پھرجب طالوت اپنے لشکروں کو لے کر شہر سے نکلا، تو اس نے کہا: بیشک اﷲ تمہیں ایک نہر کے ذریعے آزمانے والا ہے، پس جس نے اس میں سے پانی پیا سو وہ میرے (ساتھیوں میں) سے نہیں ہوگا، اور جو اس کو نہیں پئے گا پس وہی میری (جماعت) سے ہوگا مگر جو شخص ایک چُلّو (کی حد تک) اپنے ہاتھ سے پی لے (اس پر کوئی حرج نہیں)، سو ان میں سے چند لوگوں کے سوا باقی سب نے اس سے پانی پی لیا، پس جب طالوت اور ان کے ایمان والے ساتھی نہر کے پار چلے گئے، تو کہنے لگے: آج ہم میں جالوت اور اس کی فوجوں سے مقابلے کی طاقت نہیں، جو لوگ یہ یقین رکھتے تھے کہ وہ (شہید ہو کر یا مرنے کے بعد) اﷲ سے ملاقات کا شرف پانے والے ہیں، کہنے لگے: کئی مرتبہ اﷲ کے حکم سے تھوڑی سی جماعت (خاصی) بڑی جماعت پر غالب آجاتی ہے، اور اﷲ صبر کرنے والوں کو اپنی معیّت سے نوازتا ہے،
English Sahih:
And when Saul went forth with the soldiers, he said, "Indeed, Allah will be testing you with a river. So whoever drinks from it is not of me, and whoever does not taste it is indeed of me, excepting one who takes [from it] in the hollow of his hand." But they drank from it, except a [very] few of them. Then when he had crossed it along with those who believed with him, they said, "There is no power for us today against Goliath and his soldiers." But those who were certain that they would meet Allah said, "How many a small company has overcome a large company by permission of Allah. And Allah is with the patient."
1 Abul A'ala Maududi
پھر جب طالوت لشکر لے کر چلا، تو اُس نے کہا: "ایک دریا پر اللہ کی طرف سے تمہاری آزمائش ہونے والی ہے جواس کا پانی پیے گا، وہ میرا ساتھی نہیں میرا ساتھی صرف وہ ہے جو اس سے پیاس نہ بجھائے، ہاں ایک آدھ چلو کوئی پی لے، تو پی لے" مگر ایک گروہ قلیل کے سوا وہ سب اس دریا سے سیراب ہوئے پھر جب طالوت اور اس کے ساتھی مسلمان دریا پار کر کے آگے بڑھے، تو اُنہوں نے طالوت سے کہہ دیا کہ آج ہم میں جالوت اور اس کے لشکروں کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہے لیکن جو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ انہیں ایک دن اللہ سے ملنا ہے، انہوں نے کہا: "بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ اللہ کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیا ہے اللہ صبر کرنے والوں کا ساتھی ہے"
2 Ahmed Raza Khan
پھر جب طالوت لشکروں کو لے کر شہر سے جدا ہوا بولا بیشک اللہ تمہیں ایک نہر سے آزمانے والا ہے تو جو اس کا پانی پئے وہ میرا نہیں اور جو نہ پیئے وہ میرا ہے مگر وہ جو ایک چلُو اپنے ہاتھ سے لے لے تو سب نے اس سے پیا مگر تھوڑوں نے پھر جب طالوت اور اس کے ساتھ کے مسلمان نہر کے پار گئے بولے ہم میں آج طاقت نہیں جالوت اور اس کے لشکروں کی بولے وہ جنہیں اللہ سے ملنے کا یقین تھا کہ بارہا کم جماعت غالب آئی ہے زیادہ گروہ پر اللہ کے حکم سے، اور اللہ صابروں کے ساتھ ہے
3 Ahmed Ali
