البقرہ آية ۲۳۶
لَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ اِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَاۤءَ مَا لَمْ تَمَسُّوْهُنَّ اَوْ تَفْرِضُوْا لَهُنَّ فَرِيْضَةً ۖ وَّمَتِّعُوْهُنَّ عَلَى الْمُوْسِعِ قَدَرُهٗ وَ عَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهٗ ۚ مَتَاعًا ۢ بِالْمَعْرُوْفِۚ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِيْنَ
طاہر القادری:
تم پر اس بات میں (بھی) کوئی گناہ نہیں کہ اگر تم نے (اپنی منکوحہ) عورتوں کو ان کے چھونے یا ان کے مہر مقرر کرنے سے بھی پہلے طلاق دے دی ہے تو انہیں (ایسی صورت میں) مناسب خرچہ دے دو، وسعت والے پر اس کی حیثیت کے مطابق (لازم) ہے اور تنگ دست پر اس کی حیثیت کے مطابق، (بہر طور) یہ خرچہ مناسب طریق پر دیا جائے، یہ بھلائی کرنے والوں پر واجب ہے،
English Sahih:
There is no blame upon you if you divorce women you have not touched nor specified for them an obligation. But give them [a gift of] compensation – the wealthy according to his capability and the poor according to his capability – a provision according to what is acceptable, a duty upon the doers of good.
1 Abul A'ala Maududi
تم پر کچھ گنا ہ نہیں، اگر اپنی تم عورتوں کو طلاق دے دو قبل اس کے کہ ہاتھ لگانے کی نوبت آئے یا مہر مقرر ہو اس صورت میں اُنہیں کچھ نہ کچھ دینا ضرور چاہیے خوش حال آدمی اپنی مقدرت کے مطابق اور غریب اپنی مقدرت کے مطابق معروف طریقہ سے دے یہ حق ہے نیک آدمیوں پر
2 Ahmed Raza Khan
تم پر کچھ مطالبہ نہیں تم عورتوں کو طلاق دو جب تک تم نے ان کو ہاتھ ن ہ لگایا ہو یا کوئی مہر مقرر کرلیا ہو اور ان کو کچھ برتنے کو دو مقدور والے پر اس کے لائق اور تنگدست پر اس کے لائق حسب دستور کچھ برتنے کی چیز یہ واجب ہے بھلائی والوں پر
3 Ahmed Ali
تم پر کوئی گناہ نہیں اگر تم عورتوں کو طلاق دے دو جب کہ انہیں ہاتھ بھی نہ لگایا ہو اور ان کے لیے کچھ مہر بھی مقرر نہ کیا ہو اور انہیں کچھ سامان دے دو وسعت والے پر اپنے قدر کے مطابق اور مفلس پر اپنے قدر کے مطابق سامان حسب دستور ہے نیکو کاروں پر یہ حق ہے
4 Ahsanul Bayan
اگر تم عورتوں کو بغیر ہاتھ لگائے اور بغیر مہر مقرر کئے طلاق دے دو تو بھی تم پر کوئی گناہ نہیں، ہاں انہیں کچھ نہ کچھ فائدہ دو۔ خوش حال اپنے انداز سے اور تنگدست اپنی طاقت کے مطابق دستور کے مطابق اچھا فائدہ دے بھلائی کرنے والوں پر یہ لازم ہے (١)۔
٢٣٦۔١ یہ اس عورت کی بابت حکم ہے کہ نکاح کے وقت مہر مقرر نہیں ہوا تھا اور خاوند نے ہم بستری کے بغیر طلاق دے دی تو انہیں کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کرو یہ فائدہ ہر شخص کی طاقت کے مطابق ہونا چاہیے خوش حال اپنی حیثیت اور تنگ دست اپنی طاقت کے مطابق دے تاہم محسنین کے لیے ہے یہ ضروری نہیں۔ اس متعہ کی تعیین بھی کی گئی ہے کسی نے کہا خادم کسی نے کہا ۵۰۰ درہم کسی نے کہا ایک یا چند سوٹ وغیرہ بہرحال یہ تعیین شریعت کی طرف سے نہیں ہے ہر شخص کو اپنی طاقت کے مطابق دینے کا اختیار اور حکم ہے اس میں بھی اختلاف ہے کہ یہ متعہ طلاق ہر قسم کی طلاق یافتہ عورت کو دینا ضروری ہے یا خاص اسی عورت کی بابت حکم ہے جو اس آیت میں مذکور ہے قرآن کریم کی بعض اور آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہر قسم کی طلاق یافتہ عورت کے لیے ہے واللہ اعلم۔ اس حکم متعہ میں جو حکمت اور فوائد ہیں وہ محتاج وضاحت نہیں تلخی کشیدگی اور اختلاف کے موقع پر جو طلاق کا سبب ہوتا ہے احسان کرنا اور عورت کی دلجوئی ودلداری کا اہتمام کرنا مستقبل کی متوقع خصومتوں کے سد باب کا نہایت اہم ذریعہ ہے لیکن ہمارے معاشرے میں اس احسان وسلوک کے بجائے مطلقہ کو ایسے برے طریقے سے رخصت کیا جاتا ہے کہ دونوں ٰخاندانوں کے آپس کے تعلقات ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتے ہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور اگر تم عورتوں کو ان کے پاس جانے یا ان کا مہر مقرر کرنے سے پہلے طلاق دے دو تو تم پر کچھ گناہ نہیں۔ ہاں ان کو دستور کے مطابق کچھ خرچ ضرور دو (یعنی) مقدور والا اپنے مقدور کے مطابق دے اور تنگدست اپنی حیثیت کے مطابق۔ نیک لوگوں پر یہ ایک طرح کا حق ہے
6 Muhammad Junagarhi
اگر تم عورتوں کو بغیر ہاتھ لگائے اور بغیر مہر مقرر کئے طلاق دے دو تو بھی تم پر کوئی گناه نہیں، ہاں انہیں کچھ نہ کچھ فائده دو۔ خوشحال اپنے انداز سے اور تنگدست اپنی طاقت کے مطابق دستور کے مطابق اچھا فائده دے۔ بھلائی کرنے والوں پر یہ ﻻزم ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اگر تم (اپنی) عورتوں کو ہاتھ لگانے (خلوت صحیحہ کرنے) اور حق مہر مقرر کرنے سے پہلے ہی طلاق دے دو تو اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں ہے ہاں البتہ (بطور خرچہ) انہیں کچھ مال و متاع دے دو۔ مالدار اپنی حیثیت کے مطابق اور غریب و نادار اپنے مقدور کے موافق مناسب متاع (خرچہ) دے۔ یہ نیکوکار لوگوں کے ذمہ ایک حق ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور تم پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے اگر تم نے عورتوں کو اس وقت طلاق دے دی جب کہ ان کو چھوا بھی نہیں ہے اور ان کے لئے کوئی مہر بھی معین نہیں کیا ہے البتہ انہیں کچھ مال و متاع دیدو. مالدار اپنی حیثیت کے مطابق اور غریب اپنی حیثیت کے مطابق. یہ متاع بقدر مناسب ہونا ضروری ہے کہ یہ نیک کرداروں پر ایک حق ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور اگر تم عورتوں کو ان کے پاس جانے یا ان کا مہر مقرر کرنے سے پہلے طلاق دے دو تو تم پر کچھ گناہ نہیں ہاں ان کو دستور کے مطابق کچھ خرچ ضرور دو (یعنی) مقدور والا اپنے مقدور کے مطابق دے اور تنگ دسست اپنی حیثیت کے مطابق، نیک لوگوں پر یہ ایک طرح کا حق ہے
آیت نمبر ٢٣٦ تا ٢٤٢
ترجمہ : اور جب تک تم عورتوں سے نہ لگو، اور ایک قراءت میں تُمَاسُّوھُنَّ ہے ای تُجَامِعُوْھُنَّ (یعنی قبل اس کے کہ تم ان سے جماع کرو) اور ان کا مہر مقرر نہ کیا ہوا گر تم ان کو طلاق دیدو تو تم پر کوئی حرج نہیں، مَا مصدر یہ ظرفیہ ہے یعنی ہاتھ نہ لگانے اور مہر مقرر نہ کرنے کے زمانہ میں طلاق دینے میں تم پر کوئی مواخذہ نہیں اور نہ مہر واجب، اگر ان کو طلاق دو تو ان کو کچھ فائدہ پہنچاؤ یعنی ان کو کو چھ دو جس سے وہ فائدہ حاصل کریں، اور تم میں سے خوشحال لوگوں پر اپنی مقدرت کے مطابق اور ناداروں تنگ دستوں پر ان کی وسعت کے مطابق فائدہ پہنچانا ہے بالمعروف، مَتَاعًا کی صفت (اول) ہے یہ حق ہے خوش اخلاق لوگوں پر یعنی اطاعت گزاروں پر حَقًا، مَتَاعًا، کی صفت ثانیہ ہے یا مصدر مؤکد ہے اور اگر تم نے عورتوں سے لگنے سے پہلے طلاق دیدی اور تم ان کے لئے مہر مقرر کرچکے ہو تو مقررہ مہر کا نصف ان کے لے واجب ہے اور نصف تمہارے لئے واپس ہوگا، اِلَا یہ کہ بیویاں معاف کردیں اور چھوڑ دیں یا وہ شخص کہ جس کے اختیار میں عقد نکاح ہے معاد کر دے اور وہ شخص شوہر ہے کہ بیوی کے لئے پورا مہر چھوڑ دے اور ابن عباس (رض) سے