البقرہ آية ۲۵
وَبَشِّرِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِىْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ ۗ كُلَّمَا رُزِقُوْا مِنْهَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِّزْقًا ۙ قَالُوْا هٰذَا الَّذِىْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ وَاُتُوْا بِهٖ مُتَشَابِهًا ۗ وَلَهُمْ فِيْهَاۤ اَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ ۙ وَّهُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ
طاہر القادری:
اور (اے حبیب!) آپ ان لوگوں کو خوشخبری سنا دیں جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے کہ ان کے لئے (بہشت کے) باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، جب انہیں ان باغات میں سے کوئی پھل کھانے کو دیا جائے گا تو (اس کی ظاہری صورت دیکھ کر) کہیں گے: یہ تو وہی پھل ہے جو ہمیں (دنیا میں) پہلے دیا گیا تھا، حالانکہ انہیں (صورت میں) ملتے جلتے پھل دیئے گئے ہوں گے، ان کے لئے جنت میں پاکیزہ بیویاں (بھی) ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے،
English Sahih:
And give good tidings to those who believe and do righteous deeds that they will have gardens [in Paradise] beneath which rivers flow. Whenever they are provided with a provision of fruit therefrom, they will say, "This is what we were provided with before." And it is given to them in likeness. And they will have therein purified spouses, and they will abide therein eternally.
1 Abul A'ala Maududi
اور اے پیغمبرؐ، جو لوگ اس کتاب پر ایمان لے آئیں اور (اس کے مطابق) اپنے عمل درست کر لیں، انہیں خوش خبری دے دو کہ اُن کے لیے ایسے باغ ہیں، جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ان باغوں کے پھل صورت میں دنیا کے پھلوں سے ملتے جلتے ہونگے جب کوئی پھل انہیں کھانے کو دیا جائے گا، تو وہ کہیں گے کہ ایسے ہی پھل اس سے پہلے دنیا میں ہم کو دیے جاتے تھے ان کے لیے وہاں پاکیزہ بیویاں ہونگی، اور وہ وہاں ہمیشہ رہیں گے
2 Ahmed Raza Khan
اور خوشخبری دے، انہیں جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے، کہ ان کے لئے باغ ہیں، جن کے نیچے نہریں رواں جب انہیں ان باغوں سے کوئی پھل کھانے کو دیا جائے گا، (صورت دیکھ کر) کہیں گے، یہ تو وہی رزق ہے جو ہمیں پہلے ملا تھا اور وہ (صورت میں) ملتا جلتا انہیں دیا گیا اور ان کے لئے ان باغوں میں ستھری بیبیاں ہیں اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے -
3 Ahmed Ali
اوران لوگو ں کو خوشخبری دے جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے کہ ان کے لیے باغ ہیں ان کے نیچے نہریں بہتی ہیں جب انہیں وہاں کا کوئي پھل کھانے کو ملے گا تو کہیں گے یہ تو وہی ہے جو ہمیں اس سے پہلے ملا تھا اور انہیں ہم شکل پھل دیئے جائیں گے اور ان کے لیے وہاں پاکیزہ عورتیں ہوں گی اوروہ وہیں ہمیشہ رہیں گے
4 Ahsanul Bayan
اور ایمان والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو (١) جنت کی خوشخبریاں دو جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ جب کبھی وہ پھلوں کا رزق دئیے جائیں گے اور ہم شکل لائے جائیں گے تو کہیں گے یہ وہی ہے جو ہم اس سے پہلے دئیے گئے تھے (٢) اور ان کے لئے بیویاں ہیں صاف (٣) ستھری اور وہ ان جنتوں میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ (٤)
٢٥۔١ قرآن کریم نے ہر جگہ ایمان کے ساتھ عمل صالح کا تذکرہ فرما کر اس بات کو واضح کر دیا کہ ایمان اور عمل صالح ان دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ عمل صالح کے بغیر ایمان کا ثمر اور نہیں مل سکتا اور ایمان کے بغیر اعمال خیر کی عند اللہ کی کوئی اہمیت نہیں۔ اور عمل صالح کیا، جو سنت کے مطابق ہو اور خالص رضائے الٰہی کی نیت سے کیا جائے۔ خلاف سنت عمل بھی نامقبول اور نمود و نمائش اور ریاکاری کے لئے کئے گئے عمل بھی مردود و مطرود ہیں۔
٢٥۔٢ مُتشَابِھَا کا مطلب یا تو جنت کے تمام میووں کا آپس میں ہم شکل ہونا ہے یا دنیا کے میووں کے ہم شکل ہونا ہے۔ تاہم یہ مشابہت صرف شکل یا نام کی حد تک ہی ہوگی ورنہ جنت کے میووں کے مزے اور ذائقے سے دنیا کے میووں کی کوئی نسبت ہی نہیں ہے۔ جنت کی نعمتوں کی بابت حدیث میں ہے نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا (دیکھنا اور سننا تو کجا) کسی انسان کے دل میں ان کا گمان بھی نہیں گزرا۔
