البقرہ آية ۲۹
هُوَ الَّذِىْ خَلَقَ لَـكُمْ مَّا فِى الْاَرْضِ جَمِيْعًاثُمَّ اسْتَوٰۤى اِلَى السَّمَاۤءِ فَسَوّٰٮهُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ ۗ وَهُوَ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيْمٌ
طاہر القادری:
وہی ہے جس نے سب کچھ جو زمین میں ہے تمہارے لئے پیدا کیا، پھر وہ (کائنات کے) بالائی حصوں کی طرف متوجہ ہوا تو اس نے انہیں درست کر کے ان کے سات آسمانی طبقات بنا دیئے، اور وہ ہر چیز کا جاننے والا ہے،
English Sahih:
It is He who created for you all of that which is on the earth. Then He directed Himself to the heaven, [His being above all creation], and made them seven heavens, and He is Knowing of all things.
1 Abul A'ala Maududi
وہی تو ہے، جس نے تمہارے لیے زمین کی ساری چیزیں پید ا کیں، پھر اوپر کی طرف توجہ فرمائی اور سات آسمان استوار کیے اور وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے
2 Ahmed Raza Khan
وہی ہے جس نے تمہارے لئے بنایا جو کچھ زمین میں ہے۔ پھر آسمان کی طرف استوا (قصد) فرمایا تو ٹھیک سات آسمان بنائے وہ سب کچھ جانتا ہے -
3 Ahmed Ali
الله وہ ہے جس نے جو کچھ زمین میں ہے سب تمہارے لیے پیدا کیا ہےپھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا تو انہیں سات آسمان بنایا اور وہ ہر چیز جانتا ہے
4 Ahsanul Bayan
وہ اللہ جس نے تمہارے لئے زمین کی تمام چیزوں کو پیدا کیا (١) پھر آسمان کی طرف قصد کیا (٢) اور ان کو ٹھیک ٹھاک سات آسمان (٣) بنایا اور وہ ہرچیز کو جانتا ہے۔
٢٩۔١ اس سے استدلال کیا ہے کہ زمین کی اشیاء مخلوقہ کے لئے اصل حلت ہے الا یہ کہ کسی چیز کی حرمت قرآن پاک کے واضح احکام سے ثابت ہو (فتح القدیر) (۲) بعض سلف امت نے اس کا ترجمہ پھر آسمان کی طرف چڑھ گیا کیا ہے (صحیح بخاری) اللہ تعالٰی کا آسمانوں کے اوپر عرش پر چڑھنا اور خاص خاص مواقع پر آسمان دنیا پر نزول اللہ کی صفات میں سے ہے جن پر اسی طرح بغیر دلیل کے ایمان رکھنا ضروری ہے جس طرح قرآن یا احادیث میں بیان کی گئی ہیں۔
٢٩۔٣ اس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ آسمان ایک حسی وجود اور حقیقت ہے۔ محض بلندی کو آسمان سے تعبیر نہیں کیا گیا ہے۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ ان کی تعداد سات ہے۔ اور حدیث کے مطابق دو آسمانوں کے درمیان ٥٠٠ سال کی مسافت ہے۔ اور زمین کی بابت قرآن کریم میں ہے (وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَهُنَّ) 65۔ الطلاق;12) اور زمین بھی آسمان کی مثل ہیں اس سے زمین کی تعداد بھی سات ہی معلوم ہوتی ہے جس کی مزید تائید حدیث نبوی سے ہو جاتی ہے۔ جس نے ظلماً کسی کی ایک بالشت زمین لے لی تو اللہ تعالٰی اسے قیامت کے دن ساتوں زمینوں کا طوق پہنائے گا اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آسمان سے پہلے زمین کی تخلیق ہوئی ہے لیکن سورۃ نازعات میں آسمان کے ذکر کے بعد فرمایا گیا۔ (وَالْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِكَ دَحٰىهَا) 79۔ النازعات;30) (زمین کو اس کے بعد بچھایا) اس کی تجزی کی گئی ہے کہ تخلیق پہلے زمین کی ہی ہوئی ہے اور دَحْوَ (صاف اور ہموار کر کے بچھانا) تخلیق سے مختلف چیز ہے جو آسمان کی تخلیق کے بعد عمل میں آیا۔ (فتح القدیر)