منقول ہے کہ وہ شخص (عورت) کا ولی ہے (جب کہ) عورت اس معاملہ میں معذور ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں، اور اگر تم معاف کردو تو یہ تقویٰ کے لیے زیادہ قریب ہے اَن تعْفُوا، مبتداء ہے اور ” اَقْرَبُ لِلتقوی “ اس کی خبر ہے اور آپس میں معاملات میں فیاضی کو نہ بھولو یعنی ایک دوسرے کے ساتھ فیاضی سے کام لو، بلاشبہ جو کچھ تم کرتے ہو وہ سب اللہ کی نظروں میں ہے سو وہ تم کو اس کی جزاء دے گا پنج وقتہ نمازوں کی ان کے اوقات میں ادا کر کے حفاظت کرو بالخصوص درمیانی نماز کی اور وہ عصر کی نماز ہے جیسا کہ حدیث میں ہے (رواہ الشیخان) یا صبح کی یا ظہر کی نمازیں مراد ہیں، یا ان کے علاوہ (کوئی اور نماز مراد ہے) یہ چند اقوال ہیں اور درمیانی نماز کا اس کی فضیلت کی وجہ سے مستقل طور پر ذکر کیا ہے اور اللہ کے لئے نماز میں با ادب کھڑے رہو کہا گیا ہے کہ اطاعت گزاروں کی طرح (کھڑے رہو) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کی وجہ سے (لفظ) قنوت جو قرآن میں مذکور ہے اس سے مراد اطاعت ہے، احمد وغیرہ نے اس کو روایت کیا ہے اور کہا گیا ہے کہ خاموشی کے ساتھ کھڑا رہنا مراد ہے، زید بن ارقم کی حدیث کی وجہ سے فرمایا کہ ہم نماز میں باتیں کرلیا کرتے تھے تایں کہ یہ آیت نازل ہوئی (جس میں) ہم کو سکوت اختیار کرنے کا حکم دیا گیا اور باتیں کرنے سے منع کردیا گیا، (رواہ الشیخان) اور اگر تم کو دشمن کا یا سلاب کا یا درندے کا خوف ہو تو خواہ پیدل زمین پر، رِجَالاً ، راجلٌ کی جمع ہے یا سواری پر (جس طرح ممکن ہو) نماز پڑھ لیا کرو رُکْبَانٌ راکبٌ کی جمع ہے (مطلب یہ کہ) جس طرح ممکن ہو مستقبل قبلہ ہو یا نہ ہو، اور رکوع سجدہ کے لئے اشارہ کرلیا کرو، اور جب تم خوف سے مامون ہوجاؤ تو پھر اسی طرح نماز پڑھو جس طرح تم کو بتائی گئی ہے بتانے سے پہلے اس کے فرائض اور حقوق کو تم نہیں جانتے تھے، اور کاف بمعنی مثل ہے اور مَا، موصولہ، یا مصدریہ ہے اور تم میں سے وہ لوگ جو وفات پاجائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو ان کو چاہیے کہ اپنی بیویوں کے لئے وصیت کر جائیں اور ایک قراءت میں وَصِیَّۃٌ رفع کے ساتھ ہے ای وَصِیَّۃٌ اور ان کو کوئی کار آمد چیز دے جائیں جس سے وہ پورے سال تک ان کی موت کے وقت سے جس میں ان پر (عدت کے لئے) انتظار کرنا واجب ہے واجب ہئ فائدہ اٹھائیں مثلا نفقہ اور لباس حال یہ ہے کہ ان کو ان کی قیام گاہوں سے نکالا نہ جائے (غَیْرَ اخراج) حال ہے البتہ اگر وہ ازخود نکل جائیں تو اے اس میت کے اولیاء تم پر کوئی گناہ نہیں، تو وہ (حول کے بعد) اپنی ذات کے معاملہ میں شرعی دستور کے مطابق جو کچھ کریں مثلاً ، سنگار، ترک، سوگ، اور اپنا نان نفقہ از خود ترک کردینا، اللہ اپنے ملک میں غالب ہے اور اپنی صنعت میں باحکمت ہے اور مذکورہ وصیت، آیت میراث کی وجہ سے منسوخ ہے اور ایک سال کی عدت، اَرْبَعَۃَ اَشْھُرِ وَّعَشْرًا، سے منسوخ ہے جو کہ نزول میں مؤخر ہے (اگرچہ تلاوت میں مقد ہے) اور عورت کے لئے سُکنیٰ (جائے سکونت) امام شافعی (رح) تعالیٰ کے نزدیک واجب ہے اور مطلقہ کو کچھ کار آمد چیزیں جن کو شوہر دستور کے مطابق بقدر گنجائش دیں، یہ حق ہے اللہ سے ڈرنے والوں پر (حَقًا) فعل مقدر کی وجہ سے منصوب ہے، اس کو مکرر لائے ہیں تاکہ موطوئہ کو بھی شامل ہوجائے، اس لئے کہ سابقہ آیت غیر موطوئہ کے بارے میں ہے جس طرح سابق میں بیان کیا گیا اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنی آیتوں کو واضح طور پر بیان کرتا ہے تاکہ تم غور و فکر