البقرہ آية ۳۴
وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰۤٮِٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِيْسَ ۗ اَبٰى وَاسْتَكْبَرَ ۖ وَكَانَ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ
طاہر القادری:
اور (وہ وقت بھی یاد کریں) جب ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے، اس نے انکار اور تکبر کیا اور (نتیجۃً) کافروں میں سے ہو گیا،
English Sahih:
And [mention] when We said to the angels, "Prostrate before Adam"; so they prostrated, except for Iblees. He refused and was arrogant and became of the disbelievers.
1 Abul A'ala Maududi
پھر جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدمؑ کے آگے جھک جاؤ، تو سب جھک گئے، مگر ابلیس نے انکار کیا وہ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں پڑ گیا اور نافرمانوں میں شامل ہو گیا
2 Ahmed Raza Khan
اور (یاد کرو) جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے کہ منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہوگیا-
3 Ahmed Ali
اورجب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو انہوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس کہ اس نے انکار کیا اورتکبر کیا اورکافروں میں سے ہو گیا
4 Ahsanul Bayan
اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو (١) تو ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا۔ اس نے انکار کیا (۲) اور تکبر کیا اور وہ کافروں میں ہو گیا۔ (۳)
٣٤۔١ علمی فضیلت کے بعد حضرت آدم علیہ السلام کی یہ دوسری عزت ہوئی۔ سجدہ کے معنی ہیں عاجزی اور گڑگڑانے کے اس کی انتہا ہے زمین پر پیشانی کا ٹکا دینا (قرطبی) یہ سجدہ شریعت اسلامیہ میں اللہ تعالٰی کے سوا کسی کے لئے جائز نہیں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مشہور فرمان ہے کہ اگر سجدہ کسی اور کے لئے جائز ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔ (سنن ترندی) تاہم فرشتوں نے اللہ کے حکم پر حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کیا جس سے ان کی تکریم و فضیلت فرشتوں پر واضح کر دی گئی۔ کیونکہ یہ سجدہ و اکرام و تعظیم کے طور پر یہ تھا نہ کہ عبادت کے طور پر۔ اب تعظیماً بھی کسی کو سجدہ نہیں کیا جا سکتا
٣٤۔٢ ابلیس نے سجدے سے انکار کیا اور راندہ درگاہ ہو گیا۔ ابلیس حسب وضاحت قرآن جنات میں سے تھا لیکن اللہ تعالٰی نے اسے اعزازا فرشتوں میں شامل کر رکھا تھا اس لئے بحکم الٰہی اس کے لئے بھی سجدہ کرنا ضروری تھا۔ لیکن اس نے حسد اور تکبر کی بنا پر سجدہ کرنے سے انکار کر دیا۔ گویا حسد اور تکبر وہ گناہ ہیں جن کا ارتکاب دنیائے انسانیت میں سب سے پہلے کیا گیا اور اس کا مرتکب ابلیس ہے۔
٣٤۔٣ یعنی اللہ تعالٰی کے علم و تقدیر میں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے آگے سجدہ کرو تو وہ سجدے میں گر پڑے مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آکر کافر بن گیا
6 Muhammad Junagarhi
اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجده کرو تو ابلیس کے سوا سب نے سجده کیا۔ اس نے انکار کیا اور تکبر کیا اور وه کافروں میں ہوگیا
7 Muhammad Hussain Najafi
اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کے سامنے سجدہ میں گر جاؤ ابلیس کے سوا سب سجدہ میں گر گئے۔ اس نے انکار و تکبر کیا اور کافروں میں سے ہوگیا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور یاد کرو وہ موقع جب ہم نے ملائکہ سے کہا کہ آدم علیھ السّلام کے لئے سجدہ کرو تو ابلیس کے علاوہ سب نے سجدہ کرلیا. اس نے انکار اور غرور سے کام لیا اور کافرین میں ہوگیا
9 Tafsir Jalalayn
اور جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے آگے سجدہ کرو تو وہ سب سجدے میں گرپڑے مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آ کر کافر بن گیا
آیت نمبر ٣٤ تا ٣٩