پھر جب طالوت فوجیں لے کر نکلا کہا بے شک الله ایک نہر سے تمہاری آزمائش کرنے والا ہے جس نے اس نہر کا پانی پیا تو وہ میرا نہیں ہے اور جس نے اسے نہ چکھا تو وہ بےشک میرا ہے مگر جو کوئی اپنے ہاتھ سے ایک چلو بھر لے (تو اسے معاف ہے) پھر ان میں سے سوائے چند آدمیوں کے سب نے اس کا پانی پی لیا پھر جب طالوت اور ایمان والے ا س کے ساتھ پار ہوئے تو کہنے لگے آج ہمیں جالوت اور اس کے لشکروں سے لڑنے کی طاقت نہیں جن لوگو ں کو خیال تھا کہ انہیں الله سے ملنا ہے وہ کہنے لگے بار ہا بڑی جماعت پر چھوٹی جماعت الله کے حکم سے غالب ہوئی ہے اور الله صبر کرنے والو ں کے ساتھ ہے
4 Ahsanul Bayan
جب حضرت طالوت لشکروں کو لے کر نکلے تو کہا سنو اللہ تعالٰی نے تمہیں ایک نہر (١) سے آزمانے والا ہے، جس نے اس میں سے پانی پی لیا وہ میرا نہیں اور جو اسے نہ چکھے وہ میرا ہے، ہاں یہ اور بات ہے کہ اپنے ہاتھ سے ایک چلو بھر لے۔ لیکن سوائے چند کے باقی سب نے وہ پانی پی لیا (٢) (حضرت طالوت مومنین سمیت جب نہر سے گزر گئے تو وہ لوگ کہنے لگے آج تو ہم میں طاقت نہیں کہ جالوت اور اس کے لشکروں سے لڑیں (٣) لیکن اللہ تعالٰی کی ملاقات پر یقین رکھنے والوں نے کہا بسا اوقات چھوٹی اور تھوڑی سی جماعتیں بڑی اور بہت سی جماعتوں پر اللہ کے حکم سے غلبہ پا لیتی ہیں، اللہ تعالٰی صبر والوں کے ساتھ ہے۔
٢٤٩۔١ یہ نہر اردن اور فلسطین کے درمیان ہے (ابن کثیر) ٢٤٩۔٢ اطاعت امیر ہر حال میں ضروری ہے تاہم دشمن سے معرکہ آرائی کے وقت تو اس کی اہمیت دو چند بلکہ صد چند ہو جاتی ہے دوسرے جنگ میں کامیابی کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ فوجی اس دوران بھوک پیاس اور دیگر تکلیفات کو نہایت حوصلے سے برداشت کرے۔ چنانچہ ان دونوں باتوں کی تربیت اور امتحان کے لئے طالوت نے کہا کہ نہر پر تمہاری پہلی آزمائش ہوگی لیکن تنبیہ کے باوجود اکثریت نے پانی پی لیا۔ اس طرح نہ پینے والوں کی تعداد ٣١٣ بتائی گئی ہے جو اصحاب بدر کی تعداد ہے۔ واللہ عالم۔ ٢٤٩۔٣ ان اہل ایمان نے بھی ابتداء جب دشمن کی بڑی تعداد دیکھی تو اپنی قلیل تعداد کے پیش نظر اس رائے کا اظہار کیا جس پر ان کے علماء جو ان سے زیادہ پختہ یقین رکھنے والے تھے انہوں نے کہا کہ کامیابی تعداد کی کثرت اور اسلحہ کی فروانی پر منحصر نہیں بلکہ اللہ کی مشعیت اور اس کے اذن پر موقوف ہے اور اللہ کی تائید کے لئے صبر کا اہتمام ضروری ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
غرض جب طالوت فوجیں لے کر روانہ ہوا تو اس نے (ان سے) کہا کہ خدا ایک نہر سے تمہاری آزمائش کرنے والا ہے۔ جو شخص اس میں سے پانی پی لے گا (اس کی نسبت تصور کیا جائے گا کہ) وہ میرا نہیں۔ اور جو نہ پئے گا وہ (سمجھا جائے گا کہ) میرا ہے۔ ہاں اگر کوئی ہاتھ سے چلو بھر پانی پی لے (تو خیر۔ جب وہ لوگ نہر پر پہنچے) تو چند شخصوں کے سوا سب نے پانی پی لیا۔ پھر جب طالوت اور مومن لوگ جو اس کے ساتھ تھے نہر کے پار ہوگئے۔ تو کہنے لگے کہ آج ہم میں جالوت اور اس کے لشکر سے مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں۔ جو لوگ یقین رکھتے تھے کہ ان کو خدا کے روبرو حاضر ہونا ہے وہ کہنے لگے کہ بسااوقات تھوڑی سی جماعت نے خدا کے حکم سے بڑی جماعت پر فتح حاصل کی ہے اور خدا استقلال رکھنے والوں کے ساتھ ہے
6 Muhammad Junagarhi
