البقرہ آية ۱۸۷
اُحِلَّ لَـکُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ اِلٰى نِسَاۤٮِٕكُمْۗ هُنَّ لِبَاسٌ لَّـكُمْ وَاَنْـتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ ۗ عَلِمَ اللّٰهُ اَنَّکُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَکُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنْكُمْۚ فَالْـــٰٔنَ بَاشِرُوْهُنَّ وَابْتَغُوْا مَا کَتَبَ اللّٰهُ لَـكُمْ ۗ وَكُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَـكُمُ الْخَـيْطُ الْاَبْيَضُ مِنَ الْخَـيْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ۖ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّيَامَ اِلَى الَّيْلِۚ وَلَا تُبَاشِرُوْهُنَّ وَاَنْـتُمْ عٰكِفُوْنَ ۙ فِى الْمَسٰجِدِ ۗ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَقْرَبُوْهَا ۗ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ اٰيٰتِهٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُوْنَ
طاہر القادری:
تمہارے لئے روزوں کی راتوں میں اپنی بیویوں کے پاس جانا حلال کر دیا گیا ہے، وہ تمہاری پوشاک ہیں اور تم ان کی پوشاک ہو، اﷲ کو معلوم ہے کہ تم اپنے حق میں خیانت کرتے تھے سو اس نے تمہارے حال پر رحم کیا اور تمہیں معاف فرما دیا، پس اب (روزوں کی راتوں میں بیشک) ان سے مباشرت کیا کرو اور جو اﷲ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے چاہا کرو اور کھاتے پیتے رہا کرو یہاں تک کہ تم پر صبح کا سفید ڈورا (رات کے) سیاہ ڈورے سے (الگ ہو کر) نمایاں ہو جائے، پھر روزہ رات (کی آمد) تک پورا کرو، اور عورتوں سے اس دوران شب باشی نہ کیا کرو جب تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو، یہ اﷲ کی (قائم کردہ) حدیں ہیں پس ان (کے توڑنے) کے نزدیک نہ جاؤ، اسی طرح اﷲ لوگوں کے لئے اپنی آیتیں (کھول کر) بیان فرماتا ہے تاکہ وہ پرہیزگاری اختیار کریں،
English Sahih:
It has been made permissible for you the night preceding fasting to go to your wives [for sexual relations]. They are a clothing for you and you are a clothing for them. Allah knows that you used to deceive yourselves, so He accepted your repentance and forgave you. So now, have relations with them and seek that which Allah has decreed for you [i.e., offspring]. And eat and drink until the white thread of dawn becomes distinct to you from the black thread [of night]. Then complete the fast until the night [i.e., sunset]. And do not have relations with them as long as you are staying for worship in the mosques. These are the limits [set by] Allah, so do not approach them. Thus does Allah make clear His verses [i.e., ordinances] to the people that they may become righteous.
1 Abul A'ala Maududi
تمہارے لیے روزوں کے زمانے میں راتوں کو اپنی بیویوں کے پاس جانا حلال کر دیا گیا ہے وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم اُن کے لیے اللہ کو معلوم ہو گیا کہ تم لوگ چپکے چپکے اپنے آپ سے خیانت کر رہے تھے، مگر اُ س نے تمہارا قصور معاف کر دیا اور تم سے درگزر فرمایا اب تم اپنی بیویوں کے ساتھ شب باشی کرو اور جو لطف اللہ نے تمہارے لیے جائز کر دیا ہے، اُسے حاصل کرو نیز راتوں کو کھاؤ پیو یہاں تک کہ تم کو سیاہی شب کی دھاری سے سپیدۂ صبح کی دھاری نمایاں نظر آ جائے تب یہ سب کام چھوڑ کر رات تک اپنا روزہ پورا کرو اور جب تم مسجدوں میں معتکف ہو، تو بیویوں سے مباشرت نہ کرو یہ اللہ کی باندھی ہوئی حدیں ہیں، ان کے قریب نہ پھٹکنا اِس طرح اللہ اپنے احکام لوگوں کے لیے بصراحت بیان کرتا ہے، توقع ہے کہ وہ غلط رویے سے بچیں گے
2 Ahmed Raza Khan
روزہ کی راتوں میں اپنی عورتوں کے پاس جانا تمہارے لئے حلال ہوا وہ تمہاری لباس ہیں اور تم ان کے لباس، اللہ نے جانا کہ تم اپنی جانوں کو خیانت میں ڈالتے تھے تو اس نے تمہاری توبہ قبول کی اور تمہیں معاف فرمایا تو اب ان سے صحبت کرو اور طلب کرو جو اللہ نے تمہارے نصیب میں لکھا ہو اور کھاؤ اور پیئو یہاں تک کہ تمہارے لئے ظاہر ہوجائے سفیدی کا ڈورا سیاہی کے ڈورے سے (پوپھٹ کر) پھر رات آنے تک روزے پورے کرو اور عورتوں کو ہاتھ نہ لگاؤ جب تم مسجدوں میں اعتکاف سے ہو یہ اللہ کی حدیں ہیں ان کے پاس نہ جاؤ اللہ یوں ہی بیان کرتا ہے لوگوں سے اپنی آیتیں کہ کہیں انہیں پرہیزگاری ملے،
3 Ahmed Ali
تمہارے لیے روزوں کی راتو ں میں اپنی عورتوں سے مباثرت کرنا حلال کیا گیا ہے وہ تمہارے لیے پردہ ہیں اورتم ان کے لیے پردہ ہو الله کو معلوم ہے تم اپنے نفسوں سے خیانت کرتے تھے پس تمہاری توبہ قبول کر لی اور تمہیں معاف کر دیا سو اب ان سے مباثرت کرو اور طلب کرو وہ چیز جو الله نے تمہارے لیے لکھدی ہے اور کھاؤ اور پیو جب تک کہ تمہارے لیے سفید دھاری سیادہ دھاری سے فجر کے وقت صاف ظاہر ہو جاوے پھر روزوں کو رات پورا کرو اور ان سے مباثرت نہ کرو جب کہ تم مسجدوں میں معتکف ہو یہ الله کی حدیں ہیں سو ان کے قریب نہ جاؤ اسی طرح الله اپنی آیتیں لوگوں کے لیے بیان کرتا ہے تاکہ وہ پرہیز گار ہو جائیں
4 Ahsanul Bayan
روزوں کی راتوں میں اپنی بیویوں سے جماع تمہارے لئے حلال کیا گیا وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کے لباس ہو تمہاری پوشیدہ خیانتوں کا اللہ تعالٰی کو علم ہے اس نے تمہاری توبہ قبول فرما کر تم سے درگزر فرمالیا اب تمہیں ان سے مباشرت کی اور اللہ تعالٰی کی لکھی ہوئی چیز کی تلاش کرنے کی اجازت ہے۔ تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ صبح کا سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے ظاہر ہو جائے (١) پھر رات تک روزے کو پورا کرو (٢) اور عورتوں سے اس وقت مباشرت نہ کرو جب کہ تم مسجدوں میں اعتکاف میں ہو، یہ اللہ تعالٰی کی حدود ہیں تم ان کے قریب بھی نہ جاؤ۔ اسی طرح اللہ تعالٰی اپنی آیتیں لوگوں کے لئے بیان فرماتا ہے تاکہ وہ بچیں۔
١٨٧۔١ ابتدا اسلام میں ایک حکم یہ تھا کہ روزہ افطار کرنے کے بعد عشاء کی نماز یا سونے تک کھانے پینے اور بیوی سے مباشرت کرنے کی اجازت تھی سونے کے بعد ان میں سے کوئی کام نہیں کیا جا سکتا تھا ظاہر بات ہے یہ پابندی سخت تھی اور اس پر عمل مشکل تھا۔ اللہ تعالٰی نے اس آیت میں یہ دونوں پابندیاں اٹھا لیں اور افطار سے لے کر صبح صادق تک کھانے پینے اور بیوی سے مباشرت کرنے کی اجازت فرما دی۔
