اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت (پوری ہونے) کو آپہنچیں تو جب وہ شرعی دستور کے مطابق باہم رضامند ہو جائیں تو انہیں اپنے (پرانے یا نئے) شوہروں سے نکاح کرنے سے مت روکو، اس شخص کو اس امر کی نصیحت کی جاتی ہے جو تم میں سے اﷲ پراور یومِ قیامت پر ایمان رکھتا ہو، یہ تمہارے لئے بہت ستھری اور نہایت پاکیزہ بات ہے، اور اﷲ جانتا ہے اور تم (بہت سی باتوں کو) نہیں جانتے،
English Sahih:
And when you divorce women and they have fulfilled their term, do not prevent them from remarrying their [former] husbands if they [i.e., all parties] agree among themselves on an acceptable basis. That is instructed to whoever of you believes in Allah and the Last Day. That is better for you and purer, and Allah knows and you know not.
1 Abul A'ala Maududi
جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دے چکو اور وہ اپنی عدت پوری کر لیں، تو پھر اس میں مانع نہ ہو کہ وہ اپنے زیر تجویز شوہروں سے نکاح کر لیں، جب کہ وہ معروف طریقے سے باہم مناکحت پر راضی ہوں تمہیں نصیحت کی جاتی ہے کہ ایسی حرکت ہرگز نہ کرنا، اگر تم اللہ اور روز آخر پر ایمان لانے والے ہو تمہارے لیے شائستہ اور پاکیزہ طریقہ یہی ہے کہ اس سے باز رہو اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے
2 Ahmed Raza Khan
اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اور ان کی میعاد پوری ہوجائے تو اے عورتوں کے والِیو انہیں نہ روکو اس سے کہ اپنے شوہروں سے نکاح کرلیں جب کہ آپس میں موافق شرع رضا مند ہوجائیں یہ نصیحت اسے دی جاتی ہے جو تم میں سے اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہو یہ تمہارے لئے زیادہ ستھرا اور پاکیزہ ہے اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے،
3 Ahmed Ali
اورجب تم عورتوں کو طلاق دے دو پس وہ اپنی عدت تمام کر چکیں تو اب انہیں اپنے خاوندوں سے نکاح کرنے سے نہ روکو جب کہ وہ آپس میں دستور کے مطابق راضی ہو جائیں تم میں سے یہ نصیحت اسے کی جاتی ہے جو الله اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے یہ تمہارے لیے بڑی پاکیزی اوربڑی صفائی کی بات ہے اور الله ہی جانتا ہے اور تم نہیں جانتے
4 Ahsanul Bayan
اور جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت پوری کرلیں تو انہیں ان کے خاوندوں سے نکاح کرنے سے نہ روکو جب کہ وہ آپس میں دستور کے مطابق رضامند ہوں (١) یہ نصیت انہیں کی جاتی ہے جنہیں تم میں سے اللہ تعالٰی پر اور قیامت کے دن پر یقین و ایمان ہو اس میں تمہاری بہترین صفائی اور پاکیزگی ہے۔ اللہ تعالٰی جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
٢٣٢۔١ اس میں مطلقہ عورت کی بابت ایک تیسرا حکم دیا جا رہا ہے وہ یہ کہ عدت گزرنے کے بعد (پہلی یا دوسری طلاق کے بعد) اگر سابقہ خاوند بیوی باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تو ان کو مت روکو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک ایسا واقعہ ہوا تو عورت کے بھائی نے انکار کر دیا جس پر یہ آیت اتری، اس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ عورت اپنا نکاح نہیں کر سکتی، بلکہ اس کے نکاح کے لئے ولی کی اجازت اور رضامندی ضروری ہے۔ تب ہی تو اللہ تعالٰی نے ولیوں کو اپنا حق ولایت غلط طریقے سے استعمال کرنے سے روکا ہے۔ اس کی مزید تائید حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوتی ہے، جس عورت نے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کر لیا، پس اس کا نکاح باطل ہے، اسکا نکاح باطل ہے، اسکا نکاح باطل ہے۔ (حوالہ مذکور) ان احادیث کو علامہ انور شاہ کشمیری نے بھی دیگر محدثین کی طرح صحیح اور احسن تسلیم کیا ہے۔ فیض الباری ج٤کتاب النکاح) دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ عورت کے ولیوں کو بھی عورت پر جبر کرنے کی اجازت نہیں بلکہ ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ عورت کی رضامندی کو بھی ملحوظ رکھیں اگر ولی عورت کی رضامندی کو نظر انداز کر کے زبردستی نکاح کر دے تو شریعت نے عورت کو بذریعہ عدالت نکاح فسخ کرانے کا اختیار دیا ہے اس لئے ضروری ہے کہ نکاح میں دونوں کی رضامندی حاصل کی جائے کوئی ایک فریق بھی من مانی نہ کرے گا اور لڑکی کے مفادات کے مقابلے میں اپنے مفادات کو ترجیح دے گا تو عدالت ایسے ولی کو حق ولایت سے محروم کر کے ولی ابعد کے ذریعے سے یا خود ولی بن کر اس عورت کے نکاح کا فریضہ انجام دے گی۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جب تم عورتوں کو طلاق دے چکو اور ان کی عدت پوری ہوجائے تو ان کو دوسرے شوہروں کے ساتھ جب وہ آپس میں جائز طور پر راضی ہوجائیں نکاح کرنے سے مت روکو۔ اس (حکم) سے اس شخص کو نصیحت کی جاتی ہے جو تم میں خدا اور روز آخرت پر یقین رکھتا ہے۔ یہ تمہارے لئے نہایت خوب اور بہت پاکیزگی کی بات ہے اور خدا جانتا ہے اور تم نہیں جانتے
6 Muhammad Junagarhi
اور جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دو اور وه اپنی عدت پوری کرلیں تو انہیں ان کے خاوندوں سے نکاح کرنے سے نہ روکو جب کہ وه آپس میں دستور کے مطابق رضامند ہوں۔ یہ نصیحت انہیں کی جاتی ہے جنہیں تم میں سے اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر یقین وایمان ہو، اس میں تمہاری بہترین صفائی اور پاکیزگی ہے۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اور جب وہ اپنی (عدّت کی) مدت پوری کر لیں تو انہیں اپنے شوہروں سے نکاح کرنے سے نہ روکو۔ جب کہ وہ مناسب طریقے پر (شریعت کے مطابق) ایک دوسرے (نئے یا پرانے) سے نکاح کرنے پر راضی ہو جائیں۔ اس (حکم) کے ذریعہ سے اس شخص کو نصیحت کی جاتی ہے (اور وہی اسے قبول کرے گا) جو خدا اور جزاء پر ایمان رکھتا ہے۔ یہ (ان احکام پر عمل کرنا)۔ تمہارے لئے زیادہ تزکیہ و طہارت کا باعث ہے اللہ بہتر جانتا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو اور ان کی مدّاُ عدت پوری ہوجائے تو خبردار انہیں شوہر کرنے سے نہ روکنا اگر وہ شوہروں کے ساتھ نیک سلوک پر راضی ہوجائیں. اس حکم کے ذریعے خدا انہیں نصیحت کرتا ہے جن کا ایمان اللہ اور روزِ آخرت پر ہے اور ان احکام پر عمل تمہارے لئے باعجُ تزکیہ بھی ہے اور باعث طہارت بھی. اللہ سب کچھ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ہو
9 Tafsir Jalalayn
