یہ سب رسول (جو ہم نے مبعوث فرمائے) ہم نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، ان میں سے کسی سے اﷲ نے (براہِ راست) کلام فرمایا اور کسی کو درجات میں (سب پر) فوقیّت دی (یعنی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جملہ درجات میں سب پر بلندی عطا فرمائی)، اور ہم نے مریم کے فرزند عیسٰی (علیہ السلام) کو واضح نشانیاں عطا کیں اور ہم نے پاکیزہ روح کے ذریعے اس کی مدد فرمائی، اور اگر اﷲ چاہتا تو ان رسولوں کے پیچھے آنے والے لوگ اپنے پاس کھلی نشانیاں آجانے کے بعد آپس میں کبھی بھی نہ لڑتے جھگڑتے مگر انہوں نے (اس آزادانہ توفیق کے باعث جو انہیں اپنے کئے پر اﷲ کے حضور جواب دہ ہونے کے لئے دی گئی تھی) اختلاف کیا پس ان میں سے کچھ ایمان لائے اور ان میں سے کچھ نے کفر اختیار کیا، (اور یہ بات یاد رکھو کہ) اگر اﷲ چاہتا (یعنی انہیں ایک ہی بات پر مجبور رکھتا) تو وہ کبھی بھی باہم نہ لڑتے، لیکن اﷲ جو چاہتا ہے کرتا ہے،
English Sahih:
Those messengers – some of them We caused to exceed others. Among them were those to whom Allah spoke, and He raised some of them in degree. And We gave Jesus, the son of Mary, clear proofs, and We supported him with the Pure Spirit [i.e., Gabriel]. If Allah had willed, those [generations] succeeding them would not have fought each other after the clear proofs had come to them. But they differed, and some of them believed and some of them disbelieved. And if Allah had willed, they would not have fought each other, but Allah does what He intends.
1 Abul A'ala Maududi
یہ رسول (جو ہماری طرف سے انسانوں کی ہدایت پر مامور ہوئے) ہم نے ان کو ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر مرتبے عطا کیے ان میں کوئی ایسا تھا جس سے خدا خود ہم کلام ہوا، کسی کو اس نے دوسری حیثیتوں سے بلند درجے دیے، اور آخر میں عیسیٰ ابن مریمؑ کو روشن نشانیاں عطا کیں اور روح پاک سے اس کی مدد کی اگر اللہ چاہتا، تو ممکن نہ تھا کہ اِن رسولوں کے بعد جو لوگ روشن نشانیاں دیکھ چکے تھے، وہ آپس میں لڑتے مگر (اللہ کی مشیت یہ نہ تھی کہ وہ لوگوں کو جبراً اختلاف سے روکے، اس وجہ سے) انہوں نے باہم اختلاف کیا، پھر کوئی ایمان لایا اور کسی نے کفر کی راہ اختیار کی ہاں، اللہ چاہتا، تو وہ ہرگز نہ لڑتے، مگر اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے
2 Ahmed Raza Khan
یہ رسول ہیں کہ ہم نے ان میں ایک کو دوسرے پر افضل کیا ان میں کسی سے اللہ نے کلام فرمایا اور کوئی وہ ہے جسے سب پر درجوں بلند کیا اور ہم نے مریم کے بیٹے عیسیٰ کو کھلی نشانیاں دیں اور پاکیزہ روح سے اس کی مدد کی اور اللہ چاہتا تو ان کے بعد والے آپس میں نہ لڑتے نہ اس کے کہ ان کے پاس کھلی نشانیاں آچکیں لیکن وہ مختلف ہوگئے ان میں کوئی ایمان پر رہا اور کوئی کافر ہوگیا اور اللہ چاہتا تو وہ نہ لڑتے مگر اللہ جو چاہے کرے
3 Ahmed Ali
یہ سب رسول ہیں ہم نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے بعض وہ ہیں جن سے الله نے کلام فرمائی اور بعضوں کے درجے بلند کیے اور ہم نے عیسیٰ مریم کے بیٹے کو صریح معجزے دیے تھے اور اسے روح القدس کے ساتھ قوت دی تھی اور اگر الله چاہتا تو وہ لوگ جو ان پیغمبروں کے بعد آئے وہ آپس میں نہ لڑتے بعد اس کے کہ ان کے پاس صاف حکم پہنچ چکے تھے لیکن ان میں اختلاف پیدا ہو گیا پھر کوئی ان میں سے ایمان لایا اور کوئی کافر ہوا اور اگر الله چاہتا تو وہ آپس میں نہ لڑتے لیکن الله جو چاہتا ہے کرتا ہے
4 Ahsanul Bayan