کرو۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : اَوْ لَمْ تَفْرِضُوْا لَھُنَّ ، مفسر علام نے لَمْ مقدر مان کر اشارہ کردیا کہ لَمْ کا مدخول تَمْسُّوْھُنَّ ، پر معطوف ہونے کی وجہ سے مجزوم ہے اور اَوْ بمعنی واؤ ہے یعنی جب تک مسیس اور تفریض مہر نہ پائی جائے تو طلاق میں کوئی حرج نہیں، اس لئے کہ یہ بات طے ہے کہ اَوْ ، جب سیاق نفی میں واقع ہو تو عموم کا فائدہ دیتا ہے، بعض حضرات نے کہا ہے کہ تَفْرِضُوْا، اَنْ مضمر کی وجہ سے منصوب ہے مگر یہ درست نہیں ہے اس لئے کہ خلاف ظاہر ہے اور اس لئے کہ اس صورت میں اَنْ مقدر ماننا ہوگا اور اَوْ ، بمعنی اِلاَّ یا الیٰ ، لینا ہوگا۔
قولہ : فَرِیْضَۃً ، فَرِیْضۃ، بمعنی مفروضہ ہے نہ کہ مصدر اس لئے کہ فَعِیْلَۃ کے وزن پر مصدر نادر ہے فَرِیْضَۃً ، تَفْرِضُوْنَ ، کا مفعول ہونے کی وجہ سے منصوب ہے اور مفروض سے مراد مہر ہے، فَرِیْضۃٌ، میں تاء وصفیت سے اسمیت کی طرف منتقل ہونے کی وجہ سے آئی ہے۔
قولہ : مَالَمْ تَمَسُّوْھُنَّ میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ مَسرْ کی نسبت مرد کی جانب کی گئی ہے حالانکہ مس دونوں کی طرف سے ہوتا ہے اور کبھی عورت کی جانب سے بھی اقدام ہوتا ہے۔
جواب : مرد چونکہ اس معاملہ میں قوی تر ہے اور اکثر اسی کی طرف سے اقدام ہوتا ہے اس لئے مرد کی جانب فعل کی نسبت کردی ہے ورنہ حکم دونوں صورتوں میں ایک ہی ہے۔
قولہ : مَا مصدریۃ ظرفیۃ، اقرب یہ ہے کہ مَا شرطیہ بمعنی ان ہے نہ مصدریہ نہ ظرفیہ کما قال مفسر علام (رح) تعالیٰ اس لئے کہ ظرفیت کے لئے اس جگہ ہوتا ہے جہاں امتداد ممکن ہو، جیسے ” خَالِدِیْنَ فِیْھَا مَا دَامَتِ السَّمٰوَاتُ وَالْاَرْضُ “ اس لئے کہ خلود میں شان امتداد ہے بخلاد اِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ مَا لَمْ تَمَسُّوْھُنَّ ، میں کہ طلاق میں امتداد نہیں ہے۔
قولہ : اَیْ لاَ تَبِعَۃَ عَلَیکم، لَا جُنَاحَ ، کی تفسیر، لَاتبعۃ سے کرکے اشارہ کردیا کہ جُناحٌ سے مراد طلق مؤاخذہ ہے نہ کہ صرف مؤاخذہ اخروی یا صرف مؤاخذہ دنیوی اول تو یہ تخصیص بلا دلیل ہے دوسرے یہ کہ اگر آخرت کا گناہ مراد لیا جائے تو اس میں نفی مہر شامل نہیں ہوسکتی یہی لفظ نفی پر بھی بالاتفاق دال ہے۔ (ترویح الارواح)
قولہ : والفرض، اس میں اس بات کی طرف اشارہ کہ اَوْتَفْرِضُوْا لَھُنَّ ، میں اَوْ ، بمعنی واؤ ہے اور طلاق دینے والے شوہر پر مہر واجب نہ ہونے کا تعلق عدم مسیس اور عدم فرض دونوں سے ہے نہ کہ ایک سے اسلئے کہ اگر مسیس پایا گیا تو پورا مہر واجب ہوگا اور اگر فرض مہر یعنی تعیین مہر پائی گئی تو نصف مہر واجب ہوگا، مہر کا عدم وجوب تو اسی صورت میں ہوگا جب کہ مسیس اور تعیین دونوں معدوم ہوں
قولہ : فَطَلِّقُوْھُنَّ ۔ سوال : مفسر علام نے فَطَلِّقُوْھُنَّ ، کس مقصد سے محذوف مانا ہے۔
جواب : اگر طَلِّقُوْھُنَّ ، کو محذوف نہ مانا جائے تو مَتِّعُوْھُنَّ کا عطف تَفْرِضُوْا، پر ہوگا، اور یہ عطف اِنْشاء عَلَی الخبر ہوگا، جو کہ مستحسن نہیں ہے اس سے بچنے کے لئے مفسر علام نے طلقوھُنَّ ، مقدر مانا ہے تاکہ عطف انشاء علی الانشاء ہوجائے۔
قولہ : یُفِیْدُ اَنَّہٗ لَانَظْرَ اِلی قدرِ الزوْجَۃِ ، علی الموسع اور علی المقتر چونکہ دونوں مذکر کے صیغے استعمال ہوئے ہیں اس لئے ان سے یہ بات مستفاد ہوتی ہے کہ متعہ میں شوہر کی حیثیت کا اعتبار ہوگا نہ کہ بیوی کی حیثیت کا یہی امام شافعی کے دو قولوں میں سے ایک ہے، امام مالک
(رح) تعالیٰ کے نزدیک یہی مفتیٰ بہ ہے۔ (صاوی)
