البقرہ آية ۴۰
يٰبَنِىْۤ اِسْرَاۤءِيْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِىَ الَّتِىْۤ اَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَاَوْفُوْا بِعَهْدِىْۤ اُوْفِ بِعَهْدِكُمْۚ وَاِيَّاىَ فَارْهَبُوْنِ
طاہر القادری:
اے اولادِ یعقوب! میرے وہ انعام یاد کرو جو میں نے تم پر کئے اور تم میرے (ساتھ کیا ہوا) وعدہ پورا کرو میں تمہارے (ساتھ کیا ہوا) وعدہ پورا کروں گا، اور مجھ ہی سے ڈرا کرو،
English Sahih:
O Children of Israel, remember My favor which I have bestowed upon you and fulfill My covenant [upon you] that I will fulfill your covenant [from Me], and be afraid of [only] Me.
1 Abul A'ala Maududi
اے بنی اسرائیل! ذرا خیال کرو میری اس نعمت کا جو میں نے تم کو عطا کی تھی، میرے ساتھ تمھارا جو عہد تھا اُسے تم پورا کرو، تو میرا جو عہد تمہارے ساتھ تھا اُسے میں پورا کروں گا اور مجھ ہی سے تم ڈرو
2 Ahmed Raza Khan
اے یعقوب کی اولاد یاد کرو میرا وہ احسان جو میں نے تم پر کیا اور میرا عہد پورا کرو میں تمہارا عہد پورا کروں گا اور خاص میرا ہی ڈر رکھو -
3 Ahmed Ali
اے بنی اسرائل میرے احسان یاد کرو جو میں نے تم پر کئے اور تم میرا عہد پورا کرو میں تمہارا عہد پورا کروں گا اور مجھ ہی سے ڈرا کرو
4 Ahsanul Bayan
بنی اسرائیل (١) میری اس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم پر انعام کی اور میرے عہد کو پورا کرو میں تمہارے عہد کو پورا کروں گا اور مجھ ہی سے ڈرو۔
٤٠۔١ اِسرا ئِیْلُ(بمنعی عبداللہ) حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب تھا۔ یہود کو بنو اسرائِیْل کہا جاتا تھا یعنی یعقوب علیہ السلام کی اولاد۔ کیونکہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹے تھے جس میں یہود کے بارہ قبیلے بنے اور ان میں بکثرت انبیاء اور رسل تھے۔ یہود کو عرب میں اس کی گزشتہ تاریخ اور علم و مذہب سے وابستگی کی وجہ سے ایک خاص مقام حاصل تھا اس لئے انہیں گزشتہ انعامات الٰہی یاد کرا کے کہا جا رہا ہے کہ تم میرا وہ عہد پورا کرو جو تم سے نبی آخر زمان کی نبوت اور ان پر ایمان لانے کی بابت لیا گیا تھا۔ اگر تم اس عہد کو پورا کرو گے تو میں اپنا عہد پورا کروں گا کہ تم سے وہ بوجھ اتار دئیے جائیں گے اور جو تمہاری غلطیاں اور کوتاہیوں کی وجہ سے بطور سزا پر لادھ دیئے گئے تھے اور تمہیں دوبارہ عروج عطا کیا جائے گا۔ اور مجھ سے ڈرو کہ میں تمہیں مسلسل اس ذلت و ادبار میں مبتلا رکھ سکتا ہوں جس میں تم بھی مبتلا ہو اور تمہارے آبا و اجداد بھی مبتلا رہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اے یعقوب کی اولاد! میرے وہ احسان یاد کرو جو میں نے تم پر کئے تھے اور اس اقرار کو پورا کرو جو تم نے مجھ سے کیا تھا۔ میں اس اقرار کو پورا کروں گا جو میں نے تم سے کیا تھا اور مجھی سے ڈرتے رہو
6 Muhammad Junagarhi
اے بنی اسرائیل! میری اس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم پر انعام کی اور میرے عہد کو پورا کرو میں تمہارے عہد کو پورا کروں گا اور مجھ ہی سے ڈرو
7 Muhammad Hussain Najafi
