البقرہ آية ۳۰
وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۤٮِٕكَةِ اِنِّىْ جَاعِلٌ فِى الْاَرْضِ خَلِيْفَةً ۗ قَالُوْۤا اَتَجْعَلُ فِيْهَا مَنْ يُّفْسِدُ فِيْهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاۤءَۚ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَـكَۗ قَالَ اِنِّىْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ
طاہر القادری:
اور (وہ وقت یاد کریں) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں، انہوں نے عرض کیا: کیا تُو زمین میں کسی ایسے شخص کو (نائب) بنائے گا جو اس میں فساد انگیزی کرے گا اور خونریزی کرے گا؟ حالانکہ ہم تیری حمد کے ساتھ تسبیح کرتے رہتے ہیں اور (ہمہ وقت) پاکیزگی بیان کرتے ہیں، (اللہ نے) فرمایا: میں وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے،
English Sahih:
And [mention, O Muhammad], when your Lord said to the angels, "Indeed, I will make upon the earth a successive authority." They said, "Will You place upon it one who causes corruption therein and sheds blood, while we exalt You with praise and declare Your perfection?" He [Allah] said, "Indeed, I know that which you do not know."
1 Abul A'ala Maududi
پھر ذرا اس وقت کا تصور کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا تھا کہ "میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں" انہوں نے عرض کیا: "کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقر ر کرنے والے ہیں، جو اس کے انتظام کو بگاڑ دے گا اور خونریزیاں کرے گا آپ کی حمد و ثنا کے ساتھ تسبیح اور آپ کے لیے تقدیس تو ہم کر ہی رہے ہیں" فرمایا: "میں جانتا ہوں جو کچھ تم نہیں جانتے"
2 Ahmed Raza Khan
اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا، میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں بولے کیا ایسے کو نائب کرے گا جو اس میں فساد پھیلائے گا اور خونریزیاں کرے گا اور ہم تجھے سراہتے ہوئے، تیری تسبیح کرتے اور تیری پاکی بولتے ہیں، فرمایا مجھے معلوم ہے جو تم نہیں جانتے-
3 Ahmed Ali
اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا میں زمین میں ایک نائب بنانے والا ہوں فرشتوں نے کہا کیا تو زمین میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو فساد پھیلائے اور خون بہائے حالانکہ ہم تیری حمد کے ساتھ تسبیح بیان کرتے اور تیری پاکی بیان کرتے ہیں فرمایا میں جو کچھ جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے
4 Ahsanul Bayan
اور جب تیرے رب نے فرشتوں (١) سے کہا کہ میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں تو انہوں (٢) نے کہا کہ ایسے شخص کو کیوں پیدا کرتا ہے جو زمین میں فساد کرے اور خون بہائے ہم تیری تسبیح اور پاکیزگی بیان کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا، جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔ (٣)
٣٠۔١ مَلاَئِکَۃُ (فرشتے) فرشتے اللہ کی نوری مخلوق ہیں جن کا مسکن آسمان ہے جو احکامات کے بجا لانے اور اس کی تحمید و تقدیس میں مصروف رہتے ہیں اور اس کے کسی حکم سے سرتابی نہیں کرتے۔
٣٠۔٢ خَلِیْفَۃُ سے مراد ایسی قوم ہے جو ایک دوسرے کے بعد آئے گی اور یہ کہنا کہ انسان اس دنیا میں اللہ تعالٰی کا خلیفہ اور نائب ہے غلط ہے۔
٣٠۔٣ فرشتوں کا یہ کہنا حسد یا اعتراض کے طور پر نہ تھا بلکہ اس کی حقیقت اور حکمت معلوم کرنے کی غرض سے تھا کہ اے رب اس مخلوق کے پیدا کرنے میں کیا حکمت ہے جب کہ ان میں کچھ ایسے لوگ بھی ہونگے جو فساد پھیلائیں گے اور خون ریزی کریں گے؟ اگر مقصود یہ ہے کہ تیری عبادت ہو تو اس کام کے لئے ہم تو موجود ہیں ہم سے وہ خطرات بھی نہیں جو نئی مخلوق سے متوقع ہیں۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا میں وہ مصلحت بہتر جانتا ہوں جس کی بنا پر ان ذکر کردہ برائیوں کے باوجود میں اسے پیدا کر رہا ہوں جو تم نہیں جانتے کیونکہ ان میں انبیا، شہدا و صالحین بھی ہونگے۔ (ابن کثیر)
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور (وہ وقت یاد کرنے کے قابل ہے) جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں (اپنا) نائب بنانے والا ہوں۔ انہوں نے کہا۔ کیا تُو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت وخون کرتا پھرے اور ہم تیری تعریف کے ساتھ تسبیح وتقدیس کرتے رہتے ہیں۔ (خدا نے) فرمایا میں وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے
6 Muhammad Junagarhi
اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں خلیفہ بنانے واﻻ ہوں، تو انہوں نے کہا ایسے شخص کو کیوں پیدا کرتا ہے جو زمین میں فساد کرے اور خون بہائے؟ اور ہم تیری تسبیح، حمد اور پاکیزگی بیان کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے
7 Muhammad Hussain Najafi
