(وہ) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس پر ایمان لائے (یعنی اس کی تصدیق کی) جو کچھ ان پر ان کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا اور اہلِ ایمان نے بھی، سب ہی (دل سے) اﷲ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے، (نیز کہتے ہیں:) ہم اس کے پیغمبروں میں سے کسی کے درمیان بھی (ایمان لانے میں) فرق نہیں کرتے، اور (اﷲ کے حضور) عرض کرتے ہیں: ہم نے (تیرا حکم) سنا اور اطاعت (قبول) کی، اے ہمارے رب! ہم تیری بخشش کے طلب گار ہیں اور (ہم سب کو) تیری ہی طرف لوٹنا ہے،
English Sahih:
The Messenger has believed in what was revealed to him from his Lord, and [so have] the believers. All of them have believed in Allah and His angels and His books and His messengers, [saying], "We make no distinction between any of His messengers." And they say, "We hear and we obey. [We seek] Your forgiveness, our Lord, and to You is the [final] destination."
1 Abul A'ala Maududi
رسول اُس ہدایت پر ایمان لایا ہے جو اس کے رب کی طرف سے اس پر نازل ہوئی ہے اور جو لوگ اِس رسول کے ماننے والے ہیں، انہوں نے بھی اس ہدایت کو دل سے تسلیم کر لیا ہے یہ سب اللہ اور اس کے فرشتوں اوراس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو مانتے ہیں اور ان کا قول یہ ہے کہ: "ہم اللہ کے رسولوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتے، ہم نے حکم سنا اور اطاعت قبول کی مالک! ہم تجھ سے خطا بخشی کے طالب ہیں اور ہمیں تیری ہی طرف پلٹنا ہے"
2 Ahmed Raza Khan
سب نے مانا اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو یہ کہتے ہوئے کہ ہم اس کے کسی رسول پر ایمان لانے میں فرق نہیں کرتے اور عرض کی کہ ہم نے سنا اور مانا تیری معافی ہو اے رب ہمارے! اور تیری ہی طرف پھرنا ہے،
3 Ahmed Ali
رسول نے مان لیا جو کچھ اس پر اس کے رب کی طرف سے اترا ہے اور مسلمانوں نے بھی مان لیا سب نے الله کو اور اس کے فرشتوں کو اور اس کی کتابوں کو اور اس کے رسولوں کو مان لیا ہے کہتے ہیں کہ ہم الله کے رسولوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتے اور کہتے ہیں ہم نے سنا اور مان لیا اے ہمارے رب تیری بخشش چاہتے ہیں اور تیری ہی طرف لوٹ کر جانا ہے
4 Ahsanul Bayan
رسول ایمان لایا اس چیز پر جو اس کی طرف اللہ تعالٰی کی جانب سے اترے اور مومن بھی ایمان لائے یہ سب اللہ تعالٰی اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے، اس کے رسولوں میں سے کسی میں ہم تفریق نہیں کرتے (١) انہوں نے کہہ دیا کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی، ہم تیری بخشش طلب کرتے ہیں اے ہمارے رب اور ہمیں تیری ہی طرف لوٹنا ہے۔
٢٨٥۔١ اس آیت میں پھر ان ایمانیات کا ذکر ہے جن پر اہل ایمان کو ایمان رکھنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس اگلی آیت (لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا) 2۔ البقرۃ;286) میں اللہ تعالٰی کی رحمت اور شفقت اور اس کے فضل و کرم کا تذکرہ ہے کہ اس نے انسانوں کو کسی ایسی بات کا مکلف نہیں کیا جو ان کی طاقت سے بالا ہو۔ ان دونوں آیات کی حدیث میں بڑی فضیلت آئی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص سورۃ بقرہ کی آخری دو آیتیں رات کو پڑھ لیتا ہے تو یہ اس کو کافی ہو جاتی ہیں (صحیح بخاری) دوسری حدیث میں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کی رات جو تین چیزیں ملیں ان میں سے ایک سورۃ بقرہ کی یہ دو آخری آیات بھی ہیں (صحیح مسلم) کئی روایات میں یہ وارد ہے کہ اس سورۃ کی آخری آیات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک خزانے سے عطا کی گئیں جو عرش الٰہی کے نیچے ہے۔ اور یہ آیات آپ کے سوا کسی اور نبی کو نہیں دی گئیں حضرت معاذ رضی اللہ تعالٰی عنہ اس صورت کے خاتمے پر آمین کہا کرتے تھے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