اے بنی اسرائیل (اولادِ یعقوب) میری وہ نعمت یاد کرو جو میں نے تم کو عطا کی تھی اور تم مجھ سے کئے ہوئے عہد و پیمان کو پورا کرو میں بھی تم سے کئے ہوئے اپنے عہد کو پورا کروں گا اور تم مجھ سے ڈرتے رہو۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اے بنی اسرائیل ہماری نعمتوں کو یاد کرو جو ہم نے تم پر نازل کی ہیں اور ہمارے عہد کو پورا کرو ہم تمہارے عہد کو پورا کریں گے اور ہم سے ڈرتے رہو
9 Tafsir Jalalayn
اے آل یعقوب ! میرے وہ احسان یاد کرو جو میں نے تم پر کئے تھے اور اس اقرار کو پورا کرو جو تم نے مجھ سے کیا تھا میں اس اقرار کو پورا کروں گا جو میں نے تم سے کیا تھا اور مجھی سے ڈرتے رہو
یٰبَنِیْ اِسْرَآئِ یْلَ اذْکُرُوْا ....... الیٰ ..... وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ۔
ترجمہ : اے بنی اسرائیل اولاد یعقوب میری ان نعمتوں کو یاد کرو، جو میں نے تم کو عطا کیں، یعنی تمہارے آباء و اجداد کو مثلاً فرعون سے نجات دینا اور دریا کو پھاڑ دینا اور بادل کو سایہ فگن بنانا، وغیرہ وغیرہ بایں طور کہ میری اطاعت کرکے میری نعمتوں کا شکریہ ادا کرو، اور تم میرے عہد کو پورا کرو، جو میں نے تم سے لیا اور وہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کے متعلق ہے میں تمہارے عہد کو پورا کروں گا، جو میں نے تمہارے ساتھ کیا ہے یعنی ایمان لانے پر جنت میں داخل کرکے ثواب عطا کروں گا، اور مجھ ہی سے ڈرو، یعنی عہد شکنی کرنے میں مجھ سے ڈرو نہ کہ میرے علاوہ کسی اور سے اور اس قرآن پر ایمان لاؤ جو تمہاری کتابوں کی یعنی تورات کی تصدیق کے لئے میں نے نازل کیا ہے، توحید اور نبوت میں اس (قرآن) کے اس (تورات) کے موافق ہونے کی وجہ سے اور تم اہل کتاب میں سے اول منکر نہ بنو، اس لئے کہ تمہارے بعد آنے والے تمہاری اتباع کریں گے تو ان کا گناہ بھی تمہارے اوپر ہوگا اور میری ان آیتوں کو جو تمہاری کتاب میں ہیں مثلاً محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات کو حقیر قیمت کے عوض فروخت نہ کرو، یعنی دنیوی معمولی بضاعت سے تبدیلی نہ کرو، یعنی ان صفات کو اس حقیر معاوضہ کے فوت ہونے کے خوف سے مت چھپاؤ، جس کو تم اپنے کمزور طبقوں سے وصول کرتے ہو، اور مجھ ہی سے ڈرو، یعنی اس معاملہ میں مجھ ہی سے ڈرو، نہ کہ میرے علاوہ کسی اور سے اور حق کو جو میں نے تمہاری طرف نازل کیا ہے، باطل کے ساتھ جس کو تم گھڑتے ہو خلط ملط کرو، اور نہ حق کو چھپاؤ، یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفت کو کہ تمہیں تو خود اس کا علم ہے کہ وہ (رسول) برحق ہیں۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : یٰبنِیْ اِسْرَائِیْلَ ، یعنی اولاد یعقوب، اسرائیل عربی لفظ ہے یا عجمی اس میں اختلاف ہے صحیح یہ ہے کہ عجمی ہے اور یہی وجہ ہے کہ عجمہ اور علم ہونے کی وجہ سے غیر منصرف ہے، اسرائیل مرکب اضافی ہے، اِسرا بمعنی عبد، اِیل بمعنی اللہ، یعنی عبد اللہ یا صفوة اللہ (اللہ کا برگزیدہ) اور اسرائیل حضرت یعقوب بن اسحاق (علیہما السلام) کا لقب ہے۔
قولہ : بان تشکروھا، بطاعتی اس کا تعلق اُذکُرُوْا سے ہے، اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اذکروا نعمتی، سے مراد صرف ذکر شمار ہی نہیں ہے، بلکہ ان نعمتوں کا شکریہ ادا کرنا ہے ورنہ ذکر و شمار تو ہر شخص کرتا ہے حتی کہ کافر و مشرک بھی کرتا ہے۔
