پھر اگر تم حالتِ خوف میں ہو تو پیادہ یا سوار (جیسے بھی ہو نماز پڑھ لیا کرو)، پھر جب تم حالتِ امن میں آجاؤ تو انہی طریقوں پر اﷲ کی یاد کرو جو اس نے تمہیں سکھائے ہیں جنہیں تم (پہلے) نہیں جانتے تھے،
English Sahih:
And if you fear [an enemy, then pray] on foot or riding. But when you are secure, then remember Allah [in prayer], as He has taught you that which you did not [previously] know.
1 Abul A'ala Maududi
بدامنی کی حالت ہو، تو خواہ پیدل ہو، خواہ سوار، جس طرح ممکن ہو، نماز پڑھو اور جب امن میسر آجائے، تو اللہ کو اُس طریقے سے یاد کرو، جو اُس نے تمہیں سکھا دیا ہے، جس سے تم پہلے نا واقف تھے
2 Ahmed Raza Khan
پھر اگر خوف میں ہو تو پیادہ یا سوار جیسے بن پڑے پھر جب اطمینان سے ہو تو اللہ کی یاد کرو جیسا اس نے سکھایا جو تم نہ جانتے تھے،
3 Ahmed Ali
پھر اگر تمہیں خوف ہو تو پیادہ یا سوار ہی (پڑھ لیا کرو) پھر جب امن پاؤ تو الله کو یادکیا کرو جیسا اس نے تمہیں سکھایا ہے جو تم نہ جانتے تھے
4 Ahsanul Bayan
اگر تمہیں خوف ہو تو پیدل ہی سہی یا سواری سہی، ہاں جب امن ہو جائے تو اللہ کا ذکر کرو جس طرح کے اس نے تمہیں اس بات کی تعلیم دی جسے تم نہیں جانتے تھے (١)۔
٢٣٩۔١ یعنی دشمن سے خوف کے وقت جس طرح بھی ممکن ہو پیادہ چلتے ہوئے، سواری پر بیٹھے ہوئے نماز پڑھ لو۔ تاہم جب خوف کی حالت ختم ہو جائے تو اسی طرح نماز پڑھو جس طرح سکھلایا گیا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اگر تم خوف کی حالت میں ہو تو پیادے یا سوار (جس حال میں ہو نماز پڑھ لو) پھر جب امن (واطمینان) ہوجائے تو جس طریق سے خدا نے تم کو سکھایا ہے جو تم پہلے نہیں جانتے تھے خدا کو یاد کرو
6 Muhammad Junagarhi
اگر تمہیں خوف ہو تو پیدل ہی سہی یا سوار ہی سہی، ہاں جب امن ہوجائے تو اللہ کا ذکر کرو جس طرح کہ اس نے تمہیں اس بات کی تعلیم دی جسے تم نہیں جانتے تھے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور اگر تم خوف (کی حالت) میں ہو تو پھر پیدل ہو یا سوار (جس طرح بھی ممکن ہو نمازپڑھ لو) پھر جب تمہیں امن و اطمینان ہو جائے تو خدا کو اس طرح یاد کرو جس طرح اس نے تمہیں سکھا دیا ہے جو تم نہیں جانتے تھے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
پھر اگر خوف کی حالت ہو تو پیدل ًسوار جس طرح ممکن ہو نماز اداکرو اور جب اطمینان ہوجائے تو اس طرح ذکر خدا کرو جس طرح اس نے تمہاری لاعلمی میں تمہیں بتایا ہے
9 Tafsir Jalalayn
اگر تم خوف کی حالت میں ہو تو پیادے یا سوار (جس حال میں ہو نماز پڑھ لو) پھر جب امن (و اطمینان) ہوجائے تو جس طریق سے خدا نے تم کو سکھا دیا ہے جو تم پہلے نہیں جانتے تھے خدا کو یاد کرو
10 Tafsir as-Saadi
پھر فرمایا ﴿ فَاِنْ خِفْتُمْ﴾” اگر تمہیں خوف ہو۔“ خوف والی چیز کا ذکر نہیں فرمایا، تاکہ اس میں کافر سے، ظالم سے اور درندے سے خوف اور دوسرے تمام اقسام کے خوف شامل ہوجائیں۔ یعنی ان حالات میں نماز پڑھتے ہوئے اگر تم خوف محسوس کرو تو ﴿ فَرِجَالًا ﴾” پیدل ہی“ یعنی چلتے چلتے نماز پڑھ لو، یا گھوڑوں او نٹوں وغیرہ پر ﴿ اَوْ رُکْبَانًا ۚ﴾ ” سوار ہو کر ہی سہی“ اس طرح نماز پڑھنے سے یہ لازم آتا ہے کہ کبھی ان کا رخ قبلہ کی طرف ہو اور کبھی نہ ہو۔ اس سے بروقت نماز پڑھنے کی مزید تاکید ظاہر ہوتی ہے کہ بہت سے ارکان اور بہت سی شروط میں خلل پڑ جانے کے باوجود نماز وقت پر پڑھو۔ اس نازک وقت میں بھی نماز میں تاخیر کرنا جائز نہیں۔ ان حالات میں اس طریقے سے نماز پڑھنا افضل ہے، بلکہ تاخیر کر کے اطمینان کے ساتھ نماز پڑھنے سے اس طریقے سے وقت پر نماز پڑھ لینا زیادہ ضروری ہے۔ ﴿ فَاِذَآ اَمِنْتُمْ﴾ ”پھر جب تم امن میں آجاؤ۔‘،یعنی خوف ختم ہوجائے ﴿ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ﴾ ” تو اللہ کا ذکر کرو۔“ اس میں ذکر کی ہر قسم شامل ہے اور کامل نماز پڑھنا بھی اس ذکر کی ایک صورت ہے۔ ﴿کَمَا عَلَّمَکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ﴾” جس طرح اس نے تمہیں اس بات کی تعلیم دی جسے تم نہیں جانتے تھے۔“ اس لئے کہ یہ ایک عظیم نعمت ہے، جس کے عوض ذکر اور شکر کرنا چاہئے، تاکہ تم پر اس کی نعمت باقی رہے اور اس میں اضافہ ہو۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur agar tumhen ( dushman ka ) khof laahaq ho to kharray kharray ya sawar honey ki halat hi mein ( namaz parh lo ) phir jab tum aman ki halat mein aajao to Allah ka ziker uss tareeqay say kero jo uss ney tumhen sikhaya hai jiss say tum pehlay na-waqif thay
12 Tafsir Ibn Kathir
مسند احمد وغیرہ میں ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے لوگ ضروری بات چیت بھی نماز میں کرلیا کرتے تھے، جب یہ آیت اتری تو چپ رہنے کا حکم دے دیا گیا، لیکن اس حدیث میں ایک اشکال یہ ہے کہ علماء کرام کی ایک جماعت کے نزدیک نماز میں بات چیت کرنے کی حرمت حبشہ کی ہجرت کے بعد اور مدینہ شریف کی ہجرت سے پہلے ہی مکہ شریف میں نازل ہوچکی تھی چناچہ صحیح مسلم میں ہے حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ حبشہ کی ہجرت سے پہلے ہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سلام کرتے تھے آپ نما میں ہوتے پھر بھی جواب دیتے، جب حبشہ سے ہم واپس آئے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو میں نے آپ کی نماز کی حالت میں ہی سلام کیا آپ نے جواب نہ دیا، اب میرے رنج و غم کا کچھ نہ پوچھئے نماز سے فارغ ہو کر آپ نے مجھے فرمایا عبداللہ اور کوئی بات نہیں میں نماز میں تھا اس وجہ سے میں نے جواب نہ دیا، اللہ جو چاہے نیا حکم اتارے، اس نے یہ نیا حکم نازل فرمایا ہے کہ نماز میں نہ بولا کرو، پس یہ واقعہ ہجرت مدینہ سے پہلے کا ہے اور یہ آیت مدینہ میں نازل ہوئی ہے، اب بعض تو کہتے ہیں کہ زید بن ارقم کے قول کا مطلب جنس کلام سے ہے اور اس کی حرمت پر اس آیت سے استدلال بھی خود ان کا فہم ہے واللہ اعلم، بعض کہتے ہیں ممکن ہے دو دفعہ حلال ہوا ہو اور دو دفعہ ممانعت ہوئی ہو لیکن پہلا قول زیادہ ظاہر ہے، حضرت ابن مسعود والی روایت جو ابو یعلی میں ہے اس میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جواب نہ دینے سے مجھے یہ خوف ہوا کہ شاید میرے بارے میں کوئی وحی نازل ہوئی ہے۔ آپ نے مجھ سے فارغ ہو کر حدیث (وعلیک اسلام ایھا المسلم و رحمتہ اللہ) نماز میں جب تم ہو تو خاموش رہا کرو، چونکہ نمازوں کی پوری حفاظت کرنے کا فرمان صادر ہوچکا تھا اس لئے اب اس حالت کو بیان فرمایا جاتا جس میں تمام ادب و آداب کی پوری رعایت عموماً نہیں رہ سکتی، یعنی میدان جنگ میں جبکہ دشمن سر پر ہو تو فرمایا کہ جس طرح ممکن ہو سوار پیدل قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرلیا کرو، ابن عمر اس آیت کا یہی مطلب بیان کرتے ہیں بلکہ نافع فرماتے ہیں میں تو جانتا ہوں یہ مرفوع ہے، مسلم شریف میں ہے سخت خوف کے وقت اشارے سے ہی نماز پڑھ لیا کرو، گو سواری