اور جب تم عورتوں کو طلاق دے چکو اور ان کی عدت پوری ہوجائے تو ان کو دوسرے شوہروں کے ساتھ جب وہ آپس میں جائز طور پر راضی ہوجائیں نکاح کرنے سے مت روکو، اس (حکم) سے اس شخص کو نصیحت کی جاتی ہے جو تم میں خدا اور روز آخرت پر یقین رکھتا ہے یہ تمہارے لئے نہایت خوب اور بہت پاکیزگی کی بات ہے اور خدا جانتا ہے اور تم نہیں جانتے آیت نمبر ٢٣٢ تا ٢٣٥ ترجمہ : اور جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دیدو اور وہ اپنی عدت پوری کرلیں، (یعنی) ان کی عدت کی مدت پوری ہوجائے تو تم ان کو ان کے، ان خاوندوں سے نکاح کرنے سے نہ روکو جنہوں نے ان کو طلاق دی ہے، خطاب اولیاء کو ہے، اس لیے کہ اس آیت کے نزول کا سبب یہ ہے کہ معقل بن یسار کی بہن جمیلہ بنت یسار کو ان کے شوہر (بداح بن عاصم بن عدی) نے طلاق دیدی تھی پھر انہوں نے معقل بن یسار کی بہن سے رجوع کرنے کا ارادہ کیا تو معقل نے ان کو منع کردیا۔ (کما رواہ الحاکم) جب کہ خاوند اور بیوی شرعی قانون کے مطابق راضی ہوں، یہ یعنی روکنے سے ممانعت کی نصیحت اس شخص کو کی جاتی ہے جو تم میں سے اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو، اس لئے کہ (دراصل) اس سے وہی شخص مستفید ہوتا ہے، یہ منع کرنے سے باز رہنا تمہارے اور ان کے لئے زیادہ شائستہ اور پاکیزہ تر ہے، اس لئے کہ زوجین پر ان کے (سابقہ) تعلق کی وجہ سے تہمت کا اندیشہ ہے اس کی مصلحت ہی خوب جانتا ہے اور تم اس کو نہیں جانتے لہٰذا اس حکم کی اتباع کرو، جو باپ چاہتے ہوں کہ ان کی اولاد پوری مدت رضاعت تک دودھ پیئے نہ کہ اس سے زیادہ تو مائیں اپنے بچوں کو کامل دو سال دودھ پلائیں، کامِلَیْن، حَوْلَین، کی صفت مؤکدہ ہے (اس صورت میں) بچے کے باپ کو معروف طریقہ سے گنجائش کے مطابق بچہ کی ماؤں کو دودھ پلانے کے عوض کھانا کپڑا دینا ہوگا جب کہ وہ مطلقات ہوں، مگر کسی پر اسکی وسعت سے زیادہ بار نہ ڈالا جائے، نہ ماں کو اس کے بچے کی وجہ سے نقصان پہنچایا جائے اس طریقہ پر کہ جب وہ دودھ نہ پلانا چاہے تو اس کو دودھ پلانے پر مجبور کیا جائے اور نہ باپ کو اس کے بچے کی وجہ سے نقصان پہچایا جائے، اس طریقہ پر کہ وسعت سے زیادہ اس کو مکلف بنایا جائے، اور ولد کی اضافت والدین کی طرف دونوں جگہوں پر طلب شفقت کے لئے ہے اور وارث (یعنی) باپ کے وارث پر کہ وہ اس کا بچہ ہے، یعنی باپ کے مالی وارث پر بھی اسی جیسی ذمہ داری ہے یعنی جیسی والد پر والدہ کے لئے کھانے کپڑے کی ذمہ داری تھی (ویسی ہی ذمہ داری مرنے والے باپ کے وارث پر ہے) پھر اگر دونوں (یعنی) والدین دو سال سے پہلے ہی آپسی رضا مندی اور باہمی مشورہ سے تاکہ اس میں بچہ کی مصلحت ظاہر ہو بچہ کا دودھ چھڑانا چاہیں تو اس میں ان دونوں پر کوئی حرج نہیں، اور اگر تم خطاب آباء کو ہے، اپنی اولاد کو ان کی ماؤں کے علاوہ کسی دودھ پلانے والی سے دودھ پلوانا چاہو تو اس میں تم دونوں کے لئے کوئی مضائقہ نہیں جب تم ان کو جو اجرت دستور کے مطابق دینا چاہو خوش دلی سے دیدو، اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور اس بات کا یقین رکھو کہ جو کچھ کر رہے ہو سب اللہ کی نظر میں ہے ان میں سے اس پر کوئی چیز مخفی نہیں، اور جو لوگ تم میں سے وفات پاجائیں یعنی انتقال کر جائیں اور اپنے پیچھے بیوہ چھوڑ جائیں تو وہ اپنے آپ کو ان کے بعد نکاح سے چارمہینے دس راتیں روکے رکھیں اور یہ حکم غیر حاملاؤں کے لئے ہے رہیں حاملائیں تو ان کی عدت وضع حمل ہے آیت طلاق کی رو سے، اور باندی کی عدت ازروئے سنت اس کی نصف ہے پھر جب ان کی عدت پوری ہوجائے یعنی جب ان کی عدت کی مدت ختم ہوجائے تو اے اولیاء وہ جو کچھ اپنی ذات کے بارے میں شرعی دستور کے مطابق کریں خواہ زیب وزینت ہو، یا رشتہ کے بارے میں پیش کش ہو، تو اس میں تمہارے اوپر کوئی گناہ نہیں، اللہ تعالیٰ تم سب کے اعمال سے باخبر ہے یعنی ان کے ظاہر و باطن سے واقف ہے بیوہ عورتوں سے ان کی عدت کے زمانہ میں اشارہ (کنایہ) سے منگنی کی باتیں کرنے میں تمہارے لئے کوئی گناہ نہیں، مثلاً کسی شخص کا یہ کہنا کہ تم بہت حسین ہو، تمہاری جیسی کسی کو ملے ؟ (یعنی قسمت والے ہی کو مل سکتی ہے) اور تم کو تو چاہنے والے بہت ہیں، (وغیرہ وغیرہ) یا تم ان سے نکاح کے ارادہ کو اپنے دل میں پوشیدہ رکھو، اللہ کے علم میں ہے کہ تم ان کا منگنی کے بارے میں تذکرہ ضرور کرو گے اور تم ان کے بارے میں صبر نہ کرسکو گے تو اس نے تمہارے لئے اشارہ ظاہر کرنا جائز کردیا ہے، مگر (دیکھو) خفیہ عہد و پیمان مت کرنا اگر کوئی بات کرنی ہے تو دستور کے مطابق کرو، یعنی شرعی قانون کے مطابق اشارہ کرسکتے ہو، یہ تمہارے لئے جائز ہے اور نکاح کا پختہ ارادہ اس وقت تک نہ کرو جب تک کہ فرض کردہ عدت پوری نہ ہوجائے، خوب سمجھ لو الہ تمہارے دلوں کے حال کو یعنی پختہ اور غیر پختہ ارادہ کو خوب جانتا ہے لہٰذا اس سے ڈرو کہ اگر تم پختہ ارادہ کرو گے تو وہ اس پر تم کو سزا دے گا اور یہ بات بھی خوب سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ اس سے ڈرنے والے کو معاف کرنے والا بردبار ہے مستحق عذاب کو مؤخر کرکے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : اِنْقَضَتْ عِدّتھُنَّ ، فَبَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ کی تفسیر اِنْقَضَتْ عِدَّتُھُنّ ، سے کرکے اس بات کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ یہاں بلوغ کے معنی حقیقی مراد ہیں یعنی مدت کا ختم ہوجانا، اس لئے کہ نکاح سے روکنے کا سوال عدت کے ختم ہونے کے بعد ہی پیدا ہوتا ہے، بخلاف سابقہ آیت کے کہ اس میں بلوغ کے مجازی معنی، قُرْب، کے مراد ہیں، جیسا کہ مفسر علام نے بَلَغْنَ کے معنی قَارَبْنَ سے کیے ہیں، اس لئے کہ امساک فی النکاح اسی وقت تک ممکن ہے جب تک کہ عدت ختم نہ ہوئی ہو عدت ختم ہونے کے بعد امساک ممکن نہیں ہے۔ قولہ : لَا تعضُلُوْھُنَّ ، فعل نہی جمع مذکر حاضر، ھُنَّ ، ضمیر جمع مؤنث غائب، تم ان کو نہ روکو، (ن) عَضْلاً سختی سے روکنا۔ قولہ : خطابٌ لِلاولیاء اس اضافہ کا مقصد ان لوگوں کی تردید ہے جو لَا تَعْضُلُوا، کا مخاطب طلاق دینے والے شوہروں کو قرار دیتے ہیں یعنی طلاق دینے والے شوہروں کو چاہیے کہ اپنی مطلقاؤں کو نکاح کرنے سے نہ روکیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس صورت میں اَزْوَاجَھُنَّ کے معنی مجازی یعنی مایؤل (ہونے والے) کے اعتبار سے ازواج مراد لینا ہوگا، اور اگر فلا تَعضُلُوھُنّ ، کا مخاطب اولیاء کو قرار دیا جائے تو اَزْوَاجَھُنَّ کے معنی حقیقی یعنی ان کے سابقہ شوہروں سے نکاح کرنے سے نہ روکو، یہاں شوہر سے مراد ما کان، کے اعتبار سے ہوگا اور یہ حقیقی معنی ہیں۔ قولہ : لِانَّ سَببَ نزولِھَا، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ فَلَا تَعْضُلُوا، کے مخاطب اولیاء ہیں نہ کہ سابقہ شوہر اس لئے کہ سبب نزول سے معلوم ہوتا ہے کہ روکنے والے اولیاء ہی تھے۔ قولہ : شرعًا یعنی اگر مطلقہ عورتیں شریعت کے مطابق نکاح کریں تو ان کو نہیں روکنا چاہیے اور خلاف شرع نکاح کریں تو اولیاء کو روکنے کا حق۔ قولہ : مافیہ من المصلحۃ، اس میں اشارہ ہے کہ یعلم کا مفعول محذوف ہے۔ قولہ : لِیُرْضِعْنَ ، یُرْضِعْنَ ، کی تفسیر لِیُرْضِعْنَ سے کرکے اشارہ کردیا کہ خبر بمعنی امر ہے اور ایسا مبالغہ کے طور پر کیا گیا ہے۔ قولہ : بعدھم اس تقدیر کا مقصد اس سوال کا جواب ہے کہ اَلَّذِیْنَ الخ مبتداء ہے اور یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِھِنَّ ، جملہ ہو کر اس کی خبر ہے خبر جب جملہ ہوتی ہے تو عائد کا ہونا ضروری ہوتا ہے یہاں عائد نہیں ہے اسی اشکال کا جواب دیا ہے کہ عائد محذوف ہے اور وہ بَعْدَھُمْ ، ہے ای بعد الازواج۔ قولہ : مِنَ اللیالی۔ سوال : من اللیالی کی تخصیص کس وجہ سے کی گئی ہے جب کہ عام طور پر ایام کا ذکر کیا جاتا ہے، چار مہینے دس دن بولا جاتا ہے نہ کہ چار مہینے دس راتیں۔ جواب : بعض احکام مثلاً حج، روزہ، عیدین، عدت کا تعلق قمری تاریخوں سے ہے اور قمری تاریخ کی ابتداء رات سے ہوتی ہے دن رات کے تابع ہوتا ہے، لہٰذا رات کے ضمن میں دن خودبخود شامل ہے، اگر اس کا عکس ہوتا تو قمری تاریخ ناقص ہوتی ہے اسی لئے مفسر علام نے من اللیالی کی قید کا اضافہ فرمایا، شمار اور گنتی کے اعتبار سے اسلامی کیلنڈر میں ان کو رات کے تابع مانا گیا ہے، سوائے یوم عرفہ کے کہ حکم کے اعتبار سے رات کے تابع مانا گیا ہے یعنی نویں ذی الحجہ کے بعد آنے والی رات وقوف عرفہ کے اعتبار سے دن کے حکم میں ہے۔ قولہ : اَرْبَعَۃَ اَشْھُرٍ وَّعَشْرًا، عام ہونے کی وجہ سے وہ اس عورت کو بھی شامل ہے جس کے شوہر کا انتقال ہوگیا ہو، اس میں حاملہ اور غیر حاملہ نیز آزاد اور باندی سب داخل ہیں مگر آیت طلاق کی وجہ سے حاملاؤں کو اس سے خارج کردیا گیا ہے، آیت طلاق یہ ہے : ” وَاُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُھُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَھُنَّ “ اور باندیاں حدیث، عِدَّتُھَا حَیْضَتانٍ “ کی وجہ سے خارج ہوگئیں۔ قولہ : عالم بباطنِہٖ ، اس اضافہ کو مقصد شبہ تکرار کو دفع کرنا ہے۔ شبہ : یہ ہے کہ اوپر کی آیت میں فرمایا گیا اِنَّ اللہَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ اور یہاں فرمایا گیا وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیْرٌ دونوں کا ایک ہی مفہوم ہے جو کہ بمنزلہ تکرار کے ہے۔ جواب : مفسر علام نے دونوں میں فرق کو واضح کرنے کے لئے بباطنہ کے لفظ کا اضافہ کیا ہے۔ قولہ : لَوَّحْتُمْ ، یہ تلویح سے ماخوذ ہے اس کے معنی اشارہ سے کام لینا۔ تفسیر و تشریح ربط آیات : سابقہ دو آیتوں میں قانون طلاق کی اہم دفعات کو بیان فرمایا، اب مذکورۃ الصدر دو آیتوں میں چند احکام و مسائل کا ذکر ہے۔ مسئلہ : جب مطلقہ رجعی کی عدت گزرنے کے قریب آئے تو شوہر کو دو اختیار حاصل ہیں ایک یہ کہ رجعت کرکے اپنی بیوی بنالے اور دوسرے یہ کہ رجعت نہ کرے اور عدت گزرنے دے تاکہ عورت آزاد ہوجائے، لیکن یہ دونوں کام خوش اسلوبی اور شرعی قاعدہ کے مطابق ہونے چاہئیں سورة طلاق کی آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ رجعت پر دو عادل معتبر آدمیوں کو گواہ بنا لیا جائے ” وَاَشْھِدُوْا ذَوَیْ عَدْلٍ مِّنْکُمْ وَاَقِیْمُوا الشَّھَادَۃَ للہِ “۔ شان نزول : فی لباب النقول روی البخاری وابو داؤد والترمذی وغیرھم، حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ معقل بن یسار نے اپنی بہن جمیلہ بنت یسار کا نکاح بن عاصم بن عدی سے کردیا تھا، بعض روایتوں میں جمیلہ کے بجائے حَوْلاء منقول ہے آپس میں کسی وقتی رنجش کی وجہ سے بداح بن عاصم نے جمیلہ کو طلاق رجعی دیدی، جس کی عدت بھی گزر گئی، بیوی نکاح سے خارج ہوگئی شوہر کو اپنی حرکت پر شرمندگی ہوئی اور دوبارہ نکاح کرنے کا ارادہ کیا تو معقل بن یسار نے صاف اور سخت جواب دیا کہ میں نے اپنی بہن کا تجھ سے نکاح کرکے تیرا اکرام کیا، اور تو نے اس کو طلاق دیدی واللہ اب وہ تیری طرف کبھی نہ لوٹے گی، اسی معاملہ میں اللہ تعالیٰ نے ” فَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ اَنْ یَّنْکِحْنَ “ (الآیۃ) نازل فرمائی۔ اسی قسم کا ایک واقعہ جابر بن عبد اللہ کی چچا زاد بہن کا بھی پیش آیا تھا دونوں واقعے نزول کا سبب ہوسکتے ہیں، آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ تم مطلقہ عورتوں کو ان کے تجویز کردہ شوہروں سے نکاح کرنے سے نہ روکو، خواہ پہلے ہی شوہر ہوں جنہوں نے ان کو طلاق دی ہے یا دوسرے لوگ، نکاح میں دونوں کی رضامندی ضروری ہے بغیر رضا مندی، زور ربردستی سے، نکاح درست نہیں ایسی صورت میں اولیاء کو روکنے کا حق نہیں ہے، اور فریقین کی رضا مندی بھی شرعی قاعدے اور دستور کے مطابق ہو، اگر شرعی قاعدہ کے خلاف باہمی رضامندی سے نکاح کرنے لگیں تو اولیاء وغیرہ کو روکنے کا حق ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
یہ خطاب اس مطلقہ عورت کے سرپرستوں سے ہے جسے تین سے کم طلاق دی گئی ہو، عدت پوری ہونے کے بعد اس کا خاوند اس سے دوبارہ نکاح کا خواہاں ہو اور وہ عورت بھی اس نکاح پر راضی ہو تو اس عورت کے ولی کے لئے خواہ وہ باپ ہو یا کوئی اور، جائز نہیں کہ اسے نکاح کرنے سے روکے، یعنی پہلی طلاق پر اپنے غصہ، بغض اور نفرت کی بنا پر، میاں بیوی کو نکاح کرنے سے روکنے سے منع کرتا ہے، کیونکہ عورت کا اپنے خاوند کے ساتھ تجدید نکاح تمہارے لئے اس سے زیادہ پاک اور بہتر ہے جو عورت کا ولی سمجھتا ہے کہ عدم نکاح درست رائے ہے اور نکاح سے روکنا (انتقاماً) پہلی طلاق کا جواب ہے۔ جیسا کہ متکبر اور نام نہاد اونچے گھرانوں کے لوگوں کی عادت ہے۔ پس اگر ولی یہ سمجھتا ہے کہ عدم نکاح ہی میں میاں بیوی کی مصلحت ہے تو ﴿ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾” اسے اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے“ پس اس ہستی کی اطاعت کرو جو تمہارے مصالح کا تم سے زیادہ علم رکھتی ہے، وہ تمہارے لئے یہ مصالح چاہتی ہے، وہ ان پر قادر ہے اور ان کو تمہارے لئے اس طرح آسان بناتی ہے جن کو تم خوب جانتے ہو۔ اس آیت کریمہ میں اس امر کی دلیل ہے کہ نکاح میں ولی کا ہونا ضروری ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اولیاء (یعنی سرپرستوں) کو عورتوں کے نکاح سے روکنے سے منع کیا ہے اور اللہ تعالیٰ بندوں کو اسی چیز سے روکتا ہے جو ان کی تدبیر کے تحت آتی ہو اور اس میں ان کا حق ہو۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur jab tum ney aurton ko talaq dey di ho , aur woh apni iddat ko phonch jayen , to ( aey meykay walo ! ) unhen iss baat say mana naa kero kay woh apney ( pehlay ) shohron say ( dobara ) nikah keren , ba-shartey-kay woh bhalai kay sath aik doosray say razi hogaye hon . inn baaton ki naseehat tum mein say unn logon ko ki jarahi hai jo Allah aur yoam-e-aakhirat per emaan rakhtay hon . yehi tumharay liye ziyada suthra aur pakeezah tareeqa hai . Allah janta hai aur tum nahi jantay .
