اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِىْ حَاۤجَّ اِبْرٰهٖمَ فِىْ رَبِّهٖۤ اَنْ اٰتٰٮهُ اللّٰهُ الْمُلْكَۘ اِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ رَبِّىَ الَّذِىْ يُحْىٖ وَيُمِيْتُۙ قَالَ اَنَاۡ اُحْىٖ وَاُمِيْتُۗ قَالَ اِبْرٰهٖمُ فَاِنَّ اللّٰهَ يَأْتِىْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِىْ كَفَرَۗ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَۚ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
کیا تم نے اُس شخص کے حال پر غور نہیں کیا، جس نے ابراہیمؑ سے جھگڑا کیا تھا؟ جھگڑا اِس بات پر کہ ابراہیمؑ کا رب کون ہے، اور اس بنا پر کہ اس شخص کو اللہ نے حکومت دے رکھی تھی جب ابراہیمؑ نے کہا کہ "میرا رب وہ ہے، جس کے اختیار میں زندگی اور موت ہے، تو اُس نے جواب دیا; "زندگی اور موت میرے اختیار میں ہے"ابراہیمؑ نے کہا; "اچھا، اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے، تو ذرا اُسے مغرب سے نکال لا" یہ سن کر وہ منکر حق ششدر رہ گیا، مگر اللہ ظالموں کو راہ راست نہیں دکھایا کرتا
English Sahih:
Have you not considered the one who argued with Abraham about his Lord [merely] because Allah had given him kingship? When Abraham said, "My Lord is the one who gives life and causes death," he said, "I give life and cause death." Abraham said, "Indeed, Allah brings up the sun from the east, so bring it up from the west." So the disbeliever was overwhelmed [by astonishment], and Allah does not guide the wrongdoing people.
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
کیا تم نے اُس شخص کے حال پر غور نہیں کیا، جس نے ابراہیمؑ سے جھگڑا کیا تھا؟ جھگڑا اِس بات پر کہ ابراہیمؑ کا رب کون ہے، اور اس بنا پر کہ اس شخص کو اللہ نے حکومت دے رکھی تھی جب ابراہیمؑ نے کہا کہ "میرا رب وہ ہے، جس کے اختیار میں زندگی اور موت ہے، تو اُس نے جواب دیا: "زندگی اور موت میرے اختیار میں ہے"ابراہیمؑ نے کہا: "اچھا، اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے، تو ذرا اُسے مغرب سے نکال لا" یہ سن کر وہ منکر حق ششدر رہ گیا، مگر اللہ ظالموں کو راہ راست نہیں دکھایا کرتا
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
اے محبوب! کیا تم نے نہ دیکھا تھا اسے جو ابراہیم سے جھگڑا اس کے رب کے بارے میں اس پر کہ اللہ نے اسے بادشاہی دی جبکہ ابراہیم نے کہا کہ میرا رب وہ ہے جو جِلاتا اور مارتا ہے بولا میں جِلاتا اور مارتا ہوں ابراہیم نے فرمایا تو اللہ سورج کو لاتا ہے پورب (مشرق) سے تو اس کو پچھم (مغرب) سے لے آ تو ہوش اڑ گئے کافروں کے، اور اللہ راہ نہیں دکھاتا ظالموں کو،
احمد علی Ahmed Ali
کیا تو نے اس شخص کو نہیں دیکھا جس نے ابراھیم سے اس کے رب کی بابت جھگڑا کیا اس لیے کہ الله نے اسے سلطنت دی تھی جب ابراھیم نے کہا کہ میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے اس نے کہا میں بھی زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں کہا ابراھیم نے بے شک الله سورج مشرق سے لاتا ہے تو اسے مغرب سے لے آ تب وہ کافر حیران رہ گیا اور الله بے انصافوں کی سیدھی راہ نہیں دکھاتا