(اے رسول وہ وقت یاد کرو) جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین پر ایک خلیفہ (جانشین) بنانے والا ہوں تو انہوں نے کہا کیا تو اس میں اس کو (خلیفہ) بنائے گا جو اس میں فساد پھیلائے گا اور خون ریزی کرے گا۔ حالانکہ ہم تیری حمد و ثنائ کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور تیری تقدیس (پاکیزگی بیان) کرتے ہیں۔ فرمایا: یقینا میں وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اے رسول. اس وقت کو یاد کرو جب تمہارے پروردگار نے ملائکہ سے کہا کہ میں زمین میں اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں اور انہوں نے کہا کہ کیا اسے بنائے گاجو زمین میں فساد برپا کرے اور خونریزی کرے جب کہ ہم تیری تسبیح اور تقدیس کرتے ہیں توارشاد ہوا کہ میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے ہو
9 Tafsir Jalalayn
اور (وہ وقت یاد کرنے کے قابل ہے) جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں، انہوں نے کہا کیا تو اس میں ایسے شخص کو بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے، اور ہم تیری تعریف کے ساتھ تسبیح و تقدیس کرتے رہتے ہیں (خدا نے) فرمایا میں وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے
آیت نمبر ٣٠ تا ٣٣
ترجمہ : اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اس وقت کو یاد کرو، جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا تھا کہ میں زمین میں ایک نائب بنائوں گا، جو زمین میں میرے احکام نافذ کرنے میں میری نیابت کرے گا اور وہ آدم علیہ الصلاة والسلام ہے، تو فرشتوں نے عرض کیا، کیا آپ زمین میں ایسے شخص کو مقرر فرمائیں گے جو زمین میں معاصی کے ذریعہ خون خرابہ کرے گا ؟ یعنی قتل کے ذریعہ خون ریزی کرے گا، جیسا کہ جناب نے کیا اور وہ زمین میں پہلے سے (مقیم) تھے، چناچہ جن انہوں نے فسادبرپا کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف فرشتوں کو بھیجا تو فرشتوں نے ان کو جزیروں اور پہاڑوں کی طرف دھکیل دیا، اور ہم آپ کی حمد وثناتو کر ہی رہے ہیں، یعنی سبحان اللہ، الحمداللہ کہہ رہے ہیں اور ان چیزوں سے جو تیری شایان شان نہیں ہیں تیری پاکی بیان کررہے ہیں (لَکَ ) میں لام زائد ہے اور جملہ حال ہے اور خلافت کے ہم زیادہ مستحق ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا، آدم علیہ الصلاة والسلام کے نائب بنانے میں جو مصلحت ہے، میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے ، (اور وہ یہ) کہ اس کی اولاد میں فرمانبردار بھی ہوں گے اور نافرمان بھی، تو ان میں عدل کا مظہور ہوگا، تو فرشتوں نے عرض کیا ہمارا رب ہرگز کوئی ایسی مخلوق پیدانہ کرے گا، جو اس کے نزدیک ہم سے افضل ہو اور نہ ایسی کہ جو ہم سے اعلم (زیادہ جاننے والی) ہو، اس وجہ سے کہ ہم کو حق سبقت حاصل ہے اور اس وجہ سے کہ جو ہم نے دیکھا ہے وہ کسی نے نہیں دیکھا، چناچہ حق تعالیٰ شانہ \& نے آدم علیہ الصلاة واسلام کو زمین کی مٹی سے پیدا فرمایا، یعنی سطح زمین (کی مٹی) سے اس طریقہ سے کہ زمین سے ہر رنگ کی ایک مٹھی مٹی لی اور اس کی مختلف پانیوں سے گوندھا اور اس میں روح پھونک دی تو وہ ایک حساس (شئی) بن گیا، بعد اس کے کہ وہ جماد ( بےجان) تھا، اور آدم علیہ الصلاة والسلام کی ساری چیزوں کے نام سکھائے، حتی کہ پیالہ، پیالی، اور پاد اور پھسکی اور ڈوئی بایں طور کہ آدم کے قلب پر ان کا علم القاہ فرمایا، فرمایا، پھر ان چیزوں کو فرشتوں کے روبروپیش فرمایا، ھم جمع مزکر کی ضمیر لانے کی وجہ، ذوی العقول کو غلبہ دینا ہے اور فرمایا کہ تم مجھے ان چیزوں کے نام بتائو، اگر تم اس ( مشورہ) میں سچے ہو کہ میں تم سے زیادہ جاننے والے کو پیدانہ کرونگا، یا تم اس دعوے پر حق دور ہو ( تو تم مجھے ان چیزوں کے نام بتائو) اور جواب شرط پر اس کا ماقبل دلالت کررہا ہے، فرشتوں نے عرض کیا آپ تو پاک ہیں ، ( یعنی) آپ تو اعتراض ( نقص) سے پاک ہیں ہمیں کچھ علم نہیں، مگر اتناہی جتنا آپ نے ہمیں سکھلایا، نے شک آپ ہی ( انت ضمیر) کاف خطاب کی تاکید کے لئے ہے، علم و حکمت والے ہیں کہ آپ کے علم و حکمت سے کوئی شئی خارج نہیں، حق تعالیٰ نے فرمایا اے آدم ! توبتادے فرشتوں کو ان چیزوں کے نام، چناچہ آدم علیہ الصلاة والسلام نے ان کو ہر چیز کا نام بتادیا اور ان کی حکمت اور خواص بیان کردیئے، جس کے لئے وہ چیزیں پیدا کی گئی تھیں جب آدم علیہ اصلاة السلام نے ان کو چیزوں کے نام بتادیئے، تو حق تعالیٰ نے تو بیخا فرمایا کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں جانتا ہوں آسمان اور زمین کی پوشیدہ چیزوں کی جو ان میں فرشتوں سے مخفی ہیں اور اس کو بھی جانتا ہوں جو تم اپنے قول اَتَجعَلُ فیھا من یفًسد الخ سے ظاہر کرتے ہو، اور جوابات تم چھیاتے ہو، یعنی اپنے قول :\&\& لن یخلق ربنا خلقا اکرم علیہ مناولا اعلم \&\& کو۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : وَاِ ذْقَالَ رَبُّکَ ، وائو، استینافیہ ہے، اِذْ ، اُذْکُرْ ، فعل محذوف کا مفعول بہ ہے، قرآن میں مذکور قصوں کے شروع میں یہی ترکیب اغلب ہے، زمخشری اور ابن عطیہ کا یہی قول مختار ہے اور ابوحیان نے کہا ہے کہ : اِذْقَالُوْااَتَجْعَلُ ، کی وجہ سے منصوب ہے۔