پر سوار ہو، عبداللہ بن انیس کو جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خالد بن سفیان کے قتل کیلئے بھیجا تھا تو آپ نے اسی طرح نماز عصر اشارے سے ادا کی تھی (ابو داؤد) بپس اس میں جناب باری نے اپنے بندوں پر بہت آسانی کردی اور بوجھ کو ہلکا کردیا، صلوۃ خوف ایک رکعت پڑھنی بھی آئی ہے۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی حضر کی حالت میں چار رکعتیں فرض کی ہیں اور سفر کی حالت میں اور دو اور خوف کی حالت میں ایک (مسلم) امام احمد فرماتے ہیں یہ اس وقت ہے جب بہت زیادہ خوف ہو، جابر بن عبداللہ اور بہت سے اور بزرگ صلوۃ خوف ایک رکعت بتاتے ہیں، امام بخاری نے صحیح بخاری میں باب باندھا ہے کہ فتوحات قلعہ کے موقع پر اور دشمن کے مڈبھیڑ کے موقع پر نماز ادا کرنا اوزاعی فرماتے ہیں اگر فتح قریب آگئی ہو اور نماز پڑھنے پر قدرت نہ ہو تو ہر شخص اپنے طور پر اشارے سے نماز پڑھ لے، اگر اتنا وقت بھی نہ ملے تو تاخیر کریں یہاں تک کہ لڑائی ختم ہوجائے اور چین نصیب ہو تو دو رکعتیں ادا کرلیں ورنہ ایک رکعت کافی ہے لیکن صرف تکبیر کہہ لینا کافی نہیں بلکہ تاخیر کردیں یہاں تک کہ امن ملے، مکحول بھی یہی کہتے ہیں حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ تستر قلعہ کی لڑائی میں میں بھی فوج میں تھا، صبح صادق کے وقت گھمسان کی لڑائی ہو رہی تھی، ہمیں وقت ہی نہ ملا کہ نماز ادا کرتے، خوب دن چڑھے اس دن ہم نے صبح کی نماز پڑھی، اگر نماز کیلئے بدلے میں مجھے دنیا اور جو کچھ اس میں ہے مل جائے تاہم میں خوش نہیں ہوں، بعد ازاں حضرت امام المحدثین نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے جس میں ہے کہ جنگ خندق میں سورج غروب ہوجانے تک آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عصر کی نماز نہ پڑھ سکے، پھر دوسری حدیث میں ہے کہ آپ نے جب اپنے صحابہ کو بنی قریظہ کی طرف بھیجا تو ان سے فرما دیا تھا کہ تم میں سے کوئی بھی بنی قریظہ سے درے نماز عصر نہ پڑھے، اب جبکہ نماز عصر کا وقت آگیا تو بعض نے تو وہیں پڑھی یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا، وہیں جا کر نماز پڑھی، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب اس کا علم ہوا تو آپ نے انہیں نہ ڈانٹا۔ پس اس سے حضرت امام بخاری یہ مسئلہ ثابت کرتے ہیں گو جمہور اس کے مخالف ہیں وہ کہتے ہیں سورة نساء میں جو نماز خوف کا حکم ہے اور جس نماز کی مشروعیت اور طریقہ احادیث میں وارد ہوا ہے وہ جنگ خندق کے بعد کا ہے جیسا کہ ابو سعید وغیرہ کی روایت میں صراحتاً بیان ہے، لیکن امام بخاری امام مکحول اور امام اوزاعی رحمھم اللہ کا جواب یہ ہے کہ اس کی مشروعیت بعد میں ہونا اس جواز کیخلاف نہیں، ہوسکتا ہے کہ یہ بھی جائز ہو اور وہ بھی طریقہ ہو، کیونکہ ایسی حالت میں شاذو نادر کبھی ہی ہوتی ہے اور خود صحابہ نے حضرت فاروق اعظم کے زمانے میں فتح تستر میں اس پر عمل کیا اور کسی نے انکار نہیں کیا واللہ اعلم، پھر فرمان ہے کہ امن کی حالت میں بجاآوری کا پورا خیال رکھو، جس طرح میں نے تمہیں ایمان کی راہ دکھائی اور جہل کے بعد علم دیا تو تمہیں بھی چاہئے کہ اس کے شکریہ میں ذکر اللہ باطمینان کیا کرو، جیسا کہ نماز خوف کا بیان کر کے فرمایا جب اطمینان ہوجائے تو نمازوں کو اچھی طرح قائم کرو، نماز مومنوں پر وقت مقررہ پر فرض ہے، صلوۃ خوف کا پورا بیان سورة نساء کی آیت واذا (کنت فیھم) کی تفسیر میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