أحسن البيان Ahsanul Bayan
کیا تو نے اسے نہیں دیکھا جو سلطنت پا کر ابراہیم (علیہ السلام) سے اس کے رب کے بارے میں جھگڑ رہا تھا، جب ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا میرا رب تو وہ ہے جو جلاتا اور مارتا ہے، وہ کہنے لگا میں بھی جلاتا اور مارتا ہوں ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ اللہ تعالٰی سورج کو مشرق کی طرف سے لے آتا ہے اور تو اسے مغرب کی جانب سے لے آ اب تو وہ کافر بھونچکا رہ گیا، اور اللہ تعالٰی ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
بھلا تم نے اس شخص کو نہیں دیکھا جو اس (غرور کے) سبب سے کہ خدا نے اس کو سلطنت بخشی تھی ابراہیم سے پروردگار کے بارے میں جھگڑنے لگا۔ جب ابراہیم نے کہا میرا پروردگار تو وہ ہے جو جلاتا اور مارتا ہے۔ وہ بولا کہ جلا اور مار تو میں بھی سکتا ہوں۔ ابراہیم نے کہا کہ خدا تو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے آپ اسے مغرب سے نکال دیجیئے (یہ سن کر) کافر حیران رہ گیا اور خدا بےانصافوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
کیا تونے اسے نہیں دیکھا جو سلطنت پا کر ابراہیم (علیہ السلام) سے اس کے رب کے بارے میں جھگڑ رہا تھا، جب ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ میرا رب تو وه ہے جو جلاتا ہے اور مارتا ہے، وه کہنے لگا میں بھی جلاتا اور مارتا ہوں، ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا اللہ تعالیٰ سورج کو مشرق کی طرف سے لے آتا ہے تو اسے مغرب کی جانب سے لے آ۔ اب تو وه کافر بھونچکا ره گیا، اور اللہ تعالیٰ ﻇالموں کو ہدایت نہیں دیتا
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
کیا تم نے اس شخص کو نہیں دیکھا (اس کے حال پر غور نہیں کیا) جس نے جناب ابراہیم سے ان کے پروردگار کے بارے میں صرف اس بنا پر بحث و تکرار کی تھی کہ خدا نے اسے سلطنت دے رکھی تھی۔ جب ابراہیم نے کہا تھا کہ میرا پروردگار وہ ہے جو جلاتا بھی ہے اور مارتا بھی ہے۔ اس (شخص) نے کہا میں بھی جلاتا اور مارتا ہوں (اس پر) ابراہیم نے کہا میرا خدا سورج کو مشرق سے نکالتا ہے تو اسے مغرب سے نکال۔ اس پر کافر مبہوت (ہکا بکا) ہوگیا۔ خدا ظالموں کو ہدایت نہیں کرتا (ان کو منزل مقصود تک نہیں پہنچاتا)۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
کیا تم نے اس کے حال پر نظر نہیں کی جس نے ابراہیم علیھ السّلام سے پروردگار کے بارے میں بحث کی صرف اس بات پر کہ خدا نے اسے ملک دے دیا تھا جب ابرہیم علیھ السّلام نے یہ کہا کہ میرا خدا جلِتا بھی ہے اور مارتا بھی ہے تو اس نے کہا کہ یہ کام میں بھی کرسکتا ہوں تو ابراہیم علیھ السّلام نے کہا کہ میرا خدامشرق سے آفتاب نکالتا ہے تو مغرب سے نکال دے تو کافر حیران رہ گیا اور اللہ ظالم قوم کی ہدایت نہیں کرتا ہے
طاہر القادری Tahir ul Qadri