قولہ : لِلْمَلَا ئِکَةِ : یہ مَلَکُ کی جمع ہے، یہ اصل مَأ لَکُ بروزن مَفْعَل تھا ہمزہ کو تخفیفاً حذف کردیا گیا، مَلَک یہ اُلُوکة سے مشتق ہے، اُلوکةکے معنی ہیں پیغام بری، رسالت، فرشتے بھی خدا کا پیغام مخلوق تک پہنچانے کا کام کرتے ہیں اور خالق و مخلوق کر درمیان واسطہ ہوتے ہیں اس لئے ان کو ملائکہ کہتے ہیں۔
قولہ : مُتَلَبِّسِیْنَ ، اس میں ارشاد ہے کہ : بِحَمدِکَ ، نسبح کی ضمیر سے حال اور باء، ملابَسَت کے لئے ہے۔
قولہ : نُقَدِّسُ لَکَ ، میں لازم زائدہ برائے تاکید ہے، اس لئے کہ نقدس متعدی بنفسہ ہے۔
قولہ : والجملة حال یعنی وَنَحْنُ نُسَبِّحُ ، اَتجعَلُ کی ضمیر سے حال ہے اور نقدس کا عطف نُسَبِّحُ پر ہے معطوف معطوف علیہ سے مل کر جملہ فعلیہ ہوکر، نحن، مبتداء کی خبر ہے۔
قولہ : والضملة حال، کو ایک اعتراض کا جواب بھی قراردیا جاسکتا ہے۔
سوال : وَنُسَبِّحُ ، کا اَتَجْعَلُپرعطف درست نہیں ہے، اس لئے کہ : اَتَجْعَلُ جملہ انشائیہ ہے اور نُسَبِّحُ جملہ فعلیہ۔
جواب : وَنُسَبِّحُ کا عطف اَتَجْعَلُ پر نہیں ہے بلکہ وائو حالیہ ہے نہ کہ عاطفہ لہٰذا اب کوئی اعتراض نہیں ہے۔
قولہ : نُنَزِّ ھُکَ عَمَّا لَا یلیقُ بِکَ ، اس عبادت کے اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔
سوال : نُسَبِحُّ اور نُقَدِّ سُ ، دونوں ہم معنی ہیں لہٰذاہ تکرار بےفائدہ ہے۔
جواب : دونوں کے معنی مختلف ہیں تسبیح کے معنی ہیں زبان سے تسبیح بیان کرنا اور تَقْدِیْس کے معنی ہیں پاکی کا دل سے اعتقاد رکھنا۔
قولہ : و جواب الشرط دَلَّ علیہ ماقبلہ یعنی اِنْ کنتم صٰدقین کا جواب شرط محذوف ہے اور دال علی الحذف، ماقبل یعنی انبؤنی ہے تقدیر عبادت یہ ہوگی، اِنْ کتنم صٰدقین انبؤنی، اور سیبویہ کے نزدیک چونکہ جواب شرط کی تقدیم جائز ہے لہٰذا جواب شرط محذوف ماننے کی ضرورت نہ ہوگی، بلکہ ماقبل میں مذکور، أ نبؤنی، ہی جواب شرط ہوگا۔
تفسیر و تشریح
ربط آیات : وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ (الآ یة) اِذ ظرف زمان ہے کسی گذشتہ واقعہ کی یاددلانے کے موقع پر استعمال ہوتا ہے جس طرح کہ اِذَا کسی واقعہ \& مستقبل پر دلالت کرنے کے لئے آتا ہے۔ (ابوسعود)
فرشتے اللہ کی نوری مخلوق ہیں جن کا مسکن آسمان ہے جواوامرالٰہی کے نجالانے اور اس کی تقدیس وتحمید میں مصروف رہتے ہیں اور اس کے کسی حکم سے سرتابی نہیں کرتے اپنا وجود خارجی رکھتے ہیں محض صفات الٰہی یا قوائے طبعی کے مرادف نہیں ہیں عادة انسان کے لئے غیر مرئی رہتے ہیں حسب ضرورت مختلف شکلیں اختیار کرسکتے ہیں، گذشتہ رکوع میں رب کی بندگی کی دعوت اس بنیاد پر دی گئی تھی کہ وہ تمہارا خالق و پروردگار ہے اسی کے قبضئہ قدرت میں تمہاری زندگی اور موت ہے اور جس کائنات میں تم رہتے ہو اس کا مالک اور مدبر بھی وہی ہے لہٰذا اس کی بندگی کے سوا تمہارے لئے کوئی دوسرا طریقہ صحیح نہیں ہوسکتا۔
اب اس رکوع میں وہی دعوت اس بنیاد پر دی جارہی ہے، کہ اس دنیا میں تم کو خدا نے اپنا خلیفہ بنایا ہے خلیفہ بنایا ہونے کی حیثیت سے تمہا را فرض صرف اتناہی نہیں ہے کہ صرف اس کی بندگی کرو، بلکہ یہ بھی ہے کہ اس کی بھیجی ہوئی ہدایت کے مطابق کام کرو، اگر تم نے ایسانہ کیا اور اپنے ازکی دشمن کے اشارہ پر چلے تو بدترین بغاوت کے مجرم ہوگے، اور بدترین انجام دیکھوگے۔
تاریخ آفرینش آدم علیہ الصلاة ولسلام اور اس کا منصب : اس سلسلے میں انسان کی حقیقت اور کائنات میں اس کی حیثیت ٹھیک ٹھیک بیان کردی گئی ہے اور نوع انسان کی تاریخ کا وہ باب پیش کیا گیا ہے، جس کے معلوم ہونے کا دوسرا کوئی ذریعہ انسان کو میسر نہیں ہے اس باب سے ہم کو جو معلومات حاصل ہوتی ہیں، یا جو ہم کو نتائج حاصل ہوتے ہیں، وہ ان نتائج سے بہت زیادہ قیمتی ہیں جو زمین کی تہوں سے متفرق ہڈیاں نکال کر اور انہیں قیاس وتخمین سے ربط دے کر نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، حتی کہ نسل انسان کا جدا علیٰ بندر کو قرار دے کر انسان کی توہین وتزلیل سے بھی نہیں چوکتے۔
خلیفہ : خلیفہ کہتے ہیں اس کو جو کسی کی نیابت کرے خواہ اس لئے کہ وہ موجود نہیں یا اس لئے کہ وہ فوت ہوچکا ہے یا اس لئے کہ وہ معذور ہے اور خواہ اس لئے کہ اس سے مستخلف کی تعظیم ظاہر ہو۔
\&\& الخلافة، النیابة مِنَ الغیر امّالغیبَة المنوب عنہ واِمّا لموتہ وَاِمالعجزہ وَاِمّالِتشریف المسْتخلف \&\& (راغب، تفسیر ماجد)
واضح رہے کہ دنیا کے کسی انسان کو اس بلند مرتبہ یعنی خلافت و نیابت الٰہی پر نہیں رکھا ہے جاہلی مذاہت کا تو ذکر ہی کیا ؟ خودیہودیت اور اس کا مسخ شدہ ضمیمہ مسیحیت بھی اس باب میں اسلام سے کہیں پیچھے ہے، بائبل میں اس موقع پر صرف اس قدرذکر ہے۔
