البقرہ آية ۲۲۹
اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِۖ فَاِمْسَاكٌ ۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِيْحٌ ۢ بِاِحْسَانٍ ۗوَلَا يَحِلُّ لَـکُمْ اَنْ تَأْخُذُوْا مِمَّاۤ اٰتَيْتُمُوْهُنَّ شَيْـــًٔا اِلَّاۤ اَنْ يَّخَافَاۤ اَ لَّا يُقِيْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِۗ فَاِنْ خِفْتُمْ اَ لَّا يُقِيْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ ۙ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيْمَا افْتَدَتْ بِهٖۗ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَعْتَدُوْهَا ۚ وَمَنْ يَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَاُولٰۤٮِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ
طاہر القادری:
طلاق (صرف) دو بار (تک) ہے، پھر یا تو (بیوی کو) اچھے طریقے سے (زوجیت میں) روک لینا ہے یا بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے، اور تمہارے لئے جائز نہیں کہ جو چیزیں تم انہیں دے چکے ہو اس میں سے کچھ واپس لو سوائے اس کے کہ دونوں کو اندیشہ ہو کہ (اب رشتۂ زوجیت برقرار رکھتے ہوئے) دونوں اﷲ کی حدود کو قائم نہ رکھ سکیں گے، پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ دونوں اﷲ کی حدود کو قائم نہ رکھ سکیں گے، سو (اندریں صورت) ان پر کوئی گناہ نہیں کہ بیوی (خود) کچھ بدلہ دے کر (اس تکلیف دہ بندھن سے) آزادی لے لے، یہ اﷲ کی (مقرر کی ہوئی) حدیں ہیں، پس تم ان سے آگے مت بڑھو اور جو لوگ اﷲ کی حدود سے تجاوز کرتے ہیں سو وہی لوگ ظالم ہیں،
English Sahih:
Divorce is twice. Then [after that], either keep [her] in an acceptable manner or release [her] with good treatment. And it is not lawful for you to take anything of what you have given them unless both fear that they will not be able to keep [within] the limits of Allah. But if you fear that they will not keep [within] the limits of Allah, then there is no blame upon either of them concerning that by which she ransoms herself. These are the limits of Allah, so do not transgress them. And whoever transgresses the limits of Allah – it is those who are the wrongdoers [i.e., the unjust].
1 Abul A'ala Maududi
طلاق دو بار ہے پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا بھلے طریقے سے اس کو رخصت کر دیا جائے اور رخصت کر تے ہوئے ایسا کرنا تمہارے لیے جائز نہیں ہے کہ جو کچھ تم انہیں دے چکے ہو، اُس میں سے کچھ واپس لے لو البتہ یہ صورت مستثنیٰ ہے کہ زوجین کو اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا اندیشہ ہو ایسی صورت میں اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ وہ دونوں حدود الٰہی پر قائم نہ رہیں گے، تو اُن دونوں کے درمیان یہ معاملہ ہو جانے میں مضائقہ نہیں کہ عورت اپنے شوہر کو کچھ معاوضہ دے کر علیحدگی حاصل کر لے یہ اللہ کے مقرر کردہ حدود ہیں، اِن سے تجاوز نہ کرو اور جو لوگ حدود الٰہی سے تجاوز کریں، وہی ظالم ہیں
2 Ahmed Raza Khan
یہ طلاق دو بار تک ہے پھر بھلائی کے ساتھ روک لینا ہے یا نکوئی (اچھے سلوک) کے ساتھ چھوڑ دینا ہے اور تمہیں روا نہیں کہ جو کچھ عورتوں کو دیا اس میں سے کچھ واپس لو مگر جب دونوں کو اندیشہ ہو کہ اللہ کی حدیں قائم نہ کریں گے پھر اگر تمہیں خوف ہو کہ وہ دونوں ٹھیک انہیں حدوں پر نہ رہیں گے تو ان پر کچھ گناہ نہیں اس میں جو بدلہ دے کر عورت چھٹی لے، یہ اللہ کی حدیں ہیں ان سے آگے نہ بڑھو اور جو اللہ کی حدوں سے آگے بڑھے تو وہی لوگ ظالم ہیں،
3 Ahmed Ali
طلاق دو مرتبہ ہے پھر بھلائی کے ساتھ روک لینا ہے یا نیکی کے ساتھ چھوڑ دنیا ہے اور تمہارے یے اس میں سے کچھ بھی لینا جائز نہیں جو تم نے انہیں دیا ہے مگر یہ کہ دونوں ڈریں کہ الله کی حدیں قائم نہیں رکھ سکیں گے پھر اگرتمہیں خوف ہو کہ دونوں الله کی حدیں قائم نہیں رکھ سکیں گے تو ان دونوں پر اس میں کوئی گناہ نہیں کہ عورت معاوضہ دے کر پیچھا چھڑالے یہ الله کی حدیں ہیں سو ان سے تجاوز نہ کرو اورجو الله کی حدوں سے تجاوز کرے گا سو وہی ظالم ہیں
4 Ahsanul Bayan
یہ طلاقیں دو مرتبہ (١) ہیں پھر یا تو اچھائی سے روکنا (٢) یا عمدگی کے ساتھ چھوڑ دینا (٣) اور تمہیں حلال نہیں تم نے انہیں جو دیا ہے اس میں سے کچھ بھی لو، ہاں یہ اور بات ہے کہ دونوں کو اللہ کی حدیں قائم نہ رکھ سکنے کا خوف ہو اس لئے اگر تمہیں ڈر ہو کہ دونوں اللہ کی حدیں قائم نہ رکھ سکیں گے تو عورت رہائی پانے کے لئے کچھ دے ڈالے، اس پر دونوں پر گناہ نہیں (٤) یہ اللہ کی حدود ہیں خبردار ان سے آگے نہیں بڑھنا اور جو لوگ اللہ کی حدوں سے تجاوز کر جائیں وہ ظالم ہیں۔
٢٢٩۔١ یعنی وہ طلاق جس میں خاوند کو (عدت کے اندر رجوع کا حق حاصل ہے وہ دو مرتبہ ہے پہلی مرتبہ طلاق کے بعد بھی اور دوسری مرتبہ طلاق کے بعد بھی رجوع ہو سکتا ہے تیسری مرتبہ طلاق دینے کے بعد رجع کی اجازت نہیں زمانہ جاہلیت میں یہ حق طلاق و رجوع غیر محدود تھا جس سے عورتوں پر بڑا بوجھ تھا ۔ نیز معلوم ہونا چاہیے کہ بہت سے علماء ایک مجلس کی تین طلاقوں کے واقع ہونے ہی کا فتویٰ دیتے ہیں۔
٢٢٩۔٢ یعنی رجوع کر کے اچھے طریقے سے بسانا۔
٢٢٩۔٣ یعنی تیسری مرتبہ طلاق دے کر۔
٢٢٩۔٤ اس میں خلع کا بیان ہے یعنی عورت خاوند سے علیحدگی حاصل کرنا چاہے تو اس صورت میں خاوند عورت سے اپنا دیا ہوا مہر واپس لے سکتا ہے خاوند اگر علیحدگی قبول کرنے پر آمادہ نہ ہو تو عدالت خاوند کو طلاق دینے کا حکم دے گی اور اگر وہ اسے نہ مانے تو علت نکاح فسخ کر دے گی گویا خلع بزریعہ طلاق بھی ہو سکتا ہے اور بذریعہ فسخ بھی دونوں صورتوں میں عدت ایک حیض ہے (ابو داؤد، ترمذی، نسائی والحاکم[۔ فتح القدیر) عورت کو یہ حق دینے کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی سخت تاکید کی گئی ہے کہ عورت بغیر کسی معقول عذر کے خاوند سے علیحدگی یعنی طلاق کامطالبہ نہ کرے اگر ایسا کرے گی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی عورتوں کے لئے یہ سخت وعید بیان فرمائی کہ وہ جنت کی خوشبو تک نہیں پائیں گیں۔ (ابن کثیر وغیرہ)
5 Fateh Muhammad Jalandhry