قولہ : علیٰ آبائکم، اس اضافہ کا مقصد ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔
سوال : اَنْعَتُ علیکم، کے مخاطب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ کے یہود ہیں اور اَنعمتُ علیکم کی تفسیر میں جن انعامات کو شمار کرایا گیا ہے، ان میں سے ایک بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں موجود یہودیوں پر نہیں ہوا، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ کے یہودیوں کو مخاطب کرکے انعمت علیکم کہنا کیسے درست ہے ؟
جواب : عبارت حذف مضاف کے ساتھ ہے ای انعمتُ علی آبائکم، لہٰذا اب کوئی اشکال نہیں رہا۔
قولہ : اَوْفوا، تم پورا کرو، یہ ایفاء (افعال) سے جمع مذکر امر حاضر ہے۔
قولہ : اُوْفِ ، میں پورا کروں گا۔ ایفاء سے مضارع واحد متکلم ہے۔
قولہ : اَوْفُوْا بِعَھْدِی اُوْفِ بِعَھْدِکُمْ ، تم میرا عہد پورا کرو میں تمہارا عہد پورا کروں گا۔
سوال : اس آیت میں بنی اسرائیل سے اس عہد کے پورا کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے، جو بنی اسرائیل نے نہیں کیا، بلکہ اُوْفوا بِعَھْدِی، سے معلوم ہوتا ہے کہ : عہد اللہ تعالیٰ نے کیا ہے، بنی اسرائیل سے ایفاء عہد کا مطالبہ کرنا، یہ تو غیر فاعل سے ایفاء کا مطالبہ کرنا ہے جو درست نہیں ہے۔
جواب : جو عہد مُعَاہِد، (فاعل) کے فعل پر معلق ہو، تو مفعول یعنی (فریق ثانی) کی جانب سے معلق علیہ کو پورا کرنا وفاء عہد کہلائے گا اور فاعل معاہد (اللہ) کا عہد جنت میں داخل کرنا ہے، جو معلق ہے، بنی اسرائیل کے ایمان لانے پر اور بنی اسرائیل کا ایمان معلق علیہ (شرط) ہے لہٰذا معلق پورا کرنے کے لئے معلق علیہ کے وفاء کا مطالبہ کرنا صحیح ہے : \&\& اِنّ العَھْدَ الْمعلقَ علی فعلِ المعاھدِ یکونُ الوفائُ مِنَ المفعول بالْلِتیان بالمعلق علیہ وَمِنَ الفاعلِ بالاتیان بالمعلق فالمراد بِعَھْدِ اللّٰہِ اِیّاہم بالایمان والعمل الصالح، فیصح طلب الوفاء منھم بالاتیان \&\&۔ (ترویح الاروح)
قولہ : اَلَّذِیْ عَھدتُہ اِلیکم، اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ دونوں جگہ عہد مصدر مضاف الی الفاعل ہے اور ان لوگوں کا رد ہے جو کہتے ہیں اول مضاف الی الفاعل ہے اور ثانی مضاف الی المفعول ہے اور رد کی وجہ یہ ہے کہ : اضافت الی الفاعل اکثر واقع ہے اور راجح ہے، لہٰذا جب تک کوئی صارف موجود نہ ہو، ترک نہیں کیا جائے گا اور یہاں کوئی موجود نہیں ہے۔
قولہ : دونَ غیری، یہ اس حصر کی جانب اشارہ ہے جو اِیَّایَ فَارْھَبُوْنِ میں تقدیم مفعول سے مستفاد ہے۔
قولہ : من اہل الکتاب، اس اضافہ کا مقصد بھی ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔
سوال : یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت مکہ میں ہوئی اور سب سے پہلے نبوت کا دعویٰ بھی آپ نے مکہ میں کیا، جس کا کفار مکہ نے انکار کردیا، تو اس اعتبار سے اول منکرین کفار مکہ ہیں نہ کہ مدینہ کے یہود۔
جواب : یہاں اول منکرین سے مراد اہل کتاب ہیں۔
قولہ : تستبدلوا، تَشْتَرُوا، کی تفسیر، تَسْتَبْدِلُوْا سے کرنے کا مقصد اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ یہاں اشتراء کے حقیقی معنی نہیں ہیں اس لئے کہ یہ باء ثمن پر داخل ہوئی ہے یہاں آیاتی پر داخل ہے، لہٰذا آیاتی ثمن ہوگا اور ثمنا مبیع ہوگی، یعنی آیات دیکر ثمن مت خریدو، اور یہ حقیقة متعذرہ ہے لہٰذا اشتراء سے مجازاً استبدال مراد ہے۔