بائبل میں تحقیق آدم کا ذکر : \&\& خداوندنے زمین پر پانی برسا یا تھا، اور آدم نہ تھا کہ زمین کی کھیتی کرے اور زمین سے بخاراٹھتا تھا، اور تمام روئے زمین سیراب کرتا تھا اور خداوندانے زمین کی خاک سے آدم کو بنایا اور اس کے نتھنوں میں زندگی کا دم پھونکا سو آدم جیتی جان ہوا \&\&۔ (پیدائش، ٢، ٥، ٧، ماجدی)
گویا جس طرح دیگر حیوانات پیدا ہورہے تھے، ایک جاندار، آدم بھی پیدا ہوگیا، اس کا کام زیادہ سے زیادہ یہ تھا کہ زمین پر کھیتی کرے، کہاں یہ اتنا طویل لیکن نے مغز، انسان کو کاشتکاری تک محرود رکھنے والا بیان اور کہاں قرآن مجید کا باوجود نہایت اختصار کے انسان کے مرتبئہ خلافت الٰہی پو پہنچا دینے والا بلند اور جامع اعلان۔
قَالُؤ ااَتَجْعَلُ فِیْھَامَنْ یُّفْسِدُ فِیْھَا (الآیة) فرشتوں کا یہ قول بطور اعتراض یا گستاخی کے نہ تھا جیسا کہ بعض حضرت کا خیال ہے، فرشتے تو گستاخی کر ہی نہیں سکتے، باغی فرشتوں کا تخیل تمامتر مستحی ہے اور عجب نہیں کہ مسیحیوں کے ساتھ تعلقات قائم ہوجانے سے یہ خیال مسلمان علماء میں داخل ہوگیا ہو، فرشتوں کا یہ قول تمام تروفور نیاز مندی، اقرار وفاداری اور جوش جاں نثاری کا نتیجہ تھا جیسا کہ بعض محققین نے لکھا ہے۔
\&\& وقول الملا ئکة ھٰذالَیْسَ علی وجہ الاعتراض علی اللہ ولاعلیٰ وجہ الحسدلنبی آدم کماقد یتو ھمہ بعض المفسرین \&\&۔ (ابن کثیر)
اس موقع پر بہترین تقریر حضرت تھا نوح (رح) تعالیٰ کی ہے آپ فرماتے ہیں۔
مطلب یہ ہے کہ ہم تو سب کے سب آپ کے فرمانبردار ہیں اور ان میں کوئی کوئی مفسد وسفاک بھی ہوگا، سو اگر یہ کام ہمارے سپرد کیا جائے، تو ہم سب لگ لپٹ کر اس کو انجام دیں گے اور وہ لوگ سب اس کام کے نہ ہوں گے البتہ جو مطیع ہوں گے وہ تو جان ودل سے اس میں لگ جائیں گے، مگر جو مفسد اور ظالم ہوں گے ان سے کیا امید کہ وہ اس کام کو انجام دیں گے، خلاصہ یہ ہے کہ جب کام کرنے والوں کا ایک گروہ موجود ہے، تو ایک نئی مخلوق کو جن میں کوئی کام کا ہوگا کوئی نہ ہوگا، اس خدمت کے لئے تجویز فرمانے کی کیا ضرورت ہے ؟ یہ بطور اعتراض کے نہیں کہا نہ اپنا استحقاق جتلایا بلکہ یہ ایسی بات ہے کہ کوئی حاکم نیاکام تجویز کرکے اس کے لئے ایک مستقل عملہ بڑھانا چاہے اور اپنے قدیم عملے سے اس کا اظہار کرے وہ لوگ اپنی جاں نثاری کی وجہ سے عرض کریں کہ حضور جو لواس کام کے لئے تجویز ہوئے ہیں ہم کسی طرح معلوم ہوا ہے کہ بعض بعض تو اس کو نخونی انجام دیں گے اور بعض بالکل ہی کام بکاڑدیں گے، جن سے حضور کا مزاج نا خوش ہوگا، آخرہم کس مرض کی دوا ہیں، ہر وقت حضور پر جان قربان کرنے کو تیار ہیں کیسا ہی کام کیوں نہ حضور کے اقبال سے اس کو انجام دے نکلتے ہیں، کبھی کسی خدمت میں ہم غلاموں نے عذر نہیں کیا اور اگر وہ نئی خدمت بھی ہم کو عنایت ہوگی تو ہم کو کوئی عذروانکار نہ ہوگا، فرشتوں کو عرض معروض بھی اسی طرح نیاز مندی کے وسطے تھی۔
(تفسیر ماجد ملخصًا)
فرشتوں کی یہ ساری عرض ومعروض ان کی کسی غیب دانی کی بناپو نہیں بلکہ نیابت الٰہی و خلافت ربانی کا نام سن کر خود ہی انہوں نے اندازہ لگالیا تھا قوائے بشری کی ترکیب کا بھی اور زمین مخلوق کی ضرورتوں اور طبعی تقاضوں کا بھی، اور اس سے یہ نتیجہ خود بخود ان کے سامنے آگیا تھا کہ زمین فساد بھی ہوگا اور انسانوں میں سے باغی و نافرمان بھی پیدا ہوں گے، یہ بھی کہا کیا ہے کہ انسانی آبادی سے قبل روئے زمین پر جنات آباد تھے، ان کی سرشت و فطرت پر قیاس کرکے فرشتے انسانوں کے حق میں بھی یہی سمجھے، مفسرعلام سیوطی نے اپنے قول \&\& یُریقھا بالقتل کما فَعَلَ بنوالجان \&\& اسے اسی مضمون کی طرف اشارہ کیا ہے اور معالبم میں ہی :\&\& کمافَعَلَ بنوالجان فقاسوا الشاھِدعلی الغائب \&\& (معالم)
وَاَنَّھُمْ قَاسَوْھُمْ عَلیٰ مَنْ سَبَقَ (ابن کثیر) اور ہوسکتا ہے کہ فرشتوں نے روح پھونکے جا نے سے پہلے ملکوتی نظر سے آدم کے جسد خاکی کو دیکھا ہو جو عناصر اربعہ متضادہ سے مرکب تھا اور اسی سے اندازہ کرلیا ہو کہ نئی مخلوق بھی زمین میں شروفساد برپا کرے گی، اور اس کو غیب نہیں کہتے یہ ایک شئی کا دوسری شئی پو قیاس اور نتیجہ کا اخذ ہے۔ (روح المعانی، ملخصًا)
وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ ، دنیا میں دیوتا پرستی کی بیماری فرشتوں ہی کے فرائض کی غلط تشخیص سے پیدا ہوئی ہے، آگ کے فرشتوں کو جاہلی قوموں نے اگئی دیوتا بارش کے فرشتوں کو اندردیوتا اور رزق رساں فرشتوں کو اَنْ دیوتا علی ہذا القیاس قراردیدیا، قرآن نے نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکِ الخ فرشتوں کی زبانی کہلواکران کی عبدیت محض پر انہیں کی زبان سے مہرلگادی، فرشتے یہاں صاف صاف عرض کررہے ہیں کہ ہم خدام تو اپنی سرشت کے لحاظ سے بجز حضور والا کی تحمید و تقدیس کے اور کچھ کر ہی نہیں سکتے۔
فرشتہ اور دیوتا میں فرق : دونوں کے تصور میں بنیادی فرق یہ ہے کہ فرشتہ مکمل مخلوق اور عبد ہوتا ہء اللہ کے حکم سے موجودات کے کسی خاص شعبہ پر مامور ہوتا ہے، اس سے کسی غلط، لغزش یا خیانت کا احتمام نہیں ہوتا، اس کے برعکس دیوتا خودایک مستقبل بالذاتو خودمختار وجودہوتا ہے اور عبد نہیں بلکہ معبود ہوتا ہے۔ (ماجدی، ملخصًا)