یہ رسول ہیں جن میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے (١) ان میں سے بعض وہ ہیں جن سے اللہ تعالٰی نے بات چیت کی ہے اور بعض کے درجے بلند کئے ہیں، اور ہم نے عیسیٰ بن مریم کو معجزات عطا فرمائے اور روح القدس سے ان کی تائید کی (٢) اگر اللہ تعالٰی چاہتا تو ان کے بعد والے اپنے پاس دلیلیں آجانے کے بعد ہرگز آپس میں لڑائی بھڑائی نہ کرتے، لیکن ان لوگوں نے اختلاف کیا، ان میں سے بعض تو مومن ہوئے اور بعض کافر، اور اگر اللہ تعالٰی چاہتا تو یہ آپس میں نہ لڑتے (٣) لیکن اللہ تعالٰی جو چاہتا ہے کرتا ہے۔
٢٥٣۔١ قرآن نے ایک دوسرے مقام پر بھی اسے بیان کیا ہے ( وَلَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِيّٖنَ عَلٰي بَعْضٍ) 17۔ الاسراء;55)"ہم نے بعض نبیوں کو بعض پر فضیلت عطا کی ہے اس لئے اس حقیقت میں تو کوئی شک نہیں۔ البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ((لا تخیرونی من بین الأنبیآء(صحیح بخاری کتاب التفسیر سورۃ الاعراف، باب۱۳۵۔ مسلم کتاب الفضائل موسی) تم مجھے انبیاء کے درمیان فضیلت مت دو تو اس سے ایک کی دوسرے پر فضیلت کا انکار لازم نہیں آتا بلکہ یہ امت کو انبیاء علیہ السلام کی بابت ادب اور احترام سکھایا گیا ہے کہ تمہیں چونکہ تمام باتوں اور ان امتیازات کا جن کی بنا پر انہیں ایک دوسرے پر فضیلت حاصل ہے پوار علم نہیں ہے اس لیے تم میری فضیلت بھی اس طرح بیان نہ کرنا اس سے دوسرے انبیاء کی کسر شان ہو۔ ورنہ بعض نبیوں پر فضیلت اور اور تمام پیغمبروں پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت و اشرفیت مسلمہ اور اہل سنت کا متفقہ عقیدہ ہے جو کتاب و سنت سے ثابت ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے (فتح القدیر) ٢٥٣۔٢ مراد وہ معجزات ہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دئیے گئے تھے مثلاً احیائے موتیٰ (مُردوں کو زندہ کرنا) وغیرہ جس کی تفصیل سورۃ آل عمران میں آئے گی۔ روح القدوس سے مراد حضرت جبرائیل ہیں جیسا کہ پہلے بھی گزر چکا ہے۔ ٢٥٣۔٣ اس مضموں کو اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں کئی جگہ بیان فرمایا۔ مطلب اس کا یہ نہیں ہے کہ اللہ کے نازل کردہ دین میں اختلاف پسندیدہ ہے یا اللہ کو ناپسند ہے اس کی پسند (رضا) تو یہ ہے کہ تمام انسان اس کی نازل کردہ شریعت کو اپنا کر جہنم سے بچ جائیں اس لئے اس نے کتابیں اتاریں انبیاء علیہ السلام کا سلسلہ قائم کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر رسالت کا خاتمہ فرما دیا۔ تاہم اس کے بعد بھی خلفاء اور علماء دعوت کے ذریعے سے دعوت حق اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا سلسلہ جاری رکھا گیا اور اس کی سخت اہمیت وتاکید بیان فرمائی گئی کس لیے اسی لیے تاکہ لوگ اللہ کے پسندیدہ راستے کو اختیار کریں لیکن چونکہ اس نے ہدایت اور گمراہی دونوں راستوں کی نشان دہی کر کے انسانوں کو کوئی ایک راستہ اختیار کرنے پر مجبور نہیں کیا ہے بلکہ بطور امتحان اسے اختیار اور ارادہ کی آزادی سے نوازا ہے اس لیے کوئی اس اختیار کا صحیح استعمال کر کے مومن بن جاتا ہے اور کوئی اس اختیار وآزادی کا غلط استعمال کر کے کافر یہ گویا اس کی حکمت ومشیت ہے جو اس کی رضا سے مختلف چیز ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
یہ پیغمبر (جو ہم وقتاً فوقتاً بھیجتے رہیں ہیں) ان میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ بعض ایسے ہیں جن سے خدا نے گفتگو فرمائی اور بعض کے (دوسرے امور میں) مرتبے بلند کئے۔ اور عیسیٰ بن مریم کو ہم نے کھلی ہوئی نشانیاں عطا کیں اور روح القدس سے ان کو مدد دی۔ اور اگر خداچاہتا تو ان سے پچھلے لوگ اپنے پاس کھلی نشانیاں آنے کے بعد آپس میں نہ لڑتے لیکن انہوں نے اختلاف کیا تو ان میں سے بعض تو ایمان لے آئے اور بعض کافر ہی رہے۔ اور اگر خدا چاہتا تو یہ لوگ باہم جنگ و قتال نہ کرتے۔ لیکن خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے
6 Muhammad Junagarhi