١٨٧۔٢ یعنی رات ہوتے ہی (سورج غروب کے فورا بعد) روزہ افطار کر لو تاخیر مت کرو جیسا کہ حدیث میں بھی روزہ جلد افطار کرنے کی تاکید اور فضیلت آئی ہے دوسرا یہ کہ ایک روزہ افطار کئے بغیر دوسرا روزہ رکھ لینا اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت سختی سے منع فرمایا ہے۔ (کتب حدیث)
١٨٧۔٣ اعتکاف کی حالت میں بیوی سے مباشرت اور بوس و کنار کی اجازت نہیں ہے البتہ ملاقات اور بات چیت جائز ہے۔ اعتکاف کے لئے مسجد ضروری ہے چاہے مرد ہو چاہے عورت۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں نے بھی مسجد میں اعتکاف کیا اس لئے عورتوں کا اپنے گھروں میں اعتکاف میں بیٹھنا صحیح نہیں ہے البتہ مسجد میں ان کے لئے ہرچیز کا مردوں سے الگ انتظام کرنا ضروری ہے تاکہ مردوں سے کسی طرح اختلاط نہ ہو جب تک مسجد میں معقول محفوظ اور مردوں سے بالکل الگ انتظام نہ ہو عورتوں کو مسجد میں اعتکاف بیٹھنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے یہ ایک نفلی عبادت ہے جب تک پوری طرح تحفظ نہ ہو اس نفلی عبادت سے گریز بہتر ہے فقہ کا اصول ہے۔ (درء المفاسد یقدم علی جلب المصالح) (مصالح کے اصول کے مقابلے میں مفاسد سے بچنا اور ان کو ٹالنا زیادہ ضروری ہے)
5 Fateh Muhammad Jalandhry
روزوں کی راتوں میں تمہارے لئے اپنی عورتوں کے پاس جانا کردیا گیا ہے وہ تمہاری پوشاک ہیں اور تم ان کی پوشاک ہو خدا کو معلوم ہے کہ تم (ان کے پاس جانے سے) اپنے حق میں خیانت کرتے تھے سو اس نے تم پر مہربانی کی اور تمہاری حرکات سےدرگزرفرمائی۔اب (تم کو اختیار ہے کہ) ان سے مباشرت کرو۔ اور خدا نے جو چیز تمہارے لئے لکھ رکھی ہے (یعنی اولاد) اس کو (خدا سے) طلب کرو اور کھاؤ پیو یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری (رات کی) سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگے۔ پھر روزہ (رکھ کر) رات تک پورا کرو اور جب تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو تو ان سے مباشرت نہ کرو۔ یہ خدا کی حدیں ہیں ان کے پاس نہ جانا۔ اسی طرح خدا اپنی آیتیں لوگوں کے (سمجھانے کے) لئے کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ وہ پرہیزگار بنیں
6 Muhammad Junagarhi
روزے کی راتوں میں اپنی بیویوں سے ملنا تمہارے لئے حلال کیا گیا، وه تمہارا لباس ہیں اور تم ان کے لباس ہو، تمہاری پوشیده خیانتوں کا اللہ تعالیٰ کو علم ہے، اس نے تمہاری توبہ قبول فرما کر تم سے درگزر فرمالیا، اب تمہیں ان سے مباشرت کی اور اللہ تعالیٰ کی لکھی ہوئی چیز کو تلاش کرنے کی اجازت ہے، تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ صبح کا سفید دھاگہ سیاه دھاگے سے ﻇاہر ہوجائے۔ پھر رات تک روزے کو پورا کرو اور عورتوں سے اس وقت مباشرت نہ کرو جب کہ تم مسجدوں میں اعتکاف میں ہو۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حدود ہیں، تم ان کے قریب بھی نہ جاؤ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنی آیتیں لوگوں کے لئے بیان فرماتا ہے تاکہ وه بچیں
7 Muhammad Hussain Najafi
(اے مسلمانو) روزوں کی رات تمہارے لئے اپنی عورتوں سے مباشرت کرنا حلال کر دیا گیا ہے۔ وہ (عورتیں) تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو خدا جانتا ہے کہ تم اپنی ذات کے ساتھ خیانت کرتے رہے ہو تو اس نے تمہاری توبہ قبول کی اور تمہیں معاف کر دیا۔ پس اب تم ان سے (روزوں کی راتوں میں) مباشرت کرو۔ اور جو کچھ (اولاد) خدا نے تمہارے مقدر میں لکھ دی ہے اسے طلب کرو۔ اور (رات کو) کھاؤ پیؤ۔ یہاں تک کہ صبح کا سفید ڈورا (رات کی) سیاہ ڈوری سے الگ ہو کر ظاہر ہو جائے پھر رات تک روزہ کو پورا کرو۔ اور جب تم مسجدوں میں اعتکاف (قیام) کئے ہوئے ہو تو (رات کو بھی) بیویوں سے مباشرت نہ کرو۔ یہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں ان کے قریب نہ جاؤ اس طرح خدا اپنی آیتوں (احکام) کو لوگوں کے لئے بیان کرتا ہے تاکہ وہ پرہیزگار بن جائیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
تمہارے لئے ماہ رمضان کی رات میں عورتوں کے پاس جانا حلال کر دےا گےا ہے۔ہو تمہارے لئے پردہ پوش ہیں اور تم انکے لئے ۔خدا کو معلام ہے کہ تم اپنے ہی نفس سے خیانت کرتے تھے تو اس نے تمہاری توبہ قبول کرکے تمہےں معاف کر دےا۔ اب تم بہ اطمینان مباشرت کرو اور جو خدا نے تمہارے لئے مقدر کیا ہے اس کی آرزو کرو اوراس وقت تک کھا پی سکتے ہوجب تک فجر کا سیاہ ڈورا ،سفید ڈورے سے نمایاں نہ ہو جائے۔ اس کے بعد رات کی سیاہی تک روزہ کو پورا کرو اور خبردار مسجدوںمیں اعتکاف کے موقع پر عورتوں سے مباشرت نہ کرنا۔یہ سب مقررہ حدود الٰہی ہیں ۔ان کے قرےب بھی نہ جانا ۔اللہ اس طرح اپنی آیتوں کو لوگوں کے لئے واضح طور پر بیان کرتا ہے کہ شاید وہ متقی اور پرہیزگار بن جائیں
9 Tafsir Jalalayn
روزوں کی راتوں میں تمہارے لیے اپنی عورتوں کے پاس جانا جائز کردیا گیا ہے وہ تمہاری پوشاک ہیں اور تم ان کی پوشاک ہو خدا کو معلوم ہے کہ تم (ان کے پاس جانے سے) اپنے حق میں خیانت کرتے تھے سو اس نے تم پر مہربانی کی اور تمہاری حرکات سے درگزر فرمائی اب (تم کو اختیار ہے کہ) ان سے مباشرت کرو اور جو چیز خدا نے تمہارے لیے لکھ رکھی ہے (یعنی اولاد) اس کو خدا سے طلب کرو اور کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری (رات کی) سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگے پھر روزہ (رکھ کر) رات تک پورا کرو اور جب تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو تو ان سے مباشرت نہ کرو یہ خدا کی حدیں ہیں ان کے پاس نہ جانا اسی طرح اپنی آیتیں لوگوں کے (سمجھانے کے) لئے کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ وہ پرہیزگار بنیں
آیت نمبر ١٨٧ تا ١٨٨
