البقرہ آية ۲۵۶
لَاۤ اِكْرَاهَ فِى الدِّيْنِ ۗ قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَىِّ ۚ فَمَنْ يَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَيُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰى لَا انْفِصَامَ لَهَا ۗ وَاللّٰهُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ
طاہر القادری:
دین میں کوئی زبردستی نہیں، بیشک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہو چکی ہے، سو جو کوئی معبودانِ باطلہ کا انکار کر دے اور اﷲ پر ایمان لے آئے تو اس نے ایک ایسا مضبوط حلقہ تھام لیا جس کے لئے ٹوٹنا (ممکن) نہیں، اور اﷲ خوب سننے والا جاننے والا ہے،
English Sahih:
There shall be no compulsion in [acceptance of] the religion. The right course has become distinct from the wrong. So whoever disbelieves in Taghut and believes in Allah has grasped the most trustworthy handhold with no break in it. And Allah is Hearing and Knowing.
1 Abul A'ala Maududi
دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے صحیح بات غلط خیالات سے ا لگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے اب جو کوئی طاغوت کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لے آیا، اُس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا، جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں، اور اللہ (جس کا سہارا اس نے لیا ہے) سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے
2 Ahmed Raza Khan
کچھ زبردستی نہیں دین میں بیشک خوب جدا ہوگئی ہے نیک راہ گمراہی سے تو جو شیطان کو نہ مانے اور اللہ پر ایمان لائے اس نے بڑی محکم گرہ تھامی جسے کبھی کھلنا نہیں، اور اللہ سنتا جانتا ہے،
3 Ahmed Ali
دین کے معاملے میں زبردستی نہیں ہے بے شک ہدایت یقیناً گمراہی سے ممتاز ہو چکی ہے پھر جو شخص شیطان کو نہ مانے اور الله پر ایمان لائے تو اس نے مضبوط حلقہ پکڑ لیاجو ٹوٹنے والا نہیں اور الله سننے والا جاننے والا ہے
4 Ahsanul Bayan
دین کے بارے میں کوئی زبردستی نہیں، ہدایت اور دلالت سے روشن ہو چکی ہے (١) اس لئے جو شخص اللہ تعالٰی کے سوا دوسرے معبودوں کا انکار کر کے اللہ تعالٰی پر ایمان لائے اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا جو کبھی نہ ٹوٹے گا اور اللہ تعالٰی سننے والا اور جاننے والا ہے۔
٢٥٦۔١ اس کے شان نزول میں بتایا گیا ہے کہ انصار کے کچھ نوجوان یہودی اور عیسائی ہوگئے تھے پھر جب یہ انصار مسلمان ہوگئے تو انہوں نے اپنی نوجوان اولاد کو بھی جو عیسائی ہوگئے تھے زبردستی مسلمان بنانا چاہا جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ شان نزول اس عتبار سے بعض مفسرین نے اس کو اہل کتاب کے لئے خاص مانا ہے یعنی مسلمان مملکت میں رہنے والے اہل کتاب اگر وہ جزیہ ادا کرتے ہوں تو انہیں قبول اسلام پر مجبور نہیں کیا جائے گا لیکن یہ آیت حکم کے اعتبار سے عام ہے یعنی کسی پر بھی قبول اسلام کے لیے جبر نہیں کیا جائے گا کیونکہ اللہ تعالٰی نے ہدایت اور گمراہی دونوں کو واضح کر دیا ہے تاہم کفر و شرک کے خاتمے اور باطل کا زور توڑنے کے لئے جہاد ایک الگ جبر و اکراہ سے مختلف چیز ہے۔ مقصد معاشرے سے اس قوت کا زور اور دباو ختم کرتا ہے جو اللہ کے دین پر عمل اور اس کی تبلیغ کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہو تاکہ ہر شخص اپنی مرضی سے چاہے تو اپنے کفر پر قائم رہے اور چاہے تو اسلام میں داخل ہو جائے چونکہ رکاوٹ بننے والی طاقتیں رہ رہ کر ابھرتی رہیں گی اس لیے جہاد کا حکم اور اس کی ضرورت بھی قیامت تک رہے گی جیسا کہ حدیث میں ہے الجہاد ماض الی یوم القیمۃ جہاد قیامت تک جاری رہے گا خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کافروں اور مشرکوں سے جہاد کیا ہے اور فرمایا ہے امرت ان اقاتل الناس حتی یشہدوا۔ الحدیث ۔(صحیح بخاری کتاب الایمان باب فان تابوا واقاموا الصلوۃ۔) مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک جہاد کروں جب تک کہ وہ لا الہ الا اللہ اور محمد رسول اللہ کا اقرار نہ کرلیں اسی طرح سزائے ارتداد قتل سے بھی اس آیت کا کوئی ٹکروا نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگ ایسا باور کراتے ہیں کیونکہ ارتداد کی سزا قتل سے مقصود جبر و اکراہ نہیں ہے بلکہ اسلامی ریاست کی نظریاتی حیثیت کا تحفظ ہے ایک اسلامی مملکت میں ایک کافر کو اپنے کفر پر قائم رہ جانے کی اجازت تو بیشک دی جاسکتی ہے لیکن ایک بار جب وہ اسلام میں داخل ہو جائے تو پھر اس سے بغاوت وانحراف کی اجازت نہیں دی جاسکتی لہذا وہ خوب سوچ سمجھ کر اسلام لائے کیونکہ اگر یہ اجازت دے دی جاتی تو نظریاتی اساس منہدم ہو سکتی تھی جس سے نظریاتی انتشار اور فکری انارکی پھیلتی جو اسلامی معاشرے کے امن کو اور ملک کے استحکام کو خطرے میں ڈال سکتی تھی اس لیے جس طرح انسانی حقوق کے نام پر قتل چوری زنا ڈاکہ اور حرابہ وغیرہ جرائم کی اجازت نہیں دی جا سکتی اسی طرح آزادی رائے کے نام پر ایک اسلامی مملکت میں نظریاتی بغاوت (ارتداد) کی اجازت بھی نہیں دی جاسکتی یہ جبرو اکراہ نہیں ہے بلکہ مرتد کا قتل اسی طرح عین انصاف ہے جس طرح قتل وغارت گری اور اخلاقی جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو سخت سزائیں دینا عین انصاف ہے ایک کا مقصد ملک کا نظریانی تحفظ ہے اور دوسرے کا مقصد ملک کو شر و فساد سے بچانا ہے اور دونوں ہی مقصد ایک مملکت کے لیے ناگزیر ہیں آج اکثر اسلامی ممالک ان دونوں ہی مقاصد کو نظر انداز کر کے جن الجھنوں دشواریوں اور پریشانیوں سے دو چار ہیں محتاج وضاحت نہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
دین (اسلام) میں زبردستی نہیں ہے ہدایت (صاف طور پر ظاہر اور) گمراہی سے الگ ہو چکی ہے تو جو شخص بتوں سے اعتقاد نہ رکھے اور خدا پر ایمان لائے اس نے ایسی مضبوط رسی ہاتھ میں پکڑ لی ہے جو کبھی ٹوٹنے والی نہیں اور خدا (سب کچھ) سنتا اور (سب کچھ) جانتا ہے
6 Muhammad Junagarhi
دین کے بارے میں کوئی زبردستی نہیں، ہدایت ضلالت سے روشن ہوچکی ہے، اس لئے جو شخص اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرے معبودوں کا انکار کرکے اللہ تعالیٰ پر ایمان ﻻئے اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا، جو کبھی نہ ٹوٹے گا اور اللہ تعالیٰ سننے واﻻ، جاننے واﻻ ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