قولہ : صفۃ مَتَاعًا، یعنی بالمعروف محذوف کے متعلق ہو کر مَتَاعًا کی صفت اول ہے، اس عبارت کا مقصد ایک سوال مقدر کا جواب ہے
سوال : مَتَاعًا، موصوف ہے اور حَقًّا، اس کی صفت ہے اور درمیان میں بالمعروف کا فصل ہے جو فصل بالاجنبی ہے۔
جواب : یہ فصل بالاجنبی نہیں ہے بلکہ بالمعروف، مَتَاعًا، کی صفت اول ہے اور حقًّا، مصدر موکِّدْ ہے جملہ سابقہ کے مضمون کے لئے اس کا عامل وجوبا محذوف ہے، ای حَقَّ ذَالِکَ حَقًّا۔
قولہ : رَیْرجعُ لکم النصف۔ سوال : مذکورہ عبارت کو مقدر ماننے کی کیا وجہ ہے ؟
جواب : اِلَّا، استدراک کے لئے ہے جیسا کہ مفسر علام نے اِلّا، کی تفسیر لکِنَّ ، سے کرکے اشارہ کردیا ہے حالانکہ ماقبل میں مستدرک منہ بننے کی صلاحیت نہیں ہے اس لئے کہ نصف کا سقوط اور اس کا عفوان کے استحقاق کی جنس سے نہیں ہے اس لئے وَیَرْجِعُ لکم النِصْفَ ، کو محذوف مانا تاکہ استدراک صحیح ہوجائے۔ قولہ : یجبُ لَھُنَّ ، اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔
سوال : فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ ، شرط کی جزاء ہے اور جملہ ناقصہ ہے حالانکہ جزاء کے لئے جملہ تامہ ہونا ضروری ہے۔
جواب : مفسر علام نے یَجِبُ لَھُنَّ ، مقدر مان کر جملہ کو تامہ کردیا تاکہ اس کا جزاء بننا درست ہوجائے۔
قولہ : یَعْفُوْنَ ، عفوٌ سے مضارع جمع مؤنث غائب، معاف کردیں وہ عورتیں۔ قولہ : یَعْفُوَ ، مضارع واحد مذکر غائب منصوب، وہ مراف کر دے۔
قولہ : عن ابن عباس (رض) ، الولی، اِذَا کانت محجورۃً ، اس عبارت کا مقصد، اَلَّذِیْ بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ ، میں اختلاف کو بیان کرنا ہے، اختلاف یہ ہے کہ ولی عفو کون ہے : شوہر یا عورت کا ولی ؟ امام ابوحنیفہ (رح) تعالیٰ اور بعض شافعیہ کا مذہب یہ ہے کہ مَنْ بیدہ عقدۃ النکاح سے مراد شوہر ہے اور ابن عباس کے نزدیک عورت کا ولی مراد ہے اگر عورت معذور یعنی نابالغ یا مجنون ہو امام ابوحنیفہ (رح) تعالیٰ کے مذہب کو ترجیح دینے کے لئے مفسر علام نے وَھُوَ الزوج فرمایا قرینہ اس کا اَقْرَبُ لِلتقویٰ ہے، اس لئے کہ عورت کے معذور ہونے کی صورت میں عورت کے ولی کا مہر کو معاف کرنا تقویٰ نہیں ہے اس لئے کہ اس میں نقصان محض ہے۔
تفسیر و تشریح
طلاق قبل الدخوال کے احکام : طلاق قبل الدخول کے مطلب یہ ہے کہ یکجائی اور خلوت صحیحہ سے پہلے ہی طلاق کی نوبت آجائے، اس کی دو صورتیں ہیں، یا تو بوقت نکاح مہر کی مقدار مقرر نہ کی گئی، یہلی صورت کا حکم ” لا جنُاحَ عَلَیکم اِنْ طلقتم النساء “ (الآیۃ) میں مذکور ہے طلاق کی مہر اور صحبت کے اعتبار سے چار صورتیں ہوسکتی ہیں، ان میں سے دو کا حکم ان آیات میں بیان کیا گیا اور دو کا بعد والی آیت میں مذکور ہے، ایک یہ کہ نہ مہر مقرر ہو نہ صحبت و خلوت ہوئی ہو، دوسری صورت یہ کہ مہر تو مقرر ہو لیکن صحبت و خلوت کی نوبت نہ آئی ہو، تیسری صورت یہ کہ مہر بھی مقرر ہو اور صحبت بھی ہوئی ہو، اس صورت میں مقررہ مہر پورا دینا ہوگا، یہ حکم قرآن مجید میں دوسری جگہ بیان کیا گیا ہے، چوتھی صورت یہ کہ مہر متعین نہ کیا ہو اور صحبت یا خلوت کے بعد طلاق دی ہو اس صورت میں مہر مثل پورا دینا ہوگا۔ مذکورہ آیت میں پہلی دو صورتوں کا حکم بیان کیا گیا ہے ان میں سے پہلی صورت کا حکم یہ ہے کہ مہر تو واجب نہیں مگر شوہر پر واجب ہے کہ اپنی طرف سے کچھ دیدے کم از کم ایک جوڑا ہی دیدے، دراصل قرآن کریم نے اس عطیہ کی کوئی مقدار معین نہیں کی البتہ یہ بتلا دیا کہ مالدار کو اپنی حیثیت کے مطابق اور غریب کو اپنی حیثیت کے مطابق دینا چاہیے جس میں اس بات کی ترغیب ہے کہ صاحب و سعت تنگی سے کام نہ لے، حضرت حسن (رض) نے ایسے ہی ایک واقعہ میں مطلقہ عورت کو بیس ہزار کا عطیہ دیا تھا، اور قاضی شریح نے پانچ سو درہم کا اور حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ ادنی یہ ہے کہ ایک جوڑا کپڑے کا دیدے۔
