البقرہ آية ۲۵۸
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِىْ حَاۤجَّ اِبْرٰهٖمَ فِىْ رَبِّهٖۤ اَنْ اٰتٰٮهُ اللّٰهُ الْمُلْكَۘ اِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ رَبِّىَ الَّذِىْ يُحْىٖ وَيُمِيْتُۙ قَالَ اَنَاۡ اُحْىٖ وَاُمِيْتُۗ قَالَ اِبْرٰهٖمُ فَاِنَّ اللّٰهَ يَأْتِىْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِىْ كَفَرَۗ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَۚ
طاہر القادری:
(اے حبیب!) کیا آپ نے اس شخص کو نہیں دیکھا جو اس وجہ سے کہ اﷲ نے اسے سلطنت دی تھی ابراہیم (علیہ السلام) سے (خود) اپنے رب (ہی) کے بارے میں جھگڑا کرنے لگا، جب ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا: میرا رب وہ ہے جو زندہ (بھی) کرتا ہے اور مارتا (بھی) ہے، تو (جواباً) کہنے لگا: میں (بھی) زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں، ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا: بیشک اﷲ سورج کو مشرق کی طرف سے نکالتا ہے تُو اسے مغرب کی طرف سے نکال لا! سو وہ کافر دہشت زدہ ہو گیا، اور اﷲ ظالم قوم کو حق کی راہ نہیں دکھاتا،
English Sahih:
Have you not considered the one who argued with Abraham about his Lord [merely] because Allah had given him kingship? When Abraham said, "My Lord is the one who gives life and causes death," he said, "I give life and cause death." Abraham said, "Indeed, Allah brings up the sun from the east, so bring it up from the west." So the disbeliever was overwhelmed [by astonishment], and Allah does not guide the wrongdoing people.
1 Abul A'ala Maududi
کیا تم نے اُس شخص کے حال پر غور نہیں کیا، جس نے ابراہیمؑ سے جھگڑا کیا تھا؟ جھگڑا اِس بات پر کہ ابراہیمؑ کا رب کون ہے، اور اس بنا پر کہ اس شخص کو اللہ نے حکومت دے رکھی تھی جب ابراہیمؑ نے کہا کہ "میرا رب وہ ہے، جس کے اختیار میں زندگی اور موت ہے، تو اُس نے جواب دیا: "زندگی اور موت میرے اختیار میں ہے"ابراہیمؑ نے کہا: "اچھا، اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے، تو ذرا اُسے مغرب سے نکال لا" یہ سن کر وہ منکر حق ششدر رہ گیا، مگر اللہ ظالموں کو راہ راست نہیں دکھایا کرتا
2 Ahmed Raza Khan
اے محبوب! کیا تم نے نہ دیکھا تھا اسے جو ابراہیم سے جھگڑا اس کے رب کے بارے میں اس پر کہ اللہ نے اسے بادشاہی دی جبکہ ابراہیم نے کہا کہ میرا رب وہ ہے جو جِلاتا اور مارتا ہے بولا میں جِلاتا اور مارتا ہوں ابراہیم نے فرمایا تو اللہ سورج کو لاتا ہے پورب (مشرق) سے تو اس کو پچھم (مغرب) سے لے آ تو ہوش اڑ گئے کافروں کے، اور اللہ راہ نہیں دکھاتا ظالموں کو،
3 Ahmed Ali
کیا تو نے اس شخص کو نہیں دیکھا جس نے ابراھیم سے اس کے رب کی بابت جھگڑا کیا اس لیے کہ الله نے اسے سلطنت دی تھی جب ابراھیم نے کہا کہ میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے اس نے کہا میں بھی زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں کہا ابراھیم نے بے شک الله سورج مشرق سے لاتا ہے تو اسے مغرب سے لے آ تب وہ کافر حیران رہ گیا اور الله بے انصافوں کی سیدھی راہ نہیں دکھاتا
4 Ahsanul Bayan
کیا تو نے اسے نہیں دیکھا جو سلطنت پا کر ابراہیم (علیہ السلام) سے اس کے رب کے بارے میں جھگڑ رہا تھا، جب ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا میرا رب تو وہ ہے جو جلاتا اور مارتا ہے، وہ کہنے لگا میں بھی جلاتا اور مارتا ہوں ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ اللہ تعالٰی سورج کو مشرق کی طرف سے لے آتا ہے اور تو اسے مغرب کی جانب سے لے آ اب تو وہ کافر بھونچکا رہ گیا، اور اللہ تعالٰی ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
بھلا تم نے اس شخص کو نہیں دیکھا جو اس (غرور کے) سبب سے کہ خدا نے اس کو سلطنت بخشی تھی ابراہیم سے پروردگار کے بارے میں جھگڑنے لگا۔ جب ابراہیم نے کہا میرا پروردگار تو وہ ہے جو جلاتا اور مارتا ہے۔ وہ بولا کہ جلا اور مار تو میں بھی سکتا ہوں۔ ابراہیم نے کہا کہ خدا تو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے آپ اسے مغرب سے نکال دیجیئے (یہ سن کر) کافر حیران رہ گیا اور خدا بےانصافوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا
6 Muhammad Junagarhi
کیا تونے اسے نہیں دیکھا جو سلطنت پا کر ابراہیم (علیہ السلام) سے اس کے رب کے بارے میں جھگڑ رہا تھا، جب ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ میرا رب تو وه ہے جو جلاتا ہے اور مارتا ہے، وه کہنے لگا میں بھی جلاتا اور مارتا ہوں، ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا اللہ تعالیٰ سورج کو مشرق کی طرف سے لے آتا ہے تو اسے مغرب کی جانب سے لے آ۔ اب تو وه کافر بھونچکا ره گیا، اور اللہ تعالیٰ ﻇالموں کو ہدایت نہیں دیتا