دین کے معاملہ میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔ ہدایت گمراہی سے الگ واضح ہو چکی ہے۔ اب جو شخص طاغوت (شیطان اور ہر باطل قوت) کا انکار کرے اور خدا پر ایمان لائے اس نے یقینا مضبوط رسی تھام لی ہے۔ جو کبھی ٹوٹنے والی نہیں ہے۔ اور خدا (سب کچھ) سننے والا اور خوب جاننے والا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
دین میں کسی طرح کا جبر نہیں ہے. ہدایت گمراہی سے الگ اور واضح ہوچکی ہے. اب جو شخص بھی طاغوت کا انکار کرکے اللہ پر ایمان لے آئے وہ اس کی مضبوط رسّی سے متمسک ہوگیا ہے جس کے ٹوٹنے کا امکان نہیں ہے اور خدا سمیع بھی ہے اور علیم بھی ہے
9 Tafsir Jalalayn
دین (اسلام) میں زبردستی نہیں ہے ہدایت (صاف) طور پر ظاہر اور گمراہی سے الگ ہوچکی ہے تو جو شخص بتوں سے اعتقاد نہ رکھے اور خدا پر ایمان لائے اس نے ایسی مضبوط رسی ہاتھ میں پکڑ لی ہے جو کچھ ٹوٹنے والی نہیں اور خدا (سب کچھ) سنتا اور جانتا ہے
لَآاِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ ، حصین انصاری نامی ایک شخص کے دو لڑکے یہودی یا نصرانی ہوگئے تھے، پھر جب انصار مسلمان ہوگئے تو انہوں نے اپنی نوجوان اولاد کو بھی جو یہودی یا نصرانی ہوگئے تھے زبردستی مسلمان بنانا چاہا جس پر یہ آیت نازل ہوئی، شان نزول کے اعتبار سے مفسرین نے اسے اہل کتاب کے لیے خاص مانا ہے یعنی اسلامی مملکت میں رہنے والے اہل کتاب اگر وہ جزیہ ادا کرتے ہوں تو انہیں قبول اسلام کے لیے مجبور نہیں کیا جائے گا لیکن یہ آیت حکم کے اعتبار سے عام ہے یعنی کسی پر بھی قبول اسلام کے لیے جبر نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت اور گمراہی دونوں کو واضح کردیا ہے کہ ہر شخص اپنی مرضی سے چاہے اپنے کفر پر قائم رہے اور چاہے اسلام میں داخل ہوجائے، تاہم کفر و شرک کے خاتمے اور باطل کا زور توڑنے کے لیے جہاد ایک الگ اور جبرواکراہ سے مختلف چیز ہے، مقصد معاشرے سے اس قوت و طاقت کا زور توڑنا ہے جو اللہ کے دین پر عمل اور اس کی تبلیغ کی راہ میں روڑا بنا ہوا ہوتا ہے چونکہ روڑا بننے والی طاقتیں رہ رہ کر ابھرتی رہیں گے اس لیے جہاد کا حکم اور اس کی ضرورت بھی قیامت تک رہے گی جیسا کہ حدیث میں ہے، ” الجھاد ماضٍ الی یوم القیامۃ “ ، جہاد قیامت تک جاری رہے گا اسی طرح سزائے ارتداد سے بھی اس آیت کا کوئی ٹکراؤ نہیں ہے، کیونکہ ارتداد کی سزائے قتل سے مقصود جبرواکراہ نہیں ہے بلکہ اسلامی ریاست کی نظریاتی حیثیت کا تحفظ ہے، ایک اسلامی ملک میں ایک کافر کو اپنے کفر پر قائم رہنے کی اجازت تو ہوسکتی ہے لیکن ایک بار جب وہ اسلام میں داخل ہوجائے تو اس کو اس سے بغاوت اور انحراف کی اجازت نہیں دی جاسکتی لہٰذا وہ خوب سوچ سمجھ کر اسلام لائے کیونکہ اگر ارتداد کی اجازت دیدی جاتی تو نظر یاتی اساس منہدم ہوسکتی تھی جس س سے نظریاتی انتشار اور فکری انار کی پھیلتی ہے جو اسلامی معاشرہ کے امن کو اور ملک کے استحکام کو خطرے میں ڈال سکتی تھی اس لیے جس طرح انسانی حقوق کے نام پر قتل، چوری، زنا، ڈاکہ وغیرہ جرائم کی اجازت نہیں دی جاسکتی اسی طرح آزادی رائے کے نام پر ایک اسلامی مملکت میں نظریاتی بغاوت (ارتداد) کی اجازت بھی نہیں دی جاسکتی یہ جبر واکراہ نہیں ہے بلکہ مرتد کا قتل اسی طرح عین انصاف ہے جس طرح قتل و غارت گری اور اخلاقی جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو سخت سزائیں دینا عین انصاف ہے ایک کا مقصد ملک کا نظریاتی تحفظ ہے اور دوسرے کا مقصد ملک کو شروفساد سے بچانا ہے اور دونوں ہی مقصد ایک مملکت کے لیے ناگزیر ہیں، آج اکثر اسلامی ممالک ان دونوں مقاصد کو نظر انداز کرکے جن الجھنوں، دشواریوں اور پریشانیوں سے دوچار ہیں محتاج و ضاحت نہیں۔
وَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ : ” طاغوت “ لغت کے اعتبار سے ہر اس شخص کو کہا جائے گا جو اپنی جائز حد سے تجاوز کر گیا ہو، قرآن کی اصطلاح میں طاغوت سے مراد وہ بندہ ہے جو بندگی کی حد سے تجاوز کرکے خود آقائی اور خداوندی کا دم بھرنے لگے اور خدا کے بندوں سے اپنی بندگی کرائے، خدا کے مقابلہ میں ایک بندے کی سرکشی کے تین مرتبے ہیں، پہلا مرتبہ یہ ہے کہ بندہ اصولاً خدا کی فرماں برداری ہی کو حق جانے مگر عملاً اس کے احکام کی خلاف ورزی کرے اس کا نام فسق ہے۔ دوسرا مرتبہ یہ ہے کہ وہ اس کی فرمانبرداری سے اصولاً منحرف ہو کر خود مختار ہوجائے، یا اس کے سوا کسی اور کی بندگی کرنے لگے یہ کفر ہے، تیسرا مرتبہ یہ ہے کہ وہ مالک سے باغی ہو کر اس کے ملک میں اور اس کی رعیت میں خود اپنا حکم چلانے لگے، اس آخری مرتبہ پر جو بندہ پہنچ جائے اسی کا نام ” طاغوت “ ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دین کے بارے میں کوئی زبردستی نہیں۔ اس کی ضرورت بھی نہیں۔ کیونکہ زبردستی تو اس کام کے لئے کی جاتی ہے جس کے حقائق واضح نہ ہوں یا جو کام انتہائی ناپسندیدہ ہو۔ اس صراط مستقیم کا تو ہر گوشہ واضح ہے۔ اس کا چپہ چپہ روشن ہے۔ کوئی بھی سمجھ دار آدمی معمولی سا غور و فکر کرے تو اسے قبول کرنے پر آمادہ ہوجائے گا۔ لیکن جس کی نیت درست نہ ہو، غلط ارادے رکھتا ہو، ایسا بدظن آدمی حق کو دیکھ کر بھی باطل کو اختیار کرلیتا ہے۔ اچھی چیز کو دیکھ کر پھر گندی چیز کی طرف مائل ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو کوئی ضرورت نہیں کہ اسے دین کو قبول کرنے پر مجبور کرے کیونکہ اس کا کوئی فائدہ نہیں اور زبردستی قبول کرایا گیا ایمان معتبر بھی نہیں۔ اس آیت کا یہ مطلب نہیں کہ جو کافر مسلمانوں سے لڑتے ہیں ان کے خلاف جہاد نہ کیا جائے۔ یہ آیت تو صرف یہ بات واضح کرتی ہے کہ دین بنیادی طور پر ایسی چیز ہے کہ ہر انصاف پسند اسے قبول کرنے پر خود کو مجبور پاتا ہے۔ جنگ کرنے یا نہ کرنے کا اس آیت سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ مسئلہ دوسری نصوص سے ثابت ہے۔ البتہ اس سے یہ استدلال کیا جاسکتا ہے کہ یہود و نصاریٰ کے علاوہ دوسرے غیر مسلموں سے بھی جز یہ لینا درست ہے۔ جیسا کہ بہت سے علماء کا قول ہے۔ لہٰذا جو شخص غیر اللہ کی عبادت اور شیطان کی اطاعت ترک کر کے اللہ پر صحیح ایمان لے آئے جس کے نتیجے میں وہ اللہ کی عبادت و اطاعت پر قائم ہوجائے﴿ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَ﴾ ” تو اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا۔“ یعنی ایسا پختہ دین اختیار کرلیا، جس کی بنیادیں بھی مضبوط ہیں اور عمارت بھی۔ وہ پورے اعتماد سے اس پر قائم رہتا ہے کیونکہ اس نے ایسا مضبوط کڑا تھام لیا ہے﴿ لَا انفِصَامَ لَهَا﴾” جو کبھی نہ ٹوٹے گا۔