طلاق (صرف) دوبار ہے (یعنی جب دو دفعہ طلاق دے دی جائے تو) پھر (عورتوں کو) یا تو بطریق شائستہ (نکاح میں) رہنے دینا یا بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینا۔ اور یہ جائز نہیں کہ جو مہر تم ان کو دے چکے ہو اس میں سے کچھ واپس لے لو۔ ہاں اگر زن و شوہر کو خوف ہو کہ وہ خدا کی حدوں کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو اگر عورت (خاوند کے ہاتھ سے) رہائی پانے کے بدلے میں کچھ دے ڈالے تو دونوں پر کچھ گناہ نہیں۔ یہ خدا کی (مقرر کی ہوئی) حدیں ہیں ان سے باہر نہ نکلنا۔ اور جو لوگ خدا کی حدوں سے باہر نکل جائیں گے وہ گنہگار ہوں گے
6 Muhammad Junagarhi
یہ طلاقیں دو مرتبہ ہیں، پھر یا تو اچھائی سے روکنا یا عمدگی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے اور تمہیں حلال نہیں کہ تم نے انہیں جو دے دیا ہے اس میں سے کچھ بھی لو، ہاں یہ اور بات ہے کہ دونوں کو اللہ کی حدیں قائم نہ رکھ سکنے کا خوف ہو، اس لئے اگر تمہیں ڈر ہو کہ یہ دونوں اللہ کی حدیں قائم نہ رکھ سکیں گے تو عورت رہائی پانے کے لئے کچھ دے ڈالے، اس میں دونوں پر گناه نہیں یہ اللہ کی حدود ہیں خبردار ان سے آگے نہ بڑھنا اور جو لوگ اللہ کی حدوں سے تجاوز کرجائیں وه ﻇالم ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
اور طلاق (رجعی) دو ہی مرتبہ ہے اس کے بعد یا تو اچھے طریقہ سے روک لیا جائے گا یا بھلائی کے ساتھ رخصت کر دیا جائے گا۔ اور تمہارے لئے جائز نہیں ہے کہ جو کچھ انہیں (بطورِ زر مہر اور ہدیہ و تحفہ) دے چکے ہو اس میں سے کچھ واپس لو مگر یہ کہ ان دونوں (میاں بیوی) کو اندیشہ ہو کہ وہ خدا کی قائم کردہ حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو پھر (اے مسلمانو!) تمہیں بھی یہ خوف ہو کہ وہ حدودِ الٰہیہ کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو (اس صورت میں) عورت کو (بطورِ فدیہ خلع) کچھ معاوضہ دینا چاہیے (اور دے کر اپنی جان چھڑانا چاہیے) تو اس میں دونوں پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ یہ خدا کی مقرر کردہ حدیں ہیں ان سے آگے نہ بڑھو۔ اور جو لوگ خدا کی مقرر کی ہوئی حدوں سے آگے بڑھتے ہیں وہی لوگ ظالم ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
طلاق دو مرتبہ دی جائے گی. اس کے بعد یا نیکی کے ساتھ روک لیا جائے گا یا حسنِ سلوک کے ساتھ آزاد کردیا جائے گا اور تمہارے لئے جائز نہیں ہے کہ جو کچھ انہیں دے دیا ہے اس میں سے کچھ واپس لو مگر یہ کہ یہ اندیشہ ہو کہ دونوں حدود الٰہی کو قائم نہ رکھ سکیں گے تو جب تمہیں یہ خوف پیدا ہوجائے کہ وہ دونوں حدود الٰہی کو قائم نہ رکھ سکیں گے تو دونوں کے لئے آزادی ہے اس فدیہ کے بارے میں جو عورت مرد کو دے. لیکن یہ حدود الہٰیہ ہیں ان سے تجاوز نہ کرنا اور جو حدود الٰہی سے تجاوز کرے گا وہ ظالمین میں شمار ہوگا
9 Tafsir Jalalayn
طلاق (صرف) دو بار ہے (یعنی جب دو دفعہ طلاق دے دی جائے تو) پھر (عورتوں کو) یا تو بطریق شائستہ (نکاح میں) رہنے دینا ہے یا بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینا اور یہ جائز نہیں کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو ہاں اگر زن و شوہر کو خوف ہو کہ وہ خدا کی حدوں کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو اگر عورت (خاوند کے ہاتھ سے) رہائی پانے کے بدلے میں کچھ دے ڈالے تو دونوں پر کچھ گناہ نہیں یہ خدا کی (مقرر کی ہوئی) حدیں ہیں ان سے باہر نہ نکلنا اور جو لوگ خدا کی حدو سے باہر نکل جائیں گے وہ گنہگار ہوں گے
آیت نمبر ٢٢٩ تا ٢٣١
ترجمہ : ایسی طلاق جس کے بعد رجوع کیا جاسکے دو با رہے یعنی دو تک ہیں، پھر یا تو معروف طریقہ سے تمہارے ذمہ روک لینا ہے بعد اس کے کہ ان سے رجوع کرلو، یا بھلے طریقہ سے ان کا رخصت کردینا ہے بغیر نقصان پہنچائے اور شوہرو ! تمہارے لئے یہ بات جائز نہیں کہ جب تم ان کو طلاق دو تو جو مہر تم نے ان کو دیا ہے اس میں سے کچھ بھی واپس لو البتہ یہ صورت مستثنیٰ ہے کہ زوجین کو اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا اندیشہ ہو کہ اللہ نے ان کے لئے جو حدود مقرر کئے ہیں ان کو ادا نہ کرسکیں گے اور ایک قراءت میں (یَخَافَا، یُقیما) کو تاء کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے، اگر تمہیں یہ اندیشہ ہو کہ وہ دونوں حدود الٰہی پر قائم نہ رہ سکیں گے تو ان دونوں کے درمیان معاملہ طے ہوجانے میں کہ عورت اپنے نفس کا مالی معاوضہ دیدے تاکہ شوہر اس کو طلاق دیدے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں، یعنی نہ شوہر کے لئے اس معاوضہ کے لینے میں کوئی حرج ہے اور نہ عورت کے لئے اس کے دینے میں یہ مذکورہ احکام اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں ان سے تجاوز نہ کرو اور جو لوگ حدود الٰہی سے تجاوز کریں وہی لوگ ظالم ہیں، پھر اگر شوہر دو طلاقوں کے بعد طلاق دیدے تو اس کے لئے تیسری طلاق کے بعد وہ عورت حلال نہیں اِلاّ یہ کہ وہ کسی دوسرے شخص سے نکاح کرے اور وہ (دوسرا شوہر) اس سے وطی کرے، جیسا کہ حدیث میں وارد ہے (رواہ الشیخان) پھر اگر دوسرا شوہر اس کو طلاق دیدے تو بیوی اور شوہر اول پر کوئی حرج نہیں کہ عدت گزرنے کے بعد دوبارہ نکاح کرلیں، اگر دونوں یہ خیال کریں کہ وہ حدود الہیٰ کو قائم رکھیں گے، یہ مذکورہ احکام اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں، اللہ ان لوگوں کے لئے بیان فرما رہا ہے جو سمجھ رکھتے ہیں غور و فکر کرتے ہیں، اور جب تم عورتوں کو طلاق دیدو اور وہ اپنی مدت کو پہنچ جائیں یعنی ان کی عدت ختم ہونے کے قریب ہوجائے تو ان سے رجوع کرکے بھلے طریقہ پر بغیر نقصان پہنچائے، ان کو روک لو، یا شریفانہ طریقہ سے ان کو رخصت کردو، یعنی ان کو (اپنی حالت پر) چھوڑ دو تاآنکہ ان کی مدت پوری ہوجائے اور رجعت کے ذریعہ ستانے کے لئے نہ روکو (ضراراً ) مفعول لہ ہے کہ ان کو فدیہ (معاوضہ خلع) دینے یا خلع کرنے پر مجبور کرنے اور مدت حبس کو طویل کرنے کے لئے (نہ روکو) اور جو ایسا کرے گا تو اس نے درحقیقت خود ہی اپنے اوپر ظلم کیا، اللہ کے عذاب پر خود کو پیش کرکے اور اللہ کی آیات کو کھیل نہ بناؤ یعنی ان کی مخالفت کرکے ان کا مذاق نہ بناؤ، اور اپنے اوپر اللہ کی نعمت اسلام کو یاد رکھو اور اس کتاب (یعنی) قرآن اور حکمت کو اور اس میں جو احکام ہیں یاد رکھو جو تم پر نازل کی ہے وہ تم کو اس کی نصیحت کرتا ہے کہ اس پر عمل کرکے اس کی شکر گزاری کرو اور اللہ سے ڈرو اور خوب سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ ہر بات سے باخبر ہے اس سے کوئی شئ پوشیدہ نہیں۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : التطلیق الَّذِیْ ، اس میں اس بات کی طرف اشارہ کہ الطلاق اسم مصدر، تَطْلیق مصدر کے معنی میں ہے مطلب یہ ہے کہ طلاق سے شوہر کا فعل تطلیق مراد ہے اس لئے کہ فعل طلاق ہی متصف بالوحدۃ والتعدد ہوتا ہے نہ کہ وہ طلاق جو مرأۃ کی صفت ہوتی ہے اس کی تائید اوتَسْرِیْحٌ سے بھی ہوتی ہے اس لئے کہ تَسْریح، بھی شوہر کا فعل ہے۔