یہ رسول ہیں جن میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، ان میں سے بعض وه ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے بات چیت کی ہے اور بعض کے درجے بلند کئے ہیں، اور ہم نے عیسیٰ بن مریم کو معجزات عطا فرمائے اور روح القدس سے ان کی تائید کی۔اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ان کے بعد والے اپنے پاس دلیلیں آجانے کے بعد ہرگز آپس میں لڑائی بھڑائی نہ کرتے، لیکن ان لوگوں نے اختلاف کیا، ان میں سے بعض تو مومن ہوئے اور بعض کافر، اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو یہ آپس میں نہ لڑتے، لیکن اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
یہ سب پیغمبر ہیں جن میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ ان میں سے بعض وہ ہیں جن سے خدا نے کلام کیا اور ان میں سے بعض کے درجے بلند کئے۔ اور ہم نے عیسیٰ بن مریم کو کئی معجزے دیئے۔ اور روح القدس کے ذریعہ سے ان کی تائید کی اور اگر خدا (جبراً) چاہتا تو ان (پیغمبروں) کے بعد آنے والے لوگ اپنے پاس معجزے آجانے کے بعد آپس میں نہ لڑتے۔ لیکن انہوں نے آپس میں اختلاف کیا۔ پھر ان میں سے کچھ ایمان لائے اور بعض نے کفر اختیار کیا۔ اور اگر خدا (جبراً) چاہتا تو یہ لوگ آپس میں نہ لڑتے۔ مگر خدا جو چاہتا ہے وہی کرتا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
یہ سب رسول علیھ السّلاموہ ہیں جنہیں ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے. ان میں سے بعض وہ ہیں جن سے خدا نے کلام کیا ہے اور بعض کے درجات بلند کئے ہیں اور ہم نے عیسیٰ علیھ السّلام بن مریم کو کھلی ہوئی نشانیاںدی ہیں اور روح القدس کے ذریعہ ان کی تائید کی ہے. اگر خدا چاہتا تو ان رسولوں کے بعد والے ان واضح معجزات کے آجانے کے بعد آپس میں جھگڑا نہ کرتے لیکن ان لوگوں نے (خدا کے جبر نہ کرنے کی بنا پر) اختلاف کیا ہے . بعض ایمان لائے اور بعض کافر ہو گئے اور اگر خدا طے کر لیتا تو یہ جھگڑا نہ کرسکتے لیکن خدا جو چاہتا ہے وہی کرتا ہے
9 Tafsir Jalalayn
یہ پیغمبر (جو ہم وقتاً فوقتا) بھیجتے رہے ہیں ان میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے بعض ایسے ہیں جن سے خدا نے گفتگو فرمائی اور بعض کے (دوسرے امور میں) مرتبے بلند کئے اور عیسیٰ بن مریم کو ہم نے کھلی ہوئی نشانیاں عطا کیں اور روح القدس سے ان کو مدد دی اور اگر خدا چاہتا تو ان سے پچھلے لوگ اپنے پاش کھلی نشانیاں آنے کے بعد آپس میں نہ لڑتے لیکن انہوں نے اختلاف کیا تو ان میں سے بعض ایمان لے آئے اور بعض کافر ہی رہے اور اگر خدا چاہتا تو یہ لوگ باہم جنگ و قتال نہ کرتے لیکن خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے آیت نمبر ٢٥٣ ترجمہ : یہ حضرات مرسلین (کی جماعت) ایسی ہے کہ ہم نے ان میں سے بعض کو بعض پر فوقیت بخشی۔ تِلْکَ موصوف، الُّرسلُ صفت، موصوف باصفت مبتداء، فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ علیٰ بَعْضٍ اس کی خبر، ان میں سے بعض کو ایسی منقبت کے ساتھ خاص کرکے کہ جو دوسروں کو حاصل نہیں تھی، ان میں بعض ایسے ہیں کہ اللہ (بلاواسطہ) ان سے ہم کلام ہوا جیسا کہ موسیٰ (علیہ السلام) اور ان میں سے بعض یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بدر جہا دوسروں پر فوقیت بخشی (جن و انس کے لیے آپ کی) دعوت کے عام ہونے کی وجہ سے اور آپ پر (سلسلہ) نبوت کے ختم ہونے کی وجہ سے اور آپ کی امت کو دیگر تمام امتوں پر فضیلت دینے کی وجہ سے، اور معجزات کثیرہ کی وجہ سے اور (دیگر) متعدد خصوصیات کی وجہ سے، اور ہم نے عیسیٰ بن مریم کو کھلے معجزات عطا کئے، اور ہم نے اس کو روح القدس (یعنی جبرئیل) کے ذریعہ تقویت دی، کہ (جبرئیل) ان کے ساتھ چلتے تھے جہاں وہ جاتے تھے، اگر اللہ کو تمام لوگوں کی ہدایت منظور ہوتی تو وہ لوگ جو رسولوں کے بعد ہوئے یعنی ان کی امتیں، ان کے اختلاف اور بعض کے بعض کو گمراہ قرار دینے کی وجہ سے، باہم قتل و قتال نہ کرتے، بعد اس کے کہ پاس دلائل پہنچ چکے تھے، لیکن وہ لوگ مشیت الہیٰ کے سبب سے باہم مختلف ہوئے، سو ان میں سے بعض ایمان لائے یعنی اپنے ایمان پر قائم رہے، اور بعض کافر ہوئے جیسا کہ مسیح (علیہ السلام) کے بعد نصاری، اور اگر اللہ کو منظور ہوتا تو وہ باہم اختلاف نہ کرتے یہ (ماقبل کی) تاکید ہے لیکن اللہ جو چاہتا ہے وہی کرتا ہے۔ جس کو چاہتا ہے (خیر کی) توفیق دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے رسوا کرتا ہے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : تَلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلیٰ بَعْضٍ اگر تِلْکَ کا مشار الیہ جماعت انبیاء مذکورین ہیں جو اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ میں یا پوری سورت میں مذکور ہوئے ہیں تو ” اَلرُّسُلُ “ پر الف لام عہد کا ہوگا۔ اور اگر جمیع انبیاء مراد ہیں تو الف لام استغراق کا ہوگا۔ سوال : تِلْکَ ، اسم اشارہ بعیدہ کا استعمال کرنے میں کیا مصلحت ہے ؟ جواب : یا تو بعد زمانی کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے یا پھر عند اللہ عُلوِ مراتب کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے۔ قولہ : صفۃٌ مفسر علام نے ” الرُسُلُ “ کو ” تلک “ کی صفت قرار دیا ہے اور موصوف صفت سے مل کر مبتداء ہے ” الرسل “ سے عطف بیان اور بدل بھی ہوسکتا ہے اس لیے کہ مشار الیہ پر جب الف لام داخل ہوتا ہے تو اس کا صفت اور عطف بیان اور بدل تینوں واقع ہونا درست ہوتا ہے۔ قولہ : فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلیٰ بَعْضٍ ، تِلْکَ ، مبتداء کی خبر ہے، جیسا کہ مفسر علام نے فرمایا ہے۔ سوال : اَلرُّسُلُ کو خبر اول اور فَضّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلیٰ بَعْضٍ کو خبر ثانی قرار دینے کی میں کیا قطاحت ہے ؟ جواب : خبر میں اصل چونکہ تنکیر ہے اور اَلرُّسُلُ ، معرفہ ہے اس لئے الرُّسُلُ کو خبر قرار نہیں دیا۔ سوال : دَرَجات، مے منصوب ہونے کی کیا وجہ ہے ؟ جواب : یا تو مصدر یۃ کی وجہ سے منصوب ہے اس لیے کہ درجات رفعۃً کے معنی میں ہے۔ ای رَفَعَ رفعۃً ، یا رَفَعَ متعدی بالیٰ یا بعلیٰ یا بفی تھا حرف جر کو حذف کردیا جس کی وجہ سے منصوب بنزع الخافض ہوگیا۔ قولہ : بِمَنْقَبَۃٍ ، میم کے فے حہ کے ساتھ، ما یُفْخربہٖ ، (یعنی مفاخر و محاسن) ۔ قولہ : ھَدَی الناس جمیعًا۔ اس عبارت کے اضافہ کا مقصد یہ بتانا ہے کہ، لَوْشاء فعل متعدی ہے اور مفعول اس کا محذوف ہے۔ سوال : ظاہر اور متبادر یہ ہے کہ مشیئۃ کا مفعول وہ ہوتا ہے جو جزاء سے مفہوم و مستفاد ہوتا ہے (کما فی کتب المعانی) جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے قول ” لَوْشَآءَ اللہُ لَھَدَاکُمْ “ میں۔ اس کی تقدیر ” لَوْشَآءَ اللہُ ھِدَایَتَکُمْ لَھَدَاکُمْ “ ہے مفعول کو جزاء سے مستفاد ہونے کی وجہ سے حذف کردیا گیا ہے، اور وہ ” ھدایتکم “ ہے اس قاعدہ کی روشنی میں تقدیر عبارت یہ ہونی چاہیے، ” لَوْ شَآءَ اللہُ عدمَ القتال مَا اقْتَتَلُوْا “ مگر مفسرعلام نے جزاء سے غیر مفہوم مفعول محذوف مانا ہے جو کہ ھَدَی الناسَ جمیعا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ مفسر علام مذکورہ قاعدہ سے اس جگہ متفق نہیں ہیں، اس میں کیا نکتہ ہے ؟ نکتہ جواب : جزاء جو کہ مَااقْتَتَلَ ہے، سے جو مفعول مستفاد ہو رہا ہے وہ عدم القتال ہے، اور معدوم شئ سے مشیت اور ارادہ متعلق نہیں ہوتے بلکہ عدم کے لیے ارادہ وجود کا عدم تعلق کافی ہوتا ہے اسی نکتہ کے پیش نظر مفسر علام نے جزاء سے مفہوم کے علاوہ مفعول محذوف مانا ہے۔ قولہ : بَعْدَ الرُّسُلِ ، اس اضافہ کا مقصد، ھُمْ ، ضمیر کے مرجع کی وضاحت ہے۔ قولہ : ای اممھم یہ اَلَّذِین کی تفسیر ہے۔ قولہ : مِنْ بعدِ مَا جَآءَتْھُمْ الْبَیِّنٰتُ ، مِنْ بِعدِھِمْ سے بدل ہے۔ قولہ : لِاِختِلافِھِمْ ، اس کا تعلق اِقْتَتَلَ سے ہے۔ قولہ : ثَبَتَ علیٰ اِیْمَانِہٖ ، آمَنَ کی تفسیر ثَبَتَ ے کرکے اشارہ کردیا کہ ایمان تو اختلاف سے قبل ہی موجود تھا۔ اختلاف کے بعد اس پر قائم رہے۔ اللغۃ والبلاغۃ ورَفَعَ بَعْضَھُمْ دَرَجَاتٍ ، یہاں فن ابہام کا استعمال کیا گیا ہے، اس میں اشارہ جامع کمالات اور خاتم نبوت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ہے، شہرت اور تعین کی وجہ سے مبہم رکھ گیا ہے، الابھام ابلغ من الایضاح، زمخشری نے یہاں یہ نکتہ أدب و بلاغت خوب لکھا ہے کہ جہاں شناخت و تعین میں کوئی دقت نہ ہو وہاں کنایہ اور ابہام، صراحت و تفصیل سے بلیغ ومؤثر ہوتا ہے، سُئِلَ الحطیئۃ : مَنْ اَشْعر الناس ؟ فذکر زھیراً وَالنابغۃ، ثم قال : ولو شئت لذکرتُ الثالث، اَرادَ نفسہٗ ، ولو صرّح بذلک لم یکن بھذہ المثابۃ من الفخمیۃ۔ (اعراب القرآن للدرویش) تفسیر و تشریح ربط : تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُہْ عَلیٰ بَعْضٍ ، واِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْن، آپ بھی منجملہ پیغمبروں کے ایک ہیں اس سے شبہ ہوسکتا تھا کہ شاید آپ کی نبوت بھی گزشتہ پیغمبروں کی طرف وقتی اور علاقائی ہو اور مدارج و مراتب بھی ان کے مثل ہوں، اس شبہ کو دور کرنے کے لیے آپ کی فضیلت کو بڑے شدومد کے ساتھ تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلیٰ بَعْضٍ ، سے بیان فرمایا۔ انبیاء (علیہم السلام) میں باہم تفاضل : جن انبیاء اور رسولوں کا ذکر قرآن میں ہوا ہے سب ایک مرتبہ کے نہ تھے اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ” تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلیٰ بَعْضْ “ ہم نے بعض انبیاء کو بعض پر فضیلت دی، قرآن میں سورة بنی اسرائیل میں بھی اسی مضمون کو ” وَلَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِیِّیْنَ علیٰ بَعْضٍ “ سے بیان فرمایا۔ اس لیے اس حقیقت میں تو کوئی شک نہیں کہ انبیاء میں بعض بعض سے افضل تھے، البتہ فَضّلْنَا کی ضمیر متکلم قابل لحاظ ہے کہ یہ فضیلت اور افضلیت محض عند اللہ ہے خلق کے لیے بحیثیت مطاع سب یکساں ہیں، اطاعت اور تعظیم سب کو واجب ہے، اسی مفہوم کو ایک دوسری آیت جو اسی سورت کے آخر میں اسی پارہ میں ادا کرتی ہے ” لَانُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مَنْ رُّسُلِہٖ “ (ابن کثیر نے کہا ہے) لیس مقام التفضیل الیکم انما ھو الی اللہ عزوجل وعلیکم الانقیاد والتسلیم لہ والایمان بہ (ابن کثیر) ۔ مدارج کے باب میں عوام کو بحث و گفتگو جائز نہیں، البتہ تقابل کے بغیر ان کے مقامات واحوال و واقعات و فضائل ذکر نے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ سوال : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” لاتخیرونی من بین الانبیاء “ (بخاری کتاب التفسیر سورة الاعراف، مسلم شریف کتاب الفضائل باب من فضائل موسیٰ ) تم مجھے انبیاء (علیہم السلام) کے درمیان فضیلت مت دو ۔ اس سے تفاضل کی ممانعت معلوم ہوتی ہے۔ پہلا جواب : اس سے فضیلت سے انکار لازم نہیں آتا، بلکہ اس سے امت کو انبیاء (علیہم السلام) کی بابت ادب و احترام سکھایا گیا ہے کہ تمہیں چونکہ تمام باتوں اور ان امتیازات کا جن کی بنا پر انہیں ایک دوسرے پر فضیلت حاصل ہے پورا علم نہیں ہے، اس لیے تم میری فضیلت بھی اس طرح بیان نہ کرنا کہ اس سے دوسرے انبیائ کی کسر شان ہو، ورنہ بعض انبیاء کی بعض پر اور تمام انبیاء پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فضیلت اور شرافت مسلم اور اہل سنت کا متفقہ عقیدہ ہے جو نصوص کتاب و سنت سے ثابت ہے۔ دوسرا جواب : فضل جزئی سے فضل کلی لازم نہیں آتا مثلاً سلیمان (علیہ السلام) کو ملک میں، ایوب (علیہ السلام) کو صبر میں، یوسف (علیہ السلام) کو حسن میں، عیسیٰ (علیہ السلام) کو تائید روح القدس میں، موسیٰ (علیہ السلام) کو کلام میں، ابراہیم (علیہ السلام) کو خلت میں فضیلت حاصل ہے، مگر بعض وہ ہیں کہ جن کو فضل کلی اور رفعت کامل حاصل ہے اور یہ مقام خاص ہمارے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ہے۔ ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ چند اصحاب آپس میں گفتگو کر رہے تھے ایک نے کہا ابراہیم (علیہ السلام) خلیل اللہ ہیں دوسرے نے کہا، آدم صفی اللہ ہیں، تیسرے نے کہا عیسیٰ کلمۃ اللہ اور روح اللہ ہیں، بعض نے کہا موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کلیم اللہ ہیں، اچانک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے، اور فرمایا میں نے تمہاری گفتگو سنی بیشک یہ حضرات ایسے ہی تھے ” اَلا واَنا حبیب اللہ ولا فخر “ میں اللہ کا محبوب ہوں اور میں یہ فخر یہ نہیں کہتا۔ (مظہری، بحوالہ خلاصۃ التفاسیر ملخصا) سوال : حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے خصوصیت سے ذکر کرنے میں کیا مصلحت ہے ؟ جواب : اس میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی فضیلت اور یہود کی تردید ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو نبی نہیں مانتے بلکہ آپ کی شان میں ناشائستہ کلمات کہتے ہیں۔ سوال : قرآن میں بہت سے انبیاء کا ذکر ہے مگر کسی کا فلاں ابن فلاں کہہ کر ذکر نہیں ہے مگر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر عیسیٰ ابن مریم سے کیا ہے اس میں کیا مصلحت ہے ؟ جواب : اس میں نصاریٰ کے عقیدہ کی تردید ہے کہ عیسیٰ نہ خود اللہ ہیں اور نہ ابن اللہ بلکہ عیسیٰ ابن مریم ہیں جس طرح دیگر انسان اپنی ماؤں کے پیٹ سے پیدا ہوتے ہیں عیسیٰ بھی مریم عذراء کے پیٹ سے پیدا ہوئے۔ خلاصہ تفسیر : خلاصہ یہ ہے کہ رسولوں کے ذریعہ علم حاصل ہوجانے کے بعد جو اختلافات لوگوں کے درمیان رونما ہوئے اور اختلاف سے بڑھ کر لڑائیوں تک نوبتیں پہنچیں، تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ معاذ اللہ خدا بےبس تھا اور اس کے پاس ان اختلافات اور لڑائیوں کو روکنے کی طاقت نہیں تھی۔ اگر وہ چاہتا تو کسی کی مجال نہ تھی کہ انبیاء کی دعوت سے سرتابی کرسکتا، اور کفر و بغاوت کی راہ چل سکتا، اور اس کی زمین میں فساد برپا کرسکتا، مگر اس کی مشیت یہ تھی ہی نہیں کہ انسانوں سے ارادہ کی آزادی چھین لے اور انہیں ایک خاص روش پر چلنے کے لیے مجبور کر دے، اس نے انھیں امتحان کی غرض سے زمین پر پیدا کیا تھا، اس لیے اس نے ان کو اعتقاد و عمل کی راہوں میں انتخاب کی آزادی عطا کی اور انبیاء کو لوگوں پر کو توال بنا کر نہیں بھیجا کہ زبردستی انھیں ایمان وطاعت کی طرف کھینچ لائیں، بلکہ اس لیے بھیجا کہ دلائل و بینات سے لوگوں کو راستی کی طرف بلانے کی کوشش کریں، پس جس قدر اختلافات اور لڑائیوں کے ہنگامے ہوئے وہ سب اس وجہ سے ہوئے کہ اللہ نے لوگوں کو ارادے کی جو آزادی عطاء کی تھی اس سے کام لے کر لوگوں نے یہ مختلف راہیں اختیار کیں نہ اس وجہ سے کہ اللہ ان کو راستی پر چلانا چاہتا تھا مگر معاذ اللہ اسے کامیابی نہیں ہوئی جیسا کہ معتزلہ کا عقیدہ ہے
10 Tafsir as-Saadi
