حرمت والے مہینے کے بدلے حرمت والا مہینہ ہے اور (دیگر) حرمت والی چیزیں ایک دوسرے کا بدل ہیں، پس اگر تم پر کوئی زیادتی کرے تم بھی اس پر زیادتی کرو مگر اسی قدر جتنی اس نے تم پر کی، اور اﷲ سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ اﷲ ڈرنے والوں کے ساتھ ہے،
English Sahih:
[Battle in] the sacred month is for [aggression committed in] the sacred month, and for [all] violations is legal retribution. So whoever has assaulted you, then assault him in the same way that he has assaulted you. And fear Allah and know that Allah is with those who fear Him.
1 Abul A'ala Maududi
ماہ حرام کا بدلہ حرام ہی ہے اور تمام حرمتوں کا لحاظ برابری کے ساتھ ہوگا لہٰذا جوتم پر دست درازی کرے، تم بھی اسی طرح اس پر دست درازی کرو البتہ اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ اللہ انہیں لوگوں کے ساتھ ہے، جو اس کی حدود توڑنے سے پرہیز کرتے ہیں
2 Ahmed Raza Khan
ماہ حرام کے بدلے ماہ حرام اور ادب کے بدلے ادب ہے جو تم پر زیادتی کرے اس پر زیادتی کرو اتنی ہی جتنی اس نے کی اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ اللہ ڈر والوں کے ساتھ ہے،
3 Ahmed Ali
حرمت واے مہینے کا بدلہ حرمت والا مہینہ ہے اور سب قابلِ تعظیم باتوں کا بدلہ ہے پھر جو تم پر زیادتی کرےتم بھی اس پر زیادتی کرو جیسی کہ اس نے تم پر زیادتی کی اور الله سے ڈرو اور جان لو کہ الله پرہیزگاروں کے ساتھ ہے
4 Ahsanul Bayan
حرمت والے مہینے حرمت والے مہینوں کے بدلے ہیں اور حرمتیں ادلے بدلے کی ہیں (٣) جو تم پر زیادتی کرے تم بھی اس پر اسی کے مثل زیادتی کرو جو تم پر کی ہے اور اللہ تعالٰی سے ڈرتے رہا کرو اور جان رکھو کہ اللہ تعالٰی پرہزگاروں کے ساتھ ہے۔
١٩٤۔١۔ ٦ ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چودہ سو صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کو ساتھ لے کر عمرہ کے لئے گئے تھے لیکن کفار مکہ نے انہیں مکہ میں نہیں جانے دیا اور یہ طے پایا کہ آئندہ سال مسلمان تین دن کے لئے عمرہ کرنے کی غرض سے مکہ آ سکیں گے یہ مہینہ تھا جو حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے جب دوسرے سال حسب معاہدہ اسی مہینے میں عمرہ کرنے کے لئے جانے لگے تو اللہ تعالٰی نے یہ آیات نازل فرمائیں مطلب یہ ہے کہ اس دفعہ بھی اگر کفار مکہ اس مہینے کی حرمت پامال کر کے (گزشتہ سال کی طرح) تمہیں مکہ جانے سے روکیں تو تم بھی اس کی حرمت کو نظر انداز کر کے ان سے بھرپور مقابلہ کرو۔ حرمتوں کو ملحوظ رکھنے میں بدلہ ہے یعنی وہ حرمت کا خیال رکھیں تو تم بھی رکھو بصورت دیگر تم بھی حرمت کو نظر انداز کر کے کفار کو عبرت ناک سبق سکھاؤ (ابن کثیر)۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
ادب کا مہینہ ادب کے مہینے کے مقابل ہے اور ادب کی چیزیں ایک دوسرے کا بدلہ ہیں۔ پس اگر کوئی تم پر زیادتی کرے تو جیسی زیادتی وہ تم پر کرے ویسی ہی تم اس پر کرو۔ اور خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ خدا ڈرنے والوں کے ساتھ ہے
6 Muhammad Junagarhi
حرمت والے مہینے حرمت والے مہینوں کے بدلے ہیں اور حرمتیں ادلے بدلے کی ہیں جو تم پر زیادتی کرے تم بھی اس پر اسی کے مثل زیادتی کرو جو تم پر کی ہے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو اور جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
حرمت والے مہینہ کا بدلہ حرمت والا مہینہ ہے اور حرمتوں میں بھی قصاص (ادلا بدلا) ہے لہٰذا جو شخص تم پر زیادتی کرے تو تم بھی اس کے ساتھ اسی طرح زیادتی کرو جس طرح اس نے تم پر زیادتی کی ہے اور خدا (کی نافرمانی) سے ڈرو۔ اور سمجھ لو کہ اللہ یقینا پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