5 Fateh Muhammad Jalandhry
وہی تو ہے جس نے سب چیزیں جو زمین میں ہیں تمہارے لیے پیدا کیں پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا تو ان کو ٹھیک سات آسمان بنا دیا اور وہ ہر چیز سے خبردار ہے
6 Muhammad Junagarhi
وه اللہ جس نے تمہارے لئے زمین کی تمام چیزوں کو پیدا کیا، پھر آسمان کی طرف قصد کیا اور ان کو ٹھیک ٹھاک سات آسمان بنایا اور وه ہر چیز کو جانتا ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
وہی تو وہ (اللہ) ہے جس نے تمہارے لئے پیدا کیا وہ سب کچھ جو زمین میں ہے پھر آسمان کی طرف توجہ فرمائی تو سات آسمان ہموار و استوار کر دیئے۔ اور وہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
وہ خدا وہ ہے جس نے زمین کے تمام ذخیروں کو تم ہی لوگوں کے لئے پیدا کیا ہے. اس کے بعد اس نے آسمان کا رخ کیا تو سات مستحکم آسمان بنادیئے اور وہ ہر شے کا جاننے والا ہے
9 Tafsir Jalalayn
وہی تو ہے جس نے سب چیزیں جو زمین میں ہیں تمہارے لئے پیدا کیں پھر آسمانوں کی طرف متوجہ ہوا تو ان کو ٹھیک سات آسمان بنادیا اور وہ ہر چیز سے خبردار ہے،
ھُوَ الَّذِ یْ خَلَقَ لَکُمْ مَّافِی الْأَ رْضِ جَمِیْعًا : سا بقہ آیات میں انسان کی ذات سے متعلق انعامات و احسانات ذکر کرنے کے بعد اس آیت میں جو انسان کی بقا اور اس کے آرام و راحت کے لئے ضروری ہے، یعنی تم کو پیدا کیا، جو کہ تمام نعمتوں کی اصل ہے، پھر تمہاری بقاء اور انتقاع کے لئے زمین میں ہر طرح کی چیزیں بکثرت پیدا فرمائیں، اس کے بعد متعدد آسمان بنائے، جن میں تمہارے لئے طرح طرح کے منافع ہیں۔
اس آیت میں زمین کی پیدائش پہلے اور آسمانوں کی پیدائش بعد میں ہونا، ثُمَّ ، کے لفظ سے بیان کیا گیا ہے اور یہی صحیح ہے اور سورة النازعات میں جو یہ ارشاد ہیں : \&\& وَالْاَرْضَ بَعْدَ ذَالِکَ دَحَاہَا \&\& یعنی زمین کو آسمان کے پیدا کرنے کے بعد بچھایا، اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ زمین کی پیدائش آسمانوں کے بعد ہوئی، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ زمین کی درستی اور اس سے پیداوار نکالنے کے تفصیلی کام آسمانوں کی پیدائش کے بعد ہوئے اگرچہ اصل زمین کے مادہ کی تخلیق آسمانوں سے پہلے ہوچکی تھی۔ (بحر محیط)
آسمانوں کے ساتھ ہونے پر کلام : عام انسانوں کو تو آسمان ایک ہی نظر آتا ہے، قرآن کریم میں سات کا ذکر ہے جیسا کہ مذکورہ آیت میں سبع سمٰوٰت صراحت کے ساتھ موجود ہے، اور فلاسفہ نو آسمان ثابت کرتے ہیں علماء اسلام کے قدیم فلاسفہ نے آسمانوں کو سات کہا اور باقی دو عرش وکرسی سے ثابت کئے، سات آسمان بالکل حق ہیں اور طبقہ بطبقہ ہیں قرآن کوئی سائنس یا فلکیات کی کتاب نہیں کہ اس میں خواہ مخواہ سائنس کے جدید یا قدیم نظریات سے مطابقت کی کوشش کی جائے، قرآن کے نزول کا مقصد سائنس علوم کی تعلیم نہیں بلکہ انسانیت اور خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے طریقوں کی تعلیم دینا ہے، سائنس نظریات میں قرار نہیں ہے، جو چیز کل تک مسلم اور صدفی صددرست تسلیم کی جاتی تھی، وہ آج صدفی صد غلط اور غیر مسلم مانی جاتی ہے، ہزارہا سال سے یہی طریقہ رہا ہے، بعد کا نظریہ ہر سابقہ مسلم نظریہ کی تردید کرتا ہے، لہٰذا اس کی کیا ضمانت ہے کہ موجودہ سائنسی نظریات کو مسلم سمجھ کر ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی غالباً ان کا مقصد یہ رہا ہوگا کہ اس دور کے سائنسی مسلماے سے آسمانی کتابوں کو ہم آہنگ کرنے سے آسمانی کتابوں کی قدروقیمت میں اضافہ ہوگا مگر جب تحقیق جدید نے ان سائنسی نظریات کو غلط ثابت کردیا، جس کی وجہ سے مذہب اور سائنس میں معرکہ برپا ہوگیا، ابتداء میں مذہبی طبقہ غالب رہا جس کے وجہ سے بڑے بڑے سائنس دانوں کو نظر آتش کردیا گیا، لیکن جب سائنس جدید کو فروغ حاصل ہوا اور ان ہی نظریات کو مسلم سمجھا جانے لگا، تو مذہب کو سائنس جدید کے مقابلہ میں پسپا ہونا پڑا اور اس معرکہ آرائی میں مذہب کو شکست فاش ہوئی جس کی وجہ سے یورپ لامذہب (دہریہ) ہوگیا۔
علم و خیبر خالق کائنات کا علم قطعی اور بےریب ہے اور مخلوق کا علم ظن وتخمین پر مبنی ہے جو ہر زمانہ میں بدلتا رہتا ہے اور آئندہ بھی یہی ہوتا رہے گا، قرآن سائنسی نظریات کے تابع نہیں ہے اگر سائنس کا کوئی نظریہ قرآن کے نظریہ کے مطابق ہوجائے، تو ہوجائے، مطابق کرنے کی ضرورت نہیں اور نہ اس پر خوش ہونے کی ضرورت ہے۔ (تفسیر الجواھر، طنطاوی، حذف و اضافہ کے ساتھ)
10 Tafsir as-Saadi
﴿ هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا﴾” وہی ہے جس نے پیدا کیا تمہارے واسطے جو کچھ زمین ہے سب کا سب“ یعنی اس نے تم پر احسان اور رحم کرتے ہوئے تمہارے فائدے، تمہارے تمتع اور تمہاری عبرت کے لئے زمین کی تمام موجودات کو پیدا کیا ہے۔ یہ آیت کریمہ اس بات کی دلیل ہے کہ تمام اشیاء میں اصل، اباحت اور طہارت ہے۔ (یعنی ہر چیز جائز اور پاک ہے) کیونکہ یہ آیت احسان جتلانے کے سیاق میں ہے۔ اس جواز سے تمام ناپاک چیزیں نکل جاتی ہیں، اس لئے کہ ان کی حرمت بھی فحوائے آیت اور بیان مقصود سے ماخوذ ہے۔ نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان اشیاء کو ہمارے فائدے کے لئے تخلیق فرمایا ہے، لہٰذا ان میں سے جس کسی چیز میں کوئی نقصان ہے تو وہ اس اباحت سے خارج ہے۔
یہ اللہ تعالیٰ کی نعمت کاملہ ہے کہ اس نے ہمیں خبائث سے منع کیا تاکہ ہم پاکیزہ رہیں۔
﴿ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ ۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ﴾ ” پھر قصد کیا اس نے آسمان کی طرف، سو ٹھیک کردیا ان کو سات آسمان، اور وہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔ “
کلمہ ” استوی“ کے معانی : استویٰ قرآن مجید میں تین معنوں میں استعمال ہوا ہے۔
(1) کبھی یہ حرف کے ساتھ مل کر متعدی نہیں ہوتا تب یہ ” کمال‘ اور ” اتمام“ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَاسْتَوَىٰ﴾ ( لقصص :14؍28 )” جب وہ اپنی جوانی کو پہنچا اور کامل جوان ہوا۔ “
(2) کبھی یہ ارتفاع اور بلند ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب یہ "علیٰ" کے ساتھ متعدی ہو۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿الرَّحْمَـٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَىٰ ﴾ (طہ :20؍5) ” رحمٰن جس نے عرش پر قرار پکڑا۔“ اور ارشاد ہے۔ ﴿لِتَسْتَوُوا عَلَىٰ ظُهُورِهِ﴾ (لزخرف : 34؍ 13) ” تاکہ تم اس کی پیٹھ پر قرار پکڑو“۔