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بعض رسولوں کو دوسروں پر فضیلت عطا فرمائی ہے۔ پہلے تو انہیں تمام لوگوں پر فضیلت عطا فرمائی کہ ان کی طرف وحی نازل کر کے انہیں دوسروں کی طرف مبعوث فرمایا اور انہوں نے مخلوق کو اللہ کی طرف بلایا۔ پھر انہیں ایک دوسرے پر فضیلت دی کہ ان میں درست افعال اور لوگوں کو نفع پہنچانے جیسی خاص خوبیاں دیں۔ چنانچہ موسیٰ کو ہم کلام ہونے کا خاص شرف عطا فرمایا اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دوسرے انبیاء سے افضل بنایا اور آپ میں وہ تمام فضائل جمع فرما دیئے جو دوسرے رسولوں کو الگ الگ ملے تھے اور آپ کو ایسے مناقب بخشے جن کی وجہ سے آپ اولین اور آخرین سے اشرف قرار پائے۔ ﴿وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ﴾” اور ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو معجزات عطا فرمائے۔“ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ اللہ کے بندے، اس کے رسول اور مریم کی طرف نازل ہونے والا اللہ کا کلمہ اور اس کی طرف سے آنے والی ایک روح ہیں۔﴿ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ﴾” اور روح القدس سے ہم نے ان کی تائید کی۔“ اس سے مراد ایمان اور یقین ہے جس کے ذریعے سے ان کو وہ فریضہ انجام دینے کی طاقت حاصل ہوئی، جو آپ پر عائد کیا گیا تھا۔ ایک قول کے مطابق روح القدس سے مراد جبرئیل ہیں، جو ہر وقت آپ کے ساتھ رہتے تھے۔﴿ وَلَوْ شَاءَ اللَّـهُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِينَ مِن بَعْدِهِم مِّن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ﴾ ” اور اگر اللہ چاہتا تو ان کے بعد والے اپنے پاس دلیلیں آجانے کے بعد ہرگز آپس میں لڑائی بھڑائی نہ کرتے۔“ بلکہ ان دلائل کی وجہ سے سب مومن اور متحد ہوجاتے۔﴿ وَلَـٰكِنِ اخْتَلَفُوا فَمِنْهُم مَّنْ آمَنَ وَمِنْهُم مَّن كَفَرَ ۚ﴾” لیکن ان لوگوں نے اختلاف کیا۔ ان میں سے بعض تو مومن ہوئے اور بعض کافر۔“ پس اختلاف کے نتیجے میں افتراق، دشمنی اور لڑائی ہوئی۔ اس کے باوجود اگر اللہ چاہتا تو اختلاف کے باوجود لڑائی تک نوبت نہ پہنچتی۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کی مرضی اسباب پر غالب ہے۔ اسباب کا فائدہ تبھی ہوتا ہے جب مشیت اس کے برعکس نہ ہو۔ جب مشیت آجائے تو ہر سبب کالعدم ہوجاتا ہے۔ اس لئے فرمایا﴿ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ﴾” لیکن اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔“ اس کا ارادہ غالب ہے، اس کی مرضی پوری ہو کر رہتی ہے۔ اس آیت اور اس جیسی دیگر آیات میں اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ ازل سے اپنی مشیت اور حکمت کے تقاضوں کے مطابق جو چاہتا ہے کرتا ہے اور وہ جو کچھ کرتا ہے اس میں سے بعض کا ذکر قرآن و حدیث میں موجود ہے مثلاً استوا، نزول، کلام اور وہ افعال جنہیں ” افعال اختیاریہ“ کہا جاتا ہے۔ فائدہ : جس طرح اللہ کی پہچان حاصل کرنا فرض ہے۔ اسی طرح رسولوں کے بارے میں علم حاصل کرلینا بھی ضروری ہے، ان کی لازمی صفات کیا ہیں، کیا کچھ ان کے لئے محال ہے اور کیا کچھ ممکن ہے۔ ان امور کا علم قرآن مجید کی متعدد آیات سے ہوتا ہے۔ مثلاً رسول مرد ہیں عورتیں نہیں، وہ بستیوں میں رہنے والوں میں سے مبعوث ہوئے ہیں، خانہ بدوشوں میں سے نہیں۔ وہ اللہ کے منتخب اور پسندیدہ بندے ہوتے ہیں، ان میں ایسی خوبیاں موجود ہوتی ہیں جو انہیں اس انتخاب کا اہل بنا دیتی ہیں۔ ان میں کوئی ایسی خرابی نہیں ہوتی جو منصب رسالت کے منافی ہو۔ مثلاً جھوٹ، خیانت، حق کو چھپانا اور قابل نفرت جسمانی عیوب، ان سے اگر کوئی ایسی فروگزاشت ہوجائے جو منصب رسالت سے متعلق ہو، تو فوراً اصلاح کردی جاتی ہے۔ اللہ نے انہیں وحی کے لئے مخصوص فرمایا ہے اس لئے ان پر ایمان لانا اور ان کی اطاعت کرنا فرض ہے۔ جو شخص کسی نبی پر تنقید کرے یا اس کی شان میں گستاخی کرے، وہ کافر ہوجاتا ہے اور اسے قتل کرنا واجب ہوجاتا ہے۔ ان تمام مسائل کے دلائل بہت زیادہ ہیں جو شخص قرآن مجید میں غور و فکر کرے گا اس پر حق واضح ہوجائے گا۔
11 Mufti Taqi Usmani
