال چھوڑے تو والدین اور رشتہ داروں کے لئے وصیت کرے (الوَصیۃُ ) کُتِبَ کا نائب فاعل ہونے کی وجہ سے مرفوع ہے اور اِذَا سے متعلق ہے اگر اِذَا ظرفیہ ہے، اور دال علی الجزاء ہے اگر (اذا) شرطیہ ہے، اور ان کا جواب محذوف ہے، اور وہ فَلْیُوصِ ہے، انصاف کے ساتھ اس طریقہ پر کہ ایک ثلث سے زیادہ کی وصیت نہ کرے، اور مالدار کو ترجیح نہ دے، یہ حق ہے خوف خدا رکھنے والوں پر (حقًّا) اپنے سابقہ جملہ کے مضمون کے لئے مصدر موکد ہے، اور یہ (وصیت کا حکم) آیت میراث اور لَا وَصِیَّۃَ لِواِثٍ سے منسوخ ہے (رواہ الترمذی) لہٰذا جس شخص نے اس کو (یعنی) ایصاء کو بدل دیا علم ہونے لے بعد گواہ ہو یا خود وصی، تو وصیت کی تبدیلی کا گناہ ان لوگوں پر ہوگا جس اس میں تبدیلی کریں گے اس میں اسم ضمیر کی جگہ اسم ظاہر ہے بلاشبہ اللہ تعالیی وصیت کرنے والے کی بات (وصیت) کو سننے والا اور وصی کے فعل سے باخبر ہے تو وہ اس پر جزاء دینے والا ہے، سو اگر وصیت کرنے والے کی طرف سے حق سے نادانستہ یا دانستہ طور پر پھرجانے کا اندیشہ ہو (مُوَصٍّ ) مخفف اور مشددد دونوں ہیں، بایں طور کہ ثلث سے زیادہ کی (وصیت) کا ارادہ کرے یا مثلاً مالدار کی تخصیص کرے، تو انصاف کا حکم دے کر ان کے یعنی موصی اور موصیٰ لہ کے درمیان (کوئی شخص) صلح کرا دے تو اس میں کوئی گناہ نہیں ہے، بلاشبہ اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : کُتِبَ ای فُرِضَ ، کتابت کے اصل معنی لکھنے کے ہیں، مگر علیٰ کے قرینہ سے جو کہ الزام پر دلالت کرتا ہے کے معنی لئے گئے ہیں جیسا کہ کُتِبَ علیکم القصاص میں کہا ہے۔
قولہ : ای اسبابُہٗ مفسرعلام نے مضاف محذوف مان کر ایک سوال مقدر کا جواب دیا ہے :
سوال : آیت میں کہا گیا ہے کہ جب کسی شخص کی موت حاضر ہوجائے تو اس پر وصیت کرنا فرض ہے حالانکہ یہ ممکن نہیں ہے اس لئے کہ حضور موت کے وقت انسان مرجاتا ہے۔
جواب : موت سے علامات موت مراد ہی، یا مجازاً قرب کو حضور سے تعبیر کردیا گیا ہے۔
قولہ : اَحَدَکُمْ اس سے فرض عین کی طرف اشارہ ہے یعنی قانون میراث نازل ہونے سے پہلے وصیت کرنی فرض تھی۔
قولہ : مرفوعٌ بکُتِبَ یہ ان لوگوں کے قول کے رد کی جانب اشارہ ہے جنہوں نے کہا ہے کہ اَلوَصیَّۃُ مبتداء ہے اور للوالدین اس کی خبر ہے، اس قول کے قائلین کی دلیل یہ ہے کہ اگر الوصیَّۃُ ، کُتِبَ کا نائب فاعل ہونے کی وجہ سے مرفوع ہو تو کُتِبَ کو کُتِبَتْ مؤنث ہونا چاہیے۔ جواب : فعل اور فاعل کے درمیان اگر فاصلہ واقع ہو تو فعل اور فاعل میں مطابقت ضروری نہیں رہتی۔
قولہ : اِنْ تَرَکَ ، اَنْ حرف شرط کے جو ان کے بارے میں اختلاف ہے، کہ کیا ہے ؟ اخفش نے اس کی دو صورتیں بیان کی ہیں، جواب شرط الوصیَّۃُ ہے، تقدیر عبارت یہ ہوگی اِنْ تَرَکَ خیراً فَالوَصیۃُ واجِبَۃٌ مگر اس پر یہ اعتراض ہوگا کہ جزاء جب جملہ اسمیہ ہوتی ہے تو اس پر فاء لانا ضروری ہوتا ہے حالانکہ یہاں فاء نہیں ہے اور حذف بلا ضرورت جائز نہیں، دوسری صورت یہ ہے کہ شرط سے پہلے جواب شرط محذوف مانا جائے، تقدیر عبارت یہ ہوگی ای کُتِبَ الوصیَّۃُ للوَالِدَینِ والَاقرَبینَ اِنْ تَرَکَ خیرًا لہٰذا بہتر یہی ہے کہ الوصیۃ کی کُتِبَ کا نائب فاعل مانا جائے، اور دونوں شرطوں کے لئے جزاء محذوف مان لی جائے جیسا کہ مفسر علام نے کہا ہے، اور عدم مطابقت کا بعض حضرات نے یہ جواب دیا ہے کہ الوصیَّۃُ بمعنی ایصاءٌ ہے اور بعض دیگر حضرات نے یہ جواب دیا ہے کہ جب فاعل مؤنث مجازی ہو تو فعل کو مذکر اور مؤنث دونوں لانا جائز ہے، اگر اذا ظرفیت محض کے لئے ہو تو الوصیَّۃُ کا ظرف ہوگا، اور اگر متضمن بمعنی شرط ہو تو دال علیٰ جواب الشرط ہوگا، اور دونوں شرطوں کا جواب محذوب ہوگا۔ (کما صرَّحِ المفسر علیہ الرحمۃ) ۔
قولہ : و متعلق باذا اس اضافہ سے ان حضرات کے قول کی تضعیف مقصود ہے جنہوں نے کہا ہے کہ اِذَا، کُتِبَ سے متعلق ہے نہ کہ الوصیَّۃُ سے ان قائلین حضرات کی دلیل یہ ہے کہ الوصیَّۃُ اسم ہونے کی وجہ سے عامل ضعیف ہے، لہٰذا اپنے معمول مقدم میں عمل نہیں کرسکتا، وجہ ضعف یہ ہے کہ اِذَا ماضی کو مستقبل کے معنی میں کردیتا ہے، اور کُتِبَ فعل ماضی ہے جو کہ زمانہ گزشتہ پر دلالت کرتا ہے اور زمانہ مستقبل ماضی کا ظرف نہیں ہوسکتا، اور بعض حضرات نے یہ اعتراض کیا ہے کہ الوصیَّۃُ اسم عامل ضعیف ہونے کی وجہ سے اپنے ماقبل میں عمل نہیں کرسکتا، اس کا جواب یہ ہے کہ الوصیَّۃُ اسم مصدر ہے نہ کہ اسم جامد اور تحقیق یہ ہے کہ اسم مصدر ظرف مقدم میں عمل کرسکتا ہے اس لئے کہ ظرف میں عمل کرنے کے لئے فعل کی بوکافی ہے اور اسم مصدر میں فعل کی بو ہوتی ہے۔
قولہ : وَدَالٌ علیٰ جوابِھَا ان کانت شرطیۃً ۔
سوال : مفسر علام نے دال علی الجزاء کہا ہے یہ کیوں نہیں کہا کہ الوصیۃ جزاء ہے ؟ جواب : یہ ہے کہ جزاء کے لئے جملہ ہونا شرط ہے اور الوصیَّۃ جملہ نہیں ہے اس لئے خود اَلوَصیَّۃ جزاء نہیں بن سکتا۔
قولہ : وَجَواب ان محذوف، محذوف، جواب کی صفت ہے مطلب یہ ہے کہ الوصیَّۃُ ، اِذَا کے جواب محذوف پر دال ہے اگر اِذا، شرطیہ ہو اور اِنْ کے جواب محذوف پر بھی دال ہے، اور وہ فلیُوْصِ ہے۔
قولہ : حقًّا مصدرٌ مؤکِّدٌ لمضمون الجملۃ قبلَہٗ ، حقًّا سابق جملہ کے مضمون کی تاکید ہے، سابق جملہ سے مراد کُتِبَ عَلَیْکُمْ ہے، اور کُتِبَ علیکم کا مضمون ہے حُقَّ علیکم لہٰذا حقًّا اس کی تاکید ہے اور تقدیر عبارت ہے حُقَّ علیکم حقًّا جس طرح مفعول بغیر لفظ سابق مضمون جملہ کی تاکید کرتا ہے اسی طرح حقًّا بھی مضمون جملہ کی تاکید کر رہا ہے، اور سابق جملہ میں حقَّ علیکم کے علاوہ کا احتمال نہیں ہے۔
قولہ : بآیۃ المیراث آیت میراث سے مراد اللہ تعالیٰ کا قول یُوْصِیْکُمُ اللہُ فِیْ اَوْلَادِکُمْ لِلذَّکَرِ مَثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ ہے، یعنی آیت و صیت کا حکم منسوخ ہے تلاوت باقی ہے۔ قولہ : ای الایصاء اس عبارت کا مقصد ایک اعتراض کا جواب ہے :
اعتراض : بَدَّلَہٗ کی ضمیر الوَصِیَّۃ کی طرف راجع ہے کہ جو مؤنث ہے، لہٰذا ضمیر اور مرجع میں مطابقت نہیں ہے۔
جواب : الوصیَّۃ سے جو ایصاء مفہوم ہے اس کی طرف ضمیر راجع ہے لہٰذا اب کوئی اعتراض نہیں ہے۔