٢٥۔٣ یعنی حیض و نفاس اور دیگر آلائشوں سے پاک ہوں گی۔
٢٥۔٤ خُلُودُ کے معنی ہمیشگی کے ہیں۔ اہل جنت ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جنت میں رہیں گے اور خوش رہیں گے اور اہل دوزخ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہیں گے اور مبتلائے عذاب رہیں گے۔ حدیث میں ہے جنت اور جہنم میں جانے کے بعد ایک فرشتہ اعلان کرے گا اے جہنمیو! اب موت نہیں ہے اے جنتیو اب موت نہیں ہے۔ جو فریق جس حالت میں ہے اسی حالت میں ہمیشہ رہے گا (صحیح مسلم)
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے، ان کو خوشخبری سنا دو کہ ان کے لیے (نعمت کے) باغ ہیں، جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ جب انہیں ان میں سے کسی قسم کا میوہ کھانے کو دیا جائے گا تو کہیں گے، یہ تو وہی ہے جو ہم کو پہلے دیا گیا تھا۔ اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے اور وہاں ان کے لیے پاک بیویاں ہوں گی اور وہ بہشتوں میں ہمیشہ رہیں گے
6 Muhammad Junagarhi
اور ایمان والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو ان جنتوں کی خوشخبریاں دو، جن کےنیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ جب کبھی وه پھلوں کا رزق دیئے جائیں گے اور ہم شکل ﻻئے جائیں گے تو کہیں گے یہ وہی ہے جو ہم اس سے پہلے دیئے گئے تھے اور ان کے لئے بیویاں ہیں صاف ستھری اور وه ان جنتوں میں ہمیشہ رہنے والے ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
اور (اے رسول) ان لوگوں کو خوشخبری دے دو جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے۔ کہ ان کے لئے (بہشت کے) ایسے باغ ہیں کہ جن کے نیچے سے نہریں جاری ہیں۔ جب بھی انہیں ان (باغات) سے کوئی پھل کھانے کو ملے گا تو وہ (اس کی صورت دیکھ کر) کہیں گے کہ یہ تو وہی ہے جو اس سے پہلے ہمیں (دنیا میں) کھانے کو مل چکا ہے۔ حالانکہ انہیں جو دیا گیا ہے وہ (صورت میں دنیا کے پھل سے) ملتا جلتا ہے (مگر ذائقہ الگ ہوگا) اور ان کے لئے وہاں پاکیزہ بیویاں ہوں گی اور وہ ان (بہشتوں) میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
پیغمبر آپ ایمان اور عمل صالح والوں کو بشارت دے دیں کہ ان کے لئے ایسے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں. انہیں جب بھی وہاںکوئی پھل دیا جائے گا تو وہ یہی کہیں گے کہ یہ تو ہمیں پہلے مل چکا ہے. حالانکہ وہ صرف اس کے مشابہ ہوگا اور ان کے لئے وہاں پاکیزہ بیویاں بھی ہوں گی اور انہیں اس میں ہمیشہ رہنا بھی ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان کو خوشخبری سنادو کہ ان کے لئے (نعمت کے) باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں، جب انہیں ان میں سے کسی قسم کا میوہ کھانے کو دیا جائیگا تو کہیں گے یہ تو وہی ہے جو ہم کو پہلے دیا گیا تھا اور ان کو ایک دوسرے کے ہمشکل میوے دیئے جائیں گے اور وہاں ان کے لیے پاک بیویاں ہوں گی اور وہ بہشتوں میں ہمیشہ رہیں گے
آیت نمبر ٢٥
ترجمہ : اور (اے نبی) خوشخبری دے دیجئے ان لوگوں کو جو ایمان لائے (یعنی) اللہ کی (توحید) کی تصدیق کی، اور نیک اعمال کئے کہ وہ فرائض اور نوافل ہیں، ان کے لئے درختوں والے اور محلوں والے باغات ہیں کہ ان باغوں اور محلوں کے نیچے نہریں جاری ہیں یعنی ان نہروں میں پانی جاری ہے اور نہر وہ جگہ ہے کہ جس میں پانی جاری ہوتا ہے (نہر کو نہر اس لئے کہتے ہیں) کہ پانی اس نہر کو کھود دیتا ہے اور جریان کی اسناد نہر کی جانب اسناد مجازی ہے جب ان باغوں میں سے کوئی پھل ان کو کھانے کے لئے بطور غذا دیا جائے گا تو کہیں گے کہ یہ تو اسی جیسا ہے جو ہم کو اس سے پہلے کھانے کے لیے دیا گیا، یعنی جو اس سے پہلے جنت میں دیا گیا (یہ اس وجہ سے ہوگا) کہ جنت کے پھل ہم شکل ہوں گے (اس قول کا) قرینہ وَاُتُوْا بِہ مُتَشَابِھًا ہے اور ملیں گے بھی ان کو ہم شکل بھی، کہ رنگ کے لحاظ سے ایک دوسرے کے مشابہ ہوں گے مگر ذائقہ میں مختلف ہوں گے اور ان کے لئے جنت میں بیویاں ہوں گی یعنی حور وغیرہ، پاک ہوں گی حیض اور ہر گندگی سے اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ یعنی دائمی قیام ہوگا نہ اس میں فنا ہوں گے اور نہ (اس سے) نکلیں گے، آیت : \&\& اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَسْتَحْی اَنْ یَّضْرِبَ مَثَلاً مَّا \&\& یہود کے اعتراض \&\& مَاذَا اَرَادَ اللّٰہُ بِذکرِ ھذہ الاشیائِ الخسیسةِ \&\& یعنی ان حقیر چیزوں کے ذکر کرنے سے اللہ تعالیٰ کا کیا مقصد ہے ؟ کو رد کرنے کے لئے نازل ہوئی، جب کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے قول : وَاِنْ یَّسْلُبْھُمْ الذُّبَابُ شَیْئًا \&\& میں مکھی کی اور اپنے قول \&\& کَمَثَلِ الْعَنْکَبُوْتِ \&\& میں مکڑی کی مثال بیان فرمائی، یقینا اللہ تعالیٰ کسی مثال کے بیان کرنے سے نہیں شرماتا خواہ مچھر کی ہو یا اس سے اعلیٰ کی : (مَثَلاً ) ضَرَبَ یعنی جَعَلَ کا مفعول اول ہے، مَا نکرہ موصوفہ اپنے مابعد صفت سے مل کر، ضَرَبَ کا مفعول ثانی (یعنی) مَثْلاً مَّا، معنی میں اَیُّ مِثْالٍ کَانَ کے ہے یا ما زائدہ ہت، حقارت کی تاکید کے لئے اور اس کا مابعد مفعول ثانی ہے، بَعُوضَة، بعوض کا مفرد ہے (یعنی) چھوٹا مچھر، یعنی اس کے بیان کو ترک نہیں کرتا، اس لئے کہ اس کے بیان کرنے میں حکمتیں ہیں اہل ایمان تو اس مثال کو اپنے رب کی طرف سے صحیح سمجھتے ہیں، (یعنی) برمحل بیان ہوئی ہے اور کفار کہتے ہیں کہ : اللہ تعالیٰ کو ایسی (حقیر) مثالوں سے کیا سروکار ؟ مَثَلاً تمیز ہے (بھٰذا مَثَلاً ) ای بِھَذَا المثل (کے معنی میں ہے) اور ما استفہام انکاری مبتداء اور ذا بمعنی الذی اپنے صلہ سے مل کر مبتداء کی خبر، یعنی اس مثال میں کیا فائدہ ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے ان (معترضین) کے جواب میں فرمایا کہ وہ اس مثال سے بہت سوں کو حق سے ان کے اس مثال کا انکار کرنے کی وجہ سے گمراہ کرتا ہے اور بہت سے مومنین کی ان کے اس مثال کی تصدیق کرنے کی وجہ سے رہنمائی کرتا ہے اور اس سے ان فاسقوں کو بھی گمراہ کرتا ہے جو اللہ کے عہد کو پختہ کرنے کے باوجود توڑ دیتے ہیں، یعنی اس کی اطاعت سے خروج کرنے والوں کو (گمراہ کرتا ہے) یعنی اس عہد کو جس کو اللہ نے ان سے کتابوں میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کے بارے میں لیا تھا، (الَّذِیْنَ ) فَاسِقِیْنَ کی صفت ہے اور اللہ نے جس کو جوڑنے کا حکم دیا ہے اس کو توڑتے ہیں اور وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانا اور صلی رحمی وغیرہ کرنا ہے اور أَنْ یُّوْصَلَ ، بہ کی ضمیر سے بدل ہے اور معاصی کے ذریعہ اور (لوگوں کو) ایمان سے روکنے کے ذریعہ زمین میں فساد برپا کرتے ہیں حقیقت میں یہی لوگ ہیں جو مذکورہ صفات سے متصف ہیں نقصان اٹھانے والے ہیں، دائمی عذاب (میں) ان کا ٹھکانہ ہونے کی وجہ سے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ آمَنُوْا : اس کا عطف، عطف قصہ علی القصہ کے طور پر فان لَمْ تَفْعَلُوْا کے مضمون پر ہے۔
قولہ : بَشِّرْ ، امر واحد مذکر حاضر بمعنی تو خوش کن خبر سنا، بَشِّر، اَلبشارة سے مشتق ہے، بشارت اس پہلی خبر کو کہتے ہیں جو خوش کن ہو، پہلی خوش کن خبر کو بشارت اس لئے کہتے ہیں کہ : اس کا اثر (بشرہ) چہرہ پر ظاہر ہوتا ہے، (اَلْبَشَارَةُ : الْخَبر الَاوَّلُ السَّارُ الَّذِیْ یَظْھرُ بِہ اَثَرُ السُرُوُرِ فِی الْبشرَةِ ) ۔ (اعراب القرآن)
قولہ : اَخْبِرْ ، بَشِّرْ کی تفسیر اخْبِرْ سے کرکے اشارہ کردیا کہ بشارت اگرچہ خوشخبری کو کہتے ہیں مگر یہاں یہ مطلق خبر کے معنی میں ہے اور بشارت کی ضد انذار ہے۔
سوال : وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ، الصّٰلحٰت، ایسا وصف ہے جو کیا نہیں جاسکتا اس لئے کہ وصف ازقبیل اعراض ہے اور عرض موجود فی الخارج نہیں ہوتا جب تک کہ کسی جوہر (موصوف) کے ساتھ متصل نہ ہو، لہٰذا : \&\& وَعَمِلوا الصٰلحٰتِ \&\& کہنا درست نہیں ہے۔
جواب : الصٰلحٰت، اگرچہ اپنی اصل کے اعتبار سے وصف ہے مگر اس پر اسمیت غالب ہونے کی وجہ سے اسم کے قائم مقام ہے لہٰذا اب کوئی اعتراض نہیں۔
قولہ : بِاَنَّ ، بِأنَّ ، پر باء کو ظاہر کرکے بتادیا کہ أنَّ اصل میں بِاَنَّ تھا، یاء کو جوازاً حذف کردیا گیا أنَّ مع اپنے مدخول کے بَشِّرْ ، کا مفعول ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ (ابو البھائ (
بعض مفسرین نے کہا ہے کہ وَبَشِّرْ کا عطف فَاتقوا، پر ہے مگر اس صورت میں تغایر مخاطبین کا اعتراض ہوگا، صاحب روح المعانی نے اس اعتراض کا یہ جواب دیا ہے کہ تغایر مخاطبین عطف کے لئے مضر نہیں، جیسا کہ : اللہ تعالیٰ کے قول : \&\& یوسفُ اعرض عن ھذا واستغفری \&\& یہاں معطوف علیہ اور معطوف کے مخاطب الگ الگ ہیں مگر پھر بھی عطف کیا گیا ہے۔
قولہ : الَّذِیْنَ : موصول اپنے صلہ سے مل کر بَشِّرْ کا مفعول بہ ہے۔