سبب نزول : لا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ ، کا شان نزول یہ ہے کہ ایک انصاری نے ایک عورت سے بلاتعیین مہر نکاح کیا اور قبل الدخول اس کو طلاق دیدی عورت نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں شکایت کی تو مذکورہ آیت نازل ہوئی، آپ نے فرمایا، امتعھا ولو بقلنسوتکَ ، اس کو متعہ دو اگرچہ تیری ٹوپی ہی کیوں نہ ہو۔ (حاشیہ جلالین)
فائدہ : متع یعنی ایک جوڑا جس کی قیمت پانچ درہم سے کم اور نصف مہر سے زائد نہ ہو۔ (خلاصۃ التفاسیر)
بحث : متعہ امام مالک (رح) تعالیٰ کے نزدیک مستحب ہے جیسا کہ کلمہ محسنین سے مفہوم ہوتا ہے اور امام ابوحنیفہ (رح) تعالیٰ واجب کہتے ہیں جیسا کہ کلمہ حَقًّا، سے سمجھا جاتا ہے اور محسن بمعنی مومن ہے۔
سوال : موطوءہ کو متعہ دینا مستحب ہے یہ کیسے معلوم ہوا ؟ جواب : یہ بات قرآن سے ثابت ہے کہ تحلیل فرج بغیر مال کے نہیں ہوسکتی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِکُمْ ، لہذا جب مال مذکور ہو یا نکاح مع وطی حقیقۃ یا مجازاً پائی جائے، تو مال سے مہر کہتے ہیں واجب ہوگا، اور اگر صرف نکاح پایا جائے تو اس وجہ سے کہ تحلیل فرج حقیقۃً نہیں ہوئی مہر واجب نہ ہوگا، اور اس لئے کہ صورت تحلیل ہوگئی ہے اس کے عوض کچھ مال جس کو متعہ کہا گیا ہے مقرر کیا گیا، پس متعہ کی اصل عدم مہر اور شرط عدم وطی ہے جب دونوں پائے جائیں گے تو متعہ واجب ہوگا، اور جب دونوں نہ پائے جائیں گے متعہ نہ ہوگا، جب ایک پایا جائے تو دونوں دلیلیوں پر نظر کرتے ہوئے استحباب کا حکم دیا جائے گا۔
مقدار متعہ مختلف فیہ ہے : مظہری میں ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ اعلیٰ درجہ متعہ کا یہ ہے کہ غلام دے اور ادنیٰ درجہ ایک جوڑا ہے اور امام احمد (رح) تعالیٰ و شافعی (رح) تعالیٰ کے نزدیک حاکم کی رائے اور اجتہاد پر موقوف ہے، مگر حنفیہ نے اپنے اندازے کے دو شاہد قرار دئیے ہیں۔ (١) آثار منقولہ، جیسا کہ حضرت عائشہ (رض) اور ابن عباس (رض) اور سعید سے تفسیر مظہری میں منقول ہے۔ (٢) قیاس، اس لئے کہ متعہ مہر کی فرع ہے اور مہر قبل الوطی نصف ملتا ہے اور نصف مہر پانچ درہم سے کم نہیں ہوسکتا، اور یہی ادنیٰ درجہ متعہ کا ہے اور جب مہر مذکور نہ ہو تو مہر مثل دیا جاتا ہے اور یہی اعلیٰ درجہ قرار پایا، بہرحال ادنیٰ درجہ سے کم نہ ہو، اور اعلیٰ درجہ مہر کے اعلیٰ درجہ سے زائد نہ ہو ” خیر الامور اَوْسَاطُھَا “۔
مسئلہ : قبل الوطی طلاق جائز ہے۔ مسئلہ : بغیر تعین مہر نکاح درست ہے حتیٰ کہ نفی مہر کے ساتھ بھی نکاح درست ہے مگر مہر مثل واجب ہوگا۔ مسئلہ : مہر صرف نکاح سے واجب نہیں ہوتا جب تک کہ وطی یا ذکر مہر نہ ہو، البتہ مال کی ایک مقدار واجب ہوجاتی ہے۔
مسئلہ : ادائے مال واجب ہوجاتا ہے مہر ہو یا متعہ۔ مسئلہ : حق جس پر واجب ہو اس کی حالت استطاعت معتبر نہ ہوگی، موسع اور مقتر، دونوں مذکر کے صیغہ بیان فرمائے اس سے معلوم ہوا کہ مرد کی استطاعت مراد ہے۔ (خلاصہ، شرح وقایہ)
10 Tafsir as-Saadi