ترجمہ : اور حلال کردیا گیا تمہارے لئے روزہ کی رات میں تمہاری عورتوں سے جماع کے طور پر بےحجاب ہونا یہ حکم ابتداء اسلام میں عورتوں سے جماع اور عشاء کے بعد کھانے پینے کی حرمت کو منسوخ کرنے کے لئے نازل ہوا، وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو، یہ کنایہ ہے باہمی معانقہ سے یا ایک دوسرے کا حاجتمند ہونے سے، اللہ کو معلوم ہے کہ تم روزہ کی رات جماع کرکے اپنے ہی ساتھ خیانت کر رہے ہو، یہ واقعہ حضرت عمر (رض) وغیرہ کو پیش آیا تھا، اور ان لوگوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے معذرت چاہی، تو اس نے تمہاری توبہ قبول کرلی اور تم سے درگزر کیا پس اب جب کہ تمہارے لئے حلال کردیا گیا ہے تو ان سے مباشرت کرسکتے ہو یا اس (اولاد) کو طلب کرسکتے ہو جو تمہارے لئے اللہ نے مقدر کردی ہے یعنی جماع جائز کردیا یا ولد مقدر کو طلب کرنا جائز کردیا اور رات کے ہر حصہ میں کھاپی سکتے ہوتا ایں کہ فجر یعنی صبح صادق کا سفید دھاگا کالے دھاگے سے ممتاز ہوجائئے (مِنَ الفجر) الخیط الابیض کا بیان ہے اور الاسود کا بیان محذوف ہے، (اور وہ من اللیل ہے) ظاہر ہونے والی سفیدی کو اور اس تاریکی کو جو اس کے ساتھ ممتد ہوتی ہے سفید اور سیاہ دو دھاگوں کے ساتھ درازی میں تشبیہ دی گئی ہے پھر صبح صادق سے رات تک روزہ پورا کرو، یعنی غروب شمس کے ساتھ رات داخل ہونے تک، اور اپنی عورتوں سے مباشرت نہ کرو جب کہ تم اعتکاف کی نیت سے مسجدوں میں مقیم ہو فی المساجد، عاکفون کے متعلق ہے، یہ ممانعت اس شخص کے لئے ہے جو (مسجد میں) معتکف ہونے کی وجہ سے مسجد سے نکل گیا ہو، اور اپنی بیوی سے مجامعت کرکے واپس آیا ہو، یہ مذکورہ احکام اللہ کی حدود ہیں جس کو اللہ نے اپنے بندوں کے لئے مقرر فرمایا ہے، لہٰذا ان کے قریب بھی نہ جانا یہ تعبیر لا تعتدوھا سے بلیغ تر ہے، جس کو دوسری آیت میں تعبیر کیا گیا ہے، اسی طرح جس طرح تمہارے لئے مذکورہ (احکام) بیان کئے گئے اللہ تعالیٰ اپنی آیتوں کو لوگوں کے لئے بیان کرتا ہے تاکہ حرام کردہ چیزوں سے بچیں اور تم لوگ نہ تو آپس میں ایک دوسرے کا مال ناروا طریقہ سے کھاؤ یعنی باطل طریقہ سے ایک دوسرے کا مال نہ کھاؤ، یعنی اس طریقہ پر جو شرعاً حرام ہے مثلاً چوری، غصب (وغیرہ) اور نہ پہنچاؤ مال کو یعنی مالی خصومت کو حکام کے پاس یعنی مالی نزاع کو حاکموں کے پاس یا مال کو بطور رشوت حکام کے پاس نہ پہنچاؤ تاکہ کھا جاؤ تم مرافعہ الی الحکام کرکے لوگوں کے مال کا ایک حصہ گناہ کے ساتھ آلودہ کرکے جب کہ تم جانتے ہو کہ تم ناحق پر ہو۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ ، الرَّفَثُ وہ گفتگو جو مرد اور عورت کے درمیان جماع کے وقت ہوتی ہے اور دوسرے وقت ناپسند کی جاتی ہے، رفَث اور جماع کے درمیان عموماً لزوم ہونے کی وجہ سے رفث بول کر جماع مراد لیا گیا ہے۔ (اعراب القرآن) رَفَثَ یَرْفُثُ (ن) رَفْثًا، فحش باتیں کرنا۔
سوال : رفث کا صلہ فی یا باء آتا ہے، یہاں الیٰ استعمال ہوا ہے ؟ جواب : رفث چونکہ افضاء کے معنی کو مشتمل ہے لہٰذا صلہ الیٰ لانا صحیح ہے، جیسا کہ مفسر علام نے اشارہ کردیا ہے۔
قولہ : لَیْلَۃَ الصِّیامِ ظاہر تو یہی ہے کہ لَیْلَۃَ ، اُحِلّ کی وجہ سے منصوب ہے جیسا کہ بہت سے مفسرین نے یہی کہا ہے، مگر اس صورت میں یہ شبہ ہوتا ہے کہ حلت تو اس وقت سے پہلے ہی ثابت تھی، اس ترکیب سے ظاہر ہوتا ہے کہ حلت اسی وقت ہوئی۔
سوال : الرفثُ جو کہ بعد میں مذکور ہے وہ لَیْلَۃَ کا ناصب ہوسکتا ہے ؟ جواب : الرفث چونکہ مصدر عامل ضعیف ہے جو اپنے ماقبل میں عمل نہیں کرسکتا، اس لئے وہ عامل نہیں ہے، لہٰذا بہتر یہ ہے کہ لَیْلَۃَ کا عامل محذوف مان لیا جائے، تقدیر عبارت یہ ہوگی اَنْ تَرْفُثوا لَیْلَۃَ الصِّیامِ ۔ قولہ : تخونون، تختانون کی تفسیر تخونون سے کرکے ایک اشکال کا جواب دیا ہے۔
اشکال : تختانون باب افتعال سے ہے جو کہ لازم ہوتا ہے حالانکہ یہاں انفسکم کی جانب متعدی ہے۔ جواب : مفسر علام نے تختانون کی تفسیر تخونون سے کرکے اسی اشکال کا جواب دیا ہے، جواب کا ماحصل یہ ہے کہ افتعال مجرد کے معنی میں ہے اور باب افتعال کثرت خیانت کو ظاہر کرنے کے لئے اختیار کیا گیا ہے۔
قولہ : وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا اس کا عطف باشِرُوھُنَّ پر ہے۔ قولہ : الغَبَش شین اور باء کے فتحہ کے ساتھ بمعنی غلس بقیۃ اللیل یا آخر شب کی ظلمت۔ قولہ : الی دخولہ بغروب الشمس اس میں اشارہ ہے کہ غایت مغیا میں داخل نہیں ہے۔ قولہ : شُبِّہَ مَا یَبدُوا مِنَ البِیَاضِ ومَا یمتدُّ مَعَہٗ اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک اشکال جواب ہے۔
اشکال : یہ ہے کہ صبح صادق کو خیط ابیض سے تشبیہ دی گئی ہے حالانکہ یہ تشبیہ صبح کاذب سے زیادہ مشابہ ہے اس لئے کہ وہ دھاگے کی شکل میں عموداً ممتد ہوتی ہے نہ کہ صبح صادق، صبح صادق تو عرضاً پھیلی ہوئی ہوتی ہے، مذکورہ عبارت سے اسی اعتراض کا جواب دیا ہے
جواب : کا خلاصہ یہ ہے کہ صبح صادق جب ابتدا نمودار ہوتی ہے تو اس کا بالائی کنارہ خیط ابیض کے مشابہ ہوتا ہے، معلوم ہوا تشبیہ ابتداء نمودار ہونے والے کنارہ کے ساتھ ہے نہ کہ درمیان یا آخر کے ساتھ۔ فافھم۔ قولہ : فلا تقربوھا اَبلَغُ مِن لا تَعْتَدُوھَا، ھُوَ ابْلَغُ الخ سے دو اشکالوں کا جواب دینا مقصود ہے :
(١) پہلا اشکال : جن احکام کے قریب نہ جانے کا حکم کیا جا رہا ہے ان میں سے بعض واجب ہیں اور بعض مباح اور بعض حرام تو ان سب کے لیے یہ کہنا ان کے قریب بھی مت جانا کیسے درست ہوسکتا ہے ؟
(٢) دوسرا اشکال : دوسری آیت میں وارد ہوا ہے تِلْکَ حُدُوْدُ اللہِ فَلَا تعْتَدُوْھَا مطلب یہ ہے کہ یہ اللہ کی حدود و احکام ہیں ان سے آگے نہ بڑھنا (تجاوز نہ کرنا) ان دونوں آیتوں کے مفہوم میں تضاد ہے، لہٰذا جمع و توفیق کی کیا صورت ہوگی ؟
(١) پہلے اشکال کا جواب : اللہ تعالیٰ نے احکام کو ان حدود کے ساتھ تشبیہ دی ہے جو حق و باطل کے درمیان حاجز ہیں جو ان احکام پر عمل پیرا ہوگا وہ حق کا ادا کرنے والا ہوگا اور جو ان کی مخالفت کرے گا وہ باطل میں واقع ہوگا، لہٰذا ان کے قریب جانے سے منع فرما دیا تاکہ باطل کے قریب نہ جائے گویا کہ قربان حدود سے نہی، قرب باطل سے نہی ہے۔
(٢) دوسرے اشکال کا جواب : فلا تقربوھَا اور لَا تَعْتَدُوھَا دونوں کا مقصد باطل کے قریب جانے سے منع کرنا ہے، لا تعتدوھَا میں صراحت کے ساتھ منع کیا گیا ہے اور فلا تقربوھا میں بطور کنایہ منع کیا گیا ہے، اور قاعدہ مشہور ہے کہ الکنایۃ ابلغ من التصریح۔
قولہ : ای لا یا کل بعضکم مال بعض اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک شبہ کو دفع کرنا ہے۔
شبہ : وَلَا تَاْکُلُوا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی شخص اپنا مال باطل طریقہ سے نہ کھائے حالانکہ اس کا کوئی مفہوم نہیں ہے
جواب : یہ تقسیم جمع علی الجمع کے قبیل سے نہیں ہے جیسا کہ اِرکَبُوا دَوابکم یعنی تم میں سے ہر اییک اپنے گھوڑے پر سوار ہوجائے، بلکہ یہ لَاتَلْمِزُوا اَنْفُسَکُم کے قبیل سے ہے، یعنی آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ، جیسا کہ بَینَکم کے لفظ سے بھی اسی معنی کی تائید ہوتی ہے۔