قولہ : اِقامَۃَ الظَّاھرِ مقام المضمر یعنی فاِنَّمَا اِثْمُہٗ علَیْھم کہنا کافی تھا، مگر ضمیر کے بجائے اسم لانے میں علت اثم کی جانب اشارہ ہے یعنی گنہگار ہونے کی وجہ شاہد یا وصی کا وصیت میں تبدیلی کرنا ہے۔
قولہ : مَیلاً عن الحق خطأ، جَنَفُ لغت میں مطلقاً جھکنے اور مائل ہونے کو کہتے ہیں، یہاں حق سے بلا ارادہ پھرجانا مراد ہے اس لئے کہ اس کے بالمقابل بالاثِم آیا ہے، اثم کہتے ہیں بالقصد وبالا رادہ حق سے پھرجانے کو۔
تفسیر و تشریح
قولہ : الوَصِیَّۃُ وصیت لغت میں ہر اس چیز کو کہا جاتا ہے جس کے کرنے کا حکم دیا جائے خواہ زندگی میں یا مرنے کے بعد، لیکن عرف میں اس کام کو کہا جاتا ہے کہ مرنے کے بعد جس کے کرنے کا حکم ہو، خیر کے بہت سے معانی آتے ہیں ان میں سے ایک معنی مال کے بھی ہیں یہی معنی مراد ہیں۔ ابتداء اسلام میں جب میراث کے حصے شریعت کی جانب سے مقرر نہیں ہوئے تھے یہ حکم تھا کہ ترکہ کے ایک ثلث میں مرنے والا اپنے والدین اور دیگر رشتہ داروں کے لئے جتنا جتنا مناسب سمجھے وصیت کر دے باقی جو کچھ رہ جاتا وہ سب اولاد کا حق تھا اس آیت میں یہی حکم مذکور ہے۔ (معارف)
وصیت کا مذکورہ حکم آیت مواریث کے نزول سے پہلے دیا گیا تھا، اب یہ منسوخ ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے اِنَ اللہَ قد اعطیٰ کلَّ ذِی حقٍّ حقَّہٗ فَلَا وصِیَّۃَ لوِارثٍ (ابن کثیر، اخرجہ السنن) اللہ نے ہر حق دار کو اس کا حق دیدیا، لہٰذا اب کسی وارث کے لئے وصیت کرنا جائز نہیں، البتہ ایسے رشتہ داروں کے لئے وصیت کی جاسکتی ہے جو وارث نہ ہوں، یا راہ خیر میں خرچ کرنے کی کی جاسکتی ہے مگر اس کی زیادہ سے زیادہ حد ایک تہائی ہے۔ غیر وارث رشتہ داروں کے لئے وصیت کرنا لازم اور فرض نہیں ہے صرف مستحب یا مباح ہے لہٰذا فرضیت ان کے حق میں بھی منسوخ ہے، فرضیت کی ناسخ وہ حدیث متواتر ہے جس کا اعلان آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوداع کے موقع پر تقریباً ڈیڑھ لاکھ صحابہ (رض) کے مجمع کے سامنے فرمایا : اِنَّ اللہَ اعطٰی لکل ذی حق حقّہٗ لوِارثٍ ، اخرجہ الترمذی وقال ھذا حدیث حسن صحیح۔ اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کا حق خود دیدیا اس لئے ا بکسی وارث کے لئے وصیت جائز نہیں۔
حضرت ابن عباس (رض) کی ایک روایت میں اِلّا أن تجیزہ الورثَۃُ کے الفاظ بھی ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ورثاء اجازت دیں تو وصیت جائز ہے۔ مسئلہ : اگر کسی شخص کے ذمہ دوسرے لوگوں کے حقوق واجبہ ہوں یا اس کے پاس کسی کی امانت رکھی ہو اس پر ان تمام چیزوں کی ادائیگی کے لئے وصیت واجب ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