7 Muhammad Hussain Najafi
کیا تم نے اس شخص کو نہیں دیکھا (اس کے حال پر غور نہیں کیا) جس نے جناب ابراہیم سے ان کے پروردگار کے بارے میں صرف اس بنا پر بحث و تکرار کی تھی کہ خدا نے اسے سلطنت دے رکھی تھی۔ جب ابراہیم نے کہا تھا کہ میرا پروردگار وہ ہے جو جلاتا بھی ہے اور مارتا بھی ہے۔ اس (شخص) نے کہا میں بھی جلاتا اور مارتا ہوں (اس پر) ابراہیم نے کہا میرا خدا سورج کو مشرق سے نکالتا ہے تو اسے مغرب سے نکال۔ اس پر کافر مبہوت (ہکا بکا) ہوگیا۔ خدا ظالموں کو ہدایت نہیں کرتا (ان کو منزل مقصود تک نہیں پہنچاتا)۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
کیا تم نے اس کے حال پر نظر نہیں کی جس نے ابراہیم علیھ السّلام سے پروردگار کے بارے میں بحث کی صرف اس بات پر کہ خدا نے اسے ملک دے دیا تھا جب ابرہیم علیھ السّلام نے یہ کہا کہ میرا خدا جلِتا بھی ہے اور مارتا بھی ہے تو اس نے کہا کہ یہ کام میں بھی کرسکتا ہوں تو ابراہیم علیھ السّلام نے کہا کہ میرا خدامشرق سے آفتاب نکالتا ہے تو مغرب سے نکال دے تو کافر حیران رہ گیا اور اللہ ظالم قوم کی ہدایت نہیں کرتا ہے
9 Tafsir Jalalayn
بھلا تم نے اس شخص کو نہیں دیکھا جو اس (غرور کے) سبب سے کہ خدا اس کو سلطنت بخشی تھی ابراہیم سے پروردگار کے بارے میں جھگڑنے لگا جب ابراہیم نے کہا میرا پروردگار تو وہ ہے جو جلاتا اور مارتا ہے وہ بولا کہ جلا اور مار تو میں بھی سکتا ہوں ابراہیم نے کہا کہ خدا تو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے آپ اسے مغرب سے نکال دیجئے۔ یہ سن کر کافر حیران رہ گیا۔ اور خدا بےانصافوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔
آیت نمبر ٢٥٨ تا ٢٦٠
ترجمہ : کیا تم نے اس شخص کے حال پر نظر نہیں کی جس نے ابراہیم (علیہ السلام) سے ان کے رب کے بارے میں مباحثہ کیا تھا ؟ اس سبب سے کہ اللہ نے اس کو بادشاہت دے رکھی تھی، اللہ کی نعمتوں پر اترانے نے اس کو اس سرکشی (مباحثہ) پر آمادہ کیا تھا اور وہ نمروذ تھا، اس وقت جبکہ ابراہیم نے اس کے اس قول کے جواب میں کہ تیرا رب کون ہے ؟ جس کی طرف دعوت دیتا ہے ؟ کہا تھا میرا رب تو وہی ہے جو زندگی بخشتا ہے اور موت دیتا ہے یعنی موت وحیات کو جسموں میں پیدا کرتا ہے، وہ بولا زندگی اور موت تو قتل اور معافی کے ذریعہ میں (بھی) دیتا ہوں اور اس نے دو آدمیوں کو بلایا ان میں سے ایک کو قتل کردیا اور دوسرے کو چھوڑ دیا۔ جب (حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے) اس کو بیوقوف پایا تو اس سے بھی زیادہ واضح حجت کی طرف انتقال کرتے ہوئے ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ (اچھا) اللہ تو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے تو مغرب سے نکال کر دکھا۔ اس پر وہ کافر دنگ رہ گیا (یعنی) حیران و ششدر رہ گیا، اللہ تعالیٰ کفر کے ذریعہ ظلم کرنے والوں کو راہ استدلال نہیں دکھاتا، یا (پھر) کیا اس شخص (کے حال) پر نظر کی ؟ کاف زائد ہے۔ جو ایک بستی پر کہ بستی وہ بیت المقدس تھی گدھے پر سوار ہو کر گزرا اور اس کے ساتھ انجیر کی ایک ٹوکری تھی اور انگور کے شیرے کا ایک پیالہ تھا، اور وہ عزیز (علیہ السلام) تھے اور وہ بستی اپنی چھتوں کے بل گری ہوئی تھی، اس لئے کہ اس کو بخت نصر نے برباد کردیا تھا۔ تو اس نے کہا اس بستی (والوں) کو ان کے مرنے کے بعد اللہ کس طرح زندہ کرے گا ؟ (حضرت عزیز نے) یہ بات اللہ کی قدرت کو عظیم سمجھتے ہوئے (تعجب کے طور پر) کہی تو اللہ نے اس کو موت دیدی اور سو سال تک پڑا رکھا پھر اس کو زندہ کیا تاکہ اس کو احیاء کی کیفیت دکھائے، اللہ تعالیٰ نے اس سے پوچھا تو (اس حالت میں) کتنی مدت پڑا رہا تو اس نے کہا ایک دن یا اس کا کچھ حصہ رہا ہوں گا اسلئے کہ وہ بوقت صبح سویا تھا تو اس کی روح قبض کرلی گئی اور غروب کے وقت زندگہ کیا گیا تو اس نے سمجھا کہ یہ غروب سونے کے دن ہی کا ہے۔ فرمایا (نہیں) بلکہ تو سو سال تک رہا اب تو اپنے انجیر کو اور مشروب انگور کے رس کو دیکھ کر وہ بول زمان کے باوجود خراب نہیں ہوا، کہا گیا ہے کہ (یَتَسَنّہ) میں (ھا) اصلی ہے، سَانَھْتُ سے مشتق ہے اور کہا گیا ہے کہ وقف کی ہے سانَیْت سے ماخوذ ہے، اور ایک قراءت میں حذف ھا۔ کے ساتھ ہے اور اپنے گدھے کو بھی دیکھ کہ اس کی کیا حالت ہے تو اس کو مردہ دیکھا، اور اس کی ہڈیاں سفید چمکدار ہیں، ہم نے یہ اس وجہ سے کیا تاکہ تم کو (مشاہدہ) کے طور پر معلوم ہوجائے اور تاکہ ہم تجھ کو لوگوں کے لئے بعثت پر نشانی بنادیں اور تو اپنے گدھے کی ہڈیوں کو دیکھ کہ ہم ان کو کس طرح زندہ کرکے اٹھاتے ہیں (نُنشِزُھَا) نون کے ضمہ اور نون کے فتحہ کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے، اَنْشَزَ اور نَشَزَ سے دو لغت ہیں اور ایک قراءت میں ضمہ نون اوزاء کے ساتھ ہے یعنی اس کو حرکت دیتے ہیں اور اٹھاتے ہیں، پھر ان پر گوشت چڑھاتے ہیں تو (حضرت عزیز (علیہ السلام) نے) ان ہڈیوں کو دیکھا دراں حالیکہ وہ جڑ گئیں اور ان پر گوشت چڑھا دیا گیا اور ان میں روح پھونک دی گئی، اور وہ بولنے لگا، پھر جب یہ سب کچھ مشاہدہ کے طور پر ظاہر ہوگیا تو (حضرت عزیر (علیہ السلام) کہہ اٹھے کہ مجھے (مشاہدہ سے) علم یقینی حاصل ہوگیا، کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہر شئ پر قادر ہے اور ایک قراءت میں اِعْلَمْ بصیغہ امر ہے (یعنی) اللہ کی جانب سے ان کو دیکھ کر علم مشاہدہ حاصل کرنے کا حکم ہوا، اور اس واقعہ کو یاد کرو کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ اے میرے پروردگار مجھے دکھا کہ تو مردوں کو کس طرح زندہ کرے گا ؟ ان سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیا تم کو میری قدرت علی الاحیاء پر یقین نہیں ؟ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) سے سوال کیا باوجود یکہ اللہ تعالیٰ کو ابراہیم (علیہ السلام) کے ایمان کا علم تھا، تاکہ ابراہیم (علیہ السلام) اس کے سوال کا جواب دیں اور سامعین کو ابراہیم (علیہ السلام) کے سوال کا مقصد معلوم ہوجائے، ابراہیم (علیہ السلام) نے عرض کیا ایمان تو ہے مگر میں نے آپ سے سوال کیا تاکہ مشاہدہ مع استدلال سے میرے قلب کو سکون ہوجائے، فرمایا چار پرند لو ان کے ٹکڑے کر ڈالو پھر ان کو اپنی طرف ہلاؤ صاد کے کسرہ اور ضمہ کے ساتھ یعنی ان کو اپنی طرف مائل کرو اور ان کے ٹکڑے کرکے ان کے گوشت اور پروں کو خَلَطْ مَلَطْ کردو پھر اپنے علاقہ کے ہر پہاڑ پر ان میں سے تھوڑا تھوڑا رکھ دو پھر ان کو اپنی طرف آواز دو وہ تیری طرف تیزی سے آئیں گے اور سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ غالب ہے، اس کو کوئی چیز عاجز نہیں کرسکتی اور اپنی صنعت میں حکمتوں والا ہے چناچہ (حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے) ایک مور ایک کرگس ایک کوا ایک مرغا لیا اور ان کے ساتھ مذکورہ معاملہ کیا اور ان کے سروں کو اپنے پاس رکھ لیا، پھر ان کو آواز دی تو بعض اجزاء بعض کی طرف اڑے حتیٰ کہ مکمل پرند ہوگئے پھر وہ اپنے سروں کی طرف متوجہ ہوئے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : جَادَلَ ، حاجّ کی تفسیر جادَلَ سے کرکے بتادیا کہ حاجَّ بمعنی غَلَبَ فی الحجۃ نہیں ہے جیسا کہ حدیث میں وارد ہے فَحَجّ آدمُ موسیٰ ، آدم (علیہ السلام) موسیٰ (علیہ السلام) پر غالب آگئے۔ اس لئے کہ نمرود حجت میں ابراہیم پر غالب نہیں آیا تھا۔
قولہ : اَیْ حَمَلَہٗ الخ، اس میں اشارہ ہے کہ نمروذ کی حجت بازی کا سبب اعطاء ملک تھا، أنْ اٰتٰہُ اللہُ ، الملکَ حذف لام کے ساتھ مفعول لِاَجَلہ ہے ای لَاَن آتاہ اللہ الملک۔
قولہ : نُمرُوذُ ، نمرُوذُ بن کنعان، نُمرُوذ۔ نون اور ذال معجمہ کے ضمہ کے ساتھ، (ترویح الارواح) ، یہ ولد الزنا تھا سب سے پہلے تاج مکلل اپنے سر پر اسی نے رکھا تھا اور روئے زمین کا مالک ہوا نیز اس نے ربوبیت کا دعویٰ کیا، دنیا میں چار بادشاہ ایسے گزرے ہیں جو روئے زمین کا مالک ہوئے ہیں ان میں سے دو مسلمان سلیمان و ذوالقرنین (علیہم السلام) ہیں، اور دو کافر ہیں نمروذوبخت نصر۔
قولہ : بَطَرہ، بَطَر کے معنی اترانے اور حد سے زیادہ بےجا فخر کرنے کے ہیں۔ قولہ : اِذ، بدل من حَاجّ ۔ یہ ایک سوال کا جواب ہے۔
سوال : اِذ ظرفیہ کا فعل سے بدل واقع ہونا درست نہیں ہے ؟
جواب : حذف فعل مثل جاَدلَ یا خَاصَمَ سے بدل کل ہے اِذ ظرفیہ کی طرف بدلیت کی نسبت فعل کے قائم مقام ہونے کی وجہ ہے۔
قولہ : ای یخلق الحیاۃَ والموتَ اس عبارت میں نمروذ کے اعتراض کے فاسد ہونے کی طرف اشارہ ہے اس لئے کہ یحی وَیُمیت سے مطلب اجسام میں موت وحیات کو پیدا کرنا ہے جو کہ نمروذ سے ممکن نہیں تھا۔
قولہ : تَحَیَّرَ ودَھِشَ ، بُھِتَ ، ان افعال میں سے ہے کہ جو مبنی للمفعول استعمال ہوتے ہیں مگر معنی میں مبنی للفاعل کے ہوتے ہیں، بُھِتَ ، کی تفسیر تحَیَرَ اور دَھِشَ ، سے کرکے اسی کی طرف اشارہ کیا ہے۔
قولہ : المحجۃ، میم کے فتحہ کے ساتھ، کشادہ راستہ۔ قولہ : منتقلاً اِلیٰ حجۃٍ اوضع منھا، اس اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔
سوال : یہ ہے کہ ایک دلیل سے دوسری دلیل کی طرف انتقال دو وجہ سے ہوا کرتا ہے اول دلیل میں فساد و نقص ہو حالانکہ نبی سے یہ ممکن نہیں ہے، دوسرے یہ کہ اگر دلیل میں کوئی ابہام ہو تو اس کو واضح نہ کرسکے اور یہ بھی درست نہیں۔