12 Tafsir Ibn Kathir
ورثاء کے لئے طلاق کی مزید آئینی وضاحت : اس آیت میں عورتوں کے ولی وارثوں کو ممانعت ہو رہی ہے کہ جب کسی عورت کو طلاق ہوجائے اور عدت بھی گزر جائے پھر میاں بیوی اپنی رضامندی سے نکاح کرنا چاہیں تو وہ انہیں نہ روکیں۔ اس آیت میں اس امر کی بھی دلیل ہے کہ عورت خود اپنا نکاح نہیں کرسکتی اور نکاح بغیر ولی کے نہیں ہوسکتا چناچہ ترمذی اور ابن جریر نے اس آیت کی تفسیر میں یہ حدیث وارد کی ہے کہ عورت عورت کا نکاح نہیں کرسکتی نہ عورت اپنا نکاح آپ کرسکتی ہے۔ وہ عورتیں زنا کار ہیں جو اپنا نکاح آپ کرلیں۔ دوسری حدیث میں ہے نکاح بغیر راہ یافتہ کے اور دو عادل گواہوں کے نہیں، گو اس مسئلہ میں بھی اختلاف ہے لیکن اس کے بیان کی جگہ تفسیر نہیں۔ ہم اس کا بیان کتاب الاحکام میں کرچکے ہیں فالحمداللہ۔ یہ آیت حضرت معقل بن یسار اور ان کی ہمشیرہ صاحبہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ صحیح بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر کے بیان میں ہے کہ حضرت معقل بن یسار فرماتے ہیں میری بہن کا منگیتر میرے پاس آتا تھا۔ میں نے نکاح کردیا۔ اس نے کچھ دنوں بعد طلاق دے دی۔ پھر عدت گزر جانے کے بعد نکاح کی درخواست کی، میں نے انکار کردیا۔ اس پر یہ آیت اتری جسے سن کر حضرت معقل نے باوجود یہ کہ قسم کھا رکھی تھی کہ میں تیرے نکاح میں نہ دوں گا، نکاح پر آمادہ ہوگئے اور کہنے لگے میں نے اللہ کا فرمان سنا اور میں نے مان لیا اور اپنے بہنوئی کو بلا کر دوبارہ نکاح کردیا اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کیا۔ ان کا نام جمیل بنت یسار تھا۔ ان کے خاوند کا نام ابو البداح تھا۔ بعض نے ان کا نام فاطمہ بن یسار بتایا ہے۔ سدی فرماتے ہیں کہ یہ آیت حضرت جابر بن عبداللہ اور ان کے چچا کی بیٹی کے بارے میں نازل ہوئی ہے لیکن پہلی بات ہی زیادہ صحیح ہے۔ پھر یہ فرمایا یہ نصیحت و وعظ کیلئے ہے جنہیں شریعت پر ایمان ہو، اللہ کا ڈر ہو، قیامت کا خوف ہو، انہیں چاہئے کہ اپنی ولایت میں جو عورتیں ہوں انہیں ایسی حالت میں نکاح سے نہ روکیں، شریعت کی اتباع کر کے ایسی عورتوں کو ان کے خاوندوں کے نکاح میں دے دینا اور اپنی حمیت و غیرت کو جو خلاف شرع ہو، شریعت کے ماتحت کردینا ہی تمہارے لئے بہتری اور پاکیزگی کا باعث ہے۔ ان مصلحتوں کا علم جناب باری تعالیٰ کو ہی ہے، تمہیں معلوم نہیں کہ کس کام کے کرنے میں بھلائی ہے اور کس کے چھوڑنے میں۔ یہ علم حقیقت میں اللہ رب العزت ہی کو ہے۔