یعنی اے مردو ! اگر تم اپنی بیویوں کو چھونے اور مہر مقرر کرنے سے قبل ہی طلاق دے دو، تو تم پر کوئی گناہ نہیں، اگرچہ اس میں عورتوں کے لئے نقصان ہے تاہم متعہ طلاق سے اس کی تلافی ہوجاتی ہے۔ پس تم پر لازم ہے کہ تم ان کی دل جوئی کی خاطر ان کو کچھ مال ضرور عطا کرو۔ ﴿عَلَی الْمُوْسِعِ قَدَرُہٗ وَعَلَی الْمُقْتِرِ قَدَرُہٗ ۚ ﴾” فراخ دست پر اس کی طاقت کے مطابق اور تنگ دست پر اس کی وسعت کے مطابق“ مطلقہ کو خرچ دینا لازم ہے اور اس کا مرجع عرف ہے جو کہ زمان و مکان کے اختلاف کے مطابق مختلف ہے۔ اس لئے فرمایا ﴿مَتَاعًۢا بِالْمَعْرُوْفِ ۚ﴾ ”فائدہ پہنچانا ہے معروف کے ساتھ‘،پس یہ حق واجب ہے ﴿ عَلَی الْمُحْسِـنِیْنَ﴾” نیکو کاروں پر“ اس لئے ان کو اس حق میں کمی نہیں کرنی چاہئے۔
پس جیسے وہ عورتوں کی امیدوں، ان کے اشتیاق اور ان کے دلی تعلق کا سبب بنے، لیکن پھر انہوں نے ان کو وہ چیز نہیں دی جو ان عورتوں کو مرغوب تھی، اس لئے اس کے مقابلے میں ان کو فائدہ پہنچانا ضروری ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ کتنا اچھا ہے ! اور شارع کی حکمت اور رحمت پر کس قدر دلالت کرتا ہے ! اور ایمان و ایقان سے بہرہ ور لوگوں کے لئے اللہ سے بڑھ کر کون اچھا فیصلہ کرنے والا ہے۔ یہ حکم تو ان عورتوں سے متعلق تھا جن کو چھونے سے پہلے اور حق مہر مقرر کرنے سے پہلے ہی طلاق دے دی گئی ہو۔
11 Mufti Taqi Usmani
tum per iss mein bhi koi gunah nahi hai kay tum aurton ko aesay waqt talaq do jabkay abhi tum ney unn ko chooa bhi naa ho , aur naa unn kay liye koi mehar muqarrar kiya ho , aur ( aesi soorat mein ) unn ko koi tohfa do , khushal shaks apni haisiyat kay mutabiq aur gharib aadmi apni haisiyat kay mutabiq bhalay tareeqay say yeh tohfa dey . yeh naik aadmiyon per aik lazimi haq hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
حق مہر کب اور کتنا :
عقد نکاح کے بعد دخول سے بھی طلاق کا دینا مباح ہو رہا ہے۔ مفسرین نے فرمایا ہے کہ یہاں مراد " مس " سے نکاح ہے دخول سے پہلے طلاق دے دینا بلکہ مہر کا بھی ابھی تقرر نہیں ہوا اور طلاق دے دینا بھی جائز ہے، گو اس میں عورت کے بیحد دل شکنی ہے، اسی لئے حکم ہے کہ اپنے مقدور بھر اس صورت میں مرد کو عورت کے ساتھ سلوک کرنا چاہئے۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں اس کا اعلیٰ حصہ خادم ہے اور اس سے کمی چاندی ہے اور اس سے کم کپڑا ہے یعنی اگر مالدار ہے تو غلام وغیرہ دے اور اگر مفلس ہے تو کم سے کم تین کپڑے دے۔ حضرت شعبی فرماتے ہیں درمیانہ درجہ اس فائدہ پہنچانے کا یہ ہے کہ کرتہ دوپٹہ لحاف اور چادر دے دے۔ تشریح فرماتے ہیں پانچ سو درہم دے، ابن سیرین فرماتے ہیں غلام دے یا خوراک دے یا کپڑے لتے دے، حضرت حسن بن علی نے دس ہزار دئیے تھے لیکن پھر بھی وہ بیوی صاحبہ فرماتی تھیں کہ اس محبوب مقبول کی جدائی کے مقابلہ میں یہ حقیر چیز کچھ بھی نہیں۔ امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ اگر دونوں اس فائدہ کی مقدار میں تنازعہ کریں تو اس کے خاندان کے مہر سے آدھی رقم دلوا دی جائے، حضرت امام شافعی کا فرمان ہے کہ کسی چیز پر خاوند کو مجبور نہیں کیا جاسکتا بلکہ کم سے کم جس چیز کو متعہ یعنی فائدہ اور اسباب کہا جاسکتا ہے وہ کافی ہوگا۔ میرے نزدیک اتنا کپڑا متعہ ہے جتنے میں نماز پڑھ لینی جائز ہوجائے، گو پہلا قول حضرت الامام کا یہ تھا کہ مجھے اس کا کوئی صحیح اندازہ معلوم نہیں لیکن میرے نزدیک بہتر یہ ہے کہ کم سے کم تیس درہم ہونے چاہئیں جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر سے مروی ہے، اس بارے میں بہت سے اقوال ہیں کہ ہر طلاق والی عورت کو کچھ نہ کچھ اسباب دینا چاہئے یا صرف اسی صورت کو جس سے میل ملاپ نہ ہوا ہو، بعض تو سب کیلئے کہتے ہیں کیونکہ قرآن کریم میں ہے کہ آیت (وَلِلْمُطَلَّقٰتِ مَتَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ ۭحَقًّا عَلَي الْمُتَّقِيْنَ ) 2 ۔ البقرۃ :241) پس اس آیت کے عموم سے سب کیلئے وہ ثابت کرتے ہیں۔ اس طرح ان کی دلیل یہ بھی ہے آیت (فَتَعَالَيْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَاُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا) 33 ۔ الاحزاب :28) یعنی اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی بیویوں سے کہو کہ اگر تمہاری چاہت دنیا کی زندگی اور اسی کی زینت کی ہے تو آؤ میں تمہیں کچھ اسباب بھی دوں اور تمہیں اچھائی کے ساتھ چھوڑ دوں، پس یہ تمام ازواج مطہرات وہ تھیں جن کا مہر بھی مقرر تھا اور جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بھی آچکی تھیں، سعید بن جبیر، ابو العالیہ، حسن بصری کا قول یہی ہے۔ امام شافعی کا بھی ایک قول یہی ہے اور بعض تو کہتے ہیں کہ ان کا نیا اور صحیح قول یہی ہے واللہ اعلم۔ بعض کہتے ہیں اسباب کا دینا اس طلاق والی کو ضروری ہے جس سے خلوت نہ ہوئی ہو گو مہر مقرر ہوچکا ہو کیونکہ قرآن کریم میں ہے آیت (يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْهُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّوْنَهَا ۚ فَمَتِّعُوْهُنَّ وَسَرِّحُوْهُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا) 33 ۔ الاحزاب :49) یعنی اے ایمان والو تم جب ایمان والی عورت سے نکاح کرلو پھر انہیں ہاتھ لگانے سے پہلے ہی طلاق دے دو تو ان پر تمہاری طرف سے کوئی عدت نہیں جو عدت وہ گزاریں تم انہیں کچھ مال اسباب دے دو اور حسن کردار سے چھوڑ دو ، سعید بن مسیب کا قول ہے کہ سورة احزاب کی یہ آیت سورة بقرہ کی آیت سے منسوخ ہوچکی ہے۔ حضرت سہل بن سعد اور ابو اسید فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت امیہ بنت شرجبیل سے نکاح کیا جب وہ رخصت ہو کر آئیں اور آپ نے اپنا ہاتھ بڑھایا تو گویا اس نے برا مانا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابو اسید سے فرمایا اسے دو رنگین کپڑے دے کر رخصت کرو، تیسرا قول یہ ہے کہ صرف اسی صورت میں بطور فائدہ کے اسباب و متاع کا دینا ضروری ہے جبکہ عورت کی وداع نہ ہوئی ہو اور مہر بھی مقرر نہ ہوا ہو اور اگر دخول ہوگیا ہو تو مہر مثل یعنی خاندان کے دستور کے مطابق دینا پڑے گا اگر مقرر نہ ہوا ہو اور اگر مقرر ہوچکا ہو اور رخصت سے پہلے طلاق دے دے تو آدھا مہر دینا پڑے گا اور اگر رخصتی بھی ہوچکی ہے تو پورا مہر دینا پڑے گا اور یہی متعہ کا عوض ہوگا۔ ہاں اس مصیبت زدہ عورت کیلئے متعہ ہے جس سے نہ ملاپ ہوا نہ مہر مقرر ہوا اور طلاق مل گئی۔ حضرت ابن عمر اور مجاہد کا یہی قول ہے، گو بعض علماء اسی کو مستحب بتلاتے ہیں کہ ہر طلاق والی عورت کو کچھ نہ کچھ دے دینا چاہئے ان کے سوا جو مہر مقرر کئے ہوئے نہ ہوں اور نہ خاوند بیوی کا میل ہوا ہو، یہی مطلب سورة احزاب کی اس آیت تخیر کا ہے جو اس سے پہلے اسی آیت کی تفسیر میں بیان ہوچکی ہے اور اسی لئے یہاں اس خاص صورت کیلئے فرمایا گیا ہے کہ امیر اپنی وسعت کے مطابق دیں اور غریب اپنی طاقت کے مطابق۔ حضرت شعبی سے سوال ہوتا ہے کہ یہ اسباب نہ دینے والا کیا گرفتار کیا جائے گا ؟ تو آپ فرماتے ہیں اپنی طاقت کے برابر دے دے، اللہ کی قسم اس بارے میں کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا اگر یہ واجب ہوتا تو قاضی لوگ ضرور ایسے شخص کو قید کرلیتے۔