شہر حرام کا جواب شہر حرام ہے اور حرمات کا بھی قصاص ہے لہٰذا جو تم پر زیادتی کرے تم بھی ویسا ہی برتاؤ کرو جیسی زیادتی اس نے کی ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو اور یہ سمجھ لو کہ خدا پرہیزگاروں ہی کے ساتھ ہے
9 Tafsir Jalalayn
ادب کا مہینہ ادب کے مہینے کے مقابل ہے اور ادب کی چیزیں ایک دوسرے کا بدلہ ہیں، پس اگر کوئی تم پر زیادتی کرے تو جیسی زیادتی وہ تم پر کرے ویسی ہی تم اس پر کرو۔ اور خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ خدا ڈرنے والوں کے ساتھ ہے
10 Tafsir as-Saadi
﴿ اَلشَّہْرُ الْحَرَامُ بِالشَّہْرِ الْحَرَامِ ﴾” حرمت والا مہینہ، حرمت والے مہینے کے بدلے میں ہے“ اس آیت میں اس مفہوم کا احتمال ہے کہ اس سے مراد یہ واقعہ ہو کہ جب صلح حدیبیہ والے سال کفار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مکہ مکرمہ میں داخل ہونے سے روک دیا تھا اور ان سے یہ معاہدہ کیا تھا کہ وہ اگلے سال مکہ مکرمہ آئیں گے، تو مسجد حرام میں داخل ہونے سے روکنے کا واقعہ اور عمرہ قضا دونوں حرمت والے مہینے (ذوالقعدہ) میں پیش آئے۔ اس لیے حرام مہینے کے مقابلے میں حرام مہینے کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اس مفہوم کی رو سے اس آیت کریمہ میں صحابہ کرام کے مناسب کی تکمیل کی خبر دے کر ان کی دل جوئی کی ہے، دوسرا احتمال یہ ہے کہ تم نے اگر ان کے ساتھ حرمت والے مہینے میں لڑائی کی ہے تو (کیا ہوا) انہوں نے بھی تو تم سے حرمت والے مہینے ہی میں لڑائی کی ہے اس لئے حد سے تجاوز کرنے والے تو وہی کفار مکہ ہیں (تمہیں تو مجبوراً لڑنا پڑا ہے) پس تمہارے لئے اس میں کوئی حرج نہیں۔ اس اعتبار سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿ وَالْحُرُمٰتُ قِصَاصٌ ۭ﴾”اور حرمتوں میں بدلہ ہے“ عام کا عطف خاص پر،کے باب سے ہوگا، یعنی ہر وہ چیز جو قابل احترام ہے، وہ حرمت والا مہینہ ہو یا حرمت والا شہر ہو یا احرام ہو یا اس سے بھی زیادہ عام ہو، یعنی ہر وہ چیز جس کی حرمت کا حکم شریعت نے دیا ہے، جو کوئی ان کی بے حرمتی کی جرأت کرے گا، اس سے قصاص لیا جائے گا۔ پس جو کوئی حرام مہینے میں لڑائی کرے گا اس کے ساتھ لڑائی کی جائے گی جو کوئی اس محترم شہر کی بے حرمتی کرے گا اس پر حد جاری کی جائے گی اور اس کا کوئی احترام نہیں۔ جو کوئی بدلہ لینے کے لئے (حرم شریف کے اندر) کسی کو قتل کرے گا اسے قتل کیا جائے گا جو کسی کو زخمی کرے گا یا اس کا کوئی عضو کاٹے گا، اس کا اس سے قصاص لیا جائے گا۔ جو کوئی بلا جواز کسی کا مال لے گا، اس سے اس کا بدلہ لیا جائے گا۔ البتہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا صاحب حق کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ مال میں سے اپنے مال کے بقدر مال لے لے؟ اس بارے میں اہل علم میں اختلاف ہے اس میں راجح مسلک یہ ہے کہ اگر حق کا سبب واضح ہوجیسے مہمان جب کہ دوسرے شخص نے اس کی مہمان نوازی نہ کی ہو، بیوی اور وہ قریبی رشتہ دار جن کا نفقہ جس کے ذمہ فرض ہو، وہ نفقہ اور کفالت سے انکار کر دے، تو اس کے مال میں سے بقدر حق مال لے لینا جائز ہے۔ اور اگر حق کا سبب خفی اور غیر واضح ہو، مثلاً کوئی شخص کسی کے قرض کا انکار کردیتا ہے کہ اس نے قرض لیا ہی نہیں یا کسی امانت میں خیانت کرتا ہے، یا اس میں سے چوری کرلیتا ہے وغیرہ، تو اس صورت میں مال لینا جائز نہیں ہے۔ اس طرح دلائل میں تطبیق ہوجاتی ہے اور تعارض نہیں رہتا۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے گزشتہ حکم کی تاکید اور تقویت کے لئے فرمایا ﴿فَمَنِ اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ ۠﴾” جو تم پر زیادتی کرے، تو تم بھی اس پر اس کی مثال زیادتی کرو جو اس نے تم پر کی“ یہ بدلہ لینے کی صفت کی تفسیر ہے۔ نیز یہ کہ یہ تعدی کا ارتکاب کرنے والے کی تعدی اور ظلم کی مماثلت ہے۔ چونکہ غالب حالات میں، اگر نفوس انسانی کو (اپنے ساتھ زیادتی کے بدلے میں) سزا دینے کی رخصت دے دی جائے، تو وہ اپنی تشفی اور تسکین کے لئے جائز حد پر نہیں رکتے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو التزام تقویٰ کا حکم دیا جو کہ نام ہے اللہ تعالیٰ کی حدود پر ٹھہر جانے اور ان سے تجاوز نہ کرنے کا اور ان کو بتلایا کہ ﴿ اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ﴾ ” اللہ تعالیٰ اہل تقویٰ کے ساتھ ہے“ یعنی اللہ کی مدد و نصرت اور اس کی تائید و توفیق ان کے ساتھ ہے اور جسے اللہ تعالیٰ کی معیت حاصل ہوگئی، وہ ابدی سعادت سے سرفراز ہوگیا اور جس نے تقویٰ کا التزام نہ کیا تو اس کا سرپرست اس سے علیحدہ ہوگیا، اسے بے یارو مددگار چھوڑ دیا اور اسے اس کے نفس کے حوالے کردیا، تب اس کی ہلاکت اس کی رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہوجاتی ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
hurmat walay maheenay ka badla hurmat wala maheena hai , aur hurmaton per bhi badlay kay ehkaam jari hotay hain . chunacheh agar koi shaks tum per koi ziyadti keray to tum bhi wesi hi ziyadti uss per kero jaisi ziyadti uss ney tum per ki ho , aur Allah say dartay raho , aur achi tarah samajh lo kay Allah unhi ka sathi hai jo uss ka khof dil mein rakhtay hain
12 Tafsir Ibn Kathir
بیعت رضوان ذوالقعدہ سن\0\06ہجری میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عمرے کے لئے صحابہ کرام سمیت مکہ کو تشریف لے چلے لیکن مشرکین نے آپ کو حدیبیہ والے میدان میں روک لیا بالآخر اس بات پر صلح ہوئی کہ آئندہ سال آپ عمرہ کریں اور اس سال واپس تشریف لے جائیں چونکہ ذی القعدہ کا مہینہ بھی حرمت والا مہینہ ہے اس لئے یہ آیت نازل ہوئی مسند احمد میں حدیث ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حرمت والے مہینوں میں جنگ نہیں کرتے تھے ہاں اگر کوئی آپ پر چڑھائی کرے تو اور بات ہے بلکہ جنگ کرتے ہوئے اگر حرمت والے مہینے آجاتے تو آپ لڑائی موقوف کردیتے، حدیبیہ کے میدان میں بھی جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ خبر پہنچی کہ حضرت عثمان کو مشرکین نے قتل کردیا جو کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پیغام لے کر مکہ شریف میں گئے تھے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے چودہ سو صحابہ سے ایک درخت تلے مشرکوں سے جہاد کرنے کی بیعت لی پھر جب معلوم ہوا کہ یہ خبر غلط ہے تو آپ نے اپنا ارادہ ملتوی کردیا اور صلح کی طرف مائل ہوگئے۔ پھر جو واقعہ ہوا وہ ہوا۔ اسی طرح جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوازن کی لڑائی سے حنین والے دن فارغ ہوئے اور مشرکین طائف میں جا کر قلعہ بند ہوگئے تو آپ نے اس کا محاصرہ کرلیا چالیس دن تک یہ محاصرہ رہا بالآخر کچھ صحابہ کی شہادت کے بعد محاصرہ اٹھا کر آپ مکہ کی طرف لوٹ گئے اور جعرانہ سے آپ نے عمرے کا احرام باندھا یہیں حنین کی غنیمتیں تقسیم کیں اور یہ عمرہ آپ کا ذوالقعدہ میں ہوا یہ سن\0\08ہجری کا واقعہ ہے، اللہ تعالیٰ آپ پر درود وسلام بھیجے۔ پھر فرماتا ہے جو تم پر زیادتی کرے تم بھی اس پر اتنی ہی زیادتی کرلو، یعنی مشرکین سے بھی عدل کا خیال رکھو، یہاں بھی زیادتی کے بدلے کو زیادتی سے تعبیر کرنا ویسا ہی ہے جیسے اور جگہ عذاب وسزا کے بدلے میں برائی کے لفظ سے بیان کیا گیا، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں یہ آیت مکہ شریف میں اتری جہاں مسلمانوں میں کوئی شوکت وشان نہ تھی نہ جہاد کا حکم تھا پھر یہ آیت مدینہ شریف میں جہاد کے حکم سے منسوخ ہوگئی، لیکن امام ابن جریر (رح) نے اس بات کی تردید کی ہے اور فرماتے ہیں کہ یہ آیت مدنی ہے عمرہ قضا کے بعد نازل ہوئی ہے حضرت مجاہد کا قول بھی یہی ہے۔ ارشاد ہے اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور پرہیزگاری اختیار کرو اور اسے جان لو کہ ایسے ہی لوگوں کے ساتھ دین و دنیا میں اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت رہتی ہے۔