قولہ : فَعَلَیْکُم، اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اِمْسَاک، مبتداء ہے اور اس کی خبر، فَعَلیکُم، محذوف ہے۔
سوال : اِمْسَاک، نکرہ ہے لہٰذا اس کا مبتداء بننا درست نہیں ہے۔ جواب : اِمْسَاک کی صفت، بمعروف ہے لہٰذا نکرہ جب موصوف بالصفت ہو تو اس کا مبتداء بننا صحیح ہوتا ہے۔
قولہ : ای اِثْنتان۔ سوال : مَرَّتَان، کی تفسیر اثنتان، سے کرنے میں کیا فائدہ ہے ؟
جواب : اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مَرَّتَان، سے اس کے حقیقی معنی جو کہ تثنیہ ہیں، مراد ہیں، یعنی دو طلاقیں نہ کہ مجازی معنی جو کہ تکرار ہیں، گویا کہ یہ رد ہے ان لوگوں کا جنہوں نے کہا ہے کہ مَرّتان، یہاں تکرار کے معنی میں ہے، جواب کا حاصل یہ ہے کہ تکرار معنی مجازی ہیں اور تثنیہ معنی حقیقی ہیں اور معنی مجازی سے حقیقی مراد لینا اولی ہوتا ہے دو مجازی معنی مراد لینے والوں کا مقصد یہ بتانا ہے کہ ایک ساتھ دو طلاق درست نہیں ہے بلکہ دو مرتبہ میں دو طلاقیں ہونی چاہئیں اور جو لوگ مرتان کو اثنتان (تثنیہ) کے معنی میں لیتے ہیں ان کے نزدیک ایک لفظ سے دو طلاق دینا درست ہے۔
قولہ : بَعْدَ التطلیقۃِ الثالثۃِ اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بَعْدُ ، مبنی برضم ہے اس لئے کہ اس کا مضاف الیہ محذوف ہے اور وہ بَعْدَ الطلقہ الثالثۃِ ہے، لہٰذا یہ اعتراض ختم ہوگیا کہ اس کو حرف جر کی وجہ سے مجرور ہونا چاہیے۔ قولہ : تَتَزَوَّجُ ، تنکح، کی تفسیر تتزوجَ سے کرکے اشارہ کردیا کہ تنکح، بمعنی عقد نکاح ہے نہ کہ وطی اس لئے کہ عقد نکاح مراد لینے کی صورت میں اس کی اسناد مرد اور عورت دونوں کی طرف حقیقت ہوگی اور اگر بمعنی وطی ہو تو مرد کی طرف تو نسبت حقیقی ہوگی مگر عورت کی جانب وطی کی نسبت مجازی ہوگی
قولہ : یَطَاھَا اس میں ان لوگوں پر رد ہے جو حلالہ کے لئے صرف عقد نکاح کو کافی سمجھتے ہیں، جیسا کہ سعید بن مسیّب (رح) تعالیٰ اس لئے کہ یہ حدیث مشہور کے خلاف ہے۔
تفسیر و تشریح
شان نزول : رَویٰ عروۃ بن الزبیر الخ، فرماتے ہیں کہ لوگ ابتداء اسلام میں اپنی بیویوں کو بیشمار طلاقیں دیدیا کرتے تھے اور بعض لوگ ایسا بھی کرتے تھے کہ اپنی بیوی کو طلاق دیدتے تھے اور جب اس کی عدت ختم ہونے کے قریب ہوجاتی تھی تو رجوع کرلیتے تھے اس کے بعد پھر طلاق دیدتے تھے، ستانے اور تکلیف پہنچانے کی نیت سے اسی طرح باربار کرتے رہتے تھے تو اس موقع پر اَلطّلاق مَرَّتَانِ نازل ہوئی۔ (مظہری)
طلاق رجعی دو ہی تک ہیں : طلاق رجعی دو ہی بار ہے پھر خواہ حسن معاشرت اور محبت سے اسے رکھ لے یا احسان اور شریفانہ طریقہ سے رخصت کروے ” تَسْرِیْحٌ بِاِحْسَانٍ “ اکثر روایتوں میں تیسری طلاق ہے مگر ابوحنیفہ (رح) تعالیٰ کہتے ہیں کہ تیسری طلاق ضرر خالص ہے احسان سے اس کیا واسطہ، بلکہ مراد یہ ہے کہ دوسری طلاق کے بعد اگر رجوع کرنا اور محبت سے بسر کرنا ہے تو بہتر، ورنہ خاموش بیٹھ رہے، جب عدت پوری ہوجائیگی عورت خودبخود بائنہ ہوجائے گی اس کے بعد اگر دونوں کی مرضی ہو تو نکاح کرسکتے ہیں یہی ان کے حق میں احسان ہے۔
طلاق دینے کے تین طریقے : طلاق دینے کے تین طریقے ہیں (اول) اَحْسَن، یعنی صرف ایک طلاق ایسے طہر میں دے جس میں عورت سے جماع نہ کیا ہو، (دوسری) حَسَن یعنی تین طلاقیں اس طرح دے کہ جب حیض سے پاکی حاصل ہو تو وطی سے پہلے طلاق دے پھر دوسرے حیض کا اتنظار کرے دوسرے حیض کے بعد دوسری طلاق اور تیسرے حیض کے بعد تیسری طلاق دے کر قصہ ختم کرے، اور اگر عورت کو حیض نہ آتا ہو یعنی صغیرہ ہو یا آئسہ (بہت بوڑھی) تو ہر ماہ بعد ایک طلاق دے، (تیسری) بدعی، ایک وقت یا ایک طہر میں تین طلاقیں دے یہ طلاقیں تو پڑجائیں گی مگر مرد گنہگار ہوگا، اس طلاق کے واقع ہونے میں بعض حضرار کو کلام ہے مگر ابن عمر کی مرفوع حدیث ہماری شاہد ہے اور حیض میں بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے مگر رجوع کرنا واجب ہے اگر حالت حیض میں طلاق واقع ہی نہ ہو تو ابن عمر (رض) کو حالت حیض میں دی ہوئی طلاق سے رجوع کرنے کے حکم کے کیا معنی ؟ لہٰذا ارشاد باری تعالیٰ کہ طلاق دو بار ہے یعنی مسنون تو یہی ہے کہ ایک بار ایک طلاق دے پھر دوسری دے، بعد ازاں خواہ رجوع کرے یا تیسری طلاق بھی دیدے بیک وقت دو طلاقیں دینا چونکہ اچھا نہیں ہے اسی لئے مرتان، یعنی ” دو بار “ فرمایا کہ تعداد اور توقف پر اشارہ کرے
فائدہ : اس مختصر سی آیت میں ایک بہت بڑی معاشرتی خرابی کی جو عرب جاہلیت میں رائج تھی اصلاح کی گئی ہے عرب میں قاعدہ یہ تھا کہ ایک شخص اپنی بیوی کو بےحدو بےحساب طلاق دینے کا مجاز تھا، جس عورت سے اس کا شوہر بگڑ جاتا تھا اس کو بار بار طلاق دے کر رجوع کرتا رہتا تھا، تاکہ نہ تو وہ غریب اس کے ساتھ بس ہی سکے اور نہ اس سے آزاد ہو سکے کہ کسی اور سے نکاح کرلے، قرآن مجید کی یہ آیت اسی ظلم کا دروازہ بند کرتی ہے، اس آیت کی رو دے ایک مرد رشتہ نکاح میں اپنی بیوی پر زیادہ سے زیادہ دو ہی مرتبہ طلاق رجعی کا حق استعمال کرسکتا ہے جو شخص اپنی منکوحہ کو دو مرتبہ طلاق دے کر اس سے رجوع کرچکا ہو وہ اپنی عمر میں اس کو تیسری بار طلاق دے گا تو عورت اس سے مستقل طور پر جدا ہوجائے گی۔ اگر ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دے ڈالی جائیں، جیسا کہ آج کل جہلاء کا عام طریقہ ہے تو یہ شریعت کی رو سے سخت گناہ ہے اس کی بڑی مذمت فرمائی گئی ہے اور حضرت عمر (رض) سے یہاں تک ثابت ہے کہ جو شخص بیک وقت اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیدیتا تھا آپ اس کو درے لگاتے تھے، تاہم سخت گناہ ہونے کے باوجود ائمہ اربعہ کے نزدیک تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں اور طلاق مغلظ ہوجاتی ہے۔