رسول (خدا) اس کتاب پر جو ان کے پروردگار کی طرف سے ان پر نازل ہوئی ایمان رکھتے ہیں اور مومن بھی۔ سب خدا پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے پیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں (اورکہتے ہیں کہ) ہم اس کے پیغمبروں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے اور وہ (خدا سے) عرض کرتے ہیں کہ ہم نے (تیرا حکم) سنا اور قبول کیا۔ اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں اور تیری ہی طرف لوٹ کر جانا ہے
6 Muhammad Junagarhi
رسول ایمان ﻻیا اس چیز پر جو اس کی طرف اللہ تعالیٰ کی جانب سے اتری اور مومن بھی ایمان ﻻئے، یہ سب اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان ﻻئے، اس کے رسولوں میں سے کسی میں ہم تفریق نہیں کرتے، انہوں نے کہہ دیا کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی، ہم تیری بخشش طلب کرتے ہیں اے ہمارے رب! اور ہمیں تیری ہی طرف لوٹنا ہے،
7 Muhammad Hussain Najafi
رسول(ص) ان تمام باتوں پر ایمان رکھتا ہے جو ان کے پروردگار کی طرف سے ان پر اتاری گئی ہیں اور مؤمنین بھی (سب) خدا پر اس کے ملائکہ پر، اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں۔ (وہ کہتے ہیں کہ) ہم خدا کے رسولوں میں تفریق نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ ہم نے فرمانِ الٰہی سنا اور اس کی اطاعت کی! پروردگار ہمیں تیری مغفرت درکار ہے۔ اور تیری ہی طرف پلٹ کر آنا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
رسول ان تمام باتوں پر ایمان رکھتا ہے جو اس کی طرف نازل کی گئی ہیں اور مومنین بھی سب اللہ اور ملائکہ اور مرسلین پر ایمان رکھتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ہم رسولوں کے درمیان تفریق نہیں کرتے . ہم نے پیغام الٰہی کو صَنا اور اس کی اطاعت کی پروردگار اب تیری مغفرت درکار ہے اور تیری ہی طرف پلٹ کر آنا ہے
9 Tafsir Jalalayn
رسول (خدا) اس کتاب پر جو ان کے پروردگار کی طرف سے ان پر نازل ہوئی ایمان رکھتے ہیں اور مومن بھی سب خدا پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے پیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں (اور کہتے ہیں کہ) ہم اس پیغمبروں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے اور وہ (خدا سے) عرض کرتے ہیں کہ ہم نے (تیرا حکم) سنا اور قبول کیا اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں اور تیری ہی طرف لوٹ کر جانا ہے اَمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِ مِنْ رَّبِّہٖ (الاٰیۃ) اس آیت میں پھر ان ایمانیان کا ذکر ہے، جن پر اہل ایمان کو ایمان رکھنے کا حکم دیا گیا ہے، اور اس سے اگلی آیت ” لَایُکَلِّفُ اللہُ “ میں اللہ تعالیٰ کی رحمت و شفقت اور اس کے فضل و کرم کا تذکرہ ہے ان دونوں آیات کی احادیث میں بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص سورة بقرہ کی آخری دو آیتیں رات کو پڑھ لیتا ہے تو اس کو کافی ہوجاتی ہیں اس کے علاوہ اور بھی بہت سی فضیلتیں وارد ہوئی ہیں۔ سورة بقرہ تمام ہوئی وللہ الحمداولہ وآخرہ وظاھرہ و باطنہ وھوالمستعان۔ بندہ محمد جمال استاذدارالعلوم دیوبند۔ بعد نماز مغرب بروزپیر۔ ٢١ شوال ١٤٢٤ ھ، ١٥۔ ١٢۔ ٢٠٠٣ ء