(اے حبیب!) کیا آپ نے اس شخص کو نہیں دیکھا جو اس وجہ سے کہ اﷲ نے اسے سلطنت دی تھی ابراہیم (علیہ السلام) سے (خود) اپنے رب (ہی) کے بارے میں جھگڑا کرنے لگا، جب ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا: میرا رب وہ ہے جو زندہ (بھی) کرتا ہے اور مارتا (بھی) ہے، تو (جواباً) کہنے لگا: میں (بھی) زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں، ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا: بیشک اﷲ سورج کو مشرق کی طرف سے نکالتا ہے تُو اسے مغرب کی طرف سے نکال لا! سو وہ کافر دہشت زدہ ہو گیا، اور اﷲ ظالم قوم کو حق کی راہ نہیں دکھاتا،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
ابراہیم (علیہ السلام) اور نمرود کا آمنا سامنا
اس بادشاہ کا نام نمرود بن کنعان بن سام بن نوح تھا اس کا پایہ تخت بابل تھا اس کے نسب میں کچھ اختلاف بھی ہے، حضرت مجاہد فرماتے ہیں دنیا کی مشرق مغرب کی سلطنت رکھنے والے چار ہوئے جن میں سے دو مومن اور دو کافر، حضرت سلیمان بن داؤد اور حضرت ذوالقرنین، اور کافروں میں نمرود اور بخت نصر، فرمان ہوتا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم نے اسے نہیں دیکھا، جو حضرت ابراہیم سے وجود باری تعالیٰ میں مباحثہ کرنے لگا، یہ شخص خود اللہ ہونے کا مدعی تھا، جیسا اس کے بعد فرعون نے بھی اپنے والوں میں دعویٰ کیا تھا کہ میں اپنے سوا کسی کو تمہارا رب نہیں جانتا، چونکہ ایک مدت مدید اور عرصہ بعید سے یہ بادشاہ چلا آتا تھا اس لئے دماغ میں رعونت اور انانیت آگئی تھی، سرکشی اور تکبر، نخوت اور غرور طبیعت میں سما گیا تھا، بعض لوگ کہتے ہیں چار سو سال تک حکومت کرتا رہا تھا، حضرت ابراہیم سے جب اس نے وجود باری تعالیٰ پر دلیل مانگی تو آپ نے نیست سے ہست اور ہست سے نیست کرنے کی دلیل دی جو ایک بدیہی اور مثل آفتاب روشن دلیل تھی کہ موجودات کا پہلے کچھ نہ ہونا پھر ہونا پھر مٹ جانا کھلی دلیل ہے۔ موجد اور پیدا کرنے والے کے موجود ہونے کی اور وہی اللہ ہے، نمرود نے جواباً کہا کہ یہ تو میں بھی کرتا ہوں، یہ کہہ کردو شخصوں کو اس نے بلوایا جو واجب القتل تھے، ایک کو قتل کردیا اور دوسرے کو رہا کردیا، دراصل یہ جواب اور دعویٰ کس قدر لچر اور بےمعنی ہے اس کے بیان کی بھی ضرورت نہیں، حضرت ابراہیم نے تو صفات باری میں سے ایک صفت پیدا کرنا اور پھر نیست کردینا بیان کی تھی اور اس نے نہ تو انہیں پیدا کیا اور نہ ان کی یا اپنی موت حیات پر اسے قدرت، لیکن جہلاء کو بھڑکانے کیلئے اور اپنی علمیت جتانے کیلئے باوجود اپنی غلطی اور مباحثہ کے اصول سے طریقہ فرار کو جانتے ہوئے صرف ایک بات بنالی، ابراہیم بھی اس کو سمجھ گئے اور آپ نے کند ذہن کے سامنے ایسی دلیل پیش کردی کہ صورتاً بھی اس کی مشابہت نہ کرسکے، چناچہ فرمایا کہ جب تو پیدائش اور موت تک کا اختیار رکھتا ہے تو مخلوق پر تصرف تیرا پورا ہونا چاہئے، میرے اللہ نے تو یہ تصرف کیا کہ سورج کو حکم دے دیا ہے کہ وہ مشرق کی طرف سے نکلا کرے چناچہ وہ نکل رہا ہے، اب تو اسے حکم دے کہ وہ مغرب کی طرف سے نکلے اس کا کوئی ظاہری ٹوٹا پھوٹا جواب بھی نہ اس سے بن پڑا اور بےزبان ہو کر اپنی عاجزی کا معترف ہوگیا اور اللہ کی حجت اس پر پوری ہوگئی لیکن چونکہ ہدایت نصیب نہ تھی راہ یافتہ نہ ہوسکا، ایسے