یعنی اے مومنوں کے گروہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت قریب آجائے، یعنی جب موت کے اسباب، مثلاً مہلک مرض اور دیگر ہلاکت خیز اسباب قریب آجائیں تو اللہ تعالیٰ نے تم پر (وصیت) فرض کی ہے۔ ﴿ اِنْ تَرَکَ خَیْرَۨا ښ﴾ ” اگر اس نے مال چھوڑا ہو“ (خیر) عرف میں مال کثیر کو کہا جاتا ہے، پس اس پر واجب ہے کہ وہ اپنے والدین اور ان لوگوں کے لیے جو سب سے زیادہ اس کی نیکی کے مستحق ہیں اپنے حال اور طاقت کے مطابق بغیر کسی اسراف کے، وصیت کرے۔ علاوہ ازیں قریبی رشتہ داروں کو چھوڑ کر صرف دور کے رشتہ داروں کے لیے ہی وصیت نہ کرے، بلکہ وصیت کو ضرورت اور قرابت مندی کے تقاضوں کے مطابق ترتیب دے، اسی لیے اسم تفضیل کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔ (یعنی اقربین جس کا مطلب یہ ہے کہ جو جتنا زیادہ قریب ہے، وہ اتنا ہی زیادہ تمہارے مال میں استحقاق رکھتا ہے) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿’ حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِیْنَ﴾ ’ ’یہ حکم لازم ہے پرہیزگاروں پر“ وصیت کے واجب ہونے پر دلالت کرتا ہے، کیونکہ وہ حق ثابت ہے اور اس کو اللہ تعالیٰ نے موجبات تقویٰ میں شمار کیا ہے۔
جان لیجیے کہ جمہور مفسرین کی رائے یہ ہے کہ اس آیت کو میراث کی آیت نے منسوخ کردیا ہے اور بعض کی رائے یہ ہے کہ اس آیت میں وصیت کا حکم والدین اور غیر وارث رشتہ داروں کے لیے ہے حالانکہ ایسی کوئی دلیل نہیں جو اس تخصیص پر دلالت کرتی ہو۔ اس ضمن میں بہترین رائے یہ ہے کہ یہ وصیت مجمل طور پر والدین اور قریبی رشتے داروں کے لیے ہے، پھر اس کو اللہ تعالیٰ نے عرف جاری کی طرف لوٹا دیا۔ پھر اس اجمالی حکم کے بعد اللہ تعالیٰ نے وارث والدین اور وارث رشتہ داروں کے لیے اس معروف کو آیات میراث میں مقدر فرما دیا (یعنی ان کے حصوں کا تعین فرما دیا) اور وصیت کا حکم ان والدین اور رشتہ داروں کے لیے باقی رہ گیا جو وراثت سے محروم ہو رہے ہوں تو وصیت کرنے والا ان کے حق میں وصیت کرنے پر مامور ہے اور یہ لوگ اس کی نیکی کے سب سے زیادہ محتاج ہیں۔ اس قول پر تمام امت متفق ہوسکتی ہے اور اس سے سابقہ دونوں اقوال میں تطبیق بھی ہوجاتی ہے، کیونکہ دونوں فریقوں نے اس آیت کو اپنے اپنے نقطہ نظر سے دیکھا اور اختلاف کا باعث بنے۔ اس تطبیق سے اتفاق اور دونوں آیات میں مطابقت حاصل ہوجاتی ہے۔ کیونکہ دونوں آیتوں میں جمع و تطبیق ممکن ہے اور دو آیتوں کے درمیان تطبیق نسخ کے اس دعوے سے بہتر ہے جس کی تائید میں کوئی صحیح دلیل نہ ہو۔
11 Mufti Taqi Usmani
tum per farz kiya gaya hai kay agar tum mein say koi , apney peechay maal chorr ker janey wala ho to jab uss ki moat ka waqt qareeb aajaye , woh apney walaiden aur qareebi rishta daaron kay haq mein dastoor kay mutabiq wasiyyat keray . yeh muttaqi logon kay zimmay aik lazimi haq hai
12 Tafsir Ibn Kathir
وصیت کی وضاحت
