البقرہ آية ۲۷۶
يَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَيُرْبِى الصَّدَقٰتِۗ وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِيْمٍ
طاہر القادری:
اور اﷲ سود کو مٹاتا ہے (یعنی سودی مال سے برکت کو ختم کرتا ہے) اور صدقات کو بڑھاتا ہے (یعنی صدقہ کے ذریعے مال کی برکت کو زیادہ کرتا ہے)، اور اﷲ کسی بھی ناسپاس نافرمان کو پسند نہیں کرتا،
English Sahih:
Allah destroys interest and gives increase for charities. And Allah does not like every sinning disbeliever.
1 Abul A'ala Maududi
اللہ سود کا مٹھ مار دیتا ہے اور صدقات کو نشو و نما دیتا ہے اور اللہ کسی ناشکرے بد عمل انسان کو پسند نہیں کرتا
2 Ahmed Raza Khan
اللہ ہلاک کرتا ہے سود کو اور بڑھاتا ہے خیرات کو اور اللہ کو پسند نہیں آتا کوئی ناشکرا بڑا گنہگار،
3 Ahmed Ali
الله سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے اور الله کسی ناشکرے گناہگار کو پسندنہیں کرتا
4 Ahsanul Bayan
اللہ تعالٰی سود کو مٹاتا ہے اور صدقہ کو بڑھاتا ہے (١) اور اللہ تعالٰی کسی ناشکرے اور گنہگار سے محبت نہیں کرتا۔
٢٧٦۔١ یہ سود کے معنوی اور روحانی نقصان اور صدقے کی برکتوں کا بیان ہے۔ سود میں بظاہر بڑھوتری نظر آتی ہے لیکن معنوی حساب سے یا مال (انجام) کے اعتبار سے سودی رقم ہلاکت و بربادی ہی کا باعث بنتی ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
خدا سود کو نابود (یعنی بےبرکت) کرتا اور خیرات (کی برکت) کو بڑھاتا ہے اور خدا کسی ناشکرے گنہگار کو دوست نہیں رکھتا
6 Muhammad Junagarhi
اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقہ کو بڑھاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کسی ناشکرے اور گنہگار سے محبت نہیں کرتا
7 Muhammad Hussain Najafi
اللہ سود کو مٹاتا ہے اور خیر و خیرات کو بڑھاتا ہے اور جتنے ناشکرے اور گنہگار ہیں اللہ ان کو دوست نہیں رکھتا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
خدا سود کو برباد کردیتا ہے اور صدقات میں اضافہ کردیتا ہے اور خدا کسی بھی ناشکرے گناہگار کو دوست نہیں رکھتا
9 Tafsir Jalalayn
خدا سود کو نابود (یعنی بےبرکت) کرتا اور خیرات (کی برکت) کو بڑھاتا ہے اور خدا کسی ناشکرے گنہگار کو دوست نہیں رکھتا
یَمْحَقُ اللہُ الرِّبوٰا وَیُرْبِی الصَّدَقَاتِ ، اس آیت میں جو یہ کہا گیا ہے کہ اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے یہاں سود کے ساتھ صدقات کا ذکر ایک خاص مناسبت سے کیا گیا ہے وہ یہ کہ سود اور صدقہ کی حقیقت میں تضاد ہے اور اس کے نتائج بھی مختلف ہیں اور عموماً ان دونوں کا موں کے کرنے والوں کی غرض اور نیت بھی متضاد ہوتی ہے۔ حقیقت کا تضاد تو یہ ہے کہ صدقہ میں تو بغیر کسی معاوضہ کے اپنا مال دوسروں کو دیا جاتا ہے اور سود میں بغیر کسی معاوضہ کے دوسرے کا مال لیا جاتا ہے۔ ان دونوں کاموں کے کرنے والوں کی نیت اور غرض اس لیے متضاد ہے کہ صدقہ کرنے والا محض اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے ایک مال کو کم یا ختم کردینے کا فیصلہ کرتا ہے اور سود لینے والا اپنے موجودہ مال پر ناجائز زیادتی کا خواہشمند ہے، اور ان دونوں کا انجام بھی متضاد ہے صدقہ سے معاشرہ میں ہمدردی، الفت، محبت و شفقت جنم لیتی ہے اور سود سے غصہ، عداوت، نفرت اور خود غرضی فروغ پاتی ہیں۔