yeh payghumber jo hum ney ( makhlooq ki islaah kay liye ) bhejay hain , inn ko hum ney aik doosray per fazilat ata ki hai . inn mein say baaz woh hain jinn say Allah ney kalam farmaya , aur inn mein say baaz ko uss ney badarjaha bulandi ata ki . aur hum ney essa ibn-e-maryam ko khuli nishaniyan den , aur rooh-ul-qudus say unn ki madad farmaee . aur agar Allah chahta to unn kay baad walay log apney paas roshan dalaeel aajaney kay baad aapas mein naa larrtay , lekin unhon ney khud ikhtilaf kiya , chunacheh unn mein say kuch woh thay jo emaan laye , aur kuch woh jinhon ney kufr apnaya . aur agar Allah chahta to woh aapas mein naa larrtay , lekin Allah wohi kerta hai jo woh chahta hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
ذِکر مدارج الانبیاء یہاں یہ وضاحت ہو رہی ہے کہ رسولوں میں بھی مراتب ہیں، جیسا اور جگہ فرمایا ولقد فضلنا بعض النبیین علی بعض و اتینا داؤد زبورا ہم نے بعض نبیوں کو بعض پر فضیلت دی اور حضرت داؤد کو ہم نے زبور دی، یہاں بھی اسی کا ذکر کرکے فرماتا ہے ان میں سے بعض کو شرف ہم کلامی بھی نصیب ہوا جیسا حضرت موسیٰ اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت آدم۔ صحیح ابن حبان میں حدیث ہے جس میں معراج کے بیان کے ساتھ یہ بھی وارد ہوا ہے کہ کسی نبی کو آپ نے الگ الگ کس آسمان میں پایا جو ان کے مرتبوں کے کم و بیش ہونے کی دلیل ہے، ہاں ایک حدیث میں ہے کہ ایک مسلمان اور یہودی کی کچھ بات چیت ہوگئی تو یہودیوں نے کہا قسم ہے اس اللہ کی جس نے موسیٰ کی تمام جہان والوں پر فضیلت دی تو مسلمان سے ضبط نہ ہوسکا، اس نے اٹھا کر ایک تھپڑ مارا اور کہا خبیث کیا ہمارے نبی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی وہ افضل ہیں ؟ یہودی نے سرکار نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں آکر اس کی شکایت کی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے نبیوں پر فضیلت نہ دو ، قیامت کے دن سب بیہوش ہونگے سب سے پہلے میں ہوش میں آؤں گا تو دیکھوں گا کہ حضرت موسیٰ اللہ تعالیٰ کے عرش کا پایہ تھامے ہوئے ہوں گے، مجھے نہیں معلوم کہ وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آگئے یا سرے سے بیہوش ہی نہیں ہوئے تھے ؟ اور طور کی بیہوشی کے بدلے یہاں کی بیہوشی سے بچا لئے گئے، پس مجھے نبیوں پر فضیلت نہ دو ، ایک اور روایت میں ہے کہ پیغمبروں کے درمیان فضیلت نہ دو ، پس یہ حدیث بظاہر قرآن کریم کی اس آیت کے خلاف معلوم ہوتی ہے لیکن دراصل کوئی تعارض نہیں، ممکن ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان اس سے پہلے ہو کہ آپ کو فضیلت کا علم نہ ہوا ہو، لیکن یہ قول ذرا غور طلب ہے، دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ آپ نے محض تواضع اور فروتنی کے طور پر فرمایا ہے نہ کہ حقیقت کے طور پر، تیسرا جواب یہ ہے کہ ایسے جھگڑے اور اختلاف کے وقت ایک کو ایک پر فضیلت دینا دوسرے کی شان گھٹانا ہے اس لئے آپ نے منع فرما دیا، چوتھا جواب یہ ہے کہ تم فضیلت نہ دو یعنی صرف اپنی رائے، اپنے خیال اور اپنے ذہنی تعصب سے اپنے نبی کو دوسرے نبی پر فضیلت نہ دو ، پانچواں جواب یہ ہے کہ فضیلت و تکریم کا فیصلہ تمہارے بس کا نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے وہ جسے فضیلت دے تم مان لو، تمہارا کام تسلیم کرنا اور ایمان لانا ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ ہم نے حضرت عیسیٰ کو واضح دلیلیں اور پھر ایسی حجتیں عطا فرمائی تھیں جن سے بنی اسرائیل پر صاف واضح ہوگیا کہ آپ کی رسالت بالکل سچی ہے اور ساتھ ہی آپ کی یہ حیثیت بھی واضح ہوگئی کہ مثل اور بندوں کے آپ بھی اللہ تعالیٰ کے عاجز بندے اور بےکس غلام ہیں، اور روح القدس یعنی حضرت جبرائیل سے ہم نے ان کی تائید کی۔ پھر فرمایا کہ بعد والوں کے اختلاف بھی ہمارے قضا و قدر کا نمونہ کا نمونہ ہیں، ہماری شان یہ ہے کہ جو چاہیں کریں، ہمارے کسی ارادے سے مراد جدا نہیں۔