اس آیت میں ماں باپ اور قرابت داروں کے لئے وصیت کرنے کا حکم ہو رہا ہے، میراث کے حکم سے پہلے یہ واجب تھا ٹھیک قول یہی ہے، لیکن میراث کے احکام نے اس وصیت کے حکم کو منسوخ کردیا، ہر وارث اپنا مقررہ حصہ بےوصیت لے لے گا، سنن وغیرہ میں حضرت عمرو بن خارجہ سے حدیث ہے کہتے ہیں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطبہ میں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کو اس کا حق پہنچا دیا ہے اب کسی وارث کے لئے کوئی وصیت نہیں، ابن عباس (رض) سورة بقرہ کی تلاوت کرتے ہیں جب آپ اس آیت پر پہنچتے ہیں تو فرماتے ہیں یہ آیت منسوخ ہے (مسند احمد) آپ سے یہ بھی مروی ہے کہ پہلے ماں باپ کے ساتھ اور کوئی رشتہ دار وارث نہ تھا اوروں کے لئے صرف وصیت ہوتی تھی پھر میراث کی آیتیں نازل ہوئیں اور ایک تہائی مال میں وصیت کا اختیار باقی رہا۔ اس آیت کے حکم کو منسوخ کرنے والی آیت (لِلرِّجَالِ نَصِيْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ ۠ وَلِلنِّسَاۗءِ نَصِيْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ اَوْ كَثُرَ ۭ نَصِيْبًا مَّفْرُوْضًا) 4 ۔ النسآء :7) ہے، حضرت ابن عمر (رض) حضرت ابو موسیٰ (رض) سعید بن مسیب، حسن، مجاہد، عطاء، سعید بن جبیر، محمد بن سیرین، عکرمہ، زید بن اسلم، ربیع بن انس، قتادہ، سدی، مقاتل بن حیان، طاؤس، ابراہیم نخعی، شریح، ضحاک اور زہری رحمہم اللہ یہ سب حضرات بھی اس آیت کو منسوخ بتاتے ہیں، لیکن باوجود اس کے تعجب ہے کہ امام رازی نے اپنی تفسیر کبیر میں ابو مسلم اصفہانی سے یہ کیسے نقل کردیا کہ یہ آیت منسوخ نہیں بلکہ آیت میراث اس کی تفسیر ہے اور مطلب آیت کا یہ ہے کہ تم پر وہ وصیت فرض کی گئی جس کا بیان آیت (يُوْصِيْكُمُ اللّٰهُ فِيْٓ اَوْلَادِكُمْ ۤ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ ) 4 ۔ النسآء :11) میں ہے اور یہی قول اکثر مفسرین اور معتبر فقہا کا ہے بعض کہتے ہیں کہ وصیت کا حکم وارثوں کے حق میں منسوخ ہے اور جن کا ورثہ مقرر نہیں ان کے حق میں ثابت ہے حضرت ابن عباس (رض) حسن، مسروق، طاؤس، ضحاک، مسلم بن یسار اور علاء بن زیاد کا مذہب بھی یہی ہے، میں کہتا ہوں سعید بن جبیر، ربیع بن انس، قتادہ اور مقاتل بن حیان بھی یہی کہتے ہیں لیکن ان حضرات کے اس قول کی بنا پر پہلے فقہاء کی اصطلاح میں یہ آیت منسوخ نہیں ٹھہرتی اس لئے کہ میراث کی آیت سے وہ لوگ تو اس حکم سے مخصوص ہوگئے جن کا حصہ شریعت نے خود مقرر کردیا اور جو اس سے پہلے اس آیت کے حکم کی رو سے وصیت میں داخل تھے کیونکہ قرابت دار عام ہیں خواہ ان کا ورثہ مقرر ہو یا نہ ہو تو اب وصیت ان کے لئے ہوئی جو وارث نہیں اور ان کے حق میں نہ رہی جو وارث ہیں، یہ قول اور بعض دیگر حضرات کا یہ قول کہ وصیت کا حکم ابتداء اسلام میں تھا اور وہ بھی غیر ضروری، دونوں کا مطلب قریبا ایک ہوگیا، لیکن جو لوگ وصیت کے اس حکم کو واجب کہتے ہیں اور روانی عبارت اور سیاق وسباق سے بھی بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے ان کے نزدیک تو یہ آیت منسوخ ہی ٹھہرے گی جیسے کہ اکثر مفسرین اور معتبر فقہاء کرام کا قول ہے، پس والدین اور وراثت پانے والے قرابت داروں کے لئے وصیت کرنا بالاجماع منسوخ ہے بلکہ ممنوع ہے حدیث شریف میں آچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کو اس کا حق دے دیا ہے اب وارث کے لئے کوئی وصیت نہیں، آیت میراث کا حکم مستقل ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ واجب و فرض ہے ذوی الفروض اور عصبات کا حصہ مقرر ہے اور اس سے اس آیت کا حکم کلیتہ اٹھ گیا، باقی رہے وہ قرابت دار جن کا کوئی ورثہ مقرر نہیں ان کے لئے تہائی مال میں وصیت کرانا مستحب ہے کچھ تو اس کا حکم اس آیت سے بھی نکلتا ہے دوسرے یہ کہ حدیث شریف میں صاف آچکا ہے بخاری و مسلم میں حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کسی مرد مسلمان کو لائق نہیں کہ اس کے پاس کوئی چیز ہو اور وہ وصیت کرنی چاہتا ہو تو دو راتیں بھی بغیر وصیت لکھے ہوئے گذارے راوی حدیث حضرت عمر فاروق کے صاحبزادے فرماتے ہیں کہ اس فرمان کے سننے کے بعد میں نے تو ایک رات بھی بلا وصیت نہیں گذاری، قرابت داروں اور رشتہ داروں سے سلوک واحسان کرنے کے بارے میں بہت سی آیتیں اور حدیثیں آئی ہیں، ایک حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے ابن آدم تو جو مال میری راہ میں خرچ کرے گا میں اس کی وجہ سے تجھے پاک صاف کروں گا اور تیرے انتقال کے بعد بھی میرے نیک بندوں کی دعاؤں کا سبب بناؤں گا۔ خیرا سے مراد یہاں مال ہے اکثر جلیل القدر مفسرین کی یہی تفسیر ہے بعض مفسرین کا تو قول ہے کہ مال خواہ تھوڑا ہو خواہ بہت وصیت مشروع ہے جیسے میراث تھوڑے مال میں بھی ہے اور زیادہ میں بھی، بعض کہتے ہیں وصیت کا حکم اس وقت ہے جب زیادہ مال ہو، حضرت علی (رض) سے روایت ہے کہ ایک قریشی مرگیا ہے اور تین چار سو دینار اس کے ورثہ میں تھے اور اس نے وصیت کچھ نہیں کی آپ نے فرمایا یہ رقم وصیت کے قابل نہیں اللہ تعالیٰ نے آیت ( ان ترک خیرا) فرمایا ہے، ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت علی (رض) اپنی قوم کے ایک بیمار کی بیمار پرسی کو گئے اس سے کسی نے کہا وصیت کرو تو آپ نے فرمایا وصیت خیر میں ہوتی ہے اور تو تو کم مال چھوڑ رہا ہے اسے اولاد کے لئے ہی چھوڑ جا، حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں ساٹھ دینار جس نے نہیں چھوڑے اس نے خیر نہیں چھوڑی یعنی اس کے ذمہ وصیت کرنا نہیں، طاؤس، اسی دینار بتاتے ہیں قتادہ ایک ہزار بتاتے ہیں۔ معروف سے مراد نرمی اور احسان ہے۔ حضرت حسن فرماتے ہیں وصیت کرنا ہر مسلمان پر ضروری ہے اس میں بھلائی کرے برائی نہ کرے وارثوں کو نقصان نہ پہنچائے اسراف اور فضول خرچی نہ کرے۔ بخاری ومسلم میں ہے کہ حضرت سعد (رض) نے فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں مالدار ہوں اور میری وارث صرف مری ایک لڑکی ہی ہے تو آپ اجازت دیجئے کہ میں اپنے دو تہائی مال کی وصیت کروں آپ نے فرمایا نہیں کہا آدھے کی اجازت دیجئے فرمایا نہیں کہا ایک تہائی کی اجازت دیجئے فرمایا خیر تہائی مال کی وصیت کرو گو یہ بھی بہت ہے تم اپنے پیچھے اپنے وارثوں کو مالدار چھوڑ کر جاؤ یہ بہتر ہے اس سے کہ تم انہیں فقیر اور تنگ دست چھوڑ کر جاؤ کہ وہ اوروں کے سامنے ہاتھ پھیلائیں، صحیح بخاری شریف میں ہے ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کاش کہ لوگ تہائی سے ہٹ کر چوتھائی