جواب : یہ انتقال، مِنْ دَلیلٍ اِلیٰ دَلیلٍ آخر، نہیں ہے بلکہ دلیل خفی سے دلیل جلی کی طرف انتقال ہے۔
قولہ : اَوْ راَیتَ کالّذی، راَیتَ کے اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔
سوال : اَوْ کاَلّذی کا عطف کالّذِیْ حَاجَّ پر درست نہیں ہے اس لئے کہ جو عامل معطوف علیہ کا ہوتا ہے وہی معطوف کا بھی ہوتا ہے معطوف علیہ کا عامل اِلیٰ ، ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ کالّذِی کا عامل بھی، الیٰ ہو، حالانکہ کاف پر الیٰ کا دخول جائز نہیں ہے کاف خواہ اسمیہ ہو یا حرفیہ۔ جواب : یہ عطف مفرد علی المفرد نہیں ہے بلکہ عطف جملہ علی الجملہ ہے اور کالذی سے پہلے اَراَیتَ محذوف ہے جیسا کہ مفسر علام نے ظاہر کردیا ہے۔
قولہ : بُخت نصر، بخت بمعنی ابن اور نصر ایک بت کا نام ہے بخت نصر، کے معنی ہیں ابن الصنم اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ جب یہ پیدا ہوا تھا تو اس کی والدہ نے اس کو نصر بت کے پاس ڈال دیا تھا جس کی وجہ سے اس کا نام بخت نصر یعنی ابن الصنم مشہور ہوگیا۔ (صاوی)
قولہ : لَمْ یَتَسنَّہ، ای لم یَتَغَیرّ (تَفَعُّل) سے مضارع واحد مذکر غائب، سالہا سال گزرنے کے باوجود خراب نہ ہوا، حمزہ اور کسائی نے ھاء کو ھاء سکتہ قرار دیتے ہوئے حالت وصل میں حذف ضروری قرار دیا ہے ان کے نزدیک اصل لفظ یَتَسَنَّ ہے جس کی اصل یَتَسَنّٰی تھی حالت جزم میں الف ساقط ہو کر یَتَسَنَّ ہوگیا، اس قول کے مطابق یہ سَنَۃٌ سے ماخوذ ہوگا، کس کی اصل سَنْوَۃ تھی۔ ابو عمر و نے کہا تَسَنّی (تفعل) کی اصل تَسَنُّنٌ تھی اور تَسَنُّنٌ کے معنی ہیں تغیر۔ اسی مادہ سے حَمَا مَّسْنُون ہے۔ بعض دیگر حضرات، ھاء کے اصل ہونے کے قائل ہیں جو کہ وقف اور وصل دونوں حالتوں میں باقی رہتی ہے اس قول پر بھی سَنَۃٔ سے ماخوذ ہوگا مگر سَنَۃ کی اصل سَنْھَۃٌ تھی اس لئے کہ اس کی تصغیر سُنِیْھَۃ آتی ہے۔
سوال : لم یَتَسَنَّہٗ ، کو مفرد لایا گیا ہے حالانکہ اس سے مراد ظعام و شراب ہیں لہٰذا تثنیہ لانا چاہیے تھا۔
جواب : طع ام و شراب، بمنزلہ غذا، حکم میں مفرد کے ہیں اس لئے یَتَسَنَّہٗ ، کو مفرد لایا گیا ہے۔ قولہ : فَعَلْنا ذٰلکَ لتَعْلَمَ ۔
سوال : وَلِنَجْعَلَکَ ، میں واؤ کیسا ہے ؟ اگر عاطفہ ہے تو اس کا معطوف علیہ کیا ہے ؟ حالانکہ ماقبل میں کوئی معطوف علیہ ایسا نہیں کہ اس کا اس پر عطف درست ہو۔
جواب : بعض حضرات نے واؤ کو استینافیہ کہا ہے اور لام محذوف کے متعلق ہے، تقدیر عبارت یہ ہے فَعَلْنَا ذٰلک لِنَجْعَلَکَ اٰیۃً للنَاس، لِنَجْعَلَکَ اصل میں لِاَنْ نَجْعَلَکَ ہے جار اپنے مصدر تاویلی مجرور سے مل کر فعل محذوف کے متعلق ہے۔
دوسرا جواب : جن حضرات نے واؤ عاطفہ مانا ہے تو انہوں نے فعل محذوف پر عطف کیا ہے جیسا کہ مفسر علام نے لِتَعْلَمَ معطوف علیہ مقدر مانا ہے اور وہ معطوف علیہ ایک دوسرے فعل مقدر سے جو کہ ماسبق سے مفہوم ہے، متعلق ہے اور وہ فَعَلْنَا ہے، تقدیر عبارت یہ ہے فَعَلْنَا ذلِکَ لِتَعْلَمَ قدرتنا علیٰ اِحیاءِ الموتیٰ ۔
قولہ : نُنشِرُھا، نون کے ضمہ اور راء مہملہ کے ساتھ انشار (افعال) سے جمع متکلم، ہم کس طرح زندہ کرکے اٹھاتے ہیں اور راء مہملہ کی صورت میں نون کے فتحہ کے ساتھ (ن) سے بھی پڑھا گیا ہے۔ اور ایک قراءت میں نون کے ضمہ اور زائے معجمہ کے ساتھ ہے ای نُحَرِّکُھَا ونرفَعُھا، یعنی کسی طرح حرکت دیتے ہیں اور اٹھاتے ہیں، مجازی معنی ہم کس طرح زندہ کرتے ہیں۔ حضرت عزیز (علیہ السلام) کو مشاہدہ احیاء سے قبل علم استدلالی حاصل تھا اور مشاہدہ کے بعد علم المشاہدہ حاصل ہوا، لہٰذا دونوں باتیں صحیح ہیں۔
قولہ : فَیَعْلَمُ السَّمِعون، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے سوال کی وجہ عدم یقین اور عدم ایمان نہیں تھا بلکہ مقصد یہ تھا کہ سامعین کو معلوم ہوجائے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے سوال کا مقصد اطمینان قلبی حاصل کرنا تھا نہ کہ نفس علم، تاکہ علم الوحی کے ساتھ علم المشاھدہ بلکہ مزید اطمینان کا سبب بنے، لہٰذا یہ وہم ختم ہوگیا کہ باوجود اس کے کہ اللہ کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ایمان کا علم تھا تو پھر، اَوَلَمْ تُؤْمِنْ ، کہہ کر اللہ تعالیٰ نے کیوں سوال کیا ؟
اللغۃ والبلاغۃ
اَلَمْ تَرَاِلَی الَّذِیْ حَاجَّ ، یہ استفہام تعجبی ہے، ای اِعجَبْ یا محمد مِنْ ھذہ القصۃ اور اَنّٰی یُحییْ ھذہ اللہ بَعْدَ مَوْتِھَا، میں استفہام اظہار عظمت کے لئے ہے۔ فَصُرْھُنّ ، بضم الصاد و کسرھا، صَارَ یَصورُ یا صَارَ یَصیْرُ سے فعل امر ہے بمعنی ضَمِّ او بمعنی مال ملا، مائل کر، مانوس کر، اس کے معنی ٹکڑے ٹکڑے کرنا بھی ہیں اور بعض نے کہا ہے ضمہ کے ساتھ تو دونوں معنی میں مشترک ہے اور کسرہ کے ساتھ بمعنی قطع کرنا۔