قَالَ اِنِِّیٔ اَعْلَمُ مَالَا تَعْلَمُوْنَ : فرشتوں کو جب یہ خلجان ہوا کہ ایسی مخلوق جس میں مفسد اور خون ریز تک ہوں گے، ہم ایسے مطیع اور فرمانبردار کے ہوتے ہوئے ان کو خلیفہ بنانا اس کی وجہ کیا ہوگی، تو بطور استفادہ یہ سوال کیا، اعتراض ہرگز نہ تھا۔
اللہ تعالیٰ جا فرشتوں کو اجمالی جواب : فرشتوں کو سردست بالا جمال یہ جواب دیا گیا کہ ہم خوب جانتے ہیں اس کے پیدا کرنے میں جو حکمتیں ہیں تم کو ابھی تک وہ حکمتیں معلوم نہیں ورنہ اس کی حلافت اور افضلیت پر شبہ نہ کرتے۔
وَعَلََّمَ آدَمَالْاَسْمَآئَ کُلَّھَّا، یعنی اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ الصلاة والسلام کر ہر ایک چیز کا نام مع اس کی حقیقت و خاصیت اور نفع و نقصان کے تعلیم فرمایا اور یہ علم بلاواسطہ القاء فرمایا، اس لیے کہ کمال علمی کے بغیر خلافت اور دنیا پر حکومت ممکن نہیں ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً﴾ ” اور جب آپ کے رب نے فرشتوں سے کہا، میں زمین میں ایک خلیفہ بناؤں گا“ یہ ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کی ابتدا اور ان کی فضیلت کا ذکر ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے آدم کی تخلیق کا ارادہ کیا تو اس نے فرشتوں کو آگاہ کیا اور فرمایا کہ وہ آدم کو زمین کے اندر خلیفہ بنائے گا۔ اس پر تمام فرشتوں نے کہا ﴿ أَتَجْعَلُ فِيهَا مَن يُفْسِدُ فِيهَا﴾” کیا تو زمین میں اس کو بنائے گا جو اس میں فساد کرے گا“ یعنی گناہوں کا ارتکاب کرکے زمین پر فساد برپا کرے گا ﴿ وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ﴾” اور خون بہائے گا“ یہ عموم کے بعد تخصیص ہے اور اس کا مقصد قتل کے مفاسد کی شدت کو بیان کرنا ہے اور یہ فرشتوں کے گمان کے مطابق تھا کہ وہ ہستی جسے زمین میں خلیفہ بنایا جارہا ہے اس کی تخلیق سے زمین کے اندر فساد ظاہر ہوگا، چنانچہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی اور عظمت بیان کرتے ہوئے عرض کیا کہ وہ اس طریقے سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کررہے ہیں جو تمام مفاسد سے پاک ہے۔ چنانچہ انہوں نے کہا ﴿ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ﴾ ” اور ہم تیری پاکیزگی بیان کرتے ہیں تیری خوبیوں کے ساتھ“ یعنی ہم ایسی تنزیہ کے ساتھ تیری پاکیزگی بیان کرتے ہیں جو تیری حمد و جلال کے لائق ہے۔ ﴿وَنُقَدِّسُ لَكَ﴾اس میں ایک معنی کا احتمال یہ ہے کہ ہم تیری تقدیس بیان کرتے ہیں یعنی (نُقَدِّسَكَ) اس صورت میں لام تخصیص اور اخلاص کا فائدہ دے گا۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ اس کے معنی ہوں۔ ( وَنُقَدِّسُ لَكَ أ َ نفُسَنَا) ” ہم اپنے آپ کو تیرے لئے پاک کرتے ہیں“ یعنی ہم اپنے نفوس کو اخلاق جمیلہ جیسے محبت الہٰی، خثیت الہٰی اور تعظیم الہٰی کے ذریعے سے پاک کرتے ہیں اور ہم اپنے نفسوں کو اخلاق رزیلہ سے بھی پاک کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا ﴿ إِنِّي أَعْلَمُ﴾یعنی میں جانتا ہوں کہ یہ خلیفہ کون ہے۔ ﴿مَا لَا تَعْلَمُونَ﴾جو تم نہیں جانتے کیونکہ تمہارا کلام تو ظن اور گمان پر مبنی ہے جب کہ میں ظاہر و باطن کا علم رکھتا ہوں اور مجھے معلوم ہے کہ اس خلیفہ کی تخلیق سے جو خیر اور بھلائی حاصل ہوگی وہ اس شر سے کئی گنا زیادہ ہے جو اس کی تخلیق میں مضمر ہے اور اس میں یہ بات بھی نہ ہوتی، تب بھی اللہ تعالیٰ کا یہ ارادہ کہ وہ انسانوں میں سے انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کو چنے، اس کی نشانیاں مخلوق پر واضح ہوں اور اس سے عبودیات کی وہ کیفیتیں حاصل ہوں جو اس خلیفہ کی تخلیق کے بغیر حاصل نہ ہوسکتی تھیں، جیسے جہاد وغیرہ ہیں اور امتحان اور آزمائش کے ذریعے سے خیر و شر کی وہ قوتیں ظاہر ہوں جو مکلفین کی فطرت میں پوشیدہ ہیں اور اللہ تعالیٰ کے دشمنوں، دوستوں، اس کے خلاف جنگ لڑنے والوں اور حزب اللہ کے مابین امتیاز ہو اور ابلیس کا وہ شر ظاہر ہو جو اس کی فطرت میں پوشیدہ ہے اور جس سے وہ متصف ہے۔ تو آدم علیہ السلام کی تخلیق میں یہ حکمتیں ہی اتنی عظیم ہیں کہ ان میں سے چند ایک بھی اس کی تخلیق کے لئے کافی ہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur ( uss waqt ka tazkarah suno ) jab tumharay perwerdigar ney farishton say kaha kay mein zameen mein aik khalifa bananey wala hun , woh kehney lagay : kiya aap zameen mein aesi makhlooq peda keren gay jo uss mein fasad machaye , aur khoon kharaba keray , halankay hum aap ki tasbeeh aur hamd o taqdees mein lagay huye hain ? Allah ney kaha : mein woh baaten janta hun jo tum nahi jantay
12 Tafsir Ibn Kathir
خلافت آدم کا مفہوم