ترجمہ : اور یاد کرو، جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم علیہ الصلاة والسلام کے سامنے تعظیم کے طور پر جھک جائو سب جھک گئے، مگر ابلیس نہ جھکا وہ جنوں کا جداعلیٰ ہے، یعنی سجدہ کرنے سے بازرہا، وہ فرشتوں کے درمیان رہا کرتا تھا، اور سجدہ کرنے سے تکبر کیا اور کہا میں اس سے افضل ہوں اور وہ اللہ کے علم میں منکرین میں سے تھا اور ہم نے کہہ دیا کہ اے آدم تم (انت) ضمیر مستتر کی تاکید کے لئے ہے، تاکہ اس پر عطف کیا جاسکے اور تمہاری بیوی، حوآء مد کے ساتھ اور اس کی تخلیق آدم علیہ الصلاة والسلام کی بائیں پسلی، جنت میں رہو، اور تم دونوں جو چاہو بافراغت کھائو، یہاں کوئی پابندی نہیں، لیکن کھانے کے ارادہ سے تم دونوں اس درخت کے نزدیک (بھی) مت جانا، وہ گندم کا درخت تھا، یا انگورو وغیرہ کا، ورنہ تو نافرمانوں میں شمار ہوگے، لیکن شیطان ابلیس نے اس درخت کی وجہ سے دونوں کو لغزش دیدی اور ایک قراءت میں فَا زَالَھُمَا ہے یعنی ان دونوں کو جنت سے بر طرف کرادیا، اس طریقہ سے کہ ابلیس نے ان دونوں سے کہا کیا میں تم کو (شجرةالخلد) یعنی ہمیشگی کا درخت بتادوں ؟ اور اللہ کی قسم کھاکران سے کہا کہ وہ ان دونوں کی خیرخواہ ہے چناچہ دونوں نے اس درخت سے کچھ کھالیا، سو نکال دیا دونوں کو اس عیش سے جس میں وہ تھے اور ہم نے ان سے کہہ دیا تم نیچے زمین پر اتر جائو یعنی تم دونوں مع اس ذریت کے جو تمہارے اندر موجود ہے، تمہاری ذریّت بعض بعض کی دشمن ہوگی، بعض کے بعض پر ظلم کرنے کی وجہ سے اور تمہارے لئے زمین میں ٹھکا نہ ہے اور اس کی پیداوار سے ایک وقت تک نفع اٹھانا ہے یعنی تمہاری مدت عمر ختم ہونے تک آدم علیہ الصلاة والسلام نے اپنے سب سے چند کلمات سیکھ لئے، جو اس نے آدم علیہ الصلاة والسلام کو الہام فرمائے اور ایک قراءت میں ادَمَ کے نصب اور کلمات کے رفع کے ساتھ ہے یعنی وہ کلمات آدم کو حاصل ہوئے اور وہ کلمات :\&\& رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا \&\& (الآیة) ہیں چناچہ حضرت آدم علیہ الصلاة والسلام نے ان کلمات جے ذریعہ دعاء فرمائی اور اللہ نے ان کی توبہ قبول فرمائی نے شک وہ اپنے بندوں کی توبہ کو قبول کرنے والا اور ان پر رحم کرنے والا ہے اور ہم نے ان سے کہا تم جنت سے چلے جائو، اس جملہ کو مکرر ذکر فرمایا تاکہ اس پر عطف کیا جاسکے، جب کبھی تمہارے پاس میری ہدایت کتاب اور رسول پہنچے، اِمّا، میں ان شرطیہ کے نون کا، مازائدہ میں ادغام ہے، تو جس نے میری ہدایت کی تابعداری کی کہ مجھ پر ایمان لایا اور میری طاعت پر عمل کیا، تو ان پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ آخرت میں رنجیدہ ہوں گے اس لئے کہ وہ جنت میں ہوں گے اور جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں، کتابوں کی تکذیب کی وہ جہتمی ہیں اور وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے نہ فناہوں گے اور نہ (اس سے) نکلیں گے۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : اُذکر، مفسر علام نے حسب عادت، اُذکر، فعل مقدر مان کر اشارہ کردیا کہ، اِذْقُلْنَا الخ، فعل محذوف کا ظرف ہے
قولہ : بالْاِنْحِنَآئِ ، سجدہ کی تفسیر انحناء سے کرکے اشارہ کردیا کہ یہاں سجدہ کے لغوی معنی مراد ہیں، اور وہ جھکنا ہے قال ابو عمرو سحد اذا طأطأ راسہ، جیسا کہ حضرت یوسف علیہ الصلوٰة والسلام کے واقعہ میں سجدہ سے لغوی معنی مراد ہیں، جھک کر تعظیم کرنا امم سابقہ میں جائز تھا اس امت میں جائز نہیں ہے، اور اگر سجدہ کے معنی وضع الجبھة علی الارض مراد ہوں تو لِاٰدَمَ ، میں لام بمعنی اِلٰی ہوگا یعنی سجدہ تو اللہ ہی کو مراد ہے، مگر رخ آدم علیہ الصلوٰة والسلام کی طرف کرکے جیسا کہ بیت اللہ کی طرف رخ کر کے اللہ کو سجدہ کیا جاتا ہے، مگر یہ قول ضعیف ہے۔
قولہ : تَحِیَّة، یہ حَیِیَ یَحیٰ (س) کا مصدر ہے، اس کے مععنی ہیں حَیَّا اللّٰہ کہنا، سلام کرنا۔
قولہ : ابلیس، اس کے مشتق اور غیر مشتق ہونے میں اختلاف ہے صحیح یہ ہے کہ یہ عجمی لفظ ہے اور عجمہ اور علم ہونے کی وجہ سے غیر منصرف ہے اور اگر ابلاس بمعنی مایوسی سے مشتق ہوتا تو منصرف ہوتا۔