قولہ : \&\& أَنَّ لَہُمْ جنّٰتٍ تَجْرِیْ \&\& مشابہ مفعول نہ ہونے کی وجہ سے منصوب ہے، تجری من تحتھا الاَنْھَارُ ، جَنّٰت کی صفت اول اور کُلَّمَا رُزِقوا صفت ثانی اور لَہُمق فیہا صفت ثالث اور ہم فیہ خٰلِدُوْنَ صفت رابع ہے۔
قولہ : بِھٰذَا مَثَلاً تمیز لفظ تمیز کے اضافہ کا مقصد اس طرف اشارہ کرنا ہے کہ مَثَلاً تمیز سے حال نہیں ہے جیسا کہ بعض حضرات نے مَثَلاً کو حال قرار دیا، حالانکہ حال قرار دینا ضعیف ہے، ضعیف کی وجہ یہ ہے کہ اسم جامد کے حال واقع ہونے میں اختلاف ہے لہٰذا مَثَلاً کا حال واقع ہونا مختلف فیہ ہے اور اسم جامد کے تمیز واقع ہونے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے لہٰذا مَثَلاً کا تمیز قرار دینا راجح ہے۔
قولہ : بِھٰذَا مَثَلاً ، مفسر علام نے بِھٰذَا مثلاً کی تفسیر بھذا المثل سے کرکے ایک سوال کا جواب دیا ہے۔
سوال : یہ ہے کہ تمیز میں اصل یہ ہے کہ نسبت سے واقع ہو اور ھذا مثلاً میں نسبت نہیں ہے لہٰذا مثلاً کا تمیز واقع ہونا درست نہیں ہے۔ جواب : ھَذا مَثَلاً ، ھٰذا المثل کے معنی میں ہے، جس کے اندر نسبت موجود ہے لہٰذا مثلاً کا تمیز واقع ہونا درست ہے۔
قولہ : مَا، استفہام انکارٍ ، اس عبارت کے اضافہ کا مقصد بھی ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔
سوال : مَاذّا اَرَادَ اللّٰہُ بِھٰذا مَثَلاً ، میں مثال بیان کرنے کی حکمت معلوم کی گئی ہے اور کسی قول و فعل کی حکمت معلوم کرنا مذموم نہیں۔ حالانکہ یہاں مذموم قرار دیا گیا ہے۔
جواب : یہ استفہام معلوم کرنے کے لیے نہیں تھا بلکہ انکار اور نفی کے طور پر تھا، اسی وجہ سے اس کی مذمت کی گئی ہے۔
قولہ : مبتداء اس کا مقصد سیبویہ کے مذہب کو راجح قرار دینا ہے اور وہ یہ ہے کہ مَا، مبتداء ہے اور ذَا، موصول اپنے صلہ سے مل کر مبتداء کی خبر، نہ یہ کہ ذا مبتداء مؤخر اور ما، خبر مقدم، وجہ ترجیح یہ ہے کہ سیبویہ کی ترکیب قاعدہ معروفہ کے مطابق ہے اور وہ یہ کہ مبتداء مقدم اور خبر مؤخر ہوا کرتی ہے۔
قولہ : اَلخَارِ جِیْنَ عَنْ طَاعَتِہ : یہ الْفٰسِقِیْنَ کی تفسیر ہے، اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ : یہاں فاسق سے فاسق کامل مراد ہے اور وہ مشرک اور کافر ہے نہ کہ مومن فاسق مطلب یہ کہ یہاں فسق کے لغوی معنی مراد ہیں نہ کہ اصطلاحی اور شرعی جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے قول : \&\& اِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ ہُمُ الْفَاسِقُوْنَ \&\& میں منافق کو فاسق کہا گیا ہے حالانکہ منافق کلیةً اسلام سے خارج ہوتا ہے۔
قولہ : توکیدہ عَلَیْھِمْ : یہ بھی ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔
سوال : \&\& یَنْقُضُوْنَ عَھْدَ اللّٰہِ مِن بَعْدِ مِیْثَاقِہ \&\& اس آیت میں دو لفظ استعمال ہوئے ہیں عہد اور میثاق، اور دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے، اس کا ترجمہ ہوگا، وہ اللہ کے عہد کو توڑ دیتے ہیں اس کے عہد کے بعد، اور اس کا کوئی مطلب نہیں ہے
جواب : میثاق : بمعنی تاکید اور پختگی ہے، یعنی وہ اللہ کے عہد کو اس کے پختہ کرنے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور یہ معنی درست ہیں۔
قولہ : من الایمان بالنبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، یہ مَآ اَمَرَ اللّٰہُ بِہ، میں مَا، کا بیان ہے، یعنی وہ لوگ اس کو قطع کرتے ہیں جس کو متصل کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور وہ ایمان بالرسول اور صلی رحمی ہے۔
قولہ : وَاَنْ یُوصَل بدل مِنْ ضمیر بِہ، اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ : اَنْ یُوْصَلَ بہ کی ضمیر سے بدل ہونے کی وجہ سے مجرور
ہے نہ کہ مَا، سے بدل ہونے کی وجہ سے منصوب۔
اللغة والبلاغة
١۔ المجاز المرسل فی قولہ تعالیٰ : \&\& تجری من تحتھا الانْھَارُ \&\& والعلاقة المحلیة، ھذا اذا کان النھر مجری المائ .
٢۔ التشبیہ البلیغ فی قولہ، \&\& ھٰذَا الَّذِیْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ \&\& سمّیَ بلیغًا لانّ اداةَ التشبیہ فیہ محذوفة، فَتِساوی طرفا التشبیہ فی المرتبة .
٣۔ الاستعارة المکنیة : وذالک فی قولہ تعالیٰ \&\& یَنْقُضُوْنَ عَھْد اللہ \&\& فقد شَبّہ العھد بالحبل المبرم، ثم حذف المشبہ بہ ورَمَزَ الیہ بشی من خصائصہ اولوازمِہ، وھو النقض، لأنّہ احدیٰ حالتی الحبل وھما النقص والابرام .