اللہ تعالیٰ کے اس احسان کو دیکھو کہ اس نے آدم کو پیدا کرنے سے پہلے فرشتوں میں ان کا ذکر کیا جس کا بیان اس آیت میں ہے۔ فرماتا ہے کہ اے نبی تم یاد کرو اور اپنی امت کو یہ خبر پہنچاؤ۔ ابو عبیدہ تو کہتے ہیں کہ لفظ " اذ " یہاں زائد ہے لیکن ابن جریر وغیرہ مفسرین اس کی تردید کرتے ہیں خلیفہ سے مراد یہ ہے کہ ان کے یکے بعد دیگرے بعض کے بعض جانشین ہوں گے اور ایک زمانہ کے بعد دوسری زمانہ میں یونہی صدیوں تک یہ سلسلہ رہے گا۔ جیسے اور جگہ ارشاد ہے۔ آیت (هُوَ الَّذِيْ جَعَلَكُمْ خَلٰۗىِٕفَ فِي الْاَرْضِ ) 35 ۔ فاطر :39) دوسری جگہ فرمایا آیت (وَيَجْعَلُكُمْ خُلَـفَاۗءَ الْاَرْضِ ) 27 ۔ النمل :62) یعنی تمہیں اس نے زمین کا خلیفہ بنادیا اور ارشاد ہے کہ ان کے بعد ان کے خلیفہ یعنی جانشین برے لوگ ہوئے۔ ایک شاذ قرأت میں خلیفہ بھی ہے۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ خلیفہ سے مراد صرف حضرت آدم ہیں لیکن اس بارے میں تفسیر رازی کے مفسر نے اختلاف کو ذکر کیا ہے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مطلب نہیں۔ اس کی ایک دلیل تو فرشتوں کا یہ قول ہے کہ وہ زمین میں فساد کریں گے اور خون بہائیں گے تو ظاہر ہے کہ انہوں نے اولاد آدم کی نسبت یہ فرمایا تھا نہ کہ خاص حضرت آدم کی نسبت۔ یہ اور بات ہے کہ اس کا علم فرشتوں کو کیونکر ہوا ؟ یا تو کسی خاص ذریعہ سے انہیں یہ معلوم ہوا یا بشری طبیعت کے اقتضا کو دیکھ کر انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہوگا کیونکہ یہ فرما دیا گیا تھا کہ اس کی پیدائش مٹی سے ہوگی یا لفظ خلیفہ کے مفہوم سے انہوں نے سمجھ لیا ہوگا کہ وہ فیصلے کرنے والا مظالم کی روک تھام کرنے والا اور حرام کاموں اور گناہوں کی باتوں سے روکنے والا ہوگا یا انہوں نے پہلی مخلوق کو دیکھا تھا اسی بنا پر اسے بھی قیاس کیا ہوگا۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ فرشتوں کی یہ عرض بطور اعتراض نہ تھی نہ بنی آدم سے حسد کے طور پر تھی۔ جن لوگوں کا یہ خیال ہے وہ قطعی غلطی کر رہے ہیں۔ فرشتوں کی شان میں قرآن فرماتا ہے آیت (لَا يَسْبِقُوْنَهٗ بالْقَوْلِ وَهُمْ بِاَمْرِهٖ يَعْمَلُوْنَ ) 21 ۔ الانبیآء :27) یعنی جس بات کے دریافت کرنے کی انہیں اجازت نہ ہو اس میں وہ لب نہیں ہلاتے (اور یہ بھی ظاہر ہے کہ فرشتوں کی طبیعت حسد سے پاک ہے) بلکہ صحیح مطلب یہ ہے کہ یہ سوال صرف اس حکمت معلوم کرنے کے لئے اور اس راز کے ظاہر کرانے کے لئے تھا جو ان کی سمجھ سے بالاتر تھا۔ یہ تو جانتے تھے کہ اس مخلوق میں فسادی لوگ بھی ہوں گے تو اب با ادب سوال کیا کہ پروردگار ایسی مخلوق کے پیدا کرنے میں کونسی حکمت ہے ؟ اگر عبادت مقصود ہے تو عبادت تو ہم کرتے ہی ہیں، تسبیح و تقدیس وتحمید ہر وقت ہماری زبانوں پر ہے اور پھر فساد وغیرہ سے پاک ہیں تو پھر اور مخلوق جن میں فسادی اور خونی بھی ہوں گے کس مصلحت پر پیدا کی جا رہی ہے ؟ تو اللہ تعالیٰ نے ان کے سوال کا جواب دیا کہ باوجود اس کے فساد کے اسے جن مصلحتوں اور حکمتوں کی بنا پر میں پیدا کر رہا ہوں انہیں میں ہی جانتا ہوں تمہارا علم ان تک حکمتوں نہیں پہنچ سکتا میں جانتا ہوں کہ ان میں انبیاء اور رسول ہوں گے ان میں صدیق اور شہید ہوں گے۔ ان میں عابد، زاہد، اولیاء، ابرار، نیکوکار، مقرب بارگاہ، علماء، صلحاء، متقی، پرہیزگار، خوف الٰہی، حب باری تعالیٰ رکھنے والے بھی ہوں گے۔ میرے احکام کی بسر و چشم تعمیل کرنے والے، میرے نبیوں کے ارشاد پر لبیک پکارنے والے بھی ہوں گے۔ صحیحین کی حدیث میں ہے کہ دن کے فرشتے صبح صادق کے وقت آتے ہیں اور عصر کو چلے جاتے ہیں۔ تب رات کے فرشتے آتے ہیں اور صبح کو جاتے ہیں۔ آنے والے جب آتے ہیں تب بھی اور جب جاتے ہیں تب بھی صبح کی اور عصر کی نماز میں لوگوں کو پاتے ہیں اور دربار الٰہی میں پروردگار کے سوال کے جواب میں دونوں جماعتیں یہی کہتی ہیں کہ گئے تو نماز میں پایا اور آئے تو نماز میں چھوڑ کر آئے یہی وہ مصلحت اللہ ہے جسے فرشتوں کو بتایا گیا کہ میں جانتا ہوں اور تم نہیں جانتے۔ ان فرشتوں کو اسی چیز کو دیکھنے کے لئے بھیجا جاتا ہے اور دن کے اعمال رات سے پہلے اور رات کے دن سے پہلے الہ العالمین کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں۔ غرض تفصیلی حکمت جو پیدائش انسان میں تھی اس کی نسبت فرمایا کہ یہ میرے مخصوص علم میں ہے۔ جو تمہیں معلوم نہیں بعض کہتے ہیں یہ جواب فرشتوں کے اس قول کا ہے کہ ہم تیری تسبیح وغیرہ کرتے رہتے ہیں تو انہیں فرمایا گیا کہ میں ہی جانتا ہوں تم جیسا سب کو یکساں سمجھتے ہو ایسا نہیں بلکہ تم میں ایک ابلیس بھی ہے۔ ایک تیسرا قول یہ ہے کہ فرشتوں کا یہ سب کہنا دراصل یہ مطلب رکھتا تھا کہ ہمیں زمین میں بسایا جائے تو جواباً کہا گیا کہ تمہاری آسمانوں میں رہنے کی مصلحت میں ہی جانتا ہوں اور مجھے علم ہے کہ تمہارے لائق جگہ یہی ہے واللہ اعلم۔ حسن قتادہ وغیرہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو خبر دی۔ سدی کہتے ہیں مشورہ لیا۔ لیکن اس کے معنی بھی خبر دینے کے ہوسکتے ہیں۔ اگر نہ ہوں تو پھر یہ بات بےوزن ہوجاتی ہے۔ ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب مکہ سے زمین پھیلائی اور بچھائی گئی تو بیت اللہ شریف کا طواف سب سے پہلے فرشتوں نے کیا اور زمین میں خلیفہ بنانے سے مراد مکہ میں خلیفہ بنانا ہے۔ یہ حدیث مرسل ہے پھر اس میں ضعف ہے اور مدرج ہے یعنی زمین سے مراد مکہ لینا راوی کا اپنا خیال ہے واللہ اعلم۔ بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ زمین سے ساری زمین مراد ہے۔ فرشتوں نے جب یہ سنا تو پوچھا تھا کہ وہ خلیفہ کیا ہوگا ؟ اور جواب میں کہا گیا تھا کہ اس کی اولاد میں ایسے لوگ بھی ہوں گے جو زمین میں فساد کریں، حسد و بغض کریں، قتل و خون کریں ان میں وہ عدل و انصاف کرے گا اور میرے احکام جاری کرے گا تو اس سے مراد حضرت آدم ہیں۔ جو ان کے قائم مقام اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور مخلوق میں عدل و انصاف کرنے کی بنا پر فساد پھیلانے اور خون بہانے والے خلیفہ نہیں۔ لیکن یہ یاد رہے کہ یہاں مراد خلافت سے ایک زمانہ جو دوسرے زمانہ کے بعد آتا ہے۔ خلیفہ فعیلہ کے وزن پر ہے۔ جب ایک کے بعد دوسرا اس کے قائم مقام ہو تو عرب کہتے ہیں۔ خلف فلان فلانا فلاں شخص کا خلیفہ ہوا جیسے قرآن میں ہے کہ ہم ان کے بعد تمہیں زمین کا خلیفہ بنا کر دیکھتے ہیں کہ تم کیسے عمل کرتے ہو اور اسی لئے سلطان اعظم کو خلیفہ کہتے ہیں اس لئے کہ وہ اگلے بادشاہ کا جانشین ہوتا ہے محمد بن اسحاق کہتے ہیں مراد یہ ہے کہ زمین کا ساکن اس کی آبادی کرنے والا ہے۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں پہلے زمین میں جنات بستے تھے۔ انہوں نے اس میں فساد کیا اور خون بہایا اور قتل و غارت کیا ابلیس کو بھیجا گیا اس نے اور اس کے ساتھیوں نے انہیں مار مار کر جزیروں اور پہاڑوں میں بھگا دیا حضرت آدم (علیہ السلام) کو پیدا کر کے زمین میں بسایا تو گویا یہ ان پہلے والوں کے خلیفہ اور جانشین ہوئے۔ پس فرشتوں کے قول سے مراد اولاد آدم ہیں جس وقت ان سے کہا گیا کہ میں زمین کو اور اس میں بسنے والی مخلوق کو پیدا کرنا چاہتا ہوں۔ اس وقت زمین تھی لیکن اس میں آبادی نہ تھی۔ بعض صحابہ سے یہ بھی مروی ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں معلوم کروا دیا تھا کہ اولاد آدم ایسے ایسے کام کرے گی تو انہوں نے یہ پوچھا اور یہ بھی مروی ہے کہ جنات کے فساد پر انہوں نے بنی آدم کے فساد کو قیاس کر کے یہ سوال کیا۔ حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ آدم (علیہ السلام) سے دو ہزار سال پہلے سے جنات زمین میں آباد تھے۔ ابو العالیہ فرماتے ہیں فرشتے بدھ کے دن پیدا ہوئے اور جنات کو جمعرات کے دن پیدا کیا اور جمعہ کے دن آدم (علیہ السلام) پیدا ہوئے حضرت حسن اور حضرت قتادہ کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں خبر دی تھی کہ ابن آدم ایسا ایسا کریں گے اس بنا پر انہوں نے سوال کیا ابو جعفر محمد بن علی فرماتے ہیں سجل نامی ایک فرشتہ ہے جس کے ساتھی ہاروت ماروت تھے۔ اسے ہر دن تین مرتبہ لوح محفوظ پر نظر ڈالنے کی اجازت تھی۔ ایک مرتبہ اس نے آدم (علیہ السلام) کی پپدائش اور دیگر امور کا جب مطالعہ کیا تو چپکے سے اپنے ان دونوں ساتھیوں کو بھی اطلاع کردی۔ اب جو اللہ تعالیٰ نے اپنا ارادہ ظاہر فرمایا تو ان دونوں نے یہ سوال کیا لیکن یہ روایت غریب ہے اور صبح مان لینے پر بھی ممکن ہے کہ ابو جعفر نے اسے اہل کتاب یہود و نصاریٰ سے اخذ کیا ہو۔ بہر صورت یہ ایک واہی تواہی روایت ہے اور قابل تردید ہے۔ واللہ اعلم۔ پھر اس روایت میں ہے کہ دو فرشتوں نے یہ سوال کیا۔ یہ قرآن کی روانی عبارت کے بھی خلاف ہے۔ یہ بھی روایت مروی ہے کہ یہ کہنے والے فرشتے دس ہزار تھے اور وہ سب کے سب جلا دئیے گئے۔ یہ بھی بنی اسرائیلی روایت ہے اور بہت ہی غریب ہے امام ابن جریر فرماتے ہیں اس سوال کی انہیں اجازت دی گئی تھی اور یہ بھی معلوم کرا دیا گیا تھا کہ یہ مخلوق نافرمان بھی ہوگی تو انہوں نے نہایت تعجب کے ساتھ اللہ کی مصلحت معلوم کرنے کے لئے یہ سوال کیا نہ کہ کوئی مشورہ دیا یا انکار کیا یا اعتراض کیا ہو۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جب آدم (علیہ السلام) کی پیدائش شروع ہوئی تو فرشتوں نے کہا ناممکن ہے کہ کوئی مخلوق ہم سے زیادہ بزرگ اور عالم ہو تو اس پر یہ امتحان اللہ کی طرف سے آیا اور کوئی مخلوق ہم سے زیادہ بزرگ اور عالم ہو تو اس پر یہ امتحان اللہ کی طرف سے آیا اور کوئی مخلوق امتحان سے نہیں چھوٹی۔ زمین اور آسمان پر بھی امتحان آیا تھا اور انہوں نے سرخم کر کے اطاعت الٰہیہ کے لئے آمادگی ظاہر کی فرشتوں کی تسبیح و تقدیس سے مراد اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرنا نماز پڑھنا بےادبی سے بچنا، بڑائی اور عظمت کرنا ہے۔ فرماں برداری کرنا سبوح قدوس وغیرہ پڑھنا ہے۔ قدس کے معنی پاک کے ہیں۔ پاک زمین کو مقدس کہتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال ہوتا ہے کہ کونسا کلام افضل ہے جواب دیتے ہیں وہ جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں کے لئے پسند فرمایا سبحان اللہ وبحمدہ (صحیح مسلم) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معراج والی رات آسمانوں پر فرشتوں کی یہ تسبیح سنی سبحان العلی الاعلی سبحانہ