قولہ : وَلَا تُدْلُوْا بِھَا، لا کو مقدر مان کر اشارہ کردیا کہ اس کا عطف لاتاکلوا پر ہے۔ لہٰذا جس طرح لاتاکلوا مجزوم بالجازم ہے اسی طرح تدلوا بِھَا بھی مجزوم بالجازم ہے، فرق یہ ہے کہ یہاں جازم مقدر ہے اور وہاں ظاہر تدلوا، اِدلاءٌ سے ماخوذ ہے، اِدلا کے معنی رسی کے ذریعہ کنوئیں میں ڈول لٹکانا، اب وسیلہ اور ذریعہ کے معنی کیلئے مستعار لے لیا گیا ہے، یعنی حکام کے پاس مالی خصومات کو لیجا کرنا جائز طریقہ سے دوسروں کا مال کھانے کا ذریعہ نہ بناؤ اَو بالاموالِ رشوۃ، یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مال سے مالی رشوت مراد ہے۔
تفسیر و تشریح
شان نزول : اُحِلَّ لکُم، اُح، لَّ لکُم کے لفظ سے معلوم ہوا کہ جو چیز اس آیت کے ذریعہ حلال کی گئی ہے وہ اس سے پہلے حرام تھی، بخاری وغیرہ میں بروایت براء ین عازب (رض) مذکور ہے کہ ابتداء میں جب رمضان کے روزے فرض کئے گئے تو افطار کے بعد کھانے پینے اور بیویوں سے اختلاط کی صرف اس وقت تک اجازت تھی جب تک سو نہ جائے، سو جانے کے بعد کی سب چیزیں حرام ہوجاتی تھیں، بعض صحابہ کرام (رض) کو اس میں مشکلات پیش آئیں۔ قیس بن صرمہ انصاری (رض) دن بھر مزدوری کرکے گھر پہنچے تو گھر میں کھانے کے لئے کچھ نہ تھا، بیوی نے کہا میں کہیں سے کچھ انتطام کرکے لاتی ہوں، جب وہ واپس آئیں تو دن بھر کی تکان کی وجہ سے قیس بن صرمہ کی آنکھ لگ گئی جب بیدار ہوئے تو کھانا حرام ہوچکا تھا اسی حالت میں اگلے روز کا روزہ رکھ لیا دوپہر کی وقت ضعف کی وجہ سے بیہوش ہوگئے۔ (ابن کثیر)
اسی طرح بعض صحابہ سونے کے بعد اپنی بیویوں کے ساتھ اختلاط میں مبتلا ہو کر پریشان ہوگئے اسی قسم کا ایک واقعہ حضرت عمر (رض) کا بھی روایات میں مذکور ہے، ایک مرتبہ حضرت عمر (رض) رات دیر گئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے گھر پہنچے تو اپنی بیوی سے ہم بستری کا ارادہ کیا، بیوی نے کہا میں سو چکی ہوں حضرت عمر (رض) نے کہا تم سو چکی ہو میں تو نہیں سویا، اور یہ کہہ کر ہم بستری کی، حضرت کعب (رض) کا بھی اسی طرح کا واقعہ ہوا، حضرت عمر (رض) نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کی معذرت چاہی تو مذکورہ آیت نازل ہوئی۔
حَتٰی یتبیَّنَ لکُم الخیطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الخیط الْاَسْوَد مِنَ الفجر، خیط ابیض سے صبح صادق کا ابتداء نمودار ہونے والا کنارہ اور خیط الاسود سے ظلمت شب بطور استعارہ مراد ہیں مطلب یہ ہے کہ جب صبح صادق نمودار ہوجائے تو کھانا پینا بند کردو۔
امام بخاری وغیرہ نے سہل بن سعد (رض) سے روایت کیا ہے کہ جب ” وکلوا واشربوا حتی یتبیَّنَ لکم الخیط الابیض من الخیط الاسود “ نازل ہوئی، تو بعض لوگوں کا یہ طریقہ کار تھا کہ وہ اپنے پیر میں سفید دھاگا اور کالادھاگا باندھ لیتے تھے اور اس وقت تک کھاتے پیتے رہتے تھے جب تک کہ دونوں دھاگوں میں امتیاز نہ ہونے لگے تو اللہ تعالیٰ نے ” مِنَ الفجر “ نازل فرمائی قرآن میں نازل ہونے والی یہ سب سے چھوٹی آیت ہے۔
صحیحین میں عدی بن حاتم (رض) سے روایت ہے کہ وپ اپنے تکیہ کے نیچے دو دھاگے رکھ لیا کرتے تھے ایک سفید اور دوسرا کالا اور ان دھاگوں کو دیکھتے رہتے اور کھاتے رہتے اس کا تذکرہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا تو آپ نے فرمایا : ” اِنّ وِسَادَکَ لعریْضٌ انما ذلک بیاض النھار وسواد اللیل “ اور بخاری وغیرہ کی روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا : اِنَّکَ لعریض القَفَا اِنَّما ذلک بیض النھار وسواد اللیل یعنی تیرا تکیہ بڑا لمبا چوڑا ہے کہ اس میں بیاض نہار اور سواد لیل سما جاتی ہے، دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا تم عریض القفا ہو۔ عریض القفا بیوقوف اور ناسمجھ کو کہا جاتا ہے، عام طور پر مشہور ہے کہ جس کی گدی عریض ہوتی ہے وہ بیوقوف ہوتا ہے۔
مسئلہ : اگر کوئی شخص صبح صادق کے ہونے نہ ہونے میں شک اور تذبذب کا شکار ہو تو اصل تو یہی ہے کہ کچھ کھانے پینے کا قدام نہ کرے، مشکوک حالت میں صبح صادق کا یقین ہونے سے پہلے کسی نے کچھ کھالیا تو گنہگار نہیں ہوگا لیکن بعد میں تحقیق سے یہ ثابت ہو کہ اس وقت صبح صادق ہوچکی تھی تو قضاء لازم ہوگی، امام جصاص کے بیان سے یہ بات واضح ہوگئی کہ جس شخص کی آنکھ دیر میں کھلی اور صبح صادق یقینی طور پر ہوچکی تھی ایسی صورت میں اگر کچھ کھائے گا تو گنہگار بھی ہوگا اور قضا بھی لازم ہوگی اور اگر مشکوک حالت میں کھائے گا تو گنہگار تو نہیں ہوگا مگر قضا واجب ہوگی۔
وَلاَ تُبَاشِرُوْھُنَّ وَاَنْتُمْ عَاکِفُوْنَ فِی الْمَسَاجِدِ ، اعتکاف کے لغوی معنی کسی جگہ ٹھہرنے کے ہیں اور قرآن و سنت کی اصطلاح میں خاص شرطوں کے ساتھ مسجد میں قیام کرنے کا نام اعتکاف ہے لفظ المساجد کے عموم سے معلوم ہوتا ہے کہ اعتکاف مسجد میں ہی ہوسکتا ہے فقہاء نے یہ شرط بھی لگائی ہے کہ اعتکاف ایسی مسجد میں درست ہوگا جس میں پنجوقتہ نماز باجماعت ہوتی ہو۔ حالت اعتکاف میں رات کو بھی وطی جائز نہیں ہے، ایک دن کے اعتکاف میں سابق رات بھی شامل رہے گی احناف کے یہاں ایک شب و روز سے کم کا اعتکاف نہیں اور اس میں بھی روزہ شرط ہے۔
مسئلہ : اعتکاف کے لئے روزہ شرط ہے اور یہ کہ بلا ضرورت شرعی یا بشری مسجد سے نکلنے سے اعتکاف فاسد ہوجاتا ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
روزوں کے فرض کیے جانے کے بعد شروع شروع میں مسلمانوں پر رات کے وقت سو جانے کے بعد کھانا پینا اور جماع وغیرہ حرام تھا، بنا بریں بعض اصحاب کے لیے یہ چیز مشقت کا باعث ہوئی، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے اس حکم میں تخفیف فرما دی اور رمضان کی راتوں میں ان کے لیے کھانا پینا اور جماع مباح قرار دے دیا۔ خواہ وہ سویا ہو یا نہ سویا ہو اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ کچھ ایسے امور کو ترک کر کے جن کا انہیں حکم دیا گیا تھا، اپنے نفسوں کے ساتھ خیانت کرتے تھے۔ ﴿فَتَابَ عَلَیْکُمْ ﴾” پس اس (اللہ تعالیٰ) نے تم پر رجوع کیا“ بایں طور کہ اس نے تمہارے لیے اس معاملے میں وسعت پیدا کردی، اگر اس میں یہ وسعت پیدا نہ کی جاتی تو یہ معاملہ گناہ کا موجب بنتا۔ ﴿ وَعَفَا عَنْکُمْ ۚ ﴾” اور تم سے درگزر فرمایا“ یعنی جو کچھ خیانت ہوچکی اللہ تعالیٰ نے اس پر تمہیں معاف کردیا۔ ﴿ فَالْئٰنَ﴾” پس اب“ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس رخصت اور وسعت کے بعد ﴿بَاشِرُوْھُنَّ﴾” ان سے مباشرت کرو۔“ یعنی اپنی بیویوں کے ساتھ مباشرت یعنی جماع، بوس و کنار اور لمس وغیرہ کرو۔ ﴿ وَابْتَغُوْا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ﴾’’اور اس چیز کو تلاش کرو، جو اللہ نے تمہارے لیے لکھی ہے“ یعنی اپنی بیویوں کے ساتھ مباشرت میں تقریب الٰہی اور جماع کے سب سے بڑے قصد کو مدنظر رکھو اور وہ ہے حصول اولاد، خود اپنی اور اپنی بیوی کی عفت کی حفاظت اور نکاح کے مقاصد کا حصول۔ نیز رمضان کی راتوں میں اللہ تعالیٰ نے شب قدر کی موافقت کو جو تمہارے لیے مقرر کر رکھا ہے (اس کے حصول کی کوشش کرو) اور تمہارے شایاں نہیں کہ تم شب قدر کے حصول کی کوشش کو چھوڑ کر اس لذت میں مصروف ہوجاؤ اور شب قدر کو ضائع کردو یہ لذت تو پھر بھی حاصل ہوسکتی ہے لیکن اگر شب قدر کے حصول کی فضیلت سے محروم ہوگئے تو یہ فضیلت کبھی حاصل نہیں ہوسکے گی۔