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تعالیٰ رسولوں اور مومنوں کے ایمان، اطاعت اور طلب مغفرت کا ذکر فرماتا ہے کہ وہ لوگ اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں۔ اس میں ان تمام صفات کمال و جلال پر ایمان لانا داخل ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بارے میں بتائی ہیں اور رسولوں نے بتائی ہیں۔ ان پر اجمالاً اور تفصیلا ًایمان لانا داخل ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بارے میں بتائی ہیں اور رسولوں نے بتائی ہیں۔ ان پر اجمالاً اور تفصیلاً ایمان رکھنا، اور اللہ کی ذات کو تشبیہ و تمثیل، تعطیل اور تمام صفات نقص سے پاک ماننا بھی شامل ہے۔ شریعتوں میں جن فرشتوں کا ذکر کیا گیا ہے، ان سب پر اجمالاً اور تفصیلاً ایمان رکھنا، رسولوں کی بتائی ہوئی اور ان پر نازل ہونے والی کتابوں میں موجود تمام خبروں اور احکامات پر ایمان رکھنا بھی شامل ہے۔ مومن رسولوں میں تفریق نہیں کرتے، بلکہ تمام انبیاء و رسل پر ایمان رکھتے ہیں کیونکہ وہ اللہ اور بندوں کے درمیان واسطہ ہیں (جن کے ذریعے ہمیں اللہ کے اوامرو نواہی کا علم ہوتا ہے) لہٰذا کسی نبی کا انکار کرنا تمام نبیوں کا انکار کرنے کے مترادف ہے۔ ﴿وَقَالُوا سَمِعْنَا ﴾ ” انہوں نے کہہ دیا کہ ہم نے سنا۔“ یعنی اے اللہ تو نے ہمیں جن کاموں کا حکم دیا ہے اور جن سے منع کیا ہے ہم نے انہیں توجہ سے سن لیا ہے ﴿وَأَطَعْنَا﴾ ” اور ہم نے اطاعت کی“ یہ تمام احکام تسلیم کرلیے۔ ان لوگوں میں شامل نہیں ہوئے جنہوں نے کہا تھا ﴿ سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا ﴾ (لبقرہ :2؍ 93) ” ہم نے سنا اور ہم نے نافرمانی کی۔“ کیونکہ بندے سے اللہ کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہو ہی جاتی ہے، لہٰذا اسے ہمیشہ اس کی مغفرت کی ضرورت رہتی ہے۔ اس لئے وہ کہتے ہیں ﴿غُفْرَانَكَ﴾ ” تیری بخشش“ یعنی ہم سے جو کوتاہی اور گناہ ہوئے ہیں، ہم تجھ سے ان کی بخشش طلب کرتے ہیں اور ہم جن عیوب میں ملوث ہوئے ہیں، ان گناہوں کو مٹا دینے کی درخواست کرتے ہیں۔ ﴿وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ ﴾ ” اور تیری ہی طرف لوٹنا ہے۔“ یعنی تمام مخلوقات واپس تیرے پاس ہی پہنچیں گی۔ پھر تو ان کے اچھے اور برے اعمال کا بدلہ دے گا۔
11 Mufti Taqi Usmani
yeh Rasool ( yani hazrat Muhammad SallAllaho-alehi-wa-aalihi-wasallam ) uss cheez per emaan laye hain jo unn ki taraf unn kay rab ki taraf say nazil ki gaee hai , aur ( unn kay sath ) tamam musalman bhi . yeh sabb Allah per , uss kay farishton per , uss ki kitabon per aur uss kay Rasoolon per emaan laye hain . ( woh kehtay hain kay ) hum uss kay Rasoolon kay darmiyan koi tafreeq nahi kertay ( kay kissi per emaan layen , kissi per naa layen ) aur woh yeh kehtay hain kay : hum ney ( Allah aur Rasool kay ehkaam ko tawajjah say ) sunn liya hai , aur hum khushi say ( unn ki ) tameel kertay hain . aey humaray perwerdigar ! hum aap ki maghfirat kay talabgaar hain . aur aap hi ki taraf hamen loat ker-jana hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