خلیفہ کے فرائض اور خلافت کی نوعیت ٭٭
امام قرطبی وغیرہ نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ خلیفہ کا مقرر کرنا واجب ہے تاکہ وہ لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کرے، ان کے جھگڑے چکائے، مظلوب کا بدلہ ظالم سے لے، حدیں قائم کرے، برائیوں کے مرتکب لوگوں کو ڈانٹے ڈپٹے وغیرہ، وہ بڑے بڑے کام جو بغیر امام کے انجام نہیں پاسکتے۔ چونکہ یہ کام واجب ہیں اور یہ بغیر امام کے پورے نہیں ہوسکتے اور جس چپز کے بغیر واجب پورا نہ ہو وہ بھی واجب ہوجاتی ہے لہذا خلیفہ کا مقرر کرنا واجب ثابت ہوا۔ امامت یا تو قرآن و حدیث کے ظاہری لفظوں سے ملے گی جیسے کہ اہل سنت کی ایک جماعت کا حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی نسبت خیال ہے کہ ان کا نام حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خلافت کے لئے لیا تھا یا قرآن و حدیث سے اس کی جانب اشارہ ہو۔ جیسے اہل سنت ہی کی دوسری جماعت کا خلیفہ اول کی بابت یہ خیال ہے کہ اشارۃً ان کا ذکر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خلافت کے لئے کیا۔ یا ایک خلیفہ اپنے بعد دوسرے کو نامزد کر جائے جیسے حضرت صدیق اکبر (رض) نے حضرت عمر (رض) کو اپنا جانشین مقرر کردیا تھا۔ یا وہ صالح لوگوں کی ایک کمیٹی بنا کر انتخاب کا کام ان کے سپرد کر جائے جیسے کہ حضرت عمر (رض) نے کیا تھا یا اہل حل و عقد (یعنی بااثر سرداران لشکر علماء و صلحاء وغیرہ) اس کی بیعت پر اجماع کرلیں یا ان میں سے کوئی اس کی بیعت کرلے تو جمہور کے نزدیک اس کا لازم پکڑنا واجب ہوجائے گا۔ امام الحرمین نے اس پر اجماع نقل کیا ہے واللہ العلم۔ یا کوئی شخص لوگوں کو بزور و جبر اپنی ماتحتی پر بےبس کر دے تو بھی واجب ہوجاتا ہے کہ اس کے ہاتھ پر بیعت کرلیں تاکہ پھوٹ اور اختلاف نہ پھیلے۔ امام شافعی نے صاف لفظوں میں فیصلہ کیا ہے۔ اس بیعت کے وقت گواہوں کی موجودگی کے واجب ہونے میں اختلافات ہے بعض تو کہتے ہیں یہ شرط نہیں، بعض کہتے ہیں شرط ہے اور دو گواہ کافی ہیں۔ جبائی کہتا ہے بیعت کرنے والے اور جس کے ہاتھ پر بیعت ہو رہی ہے ان دونوں کے علاوہ چار گواہ چاہئیں۔ جیسے کہ حضرت عمر (رض) نے شوریٰ کے چھ ارکان مقرر کئے تھے پھر انہوں نے حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) کو مختار کردیا اور آپ نے حضرت عثمان (رض) کے ہاتھ پر باقی چاروں کی موجودگی میں بیعت کی لیکن اس استدلال میں اختلاف ہے۔ واللہ اعلم۔
امام کا مرد ہونا، آزاد ہونا، بالغ ہونا، عقلمند ہونا، مسلمان ہونا، عادل ہونا، مجتہد ہونا، آنکھوں والا ہونا، صحیح سالم اعضاء والا ہونا، فنون جنگ سے اور رائے سے خبردار ہونا، قریشی ہونا واجب ہے اور یہی صحیح ہے۔ ہاں ہاشمی ہونا اور خطا سے معصوم ہونا شرط نہیں۔ یہ دونوں شرطیں متشدد رافضی لگاتے ہیں امام اگر فاسق ہوجائے تو اسے معزول کردینا چاہیے یا نہیں ؟ اس میں اخلاف ہے اور صحیح یہ ہے کہ معزول نہ کیا جائے کیونکہ حدیث میں آچکا ہے کہ جب تک ایسا کھلا کفر نہ دیکھ لو جس کے کفر ہونے کی ظاہر دلیل اللہ کی طرف سے تمہارے پاس ہو، اسی طرح خود امام اپنے آپ معزول ہوسکتا ہے یا نہیں ؟ اس میں بھی اختلاف ہے۔ حضرت حسن بن علی (رض) خودبخود آپ ہی معزول ہوگئے تھے اور امر امامت حضرت معاویہ (رض) کو سونپ دیا تھا لیکن یہ عذر کے باعث تھا جس پر ان کی تعریف کی گئی ہے۔ روئے زمین پر ایک سے زیادہ امام ایک وقت میں نہیں ہوسکتے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ جب تم میں اتفاق ہو اور کوئی اگر تم میں جدائی ڈالنی چاہے تو اسے قتل کردو خواہ کوئی بھی ہو۔ جمہور کا یہی مذہب ہے اور بہت سے بزرگوں نے اس پر اجماع نقل کیا ہے جن میں سے ایک امام الحرمین ہیں۔ کر امیہ (شیعہ) کا قول ہے کہ دو اور زیادہ بھی ایک وقت میں امام ہوسکتے ہیں جیسے کہ حضرت علی اور حضرت معاویہ (رض) دونوں اطاعت کے لائق تھے۔ یہ گروہ کہتا ہے کہ جب ایک وقت میں دو دو اور زیادہ نبیوں کا ہونا جائز ہے تو اماموں کا جائز ہونا جائز کیوں نہ ہو ؟ نبوت کا مرتبہ تو یقینا امامت کے مرتبے سے بہت زیادہ ہے (لیکن صحیح مسلم والی حدیث آپ ابھی اوپر چڑھ چکے ہیں کہ دوسرے کو قتل کر ڈالو۔ اس لئے صحیح مذہب وہی ہے جو پہلے بیان ہوا) امام الحرمین نے استاذ ابو اسحاق سے بھی حکایت کی ہے کہ وہ دو اور زیادہ اماموں کا مقرر کرنا اس وقت جائز جانتے ہیں جب مسلمانوں کی سلطنت بہت بڑی وسیع ہو اور چاروں طرف پھیلی ہوئی ہو اور دو اماموں کے درمیان کئی ملکوں کا فاصلہ ہو۔ امام الحرمین اس میں ترود میں ہیں، خلفائے بنی عباس کا عراق میں اور خلفائے بنی فاطمہ کا مصر میں اور خاندان بنی امیہ کا مغرب میں میرے خیال سے یہی حال تھا۔ اس کی بسط و تفصیل انشاء اللہ کتاب الاحکام کی کسی مناسب جگہ ہم کریں گے۔