وَلَایَحِلُّ لَکُمْ أَنْ تَاْخُذُوْا (الآیۃ) یعنی مہر اور وہ زیورات اور کپڑے وغیرہ جو شوہر اپنی بیوی کو دے چکا ہے، ان میں سے کوئی چیز بھی واپس طلب کرنے کا اسے حق نہیں ہے، یہ بات ویسے بھی اسلامی اخلاقی اصولوں کی ضد ہے کہ کوئی شخص ایسی چیز کو جسے وہ دوسرے شخص کو ہبہ یا ہدیہ و تحفہ کے طور پردے چکا ہو واپس مانگے، اس ذلیل حرکت کو حدیث شریف میں اس کتے کے فعل سے تشبیہ دی گئی ہے جو اپنی ہی قے کو خود چاٹ لے، مگر خصوصیت کے ساتھ ایک شوہر کے لئے تو یہ بہت ہی شرمناک ہے کہ وہ طلاق دے کہ رخصت کرتے وقت اپنی بیوی سے وہ کچھ رکھوا لیتا ہے جو اس نے کبھی اسے خود دیا تھا، اس کے برعکس اسلام نے یہ اخلاق سکھائے ہیں کہ آدمی جس عورت کو طلاق دے اسے رخصت کرتے وقت کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کرے۔
شان نزول : تفسیر کی کتابوں میں مذکور ہے کہ جمیلہ یا حبیبہ نامی خاتوں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئیں اور اپنے شوہر ثابت بن قیس کی شکایت کی اور مار کے نشان جو منہ پر تھے دکھائے اور کہا میرا اور اس کا اب نبھاؤ نہ ہوسکے گا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابن قیس کو بلا کر حالات معلوم کئے، ابن قیس نے عرض کیا یا رسول اللہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اس عورت سے زیادہ دنیا میں کسی کو محبوب نہیں رکھتا سوائے آپ کی محبت کے، آپ کی محبت تو آپ کے مشتاقوں کے لئے رگ و پے میں خون کی طرح داخل ہے بلکہ جوہر روح اور لطف حیات ہے آپ نے جمیلہ سے فرمایا : اب تم کیا کہتی ہو ؟ وہ بولیں کہ میں ایسی بات نہ کہوں گی جس کے خلاف حضور پر وحی نازل ہوجائئے، بیشک ثابت اپنی بیوی سے سلوک کرنے میں تمام مردوں سے اچھا ہے مگر مجھے اس سے بالطبع نفرت ہے، اور بعض روایتوں میں بدصورتی کا بھی ذکر ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا وہ باغ جو تم نے مہر میں لیا ہے واپس کردوگی ؟ بولیں باغ اور مزید کچھ اور بھی، آپ نے فرمایا ” اَمَّا الزِیادۃُ فَلَا “ مہر سے زائد نہ کیا جائے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ثابت سے فرمایا ” اقبل الحدیقۃ وطَلّقْھا تَطْلیفۃ “ باغ لو اور طلاق دو ۔ (خلاصۃ التفاسیر، تائب لکھنوی)
مباحث احکام خلع : خَلْع، (ف) خَلْعًا، اتارنا، خَلَعَ المرأۃ، مال کے عوض عورت نے جدائی اختیار کی، اگر عورت کی جانب سے مال کے عوض طلاق کا مطالبہ ہو تو اس کو شریعت کی اصطلاح میں خلع کہتے ہیں اور اگر شوہر کی جانب سے مال کے عوض طلاق کی پیش کش ہو تو طلاق علی مال کہتے ہیں۔
مسئلہ : اس بارے میں اگر شوہر اور بیوی کے درمیان آپس میں معاملہ طے ہوجائے، تو جو کچھ طے ہوا ہو وہی نافذ ہوگا، لیکن اگر عدالت میں معاملہ چلا جائے تو عدالت صرف اس امر کی تحقیق کرے گی کہ آیا فی الواقع یہ عورت اس حد تک متنفر ہے کہ اس کے ساتھ اس کا نباہ نہیں ہوسکتا، اس کے تحقیق ہوجانے پر عدالت کو اختیار ہے کہ حالات کے لحاظ سے جو فدیہ چاہے تجویز کرے اور اس فدیہ کو قبول کرکے شوہر کو اسے طلاق دینے کا حکم کرے، شوہر پر لازم ہوگا کہ فدیہ قبول کرکے طلاق دیدے بالعموم فقہاء نے اس کو پسند نہیں کیا کہ جو مال شوہر نے اس عورت کو دیا ہو، اس سے زائد کا فدیہ دلوایا جائے۔
مسئلہ : خلع کی صورت میں طلاق بائن ہوتی ہے شوہر اس سے رجوع نہیں کرسکتا البتہ یہی مرد اور عورت اگر راضی ہوجائیں تو دوبارہ نکاح جدید کرسکتے ہیں۔
مسئلہ : جمہور کے نزدیک خلع کی عدت وہی ہے جو طلاق کی ہے، مگر ابو داؤد، ترمذی، اور ابن ماجہ وغیرہ کی کی متعدد روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی عدت ایک ہی حیض قرار دی تھی اور اس کے مطابق حضرت عثمان غنی (رض) نے ایک مقدمہ میں فیصلہ فرمایا تھا۔ (ابن کثیر جلد اول، ص : ٢٧٦)
فائدہ : خلع کی چار صورتیں ممکن ہیں، (١) شوہر کی طرف سے زیادتی ہو، (٢) عورت کی شرارت ہو، (٣) دونوں کی خطاء ہو، (٤) کسی کی طرف سے بھی کوئی بےلطفی نہ ہو، یہ چوتھی صورت خلع سے متعلق نہیں ہے اور نہ اس سے کوئی حکم متعلق ہے۔
بحث : باقی رہی تین صورتیں، قرآن نے عورت کا مال لینا اس شرط پر حلال کیا ہے کہ جب دونوں کی طرف سے ظلم وتعدی کا خوف ہوجیسا کہ فرمایا : ” اَنْ یَّخَافَآ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَاللہِ “ لہٰذاوہ صورت کہ شوہر کی طرف سے زیادتی ہو آیت سے متعلق نہیں ہے عورت کے مال کی حرکت بدستور باقی رہے گی، اسی کے متعلق دوسرے مقام پر یہ تصریح فرمائی ،” اِنْ اَرَدْتُمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ “ اگر ایک بیوی کو طلاق دے کر دوسری سے نکاح کرنا چاہتے ہو ” فَلَا تَاْخُذُوْامِنْہُ شَیا “ تو عورت کو دیئے ہوئے مال میں سے کچھ بھی نہ لو، اس میں قصور مرد کا ہے اس لئے کہ یہی ایسے چھوڑنا چاہتا ہے مناسب اور لائق تو یہ تھا کہ مہر بھی واپس نہ لے، مگر اس وجہ سے کہ ہر حلال مال مالک کی اجازت سے لیناجائز ہے گودینے والا کسی مصلحت یا مجبوری سے دے، یا خوشی سے یہاں عورت اپنے اختیار سے اپنے فائدہ کے لئے اپنا مال صرف کرتی ہے اور اس کے عوض آزادی کا فائدہ حاصل کرتی ہے مذکورہ دونوں شقوں پر نظر کرتے ہوئے لینا جائز مگر مکر وہ قرار دیا گیا ہے۔
سوال : عورت کی طرف سے مرد کا طلاق لینے کے عوض مال دینا رشوت ہے اور شوت حرام ہے۔
جواب : رشوت ایسے مال کے لینے کو کہتے ہیں جس سے کسی کا حق تلف کیا جائے یا رشوت دینے والے کا وہ حق دیا جائے جو بغیر کسی عوض کے رشوت لینے والے کے ذمہ واجب تھا اور یہاں طلاق دینا مرد کے ذمہ نہیں، البتہ دفع ظلم اور ترک تعدی اس کے ذمہ ہے، مگر بدل دفع ظلم اور ترک تعدی کا معاوضہ نہیں ہے جو واجب ہے بلکہ طلاق کا معاوضہ ہے جو واجب نہیں ہے دوسری صورت یعنی عورت کی شرارت ہو تو یہ بھی بظاہر یک طرفہ ہے اور آیت کے حکم سے خارج ہے، مگر مرد کو طلاق کو اختیار حاصل ہے، ایسی شریر عورت کو روکنے سے اس کی غرض خواہ ایذا رسانی اور انتقام ہے خواہ امید اصلاح، تو امید اصلاح تو قابل اعتماد نہیں البتہ قصد انتقام کے لحاظ سے دو طرفہ چھیڑ چھاڑ اور زیادتی ہوگئی اور یہ صورت بھی آیت : ” اِنْ خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللہِ فَلَا جُنَاحَ “ (الآیۃ) کی مصداق ہوئی لہٰذا آیت کی رو سے جو مال عورت دینا قبول کرے جائز ہے اور حدیچ پیغمبر ” اَمّ ۔ ا الزِّیَادَۃَ فَلَا “ کی رو سے مہر سے زیادتی ممنوع ہے جیسا کہ ثابت بن قیس کے واقعہ میں اوپر مذکور ہوا، اگر زیادہ لینے میں کوئی کراہت نہ ہوتی تو آپ ثابت (رض) کے حق کو ناقص نہ کرتے۔
جواز اور کراہت میں منافات نہیں : کہ قرآن کے عموم کا بطلان لازم آئے، مثلاً نماز ایک درہم نجاست کے ساتھ جائز ہے مگر مکروہ تحریمی ہے (شامی) اور نماز بدون تعدیل ارکان جائز مگر واجب الاعادہ ہے (نور الانوار) ایسے ہی یہ زیادتی جائز مگر مکروہ ہے۔