بدوضع لوگوں کو اللہ کوئی دلیل نہیں سمجھاتا اور وہ حق کے مقابلے میں بغلیں جھانکتے ہی نظر آتے ہیں، ان پر اللہ کا غضب و غصہ اور ناراضگی ہوتی ہے اور اس کیلئے اس جہاں میں بھی سخت عذات ہوتے ہیں، بعض منطقیوں نے کہا ہے کہ حضرت خلیل اللہ نے یہاں ایک واضح دلیل کے بعد دوسری اس سے بھی زیادہ واضح دلیل پیش کردی، لیکن درحقیت یوں نہیں بلکہ پہلی دلیل دوسری کا مقدمہ تھی اور ان دونوں میں سے نمرود کے دعویٰ کا بطلان بالکل واضح ہوگیا، اصل دلیل پیدائش و موت ہی ہے چونکہ اس کا دعویٰ اس ناسمجھ مشت خاک نے بھی کیا تو لازم تھا کہ جو بنانے بگاڑنے پر نہ صرف قادر ہو بلکہ بناؤ بگاڑ کا بھی خالق ہو اس کی ملکیت پوری طرح اسی کے قبضہ میں ہونی چاہئے اور جس طرح موت وحیات کے احکام اس کے جاری ہوجاتے ہیں اسی طرح دوسرے احکام بھی جاری ہوجائیں، پھر کیا وجہ ہے کہ سورج جو کہ ایک مخلوق ہے اس کی فرمانبرداری اور اطاعت گزاری نہ کرے اور اس کے کہنے سے مشرق کی بجائے مغرب سے نہ نکلے ؟ پس ابراہیم نے اس پر اس مباحثہ میں کھلا غلبہ پایا اور اسے بالکل لاجواب کردیا فالحمدللہ۔ حضرت سدی فرماتے ہیں یہ مناظرہ حضرت ابراہیم کے آگ سے نکل آنے کے بعد ہوا تھا اس سے پہلے آپ کی اس ظالم بادشاہ سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی تھی، زید بن اسلم کا قول ہے کہ قحط سالی تھی، لوگ نمرود کے پاس جاتے تھے اور غلہ لے آتے تھے، حضرت خلیل اللہ بھی گئے، وہاں یہ مناظرہ ہوگیا بدبخت نے آپ کو غلہ نہ دیا، آپ خالی ہاتھ واپس آئے، گھر کے قریب پہنچ کر آپ نے دونوں بوریوں میں ریت بھر لی کہ گھر والے سمجھیں کچھ لے آئے، گھر آتے ہی بوریاں رکھ کر سو گئے، آپ کی بیوی صاحبہ حضرت سارہ اٹھیں بوریوں کو کھولا تو دیکھا کہ عمدہ اناج سے دونوں پر ہیں، کھانا پکا کر تیار کیا، آپ کی بھی آنکھ کھلی دیکھا کہ کھانا تیار ہے، پوچھا اناج کہاں سے آیا، کہا دو بوریاں جو آپ بھر کر لائے ہیں، انہیں میں سے یہ اناج نکالا تھا، آپ سمجھ گئے کہ یہ اللہ جل شانہ کی طرف سے برکت اور اس کی رحمت ہے، اس ناہنجار بادشاہ کے پاس اللہ نے ایک فرشتہ بھیجا اس نے آکر اسے توحید کی دعوت دی لیکن اس نے قبول نہ کی، دوبارہ دعوت دی لیکن انکار کیا تیسری مرتبہ اللہ کی طرف بلایا لیکن پھر بھی یہ منکر ہی رہا۔ اس بار بار کے انکار کے بعد فرشتے نے اس سے کہا اچھا تو اپنا لشکر تیار کر میں بھی اپنا لشکر لے آتا ہوں، نمرود نے بڑا بھاری لشکر تیار کیا اور زبردست فوج کو لے کر سورج نکلنے کے میدان میں آ ڈٹا، ادھر اللہ تعالیٰ نے مچھروں کا ایک دروازہ کھول دیا، بڑے بڑے مچھر اس کثرت سے آئے کہ لوگوں کو سورج بھی نظر نہ آتا تھا، اللہ کی یہ فوج نمرودیوں پر گری اور تھوڑی دیر میں ان کا خون تو کیا ان کا گوشت پوست سب کھا گئی اور سارے کے سارے یہیں ہلاک ہوگئے، ہڈیوں کا ڈھانچہ باقی رہ گیا، انہی مچھروں میں سے ایک نمرود کے نتھنے میں گھس گیا اور چارسو سال تک اس کا دماغ چاٹتا رہا ایسے عذاب میں وہ رہا کہ اس سے موت ہزاروں درجے بہتر تھی اپنا سر دیواروں اور پتھروں پر مارتا پھرتا تھا، ہتھوڑوں سے کچلواتا تھا، یونہی رینگ رینگ کر بدنصیب نے ہلاکت پائی۔ اعاذنا اللہ۔