﴿ وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ۠ ﴾” اور کھاؤ اور پیؤ، یہاں تک کہ سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے واضح (یعنی) فجر ہوجائے“ یہ کھانے پینے اور جماع کے وقت کی آخری حد ہے۔ اس آیت کریمہ میں اس امر کی دلیل ہے کہ طلوع فجر کے وقت میں کچھ شک ہو، تو اس وقت میں کچھ کھا پی لیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ یہ آیت سحری کھانے کے استحباب پر بھی دلیل ہے، کیونکہ اس میں کھانے پینے کے لیے امر کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔ نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ سحری کے وقت کھانے پینے میں تاخیر کی جائے۔ یعنی آخری وقت میں سحری کھائی جائے، کیونکہ سحری کا حکم اللہ نے لوگوں کی آسانی ہی کے لیے دیا ہے، اس لیے اس میں جتنی تاخیر کی جائے گی، اتنی ہی سہولت بھی زیادہ ہوگی۔
اس میں اس امر کے جواز کی بھی دلیل ہے کہ اگر جماع کی وجہ سے حالت جنابت میں انتہائے سحر ہوجائے اور وہ غسل نہ کرسکا ہو تو اس کا روزہ صحیح ہے، اس لیے کہ طلوع فجر تک جماع کی اباحت کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ جب فجر ہوگی تو وہ اس وقت جنبی ہوگا اور حق کو لازم ہونے والا امر بھی حق ہوتا ہے۔
﴿ثُمَّ﴾” پھر“ یعنی جب فجر طلوع ہوجائے ﴿ اَتِمُّوا الصِّیَامَ﴾” تو روزے کو پورا کرو“ یعنی روزہ توڑنے والے افعال کے ارتکاب سے رکے رہو ﴿ اِلَی الَّیْلِ ۚ﴾” رات تک“ یعنی غروب آفتاب تک۔ رمضان کی راتوں میں جماع کی جو اجازت دی گئی ہے چونکہ یہ ہر شخص کے لیے عام نہیں، کیونکہ اعتکاف میں بیٹھنے والے کے لیے جماع جائز نہیں، چنانچہ اس استثناء کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے : ﴿ وَلَا تُـبَاشِرُوْھُنَّ وَاَنْتُمْ عٰکِفُوْنَ ۙ فِی الْمَسٰجِدِ ۭ﴾” اور جب مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو تو ان سے مباشرت نہ کرو۔“ یعنی جب تم اعتکاف کی صفت سے متصف ہو تو تم اپنی بیویوں سے مباشرت (ہم بستری، بوس و کنار وغیرہ) نہ کرو۔ یہ آیت کریمہ اعتکاف کی مشروعیت پر دلالت کرتی ہے اور وہ ہے دنیاوی امور سے منقطع ہو کر اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی خاطر مسجد میں گوشہ گیر ہوجانا۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مسجد کے سوا کسی اور جگہ اعتکاف صحیح نہیں اور مساجد کی تعریف سے یہ بھی مستفاد ہوتا ہے کہ یہاں مساجد سے مراد وہ مساجد ہیں جو مسلمانوں کے ہاں معروف ہیں اور یہ وہ مساجد ہیں جہاں پانچ وقت جماعت ہوتی ہو۔
نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جماع ان امور میں سے ہے جن سے اعتکاف فاسد ہوجاتا ہے۔ یہ تمام مذکورہ امور، مثلاً روزے کی حالت میں کھانے پینے اور جماع کی ممانعت جن سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، غیر معذور کے لیے روزہ چھوڑ دینے کی ممانعت اور اعتکاف میں بیٹھنے والے کے لیے جماع کی حرمت وغیرہ﴿حُدُوْدُ اللّٰہِ﴾” اللہ کی حدیں ہیں“ جنہیں اس نے بندوں کے لیے مقرر کیا ہے اور ان کو توڑنے سے انہیں منع کیا ہے۔ ﴿ فَلَا تَقْرَبُوْھَا ۭ﴾ ” پس تم ان کے قریب مت جاؤ“ اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ ارشاد ﴿ فَلَاتَفْعَلُوھَا ﴾” پس تم ان کا ارتکاب مت کرو“ سے زیادہ بلیغ ہے۔ کیونکہ ” قریب جانے“ کے لفظ میں نفس فعل کی حرمت اور اس فعل حرام تک پہنچانے والے وسائل و ذرائع کی حرمت سب شامل ہیں اور بندہ مومن تمام محرمات کو ترک کرنے، حتی الامکان ان سے دور رہنے اور ان تمام اسباب کو ترک کرنے پر مامور ہے جو ان محرمات کی طرف دعوت دیتے ہیں۔
رہے اوامر تو اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں فرماتا ہے : ﴿تِلْكَ حُدُودُ اللَّـهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا ﴾(لبقرة: 229؍2) ” یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں ان سے تجاوز نہ کرو۔“ پس اللہ تعالیٰ نے ان حدود سے باہر نکلنے سے روک دیا۔ ﴿کَذٰلِکَ﴾” اسی طرح“ یعنی جیسے اللہ تعالیٰ نے گزشتہ احکام کو اپنے بندوں کے سامنے اچھی طرح بیان اور مکمل طور پر واضح کردیا ہے﴿ يُبَيِّنُ اللَّـهُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ﴾” اللہ بیان کرتا ہے اپنی نشانیاں لوگوں کے لیے تاکہ وہ بچیں“ اس لیے کہ جب حق ان کے لیے واضح ہوجائے گا تو وہ اس کی پیروی کریں گے اسی طرح جب باطل ان کے سامنے عیاں ہوجائے گا تو وہ اس سے اجتناب کریں گے، کیونکہ کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ انسان فعل حرام کا ارتکاب محض اس وجہ سے کر بیٹھتا ہے کہ ا سے اس کے حرام ہونے کا علم نہیں ہوتا، اگر اسے اس کی حرمت کا علم ہوتا، تو وہ کبھی اس کا ارتکاب نہ کرتا اور جب اللہ تعالیٰ نے ان کے سامنے اپنی آیات کو کھول کھول کر بیان کردیا، تو ان کے پاس کوئی عذر اور کوئی حجت باقی نہ رہی اور یہ چیز تقویٰ کا سبب ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
tumharay liye halal kerdiya gaya hai kay rozon ki raat mein tum apni biwiyon say bey takalluf sohbat kero . woh tumharay liye libas hain , aur tum unn kay liye libas ho . Allah ko ilm tha kay tum apney aap say khayanat ker rahey thay , phir uss ney tum per inayat ki aur tumhari ghalati moaaf farma-di , chunacheh abb tum unn say sohbat kerliya kero , aur jo kuch Allah ney tumharay liye likh rakha hai ussay talab kero , aur uss waqt tak khao piyo jab tak subha ki safaid dhaari siyah dhaari say mumtaz ho ker tum per wazeh ( naa ) hojaye . uss kay baad raat aaney tak rozay pooray kero . aur inn ( apni biwiyon ) say uss halat mein mubashrat naa kero jab tum masjidon mein aetikaf mein bethay ho . yeh Allah ki ( muqarrar ki hoi ) hudood hain , lehaza inn ( ki khilaf warzi ) kay qareeb bhi matt jana . issi tarah Allah apni nishaniyan logon kay samney khol khol ker biyan kerta hai , takay woh taqwa ikhtiyar keren .