عقلی دلیل : خلع بمنزلہ اقالہ ہے، اس لئے کہ یہ دونوں کی رضا مندی پر موقوف ہے اقالہ میں ثابت شدہ ملک کو باطل کیا جاتا ہے، خلع میں بھی ثابت شدہ ملک بضع کو باطل کیا جاتا ہے پس جس طرح اقالہ میں مبیع مستعمل ہو یا نہ ہو ثمن اول ہی پر اقالہ ہوگا، اسی طرح خلع میں بھی مہر جو کہ بمنزلہ ثمن ہے مہر کی مقدار پر ہی خلع کرنا چاہیے۔ تیسری صورت : یعنی دونوں کی خطاء ہو اس کا حکم بھی مثل دوم ہے (اگرچہ اس کا حکم کتب میں مذکور نہیں) ۔ (خلاصہ التفاسیر)
خلع طلاق ہے یا فسخ ؟ امام ابوحنیفہ (رح) تعالیٰ کے نزدیک خلع طلاق ہے اور امام احمد (رح) تعالیٰ کے نزدیک فسخ ہے امام شافعی (رح) تعالیٰ ایک قول میں امام احمد (رح) تعالیٰ کے ساتھ ہیں اور صحیح قول میں ابو حنفیہ (رح) تعالیٰ کے ساتھ ہیں حضرت ابن عباس (رض) اور حضرت عثمان (رض) سے بھی فسخ مروی ہے۔ (خلاصہ التفاسیر)
10 Tafsir as-Saadi
جاہلیت اور اسلام کے ابتدائی دور میں مرد اپنی بیوی سے طلاق و رجوع کا لامتناہی سلسلہ جاری رکھتا تھا۔۔۔۔۔۔ لہٰذا مرد جب اپنی بیوی کو نقصان پہنچانا چاہتا تو اسے طلاق دے دیتا اور عدت پوری ہونے سے پہلے رجوع کرلیتا۔ پھر اسے طلاق دے دیتا اور پھر اختتام عدت سے پہلے رجوع کرلیتا اور ہمیشہ اسی طرح کرتا رہتا۔ اس طرح عورت کو جس ضرر اور نقصان کا سامنا کرنا پڑتا وہ اللہ ہی جانتا ہے۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا :﴿اَلطَّلَاقُ﴾” یعنی وہ طلاق جس میں خاوند کو رجعت کا حق حاصل ہے۔ ﴿ مَرَّتٰنِ ۠ ﴾” صرف دو مرتبہ ہے“ تاکہ اگر خاوند اپنی بیوی کو ضرر پہنچانے کا ارادہ نہیں رکھتا، تو اس مدت کے دوران میں طلاق دینے کے فیصلے سے رجوع کرسکتا ہے۔ رہا اس سے زیادہ مرتبہ طلاق دینا تو یہ طلاق کا محل نہیں، کیونکہ جو کوئی دو مرتبہ سے زیادہ طلاق دیتا ہے وہ یا تو حرام فعل کے ارتکاب کی جرأت کرتا ہے یا اسے اپنی بیوی کو رکھنے میں رغبت نہیں ہوتی، بلکہ وہ اسے نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔
اسی لئے اللہ تعالیٰ نے خاوند کو حکم دیا ہے کہ یا تو وہ بھلے طریقے سے اپنی بیوی کو رکھ لے ﴿بِمَعْرُوْفٍ﴾” بطریق شائستہ‘،یعنی اچھے رہن سہن اور اچھے سلوک کے ساتھ اور اس کے ساتھ وہی سلوک کرے جو اس جیسے دوسرے لوگ اپنی بیویوں کے ساتھ کرتے ہیں اور یہی زیادہ راجح بات ہے، یا اس کو آزاد کر دے اور اس سے جدا ہوجائے ﴿ ۢ بِاِحْسَانٍ﴾ ’ ’یعنی بھلے طریقے سے۔‘،
احسان یعنی بھلائی یہ ہے کہ اس نے بیوی کو جو مال وغیرہ دیا ہے اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لے، اس لئے کہ یہ ظلم ہے اور یہ کچھ دیئے بغیر مال لینے کے زمرے میں آئے گا، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ۭ وَلَا یَحِلُّ لَکُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّآ اٰتَیْتُمُوْھُنَّ شَـیْـــًٔـا ﴾” تمہارے لئے یہ جائز نہیں کہ تم نے ان عورتوں کو جو کچھ دیا ہے، اس میں سے کچھ بھی واپس لو‘، ﴿ اِلَّآ اَنْ یَّخَافَآ اَلَّایُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ ۭ﴾” مگر یہ کہ وہ دونوں اس بات سے ڈریں کہ وہ اللہ کی حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے“ اس میں معروف کے ساتھ خلع کرنے کا بیان ہے (جس میں خاوند کو معاوضہ لے کر طلاق دینے کی اجازت ہے) اس کی صورت یہ ہے کہ اگر عورت اپنے شوہر کو اس کی عادات یا جسمانی بدصورتی کی وجہ سے ناپسند کرتی ہو اور ڈرتی ہو کہ وہ خاوند (کے حقوق) کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت نہ کرسکے گی۔ (تو وہ خلع کے ذریعے سے طلاق حاصل کرسکتی ہے۔﴿فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ ۙ فَلَاجُنَاحَ عَلَیْھِمَا فِـیْمَا افْتَدَتْ بِہٖ ۭ﴾” پس اگر تم ڈرو کہ وہ دونوں اللہ کی حدوں کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو عورت جو معاوضہ دے گی تو ان پر کوئی گناہ نہیں“ اس لئے یہ اس جدائی اور علیحدگی کا عوض ہے جو وہ حاصل کرنا چاہتی ہے۔
اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے جب یہ حکمت پائی جائے، تب خلع مشروع ہے۔ ﴿تِلْكَ﴾” یعنی وہ تمام احکام جن کا ذکر گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے : ﴿ حُدُوْدُ اللّٰہِ﴾” اللہ کی حدود ہیں۔“ یعنی وہ احکام ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے مشروع فرمایا اور حکم دیا کہ ان پر عمل کیا جائے : ﴿ۚ وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَاُولٰۗیِٕکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ﴾” اور جو اللہ کی حدوں سے تجاوز کرے، پس وہی لوگ ظالم ہیں“ اس سے بڑا اور کون سا ظلم ہے کہ حلال سے تجاوز کر کے حرام کی حدود میں داخل ہوا جائے؟ کیا جو چیز اللہ تعالیٰ نے حلال ٹھہرائی ہے، وہ اس کے لئے کافی نہیں؟ ظلم کی تین اقسام ہیں۔
(١) بندے کا ان معاملات میں ظلم کا ارتکاب کرنا جو اس کے اور اللہ تعالیٰ کے مابین ہیں۔
(٢) بندے کا ظلم اکبر یعنی شرک کا ارتکاب۔
(٣) بندے کا ان معاملات میں ظلم کا ارتکاب، جو اس کے اور لوگوں کے درمیان ہیں۔
اللہ تعالیٰ شرک کو توبہ کے بغیر نہیں بخشتا اور حقوق العباد کو اللہ تعالیٰ بالکل نہیں چھوڑے گا (بلکہ ایک دوسرے کو بدلہ دلوایا جائے گا) اور وہ ظلم جو بندے اور اس کے مابین ہے اور شرک سے کم تر ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور حکمت پر منحصر ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
talaq ( ziyada say ziyada ) do baar honi chahiye . uss kay baad ( shohar kay liye do hi raastay hain ) ya to qaeeday kay mutabiq ( biwi ko ) rok rakhay ( yani talaq say rujoo kerlay ) ya khush asloobi say chorr dey ( yani rujoo kay baghair iddat guzar janey dey ) . aur ( aey shohro ! ) tumharay liye halal nahi hai kay tum ney unn ( biwiyon ) ko jo kuch diya ho woh ( talaq kay badlay ) unn say wapis lo , illa yeh kay dono ko iss baat ka andesha ho kay woh ( nikah baqi rehney ki soorat mein ) Allah ki muqarrar ki hoi hudood ko qaeem nahi rakh saken gay . chunacheh agar tumhen iss baat ka andesha ho kay woh dono Allah ki hudood ko qaeem naa rakh saken gay to unn dono kay liye iss mein koi gunah nahi hai kay aurat maali moawza dey ker alehdgi hasil kerlay . yeh Allah ki muqarrar ki hoi hudood hain , lehaza inn say tajawuz naa kero . aur jo log Allah ki hudood say tajawuz kertay hain woh baray zalim log hain .