تفسیر وتشریح
ربط آیات : سابقہ آیت میں منکرین اور ان کے عذاب کا ذکر تھا، اس آیت میں ماننے والوں کے لئے خوشخبری مذکور ہے جنت اور حوران جنت وغیرہ کی بشارت ہے۔
ایمان و عمل کا چولی دامن کا ساتھ ہے : یہاں مومنین کی بشارت کے لئے ایمان کے ساتھ عمل صالح کی قید بھی لگائی ہے کہ ایمان بغیر عمل صالح کے انسان کو اس بشارت کا مستحق قرار نہیں دیتا، اگرچہ صرف ایمان بھی جہنم میں خلود و دوام سے بچانے کا سبب ہے اور مومن خواہ کتنا بھی گنہگار ہو کسی نہ کسی وقت جہنم سے نکالا جائے گا، اور داخل کیا جائے گا، مگر عذاب جہنم سے کلیةً اور ابتداء نجات کا مستحق بغیر عمل صالح کے نہیں ہوگا۔
قرآن کریم نے ہر جگہ ایمان کے ساتھ عمل صالح کا تذکرہ فرما کہ اس بات کو واضح کردیا ہے کہ ایمان اور عمل صالح دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے عمل صالح ان کے بغیر ثمر آور نہیں اور ایمان کے بغیر عمل صالح کی عند اللہ کوئی اہمیت نہیں، مگر عمل صالح عند اللہ وہی معتبر ہے جو سنت کے مطابق ہو اور خالص رضائے الٰہی کی نیت سے کیا جائے، جو عمل خلاف سنت ہو یا نمود و نمائش کے لیے کیا ہو وہ عند اللہ مردود ہے۔
وَاُتُوْا بِہ مُتَشَابِھًا : مشابہت کا مطلب یا تو جنت کے تمام پھلوں کا آپس میں باہم ہمشکل ہونا ہے یا مشابہت سے مراد دنیا کے پھلوں سے مشابہت مراد ہے، مگر یہ مشابہت صرف شکل اور نام کی حد تک ہی ہوگی، ورنہ جنت کے پھلوں کے مزے اور ذائقے سے دنیا کے پھلوں اور میووں کی کوئی نسبت ہی نہیں ہے، جنت کی نعمتوں کی بابت حدیث شریف میں ہے : \&\& مَا لاَعَیْن رَأت وَلاَ اذُن سمعت ولا خَطَرَ عَلیٰ قَلبِ بَشَرٍ \&\& (صحیح بخاری تفسیر الم السجدة) نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے ان کی بابت سنا، اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا خیال گزرا۔
دنیوی پھلوں سے ظاہری مشابہت کی مصلحت : دنیوی پھلوں سے ظاہری مشاکلت صرف اس لئے ہوگی کہ وہ جنتی پھلوں سے نامانوس نہ ہوں اور اجنبیت محسوس نہ کریں البتہ لذت میں وہ ان سے بدرجہا بڑھے ہوئے ہوں گے، دیکھنے میں مثلاً آم، انار، سیب، سنترے ہی ہوں گے اہل جنت دیکھ کر ہی پہچان لیں گے کہ یہ آم ہے اور یہ انار ہے اور یہ سنترا ہے، مگر مزے میں دنیا کے پھلوں
سے کوئی نسبت نہ ہوگی۔
وَلَہُمْ فِیْھَآ اَزْوَاج مُّطَھَّرَة : ازواج، زَوْج کی جمع ہے، زوج کے معنی جوڑے کے ہیں اور اس لفظ کا استعمال بیوی اور شوہر دونوں کے لئے ہوتا ہے بیوی شوہر کے لئے اور شوہر بیوی کے لئے زوج ہے۔ بیوی اور شوہر روحانی اخلاقی اور جسمانی ہر قسم کی گندگیوں اوع آلائشوں اور آلودگیوں سے صاف ستھرے اور پاکیزہ ہوں گے۔
مُطَھَّرَة مِنَ القذرِ وَالاَذیٰ (ابن جریر عن ابن عباس (رض) ما) قِیلَ مُطَہَرَّة عَن مساوی الاخلاق (معالم) ۔
فالمراد طَھَارَةُ اَبْدانِھِنَّ ، وَطَھارة اَزْوَاجِھِنَّ مِن جمیع الخصائل الذمیمة (کبیر) اِنَّ التطھیر یستعملُ فی الَاجْسَام وَالأخلاق وَالْاَفْعَال (بیضاوی) ومن کل اذیً یکونُ من نِسائِ الدنیا فَطَھُرَ مع ذٰلِکَ باطِنُھَا مِنَ الْاَخْلاقِ السَّیئة وَالصِفاتِ المذمومة . (ابن قیم) (تفسیر ماجدی) ۔
نام نہادر روشن خیال اور جنت کی نعمتیں : بعض روشن خیالوں کو پاکیزہ بیویوں کے نام سے خدا معلوم کیوں اتنی شرم آئی کہ انہوں نے اس معنی ہی سے انکار کردیا اور اَزوَاج مُّطَھَّرَة کی تفسیر عجیب توڑ مروڑ کر کی ہے، گویا کہ بہشت میں رضائے الٰہی کے مقام میں ہر قسم کی انتہائی لذت، مسرت و راحت کے موقع پر بیویوں اور پھر پاکیزہ بیویوں کا ملنا بڑے ہی شرم و ندامت کی بات ہے، اگر نفس جنت کے وجود ہی سے انکار ہے، تب تو بات ہی اور ہے ایسے مخاطب کے سامنے پہلے جنت کا اثبات کیا جائے گا، لیکن اگر جنت کا اقرار ہے، تو وہاں کی کسی لذت، کسی نعمت، کسی راحت سے انکار کے کوئی معنی نہ نقل کے اعتبار سے صحیح ہیں اور نہ عقل کے اعتبار سے جنت کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ وہ مادی اور روحانی ہر قسم کی لذتوں، مسرتوں، راحتوں کا گھر ہے، یا پھر یہ ہے کہ بیوی کے نعمت اور اعلیٰ نعمت ہونے ہی سے انکار ہے، اگر ایسا ہے تو اس عقیدہ کا رشتہ اسلام سے نہیں بلکہ یہ رہبانیت اور مسیحیت سے وابستہ ہے اور مسیحیت اور رہبانیت بھی وہ نہیں جو مسیح علیہ الصلوٰة والسلام کی لائی ہوئی ہے بلکہ وہ جو پولوس کی پھیلائی ہوئی ہے، اس قسم کا عقیدہ اور نظر یہ پولوسی مسیحیت سے دماغی مرعوبیت کا نتیجہ ہے اور جنت میں عمل زوجیت کا مقصد بقائے نوع یا افزائش نسل نہ ہوگا، بلکہ حذا کی طرح نفس لذت مقصود ہوگی۔
وَہُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ : یہ جنت کی انتہائی عظیم نعمت کا ذکر ہے، خلود کے معنی ہمیشگی اور ایسی حالت میں رہنے کے ہیں کہ جن میں کبھی تغیر اور خرابی پیدا نہ ہو اور جب اس کا ذکر دوزخ و جنت کے سیاق وسباق میں آئے گا تو اس کا مطلب ہوگا کہ اہل جنت ہمیشہ ہمیش جنت میں رہیں گے، اور اہل دوزخ ہمیشہ ہمیش جہنم میں رہیں گے، حدیث شریف میں ہے کہ جنت اور جہنم میں جانے کے بعد ایک فرشتہ اعلان کرے گا، اے جہنمیو ! اب موت نہیں ہے اور اے جنتیو ! اب موت نہیں ہے جو فریق جس حالت میں ہے اسی میں ہمیشہ ہمیش رہے گا۔ (صحیح بخاری کتاب الرقاق، صحیح مسلم کتاب الجنة)
10 Tafsir as-Saadi
جب اللہ تعالیٰ نے کفار کی جزا کا ذکر کیا تو اعمال صالحہ سے آراستہ اہل ایمان کی جزا بھی بیان فرما دی، جیسا کہ قرآن مجید میں اس کا طریقہ ہے کہ وہ ترغیب و ترہیب کو اکٹھا بیان کرتا ہے، تاکہ بندہ مومن اللہ کی رحمت کی رغبت بھی رکھے اور اس کے عذاب سے ڈرتا بھی رہے۔ اس کے دل میں عذاب کا خوف ہو تو رحمت و مغفرت کی امید سے بھی سرشار ہو۔
﴿وَبَشِّرِ﴾ یعنی اے رسول ! آپ اور آپ کا قائم مقام خوشخبری دے دے۔
﴿الَّذِينَ آمَنُوا﴾” یعنی جو اپنے دل سے ایمان لائے“﴿وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ﴾ اور انہوں نے اپنے جوارح سے نیک کام سر انجام دیئے۔ پس انہوں نے اعمال صالحہ کے ذریعے سے اپنے ایمان کی تصدیق کی۔ اللہ تعالیٰ نے اعمال خیر کو (الصالحات) سے تعبیر کیا ہے کیونکہ ان کے ذریعے سے بندے کے احوال، اس کے دینی اور دنیاوی امور اور اس کی دنیاوی اور آخروی زندگی کی اصلاح ہوتی ہے اور اس کے ذریعے ہی سے احوال کا فساد زائل ہوتا ہے پس اس کی وجہ سے اس کا شمار صالحین میں ہوجاتا ہے جو جنت میں اللہ تعالیٰ کی مجاورت اور اس کے قرب کی صلاحیت سے بہرہ ور ہیں۔
پس ان کو خوشخبری سنا دیجئے ﴿أَنَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ ﴾ ” کہ ان کے لئے جنت کے باغات ہیں“ جن میں عجیب اقسام کے درخت، نفیس انواع کے پھل، گہرے سائے اور درختوں کی نہایت خوبصورت شاخیں ہوں گی۔ اسی وجہ سے اس کا نام جنت ہے۔ اس میں داخل ہونے والے اس کے باغوں اور گہری چھاؤں سے فیض یاب ہوں گے اور اس میں رہنے والے اس میں عیش و عشرت کی زندگی گزاریں گے۔﴿تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ﴾ ” یعنی جنت میں پانی، دودھ، شہد اور شراب کی نہریں بہتی ہوں گی۔ وہ جیسے چاہیں گے انہیں جاری کرلیں گے اور جہاں چاہیں گے انہیں پھیر لیں گے۔ انہی نہروں سے جنت کے درخت سیراب ہوں گے اور مختلف اصناف کے پھل پیدا ہوں گے۔ ﴿ كُلَّمَا رُزِقُوا مِنْهَا مِن ثَمَرَةٍ رِّزْقًا ۙ قَالُوا هَـٰذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِن قَبْلُ﴾ ” جب بھی ان کو ان میں سے کھانے کو کوئی پھل دیا جائے گا، تو کہیں گے یہ تو وہی ہے جو پہلے ہمیں دیا گیا“ یعنی جنت کا یہ پھل دنیا کے پھلوں کی جنس میں سے ہوگا اس میں دنیا کے پھلوں کی سی صفات ہوں گی۔ خوبصورتی اور لذت میں جنت کے پھل دنیا کے پھلوں سے ملتے جلتے ہوں گے۔ ان میں کوئی بد ذائقہ پھل نہ ہوگا اور کوئی وقت ایسا نہ ہوگا جس میں اہل جنت لذت نہ اٹھا رہے ہوں گے بلکہ وہ دائمی طور پر جنت کے پھلوں کی لذت سے لطف اندوز ہوں گے۔