“ اس کے برعکس جو شخص اللہ کا انکار کر کے شیطانوں پر یقین رکھتا ہے اس نے اس مضبوط کڑے کو چھوڑ دیا، جس کے ذریعے سے نجات حاصل ہوسکتی ہے اور ایسے باطل کو پکڑ لیا جو اسے جہنم میں لے جائے گا۔﴿ وَاللَّـهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ﴾” اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔“ وہ ہر ایک کے نیک و بداعمال سے واقف ہے لہٰذا اس کے مطابق جزا و سزا دے گا۔ اس کڑے کو پکڑنے والے اور نہ پکڑنے والے کا یہی انجام ہے۔ اس کے بعد اللہ نے وہ سبب بیان فرمایا ہے جس کی وجہ سے یہ نتیجہ حاصل ہوا وہ یہ ہے کہ
11 Mufti Taqi Usmani
deen kay moamlay mein koi zabardasti nahi hai . hidayat ka raasta gumrahi say mumtaz ho ker wazeh hochuka . iss kay baad jo shaks taghoot ka inkar ker kay Allah per emaan ley aaye ga , uss ney aik mazboot kunda thaam liya jiss kay tootney ka koi imkan nahi . aur Allah khoob sunney wala , sabb kuch janney wala hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
جبر اور دعوت اسلام
یہاں یہ بیان ہو رہا ہے کہ کسی کو جبراً اسلام میں داخل نہ کر، اسلام کی حقانیت واضح اور روشن ہوچکی اس کے دلائل وبراہین بیان ہوچکے ہیں پھر کسی اور جبر اور زبردستی کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ جسے اللہ رب العزت ہدایت دے گا، جس کا سینہ کھلا ہوا دل روشن اور آنکھیں بینا ہوں گی وہ تو خود بخود اس کا والہ و شیدا ہوجائے گا، ہاں اندھے دل والے بہرے کانوں والے پھوٹی آنکھوں والے اس سے دور رہیں گے پھر انہیں اگر جبراً اسلام میں داخل بھی کیا تو کیا فائدہ ؟ کسی پر اسلام کے قبول کرانے کیلئے جبر اور زبردستی نہ کرو۔
اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ مدینہ کی مشرکہ عورتیں جب انہیں اولاد نہ ہوتی تھی تو نذر مانتی تھیں کہ اگر ہمارے ہاں اولاد ہوئی تو ہم اسے یہود بنادیں گے، یہودیوں کے سپرد کردیں گے، اسی طرح ان کے بہت سے بچے یہودیوں کے پاس تھے، جب یہ لوگ مسلمان ہوئے اور اللہ کے دین انصار بنے، یہودیوں سے جنگ ہوئی اور ان کی اندرونی سازشوں اور فریب کاریوں سے نجات پانے کیلئے سرور رسل (علیہ السلام) نے یہ حکم جاری فرمایا کہ بنی نضیر کے یہودیوں کو جلا وطن کردیا جائے، اس وقت انصاریوں نے اپنے بچے جو ان کے پاس تھے ان سے طلب کئے تاکہ انہیں اپنے اثر سے مسلمان بنالیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ جبر اور زبردستی نہ کرو، ایک روایت یہ بھی ہے کہ انصار کے قبیلے بنوسالم بن عوف کا ایک شخص حصینی نامی تھا جس کے دو لڑکے نصرانی تھے اور خود مسلمان تھا، اس نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ایک بار عرض کیا کہ مجھے اجازت دی جائے کہ میں ان لڑکوں کو جبراً مسلمان بنا لوں، ویسے تو وہ عیسائیت سے ہٹتے نہیں، اس پر یہ آیت اتری اور ممانعت کردی، اور روایت میں اتنی زیادتی بھی ہے کہ نصرانیوں کا ایک قافلہ ملک شام سے تجارت کیلئے کشمش لے کر آیا تھا جن کے ہاتھوں پر دونوں لڑکے نصرانی ہوگئے تھے جب وہ قافلہ جانے لگا تو یہ بھی جانے پر تیار ہوگئے، ان کے باپ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ ذکر کیا اور کہا کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں انہیں اسلام لانے کیلئے کچھ تکلیف دوں اور جبراً مسلمان بنالوں، ورنہ پھر آپ کو انہیں واپس لانے کیلئے اپنے آدمی بھیجنے پڑیں گے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی، حضرت عمر کا غلام اسبق نصرانی تھا، آپ اس پر اسلام پیش کرتے وہ انکار کرتا، آپ کہہ دیتے کہ خیر تیری مرضی اسلام جبر سے روکتا ہے، علماء کی ایک بڑی جماعت کا یہ خیال ہے کہ یہ آیت ان اہل کتاب کے حق میں ہے جو فسخ و تبدیل توراۃ و انجیل کے پہلے دین مسیحی اختیار کرچکے تھے اور اب وہ جزیہ پر رضامند ہوجائیں، بعض اور کہتے ہیں آیت قتال نے اسے منسوخ کردیا، تمام انسانوں کو اس پاک دین کی دعوت دینا ضروری ہے، اگر کوئی انکار کرے تو بیشک مسلمان اس سے جہاد کریں، جیسے اور جگہ ہے آیت (سَـتُدْعَوْنَ اِلٰى قَوْمٍ اُولِيْ بَاْسٍ شَدِيْدٍ تُقَاتِلُوْنَهُمْ اَوْ يُسْلِمُوْنَ ) 48 ۔ الفتح :16) عنقریب تمہیں اس قوم کی طرف بلایا جائے گا جو بڑی لڑاکا ہے یا تو تم اس سے لڑو گے یا وہ اسلام لائیں گے، اور جگہ ہے اے نبی کافروں اور منافقوں سے جہاد کر اور ان پر سختی کر، اور جگہ ہے ایماندارو ! اپنے آس پاس کے کفار سے جہاد کرو، تم میں وہ گھر جائیں اور یقین رکھو کہ اللہ متقیوں کے ساتھ ہے، صحیح حدیث میں ہے، تیرے رب کو ان لوگوں پر تعجب آتا ہے جو زنجیروں میں جکڑے ہوئے جنت کی طرف گھسیٹے جاتے ہیں، یعنی وہ کفار جو میدان جنگ میں قیدی ہو کر طوق و سلاسل پہنا کر یہاں لائے جاتے ہیں پھر وہ اسلام قبول کرلیتے ہیں اور ان کا ظاہر باطن اچھا ہوجاتا ہے اور وہ جنت کے لائق بن جاتے ہیں مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ ایک شخص سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا مسلمان ہوجاؤ، اس نے کہا حضرت میرا دل نہیں مانتا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا گو دل نہ چاہتا ہو، یہ حدیث ثلاثی ہے یعنی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک اس میں تین راوی ہیں لیکن اس سے یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ آپ نے اسے مجبور کیا، مطلب یہ ہے کہ تو کلمہ پڑھ لے، پھر ایک دن وہ بھی آئے گا اللہ تیرے دل کو کھول دے اور تو دل سے بھی اسلام کا دلدادہ ہوجائے گا، حسن نیت اور اخلاص عمل تجھے نصیب ہو، جو شخص بت اور اوثان اور معبودان باطل اور شیطانی کلام کی قبولیت کو چھوڑ دے اللہ کی توحید کا اقراری اور عامل بن جائے وہ سیدھا اور صحیح راہ پر ہے۔ حضرت عمر فاروق فرماتے ہیں جبت سے مراد جادو ہے اور طاغوت سے مراد شیطان ہے، دلیری اور ناموری دونوں اونٹ کے دونوں طرف کے برابر بوجھ ہیں جو لوگوں میں ہوتے ہیں۔ ایک دلیر آدمی تو انجان شخص کی حمایت میں بھی جان دینے پر تل جاتا ہے لیکن ایک بزدل اور ڈرپوک اپنی سگی ماں کی خاطر بھی قدم آگے نہیں بڑھاتا۔ انسان کا حقیقی کرم اس کا دین ہے، انسان کا سچا نسب حسن و خلق ہے گو وہ فارسی ہو یا نبطی، حضرت عمر کا طاغوت کو شیطان کے معنی میں لینا بہت ہی اچھا ہے اس لئے کہ یہ ہر اس برائی کو شامل ہے جو اہل جاہلیت میں تھی، بت کی پوجا کرنا، ان کی طرف حاجتیں لے جانا ان سے سختی کے وقت طلب امداد کرنا وغیرہ۔ پھر فرمایا اس شخص نے مضبوط کڑا تھام لیا، یعنی دین کے اعلیٰ اور قوی سبب کو لے لیا جو نہ ٹوٹے نہ پھوٹے، خوب مضبوط مستحکم قوی اور گڑا ہوا، عروہ وثقف سے مراد ایمان اسلام توحید باری قرآن اور اللہ کی راہ کی محبت اور اسی کیلئے دشمنی کرنا ہے، یہ کڑا کبھی نہ ٹوٹے گا یعنی اس کے جنت میں پہنچتے تک، اور جگہ ہے آیت (اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ ) 13 ۔ الرعد :11) اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت نہیں بگاڑتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بگاڑ لے، مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے حضرت قیس بن عبادہ فرماتے ہیں میں مسجد نبوی میں تھا جو ایک شخص آیا جس کا چہرہ اللہ سے خائف تھا نماز کی دو ہلکی رکعتیں اس نے ادا کیں، لوگ انہیں دیکھ کر کہنے لگے یہ جنتی ہیں، جب وہ باہر نکلے تو میں بھی ان کے پیچھے گیا، باتیں کرنے لگا جب وہ متوجہ ہوئے تو میں نے کہا جب آپ تشریف لائے تھے تب لوگوں نے آپ کی نسبت یوں کہا تھا، کہا سبحان اللہ کسی کو وہ نہ کہنا چاہئے جس کا علم اسے نہ ہو، ہاں البتہ اتنی بات تو ہے کہ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موجودگی میں ایک خواب دیکھا تھا کہ گویا میں ایک لہلہاتے ہوئے سرسبز گلشن میں ہوں اس کے ایک درمیان لوہے کا ستون ہے جو زمین سے آسمان تک چلا گیا ہے اس کی چوٹی پر ایک کڑا ہے مجھ سے کہا گیا اس پر چڑھ جاؤ، میں نے کہا میں تو نہیں چڑھ سکتا، چناچہ ایک شخص نے مجھے تھاما اور میں باآسانی چڑھ گیا اور اس کڑے کو تھام لیا، اس نے کہا دیکھو مضبوط پکڑے رکھنا، بس اسی حالت میں میری آنکھ کھل گئی کہ وہ کڑا میرے ہاتھ میں تھا، میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ اپنا خواب بیان کیا تو آپ نے فرمایا گلشن باغ اسلام ہے اور ستون دین ہے اور کڑا عروہ وثقی ہے تو میرے دم تک اسلام پر قائم رہے گا، یہ شخص حضرت عبداللہ بن سلام ہیں، یہ حدیث بخاری مسلم دونوں میں مروی ہے۔ مسند کی اسی حدیث میں ہے کہ اس وقت آپ بوڑھے تھے اور لکڑی پر ٹیک لگائے ہوئے مسجد نبوی میں آئے تھے اور ایک ستون کے پیچھے نماز پڑھی تھی اور سوال کے جواب میں فرمایا تھا کہ جنت اللہ کی چیز ہے جسے چاہے اس میں لے جائے، خواب کے ذکر میں فرمایا کہ ایک شخص آیا مجھے لے کر چلا گیا جب ہم ایک لمبے چوڑے صاف شفاف میدان میں پہنچے تو میں نے بائیں طرف جانا چاہا تو اس نے کہا تو ایسا نہیں۔ میں دائیں جانب چلنے لگا تو اچانک ایک پھسلتا پہاڑ نظر آیا اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور اوپر چڑھا لیا اور میں اس کی چوٹی تک پہنچ گیا، وہاں میں نے ایک اونچا ستون لوہے کا دیکھا جس کے سرے پر ایک سونے کا کڑا تھا مجھے اس نے اس ستون پر چڑھا دیا یہاں تک کہ میں نے اس کڑے کو تھام لیا اس نے پوچھا خوب مضبوط معلوم تھام لیا ہے، میں نے کہاں ہاں، اس نے زور سے ستون پر اپنا پاؤں مارا، وہ نکل گیا اور کڑا میرے ہاتھ میں رہ گیا، جب یہ خواب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو میں نے سنایا تو آپ نے فرمایا بہت نیک خواب ہے، میدان محشر ہے، بائیں طرف کا راستہ جہنم کا راستہ ہے تو لوگوں میں نہیں، دائیں جانب کا راستہ جنتیوں کی راہ ہے، پھسلتا پہاڑ شہداء کی منزل ہے، کڑا اسلام کا کڑا ہے مرتے دم تک اسے مضبوط تھام رکھو، اس کے بعد حضرت عبداللہ نے فرمایا امید تو مجھے یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے جنت میں لے جائے گا۔