قولہ : ھو ابو الجن، اس عبارت کے مقصد اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اِلاَّ ابلیس مستثنیٰ منقطع ہے یعنی ابلیس فرشتوں کی جنس سے نہیں تھا، بلکہ صرف ان کے درمیان بودوباش رکھتا تھا، تغلیباً فرشتوں میں شامل کرلیا گیا، مفسر علام نے \&\& وَکَانَ بَیْنَ الملائکةِ \&\& سے اسی طرف اشارہ کیا ہے۔
قولہ : تکبرَّ ، استکبر کی تفسیر تکبَّرَ سے کرکے اشارہ کردیا کہ سین زائدہ مبالغہ کے لئے ہے۔
قولہ : وَاسْتَکبرَ کا عطف اَبٰی پر عطف علت علی المعلول کے قبیل سے ہے یعنی استکبر علت ہے اور اَبٰی معلول
سوال : علت معلول پر مقدم ہوا کرتی ہے نہ عکس۔
جواب : معلول چونکہ ظاہر اور محسوس ہے اور علت یعنی تکبر، معنوی اور غیر محسوس شئی ہے اس لئے محسوس کو غیر محسوس پر مقدم کردیا۔
سوال : کان من الکافرین، سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ : ابلیس پہلے ہی کافر تھا، تو پھر وہ جنت میں کس طرح داخل ہوا ؟ اس کے دو جواب ہیں۔ اول جواب یہ کہ اس وقت کافر نہیں تھا۔ مگر اللہ کے علم ازلی کے اعتبار سے کافر تھا، دوسرا جواب کان بمعنی صار ہے، یعنی کافر ہوگیا۔ قولہ : بالاکل، مفسر علام نے اس کلمہ کے اضافہ سے اشارہ کردیا کہ لاتَقْرَبا میں قرب مکانی سے نہی مقصود نہیں ہے بلکہ نہ کھانے کی تاکید میں مبالغہ مقصود ہے، جیسے : اللہ تعالیٰ کا قول : \&\& وَلاَ تَقْرَبُوا الزِّنَا \&\& الخ میں۔
قولہ : اَذْھَبَہُمَا واَزَالُہمَا، ان دونوں کلموں کے اضافہ کا مقصد اَزَلَہُمَا، کے دو معنی کا بیان ہے، ایک معنی لغزش دینا اور دوسرے معنی نکلوا دینا، برطف کرا دینا۔
قولہ : کَرَّرَہ لیُعْطَفَ علیہ، اس اضافہ کا مقصد ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔
سوال کی تمہید : قُلْنَا اھْبِطُوْا مِنْھَا، کو مکرر ذکر کیا گیا ہے اس تکرار میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اول اِھبَاط اس بات پر دلالت کرنے کے لئے ہے کہ یہ ہبوط دار المحن (دنیا) کی طرف ہے، جس میں معیشت کے لئے تگ و دو کدو کاوش کرنی ہوگی اور آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے اور یہ ہبوط ایک محدود وقت تک کے لئے ہوگا اور دوسرے ہبوط میں اس طرف اشارہ ہے کہ اس عارضی قیام کے دوران وہ تکالیف شرعیہ کے بھی مکلف ہوں گے اس سے معلوم ہوا کہ دو مرتبہ ہبوط کہنے کا مقصد الگ الگ ہے۔
سوال : دونوں مقصدوں کو ایک ہی ہبوط شے متعلق کیوں نہیں کیا ؟
جواب : ایسا کرسکتے تھے، مگر درمیان \&\& فَتَلَقّٰیَ آدَمُ مِنْ رَََََّبِّہ \&\& جملہ معترضہ آگیا، اس لئے ہبوط کو مکررلائے تاکہ ثانی مقصد ثانی کے ساتھ اور اول مقصد اول کے ساتھ متصل ہوئے، اس مقصد کی طرف اشارہ کرنے کے لئے مفسر علام نے \&\& لیُعْطَفْ علیہ \&\& کا اضافہ فرمایا یہاں عطف سے مراد اصطلاحی عطف نہیں ہے بلکہ اتصال مراد ہے۔
قولہ : فاِمَّا، فاء ترتیب مابعد علی ماقبل کے لئے ہے، فَاِمَّا یَأْ تِیَنَّکُمْ ، اِمَّا اصل میں اِنْ مَا تھا، اِن شرطیہ اور مَازائدہ ہے، فَمَنْ ثَبِعَ ھْدَایَ فَلَا خَوْف عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ ، جملہ شرطیہ جزائیہ ہو کر ان شرطیہ کا جواب واقع ہے۔
تفسیر وتشریح
ر بط آیات : وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلآ ئِکَةِ اسْجُدُوْا لآدَمَ ، گزشتہ آیات میں علمی حیثیت سے آدم علیہ الصلوٰة والسلام کی فضیلت فرشتوں اور جنوں پر ثابت ہوچکی، اب اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ عملی طور پر بھی آدم علیہ الصلوٰة والسلام کی فضیلت ثابت کرنے کے لئے فرشتوں اور جنوں سے آدم علیہ الصلوٰة والسلام کی خاص قسم کی تعظیم کرائی جائے، جس سے یہ ثابت ہو کہ آدم دونوں حیثیت سے کامل و مکمل ہے، اس کے لئے جو عمل تعظیمی تجویز کیا گیا اس کے حکایت کرتے ہوئے فرمایا : \&\& اِذْقُلْنَا لِلْمَلآئِکَةِ اسْجُدُوْا لِآدَمَ \&\& یعنی ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم علیہ الصلوٰة والسلام کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کو سجدہ سے تعبیر کیا گیا ہے، سب فرشتوں نے حضرت آدم (علیہ السلام) کے سامنے سرتسلیم خم کردیا، مگر ابلیس نے انکار کردیا اس کا یہ انکار کسی غلط فہمی یا اشتباہ کی بناء پر نہیں تھا، بلکہ خالص غرور و نخوت اور پندار و تفوق کی بنا پر تھا۔