تفسیر و تشریح
نبی اسرائیل سے خطاب : مشہور نامور پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰة والسلام عراقی ثم شامی ثم حجازی، ٢١٦٠ یا ١٩٨٥ ق م، سے دو نسلیں چلیں ایک بی بی ہاجرہ مصری کے بطن کے فرزند حضرت اسماعیل علیہ الصلوٰة والسلام سے، یہ نسل بنی اسرائیل کہلائی اور آگے چل کر قریش اسی کی ایک شاخ پیدا ہوئی، ان کا وطن عرب رہا، دوسری نسل بی بی سارہ عراقی کے بطن کے فرزند حضرت اسحاق علیہ الصلوٰة والسلام کے بیٹے حضرت یعقوب عرف اسرائیل سے چلی، یہ نسل بنی اسرائیل کہلائی اس کا وطن ملک شام رہا ایک تیسری بیوی حضرت قطورہ سے چلی، وہ بنی قطورہ کہلائی، لیکن اسے تاریخ میں اس درجہ کی اہمیت حاصل نہیں۔
بنی اسرائیل کا عروج صدیوں تک رہا مدتوں تک یہی قوم توحید کی علمبردار رہی غرضیکہ ایک زمانہ تک قوم بنی اسرائیل دینی اور دنیوی اعتبار سے سکہ رائج الوقت رہی ان میں بڑے بڑے صاحب اقتدار بادشاہ ہوئے اور فوجی جرنیل بھی اور اولو العزم پیغمبر و صلحاء واولیاء بھی مگر نزول قرآن سے مدتوں پہلے ان کا اقتدار رخصت ہوچکا تھا، ان کا شیرازہ بکھر کر دنیا میں منتشر ہوچکا تھا، ان کے بعض قبیلے حجاز اور اطراف حجاز خصوصاً یثرب (مدینہ) اور حوالی یثرب میں آباد ہوچکے تھے۔
بنی اسرائیل تو ایک نسلی نام ہے مذہبی حیثیت سے یہ لوگ یہود تھے توریت محرف، مسخ شدہ بہر حال جیسی بھی تھی، ان کے پاس موجود تھی، دینی سیادت ابھی تک ان کے پاس تھی، دنیوی اعتبار سے مالدار تھے، تجارت کے بڑے ماہر تھے، حجاز کی آبادی میں اس دینی و دنیوی تفوق کی بناء پر ان کو اچھی خاصی اہمیت حاصل تھی، ساتھ ہی ساتھ سفلی عملیات سحر و کہانت میں بڑے ماہر تھے، ملک کی عام آبادی مشرکوں اور بت پرستوں کی تھی، وہ لوگ ایک طرف تو یہود کے علم و فضل کے قائل تھے، اور ان کی دینی واقفیت سے مرعوب تھے اور دوسری طرف اکثر ان کے قرض دار بھی رہا کرتے تھے، اور جیسا کہ عام قاعدہ ہے کہ منظم اور غالب قوموں کے تمدن سے، کمزور اور غیر منظم قومیں مرعوب و متاثر ہوجاتی ہیں، مشرکین عرب بھی اسرائیلی اخلاق، اسرائیلی روایات بلکہ اسرائیلی عقائد سے بہت کچھ متاثر ہوچکے تھے، ان سب چیزوں کے علاوہ یہود کے مذہبی توشتوں اور اسرائیلیوں کی مقدس زبانی روایتوں میں ایک آنے والے نبی کی بشارت موجود تھی، اور یہ لوگ اس نبی موعود کے منتظر رہتے تھے، ان اسباب کی بناء پر یہ امر بالکل قدرتی تھا، کہ قرآن مجید میں تخاطب اس قوم کے ساتھ ہو اور خوب تفصیل سے ہو چناچہ چودھویں رکوع تک بڑی تفصیل کے ساتھ ان سے خطاب کیا گیا ہے۔
قرآن کے مخاطبین : مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ایک نظر قرآن مجید کی ترتیب بیان پر کرلی جائے، قرآن مجید کا اصل تخاطب نوع انسانی سے ہے، اسی مناسبت سے اول رکوع میں اس کا بیان ہوا کہ نوع انسانی کی حقیقی دو قسمیں ہیں ایک اچھے یا مومن دوسرے برے یا کافر، مومن یا نیک وہ ہیں جو قرآن مجید کے دستور حیات کو تسلیم کرتے ہیں، کافر یا بد وہ ہیں جو اس سے انکار کرتے ہیں، دوسرے رکوع میں کافروں ہی کی ایک خاص قسم کا بیان ہے، جن کو منافق کہا جاتا ہے، ان کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ : یہ لوگ بھی