بقرہ کی آخری آیات اور ان کی فضیلت ان دونوں آیتوں کی حدیثیں سنئے، صحیح بخاری میں ہے جو شخص ان دونوں آیتوں کو رات کو پڑھ لے اسے یہ دونوں کافی ہیں۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سورة بقرہ کی آخری آیتیں عرش تلے کے خزانہ سے دیا گیا ہوں مجھ سے پہلے کسی نبی کو یہ نہیں دی گئیں۔ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معراج کرائی گئی اور آپ سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچے جو ساتویں آسمان میں ہے، جو چیز آسمان کی طرف چڑھتی ہے وہ یہیں تک ہی پہنچتی ہے اور یہاں سے ہی لے جائی جاتی ہے اور جو چیز اوپر سے نازل ہوتی ہے وہ بھی یہیں تک پہنچتی ہے، پھر یہاں سے آگے لے جائی جاتی ہے اور اسے سونے کی ٹڈیاں ڈھکے ہوئے تھیں، وہاں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تین چیزیں دی گئیں۔ پانچ وقت کی نمازیں، سورة بقرہ کے خاتمہ کی آیتیں اور توحید والوں کے تمام گناہوں کی بخشش۔ مسند میں ہے کہ حضرت عقبہ بن عامر سے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سورة بقرہ کی ان دونوں آخری آیتوں کو پڑھتے رہا کرو، میں انہیں عرش کے نیچے کے خزانوں سے دیا گیا ہوں، ابن مردویہ میں ہے کہ ہمیں لوگوں پر تین فضیلتیں دی گئی ہیں، میں سورة بقرہ کی یہ آخری آیتیں عرش تلے کے خزانوں سے دیا گیا ہوں جو نہ میرے پہلے کسی کو دی گئیں نہ میرے بعد کسی کو دی جائیں گی، ابن مردویہ میں ہے حضرت علی فرماتے ہیں میں نہیں جانتا کہ اسلام کے جاننے والوں میں سے کوئی شخص آیت الکرسی اور سورة بقرہ کی آخری آیتیں پڑھے بغیر سو جائے، یہ وہ خزانہ ہے جو تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عرش تلے کے خزانہ سے دئیے گئے ہیں، اور حدیث ترمذی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کے پیدا کرنے سے دو ہزار برس پہلے تک ایک کتاب لکھی جس میں سے دو آیتیں اتار کر سورة بقرہ ختم کی، جس گھر میں یہ تین راتوں تک پڑھی جائیں اس گھر کے قریب بھی شیطان نہیں جاسکتا۔ امام ترمذی اسے غریب بتاتے ہیں لیکن حاکم اپنی مستدرک میں اسے صحیح کہتے ہیں، ابن مردویہ میں ہے کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سورة بقرہ کا خاتمہ اور آیت الکرسی پڑھتے تو ہنس دیتے اور فرماتے یہ دونوں رحمن کے عرش تلے کا خزانہ ہیں اور جب آیت (وَمَنْ يَّعْمَلْ سُوْۗءًا اَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللّٰهَ يَجِدِ اللّٰهَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا) 4 ۔ النسآء :110) اور آیت (وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى 39ۙ وَاَنَّ سَعْيَهٗ سَوْفَ يُرٰى 40۠ ثُمَّ يُجْزٰىهُ الْجَزَاۗءَ الْاَوْفٰى 41ۙ ) 53 ۔ النجم :39) پڑھتے تو زبان سے اناللہ نکل جاتا اور سست ہوجاتے، ابن مردویہ میں ہے کہ مجھے سورة فاتحہ اور سورة بقر کی آخری آیتیں عرش کے نیچے سے دی گئی ہیں، اور مزید مفصل کی سورتیں بھی وہاں سے ہی دی گئی ہیں۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ ہم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے جہاں حضرت جبرائیل بھی تھے کہ اچانک ایک دہشت ناک بہت بڑے دھما کے کی آواز کے ساتھ آسمان کا وہ دروازہ کھلا جو آج تک کبھی نہیں کھلا تھا، اس سے ایک فرشتہ اترا، اس نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا آپ کو خوشی مبارک ہو، آپ کو وہ دو نور دئیے جاتے ہیں جو آپ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دئیے گئے سورة فاتحہ اور سورة بقرہ کی آخری آیتیں۔ ان کے ایک ایک حرف پر آپ کو نور دیا جائے گا (مسلم) پس یہ دس حدیثیں ان مبارک آیتوں کی فضیلت ہیں۔ مطلب آیت کا یہ ہے کہ رسول یعنی حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس پر ایمان لائے جو انکی طرف سے ان کے رب کی جانب سے نازل ہوا، اسے سن کر آپ کے فرمایا وہ ایمان لانے کا پورا مستحق ہے، اور دوسرے ایماندار بھی ایمان لائے، ان سب نے مان لیا کہ اللہ ایک ہے، وہ وحدانیت کا مالک ہے، وہ تنہا ہے، وہ بےنیاز ہے، اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، نہ اس کے سوا کوئی پالنے والا ہے، یہ (ایمان والے) تمام انبیاء کی تصدیق کرتے ہیں، تمام رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں، آسمانی کتابوں کو انبیاء کرام پر جو اتری ہیں سچی جانتے ہیں۔ وہ نبیوں میں فرق نہیں سمجھتے کہ ایک کو مانیں دوسرے کو نہ مانیں بلکہ سب کو سچا جانتے ہیں اور ایمان رکھتے ہیں کہ وہ پاکباز طبقہ رشد و ہدایت والا اور لوگوں کی خیر کی طرف رہبری کرنے والا ہے، گو بعض احکام ہر نبی کے زمانہ میں تبدیل ہوتے رہے یہاں تک کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت سب کی ناسخ ٹھہری، خاتم الانبیاء ومرسلین آپ تھے، قیامت تک آپ کی شریعت باقی رہے گی اور ایک جماعت اس کی اتباع بھی کرتی رہے گی۔ انہوں نے اقرار بھی کیا کہ ہم نے اللہ کا کلام سنا اور احکام الہی ہمیں تسلیم ہیں، انہوں نے کہا کہ ہمارے رب ہمیں مغفرت رحمت اور لطف عنایت فرما، تیری ہی طرف ہمیں لوٹنا ہے یعنی حساب والے دِن۔ حضرت جبرائیل نے فرمایا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کی اور آپ کی تابعدار امت کے یہاں ثناء و صفت بیان ہو رہی ہے، آپ اس موقع پر دعا کیجئے قبول کی جائے گی، مانگئے کہ اللہ کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہ دے۔ پھر فرمایا اللہ کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا یہ اس کا لطف و کرم اور احسان و انعام ہے۔ صحابہ کو جو کھٹکا ہوا تھا اور ان پر جو یہ فرمان گراں گزرا تھا کہ دل کے خطرات پر بھی حساب لیا جائے گا وہ دھڑکا اس آیت سے اٹھ گیا۔ مطلب یہ کہ گو حساب ہو، سوال ہو لیکن جو چیز طاقت سے باہر ہے اس پر عذاب نہیں کیونکہ دل میں کسی خیال کا دفعتاً آجانا روکے رک نہیں سکتا بلکہ حدیث سے یہ بھی معلوم ہوچکا ہے کہ ایسے وسوسوں کو برا جاننا دلیل ایمان ہے، بلکہ اپنی اپنی کرنی اپنی اپنی بھرنی، اعمال صالحہ کرو گے جزا پاؤ گے، برے اعمال کرو گے تو سزا بھگتو گے۔ پھر دعا کی تعلیم دی اور اس کی قبولیت کا وعدہ فرمایا، کہ اے اللہ بھولے چوکے جو احکام ہم سے چھوٹ گئے ہوں یا جو برے کام ہوگئے ہوں یا شرعی احکام میں غلطی کرکے جو خلاف شرع کام ہم سے ہوئے ہوں وہ معاف فرما، پہلے صحیح مسلم کے حوالے سے حدیث گزر چکی ہے کہ اس دعا کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا، میں نے اسے قبول فرمایا، حدیث میں بھی ہے کہ میں یکسوئی والا اور آسان دین دے کر بھیجا گیا ہوں۔ اے اللہ تکلیفیں بلائیں اور مشقتیں ہم پر نہ ڈال جن کی برداشت کی طاقت ہم میں نہ ہو، حضرت مکحول فرماتے ہیں اس سے مراد فریب اور غلبہ شہوت ہے، اس کے جواب میں بھی قبولیت کا اعلان رب عالم کی طرف سے کیا گیا۔ اور ہماری تقصیروں کو معاف فرما جو تیری نافرمانی کا کوئی کام نہ ہو، اس لئے بزرگوں کا قول ہے کہ گنہگار کو تین باتوں کی ضرورت ہے۔ ایک تو اللہ کی معافی تاکہ عذاب سے نجات پائے، دوسرے پردہ پوشی تاکہ رسوائی سے بچے، تیسرے عصمت کی تاکہ دوسری بار گناہ میں مبتلا نہ ہو، اس پر بھی جناب باری نے قبولیت کا اعلان کیا۔ تو ہمارا ولی و ناصر ہے، تجھی پر بھروسہ ہے، تجھی سے ہم مدد طلب کرتے ہیں، تو ہی ہمارا سہارا ہے، تیری مدد کے سوا نہ تو ہم کسی نفع کے حاصل کرنے پر قادر ہیں نہ کسی برائی سے بچ سکتے ہیں، تو ہماری ان لوگوں پر مدد فرما جو تیرے دین کے منکر ہیں تیری وحدانیت کو نہیں مانتے، تیرے نبی کی رسالت کو تسلیم نہیں کرتے، تیرے ساتھ دوسروں کی عبادت کرتے ہیں، مشرک ہیں اے اللہ تو ہمیں ان پر غالب کردینا اور دین میں ہم ہی ان پر فاتح رہیں، اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں بھی فرمایا ہاں میں نے یہ بھی دعا قبول فرمائی۔ حضرت معاذ جب اس آیت کو ختم کرتے آمین کہتے۔ (ابن جریر)