تفسیر و تشریح
اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْ حَآجَّ اِبْرَاھِیْمَ فِیْ رَبِّہٖ ، اَلَمْ تَرَ ، عربی ادب میں یہ اسلوب حیرت اور استعجاب کے موقع پر استعمال ہوتا ہے، اور اس میں پہلوئے ذم نمایاں ہے جب کبھی کسی کے کسی حیرت انگیز نقص یا عیب کی طرف توجہ دلانی ہوتی ہے تو اس کو اسی طریقہ پر شروع کرتے ہیں جیسے اردو میں کہتے ہیں : تم نے فلاں کی حرکت دیکھی ؟ (تفسیر کبیر ملخصاً ) رہی یہ بحث کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے بحث و مباحثہ کرنے والا کون تھا ؟ ظاہر ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا کوئی معاصر بادشاہ تھا، مفسرین نے اس کا نام نمرود بتایا ہے، جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے وطن عراق کا بادشاہ تھا، جس واقعہ کا یہاں ذکر کیا جا رہا ہے اس کا ذکر بائبل میں نہیں ہے اس لئے اہل کتاب اس واقعہ کو ماننے ہی میں تامل کرتے ہیں، البتہ تلمود میں یہ پورا واقعہ موجود ہے اور بڑی حد تک قرآن کے مطابق ہے، اس میں بتایا گیا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا باپ نمروذ کے یہاں سب سے بڑا عہدیدار تھا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب برملا شرک کی مخالفت اور توحید کی تبلیغ شروع کی اور بت خانہ میں گس کر بتوں کو توڑ ڈالا تو ان کے باپ نے خود ان کا مقدمہ بادشاہ کے دربار میں پیش کیا اور پھر وہ گفتگو ہوئی جو یہاں بیان کی گئی ہے۔
مابہ النزاع کیا تھا ؟: مابہ النزاع یہ بات تھی کہ ابراہیم (علیہ السلام) اپنا رب کس کو مانتے ہیں اور یہ نزاع اس وجہ سے پیدا ہوا کہ جھگڑنے والے شخص کو خدا نے حکومت عطا کی تھی اس وجہ نزاع کی طرف، اِنْ اٰتٰہُ اللہُ الْمَلْکَ ، سے اشارہ کیا ہے اس کو سمجھنے کے لئے مندرجہ ذیل حقیقتوں پر نظر رہنی ضروری ہے۔
(١) قدیم ترین زمانے سے آج تک تمام مشرک سوسائٹیوں کی مشترکہ خصوصیت رہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو رب الاعباب خدائے خداوند گان کی حیثیت سے تو مانتے ہیں، مگر صرف اسی کو رب اور تنہا اسی کو خدا اور معبود نہیں مانتے۔
(٢) خدائی کو مشرکین نے ہمیشہ دو حصوں میں تقسیم کیا ہے ایک فوق الفطری خدائی جو سلسلہ اسباب پر حکمراں ہے اور جس کی طرف انسان اپنی حاجت اور مشکلات میں دستگیری کے لئے رجوع کرت ا ہے، اس خدائی میں وہ اللہ کے ساتھ ارواح، فرشتوں اور جنوں اور سیاروں اور دوسری بہت سی ہستیوں کو شریک ٹھہراتے ہیں ان سے دعائیں مانگتے ہیں ان کے سامنے مراسم پرستش بجا لاتے ہیں اور ان کے آستانوں پر نذر و نیاز پیش کرتے ہیں۔ دوسری تمدنی اور سیاسی معاملات کی خدائی (یعنی حاکمیت) ہے اس دوسری قسم کی خدائی کو دنیا کے تمام مشرکوں نے قریب قریب ہر زمانہ میں اللہ تعالیٰ سے سلب کرکے شاہی خاندانوں اور مذہبی پروہتوں اور سوسائٹی کے اگلے پچھلے بڑوں میں تقسیم کردیا ہے۔ اکثر شاہی خاندان اسی دوسرے معنی میں خدائی کے مدعی ہوئے ہیں اور اسے مستحکم کرنے کے لئے انہوں نے بالعموم پہلے معنی والے خداؤں کی اولاد ہونیکا دعوی کیا ہے اور مذہبی طبقے اس معاملہ میں ان کے ساتھ شریک سازش رہے ہیں مثلاً جاپان کا شاہی خاندان اسی معنی کے اعتبار سے خود کو خدا کا اوتار کہتا ہے اور جاپانی ان کو خدا کا نمائندہ سمجھتے ہیں۔
(٣) نمروذ کا دعوائے خدائی بھی اسی دوسری قسم کا تھا وہ خدا کے وجود کا منکر نہ تھا اس کا دعویٰ یہ نہ تھا کہ زمین و آسمان کا خالق اور پوری کائنات کا مدبر میں ہوں، بلکہ اس کا دعویٰ یہ تھا کہ اس ملک عراق کا اور اس کے باشندوں کا حاکم مطلق میں ہوں میری زبان قانون ہے میرے اوپر کوئی بالاتر اقتدار نہیں ہے جس کے سامنے میں جواب دہ ہوں، اور عراق کا ہر وہ باشندہ باغی اور غدار ہے جو اس حیثیت سے مجھے اپنا رب نہ مانے یا میرے سوا کسی اور کو رب تسلیم کرے، نمزوذ کو اس خداداد سلطنت کی وسعت ہی نے اتنا دلیر، سرکش اور برخود غلط بنا رکھا تھا کہ دعوائے خدائی کر بیٹھا روایات یہود میں یہاں تک تصریح ملتی ہے کہ اس نے اپنے لئے ایک عرش الٰہی بنا رکھا تھا جس پر بیٹھ کر اجلاس کرتا تھا (ملاحظہ ہوگینزہوگ کی حکایات یہود) ۔