جب (حضرت) طالوت لشکروں کو لے کر نکلے تو کہا سنو اللہ تعالیٰ تمہیں ایک نہر سے آزمانے واﻻہے، جس نے اس میں سے پانی پی لیا وه میرا نہیں اور جو اسے نہ چکھے وه میرا ہے، ہاں یہ اور بات ہے کہ اپنے ہاتھ سے ایک چلو بھرلے۔ لیکن سوائے چند کے باقی سب نے وه پانی پی لیا (حضرت) طالوت مومنین سمیت جب نہر سے گزر گئے تو وه لوگ کہنے لگے آج تو ہم میں طاقت نہیں کہ جالوت اور اس کے لشکروں سے لڑیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی ملاقات پر یقین رکھنے والوں نے کہا، بسا اوقات چھوٹی اور تھوڑی سی جماعتیں بڑی اور بہت سی جماعتوں پر اللہ کے حکم سے غلبہ پالیتی ہیں، اللہ تعالیٰ صبر والوں کے ساتھ ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اب جو طالوت فوجیں لے کر چلے تو (اپنے ہمراہیوں سے) کہا کہ خدا ایک نہر کے ساتھ تمہاری آزمائش کرنے والا ہے (دیکھو) جو شخص اس سے پانی پی لے گا اس کا مجھ سے کوئی واسطہ نہ ہوگا اور جو اسے چکھے گا بھی نہیں اس کا مجھ سے تعلق ہوگا۔ مگر یہ کہ اپنے ہاتھ سے ایک چُلو بھر لے۔ (انجام کار وقت آنے پر) تھوڑے لوگوں کے سوا باقی سب نے اس (نہر) سے پانی پی لیا۔ پس جب وہ اور ان کے ساتھ ایمان لانے والے آگے بڑھے (نہر پار کی) تو (پانی پینے والے) کہنے لگے کہ آج ہم میں جالوت اور اس کی افواج سے لڑنے کی طاقت نہیں ہے (مگر) جن لوگوں کو خدا کو منہ دکھانے کا یقین تھا کہنے لگے خدا کے حکم سے کئی چھوٹی جماعتیں بڑی جماعتوں پر غالب آجاتی ہیں اور خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اس کے بعد جب طالوت علیھ السّلام لشکر لے کرچلے تو انہوں نے کہا کہ اب خدا ایک نہر کے ذریعہ تمہارا امتحان لینے والا ہے جو اس میں سے پی لے گا وہ مجھ سے نہ ہوگا اور جو نہ چکھے گا وہ مجھ سے ہوگا مگر یہ کہ ایک چلّو پانی لے لے. نتیجہ یہ ہوا کہ سب نے پانی پی لیا سوائے چند افراد کے---- پھر جب وہ صاحبانِ ایمان کو لے کر آگے بڑھے لوگوں نے کہا کہ آج تو جالوت اور اس کے لشکروں کے مقابلہ کی ہمت نہیں ہے اور ایک جماعت نے جسے خدا سے ملاقات کرنے کا خیال تھا کہا کہ اکثر چھوٹے چھوٹے گروہ بڑی بڑی جماعتوں پر حکم خدا سے غالب آجاتے ہیں اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے
9 Tafsir Jalalayn
غرض جب طالوت فوجیں لے کر روانہ ہوا تو اس نے (ان سے) کہا کہ خدا ایک نہر سے تمہاری آزمائش کرنے والا ہے جو شخص اس میں سے پانی پی لے گا (اس کی نسبت تصور کیا جائیگا کہ) وہ میرا نہیں اور جو نہ پئے گا وہ (سمجھا جائیگا) میرا ہے ہاں اگر کوئی ہاتھ سے چلّو بھر پانی لے لے (تو خیر جب وہ لوگ نہر پر پہنچے) تو چند شخصوں کے سوا سب نے پانی پی لیا پھر جب طالوت اور مومن لوگ جو اس کے ساتھ تھے نہر کے پار ہوگئے تو کہنے لگے کہ آج ہم میں جالوت اور اس کے لشکر سے مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں جو لوگ یقین رکھتے تھے کہ خدا کے روبرو حاضر ہونا ہے وہ کہنے لگے کہ بسا اوقات تھوڑی سی جماعت نے خدا کے حکم سے بڑی جماعت پر فتح حاصل کی ہے اور خدا استقلال رکھنے والوں کے ساتھ ہے آیت نمبر ٢٤٩ تا ٢٥٢ ترجمہ : جب حضرت طالوت بیت المقدس سے لشکر لے کر نکلے تو اس وقت شدید گرمی تھی لشکریوں نے طالوت سے پانی کا مطالبہ کیا، تو حضرت طالوت نے فرمایا اللہ تعالیٰ تم کو ایک نہر کے ذریعہ آزمائے گا تاکہ تم میں سے فرمانبردار اور نافرمان ممتاز ہوجائیں، اور یہ نہر اردن اور فلسطین کے درمیان واقع ہے، جس نے اس میں سے پانی پی لیا تو وہ میری اتباع کرنے والوں میں سے نہیں ہے، اور جو اسے نہ چکھے وہ میرا ہے اِلاَّ یہ کہ اپنے ہاتھ سے ایک آدھ چلو بھرلے، غُرْفۃ فتحہ اور ضمہ کے ساتھ ہے، یعنی جس نے ایک چلو پر اکتفاء کیا، اور اس سے زیادہ نہ پیا تو وہ میرے متبعین میں سے ہے، جب نہر پر پہنچے تو خوب سیراب ہو کر پانی پیا، مگر بہت کم لوگ تھے کہ جنہوں نے ایک چلو ہر اکتفاء کیا اور روایت کیا گیا ہے کہ ان کی اور ان کے جانوروں (گھوڑوں) کی سیرابی کے لئے ایک ہی چلو کافی ہوگیا، اور ان کی تعداد تین سو دس سے کچھ زیادہ تھی، چناچہ جب حضرت طالوت اور ان کے ساتھی مومنین دریا عبور کر گئے اور یہ وہی تھے جنہوں نے ایک چلو پر اکتفاء کیا تھا تو جن لوگوں نے خوب سیراب ہو کر پیا تھا کہنے لگے کہ آج تو ہم میں جالوت اور اس کے لشکر سے مقابلہ کی طاقت نہیں، یعنی ان سے قتال کرنے کی، اور بزدلی دکھا گئے اور نہر کو بھی پار نہیں کیا، اور ان لوگوں نے جو لوگ مرنے کے بعد اللہ سے ملنے پر یقین رکھتے تھے انہوں نے کہا اور یہ وہی لوگ تھے جو نہر کو پار کر گئے تھے کہ بارہا ایسا ہوا ہے، کَمْ ، خبر یہ کثرت کے معنی میں ہے کہ ایک قلیل جماعت اللہ کی مشیت سے ایک بڑی جماعت پر غالب آگئی اور اللہ تعالیٰ اپنی نصرت اور مدد کے ذریعہ صابرین کا ساتھی ہے اور جب ان کا جالوت اور اس کے لشکریوں سے مقابلہ ہوا یعنی ان سے قتال کرنے کے لئے مقابل ہوئے اور صفت بندی کی گئی تو انہوں نے دعاء مانگی اے ہمارے پروردگار تو ہمیں صبر اور ثابت قدمی عطا فرما جہاد پر ہمارے قلوب کو تقویت دے کر، اور کافر قوم پر ہم کو غلبہ عطا فرما چناچہ ان لوگوں نے اللہ کی مشیت سے جالوتیوں کو شکست دیدی، یعنی ان کو توڑ کر رکھا دیا، اور داؤد (علیہ السلام) نے جو کہ حضرت طالوت کے لشکر میں شریک تھے، جالوت کو قتل کردیا اور اللہ تعالیٰ نے داؤد (علیہ السلام) کو شمویل اور طالوت کے انتقال کے بعد بادشاہت عطا فرمائی اور حکمت نبوت (عطا فرمائی) اور داؤد (علیہ السلام) سے پہلے کسی میں بادشاہت اور نبوت جمع نہیں ہوئیں، اور جو کچھ چاہا علم بھی عطا کیا مثلاً زرہ سازی کی صنعت اور پرندوں کی بولی سمجھنا، اگر اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کو بوض کے ذریعہ دفع نہ کرتا، بعضھم، من الناس سے بدل البعض ہے تو مشرکین کے غلبہ سے مسلمانوں کو قتل کر کے اور مساجد کو ویران کرکے زمین میں فساد برپا ہوجاتا لیکن اللہ تعالیٰ دنیا والوں پر بڑا فضل والا ہے کہ بعض کو بعض کے ذریعہ دفع کرتا ہے یہ اللہ کی آیتیں ہیں جن کو ہم اے محمد آپ کو صحیح صحیح سنا رہے ہیں، بالیقین آپ رسولوں میں سے ہیں اِنَّ وغیرہ کے ذریعہ تاکید، کافروں کے اس قول کو رد کرنے کے لئے ہے کہ : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رسول نہیں ہیں۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : فَصَلَ ، ای اِنْفَصَلَ ، لازم ہے فَصَلَ کا مفعول چونکہ اکثر محذوف رہتا ہے اس لئے بمنزلہ لازم ہوگیا یہی وجہ ہے کہ اس کے مفعول (بالجنود) پر باء داخل ہے اور اگر متعدی مانا جائے تو اس کا مفعول محذوف ماننا ہوگا، ای فَصَلَ العَسْکَر عن البلد فصولا۔ قولہ : طالوت، بنی اسرائیل کے ایک بااقبال اور صالح بادشاہ کا نام ہے، علم اور عجمہ کی وجہ سے غیر منصرف ہے۔ قولہ : غرفۃ، غین کے ساتھ بمعنی معروف، ایک چلو پانی اور غین کے فتحہ کے ساتھ مصدر برائے مرّۃ ہے۔ قولہ : ای مِن مائہٖ ، یہ حذف مضاف کی طرف اشارہ ہے اس لئے کہ نفس نہر کے پینے کا امکان نہیں ہے۔ قولہ : لَمّا وافوہ، من الموافات، ای رسیدن۔ قولہ : بکثرۃٍ ۔ سوال : بکثرۃ مقدر ماننے کی کیا ضرورت پیش آئی۔ جواب : اگر بکثرۃ، کو محذوف نہ مانیں تو اِلَّا قلیلاً منہُ کا مستثنیٰ درست نہ ہوگا، اس لئے کہ پینے والوں میں قلیل بھی شامل ہیں۔ تفسیر و تشریح فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوْتُ بِالْجُنُوْدِ ، قوم بنی اسرائیل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے کچھ دن بعد تک تو ٹھیک رہی اس کے بعد احکام شکنی اور تورات کی خلاف ورزی شروع کردی یہاں تک کہ بعض نے ان میں سے بت پرستی بھی شروع کردی تو اللہ تعالیٰ نے ان پر ایک ظالم و جابر قوم عمالقہ کو مسلط کردیا جو ان کا تابوت سکینہ بھی لے کر چلا گیا، اس وقت بنی اسرائیل کو اصلاح کی فکر ہوئی تو اپنے زمانہ کے نبی سے جن کا نام شمویل تھا درخواست کی کہ آپ ہمارے لئے ایک بادشاہ مقرر فرما دیں ہم اس کی سر کردگی میں جہاد کریں گے، چناچہ حضرت شمویل نے اللہ تعالیٰ سے دعاء کی اللہ تعالیٰ نے دعاء کو شرف قبولیت بخشا اور حضرت طالوت کو ان کا بادشاہ مقرر کرنے کا حکم فرمایا، چناچہ حجرت طالوت کی سرکودگی میں جہاد کی تیاری شروع ہوئی۔ اس زمانہ میں فلسطین کا سربراہ جالوت نام کا ایک شخص تھا یہ شخص بڑا بہادر اور تن و توش کا مالک تھا اس کے ساتھ تقریباً ایک لاکھ لشکر جرار تھا اور ہر قسم کے ہتھیاروں سے مسلح تھا، ایسی صورت میں طالوت نے چاہا کہ اپنی قوت کی آزمائش کرلی جائے تاکہ کم ہمت اور وہ لوگ جو جفاکش نہ ہوں ان کو الگ کردیا جائے چناچہ جس رخ پر اسرائیلیوں کو جانا تھا راستہ میں ایک دریا پڑتا تھا یہ وہی دریا ہے جو جو اردن اور فلسطین کے درمیان واقع ہے، اس دریا کو عبور کرنا تھا مگر چونکہ حضرت طالوت کا معلوم تھا کہ اس قوم میں انضباط اور ڈسپلن بہت کم رہ گیا ہے اس لئے اس نے کارآمد اور ناکارہ لوگوں کو ممیز کرنے کے لئے یہ آزمائش تجویز کی کہ کوئی شخص دریا سے پانی نہ پیئے جو پانی پیئے گا اس سے میرا کوئی تعلق نہیں اور جو پانی نہیں پیئے گا وہ میرا ہے اصل حکم تو یہی ہے کہ بالکل پانی کو ہاتھ بھی نہ لگایا جائے مگر رخصت کے طور پر اس کی اجازت ہے کہ ایک آدھ چلو گلا تر کرنے کے لئے پی لیا جائے تو مضائقہ نہیں چناچہ اکثر لوگوں نے خوب سیراب ہو کر پانی پیا چونکہ گرمی کا موسم تھا گرمی شدید تھی یہ لوگ پانی پر بےتحاشا ٹوٹ پڑے ایک بہت چھوٹی سی جماعت جس کی تعداد تین سو تیرہ اصحاب بدر کے برابر بتائی جاتی ہے اپنے عزم پر قائم رہی چناچہ جن لوگوں نے خوب پیٹ بھر کر پانی پی لیا تھا وہ دریا بھی عبور نہ کرسکے، صرف وہی لوگ دریا عبور کرکے دشمن کے مقابلہ پر پہنچے جنہوں نے پانی نہیں پیا تھا، یا کم پیا تھا۔ داؤد (علیہ السلام) اس وقت ایک کم سن کو نوجوان تھے، اتفاق سے طالوت کے لشکر میں عین اس وقت پہنچے کہ جب فلسطینیوں کی فوج کا گران ڈیل پہلوان جالوت بنی اسرائیل کی فوج کو دعوت مبازرت دے رہا تھا، اور اسرائیلیوں میں کسی کی ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ اس کے مقابلہ کے لئے نکلے، حضرت داؤد (علیہ السلام) جو ابھی کم سن ہی تھے، اور نبوت اور بادشاہت بھی ان کو ابھی نہیں ملی تھی۔ موقع پر پہنچ گئے، داؤد بن ایشا اپنے بھائیوں میں کوتاہ قد اور کم رو تھے، بکریاں چرایا کرتے تھے، جب طالوت نے فوج کشی کی تو یہ بھی شریک جنگ ہونے کے لئے روانہ ہوئے ان کو راستہ میں ایک پتھر ملا پتھر بولا اے داؤد مجھے اٹھالو میں حضرت ہارون کا پتھر ہوں مجھ سے بہت سے بادشاہ قتل کئے گئے ہیں داؤد (علیہ السلام) نے اٹھا کر اس کو اپنے تھیلے میں ڈال لیا پھر دوسرا پتھر ملا اس نے کہا میں حضرت موسیٰ کا پتھر ہوں فلاں فلاں بادشاہ مجھ سے مارے گئے اسے بھی اپنی تھیلی میں اٹھا کر رکھ لیا پھر ایک تیسرا پتھر ملا اس نے کہا مجھے اٹھالو جالوت کی موت مجھ سے ہی ہے چناچہ حضرت داؤد نے تیسرا پتھر بھی اٹھا لیا۔ ادھر جالوت میدان میں آیا اور مبارز طلب کیا اس کی قوت اور ہیبت سے لوگ خائف تھے طالوت نے کہا جو اسے قتل کر دے گا میں اس سے اپنی لڑکی کا نکاح کردوں گا داؤد (علیہ السلام) مقابلہ کے لئے نکلے طالوت نے اپنا گھوڑا اور سازو سامان دیا تھوڑی دور چل کر داؤد (علیہ السلام) واپس آئے اور کہا اگر اللہ میری مدد نہ کرے تو یہ سازوسامان کچھ کام نہیں آسکتا، میں اپنی اسی بےسامانی سے لڑوں گا، پھر داؤد اپنا تھیلا اور گوپھن لے کر میدان میں آئے جالوت نے کہا تو مجھ سے اس پتھر سے لڑنے آیا ہے جیسے کوئی کتے کو مارتا ہے، داؤد (علیہ السلام) نے کہا تو کتے سے بھی زیادہ شریر اور خبیث ہے، جالوت غضبناک ہو کر بولا کہ میں یقیناً تیرا گوشت زمین کے درندوں اور آسمان کے پرندوں میں تقسیم کردوں گا حضرت داؤد نے جواب دیا اللہ تیرا ہی گوشت بانٹے گا پتھر نکالا اور کہا بسم اللہ اِلٰہ ابراہیم، اور گوپھن میں رکھا پھر دوسرا پتھر نکالا اور کہا بسم اللہ اِلٰہ اسحاق اس کو بھی گوپھن میں رکھا اس کے بعد تیسرا پتھر نکالا اور کہا بسم اللہ الٰہ یعقوب اس کو بھی گوپھن میں رکھا، پھر گوپھن گھما کر مارا ایک پتھر جالوت کے مغز پر لگا جس کی وجہ سے اس کا بھیجا نکل پڑا تیس آدمی اس کے ساتھ اور ہلاک ہوئے۔ حاصل یہ کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے جالوت کا سر کاٹا اور اس کی انگلی سے انگوٹھی نکالی اور طالوت کے سامنے پیش کی مومنین خوشی کے ساتھ فتحیاب ہو کر واپس ہوئے طالوت نے اپنی لڑکی کا نکاح داؤد (علیہ السلام) سے کردیا، حق تعالیٰ نے بعد میں داؤد (علیہ السلام) کو خلافت اور نبوت عطا فرمائی۔ (فتح القدیر شوکانی ملخصًا، فوائد عثمانی خلاصۃ التفاسیر للتائب)
10 Tafsir as-Saadi
جب بنی اسرائیل پر طالوت کی حکومت قائم ہوگئی اور مستحکم ہوگئی تو قوم نے دشمن سے مقابلے کی تیاری کی۔ طالوت بنی اسرائیل کے لشکروں کو لے کر روانہ ہوا۔ ان کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ تو اس نے اللہ کے حکم سے ان کا امتحان لیا تاکہ معلوم ہوجائے کہ ثابت قدم رہنے والا کون کون ہے اور دوسری طرح کا (بھگوڑا) کو ن کون ہے؟ چنانچہ فرمایا ﴿ اِنَّ اللّٰہَ مُبْتَلِیْکُمْ بِنَہَرٍ ۚ فَمَنْ شَرِبَ مِنْہُ فَلَیْسَ مِنِّیْ ۚ﴾ ” سنو ! اللہ تعالیٰ تمہیں ایک نہر سے آزمانے والا ہے جس نے اس میں سے پانی پی لیا، وہ میرا نہیں۔