12 Tafsir Ibn Kathir
رمضان میں مراعات اور کچھ پابندیاں
ابتدائے اسلام میں یہ حکم تھا کہ افطار کے بعد کھانا پینا، جماع کرنا عشاء کی نماز تک جائز تھا اور اگر کوئی اس سے بھی پہلے سوگیا تو اس پر نیند آتے ہی حرام ہوگیا، اس میں صحابہ (رض) کو قدرے مشقت ہوئی جس یہ رخصت کی آیتیں نازل ہوئیں اور آسانی کے احکام مل گئے رفث سے مراد یہاں جماع ہے، ابن عباس (رض) عطا مجاہد سعید بن جبیر طاؤس سالم بن عبداللہ بن عمرو بن دینا حسن قتادو زہری ضحاک، ابراہیم نخعی، سدی، عطا خراسانی، مقاتل بن حبان رحمہم اللہ بھی یہی فرماتے ہیں۔ لباس سے مراد سکون ہے، ربیع بن انس لحاف کے معنی بیان کرتے ہیں مقصد یہ ہے کہ میاں بیوی کے آپس کے تعلقات اس قسم کے ہیں کہ انہیں ان راتوں میں بھی اجازت دی جاتی ہے پہلے حدیث گزر چکی ہے کہ اس آیت کا شان نزول کیا ہے ؟ جس میں بیان ہوچکا ہے کہ جب یہ حکم تھا کہ افطار سے پہلے اگر کوئی سوجائے تو اب رات کو جاگ کر کھاپی نہیں سکتا اب اسے یہ رات اور دوسرا دن گزار کر مغرب سے پہلے کھانا پینا حلال ہوگا حضرت قیس بن صرمہ انصاری (رض) دن بھر کھتی باڑی کا کام کر کے شام کو گھر آئے بیوی سے کہا کچھ کھانے کو ہے ؟ جواب ملا کچھ نہیں میں جاتی ہوں اور کہیں سے لاتی ہوں وہ تو گئیں اور یہاں ان کی آنکھ لگ گئی جب آکر دیکھا تو بڑا افسوس ہوا کہ اب یہ رات اور دوسرا دن بھوکے پیٹوں کیسے گزرے گا ؟ چناچہ جب آدھا دن ہوا تو حضرت قیس بھوک کے مارے بیہوش ہوگئے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ذکر ہوا اس پر یہ آیت اتری اور مسلمان بہت خوش ہوئے۔ روایت میں یہ بھی ہے کہ صحابہ (رض) رمضان بھر عورتوں کے پاس نہیں جاتے تھے لیکن بعض لوگوں سے کچھ ایسے قصور بھی ہوجایا کرتے تھے جس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی ایک اور روایت میں ہے کہ یہ قصور کئی ایک حضرات سے ہوگیا تھا جن میں حضرت عمر بن خطاب (رض) بھی تھے جنہوں نے عشاء کی نماز کے بعد اپنی اہلیہ سے مباشرت کی تھی پھر دربار نبوت میں شکایتیں ہوئی اور یہ رحمت کی آیتیں اتریں ایک روایت میں ہے کہ حضرت عمر (رض) نے آکر یہ واقعہ سنایا تو آپ نے فرمایا عمر تم سے تو ایسی امید نہ تھی اسی وقت یہ آیت اتری ایک روایت میں ہے کہ حضرت قیس نے عشاء کی نماز کے بعد نیند سے ہوشیار ہو کر کھاپی لیا تھا اور صبح حاضر ہو کر سرکار محمدی میں اپنا قصور بیان کیا تھا ایک اور روایت میں یہ بھی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے جب مبارشرت کا ارادہ کیا تو بیوی صاحبہ نے فرمایا کہ مجھے نیند آگئی تھی لیکن انہوں نے اسے بہانہ سمجھا، اس رات آپ دیر تک مجلس نبوی میں بیٹھے رہے تھے اور بہت رات گئے گھر پہنچے تھے ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت کعب بن مالک (رض) سے بھی ایسا ہی قصور ہوگیا تھا ماکتب اللہ سے مراد اولاد ہے، بعض نے کہا جماع مراد ہے بعض کہتے ہیں لیلۃ القدر مراد ہے قتادہ کہتے ہیں مراد یہ رخصت ہے تطبیق ان سب اقوال میں اس طرح ہوسکتی ہے کہ عموم کے طور پر سبھی مراد ہیں۔ جماع کی رخصت کے بعد کھانے پینے کی اجازت مل رہی ہے کہ صبح صادق تک اس کی بھی اجازت ہے صحیح بخاری شریف میں ہے حضرت سہل بن سعد (رض) فرماتے ہیں جب من الفجر کا لفظ نہیں اترا تھا تو چند لوگوں نے اپنے پاؤں میں سفید اور سیاہ دھاگے باندھ لئے اور جب تک ان کی سفیدی اور سیاہی میں تمیز نہ ہوئی کھاتے پیتے رہے اس کے بعد یہ لفظ اترا اور معلوم ہوگیا کہ اس سے مراد رات سے دن ہے، مسند احمد میں ہے حضرت عدی بن حاتم (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے دو دھاگے (سیاہ اور سفید) اپنے تکئے تلے رکھ لئے اور جب تک ان کے رنگ میں تمیز نہ ہوئی تب تک کھاتا پیتا رہا صبح کو حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا تیرا تکیہ بڑا لمبا چوڑا نکل اس سے مراد تو صبح کی سفیدی کا رات کی سیاہی سے ظاہر ہونا ہے۔ یہ حدیث بخاری ومسلم میں بھی ہے، مطلب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے امر قول کا یہ ہے کہ آیت میں تو دھاگوں سے مراد دن کی سفیدی اور رات کی تاریکی ہے اگر تیرے تکیہ تلے یہ دونون آجاتی ہوں تو گویا اس کی لمبائی مشرق ومغرب تک کی ہے، صحیح بخاری میں یہ تفسیر بھی روایتا موجود ہے، بعض روایتوں میں یہ لفظ بھی ہے کہ پھر تو تو بڑی لمبی چوڑی گردن والا ہے، بعض لوگوں نے اس کے معنی بیان کئے ہیں کہ کند ذہن ہے لیکن یہ معنی غلط ہیں، بلکہ مطلب دونوں جملوں کا ایک ہی ہے کیونکہ جب تکیہ اتنا بڑا ہے تو گردن بھی اتنی بڑی ہی ہوگی واللہ اعلم۔ بخاری شریف میں حضرت عدی کا اسی طرح کا سوال اور آپ کا اسی طرح کا جواب تفصیل وار یہی ہے، آیت کے ان الفاظ سے سحری کھانے کا مستحب ہونا بھی ثابت ہوتا ہے اس لئے کہ اللہ کی رخصتوں پر عمل کرنا اسے پسند ہے،حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ سحری کھایا کرو اس میں برکت ہے (بخاری ومسلم) ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں سحری کھانے ہی کا فرق ہے (مسلم) سحری کا کھانا برکت ہے اسے نہ چھوڑو اگر کچھ نہ ملے تو پانی کا گھونٹ ہی سہی اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے سحری کھانے والوں پر رحمت بھیجتے ہیں (مسند احمد) اسی طرح کی اور بھی بہت سے حدیثیں ہیں سحری کو دیر کر کے کھانا چاہئے ایسے وقت کہ فراغت کے کچھ ہی دیر بعد صبح صادق ہوجائے۔ حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ ہم سحری کھاتے ہی نماز کے لئے کھڑے ہوجایا کرتے تھے اذان اور سحری کے درمیان اتنا ہی فرق ہوتا تھا کہ پچاس آیتیں پڑھ لی جائیں (بخاری ومسلم) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں جب تک میری امت افطار میں جلدی کرے اور سحری میں تاخیر کرے تب تک بھلائی میں رہے گی۔ (مسند احمد) یہ بھی حدیث سے ثابت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا نام غذائے مبارک رکھا ہے، مسند احمد وغیرہ کی حدیچ میں ہے حضرت حذیفہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہم نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ سحری کھائی ایسے وقت کہ گویا سورج طلوع ہونے والا ہی تھا لیکن اس میں ایک راوی عاصم بن ابو نجود منفرد ہیں اور مراد اس سے دن کی نزدیکی ہے جیسے فرمان باری تعالیٰ فاذا بلغن اجلہن الخ یعنی جب وہ عورتیں اپنے وقتوں کو پہنچ جائیں مراد یہ ہے کہ جب عدت کا زمانہ ختم ہوجانے کے قریب ہو یہی مراد یہاں اس حدیث سے بھی ہے کہ انہوں نے سحری کھائی اور صبح صادق ہوجانے کا یقین نہ تھا بلکہ ایسا وقت تھا کہ کوئی کہتا تھا ہوگئی کوئی کہتا تھا نہیں ہوئی کہ اکثر اصحاب رسول اللہ کا دیر سے سحری کھانا اور آخری وقت تک کھاتے رہنا ثابت ہے جیسے حضرت ابو بکر، حضرت عمر، حضرت علی، ابن مسعود، حضرت حذیفہ، حضرت ابوہریرہ حضرت ابن عمر، حضرت ابن عباس، حضرت زید بن ثابت (رض) اجمعین اور تابعین کی بھی ایک بہت بڑی جماعت سے صبح صادق طلوع ہونے کے بالکل قریب تک ہی سحری کھانا مروی ہے، جیسے محمد بن علی بن حسین، ابو مجلز، ابراہیم نخعی، ابو الضحی، ابو وائل وغیرہ، شاگردان ابن مسعود، عطا، حسن، حاکم بن عیینہ، مجاہد، عروہ بن زبیر، ابو الشعثائ، جابر بن زیاد، اعمش اور جابر بن رشد کا اللہ تعالیٰ ان سب پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے ہم نے ان سب کی اسنادیں اپنی مستقل کتاب کتاب الصیام میں بیان کردی ہے وللہ الحمد ابن جریری نے اپنی تفسیر میں بعض لوگوں سے یہ بھی نقل کیا ہے کہ سورج کے طلوع ہونے تک کھانا پینا جائز ہے جیسے غروب ہوتے ہی افطار کرنا، لیکن یہ قول کوئی اہل علم قبول نہیں کرسکتا کیونکہ نص قرآن کے خلاف ہے قرآن میں حیط کا لفظ موجود ہے، بخاری ومسلم کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا حضرت بلال (رض) کی اذان سن کر تم سحری سے نہ رک جایا کرو وہ رات باقی ہوتی ہے اذان دے دیا کرتے ہیں تم کھاتے پیتے رہو جب تک حضرت عبداللہ بن ام مکتوم (رض) کی اذان نہ سن لو وہ اذان نہیں کہتے جب تک فجرطلوع نہ ہوجائے۔ مسند احمد میں حدیث ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ وہ فجر نہیں جو آسمان کے کناروں میں لمبی پھیلتی ہے بلکہ وہ جو سرخی والی اور کنارے کنارے ظاہر ہونے والی ہوتی ہے ترمذی میں بھی یہ روایت ہے اس میں ہے کہ اس پہلی فجر کو جو طلوع ہو کر اوپر کو چڑھتی ہے دیکھ کر کھانے پینے سے نہ کو بلکہ کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ سرخ دھاری پیش ہوجائے، ایک اور حدیث میں صبح کاذب اور اذان بلال کو ایک ساتھ بھی بیان فرمایا ہے ایک اور روایت میں صبح کاذب کو صبح کی سفیدی کے ستون کی مانند بتایا ہے، دوسری روایت میں اس پہلی اذان کو جس کے موذن حضرت بلال (رض) تھے یہ وجہ بیان کی ہے کہ وہ سوتوں کو جگانے اور نماز تہجد پڑھنے والوں اور قضا لوٹا نے کے لئے ہوتی، فجر اس طرح نہیں ہے جب تک اس طرح نہ ہو (یعنی آسمان میں اونچی چڑھنے والی نہیں بلکہ کناروں میں دھاری کی طرح ظاہر ہونے والی۔ ایک مرسل حدیث میں ہے کہ فجر دو ہیں ایک تو بھیڑیے کی دم کی طرح ہے اس سے روزے دار پر کوئی چیز حرام نہیں ہوتی ہاں وہ فجر جو کناروں میں ظاہر ہو وہ صبح کی نماز اور روزے دار کا کھانا موقوف کرنے کا وقت ہے ابن عباس (رض) فرماتے ہیں جو سفیدی آسمان کے نیچے سے اوپر کو چڑھتی ہے اسے نماز کی حلت اور روزے کی حرمت سے کوئی سروکار نہیں لیکن فجر جو پہاڑوں کی چوٹیوں پر چمکنے لگتی ہے وہ کھانا پینا حرام کرتی ہے۔ حضرت عطا سے مروی ہے کہ آسمان میں لمبی لمبی چڑھنے والی روشنی نہ تو روزہ رکھنے والے پر کھانا پینا حرام کرتی ہے نہ اس سے نماز کا وقت آیا ہوا معلوم ہوسکتا ہے نہ حج فوت ہوتا ہے لیکن جو صبح پہاڑوں کی چوٹیوں پر پھیل جاتی ہے یہ وہ صبح ہے جو روزہ دار کے لئے سب چیزیں حرام کردیتی ہے اور نمازی کو نماز حلال کردیتی ہے اور حج فوت ہوجاتا ہے ان دونون روایتوں کی سند صحیح ہے اور بہت سے سلف سے منقول ہے۔ اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔
مسئلہ : چونکہ جماع کا اور کھانے پینے کا آخری وقت اللہ تعالیٰ نے روزہ رکھنے والے کے لئے صبح صادق کا مقرر کیا ہے اس سے اس مسئلہ پر بھی استدلال ہوسکتا ہے کہ صبح کے وقت جو شخص جنبی اٹھا وہ غسل کرلے اور اپنا روزہ پورا کرلے اس پر کوئی حرج نہں، چاروں اماموں اور سلف وخلف کے جمہور علماء کرام کا یہی مذہب ہے، بخاری ومسلم میں حضرت عائشہ اور حضرت ام سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو جماع کرتے صبح کے وقت جنبی اٹھتے پھر غسل کر کے روزہ رکھتے آپ کا یہ جنبہ ہونا احتلام کے سبب نہ ہوتا تھا، حضرت ام سلمہ والی روایت میں ہے پھر آپ نہ افطار کرتے تھے نہ قضا کرتے تھے، صحیح مسلم شریف میں حضرت عائشہ (رض) سے روایت میں ہے کہ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں صبح نماز کا وقت آجانے تک جنبی ہوتا ہوں تو پھر کیا میں روزہ رکھ لوں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہی بات میرے ساتھ بھی ہوتی ہے اور میں روزہ رکھتا ہوں اس نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم تو آپ جیسے نہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کے تو سب اگلے پچھلے گناہ معاف فرمادئیے ہیں آپ نے فرمایا واللہ مجھ تو امید ہے کہ تم سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا اور تم سب سے زیادہ تقویٰ کی باتوں کو جاننے والا میں ہوں۔ مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے کہ جب صبح کی اذان ہوجائے اور تم میں سے کوئی جنبی ہو تو وہ اس دن روزہ نہ رکھے، اس کی اسناد بہت عمدہ ہے اور یہ حدیث شرط شیخین پر ہے۔ جیسے کہ ظاہر ہے یہ حدیث بخار مسلم میں بھی حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے وہ فضل بن عباس سے روایت کرتے ہیں وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنن نسائی میں یہ حدیث بروایت حضرت ابوہریرہ (رض) ، سالم، عطا، ہشام بن عروہ اور حسن بصری رحمہم اللہ بھی یہی کہتے ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر جنبی ہو کر سوگیا ہو اور آنکھ کھلے تو صبح صادق ہوگئی ہو تو اس کے روزے میں کوئی نقصان نہیں حضرت عائشہ اور حضرت ام سلمہ والی حدیث کا یہی مطلب ہے اور اگر اس نے عمدا غسل نہیں کیا اور اسی حالت میں صبح صادق ہوگئی تو اس کا روزہ نہیں ہوگا حضرت عروہ، طاؤس اور حسن یہی کہتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں اگر فرضی روزہ ہو تو پورا تو کرلے لیکن قضا لازم ہے اور نفلی روزہ ہو تو کوئی حرج نہیں، ابراہیم نخعی یہی کہتے ہیں، خواجہ حسن بصری سے بھی ایک روایت ہے بعض کہتے ہیں حضرت ابوہریرہ والی حدیث حضرت عائشہ والی حدیث سے منسوخ ہے لیکن حقیقت میں تاریخ کا پتہ نہیں جس سے نسخ ثابت ہو سکے۔ ابن حزم فرماتے ہیں اس کی ناسخ یہ آیت قرآنی ہے لیکن یہ بھی دور کی بات ہے اس لئے کہ اس آیت کا بعد میں ہونا تاریخ سے ثابت نہیں بلکہ اس حیثیت سے تو بظاہر یہ حدیث اس آیت کے بعد کی ہے، بعض لوگ کہتے ہیں حضرت ابوہریرہ (رض) والی حدیث میں لاکمال نفی کا ہے یعنی اس شخص کا روزہ کامل نہیں کیونکہ حضرت عائشہ (رض) اور حضرت ام سلمہ والی حدیث سے جواز صاف طور سے ثابت ہو رہا ہے یہی مسلک ٹھیک بھی ہے۔ اور دوسرے تمام اقوال سے یہ قول عمدہ ہے اور یوں کہنے سے دونوں روایتوں میں تطبیق کی صورت بھی نکل آتی ہے واللہ اعلم۔ پھر فرماتا ہے کہ روزے کو رات تک پورا کرو اس سے ثابت ہوا کہ سورج کے ڈوبتے ہی روزہ افطار کرلینا چاہئے، بخاری مسلم میں امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب ادھر سے رات آجائے اور ادھر سے دن چلا جائے تو روزے دار افطار کرلے بخاری مسلم میں حضرت سہل بن سعد ساعدی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تک لوگ افطار کرنے میں جلدی کریں گے خیر سے رہیں گے، مسند احمد حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ عزوجل کا ارشاد ہے کہ مجھے سب سے زیادہ پیارے وہ بندے ہیں جو روزہ افطار کرنے میں جلدی کرنے والے ہیں، امام ترمذی (رح) اس حدیث کو حسن غریب کہتے ہیں، مسند کی ایک اور حدیث میں ہے کہ بشری بن خصاصیہ کی بیوی صاحبہ حضرت لیلیٰ فرماتی ہیں کہ میں نے دو روزوں کو بغیر افطار کئے ملانا چاہا تو میرے خاوند نے مجھے منع کیا اور کہا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے منع کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ کام نصرانیوں کا ہے تم تو روزے اس طرح رکھو جس طرح اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ رات کو روزہ افطار کرلیا کرو اور بھی بہت سی احادیث روزے سے روزے کو ملانے کی ممانعت آئی ہے مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا روزے سے روزہ نہ ملاؤ تو لوگوں نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ خود تو ملاتے ہیں ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تم جیسا نہیں ہوں میں رات گزارتا ہوں میرا رب مجھے کھلا پلا دیتا ہے لیکن لوگ پھر بھی اس سے باز نہ رہے تو آپ نے دو دن دو راتوں کا برابر روزہ رکھا پھر چاند دکھائی دیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر چاند نہ چڑھتا تو میں یونہی روزوں کو ملائے جاتا گویا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی عاجزی ظاہر کرنا چاہتے تھے بخاری ومسلم میں بھی یہ حدیث ہے اور اسی طرح روزے کے بےافطار کئے اور رات کو کچھ کھائے بغیر دوسرے روزے سے ملالینے کی ممانعت میں بخاری ومسلم میں حضرت انس حضرت ابن عمر اور حضرت عائشہ (رض) سے بھی مرفوع حدیثیں مروی ہیں، پس ثابت ہوا کہ امت کو تو منع کیا گیا ہے لیکن آپ کی ذات اس سے مستثنی تھی آپ کو اس کی طاقت تھی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کی مدد کی جاتی تھی، یہ بھی خیال رہے کہ مجھے میرا رب کھلا پلا دیتا ہے اس سے مراد حقیقتا کھانا پینا نہیں کیونکہ پھر تو روزے سے روزے کا وصال نہ ہوا بلکہ یہ صرف روحانی طور پر مدد ہے جیسے کہ ایک عربی شاعر کا شعر ہے