(٤) ابراہیم (علیہ السلام) نے جب کہا کہ میں صرف ایک رب العالمین کو خدا، معبود، اور رب مانتا ہوں اور اس کے سوا سب کی خدائی اور ربوبیت کا منکر ہوں تو سوال صرف یہی نہیں پیدا ہوا کہ قومی مذہب اور مذہبی معبودوں کے بارے میں ان کا یہ نیا عقیدہ کہاں تک قابل برداشت ہے بلکہ یہ سوال بھی اٹھ کھڑا ہوا کہ قومی ریاست اور اس کے مرکزی اقتدار پر اس عقیدے کی جو زد پڑی ہے اسے کیونکر نظر انداز کیا جاسکتا ہے یہی وجہ تھی کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جرم بغاوت کے الزام میں نمروذ کے سامنے پیش کئے گئے۔ نمروذ نے داعی توحید (ابراہیم (علیہ السلام) کو چیلنج دے کر پوچھا کہ وہ کونسا خدا ہے کہ جس کی طرف تم دعوت دے رہے ہو ذرا میں بھی تو اس کے اوصاف سنوں، تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا ” رَبِّیَ الَّذِیْ یُحْیِیٖ وَیُمِیْتُ “ یعنی حیات و موت کی ساری قوتیں اسی کے ہاتھ میں ہیں، وہ سارے نظام و ربوبیت کا سرچشمہ ہے کائنات حیاتی کی فنا اور بقا کے سارے قانون اور ضابطے آخر میں اسی پر جا کر ٹھیرتے ہیں۔ کسی بندے میں یہ طاقت نہیں کہ اس نظام حیاتی کو بدل سکے اس میں کوئی ادنی تصرف کر دکھائے، اگرچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے جواب کے اس پہلے ہی فقرے سے یہ بات واضح ہوچکی تھی کہ اب، اللہ کے سوا کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا، تاہم نمروذ اس کا جواب ڈھٹائی سے دے گیا اور دو واجب القتل مجرموں کو بلایا اور ایک کو معاف کردیا اور دوسرے کو قتل کرا دیا اور کہہ دیا ” اَنَا اُحْیٖ وَاُمِیْتُ “ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے استدلال وہی قائم رکھا صرف مخاطب کی ذہنی سطح کا لحاظ رکھتے ہوئے دوسری مثال پیش کردی اور فرمایا اچھا کائنات حیاتی نہ سہی کائنات طبعی ہی کے خدائی نظام میں ایک ادنی تصرف کرکے دکھا دو نمروذ سورج دیوتا کا خود کو اوتار کہتا تھا اور سورج کے خدائے اعظم ہونے کا قائل تھا اس کے عقیدہ کے ابطال و تردید میں سورج ہی کی مثال پیش کی، ” قَالَ اِبْرَاھِیْمُ فَاِنَّ اللہَ یَاْتِیْ بالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَاْتِ بِھَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُھِتَ الَّذِیْ کَفَر “ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کس قدر بہترین گرفت فرمائی ! !
اس استدلال کا نمروذ ڈھٹائی سے بھی جواب نہ دے سکا، اس لیے کہ وہ خود ہی جانتا تھا کہ آفتاب و ماہتاب اسی خدا کے زیر فرمان ہیں جس کو ابراہیم (علیہ السلام) رب مانتا ہے، مگر اس طرح جو حقیقت اس کے سامنے بےنقاب ہو رہی تھی اس کو تسلیم کرلینے کے معنی اپنی مطلق العنان فرمانروائی سے دست بردار ہوجانے کے تھے، جس کے لیے اس کے نفس کا طاغوت تیار نہ تھا لہٰذا وہ ششدر ہی ہو کر رہ گیا، خود پرستی کی تاریکی سے ھق پرستی کی روشنی میں نہ آیا۔ تلمود کا بیان ہے کہ اس کے بعد نمروذ کے حکم سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) قید کر دئیے گئے دس روز تک وہ جیل میں رہے، پھر بادشاہ کی کونسل نے ان کو زندہ جلانے کا فیصلہ کیا اور ان کو آگ میں پھینکے جانے کا واقعہ پیش آیا جو سورة انبیاء، عنکبوت اور سورة الصافات میں بیان ہوا ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَاجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رَبِّهِ﴾” کیا تو نے اسے نہیں دیکھا جو ابراہیم علیہ السلام سے اس کے رب کے بارے میں جھگڑ رہا تھا۔“ یعنی کیا آپ نے اس کی جرأت، تجاہل، عناد اور ناقابل شک حقیقت کے بارے میں جھگڑے کا مشاہدہ نہیں فرمایا؟ اس کی وجہ صرف یہ تھی ﴿أَنْ آتَاهُ اللَّـهُ الْمُلْكَ﴾” کہ اسے اللہ نے حکومت دی تھی۔“ تو وہ سرکشی اور بغاوت پر اتر آیا۔ اس نے دیکھا کہ وہ رعیت کا حکمران بن گیا ہے تو اتنی جرأت کی کہ ابراہیم سے اللہ کی ربوبیت کے بارے میں بحث کرنے لگا اور یہ دعویٰ کیا کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ جیسے کام کرسکتا ہے۔ ابراہیم نے فرمایا ﴿رَبِّيَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ﴾ ” میرا رب تو وہ ہے جو جلاتا اور مارتا ہے۔“ یعنی ہر کام کا اختیار اسی کو حاصل ہے آپ نے زندہ کرنے اور مارنے کا خاص طور پر ذکر فرمایا کیونکہ یہ سب سے عظیم تدبیر ہے اور اس لئے بھی کہ زندگی بخشنا دنیا کی زندگی کی ابتدا ہے اور موت دینا آخرت کے معاملات کی ابتدا ہے۔ اس کے جواب میں اس نے کہا ﴿َ أ نَا أُحْيِي وَأُمِيتُ﴾” میں بھی جلاتا اور مارتا ہوں“ اس نے یہ نہیں کہا :” میں ہی زندہ کرتا اور مارتا ہوں۔“ کیونکہ اس کا دعویٰ مستقل تصرف کا نہیں تھا۔ بلکہ وہ کہتا تھا کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ جیسے کام کرسکتا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ ایک آدمی کو قتل کردیتا ہے تو گویا اسے موت دے دی اور ایک آدمی کو زندہ رہنے دیتا ہے تو گویا اسے زندگی بخش دی۔ جب ابراہیم نے دیکھا کہ یہ شخص بحث میں مغالطہ سے کام لیتا ہے اور ایسی باتیں کہتا ہے جو دلیل تو درکنار شبہ بننے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتیں تو ایک دوسری دلیل پیش کرتے ہوئے فرمایا: ﴿َفَإِنَّ اللَّـهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ﴾” اللہ سورج کو مشرق کی طرف سے لے آتا ہے۔“ یہ حقیقت ہر شخص تسلیم کرتا ہے، حتیٰ کہ وہ کافر بھی اس کا انکار نہیں کرسکتا تھا۔ ﴿فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ﴾ ”پس تو اسے مغرب کی جانب سے لے آ۔“ یہ الزامی دلیل ہے۔ اگر وہ اپنے دعویٰ میں سچا ہوتا تو یہ اس کے موافق ہوجاتی۔ جب آپ نے ایسی بات فرما دی جس میں شبہ پیدا کرنے کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ نہ اس کے پاس اس دلیل کا کوئی توڑ موجود تھا۔﴿فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ﴾” اس لئے وہ کافر حیران رہ گیا۔“ یعنی حیرت زدہ ہوگیا، اس سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔ اس کی دلیل غلط ثابت ہوگئی اور اس کا پیش کردہ شبہ کالعدم ہوگیا۔ جو بھی جھوٹا ضد اور عناد کے ذریعے سے حق کا مقابلہ کرنا چاہے، وہ اسی طرح مغلوب اور شکست خوردہ ہوجایا کرتا ہے۔ اس لئے اللہ نے فرمایا: ﴿وَاللَّـهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ﴾” اور اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔“ بلکہ انہیں کفر وضلالت میں مبتلا رہنے دیتا ہے۔ کیونکہ انہوں نے اپنے لئے خود یہ چیز پسند کرلی ہوتی ہے۔ اگر ان کا مقصد ہدایت کا حصول ہوتا تو اللہ انہیں ہدایت دے دیتا، اور ہدایت تک پہنچنے کے اسباب مہیا کردیتا۔ یہ آیت ایک قطعی دلیل ہے کہ اللہ ہی خالق ہے اور وہی مختار کل ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ عبادت اور ہر حال میں توکل اسی کا حق ہے۔ ابن القیم رحمہ اللہ نے فرمایا :” اس مناظرہ میں ایک باریک نکتہ ہے کہ دنیا میں شرک کا دار و مدار ستاروں اور قبروں کی عبادت پر ہے۔ بعد میں انہی کے نام سے بت تراشے گئے۔ ابراہیم نے جو دلائل پیش کئے ہیں ان میں ان سب کی الوہیت کی اجمالاً تردید موجود ہے کیونکہ اللہ وحدہ لاشریک ہی زندہ کرتا اور موت دیتا ہے۔ وہ زندہ، جو مر جانے والا ہے وہ زندگی میں معبود بننے کی اہلیت رکھتا ہے نہ مرنے کے بعد۔ کیونکہ اس کا ایک رب ہے، جو قادر ہے، زبردست ہے، وہ اس کی زندگی اور موت کا فیصلہ کرتا ہے۔ جو ایسا مجبور ہو وہ معبود کیسے ہوسکتا ہے کہ اس کی صورت کا بت بنایا جائے اور اس کی پوجا کی جائے۔ اسی طرح ستاروں کا حال ہے۔ ان میں سے بڑا نظر آنے والا سورج ہے۔ یہ بھی حکم کا پابند ہے، اپنے بارے میں آزادی سے کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا۔ بلکہ اس کا خالق و مالک ہی اسے مشرق سے لاتا ہے تو وہ اس کے حکم اور مرضی کے مطابق اطاعت کرتا ہے۔ یعنی یہ بھی مربوب اور مسخر یعنی حکم کا پابند غلام ہے۔ معبود نہیں کہ اس کی عبادت کی جائے۔“ (مفتاح دارالسعادۃ:3؍ 210۔211)
11 Mufti Taqi Usmani
kiya tum ney uss shaks ( kay haal ) per ghor kiya jiss ko Allah ney saltanat kiya dey di thi kay woh apney perwerdigar ( kay wajood hi ) kay baaray mein Ibrahim say behas kernay laga-? jab Ibrahim ney kaha kay : mera perwerdigar woh hai jo zindagi bhi deta hai aur moat bhi to woh kehney laga kay : mein bhi zindagi deta hun aur moat deta hun . Ibrahim ney kaha : acha ! Allah to sooraj ko mashriq say nikalta hai , tum zara ussay maghrib say to nikal ker lao . iss per woh kafir mabhoot ho ker reh gaya . aur Allah aesay zalimon ko hidayat nahi diya kerta .
12 Tafsir Ibn Kathir
ابراہیم (علیہ السلام) اور نمرود کا آمنا سامنا
اس بادشاہ کا نام نمرود بن کنعان بن سام بن نوح تھا اس کا پایہ تخت بابل تھا اس کے نسب میں کچھ اختلاف بھی ہے، حضرت مجاہد فرماتے ہیں دنیا کی مشرق مغرب کی سلطنت رکھنے والے چار ہوئے جن میں سے دو مومن اور دو کافر، حضرت سلیمان بن داؤد اور حضرت ذوالقرنین، اور کافروں میں نمرود اور بخت نصر، فرمان ہوتا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم نے اسے نہیں دیکھا، جو حضرت ابراہیم سے وجود باری تعالیٰ میں مباحثہ کرنے لگا، یہ شخص خود اللہ ہونے کا مدعی تھا، جیسا اس کے بعد فرعون نے بھی اپنے والوں میں دعویٰ کیا تھا کہ میں اپنے سوا کسی کو تمہارا رب نہیں جانتا، چونکہ ایک مدت مدید اور عرصہ بعید سے یہ بادشاہ چلا آتا تھا اس لئے دماغ میں رعونت اور انانیت آگئی تھی، سرکشی اور تکبر، نخوت اور غرور طبیعت میں سما گیا تھا، بعض لوگ کہتے ہیں چار سو سال تک حکومت کرتا رہا تھا، حضرت ابراہیم سے جب اس نے وجود باری تعالیٰ پر دلیل مانگی تو آپ نے نیست سے ہست اور ہست سے نیست کرنے کی دلیل دی جو ایک بدیہی اور مثل آفتاب روشن دلیل تھی کہ موجودات کا پہلے کچھ نہ ہونا پھر ہونا پھر مٹ جانا کھلی دلیل ہے۔ موجد اور پیدا کرنے والے کے موجود ہونے کی اور وہی اللہ ہے، نمرود نے جواباً کہا کہ یہ تو میں بھی کرتا ہوں، یہ کہہ کردو شخصوں کو اس نے بلوایا جو واجب القتل تھے، ایک کو قتل کردیا اور دوسرے کو رہا کردیا، دراصل یہ جواب اور دعویٰ کس قدر لچر اور بےمعنی ہے اس کے بیان کی بھی ضرورت نہیں، حضرت ابراہیم نے تو صفات باری میں سے ایک صفت پیدا کرنا اور پھر نیست کردینا بیان کی تھی اور اس نے نہ تو انہیں پیدا کیا اور نہ ان کی یا اپنی موت حیات پر اسے قدرت، لیکن جہلاء کو بھڑکانے کیلئے اور اپنی علمیت جتانے کیلئے باوجود اپنی غلطی اور مباحثہ کے اصول سے طریقہ فرار کو جانتے ہوئے صرف ایک بات بنالی، ابراہیم بھی اس کو سمجھ گئے اور آپ نے کند ذہن کے سامنے ایسی دلیل پیش کردی کہ صورتاً بھی اس کی مشابہت نہ کرسکے، چناچہ فرمایا کہ جب تو پیدائش اور موت تک کا اختیار رکھتا ہے تو مخلوق پر تصرف تیرا پورا ہونا چاہئے، میرے اللہ نے تو یہ تصرف کیا کہ سورج کو حکم دے دیا ہے کہ وہ مشرق کی طرف سے نکلا کرے چناچہ وہ نکل رہا ہے، اب تو اسے حکم دے کہ وہ مغرب کی طرف سے نکلے اس کا کوئی ظاہری ٹوٹا پھوٹا جواب بھی نہ اس سے بن پڑا اور بےزبان ہو کر اپنی عاجزی کا معترف ہوگیا اور اللہ کی حجت اس پر پوری ہوگئی لیکن چونکہ ہدایت نصیب نہ تھی راہ یافتہ نہ ہوسکا، ایسے بدوضع لوگوں کو اللہ کوئی دلیل نہیں سمجھاتا اور وہ حق کے مقابلے میں بغلیں جھانکتے ہی نظر آتے ہیں، ان پر اللہ کا غضب و غصہ اور ناراضگی ہوتی ہے اور اس کیلئے اس جہاں میں بھی سخت عذات ہوتے ہیں، بعض منطقیوں نے کہا ہے کہ حضرت خلیل اللہ نے یہاں ایک واضح دلیل کے بعد دوسری اس سے بھی زیادہ واضح دلیل پیش کردی، لیکن درحقیت یوں نہیں بلکہ پہلی دلیل دوسری کا مقدمہ تھی اور ان دونوں میں سے نمرود کے دعویٰ کا بطلان بالکل واضح ہوگیا، اصل دلیل پیدائش و موت ہی ہے چونکہ اس کا دعویٰ اس ناسمجھ مشت خاک نے بھی کیا تو لازم تھا کہ جو بنانے بگاڑنے پر نہ صرف قادر ہو بلکہ بناؤ بگاڑ کا بھی خالق ہو اس کی ملکیت پوری طرح اسی کے قبضہ میں ہونی چاہئے اور جس طرح موت وحیات کے احکام اس کے جاری ہوجاتے ہیں اسی طرح دوسرے احکام بھی جاری ہوجائیں، پھر کیا وجہ ہے کہ سورج جو کہ ایک مخلوق ہے اس کی فرمانبرداری اور اطاعت گزاری نہ کرے اور اس کے کہنے سے مشرق کی بجائے مغرب سے نہ نکلے ؟ پس ابراہیم نے اس پر اس مباحثہ میں کھلا غلبہ پایا اور اسے بالکل لاجواب کردیا فالحمدللہ۔ حضرت سدی فرماتے ہیں یہ مناظرہ حضرت ابراہیم کے آگ سے نکل آنے کے بعد ہوا تھا اس سے پہلے آپ کی اس ظالم بادشاہ سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی تھی، زید بن اسلم کا قول ہے کہ قحط سالی تھی، لوگ نمرود کے پاس جاتے تھے اور غلہ لے آتے تھے، حضرت خلیل اللہ بھی گئے، وہاں یہ مناظرہ ہوگیا بدبخت نے آپ کو غلہ نہ دیا، آپ خالی ہاتھ واپس آئے، گھر کے قریب پہنچ کر آپ نے دونوں بوریوں میں ریت بھر لی کہ گھر والے سمجھیں کچھ لے آئے، گھر آتے ہی بوریاں رکھ کر سو گئے، آپ کی بیوی صاحبہ حضرت سارہ اٹھیں بوریوں کو کھولا تو دیکھا کہ عمدہ اناج سے دونوں پر ہیں، کھانا پکا کر تیار کیا، آپ کی بھی آنکھ کھلی دیکھا کہ کھانا تیار ہے، پوچھا اناج کہاں سے آیا، کہا دو بوریاں جو آپ بھر کر لائے ہیں، انہیں میں سے یہ اناج نکالا تھا، آپ سمجھ گئے کہ یہ اللہ جل شانہ کی طرف سے برکت اور اس کی رحمت ہے، اس ناہنجار بادشاہ کے پاس اللہ نے ایک فرشتہ بھیجا اس نے آکر اسے توحید کی دعوت دی لیکن اس نے قبول نہ کی، دوبارہ دعوت دی لیکن انکار کیا تیسری مرتبہ اللہ کی طرف بلایا لیکن پھر بھی یہ منکر ہی رہا۔ اس بار بار کے انکار کے بعد فرشتے نے اس سے کہا اچھا تو اپنا لشکر تیار کر میں بھی اپنا لشکر لے آتا ہوں، نمرود نے بڑا بھاری لشکر تیار کیا اور زبردست فوج کو لے کر سورج نکلنے کے میدان میں آ ڈٹا، ادھر اللہ تعالیٰ نے مچھروں کا ایک دروازہ کھول دیا، بڑے بڑے مچھر اس کثرت سے آئے کہ لوگوں کو سورج بھی نظر نہ آتا تھا، اللہ کی یہ فوج نمرودیوں پر گری اور تھوڑی دیر میں ان کا خون تو کیا ان کا گوشت پوست سب کھا گئی اور سارے کے سارے یہیں ہلاک ہوگئے، ہڈیوں کا ڈھانچہ باقی رہ گیا، انہی مچھروں میں سے ایک نمرود کے نتھنے میں گھس گیا اور چارسو سال تک اس کا دماغ چاٹتا رہا ایسے عذاب میں وہ رہا کہ اس سے موت ہزاروں درجے بہتر تھی اپنا سر دیواروں اور پتھروں پر مارتا پھرتا تھا، ہتھوڑوں سے کچلواتا تھا، یونہی رینگ رینگ کر بدنصیب نے ہلاکت پائی۔ اعاذنا اللہ۔