“ پس وہ نافرمان ہے۔ اس کی بے صبر اور گناہ کی سزا یہ ہے کہ وہ ہمارے ساتھ نہ آئے ﴿ وَمَنْ لَّمْ یَطْعَمْہُ﴾ ” اور جو اسے نہ چکھے“ یعنی اس کا پانی نہ پیئے۔ وہ میرا ہے ﴿ اِلَّا مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَۃًۢ بِیَدِہٖ ۚ﴾ ”ہاں یہ اور بات ہے کہ اپنے ہاتھ سے ایک چلو بھر لے۔“ اسے کوئی گناہ نہیں اور شاید اللہ تعالیٰ اس کے لئے اس میں برکت ڈال دے کہ وہ اس کے لئے کافی ہوجائے۔ اس امتحان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے پاس پانی تھوڑا رہ گیا تھا، تاکہ آزمائش ہوسکے۔ اکثر نے نافرمانی کرتے ہوئے اتنا پانی پی لیا، جتنا پینے کی انہیں اجازت نہیں دی گئی تھی۔ چنانچہ یہ لوگ دشمن کے مقابلے میں جہاد کرنے سے بھی پہلو تہی کر گئے۔ ان کا گھڑی بھر پانی سے صبر نہ کرسکنا بہت بڑی دلیل تھی کہ وہ جنگ میں بھی صبر نہ کرسکیں گے، جو طویل بھی ہوسکتی ہے اور پرمشقت بھی۔ ان کے اس طرح پلٹ جانے سے باقی لشکر میں اللہ پر اعتماد، اللہ کے سامنے عجز و نیاز اور پانی کی طاقت پر گھمنڈ سے اجتناب جیسی کیفیات اور زیادہ ہوگئیں وہ اپنی قلت اور دشمن کی کثرت کو دیکھ کر مزید ثابت قدم ہوگئے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿ فَلَمَّا جَاوَزَہٗ﴾” جب وہ نہر سے گزر گیا‘،﴿هُوَ﴾” وہ طالوت“ ﴿ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ ۙ ﴾” مومنین سمیت“ جنہوں نے اللہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے جائز حد سے زیادہ پانی نہیں پیا تھا، تو فوج کے اکثر لوگ اپنی قلت اور دشمنوں کی کثرت دیکھ کر کہنے لگے ﴿ لَا طَاقَۃَ لَنَا الْیَوْمَ بِجَالُوْتَ وَجُنُوْدِہٖ ۭ﴾” آج تو ہم میں طاقت نہیں کہ جالوت اور اس کے لشکروں سے لڑیں۔“ کیونکہ ان کی تعداد بھی زیادہ ہے اور اسلحہ بھی ﴿ۭ قَالَ الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّہُمْ مُّلٰقُوا اللّٰہِ ۙ ﴾” لیکن اللہ کی ملاقات پر یقین رکھنے والوں نے کہا،جو پختہ ایمان کے حامل تھے، انہوں نے دوسروں کا حوصلہ بڑھانے کے لئے، انہیں صبر کی تلقین کرتے ہوئے کہا ﴿کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃًۢ بِاِذْنِ اللّٰہِ ۭ﴾” بسا اوقات چھوٹی اور تھوڑی سی جماعتیں بڑی اور بہت سی جماعتوں پر اللہ کے حکم سے“ یعنی اس کے ارادہ اور مشیت سے۔ غلبہ پالیتی ہیں۔کیونکہ معاملات اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ عزت اور ذلت اس کے دینے سے ملتی ہے۔ اللہ کی مدد کے بغیر کثرت کا کوئی فائدہ نہیں اور اس کی مدد حاصل ہو تو قلت سے کوئی نقصان نہیں۔ ﴿ وَاللّٰہُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ﴾” اور اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔“ اس کی مدد اور توفیق انہیں حاصل ہوتی ہے۔ اللہ کی مدد حاصل کرنے کا سب سے اہم ذریعہ بندے کا اللہ کی رضا کے لئے صبر کرنا ہے۔ ان کی نصیحت کا کم ہمتوں پر بہت اچھا اثر ہوا، اس لئے جب وہ جالوت کے مقابلے میں آئے تو ان سب نے دعا مانگی
11 Mufti Taqi Usmani