لہا احادیث من ذکراک تشغلہا
عن الشراب وتلہیہا عن الزاد
یعنی اسے تیرے ذکر اور تیری باتوں میں وہ دلچسپی ہے کہ کھانے پینے یک قلم بےپرواہ ہوجاتی ہے۔ ہاں اگر کوئی شخص دوسری سحری تک رک رہنا چاہے تو یہ جائز ہے حضرت ابو سعید خدری (رض) والی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا روزے کو روزے سے مت ملاؤ جو ملنا ہی چاہے تو سحری تک ملا لے لوگوں نے کہا کہ آپ تو ملا دیتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تم جیسا نہیں مجھے تو رات ہی کو کھلانے والا کھلا دیتا ہے اور پلانے والا پلا دیتا ہے (بخاری مسلم) ایک اور روایت میں ہے کہ ایک صحابیہ عورت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئی آپ سحری کھا رہے تھے فرمایا آؤ تم بھی کھالو اس نے کہا میں تو روزے سے ہوں آپ نے فرمایا تم روزہ کس طرح رکھتی ہو اس نے بیان کیا۔ تو آپ نے فرمایا آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرح سحری کے وقت سے دوسری سحری کے وقت تک کا ملا ہوا روزہ کیوں نہیں رکھتیں ؟ (ابن جریر) مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک سحری سے دوسری سحری تک کا روزہ رکھتے تھے، ابن جریر میں حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) وغیرہ سلف صالحین سے مروی ہے کہ وہ کئی کئی دن تک پے درپے بغیر کچھ کھائے روزہ رکھتے تھے، بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ عبادت کے طور پر نہ تھا کہ بلکہ نفس کو مارنے کے لئے ریاضت کے طور پر تھا واللہ اعلم۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ انہوں نے سمجھا ہو کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اس سے روکنا صرف شفقت اور مہربانی کے طور پر نہ تھا کہ ناجائز بتانے کے طور پر جیسے کہ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں آپ نے لوگوں پر رحم کھا کر اس سے منع فرمایا تھا، پس ابن زبیر اور ان کے صاحبزادے عامر اور ان کی راہ چلنے والے اپنے نفس میں قوت پاتے تھے اور روزے پر روزہ رکھے جاتے تھے، یہ بھی مروی کہ جب وہ افطار کرتے تو پہلے گھی اور کڑوا گوند کھاتے تاکہ پہلے غذا پہنچنے سے آنتیں جل نہ جائیں، مروی ہے کہ حضرت ابن زبیر (رض) سات سات دن تک برابر روزے سے رہتے اس اثناء میں دن کو یا رات کو کچھ نہ کھاتے اور پھر ساتویں دن خوب تندرست چست و چالاک اور سب سے زیادہ قوی پائے جاتے، ابو العالیہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے دن کا روزہ فرض کردیا رہی رات تو جو چاہے کھالے جو نہ چاہے نہ کھائے پھر فرمان ہوتا ہے کہ اعتکاف کی حالت میں عورتوں سے مباشرت نہ کرو ابن عباس (رض) کا قول ہے جو شخص مسجد میں اعتکاف میں بیٹھا ہو خواہ رمضان میں خواہ اور مہینوں میں اس پر دن کے وقت یا رات کے وقت اپنی بیوی سے جماع کرنا حرام ہے جب تک اعتکاف پورا نہ ہوجائے حضرت ضحاک فرماتے ہیں پہلے لوگ اعتکاف کی حالت میں بھی جماع کرلیا کرتے تھے جس پر یہ آیت اتری اور مسجد میں اعتکاف کئے ہوئے پر جماع حرام کیا گیا مجاہد اور قتادہ بھی یہی کہتے ہیں پس علمائے کرام کا متفقہ فتویٰ ہے کہ اعتکاف والا اگر کسی ضروری حاجت کے لئے گھر میں جائے مثلا پیشاب پاخانہ کے لئے یا کھانا کھانے کے لئے تو اس کام سے فارغ ہوتے ہی مسجد میں چلا آئے وہاں ٹھہرنا جائز نہیں نہ اپنی بیوی سے بوس وکنار وغیرہ جائز ہے نہ کسی اور کام میں سوائے اعتکاف کے مشغول ہونا اس کے لئے جائز ہے بلکہ بیمار کی بیمار پرسی کے لئے بھی جانا جائز نہیں ہاں یہ اور بات ہے کہ چلتے چلتے پوچھ لے اعتکاف کے اور بھی بہت سے احکام ہیں بعض میں اختلاف بھی ہے جن سب کو ہم نے اپنی مستقل کتاب کتاب الصیام کے آخر میں بیان کیے ہیں وللہ الحمد والمنۃ۔ چونکہ قرآن پاک میں روزے کے بیان کے بعد اعتکاف کا ذکر ہے اس لیے اکثر مصنفین نے بھی اپنی اپنی کتابوں میں روزے کے بعد ہی اعتکاف کے احکام بیان کئے ہیں اس میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اعتکاف روزے کی حالت میں کرنا چاہئے یا رمضان کے آخر میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی رمضان شریف کے آخری دنوں میں اعتکاف کیا کرتے تھے یہاں تک کہ آپ کو وفات آئی آپ کے بعد امہات المومنین آپ کی بیویاں اعتکاف کیا کرتی تھیں (بخاری ومسلم) بخاری ومسلم میں ہے کہ حضرت صفیہ بنت حیی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آپ کی اعتکاف کی حالت میں حاضر ہوتی تھیں اور کوئی ضروری بات پوچھنے کی ہوتی تو وہ دریافت کر کے چلی جاتی ایک مرتبہ رات کو جب جانے لگیں تو چونکہ مکان مسجد نبوی سے فاصلہ پر تھا اس لئے حضور ساتھ ہو لئے کہ پہنچا آئیں راستہ میں دو انصاری صحابی مل گئے اور آپ کے ساتھ آپ کی بیوی صاحبہ کو دیکھ کر شرم کے مارے جلدی جلدی قدم بڑھا کر جانے لگے۔ آپ نے فرمایا ٹھہر جاؤ سنو یہ میری بیوی صفیہ ہیں وہ کہنے لگے سبحان اللہ ! (کیا ہمیں کوئی اور خیال بھی ہوسکتا ہے ؟ ) آپ نے فرمایا شیطان انسان کی رگ رگ میں خون کی طرح پھرتا رہتا ہے مجھے خیال ہوا کہ کہیں تمہارے دل میں کوئی بدگمانی نہ پیدا کر دے حضرت امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے اس واقعہ سے اپنی امت کو گویا سبق سکھا رہے ہیں کہ وہ تہمت کی جگہوں سے بچتے رہیں ورنہ ناممکن ہے کہ وہ پاکباز صحابہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نسبت کوئی برا خیال بھی دل میں لائیں اور یہ بھی ناممکن ہے کہ آپ ان کی نسبت یہ خیال فرمائیں واللہ اعلم۔ آیت میں مراد مباشرت سے جماع اور اس کے اسباب ہیں جیسے بوس وکنار وغیرہ ورنہ کسی چیز کا لینا دینا وغیرہ یہ سب باتیں جائز ہیں حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اعتکاف کی حالت میں میری طرف جھکا دیا کرتے تھے میں آپ کے سر میں کنگھی کردیا کرتی تھی حالانکہ میں حیض سے ہوتی تھی آپ اعتکاف کے دنوں میں ضروری حاجت کے رفع کے سوا اور وقت گھر میں تشریف نہیں لاتے تھے حضرت عائشہ فرماتی ہیں اعتکاف کی حالت میں تو چلتے چلتے ہی گھر کے بیمار کی بیمار پرسی کرلیا کرتی ہوں۔ پھر فرماتا ہے کہ یہ ہماری بیان کردہ باتیں اور فرض کئے ہوئے احکام اور مقرر کی ہوئی حدیں ہیں روزے اور روزوں کے احکام اور اس کے مسائل اور اس میں جو کام جائز ہیں یا جو ناجائز ہیں غرض وہ سب ہماری حدبندیاں ہیں خبردار ان کے قریب بھی نہ آنا نہ ان سے تجاوز کرنا نہ ان کے آگے بڑھنا بعض کہتے ہیں یہ حد اعتکاف کی حالت میں مباشرت سے الگ رہنا ہے بعض کہتے ہیں ان آیتوں کے چاروں حکم مراد ہے پھر فرمایا جس طرح روزے اور اس کے احکام اور اس کے مسائل اور اس کی تفصیل ہم نے بیان کردی اسی طرح اور احکام بھی ہم اپنے بندے اور رسول کی معرفت سب کے سب تمام جہان کے لئے بیان کیا کرتے ہیں تاکہ وہ یہ معلوم کرسکیں کہ ہدایت کیا ہے اور اطاعت کسے کہتے ہیں ؟ اور اس بنا پر وہ متقی بن جائیں جیسے اور جگہ ہے آیت (هُوَ الَّذِيْ يُنَزِّلُ عَلٰي عَبْدِهٖٓ اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ لِّيُخْرِجَكُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ ۭ وَاِنَّ اللّٰهَ بِكُمْ لَرَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ) 57 ۔ الحدید :9) وہ اللہ جو اپنے بندے پر روشن آیتیں نازل فرماتا ہے تاکہ تمہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لائے اللہ تعالیٰ تم پر رافت و رحمت کرنے والا ہے۔