﴿وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا﴾” اور دیئے جائیں گے ان کو پھل ملتے جلتے“ کہا جاتاہے کہ (جنت کے پھل) نام میں مشابہت رکھتے ہیں اور ذائقے میں مختلف ہیں۔ بعض کی رائے ہے کہ اس سے مراد ہے کہ وہ رنگ میں مشابہت رکھتے ہیں مگر نام مختلف ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد ہے کہ وہ خوبصورتی، لذت اور مٹھاس میں ایک دوسرے سے مشابہ ہیں۔ شاید یہی تعبیر احسن ہے۔ پھر جہاں اہل جنت کے مساکن، ان کی خوراک، طعام و مشروبات اور پھلوں کا ذکر کیا ہے وہاں ان کی بیویوں کا ذکر بھی کیا ہے۔ نہایت ایجاز و اختصار کے ساتھ مکمل اور واضح طور پر ان کا وصف بیان کیا ہے۔
﴿وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ﴾ ” ان کے واسطے ان میں بیویاں ہوں گی پاک“ اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ فلاں عیب سے پاک ہوں گی، کیونکہ یہ تطہیر، طہارت کی تمام اقسام پر مشتمل ہوگی۔ ان کے اخلاق پاک ہوں گے، ان کی تخلیق پاکیزگی پر مبین ہوگی، ان کی زبان پاک ہوگی اور ان کی نظر پاک ہوگی۔ ان کے اخلاق کی پاکیزگی یہ ہے کہ وہ دلکش ہوں گی اور اپنے اخلاق حسنہ، حسن اطاعت اور قولی و فعلی آداب کے ساتھ اپنے شوہروں سے اظہار محبت کریں گی۔ حیض و نفاس، منی، بول و براز، تھوک، بلغم اور بدبو سے پاک ہوں گی۔ نیز اپنی جسمانی تخلیق میں بھی پاک ہوں گی وہ کامل حسن و جمال سے بہرہ ور ہوں گی۔ ان کے اندر کسی قسم کا عیب اور کسی قسم کی جسمانی بدصورتی نہ ہوگی بلکہ وہ نیک سیرت اور خوبصورت ہوں گی۔ وہ پاک نظر اور پاک زبان ہوں گی۔ وہ نیچی نگاہوں والی ہوں گی اور ان کی نگاہیں اپنے شوہروں سے آگے نہ بڑھیں گی۔ ان کی زبانیں ہر گندی بات سے محفوظ پاک ہوں گی۔
اس آیت کریمہ میں مندرجہ ذیل امور کا ذکر کیا گیا ہے :
(1) خوشخبری دینے والا۔ (2) جس کو خوشخبری دی گئی ہے۔ (3) جس چیز کی خوشخبری دی گئی ہے۔ (٤) وہ سبب جو اس خوشخبری کا باعث بنتا ہے۔ خوشخبری دینے والے سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات یا وہ لوگ ہیں جو آپ کی امت میں سے (ابلاغ علم میں) آپ کے قائم مقام ہوں گے۔ خوشخبری دیئے جانے والے وہ لوگ ہیں جو اہل ایمان ہیں اور نیک اعمال بجا لانے والے ہیں۔ جس چیز کی خوشخبری دی گئی ہے وہ ہے جنت، جو بیان کردہ صفات سے متصف ہے۔ اس خوشخبری کے باعث اور سبب سے مراد ایمان اور عمل صالح ہیں۔ ایمان اور عمل صالح کے بغیر اس خوشخبری کے حصول کا کوئی ذریعہ نہیں۔ یہ سب سے بڑی خوشخبری ہے جو بہترین اسباب کے ذریعے سے افضل ترین ہستی کی زبان مبارک سے دی گئی ہے۔
اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اہل ایمان کو خوشخبری دینا اعمال صالحہ اور ان کے ثمرات کا ذکر کر کے ان میں نشاط پیدا کرنا مستحب ہے کیونکہ اس طرح اعمال صالحہ آسان ہوجاتے ہیں۔ سب سے بڑی بشارت جو انسان کو حاصل ہوتی ہے وہ ایمان اور عمل صالح کی توفیق ہے۔ پس یہ اولین بشارت اور اس کی بنیاد ہے۔ اس کے بعد دوسری بشارت وہ ہے جو موت کے وقت اسے حاصل ہوتی ہے اور اس کے بعد وہ بشارت ہے جو نعمتوں سے بھرپوردائمی جنت میں پہنچ کر اسے حاصل ہوگی۔ ہم اللہ تعالیٰ سے اس کے فضل کا سوال کرتے ہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur jo log emaan laye hain , aur unhon ney naik amal kiye hain , unn ko khushkhabri dey do kay unn kay liye aesay baaghaat ( tayyar ) hain jinn kay neechay nehren behti hon gi , jab kabhi unn ko unn ( baaghaat ) mein say koi phal rizq kay tor per diya jaye ga , to woh kahen gay " yeh to wohi hai jo hamen pehlay bhi diya gaya tha aur unhen woh rizq aisa hi diya jaye ga jo dekhney mein milta julta hoga , aur unn kay liye wahan pakeezah biwiyan hon gi , aur woh unn ( baaghaat ) mein hamesha hamesha rahen gay
12 Tafsir Ibn Kathir
اعمال وجہ بشارت