کیا سجدہ کا حکم جنات کو بھی تھا ؟ آیت میں اگرچہ فرشتوں کو حکم کی صراحت ہے مگر آگے استثناء سے معلوم ہوتا ہے کہ حکم جنات کو بھی تھا، فرشتوں کے ذکر پر اس لئے اکتفاء کیا گیا ہے کہ فرشتے سب سے افضل و اشرف تھے، جب افضل کو سجدہ کو حکم دیا گیا تو مفضول اس میں بطریق اولیٰ شامل ہوں گے۔
سجدہ تعظیمی پہلی امتوں میں : امام جصاص (رح) تعالیٰ نے احکام القرآن میں تحریر فرمایا کہ انبیاء سابقین کی شریعت میں بڑوں کی تعظیم اور تحیہ کے لئے سجدہ مباح تھا، شریعت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں منسوخ ہوگیا اور بڑوں کی تعظیم کے لئے صرف سلام، مصافحہ کی اجازت دی گئی۔
توضیح : توضیح اس کی یہ ہے کہ اصل کفر و شرک اور غیر اللہ کی عبادت تو اصول ایمان کے خلاف ہے وہ کبھی کسی شریعت میں جائز نہیں ہوسکتی۔ لیکن کچھ اعمال و افعال ایسے ہیں جو اپنی ذات میں شرک و کفر نہیں، مگر لوگوں کی جہالت اور غفلت سے وہ افعال ذریعہ، کفر و شرک بن سکتے ہیں ایسے افعال کو انبیاء سابقین کی شریعت میں مطلقاً منع نہیں کیا گیا بلکہ ان کو ذریعہ شرک بنانے سے روکا گیا جیسے : جانداروں کی تصویر بنانا گو اپنی ذات میں کفر و شرک نہیں اس لئے گزشتہ شریعتوں میں جائز تھا، حضرت سلیمان علیہ الصلوٰة والسلام کے قصہ میں مذکور ہے : \&\& یَعْمَلُوْنَ لَہ مَا یَشَآئُ مِنْ مَّحَارِیْبَ وَتَمَاثِیْلَ ، یعنی جنات ان کے لئے بڑی محرابیں اور تصویریں بنایا کرتے تھے، اسی طرح سجدہ تعظیمی گذشتہ شریعتوں میں جائز تھا، لیکن آخر لوگوں کی جہالت سے یہی چیزیں کفر و شرک اور بت پرستی کا ذریعہ بن گئیں۔
اہم بات : سب سے بڑی اور اہم بات یہ ہے کہ فرشتوں کے آدم کو سجدہ کرنے کا معاملہ عالم ارواح کا ہے نہ کہ عالم ناسوت کا اور تکلیفات شریعت کا تعلق عالم ناسوت سے ہے، عالم ارواح میں امتثال امر ہی عبادت ہے۔
سجدہ تعظیمی کی ممانعت : شریعت محمدیہ میں سجدہ تعظیمی کی ممانعت احادیث متواترہ سے ثابت ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر میں اللہ کے لئے سجدہ تعظیمی جائز قرار دیتا تو بیوی کو حکم دیتا کہ شوہر کو سجدہ کیا کرے۔
یہ حدیث بیس صحابہ (رض) کی روایت سے ثابت ہے اصول حدیث کی معروف کتاب تدریب الراوی میں ہے کہ جس روایت کے دس صحابہ کرام (رض) راوی ہوں تو وہ حدیث متواتر ہوجاتی ہے جو قرآن کی طرح قطعی ہے، یہاں تو یہ حدیث بیس صحابہ کرام (رض) سے منقول ہے۔ (معارف)
ابلیس کا کفر محض عملی نافرمانی کا نتیجہ نہیں، کیونکہ کسی فرض کا عملاً ترک کردینا اصول شریعت میں فسق و گناہ ہے کفر نہیں ابلیس کے کفر کا اصل سبب حکم ربانی سے معارضہ اور مقابلہ ہے، کہ آپ نے جس کو سجدہ کرنے کا مجھے حکم دیا ہے وہ اس قابل نہیں کہ میں اس کو سجدہ کروں یہ معارضہ بلاشبہ کفر ہے۔
وَکَانَ مِنَ الْکَافِرِیْنَ : اِسْتَکْبَرَ ، باب استفعال سے ہے جس سے بعض حضرات نے یہ نکتہ اخذ کیا ہے کہ ابلیس میں یہ کبر فطری اور خلقی نہیں تھا، بلکہ اس نے خود پیدا کیا، وَکَانَ السین والتاء لِلْاِشعار بِاَنْ الکِبر لیس مِنْ طبعہ ولکنَّہ مستعد لَہ۔ (المنار)
کَانَ مِنَ الْکَافِرِیْنَ ، یعنی اس نافرمانی نے اسے کافروں میں داخل کردیا، یہ معنی نہیں کہ وہ پہلے سے کافروں میں تھا، کان بمعنی صار بکثرت مستعمل ہے، جیسا کہ صاحب تفسیر مدارک، بیضاوی، معالم، روح المعانی، نے کان بمعنی صار لیا ہے، اور جن حضرات نے کَانَ بمعنی کَانَ ہی لیا ہے، انہوں نے فی علم اللہ، کو محذوف مانا ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