سود کو مٹانے اور صدقہ کو پڑھانے کے وعدہ و وعید کا مشاہدہ پوری طرح تو آخرت میں ہو کر ہی رہے گا لیکن دنیا میں بھی سود کھانے میں برکت و خیریت برائئے نام بھی نظر نہ آئے گی۔ اس کے برعکس ایک شخص کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شب معراج میں خون کے دریا میں غوطہ کھاتے دیکھا تو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) سے دریافت فرمایا یہ کون شخص ہے ؟ جبرئیل (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ یہ سود کھانے والا ہے۔ ایک سود خود مہاجن چونکہ عوام الناس قلیل المایہ لوگوں کا بےرحمی سے خون چوس چوس کر خود کو فربہ کرتا ہے اس لیے مثالی شکل کے طور پر سود خور کو خون کے دریا میں تیرتا ہوا دکھایا گیا، اس کے علاوہ دنیا میں بھی سود خود قوموں اور افراد کی تباہی و بربادی کا انجام بار ہا دنیا نے دیکھا ہے سود خوری کی عادت بنیوں اور مہاجنوں کے دل میں روپیہ کو فی نفسہٖ محبوب بنا دیتی ہے۔ سود خور روپے پیسے سے محبت کی وجہ سے خرچ نہیں کرتا جس کی وجہ سے روپیہ خرچ کرنا اس کیلئے جان نکالنے کے برابر ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ خود بھی اپنی دولت سے کما حقہ لطف و راحت حاصل نہیں کر پاتا۔ اس کے مقابلہ میں صدقہ کی برکتیں ملی غمخواری و ہمدردی، ایک دوسرے کی مشارکت و معاونت، قوم و افراد دونوں میں مشاہدہ کی چیزیں ہیں۔ بینکوں کے آئے دن لوٹنے، مہاجنوں اور بنیوں کے دیوالیہ نکلتے رہنے اور پھر اس سے ہزاروں گھروں کی تباہی و بربادی کس نے نہیں دیکھی۔
وَاللہُ لَا یُحِبُ کُلَّ کَفَّارٍ اَثِیْمٍ ، اس میں دونوں قسم کے نافرمان شامل ہیں سود کی حرمت کا عقیدہ رکھنے کے باوجود سودی کاروبار کرنے والے اور سود کی حرمت کا عقیدہ نہ رکھنے والے بھی یہ دونوں جہنم میں جائیں گے لیکن دائمی دخول ان سورخوروں کی سزا ہے جو سود کو حلال سمجھ کر سودی کاروبار کرتے ہیں۔
سامان راحت اور چیز ہے اور راحت اور چیز : یہاں شاید کسی کو یہ شبہ ہو کہ آج تو سود خوروں کو بڑی سے بڑی راحت و عزت حاصل ہے وہ کوٹھیوں، بنگلوں کے مالک ہیں عیش و آرام کے سامان مہیا ہیں، کھانے پینے پہننے اور رہنے سہنے کی ضروریات بلکہ فضولیات بھی سب ان کو حاصل ہیں، نوکر چاکر اور شان و شوکت کے تمام اسباب موجود ہیں، لیکن غور کیا جائے تو ہر شخص سمجھ لے گا کہ سامان راحت اور راحت میں بڑا فرق ہے، سامان راحت تو فیکٹریوں، کارخانوں میں بنتا ہے اور بازاروں میں بکتا ہے وہ سونے چاندی کے عوض حاصل ہوسکتا ہے، لیکن جس شئ کا نام راحت ہے وہ نہ کسی فیکٹری میں بنتی ہے اور نہ کسی منڈی میں بکتی ہے وہ تو ایک ایسی رحمت ہے جو براہ راست حق تعالیٰ کی طرف سے دی جاتی ہے وہ بعض اوقات ہزاروں سامان راحت کے باوجود حاصل نہیں ہوتی، ایک نیند ہی کی راحت کو دیکھ لیجئے کہ اس کو حاصل کرنے کے لیے یہ تو کرسکتے ہیں کہ سونے کے لیے بہتر مکان بنائیں، ہوا، روشنی کا پورا اعتدال ہو، مکان کا فرنیچر دیدہ زیب و دل خوش کن ہو، مسہری اور گدے تکئے حسب منشا ہوں، لیکن کیا نیند کا آجانا ان سامانوں کے مہیا ہونے پر لازمی ہے ؟ اگر آپ کو کبھی اتفاق نہ ہوا ہو تو ہزاروں انسان اس کا جواب نفی میں دیں گے جن کو کسی عارضہ کی وجہ سے نیند نہیں آتی امریکہ جیسے مالدار و متمول ملک کے متعلق بعض رپورٹوں سے معلوم ہوا ہے کہ وہاں پچھتر فیصد آدمی خواب آور گولیوں کے بغیر سو ہی نہیں سکتے، اور بعض اوقات خواب آور گولیاں بھی جواب دے دیتی ہیں، نیند کا سامان تو آپ بازار سے خرید لائے مگر نیند آپ کسی بازار سے کسی قیمت پر نہیں لاسکتے، اسی طرح دوسری راحتوں اور لذتوں کا حال ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
شرک کے علاوہ جن گناہوں کے بارے میں قرآن و حدیث میں دوزخ میں ہمیشہ رہنے کی سزا مذکور ہے۔ ان کے بارے میں علماء کے مختلف اقوال ہیں۔ زیادہ بہتر قول یہ ہے کہ جن اعمال کا نتیجہ اللہ نے دائمی جہنم مقرر کیا ہے یہ اس کا سبب ہیں۔ لیکن سبب کے ساتھ اگر کوئی مانع نہ ہو تو نتیجہ ضرور ظاہر ہوا کرتا ہے۔ قرآن و حدیث اور اجماع سے ثابت ہے کہ توحید اور ایمان جہنم میں ہمیشہ رہنے سے مانع ہیں۔ یعنی یہ عمل ایسا ہے کہ اگر بندہ توحید کا حامل نہ ہوتا تو یہی عمل اسے جہنم میں ہمیشہ رکھنے کا باعث بن سکتا تھا۔ اس کے بعد فرمایا﴿ يَمْحَقُ اللَّـهُ الرِّبَا ﴾” اللہ سود کو مٹاتا ہے۔“ یعنی اسے بھی اور اس کی برکت کو بھی ذاتی اور صفاتی طور پر ختم کرتا ہے۔ یہ آفات کا باعث بنتا ہے اور برکت چھن جانے کا سبب ہوتا ہے۔ اگر اس (حرام کمائی) سے وہ اللہ کی راہ میں خرچ کرے تو اسے اس کا کوئی ثواب نہیں ملے گا، بلکہ یہ اسے جہنم میں لے جائے گا۔﴿ وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ﴾” اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔“ یعنی جس مال سے صدقہ دیا جائے اس میں برکت نازل فرماتا ہے اور ثواب میں اضافہ کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جزا و سزا عمل کی جنس سے ہوتی ہے۔ سود خور لوگوں پر ظلم کرتا ہے اور ان کے مال غیر شرعی طریقے سے لیتا ہے اس لئے اس کی سزا یہ ہے کہ اس کا مال تباہ ہوجائے اور جو شخص لوگوں پر کسی بھی انداز سے احسان کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس سے زیادہ سخی ہے۔ جس طرح اس شخص نے اس کے بندوں پر احسان کیا ہے، اللہ بھی اس پر احسان کرتا ہے۔ ﴿وَاللَّـهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ﴾ ” اور اللہ نہیں دوست رکھتا کسی ناشکرے کو۔“ جو اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کرتا ہے اور اللہ کے واجب کئے ہوئے صدقے اور زکوٰۃ ادا نہیں کرتا، اور اللہ کے بندے اس کے شر سے محفوظ نہیں۔﴿ أَثِيمٍ﴾ ” اور گناہ گار کو“ یعنی اس نے گناہ کا ارتکاب کیا ہے جو اسے سزا ملنے کا باعث ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
Allah sood ko mitatta hai aur sadqaat ko barhata hai . aur Allah her uss shaks ko napasand kerta hai jo nashukra gunehgaar ho .