chunacheh jab taloot lashkar kay sath rawana huwa to uss ney ( lashkar walon say ) kaha kay : Allah aik darya kay zariye tumhara imtihan lenay wala hai . jo shaks iss darya say paani piye ga woh mera aadmi nahi hoga , aur jo issay nahi chakhay ga woh mera aadmi hoga , illa yeh kay koi apney haath say aik chullu bhar ley ( to kuch harj nahi ) . phir ( huwa yeh kay ) unn mein say thoray aadmiyon kay siwa baqi sabb ney uss darya say ( khoob ) paani piya . chunacheh jab woh ( yani taloot ) aur uss kay sath emaan rakhney walay darya kay paar utray , to yeh log ( jinhon ney taloot ka hukum nahi maana tha ) kehney lagay kay : aaj jaloot aur uss kay lashkar ka muqabla kernay ki hum mein bilkul taqat nahi hai . ( magar ) jinn logon ka emaan tha kay woh Allah say jaa milney walay hain unhon ney kaha kay : najaney kitni choti jamaten hain jo Allah kay hukum say bari jamaton per ghalib aai hain . aur Allah unn logon ka sathi hai jo sabar say kaam letay hain .
12 Tafsir Ibn Kathir
نہر الشریعہ اب واقعہ بیان ہو رہا ہے کہ جب ان لوگوں نے طالوت کی بادشاہت تسلیم کرلی اور وہ انہیں لے کر جہاد کو چلے، حضرت سدی کے قول کے مطابق ان کی تعداد اسی ہزار تھی، راستے میں طالوت نے کہا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں ایک نہر کے ساتھ آزمانے والا ہے، حضرت ابن عباس کے قول کے مطابق یہ نہر اردن اور فلسطین کے درمیان تھی اس کا نام نہر الشریعہ تھا، طالوت نے انہیں ہوشیار کردیا کہ کوئی اس نہر کا پانی نہ پیئے، اگر پی لے گا تو میرے ساتھ نہ چگے، ایک آدھ گھونٹ اگر کسی نے پی لی تو کچھ حرج نہیں، لیکن جب وہاں پہنچے پیاس کی شدت تھی، نہر پر جھک پڑے اور خوب پیٹ بھر کر پانی پی لیا مگر کچھ لوگ ایسے پختہ ایمان والے بھی تھے کہ جنہوں نے نہ پیا ایک چلو پی لیا، بقول ابن عباس کے ایک چلو پینے والوں کی تو پیاس بھی بجھ گئی اور وہ جہاد میں بھی شامل رہے لیکن پوری پیاس پینے والوں کی نہ تو پیاس بجھی نہ وہ قابل جہاد رہے، سدی فرماتے ہیں اسی ہزار میں سے چھہتر ہزار نے پانی پی لیا صرف چار ہزار آدمی حقیقی فرمانبردار نکلے۔ حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں کہ اصحاب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکثر فرمایا کرتے تھے کہ بدر کی لڑائی والے دن ہماری تعداد اتنی ہی تھی جتنی تعداد حضرت طالوت بادشاہ کے اس فرمانبردار لشکر کی تھی، جو آپ کے ساتھ نہر سے پار ہوا تھا یعنی تین سو تیرہ یہاں سے پار ہوتے ہی نافرمانوں کے چھکے چھوٹ گئے اور نہایت بزدلانہ پن سے انہوں نے جہاد سے انکار کردیا اور دشمنوں کی زیادتی نے ان کے حوصلے توڑ دئیے، صاف جواب دے بیٹھے کہ آج تو ہم جالوت کے لشکر سے لڑنے کی طاقت اپنے میں نہیں پاتے، گو سرفروش مجاہد علماء کرام نے انہیں ہر طرح ہمت بندھوائی، وعظ کہے، فرمایا کہ قلت و کثرت پر فتح موقوف نہیں صبر اور نیک نیتی پر ضرور اللہ کی امداد ہوتی ہے۔ بار ہا ایسا ہوا ہے کہ مٹھی بھر لوگوں نے بڑی بڑی جماعتوں کو نیچا دکھا دیا ہے، تم صبر کرو، طبیعت میں استقلال اور عزم رکھو، اللہ کے وعدوں پر نظریں رکھو، اس صبر کے بدلے اللہ تمہارا ساتھ دے گا لیکن تاہم ان کے سرد دل نہ گرمائے اور ان کی بزدلی دور نہ ہوئی۔