چونکہ پہلے کافروں اور دشمنان دین کی سزا عذاب اور رسوائی کا ذکر ہوا تھا اس لئے یہاں ایمانداروں اور نیک صالح لوگوں کی جزا ثواب اور سرخروئی کا بیان کیا گیا ہے۔ قرآن کے مثانی ہونے کے ایک معنی یہ بھی ہیں جو صحیح تر قول بھی ہے کہ اس میں ہر مضمون تقابلی جائزہ کے ساتھ ہوا ہے اس کا مفصل بیان بھی کسی مناسب جگہ آئے گا مطلب یہ ہے کہ ایمان کے ساتھ ہی کفر کا۔ کفر کے ساتھ ایمان کا۔ نیکوں کے ساتھ بدوں کا۔ اور بدوں کے ساتھ نیکوں کا ذکر ضرور آتا ہے جس چیز کا بیان ہوتا ہے اس کے مقابلہ کی چیز کا بھی ذکر کردیا جاتا ہے چاہے معنی میں متشابہ ہوں، یہ دونوں لفظ قرآن کے اوصاف میں وارد ہوئے ہیں اسے مثانی بھی کہا گیا ہے اور متشابہ بھی فرمایا گیا ہے۔ جنتوں میں نہریں بہنا اس کے درختوں اور بالاخانوں کے نیچے بہنا ہے حدیث شریف میں ہے کہ نہریں بہتی ہیں لیکن گڑھا نہیں اور حدیث میں ہے کہ نہر کوثر کے دونوں کنارے سچے موتیوں کے قبے ہیں اس کی مٹی مشک خالص ہے اور اس کی کنکریاں لولو اور جواہر ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ہمیں بھی یہ نعمتیں عطا فرمائے وہ احسان کرنے والا بڑا رحیم ہے حدیث میں ہے جنت کی نہریں مشکی پہاڑوں کے نیچے سے جاری ہوتی ہیں۔ (ابن ابی حاتم) حضرت عبداللہ (رض) سے بھی یہ مروی ہے جنتیوں کا یہ قول کہ پہلے بھی ہم کو یہ میوے دئے گئے تھے اس سے مراد یہ ہے کہ دنیا میں بھی یہ میوے ہمیں ملے تھے صحابہ اور ابن جریر نے بھی اس کی تائید کی ہے بعض کہتے ہیں مطلب یہ ہے کہ ہم اس سے پہلے یعنی سابقہ کل بھی یہی تھے صحابہ اور ابن جریر نے بھی اس کی تائید کی ہے بعض کہتے ہیں مطلب یہ ہے کہ ہم اس سے پہلے یعنی سابقہ کل بھی یہی تھے صحابہ اور ابن جریر نے بھی اس کی تائید کی ہے بعض کہتے ہیں مطلب یہ ہے کہ ہم اس سے پہلے یعنی سابقہ کل بھی یہی دئیے گئے تھے یہ اس لئے کہیں گے کہ ظاہری صورت و شکل میں وہ بالکل مشابہ ہوں گے۔ یحییٰ بن کثیر کہتے ہیں کہ ایک پیالہ آئے گا کھائیں گے پھر دوسرا آئے گا تو کہیں گے یہ تو ابھی کھایا ہے فرشتے کہیں گے کھائیے تو اگرچہ صورت شکل میں یکساں ہیں لیکن مزہ اور ہے۔ فرماتے ہیں جنت کی گھاس زعفران ہے اس کے ٹیلے مشک کے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے خوبصورت غلمان ادھر ادھر سے میوے لا لا کر پیش کر رہے ہیں وہ کھا رہے ہیں وہ پھر پیش کرتے ہیں تو یہ کہتے ہیں اسے تو ابھی کھایا ہے وہ جواب دیتے ہیں حضرت رنگ روپ ایک ہے لیکن ذائقہ اور ہی ہے چکھ کر دیکھئے کھاتے ہیں تو اور ہی لطف پاتے ہیں یہی معنی ہیں کہ ہم شکل لائیں جائیں گے۔ دنیا کے میووں سے بھی اور نام شکل اور صورت میں بھی ملتے جلتے ہوں گے لیکن مزہ کچھ دوسرا ہی ہوگا۔ حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ صرف نام میں مشابہت ہے ورنہ کہاں یہاں کی چیز کہاں وہاں کی ؟ یہاں تو فقط نام ہی ہے عبدالرحمن کا قول ہے دنیا کے پھلوں جیسے پھل دیکھ کر کہہ دیں گے کہ یہ تو دنیا میں کھاچکے ہیں مگر جب چکھیں گے تو لذت کچھ اور ہی ہوگی۔ وہاں جو بیویاں انہیں ملیں گی وہ گندگی ناپاکی حیض و نفاس پیشاب، پاخانہ، تھوک، رینٹ، منی وغیرہ سے پاک صاف ہوں گی حضرت حوا (علیہما السلام) بھی حیض سے پاک تھیں لیکن نافرمانی سرزد ہوتے ہی یہ بلا آگئی یہ قول سنداً غریب ہے ایک غریب مرفوع حدیث میں ہے کہ حیض پاخانہ تھوک رینٹ سے وہ پاک ہیں۔ اس حدیث کے راوی عبدالرزاق بن عمر یزیعی ہیں مستدرک حاکم میں بیان کیا جنہیں ابو حاتم البستی نے احتجاج کے قابل نہیں سمجھا۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مرفوع حدیث نہیں بلکہ حضرت قتادہ کا قول ہے واللہ اعلم۔ ان تمام نعمتوں کے ساتھ اس زبردست نعمت کو دیکھئے کہ نہ یہ نعمتیں فنا ہوں۔ نہ نعمتوں والے فنا ہوں نہ نعمتیں ان سے چھنیں نہ یہ نعمتوں سے الگ کئے جائیں۔ نہ موت ہے نہ خاتمہ ہے نہ آخر ہے نہ ٹوٹنا اور کم ہونا ہے اللہ رب العالمین جواد و کریم برورحیم سے التجا ہے کہ وہ مالک ہمیں بھی اہل جنت کے زمرے میں شامل کرے اور انہیں کے ساتھ ہمارا حشر کرے۔ آمین۔