ایمان اور نجات سے محروم ہی رہیں گے، تیسرے رکوع میں ساری نسل انسانی کو مخاطب کیا گیا ہے اور قرآن مجید کا اصل پیغام یعنی توحید و رسالت بیان کیا گیا ہے، چوتھا رکوع تاریخ انسانی سے متعلق ہے، اس میں بیان ہوا ہے کہ انسان کی آفرینش سے اصل غرض دنیا میں قانون الٰہی کی تنفیذ ہے اور حاکمیت الٰہی کی نیابت ہے ذرا سی غفلت کی وجہ سے نسل انسانی کا دیرینہ دشمن شیطان اس کو پچھاڑ سکتا ہے اور حق سے باطل کی جانب اور نور سے ظلمت کی طرف موڑ سکتا ہے، لیکن اگر انسان ذرا بھی ہمت اور ہوشمندی سے کام لے اور انبیاء کی بتائی ہوئی صراط مستقیم پر قائم رہے، تو وہی غالب و منصور رہے گا، اب پانچویں رکوع سے بڑی تفصیل سے اس کا بیان شروع ہوتا ہے کہ مدت دراز ہوئی ایک بڑے مقبول برگزیدہ بندے کی اولاد میں ایک خاص نسل کو توحید کی خاص نعمت سے سرفراز کیا گیا تھا وہ قوم اس کی نااہل ثابت ہوئی موقع اسے بار بار دیا گیا، اس کے ساتھ رعایت بار بار کی گئی، لیکن ہر بار اس نے اس نعمت کو اپنے ہاتھوں ضائع کیا، یہاں تک کہ اپنی نسل کے آخری پیغمبر حضرت عیسیٰ کی مخالفت میں تو حد ہی کردی، طویل اور مسلسل مراعات کے بعد اب حکومت الٰہیہ کا دستور ایک نیا ضابطہ اختیار کرتا ہے، اس ناشکرگزار، نافرمان، عصیان پیشہ قوم کو اس منصب سیادت سے معزول کیا جاتا ہے، اور یہ نعمت ان سے چھین کر ایک اسماعیلی پیغمبر کے واسطہ سے دنیا کی تمام قوموں اور نسلوں کے لئے عام کی جا رہی ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
پھر اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر اپنی نعمتوں اور اپنے احسانات کا ذکر شروع کیا۔ فرمایا : یہاں اسرائیل سے مراد حضرت یعقوب علیہ السلام ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ خطاب بنی اسرائیل کے ان گروہوں سے ہے جو مدینہ اور اس کے گرد و نواح میں آباد تھے۔ اس خطاب میں بعد میں آنے والے اسرائیلی بھی شامل ہیں۔ پس ان کو ایک عام حکم دیا ہے۔ فرمایا : ﴿ اذْکُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ﴾” میری ان نعمتوں کو یاد کرو جو میں نے تم پر کیں“ ان نعمتوں میں تمام نعمتیں شامل ہیں۔ ان میں سے بعض کا ذکر عنقریب اس سورت میں آئے گا۔ یہاں ان نعمتوں کے یاد کرنے سے مراد دل میں ان نعمتوں کا اعتراف کرنا، زبان سے ان کی تعریف کرنا اور جوارح کے ذریعے سے ان نعمتوں کو ایسی جگہ استعمال کرنا ہے جہاں اللہ پسند کرتا ہے اور اس سے راضی ہوتا ہے۔
﴿ وَاَوْفُوْا بِعَہْدِیْٓ﴾یعنی وہ اس عہد کو پورا کریں جو اللہ تعالیٰ نے ان سے لیا ہے کہ وہ اس پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائیں گے اور اس کی شریعت کو قائم کریں گے۔ ﴿ اُوْفِ بِعَہْدِکُمْ ﴾” میں تم سے کیا ہوا عہد پورا کروں گا“ یہ ان کے عہد کے پورا کرنے کا بدلہ ہے۔
اس عہدسےمراد وہ عہد ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ذکر کیا ہے : ﴿وَلَقَدْ أَخَذَ اللَّـهُ مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيبًا ۖ وَقَالَ اللَّـهُ إِنِّي مَعَكُمْ ۖ لَئِنْ أَقَمْتُمُ الصَّلَاةَ وَآتَيْتُمُ الزَّكَاةَ وَآمَنتُم بِرُسُلِي وَعَزَّرْتُمُوهُمْ وَأَقْرَضْتُمُ اللَّـهَ قَرْضًا حَسَنًا لَّأُكَفِّرَنَّ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَلَأُدْخِلَنَّكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۚ فَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ مِنكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ﴾ (لمائدة : 5؍12)