12 Tafsir Ibn Kathir
سود کا کاروبار برکت سے محروم ہوتا ہے
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ سود کو برباد کرتا ہے یعنی یا تو اسے بالکل غارت کردیتا ہے یا سودی کاروبار سے خیر و برکت ہٹا دیتا ہے علاوہ ازیں دنیا میں بھی وہ تباہی کا باعث بنتا ہے اور آخرت میں عذاب کا سبب، جیسے ہے آیت قل لا یستوی الخبیث والطیب الخ، یعنی ناپاک اور پاک برابر نہیں ہوتا گو تمہیں ناپاک کی زیادتی تعجب میں ڈالے۔ ارشاد فرمایا آیت ویجعل الخبیث بعضہ علی بعض فیر کم فیجعلہ فی جہنم۔ الایہ خباثت والی چیزوں کو تہ وبالا کرکے وہ جہنم میں جھونک دے گا اور جگہ ہے آیت (وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّيَرْبُوَا۟ فِيْٓ اَمْوَال النَّاسِ فَلَا يَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰهِ ) 30 ۔ الروم :39) یعنی سود دے کر جو مال تم بڑھانا چاہتے ہو وہ دراصل بڑھتا نہیں، اسی واسطے حضرت عبداللہ بن مسعود والی روایت میں ہے کہ سود سے اگر مال میں اضافہ ہو بھی جائے لیکن انجام کار کمی ہوتی ہے (مسند احمد) مسند کی ایک اور روایت میں ہے کہ امیرالمومنین حضرت عمر فاروق مسجد سے نکلے اور اناج پھیلا ہوا دیکھ کر پوچھا یہ غلہ کہاں سے آیا ؟ لوگوں نے کہا بکنے کیلئے آیا ہے، آپ نے دعا کی کہ اللہ اس میں برکت دے، لوگوں نے کہا یہ غلہ گراں بھاؤ بیچنے کیلئے پہلے ہی جمع کرلیا تھا، پوچھا کس نے جمع کیا تھا، لوگوں نے کہا ایک تو فروخ نے جو حضرت عثمان کے مولی ہیں اور دوسرے آپ کے آزاد کردہ غلام نے، آپ نے دونوں کو بلوایا اور فرمایا تم نے ایسا کیوں کیا ؟ جواب دیا کہ ہم اپنے مالوں سے خریدتے ہیں اور جب چاہیں بیچیں، ہمیں اختیار ہے، آپ نے فرمایا سنو میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ جو شخص مسلمانوں میں مہنگا بیچنے کے خیال سے غلہ روک رکھے اسے اللہ مفلس کردے گا، یہ سن کر حضرت فروخ تو فرمانے لگے کہ میری توبہ ہے میں اللہ سے اور پھر آپ سے عہد کرتا ہوں کہ پھر یہ کام نہ کروں گا لیکن حضرت عمر کے غلام نے پھر بھی یہی کہا کہ ہم اپنے مال سے خریدتے ہیں اور نفع اٹھا کر بیچتے ہیں، اس میں کیا حرج ہے ؟ راوی حدیث حضرت ابو یحییٰ فرماتے ہیں میں نے پھر دیکھا کہ اسے جذام ہوگیا اور جذامی (کوڑھ) بنا پھرتا تھا، ابن ماجہ میں ہے جو شخص مسلمانوں کا غلہ گراں بھاؤ بیچنے کیلئے روک رکھے اللہ تعالیٰ اسے مفلس کر دے گا یا جذامی۔ پھر فرماتا ہے وہ صدقہ کو بڑھاتا ہے۔ یربی کی دوسری قرأت یربی بھی ہے، صحیح بخاری شریف کی حدیث میں ہے جو شخص اپنی پاک کمائی سے ایک کھجور بھی خیرات کرے اسے اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی داہنے ہاتھ لیتا ہے پھر اسے پال کر بڑا کرتا ہے (جس طرح تم لوگ اپنے بچھڑوں کو پالتے ہو) اور اس کا ثواب پہاڑ کے برابر بنا دیتا ہے اور پاک چیز کے سوا وہ ناپاک چیز کو قبول نہیں فرماتا، ایک اور روایت میں ہے کہ ایک کھجور کا ثواب حد پہاڑ کے برابر ملتا ہے، اور روایت میں ہے کہ ایک لقمہ مثل احد کے ہو کر ملتا ہے، پس تم صدقہ خیرات کیا کرو، پھر فرمایا ناپسندیدہ کافروں، نافرمان زبان زور اور نافرمان فعل والوں کو اللہ پسند نہیں کرتا، مطلب یہ ہے کہ جو لوگ صدقہ خیرات نہ کریں اور اللہ کی طرف سے صدقہ خیرات کے سبب مال میں اضافہ کے وعدہ کی پرواہ کئے بغیر دنیا کا مال دینار جمع کرتے پھریں اور بدترین اور خلاف شرع طریقوں سے کمائیاں کریں لوگوں کے مال باطل اور ناحق طریقوں سے کھا جائیں، یہ اللہ کے دشمن ہیں ان ناشکروں اور گنہگاروں سے اللہ کا پیار ممکن نہیں۔ پھر ان بندوں کی تعریف ہو رہی ہے جو اپنے رب کے احکام کی بجا آوری کریں، مخلوق کے ساتھ سلوک و احسان قائم کریں، نمازیں قائم کریں، زکوٰۃ دیتے رہیں، یہ قیامت کے دن تمام دکھ درد سے امن میں رہیں گے کوئی کھٹکا بھی ان کے دل پر نہ گزرے گا بلکہ رب العالمین اپنے انعام و اکرام سے انہیں سرفراز فرمائے گا۔