12 Tafsir Ibn Kathir
رسم طلاق میں آئینی اصلاحات اور خلع :
اسلام سے پہلے یہ دستور تھا کہ خاوند جتنی چاہے طلاقیں دیتا چلا جائے اور عدت میں رجوع کرتا جائے اس سے عورتوں کی جان غضب میں تھی کہ طلاق دی، عدت گزرنے کے قریب آئی رجوع کرلیا، پھر طلاق دے دی اس طرح عورتوں کو تنگ کرتے رہتے تھے، پس اسلام نے حد بندی کردی کہ اس طرح کی طلاقیں صرف دو ہی دے سکتے ہیں۔ تیسری طلاق کے بعد لوٹا لینے کا کوئی حق نہ رہے گا، سنن ابو داؤد میں باب ہے کہ تین طلاقوں کے بعد مراجعت منسوخ ہے، پھر یہ روایت لائے ہیں کہ حضرت ابن عباس یہی فرماتے ہیں، ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ نہ تو میں تجھے بساؤں گا نہ چھوڑوں گا، اس نے کہا یہ کس طرح ؟ طلاق دے دوں گا اور جہاں عدت ختم ہونے کا وقت آیا تو رجوع کرلوں گا، پھر طلاق دے دوں گا، پھر عدت ختم ہونے سے پہلے رجوع کرلوں گا اور یونہی کرتا چلا جاؤں گا۔ وہ عورت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئی اور اپنا یہ دکھ رونے لگی اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی، ایک اور روایت میں ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد لوگوں نے نئے سرے سے طلاقوں کا خیال رکھنا شروع کیا اور وہ سنبھل گئے، اور تیسری طلاق کے بعد اس خاوند کو لوٹا لینے کا کوئی حق حاصل نہ رہا اور فرما دیا گیا کہ دو طلاقوں تک تو تمہیں اختیار ہے کہ اصلاح کی نیت سے اپنی بیوی کو لوٹا لو اگر وہ عدت کے اندر ہے اور یہ بھی اختیار ہے کہ نہ لوٹاؤ اور عدت گزر جانے دو تاکہ وہ دوسرے سے نکاح کرنے کے قابل ہوجائے اور اگر تیسری طلاق دینا چاہتے ہو تو بھی احسان و سلوک کے ساتھ ورنہ اس کا کوئی حق نہ مارو، اس پر کوئی ظلم نہ کرو، اسے ضرر و نقصان نہ پہنچاؤ، ایک شخص نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ دو طلاقیں تو اس آیت میں بیان ہوچکی ہیں تیسری کا ذکر کہاں ہے ؟ آپ نے فرمایا آیت (اوتسریح باحسان) میں، جب تیسری طلاق کا ارادہ کرے تو عورت کو تنگ کرنا اس پر سختی کرنا تاکہ وہ اپنا حق چھوڑ کر طلاق پر آمادگی ظاہر کرے، یہ مردوں پر حرام ہے۔ جیسے اور جگہ ہے آیت ( ۭوَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ لِتَذْهَبُوْا بِبَعْضِ مَآ اٰتَيْتُمُوْھُنَّ اِلَّآ اَنْ يَّاْتِيْنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ ) 4 ۔ النسآء :19) یعنی عورتوں کو تنگ نہ کرو تاکہ انہیں دئیے ہوئے میں سے کچھ لے لو، ہاں یہ اور بات ہے کہ عورت اپنی خوشی سے کچھ دے کر طلاق طلب کرے جیسے فرمایا آیت (فَاِنْ طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَيْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوْهُ هَنِيْۗــــــًٔـا مَّرِيْۗـــــــًٔـا) 4 ۔ النسآء :4) یعنی اگر عورتیں اپنی راضی خوشی سے کچھ چھوڑ دیں تو بیشک وہ تمہارے لئے حلال طیب ہے اور جب میاں بیوی میں نااتفاقی بڑھ جائے عورت اس سے خوش نہ ہو اور اس کے حق کو نہ بجا لاتی ہو ایسی صورت میں وہ کچھ لے دے کر اپنے خاوند سے طلاق حاصل کرلے تو اسے دینے میں اور اسے لینے میں کوئی گناہ نہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ اگر عورت بلاوجہ اپنے خاوند سے خلع طلب کرتی ہے تو وہ سخت گنہگار ہے چناچہ ترمذی وغیرہ میں حدیث ہے کہ جو عورت اپنے خاوند سے بےسبب طلاق طلب کرے اس پر جنت کی خوشبو بھی حرام ہے، اور روایت میں ہے کہ حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس سال کی دوری سے آتی ہے، اور روایت میں ہے کہ ایسی عورتیں منافق ہیں، آئمہ سلف و خلف کی ایک بڑی جماعت کا فرمان ہے کہ خلع صرف اسی صورت میں ہے کہ نافرمانی اور سرکشی عورت کی طرف سے ہو، اس وقت مرد فدیہ لے کر اس عورت کو الگ کرسکتا ہے جیسے قرآن پاک کی اس آیت میں ہے اس کے سوا کی صورت میں یہ سب جائز نہیں، بلکہ حضرت امام مالک تو فرماتے ہیں کہ اگر عورت کو تکلیف پہنچا کر اس کے حق میں کمی کر کے اگر اسے مجبور کیا گیا اور اس سے کچھ مال واپس لیا گیا تو اس کا لوٹا دینا واجب ہے، امام شافعی فرماتے ہیں کہ جب حالت اختلاف میں جائز ہے تو حالت اتفاق میں بطور اولی جائز ٹھہرے گا، بکر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ سرے سے خلع منسوخ ہے کیونکہ قرآن میں ہے آیت ( وَّاٰتَيْتُمْ اِحْدٰىھُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَاْخُذُوْا مِنْهُ شَـيْـــًٔـا) 4 ۔ النسآء :20) یعنی اگر تم نے اپنی بیویوں کو ایک خزانہ بھی دے رکھا ہو، تو بھی اس میں سے کچھ بھی نہ لو، لیکن یہ قول ضعیف ہے اور مردود ہے، اب آیت کا شان نزول سنئے، موطا مالک میں ہے کہ حبیبہ بن سہل انصاریہ حضرت ثابت بن قیس شماس کی بیوی تھیں، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک دن صبح کی نماز کیلئے اندھیرے اندھیرے نکلے تو دیکھا کہ دروازے پر حضرت حبیبہ کھڑے ہیں، آپ نے پوچھا کون ہے ؟ کہا میں حبیبہ بن سہل ہوں۔ فرمایا کیا بات ہے ؟ کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں ثابت بن قیس کے گھر میں نہیں رہ سکتی یا وہ نہیں یا میں نہیں، آپ سن کر خاموش رہے۔ جب ثابت آئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہاری بیوی صاحبہ کچھ کہہ رہی ہیں۔ حضرت حبیبہ نے کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے خاوند مجھے جو دیا ہے وہ سب میرے پاس ہے اور میں اسے واپس کرنے پر آمادہ ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ثابت کو فرمایا سب لے لو، چناچہ انہوں نے لے لیا اور حضرت حبیبہ آزاد ہوگئیں، ایک روایت میں ہے کہ حضرت ثابت نے انہیں مارا تھا اور اس مار سے کوئی ہڈی ٹوٹ گئی تھی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب انہیں یہ فرمایا اس وقت انہوں نے دریافت کیا کہ کیا میں یہ مال لے سکتا ہوں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں، کہا میں نے اسے دو باغ دئیے ہیں، یہ سب واپس دلوا دیجئے۔ وہ مہر کے دونوں باغ واپس کئے گئے اور جدائی ہوگئی۔ ایک اور روایت میں ہے کہ حبیبہ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ میں اس کے اخلاق اور دین میں عیب گیری نہیں کرتی لیکن میں اسلام میں کفر کو ناپسند کرتی ہوں چناچہ مال لے کر حضرت ثابت نے طلاق دے دی۔ بعض روایات میں ان کا نام جمیلہ بھی آیا ہے۔ بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ مجے اب غیظ و غضب کے برداشت کی طاقت نہیں رہی۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو دیا ہے لے لو، زیادہ نہ لینا۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت حبیبہ نے فرمایا تھا وہ صورت کے اعتبار سے بھی کچھ حسین نہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ یہ حضرت عبداللہ بن ابی کی بہن تھیں اور سب سے پہلا خلع تھا جو اسلام میں ہوا۔ ایک وجہ یہ بھی بیان کی تھی کہ حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں نے ایک مرتبہ خیمے کے پردہ کو جو اٹھایا تو دیکھا کہ میرے خاوند چند آدمیوں کے ساتھ آ رہے ہیں، ان تمام میں یہ سیاہ فام چھوٹے قد والے اور بدصورت تھے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس فرمان پر کہ اس کا باغ واپس کرو، حبیبہ نے کہا تھا کہ آپ فرمائیں تو میں اس کے منہ پر تھوک دیا کرتی، جمہور کا مذہب تو یہ ہے کہ خلع عورت اپنے سے دئیے ہوئے سے زیادہ لے تو بھی جائز ہے کیونکہ قرآن نے آیت (فَلَاجُنَاحَ عَلَيْھِمَا فِـيْمَا افْتَدَتْ بِهٖ ) 2 ۔ البقرۃ :229) فرمایا ہے، حضرت عمر کے پاس ایک عورت اپنے خاوند سے بگڑی ہوئی آئی، آپ نے فرمایا اسے گندگی والے گھر میں قید کردو پھر قید خانہ سے اسے بلوایا اور کہا کیا حال ہے ؟ اس نے کہا آرام کی راتیں مجھ پر میری زندگی میں یہی گزری ہیں۔ آپ نے اس کے خاوند سے فرمایا اس سے خلع کرلے۔ اگرچہ گوشوارہ کے بدلے ہی ہو، ایک روایت میں ہے اسے تین دن وہاں قید رکھا تھا، ایک اور روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا اگر یہ اپنی چٹیا کی دھجی بھی دے تو لے لے اور اسے الگ کر دے۔ حضرت عثمان فرماتے ہیں اس کے سوا سب کچھ لے کر بھی خلع ہوسکتا ہے۔ ربیع بنت معوذ بن عفراء فرماتی ہیں میرے خاوند اگر موجود ہوتے تو بھی میرے ساتھ سلوک کرنے میں کمی کرتے اور کہیں چلے جاتے تو بالکل ہی محروم کردیتے۔ ایک مرتبہ جھگڑے کے موقع پر میں نے کہہ دیا کہ میری ملکیت میں جو کچھ ہے لے لو اور مجھے خلع دو ۔ اس نے کہا اور یہ معاملہ فیصل ہوگیا لیکن میرے چچا معاذ بن عفراء اس قصہ کو لے کر حضرت عثمان کے پاس گئے۔ عثمان نے بھی اسے برقرار رکھا اور فرمایا کہ چوٹی کی دھجی چھوڑ کر سب کچھ لے لو، بعض روایتوں میں ہے یہ بھی اور اس (سیس) چھوٹی چیز بھی غرض سب کچھ لے لو، پس مطلب ان واقعات کا یہ ہے کہ یہ دلیل ہے اس پر کہ عورت کے پاس جو کچھ ہے دے کر وہ خلع کرا سکتی ہے اور خاوند اپنی دی ہوئی چیز سے زائد لے کر بھی خلع کرسکتا ہے۔ ابن عمر، ابن عباس، مجاہد، عکرمہ، ابراہیم، نخعی، قیصہ بن ذویب، حسن بن صالح عثمان رحم اللہ اجمعین بھی یہی فرماتے ہیں۔ امام مالک، لیث، امام شافعی اور ابو ثور کا مذہب بھی یہی ہے۔ امام ابن جریر بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں اور اصحاب ابوحنیفہ کا قول ہے کہ اگر قصور اور ضرر رسانی عورت کی طرف سے ہو تو خاوند کو جائز ہے کہ جو اس نے دیا ہے واپس لے لے، لیکن اس سے زیادہ لینا جائز نہیں۔ گو زیادہ لے لے تو بھی قضاء کے وقت جائز ہوگا اور اگر خاوند کی اپنی جانب سے زیادتی ہو تو اسے کچھ بھی لینا جائز نہیں۔ گو، لے لے تو قضا جائز ہوگا۔ امام احمد ابو عبید اور اسحاق بن راھویہ فرماتے ہیں کہ خاوند کو اپنے دئیے ہوئے سے زیادہ لینا جائز ہی نہیں۔ سعید بن مسیب عطاء عمرو بن شعیب زہری طاؤس حسن شعبی حماد بن ابو سلیمان اور ربیع بن انس کا بھی یہی مذہب ہے۔ عمر اور حاکم کہتے ہیں حضرت علی کا بھی یہ فیصلہ ہے۔ اوزاعی کا فرمان ہے کہ قاضیوں کا فیصلہ ہے کہ دئیے ہوئے سے زیادہ کو جائز نہیں جانتے۔ اس مذہب کی دلیل وہ حدیث بھی ہے جو اوپر بیان ہوچکی ہے جس میں ہے کہ اپنا باغ لے لو اور اس سے زیادہ نہ لو۔ مسند عبد بن حمید میں بھی ایک مرفوع حدیث ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خلع لینے والی عورت سے اپنے دئیے ہوئے سے زیادہ لینا مکروہ رکھا، اور اس صورت میں جو کچھ فدیہ وہ دے لے گا، کا لفظ قرآن میں ہے۔ اس کے معنی یہ ہوں گے کہ دئیے ہوئے میں سے جو کچھ دے، کیونکہ اس سے پہلے یہ فرمان موجود ہے کہ تم نے جو انہیں دیا ہے اس میں سے کچھ نہ لو، ربیع کی قرأت میں بہ کے بعد منہ کا لفظ بھی ہے۔ پھر فرمایا کہ یہ حدود اللہ ہیں ان سے تجاوز نہ کرو ورنہ گنہگار ہوں گے (فصل) خلع کو بعض حضرات طلاق میں شمار نہیں کرتے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اگر ایک شخص نے اپنی بیوی کو دو طلاقیں دے دیں ہیں پھر اس عورت نے خلع کرا لیا ہے تو اگر خاوند چاہے تو اس سے پھر بھی نکاح کرسکتا ہے اور اس پر دلیل یہی آیت وارد کرتے ہیں۔ یہ قول حضرت ابن عباس کا ہے، حضرت عکرمہ بھی فرماتے ہیں کہ یہ طلاق نہیں، دیکھو آیت کے اول و آخر طلاق کا ذکر ہے پہلے دو طلاقوں کا پھر آخر میں تیسری طلاق کا اور درمیان میں جو خلع کا ذکر ہے، پس معلوم ہوا کہ خلع طلاق نہیں بلکہ فسخ ہے۔ امیرالمومنین حضرت عثمان بن عفان اور حضرت عمر طاؤس عکرمہ، احمد بن حنبل، اسحاق بن راہویہ، ابو ثور، داؤد بن علی ظاہری کا بھی یہی مذہب ہے۔ امام شافعی کا بھی قدیم قول یہی ہے اور آیت کے ظاہری الفاظ بھی یہی ہیں۔ بعض دیگر بزرگ فرماتے ہیں کہ خلع طلاق بائن ہے اور اگر ایک سے زیادہ کی نیت ہوگی تو وہ بھی معتبر ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ ام بکر اسلمیہ نے اپنے خاوند عبداللہ بن خالد سے خلع لیا اور حضرت عثمان نے اسے ایک طلاق ہونے کا فتویٰ دیا اور ساتھ ہی فرما دیا کہ اگر کچھ سامان لیا ہو تو جتنا سامان لیا ہو وہ ہے، لیکن یہ اثر ضعیف ہے واللہ اعلم۔ حضرت عمر، حضرت علی، حضرت ابن مسعود، حضرت ابن عمر، سعید بن مسیب، حسن، عطا، شریح، شعبی، ابراہیم، جابر بن زید، مالک، ابوحنیفہ اور ان کے ساتھی ثوری، اوزاعی، ابو عثمان بتی کا یہی قول ہے کہ خلع طلاق ہے۔ امام شافعی کا بھی جدید قول یہی ہے، ہاں حنیفہ کہتے ہیں کہ اگر دو طلاق کی نیت خلع دینے والے کی ہے تو دو ہوجائیں گی۔ اگر کچھ کچھ لفظ نہ کہے اور مطلق خلع ہو تو ایک طلاق بائن ہوگی اگر تین کی نیت ہے تو تین ہوجائیں گی۔ امام شافعی کا ایک اور قول بھی ہے کہ اگر طلاق کا لفظ نہیں اور کوئی دلیل و شہادت بھی نہیں تو وہ بالکل کوئی چیز نہیں۔
مسئلہ : امام ابو حنیفہ، شافعی احمد، اسحاق بن راہویہ رحمہم اللہ کا مسلک ہے کہ خلع کی عدت طلاق کی عدت ہے۔ عمر علی ابن مسعود اور سعید بن مسیب، سلمان بن یسار، عمروہ، سالم، ابو سلمہ، عمر بن عبدالعزیز، ابن شہاب، حسن، شعبی، ابراہیم نخعی، ابو عیاض، خلاس بن عمرو، قتادہ، سفیان ثوری، اوزاعی، لیث بن سعد اور ابو عبید رحمتہ اللہ علیھم اجمعین کا بھی یہی فرمان ہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں اکثر اہل علم اسی طرف گئے ہیں وہ کہتے ہیں کہ چونکہ خلع طلاق ہے لہذا عدت اس کی عدت طلاق کے مثل ہے، دوسرا قول یہ ہے کہ صرف ایک حیض اس کی عدت ہے۔ حضرت عثمان کا یہی فیصلہ ہے، ابن عمر گو تین حیض کا فتویٰ دیتے تھے لیکن ساتھ ہی فرما دیا کرتے تھے کہ حضرت عثمان ہم سے بہتر ہیں اور ہم سے بڑے عالم ہیں، اور ابن عمر سے ایک حیض کی مدت بھی مروی ہے۔ ابن عباس، عکرمہ، امان بن عثمان اور تمام وہ لوگ جن کے نام اوپر آئے ہیں جو خلع کو فسخ کہتے ہیں ضروری ہے کہ ان سب کا قول بھی یہی ہو، ابو داؤد اور ترمذی کی حدیث میں بھی یہی ہے کہ ثابت بن قیس کی بیوی صاحبہ کو آپ نے اس صورت میں ایک حیض عدت گزارنے کا حکم دیا تھا، ترمذی میں ہے کہ ربیع بنت معوذ کو بھی خلع کے بعد ایک ہی حیض عدت گزارنے کا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان صادر ہوا تھا۔ حضرت عثمان نے خلع والی عورت سے فرمایا تھا کہ تجھ پر عدت ہی نہیں۔ ہاں اگر قریب کے زمانہ میں ہی خاوند سے ملی ہو تو ایک حیض آجانے تک اس کے پاس ٹھہری رہو۔ مریم مغالبہ کے بارے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جو فیصلہ تھا اس کی متابعت حضرت امیرالمومنین نے کی۔
مسئلہ : جمہور علمائے کرام اور چاروں اماموں کے نزدیک خلع والی عورت سے رجوع کرنے کا حق خاوند کو حاصل نہیں، اس لئے کہ اس نے مال دے کر اپنے تئیں آزاد کرا لیا ہے۔ عبداللہ بن ابی اوفی، ماہان حنفی، سعید اور زہری کا قول ہے کہ اگر واپس کیا پھیر دے تو حق رجعت حاصل ہے بغیر عورت کی رضامندی کے بھی رجوع کرسکتا ہے۔ سفیان ثوری فرماتے ہیں کہ اگر خلع میں طلاق کا لفظ نہیں تو وہ صرف جدائی ہے اور رجوع کرنے کا حق نہیں اور اگر طلاق کا نام لیا ہے تو بیشک وہ رجعت کا پورا پورا حقدار ہے، داؤد ظاہری بھی یہی فرماتے ہیں، ہاں سب کا اتفاق ہے کہ اگر دونوں رضامند ہوں تو نیا نکاح عدت کے اندر اندر کرسکتے ہیں۔ عبدالبر ایک فرقہ کا یہ قول بھی حکایت کرتے ہیں کہ عدت کے اندر جس طرح دوسرا کوئی اس سے نکاح نہیں کرسکتا، اسی طرح خلع دینے والا خاوند بھی نکاح نہیں کرسکتا، لیکن یہ قول شاذ اور مردود ہے۔
مسئلہ : اس عورت پر عدت کے اندر اندر دوسری طلاق بھی واقع ہوسکتی ہے یا نہیں ؟ اس میں علماء کے تین قول ہیں۔ ایک یہ کہ نہیں، کیونکہ وہ عورت اپنے نفس کی مالکہ ہے اور اس خاوند سے الگ ہوگئی ہے، ابن عباس ابن زبیر عکرمہ جابر بن زید حسن بصری شافعی احمد اسحاق ابو ثور کا یہی قول ہے۔ دوسرا قول امام مالک کا ہے کہ اگر خلع کے ساتھ ہی بغیر خاموش رہے طلاق دے دے تو واقع ہوجائے گی ورنہ نہیں، یہ مثل اس کے ہے جو حضرت عثمان سے مروی ہے۔ تیسرا قول یہ ہے کہ عدت میں طلاق واقع ہوجائے گی۔ ابوحنیفہ ان کے اصحاب، ثوری، اوزاعی، سعید بن مسیب، شریح، طاؤس، ابراہیم، زہری، حاکم، حکم اور حماد کا بھی یہی قول ہے۔ ابن مسعود اور ابو الدرداء سے بھی یہ مروی تو ہے لیکن ثابت نہیں۔ پھر فرمایا ہے کہ یہ اللہ کی حدیں ہیں۔ صحیح حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ کی حدوں سے آگے نہ بڑھو، فرائض کو ضائع نہ کرو، محارم کی بےحرمتی نہ کرو، جن چیزوں کا ذکر شریعت میں نہیں تم بھی ان سے خاموش رہو کیونکہ اللہ کی ذات بھول چوک سے پاک ہے۔ اس آیت سے استدلال ہے ان لوگوں کا جو کہتے ہیں کہ تینوں طلاقیں ایک مرتبہ ہی دینا حرام ہیں۔ مالکیہ اور ان کے موافقین کا یہی مذہب ہے، ان کے نزدیک سنت طریقہ یہی ہے کہ طلاق ایک ایک دی جائے کیونکہ آیت (الطلاق مرتان) کہا پھر فرمایا کہ یہ حدیں ہیں اللہ کی، ان سے تجاوز نہ کرو، اس کی تقویت اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو سنن نسائی میں ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک مرتبہ یہ معلوم ہوا کہ کسی شخص نے اپنی بیوی کو تینوں طلاقیں ایک ساتھ دی ہیں۔ آپ سخت غضبناک ہو کر کھڑے ہوگئے اور فرمانے لگے کیا میری موجودگی میں کتاب اللہ کے ساتھ کھیلا جانے لگا۔ یہاں تک کہ ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا اگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اجازت دیں تو میں اس شخص کو قتل کرو، لیکن اس روایت کی سند میں انقطاع ہے۔