” اور اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے عہد لیا اور ان میں سے ہم نے بارہ سردار مقرر کردیے اور اللہ نے فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں اگر تم نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ دیتے رہو گے، میرے رسولوں پر ایمان لاتے اور ان کی عزت و توقیر کرتے رہو گے اور اللہ کو قرض حسنہ دیتے رہو گے تو میں تم سے تمہارے گناہ دور کر دوں گا اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کروں گا جس کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی، پھر تم میں سے جس نے اس کے بعد کفر کا ارتکاب کیا وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا۔ “
پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو وہ اسباب اختیار کرنے کا حکم دیا جو وفائے عہد کے حامل ہیں یعنی اس اکیلے سے خوف کھانا اور ڈرنا، کیونکہ جو کوئی اس سے ڈرتا ہے تو یہ ڈر اس کے احکام کی اطاعت اور اس کے نواہی سے اجتناب کا موجب بنتا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aey bani Israel ! meri woh naimat yaad karo jo mein ney tum ko ata ki thi , aur tum mujh say kiya huwa ehad poora karo , takay mein bhi tum say kiya huwa ehad poora karun , aur tum ( kissi aur say nahi , balkay ) sirf mujhi say daro
12 Tafsir Ibn Kathir
بنی اسرائیل سے خطاب
ان آیتوں میں بنی اسرائیل کو اسلام قبول کرنے اورحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تابعداری کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور انتہائی لطیف پیرایہ میں انہیں سمجھایا گیا ہے کہ تم ایک پیغمبر کی اولاد میں سے ہو تمہارے ہاتھوں میں کتاب اللہ موجود ہے اور قرآن اس کی تصدیق کر رہا ہے پھر تمہیں نہیں چاہئے کہ سب سے پہلے انکار تمہیں سے شروع ہو۔ اسرائیل حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا نام تھا تو گویا ان سے کہا جاتا ہے کہ تم میرے صالح اور فرمانبردار بندے کی اولاد ہو۔ تمہیں چاہیے کہ اپنے جدِامجد کی طرح حق کی تابعداری میں لگ جاؤ۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ تم سخی کے لڑکے ہو سخاوت میں آگے بڑھو تم پہلوان کی اولاد ہو داد شجاعت دو ۔ تم عالم کے بچے ہو علم میں کمال پیدا کرو۔ دوسری جگہ اسی طرز کلام کو اسی طرح ادا کیا گیا ہے۔ آیت (ذُرِّيَّــةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ ۭ اِنَّهٗ كَانَ عَبْدًا شَكُوْرًا) 17 ۔ الاسرآء :3) یعنی ہمارے شکر گزار بندے حضرت نوح کے ساتھ جنہیں ہم نے ایک عالمگیر طوفان سے بچایا تھا یہ ان کی اولاد ہے ایک حدیث میں ہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت کیا کہ کیا تم نہیں جانتے کہ اسرائیل حضرت یعقوب کا نام تھا کا وہ سب قسم کھا کر کہتے ہیں کہ واللہ یہ سچ ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا اے اللہ تو گواہ رہ۔ اسرائیل کے لفظی معنی عبداللہ کے ہیں ان نعمتوں کو یاد دلایا جاتا ہے جو قدرت کاملہ کی بڑی بڑی نشانیاں تھیں۔ مثلاً پتھر سے نہروں کو جاری کرنا۔ من وسلوی اتارنا۔ فرعونیوں سے آزاد کرنا۔ انہیں میں سے انبیاء اور رسولوں کو مبعوث کرنا۔ ان میں سلطنت اور بادشاہی عطا فرمانا وغیرہ ان کو ہدایت دی جاتی ہے میرے وعدوں کو پورا کرو یعنی میں نے جو عہد تم سے لیا تھا کہ جب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے پاس آئیں اور ان پر میری کتاب قرآن کریم نازل ہو تو تم اس پر اور آپ کی ذات پر ایمان لانا۔ وہ تمہارے بوجھ ہلکے کریں گے اور تمہاری زنجیریں توڑ دیں گے اور تمہارے طوق اتار دیں گے اور میرا وعدہ بھی پورا ہوجائے گا کہ میں تمہیں اس دین کے سخت احکام کے متبادل آسان دین دوں گا۔ دوسری جگہ اس کا بیان اس طرح ہوتا ہے آیت (ۭوَقَال اللّٰهُ اِنِّىْ مَعَكُمْ ۭلَىِٕنْ اَقَمْــتُمُ الصَّلٰوةَ وَاٰتَيْتُمُ الزَّكٰوةَ وَاٰمَنْتُمْ بِرُسُلِيْ وَعَزَّرْتُمُوْهُمْ وَاَقْرَضْتُمُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَـنًا) 5 ۔ المائدہ :12) یعنی اگر تم نمازوں کو قائم کرو گے زکوٰۃ رہو گے میرے رسولوں کی ہدایت مانتے رہو گے مجھے اچھا قرضہ دیتے رہو گے تو میں تمہاری برائیاں دور کر دونگا اور تمہیں بہتی ہوئی نہروں والی جنت میں داخل کروں گا۔ یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ توراۃ میں وعدہ کیا گیا تھا کہ میں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ایک اتنا بڑا عظیم الشان پیغمبر پیدا کر دونگا جس کی تابعداری تمام مخلوق پر فرض ہوگی ان کے تابعداروں کو بخشوں گا انہیں جنت میں داخل کروں گا اور دوہرا اجر دوں گا۔ حضرت امام رازی نے اپنی تفسیر میں بڑے بڑے انبیاء (علیہم السلام) سے آپ کی بابت پیشنگوئی نقل کی ہے یہ بھی مروی ہے کہ اللہ کا عہد اسلام کو ماننا اور اس پر عمل کرنا تھا۔ اللہ کا اپنے عہد کو پورا کرنا ان سے خوش ہونا اور جنت عطا فرمانا ہے مزید فرمایا مجھ سے ڈرو ایسا نہ ہو جو عذاب تم سے پہلے لوگوں پر نازل ہوئے کہیں تم پر بھی نہ آجائیں۔ اس لطیف پیرایہ کو بھی ملاحظہ فرمائیے کہ ترغیب کے بیان کے ساتھ ہی کس طرح ترہیب کے بیان کو ملحق کردیا گیا ہے۔ رغبت و رہبت دونوں جمع کر کے اتباع حق اور نبوت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت دی گئی۔ قرآن کے ساتھ نصیحت حاصل کرنے اس کے بتلائے ہوئے احکام کو ماننے اور اس کے روکے ہوئے کاموں سے رک جانے کی ہدایت کی گئی۔ اسی لئے اس کے بعد ہی فرمایا کہ تم اس قرآن حکیم پر ایمان لاؤ جو تمہاری کتاب کی بھی تصدیق اور تائید کرتا ہے جسے لے کر وہ نبی آئے ہیں جو امی ہیں عربی ہیں، جو بشیر ہیں، جو نذیر ہیں، جو سراج منیر ہیں جن کا اسم شریف محمد ہے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ جو توراۃ کی سچائی کی دلیل تھی اس لئے کہا گیا کہ وہ تمہارے ہاتھوں میں موجود کتابوں کی تصدیق کرتے ہیں۔ علم ہونے کے باوجود تم ہی سب سے پہلے انکار نہ کرو بعض کہتے ہیں " بہ " کی ضمیر کا مرجع قرآن ہے اور پہلے آ بھی چکا ہے بما انزلت اور دونوں قول درحقیقت سچے اور ایک ہی ہیں۔ قرآن کو ماننا رسول کو ماننا ہے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصدیق قرآن کی تصدیق ہے۔ اول کافر سے مراد بنی اسرائیل کے اولین منکر ہیں کیونکہ کفار قریش بھی انکار اور کفر کرچکے تھے۔ لہذا بنی اسرائیل کا انکار اہل کتاب میں سے پہلی جماعت کا انکار تھا اس لئے انہیں اول کافر کہا گیا ان کے پاس وہ علم تھا جو دوسروں کے پاس نہ تھا۔ میری آیتوں کے بدلے تھوڑا مول نہ لو یعنی دنیا کے بدلے جو قلیل اور فانی ہے میری آیات پر ایمان لانا اور میرے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصدیق کرنا نہ چھوڑو اگرچہ دنیا ساری کی ساری بھی مل جائے جب بھی وہ آخرت کے مقابلہ میں تھوڑی بہت تھوڑی ہے اور یہ خود ان کی کتابوں میں بھی موجود ہے۔ سنن ابو داؤد میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں جو شخص اس علم کو جس سے اللہ کی رضامندی حاصل ہوئی ہے اس لئے سیکھے کہ اس سے دنیا کمائے وہ قیامت کے روز جنت کی خوشبو تک نہ پائے گا علم سکھانے کی اجرت بغیر مقرر کئے ہوئے لینا جائز ہے اسی طرح علم سکھانے والے علماء کو بیت المال سے لینا بھی جائز ہے تاکہ وہ خوش حال رہ سکیں اور اپنی ضروریات پوری کرسکیں۔ اگر بیت المال سے کچھ مال نہ ملتا ہو اور علم سکھانے کی وجہ سے کوئی کام دھندا بھی نہ کرسکتے ہوں تو پھر اجرت مقرر کر کے لینا بھی جائز ہے اور امام مالک امام شافعی، امام احمد اور جمہور علماء کا یہی مذہب ہے اس کی دلیل وہ حدیث بھی ہے جو صحیح بخاری شریف میں حضرت ابو سعید خدری کی روایت سے ہے کہ انہوں نے اجرت مقرر کرلی اور ایک سانپ کے کاٹے ہوئے شخص پر قرآن پڑھ کر دم کیا جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے یہ قصہ پیش ہوا تو آپ نے فرمایا حدیث (ان احق ما اخذتم علیہ اجرا کتاب اللہ) یعنی جن چیزوں پر تم اجرت لے سکتے ہو ان سب میں زیادہ حقدار کتاب اللہ ہے دوسری مطول حدیث میں ہے کہ ایک شخص کا نکاح ایک عورت سے آپ کردیتے ہیں اور فرماتے ہیں حدیث (زوجتکھا بما معک من القران) میں نے اس کو تیری زوجیت میں دیا اور تو اسے قرآن حکیم جو تجھے یاد ہے اسے بطور حق مر یاد کرا دے ابو داؤد کی ایک حدیث میں ہے ایک شخص نے اہل صفہ میں سے کسی کو کچھ قرآن سکھایا اس نے اسے ایک کمان بطور ہدیہ دی اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مسئلہ پوچھا۔ آپ نے فرمایا اگر تجھے آگ کی کمان لینی ہے تو اسے لے چناچہ اس نے اسے چھوڑ دیا۔ حضرت ابی بن کعب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی ایسی ہی ایک مرفوع حدیث مروی ہے۔ ان دونوں احادیث کا مطلب یہ ہے کہ جب اس نے خالص اللہ کے واسطے کی نیت سے سکھایا پھر اس پر تحفہ اور ہدیہ لے کر اپنے ثواب کو کھونے کی کیا ضرورت ہے ؟ اور جبکہ شروع ہی سے اجرت پر تعلیم دی ہے تو پھر بلاشک و شبہ جائز ہے جیسے اوپر کی دونوں احادیث میں بیان ہوچکا ہے۔ واللہ اعلم۔ صرف اللہ ہی ہے ڈرنے کے یہ معنی ہیں کہ اللہ کی رحمت کی امید پر اس کی عبادت و اطاعت میں لگا ہے اور اس کے عذابوں سے ڈر کر اس کی نافرمانیوں کو چھوڑ دے اور دونوں حالتوں میں اپنے رب کی طرف سے دئیے گئے نور پر گامزن رہے۔ غرض اس جملہ سے انہیں خوف دلایا گیا کہ وہ دنیاوی لالچ میں آ کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی تصدیق کو جو اس کی کتابوں میں ہے نہ چھپائیں اور دنیوی ریاست کی طمع پر آپ کی مخالفت پر آمادہ نہ ہوں بلکہ رب سے ڈر کر اظہار حق کرتے رہیں۔