پر آجائیں اس لئے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تہائی کی رخصت دیتے ہوئے یہ بھی فرمایا ہے کہ تہائی بہت ہے مسند احمد میں ہے حنظلہ بن جذیم بن حنفیہ کے دادا حنفیہ نے ایک یتیم بچے کے لئے جو ان کے ہاں پلتے تھے سو اونٹوں کی وصیت کی ان کی اولاد پر یہ بہت گراں گزرا معاملہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچا حضور نے فرمایا نہیں نہیں نہیں صدقہ میں پانچ دو ورنہ دس دو ورنہ پندرہ ورنہ بیس ورنہ پچیس دو ورنہ تیس دو ورنہ پینتیس دو اگر اس پر بھی نہ مانوں تو خیر زیادہ سے زیادہ چالیس دو ۔ پھر فرمایا جو شخص وصیت کو بدل دے اس میں کمی بیشی کر دے یا وصیت کو چھپالے اس کا گناہ بدلنے والے کے ذمہ ہے میت کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ ثابت ہوگیا، اللہ تعالیٰ وصیت کرنے والے کی وصیت کی اصلیت کو بھی جانتا ہے اور بدلنے والے کی تبدیلی کو بھی نہ اس سے کوئی آواز پوشیدہ نہ کوئی راز۔ حیف کے معنی خطا اور غلطی کے ہیں مثلا کسی وارث کو کسی طرح زیادہ دلوا دینا مثلا کہہ دیا کہ فلاں چیز فلاں کے ہاتھ اتنے اتنے میں بیچ دی جائے وغیرہ اب یہ خواہ بطور غلطی اور خطا کے ہو یا زیادتی محبت و شفقت کی وجہ سے بغیر قصد ایسی حرکت سرزد ہوگئی ہو یا گناہ کے طور پر ہو تو وصی کو اس کے رد و بدل میں کوئی گناہ نہیں۔ وصیت کو شرعی احکام کے مطابق پوری ہو ایسی حالت میں بدلنے والے پر کوئی گناہ یا حرج نہیں واللہ اعلم۔ ابی حاتم میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں زندگی میں ظلم کر کے صدقہ دینے والے کا صدقہ اسی طرح لوٹا دیا جائے گا جس طرح موت کے وقت گناہگار کرنے والے کا صدقہ لوٹا دیا جاتا ہے یہ حدیث ابن مردویہ میں بھی مروی ہے ابن ابی حاتم فرماتے ہیں ولید بن یزید جو اس حدیث کا راوی ہے اس نے اس میں غلطی کی ہے دراصل یہ کلام حضرت عروہ کا ہے، ولید بن مسلم نے اسے اوزاعی سے روایت کیا ہے اور عروہ سے آگے سند نہیں لے گئے امام ابن مردویہ بھی ایک مرفوع حدیث بروایت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ وصیت کی کمی بیشی کبیرہ گناہ ہے لیکن اس حدیث کے مرفوع ہونے میں بھی کلام ہے اس بارے میں سب سے اچھی وہ حدیث ہے جو مسند عبدالرزاق میں بروایت حضرت ابوہریرہ مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا آدمی نیک لوگوں کے اعمال ستر سال تک کرتا رہتا ہے اور وصیت میں ظلم کرتا ہے اور برائی کے عمل پر خاتمہ ہونے کی وجہ سے جہنمی بن جاتا ہے اور بعض لوگ ستر برس تک بد اعمالیاں کرتے رہتے ہیں لیکن وصیت میں عدل وانصاف کرتے ہیں اور آخری عمل ان کا بھلا ہوتا ہے اور وہ جنتی بن جاتے ہیں، پھر حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا اگر چاہو تو قرآن پاک کی اس آیت کو پڑھ آیت (تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَاتَعْتَدُوْھَا ۚ وَمَنْ يَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ ) 65 ۔ الطلاق :1) یعنی یہ اللہ تعالیٰ کی حدیں ہیں ان سے آگے نہ بڑھو۔