پھر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آدم علیہ السلام کے اکرام و تعظیم اور اللہ تعالیٰ کی عبودیت کے اظہار کے لئے آدم علیہ السلام کے سامنے سجدہ ریز ہوں۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت کی اور تمام فرشتے اسی وقت سجدے میں گر گئے ﴿ إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَىٰ﴾سوائے ابلیس کے، اس نے سجدہ کرنے سے انکار کردیا۔ اس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے تکبر کا اظہار کیا اور آدم علیہ السلام سے اپنے آپ کو بڑا سمجھا۔ اس نے تکبر سے کہا : ﴿ أَأَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِينًا﴾(بنی اسرائیل :61؍17)” کیا میں ایسے شخص کو سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے تخلیق کیا ہے۔“ یہ انکار اور استکبار اس کے اس کفر کا نتیجہ تھا جو اس کی سرشت میں پوشیدہ تھا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ اور آدم علیہ السلام سے اس کی عداوت ظاہر ہوگئی اور اس کا کفر و استکبار عیاں ہوگیا۔ ان آیات کریمہ سے کچھ نصیحتیں اور کچھ نکات ماخوذ ہوتے ہیں۔
(1) اللہ تعالیٰ کے لئے کلام کا اثبات، وہ ہمیشہ سے کلام کرتا رہا ہے، وہ جو چاہتا ہے کہتا ہے، وہ جو چاہتا ہے کلام کرتا ہے، وہ علم والا اور حکمت والا ہے۔
(2) بندے پر جب بعض مخلوقات اور مامورات میں پوشیدہ اللہ تعالیٰ کی حکمت مخفی رہ جائے تو اس پر سر تسلیم خم کرنا، اپنی عقل کو ناقص ٹھہرانا اور اللہ تعالیٰ کی حکمت کا اقرار کرنا واجب ہے۔
(3) ان آیات سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے معاملے کو اہمیت دی، ان پر احسان عظیم فرمایا، جس چیز کے بارے میں وہ جاہل تھے اس کی انہیں تعلیم دی اور جس کا انہیں علم نہ تھا اس پر انہیں متنبہ فرمایا۔ ان آیات میں مندرجہ ذیل وجوہ سے علم کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔
(الف) اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں کو اپنے علم و حکمت کی معرفت عطا کی۔
(ب) اللہ تعالیٰ نے ان کو اس حقیقت سے واقف کرایا کہ آدم علیہ السلام کو بربنائے علم فضیلت حاصل ہے اور علم بندے کی افضل ترین صفت ہے۔
(ج) جب آدم علیہ السلام کے علم کی فضیلت واضح اور عیاں ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آدم علیہ السلام کے اکرام و تکریم کے لئے اسے سجدہ کریں۔
(د) کسی اور کو کسی امتحان کے ذریعے سے آزمانا جبکہ اس امتحان میں کچھ لوگ پورے نہ اترے ہوں، پھر امتحان میں پورا اترنے والے صاحب فضیلت سے یہ امتحان لے تو یہ اس شخص سے زیادہ کامل ہے جس سے ابتدا میں امتحان لیا گیا تھا۔
(ھ) جن و انس کے والدین کے احوال سے عبرت پذیری، آدم علیہ السلام کی فضیلت، اس پر اللہ تعالیٰ کے احسانات اور آدم کے ساتھ ابلیس کی عداوت کا اظہار اور اس جیسی دیگر عبرتیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur ( uss waqt ka tazkarah suno ) jab hum ney farishton say kaha kay : Adam ko sajda kero , chunacheh sabb ney sajda kiya , siwaye iblees kay kay uss ney inkar kiya , aur mutakabbirana ravaiyya ikhtiyar kiya aur kafiron mein shamil hogaya
12 Tafsir Ibn Kathir
حضرت آدم (علیہ السلام) پر اللہ تعالیٰ کے احسانات
حضرت آدم (علیہ السلام) کی اس بہت بڑی بزرگی کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ نے انسانوں پر اپنا بہت بڑا احسان فرمایا اور خبر دی کہ اس نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ حضرت آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کریں۔ اس کی تصدیق میں بہت سی حدیثیں ہیں ایک تو حدیث شفاعت جو ابھی بیان ہوئی۔ دوسری حدیث میں ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ میری ملاقات حضرت آدم (علیہ السلام) سے کرا دیجئے جو خود بھی جنت سے نکلے اور ہم سب کو بھی نکالا۔ جب دونوں پیغمبر جمع ہوئے تو موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ تم وہ آدم ہو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور اپنی روح تم میں بھی پھونکی اور اپنے فرشتوں سے تمہیں سجدہ کرایا (آخر تک) پوری حدیث عنقریب بیان ہوگی انشاء اللہ تعالیٰ ۔ ابن عباس فرماتے ہیں ابلیس فرشتوں کے ایک قبیلہ میں سے تھا جنہیں جن کہتے تھے جو آگ کے شعلوں سے پیدا ہوئے تھے۔ اس کا نام حارث تھا اور جنت کا خازن تھا۔ اس قبیلے کے سوا اور فرشتے سب کے سب نوری تھے۔ قرآن نے بھی ان جنوں کی پیدائش کا ذکر کیا ہے اور فرمایا ہے آیت (وَخَلَقَ الْجَاۗنَّ مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍ ) 55 ۔ الرحمن :15) آگ کے شعلے کی جو تیزی سے بلند ہوتے ہیں اسے مارج کہتے ہیں جس سے جن پیدا کئے گئے تھے اور انسان مٹی سے پیدا کیا گیا۔ زمین میں پہلے جن بستے تھے۔ انہوں نے فساد اور خون ریزی شروع کی تو اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو فرشتوں کا لشکر دے کر بھیجا انہی کو " جن " کہا جاتا تھا۔ ابلیس نے لڑ بھڑ کر مارتے اور قتل کرتے ہوئے انہیں سمندر کے جزیروں اور پہاڑوں کے دامنوں میں پہنچا دیا اور ابلیس کے دل میں یہ تکبر سما گیا کہ میں نے وہ کام کیا ہے جو کسی اور سے نہ ہوسکا۔ چونکہ دل کی اس بدی اور اس پوشیدہ خودی کا علم صرف اللہ تعالیٰ ہی کو تھا۔ جب پروردگار نے فرمایا کہ زمین میں خلیفہ پیدا کرنا چاہتا ہوں تو ان فرشتوں نے عرض کیا کہ ایسے کو کیوں پیدا کرتا ہے جو اگلی قوم کی طرح فساد و خونریزی کریں تو انہیں جواب دیا گیا کہ میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے یعنی ابلیس کے دل میں جو کبرو غرور ہے اس کا مجھی کو علم ہے تمہیں خبر نہیں پھر آدم (علیہ السلام) کی مٹی اٹھائی گئی جو چکنی اور اچھی تھی۔ جب اس کا خمیر اٹھا تب اس سے حضرت آدم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور چالیس دن تک وہ یونہی پتلے کی شکل میں رہے ابلیس آتا تھا اور اس پر لاتا مار کر دیکھتا تھا تو وہ بجتی مٹی ہوتی جیسے کوئی کھوکھلی چیز ہو پھر منہ کے سوراخ سے گھس کر پیچھے کے سوراخ سے اور اس کے خلاف آتا جاتا رہا اور کہتا رہا کہ درحقیقت یہ کوئی چیز نہیں اور اگر میں اس پر مسلط کیا گیا تو اسے برباد کر کے چھوڑ دوں گا اور اسے مجھ پر مسلط کیا گیا تو اسے برباد کر کے چھوڑ دوں گا اور اسے مجھ پر مسلط کیا گیا تو میں ہرگز تسلیم نہ کروں گا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے ان میں روح پھونکی اور وہ سر کی طرف سے نیچے کی طرف آئی تو جہاں جہاں تک پہنچتی گئی خون گوشت بنتا گیا۔ جب ناف تک روح پہنچی تو اپنے جسم کو دیکھ کر خوش ہوئے اور فوراً اٹھنا چاہا لیکن نیچے کے دھڑ میں روح نہیں پہنچتی تھی اس لئے اٹھ نہ سکے اسی جلدی کا بیان اس آیت میں ہے آیت (وَكَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا) 17 ۔ الاسرآء :11) یعنی انسان بےصبرا اور جلد باز ہے نہ تو خوشی نہ رنج میں۔ جب روح جسم میں پہنچی اور چھینک آئی تو کہا آیت (الحمد للہ رب العلمین) اللہ تعالیٰ نے جواب دیا دعا (یرحمک اللہ) پھر صرف ابلیس کے ساتھی فرشتوں سے فرمایا کہ آدم کے سامنے سجدہ کرو تو ان سب نے سجدہ کیا لیکن ابلیس کا وہ غرور وتکبر ظاہر ہوگیا اس نے نہ مانا اور سجدے سے انکار کردیا اور کہنے لگا میں اس سے بہتر ہوں اس سے بڑی عمر والا ہوں۔ اور اس سے قوی اور مضبوط ہوں۔ یہ مٹی سے پیدا کیا گیا ہے اور میں آگ سے بنا ہوں اور آگ مٹی سے قوی ہے۔ اس کے انکار پر اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی رحمت سے ناامید کردیا اور اسی لئے اسے ابلیس کہا جاتا ہے۔ اس کی نافرمانی کی سزا میں اسے راندہ درگاہ شیطان بنادیا پھر حضرت آدم (علیہ السلام) کو انسان جانور زمین سمندر پہاڑ وغیرہ کے نام بتا کر ان کو ان فرشتوں کے سامنے پیش کیا جو ابلیس کے ساتھی تھے اور آگ سے پیدا شدہ تھے اور ان سے فرمایا کہ اگر تم اس بات میں سچے ہو کہ میں زمین میں اسے خلیفہ نہ بناؤں تو ذرا مجھے ان چیزوں کے نام تو بتادو۔ جب ان فرشتوں نے دیکھا کہ ہماری اگلی بات سے الہ العالمین ناراض ہے تو وہ کہنے لگے کہ اللہ عزوجل تو اس بات سے پاک ہے کہ تیرے سوا کوئی اور غیب کو جانے ہماری توبہ ہے اور اقرار ہے کہ ہم غیب داں نہیں۔ ہم تو صرف وہی جان سکتے ہیں جس کا علم تو ہمیں دے دے۔ جیسے تو نے ان کے نام صرف حضرت آدم (علیہ السلام) کو ہی سکھائے ہیں۔ اب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) سے فرمایا کہ تم انہیں ان تمام چیزوں کے نام بتادو چناچہ انہوں نے بتا دئیے تو فرمایا اے فرشتو ! کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ آسمان و زمین کے غیب کا جاننے والا صرف میں اکیلا ہی ہوں اور کوئی نہیں۔ میں ہر پوشیدہ چیز کو بھی ویسا ہی جانتا ہوں جیسے ظاہر کو اور تم سب اس سے بیخبر ہو لیکن یہ قول بھی غریب ہے اور اس میں بہت سی باتیں ایسی ہیں جن میں خامیاں ہیں ہم اگر انہیں الگ الگ بیان کریں تو مضمون بہت بڑھ جائے گا اور ابن عباس تک اس اثر کی سند بھی وہی ہے جس سے ان کی مشہور تفسیر مروی ہے۔ ایک اور حدیث میں بھی اسی طرح مروی ہے جس کے متن میں کچھ کمی زیادتی بھی ہے اور اس میں یہ بھی ہے کہ زمین کی مٹی لینے کے لئے جب حضرت جبرائیل گئے تو زمین نے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتی ہوں کہ تو مجھ میں سے کچھ گھٹائے وہ واپس چلے گئے پھر ملک الموت کو بھیجا۔ زمین نے ان سے بھی یہی کہا لیکن انہوں نے جواب دیا کہ میں بھی اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آتا ہوں کہ میں اللہ کا حکم پورا کئے بغیر واپس چلا جاؤں چناچہ انہوں نے تمام روئے زمین سے ایک ایک مٹھی مٹی لی۔ چونکہ مٹی کا رنگ کہیں سرخ تھا کہیں سفید کہیں سیاہ اسی وجہ سے انسانوں کی رنگتیں بھی طرح طرح کی ہوئیں لیکن یہ روایت بھی بنو اسرائیل کی روایات سے ماخوذ ہے غالباً اس میں بہت سی باتیں نیچے کے لوگوں کی ملائی گئی ہیں۔ صحابی کا بیان ہی نہیں اگر صحابی کا قول بھی ہو تو بھی انہوں نے بعض اگلی کتابوں سے لیا ہوگا واللہ اعلم۔
تعارف ابلیس
حاکم اپنی مستدرک میں بہت سی ایسی روایتیں لائے ہیں اور ان کی سند کو بخاری سے مشروط کیا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ تم حضرت آدم کو سجدہ کرو تو اس خطاب میں ابلیس بھی داخل تھا اس لئے کہ گو وہ ان میں سے نہ تھا لیکن ان ہی جیسا اور ان ہی جیسے کام کرنے والا تھا اس لئے اس خطاب میں داخل تھا اور پھر نافرمانی کی سزا بھگتی۔ اس کی تفصیل انشاء اللہ تعالیٰ آیت (کان من الجن) کی تفسیر میں آئے گی۔ ابن عباس کہتے ہیں نافرمانی سے پہلے وہ فرشتوں میں تھا۔ عزازیل اس کا نام تھا زمین پر اس کی رہائش تھی اجتہاد اور علم میں بہت بڑا تھا اور اسی وجہ سے دماغ میں رعونت تھی اور اس کی جماعت کا اور اس کا تعلق جنوں سے تھا۔ اس کے چار پر تھے۔ جنت کا خازن تھا زمین اور آسمان دونوں کا سلطان تھا۔ حضرت حسن فرماتے ہیں۔ ابلیس کبھی فرشتہ نہ تھا اس کی اصل جنات سے ہے جیسے کہ آدم کی اصل انس سے ہے اس کی اسناد صحیح ہے۔ عبدالرحمن بن زید بن اسلم اور شہر بن حوشب کا بھی یہی قول ہے۔ سعد بن مسعود کہتے ہیں کہ فرشتوں نے جنات کو جب مارا تب اسے قید کیا تھا اور آسمان پر لے گئے تھے وہاں کی عبادت کی وجہ سے رہ پڑا۔ ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ پہلے ایک مخلوق کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا انہیں حضرت آدم کو سجدہ کرنے کو کہا۔ انہوں نے انکار کیا جس پر وہ جلا دئیے گئے پھر دوسری مخلوق پیدا کی ان کا بھی یہی حشر ہوا پھر تیسری مخلوق پیدا کی انہوں نے تعمیل ارشاد کی لیکن یہ اثر بھی غریب ہے اور اس کی اسناد بھی تقریباً غیر صحیح ہے۔ اس میں ایک راوی مبہم ہے اس وجہ سے یہ روایت قابل حجت نہیں کافرین سے مراد نافرمان ہے۔ ابلیس کی ابتداء آفرینش ہی کفر و ضلالت پر تھی کچھ دن ٹھیک ٹھاک رہا لیکن پھر اپنی اصلیت پر آگیا۔ سجدہ کرنے کا حکم بجا لانا اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور آدم (علیہ السلام) کا اکرام تھا۔ بعض لوگوں کا قول ہے کہ یہ سجدہ سلام اور عزت و اکرام کا تھا جیسے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں فرمان ہے۔ کہ انہوں نے اپنے ماں باپ کو تخت پر بٹھا لیا اور سب کے سب سجدہ میں گرپڑے اور حضرت یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا ابا یہی میرے اس خواب کی تعبیر ہے جسے میرے رب نے سچا کر دکھایا۔ اگلی امتوں میں سجدہ تعظیم جائز تھا لیکن ہمارے دین میں یہ منسوخ ہوگیا۔ حضرت معاذ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے شامیوں کو اپنے سرداروں اور علماء کے سامنے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا تھا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے گزارش کی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اس کے زیادہ حقدار ہیں کہ آپ کو سجدہ کیا جائے تو آپ نے فرمایا کہ اگر میں کسی انسان کو کسی انسان کے سامنے سجدہ کرنے کی اجازت دینے والا ہوتا تو عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوندوں کو سجدہ کریں کیونکہ ان کا ان پر بہت بڑا حق ہے۔ امام رازی نے اسی کو ترجیح دی ہے بعض کہتے ہیں کہ سجدہ اللہ تعالیٰ ہی کے لئے تھا۔ حضرت آدم بطور قبلہ (یعنی سمت) کے تھے جیسے قرآن کریم میں ہے آیت (اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِدُلُوْكِ الشَّمْسِ اِلٰى غَسَقِ الَّيْلِ وَقُرْاٰنَ الْفَجْرِ ) 17 ۔ الاسرآء :78) لیکن اس میں بھی اختلاف ہے اور پہلے ہی قول کا زیادہ صحیح ہونا اچھا معلوم ہوتا ہے۔ یہ سجدہ حضرت آدم کے اکرام بڑائی احترام اور سلام کے طور پر تھا اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ماتحت تھا کیونکہ اس کا حکم تھا جس کی بجا آوری ضروری تھی۔ امام رازی نے بھی اسی قول کو قوی قرار دیا ہے اور اس کے سوا دوسرے اقوال کو ضعیف قرار دیا ہے ایک تو حضرت آدم (علیہ السلام) کا بطور قبلہ کے ہونا جس میں کوئی بڑا شرف ظاہر نہیں ہوتا۔ دوسرے سجدے سے مراد پست عاجز ہونا نہ کہ زمین میں ماتھا ٹکا کر حقیقی سجدہ کرنا لیکن یہ دونوں تاویلیں ضعیف ہیں۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں سب سے پہلا گناہ یہی تکبر ہے جو ابلیس سے سرزد ہوا۔ صحیح حدیث میں ہے جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔ اسی تکبر کفر وعناد کی وجہ سے ابلیس کے گلے میں طوق لعنت پڑا اور رحمت سے مایوس ہو کر جناب باری سے دھتکارا گیا۔ یہاں " کان صار " کے معنی میں بتلایا گیا ہے جیسے کہ آیت (فَكَانَ مِنَ الْمُغْرَقِيْنَ ) 11 ۔ ہود :43) اور آیت (فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِيْنَ ) 7 ۔ الاعراف :19) شاعروں کے شعروں میں بھی اس کا ثبوت ہے تو معنی یہ ہوئے کہ وہ کافر ہوگیا ابن فورک کہتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے علم میں کافروں میں سے تھا۔ قرطبی اسی کو ترجیح دیتے ہیں اور یہاں ایک مسئلہ بیان فرماتے ہیں کہ کسی شخص کے ہاتھ سے کچھ کرامتیں سرزد ہوجانا اس کے ولی اللہ ہونے کی دلیل نہیں گو بعض صوفی اور رافضی اس کے خلاف بھی کہتے ہیں کہ اس لئے کہ ہم اس بات کا کسی کے لئے فیصلہ نہیں کرسکتے کہ وہ ایمان ہی کی حالت میں اللہ سے جا ملے گا اسی شیطان کو دیکھئے ولی ہی نہیں بلکہ فرشتہ بنا ہوا تھا لیکن آخر سردار کفر و کفار ہوگیا۔ علاوہ ازیں ایسی خلاف عادت و عقل باتیں جو بظاہر کرامات نظر آتی ہیں اولیاء اللہ کے سوا اور لوگوں کے ہاتھوں سے بھی سرزد ہوتی ہیں بلکہ فاسق فاجر مشرک کافر سے بھی ظاہر ہوجاتی ہیں۔ مثلاً رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آیت (فَارْتَـقِبْ يَوْمَ تَاْتِي السَّمَاۗءُ بِدُخَانٍ مُّبِيْنٍ ) 44 ۔ الدخان :10) کی آیت دل میں سوچ کر جب ابن صیاد کافر سے پوچھا کہ میں نے کیا سوچا ہے تو اس نے کہا تھا دخ۔ بعض روایات میں ہے کہ غصہ کے وقت وہ اتنا پھول جاتا کہ اس کے جسم سے تمام راستہ رک جاتا تھا۔ حضرت عبداللہ بن عمرنے اسے مارا۔ دجال کی تو ایسی بہت سی باتیں احادیث میں وارد ہیں مثلاً اس کا آسمان سے بارش برسانا زمین سے پیداوار اگانا زمین کے خزانوں کا اس کے پیچھے لگنا ایک نوجوان کو قتل کر کے پھر جلانا وغیرہ وغیرہ۔ حضرت لیث بن سعد اور حضرت امام شافعی (رح) فرماتے ہیں اگر تم کسی کو پانی پر چلتے ہوئے اور ہواؤں میں اڑتے ہوئے دیکھو تو اسے ولی نہ سمجھ بیٹھو جب تک کہ اس کے تمام اعمال و افعال قرآن و حدیث کے مطابق نہ پاؤ۔ اس سجدے کا حکم زمین و آسمان کے تمام فرشتوں کو تھا گو ایک جماعت کا قول یہ بھی ہے کہ صرف زمین کے فرشتوں کو یہ حکم تھا لیکن یہ ٹھیک نہیں قرآن کریم میں ہے آیت (فَسَجَدَ الْمَلٰۗىِٕكَةُ كُلُّهُمْ اَجْمَعُوْنَ 30ۙ اِلَّآ اِبْلِيْسَ ) 15 ۔ الحجر :31-30) یعنی ابلیس کے سوا تمام فرشتوں نے سجدہ کیا پس اول تو جمع کا صیغہ لانا پھر " کلھم " سے تاکید کرنا پھر " اجمعون " کہنا اس کے بعد صرف ابلیس کا استثناء کرنا ان چاروں وجوہات سے صاف ظاہر ہے کہ یہ حکم عام تھا واللہ اعلم۔