(3) اور کبھی ” یہ قصد کرنے“ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اس وقت یہ ” لیٰ“ کے ساتھ متعدی ہوتا ہے، جیسا کہ زیر تفسیر آیت میں ہے۔ یعنی جب اللہ تعالیٰ نے زمین پیدا کی تو پھر اس نے آسمانوں کی تخلیق کا قصد کیا ﴿فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ﴾ ” پھر اس نے انہیں ٹھیک سات آسمان بنادیا“ یعنی آسمانوں کو پیدا کیا، ان کو مستحکم اور مضبوط کیا۔ ﴿وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ﴾ ” اور وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے“ یعنی ﴿يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنزِلُ مِنَ السَّمَاءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا﴾ (لحدید : 57 ؍ 4) ” جو کچھ زمین میں داخل ہوتا ہے، جو کچھ زمین سے نکلتا ہے، جو کچھ آسمان سے اترتا ہے اور جو کچھ آسمان میں چڑھتا ہے وہ اسے جانتا ہے“ اور﴿يَعْلَمُ مَا تُسِرُّونَ وَمَا تُعْلِنُونَ﴾ (لنحل : 16 ؍ 19) ” جو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو، وہ سب جانتا ہے“ اور﴿يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفَى﴾(طہ:20؍7) ” وہ تمام بھیدوں اور چھپی ہوئی چیزوں کا علم رکھتا ہے۔ “
اللہ تعالیٰ نے بہت سے مقامات پر اپنی قدرت تخلیق اور اپنے لئے اثبات علم کو ساتھ ساتھ بیان فرمایا جیسا کہ اس آیت میں اور ایک دوسری آیت میں بیان فرمایا ہے : ﴿أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ ﴾ (لملک : 67؍ 14) ” کیا وہ نہیں جانتا جس نے پیدا کیا، اور وہ تو تمام پوشیدہ باتوں کو جاننے والا اور باخبر ہے۔ “
کیونکہ مخلوقات کو پیدا کرنا اس کے علم و حکمت اور اس کی قدرت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
wohi hai jiss ney zameen mein jo kuch hai tumharay liye peda kiya , phir woh aasman ki taraf mutawajjah huwa , chunacheh unn ko saat aasmano ki shakal mein theek theek banadiya , aur woh her cheez ka poora ilm rakhney wala hai
12 Tafsir Ibn Kathir
کچھ اور دلائل
اوپر کی آیات میں ان دلائل قدرت کا بیان تھا جو خود انسان کے اندر ہیں اب اس مبارک آیت میں ان دلائل کا بیان ہو رہا ہے جو روز مرہ آنکھوں کے سامنے ہیں۔ " استوا " یہاں قصد کرنے اور متوجہ ہونے کے معنی میں ہے اس لئے کہ اس کا صلہ " الی " ہے " سوھن " کے معنی درست کرنے اور ساتوں آسمان بنانے کے ہیں سماء اسم جنس ہے۔ پھر بیان فرمایا کہ اس کا علم محیط کل ہے جیسے ارشاد آیت (اَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ ) 67 ۔ الملک :14) وہ بےعلم ہو کیسے سکتا ہے جو خالق ہو ؟ سورة سجدہ کی آیت (ائنکم لتکفرون) گویا اس آیت کی تفصیل ہے جس میں فرمایا ہے کیا تم اس اللہ کے ساتھ کفر کرتے ہو ؟ جس نے زمین کو صرف دو دن میں پیدا کیا تم اس کے لئے شریک ٹھہراتے ہو ؟ جو رب العالمین ہے جس نے زمین میں مضبوط پہاڑ اوپر سے گاڑ دئیے جس نے زمین میں برکتیں اور روزیاں رکھیں اور چار دن میں زمین کی سب چیزیں درست کردیں۔ جس میں دریافت کرنے والوں کی تشفی ہے پھر آسمانوں کی طرف متوجہ ہو کر جو دھویں کی شکل میں تھے فرمایا کہ اے زمینو اور آسمانو خوشی یا ناخوشی سے آؤ تو دونوں نے کہا باری تعالیٰ ہم تو برضا و خوشی حاضر ہیں۔ دو دن میں ان ساتوں آسمانوں کو پورا کردیا اور ہر آسمان میں اس کا کام بانٹ دیا اور دنیا کے آسمان کو ستاروں کے ساتھ مزین کردیا اور انہیں (شیطانوں سے) بچاؤں کا سبب بنایا۔ یہ ہے اندازہ اس اللہ کا جو بہت بڑا غالب اور بہت بڑے علم والا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ پہلے زمین پیدا کی پھر ساتوں آسمان۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر عمارت کا یہی قاعدہ ہے کہ پہلے نیچے کا حصہ بنایا جائے پھر اوپر کا مفسرین نے بھی اس کی تصریح کی ہے جس کا بیان بھی ابھی آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ لیکن یہ سمجھ لینا چاہیے کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے۔ آیت (ءَاَنْتُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمِ السَّمَاۗءُ ۭ بَنٰىهَا) 79 ۔ النازعات :27) تمہاری پیدائش مشکل ہے یا آسمانوں کی ؟ اللہ تعالیٰ نے اس کے خلا کو بلند کر کے اسے ٹھیک ٹھاک کیا اور ان میں سے رات دن پیدا کئے پھر اس کے بعد زمین پھیلائی اس سے پانی اور چارہ نکالا اور پہاڑوں کو گاڑا جو سب تمہارے اور تمہارے جانوروں کے کام کی چیزیں ہیں۔ اس آیت میں یہ فرمایا ہے کہ زمین کی پیدائش آسمان کے بعد ہے تو بعض بزرگوں نے تو فرمایا ہے کہ مندرجہ بالا آیت میں " ثم " صرف عطف خبر کے لئے ہے عطف فعل کے لئے نہیں یعنی یہ مطلب نہیں کہ زمین کے بعد آسمان کی پیدائش شروع کی بلکہ صرف خبر دینا مقصود ہے کہ آسمانوں کو بھی پیدا کیا اور زمینوں کو بھی۔ عرب شاعروں کے اشعار میں یہ موجود ہے کہ کہیں " ثم " صرف خبر کا خبر پر عطف ڈالنے کے لئے ہوتا ہے تقدیم تاخیر مراد نہیں ہوتی۔ اور بعض بزرگوں نے فرمایا ہے کہ آیت " ءانتم " میں آسمانوں کی پیدائش کے بعد زمین کا پھیلانا اور بچھانا وغیرہ بیان ہوا ہے نہ کہ پیدا کرنا۔ تو ٹھیک یہ ہے کہ پہلے زمین کو پیدا کیا پھر آسمان کو پھر زمین کو ٹھیک ٹھاک کیا اس طرح دونوں آیتیں ایک دوسرے کے مخالف نہ رہیں گی۔ اس عیب سے اللہ کا کلام بالکل محفوظ ہے۔ ابن عباس (رض) نے یہی معنی بیان فرمائے ہیں (یعنی پہلے زمین کی درستی وغیرہ یہ بعد کی چیز ہے) حضرت ابن مسعود حضرت ابن عباس اور دیگر صحابہ سے مروی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا عرش پانی پر تھا اور کسی چیز کو پیدا نہیں کیا تھا جب اور مخلوق کو پیدا کرنا چاہا تو پانی سے دھواں بلند کیا وہ اونچا چڑھا اور اس سے آسمان بنائے پھر پانی خشک ہوگیا اور اس کی زمین بنائی پھر اس کو الگ الگ کر کے سات زمینیں بنائیں اتوار اور پیر کے دو دن میں یہ ساتوں زمینیں بن گئیں۔ زمین مچھلی پر ہے اور مچھلی وہ ہے جس کا ذکر قرآن مجید کی اس آیت میں ہے آیت (ن والقلم مچھلی پانی میں ہے اور پانی صفاۃ پر ہے اور صفاۃ فرشتے پر اور فرشتے پتھر پر زمین کانپنے لگی تو اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کو گاڑ دیا اور وہ ٹھہر گئی یہی معنی میں اللہ تعالیٰ کے فرمان آیت (وَجَعَلْنَا فِي الْاَرْضِ رَوَاسِيَ اَنْ تَمِيْدَ بِهِمْ ) 21 ۔ الانبیآء :38) زمین نہ ہلے اس لئے ہم نے اس میں پہاڑ جما دئیے ہیں۔ پہاڑ زمین کی پیداوار درخت وغیرہ زمین کی کل چیزیں منگل اور بدھ کے دو دنوں میں پیدا کیں اسی کا بیان آیت (قُلْ اَىِٕنَّكُمْ لَتَكْفُرُوْنَ بالَّذِيْ خَلَقَ الْاَرْضَ فِيْ يَوْمَيْنِ ) 41 ۔ فصلت :9) والی آیت میں ہے پھر آسمان کی طرف توجہ فرمائی جو دھواں تھا آسمان بنایا پھر اسی میں ساتھ آسمان بنائے جمعرات اور جمعہ کے دو دنوں میں جمعہ کے دن کو اس لئے جمعہ کہا جاتا ہے کہ اس میں زمین و آسمان کی پیدائش جمع ہوگئی ہر آسمان میں اس نے فرشتوں کو پیدا کیا اور ان ان چیزوں کو جن کا علم اس کے سوا کسی کو نہیں کہ دنیا آسمان کو ستاروں کے ساتھ زینت دی اور انہیں شیطان سے حفاظت کا سبب بنایا ان تمام چیزوں کو پیدا کر کے پروردگار نے عرش عظیم پر قرار پکڑا جسے فرماتا ہے۔ آیت (خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ ) 7 ۔ الاعراف :54) یعنی چھ دن میں آسمانوں اور زمین کو پیدا کر کے پھر عرش پر مستوی ہوگیا اور جگہ فرمایا آیت (كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا) 21 ۔ الانبیآء :30) یعنی یہ دونوں دھواں سے تھے ہم نے انہیں پھاڑا اور پانی سے ہر چیز کو زندگی دی (تفسیر سدی) یہ موقوف قول جس میں کئی قسم کا احتمال ہے بہ ظاہراً ایسی اہم بات میں حجت تامہ نہیں ہوسکتا۔ واللہ اعلم) ابن جریر میں ہے حضرت عبداللہ بن سعید (رض) فرماتے ہیں کہ اتوار سے مخلوق کی پیدائش شروع ہوئی۔ دو دن میں زمینیں پیدا ہوئیں دو دن میں ان میں موجود تمام چیزیں پیدا کیں اور دو دن میں آسمانوں کو پیدا کیا جمعہ کے دن آخری وقت ان کی پیدائش ختم ہوئی اور اسی وقت حضرت آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا اور اسی وقت میں قیامت قائم ہوگی۔ مجاہد فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کو آسمان سے پہلے پیدا کیا اس سے جو دھواں اوپر چڑھا اس کے آسمان بنائے جو ایک پر ایک اس طرح سات ہیں اور زمینیں ایک نیچے ایک اوپر اس طرح سات ہیں۔ اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ زمین کی پیدائش آسمانوں سے پہلے ہے جیسے سورة سجدہ کی آیت میں ہے۔ علماء کی اس پر متفق ہیں۔ صرف قتادہ فرماتے ہیں کہ آسمان زمین سے پہلے پیدا ہوئے ہیں۔ قرطبی اس میں توقف کرتے ہیں آیت (والنازعات) کی آیت کی وجہ سے یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہاں آسمان کی پیدائش کا ذکر زمین سے پہلے ہے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت ابن عباس سے جب یہ سوال ہوا تو آپ نے جواب دیا کہ زمین پیدا تو آسمانوں سے پہلے کی گئی ہے لیکن بعد میں پھیلائی گئی ہے۔ یہی جواب اگلے پچھلے علماء کا ہے۔ سورة نازعات کی تفسیر میں بھی اس کا بیان آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ حاصل امر یہ ہے کہ زمین کا پھیلانا اور بچھانا بعد میں ہے اور دحھا کا لفظ قرآن میں ہے اور اس کے بعد جو پانی چارہ پہاڑ وغیرہ کا ذکر ہے یہ گویا اس لفظ کی تشریح ہے جن جن چیزوں کی نشوونما کی قوت اس زمین میں رکھی تھی ان سب کو ظاہر کردیا اور زمین کی پیداوار طرح طرح کی مختلف شکلوں اور مختلف قسموں میں نکل آئی۔ اسی طرح آسمان میں بھی ٹھہرے رہنے والے چلنے والے ستارے وغیرہ بنائے۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔ صحیح مسلم اور نسائی میں حدیث میں ہے حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا مٹی کو اللہ تعالیٰ نے ہفتہ والے دن پیدا کیا، پہاڑوں کو اتوار کے دن، درختوں کو پیر کے دن، برائیوں کو منگل کے دن نور کو، بدھ کے دن، جانوروں کو جمعرات کے دن، آدم کو جمعہ کے دن اور عصر کے بعد جمعہ کی آخری ساعت میں عصر کے بعد سے رات تک۔ یہ حدیث غرائب میں سے ہے۔ امام ابن مدینی امام بخاری وغیرہ نے اس پر بحث کی ہے اور فرمایا ہے کہ کعب کا اپنا قول اور حضرت ابوہریرہ نے کعب کا یہ قول سنا ہے اور بعض راویوں نے اسے غلطی سے مرفوع حدیث قرار دے لیا ہے۔ امام بیہقی کہتے ہیں۔