البقرہ آية ۴۲
وَلَا تَلْبِسُوا الْحَـقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوا الْحَـقَّ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
طاہر القادری:
اور حق کی آمیزش باطل کے ساتھ نہ کرو اور نہ ہی حق کو جان بوجھ کر چھپاؤ،
English Sahih:
And do not mix the truth with falsehood or conceal the truth while you know [it].
1 Abul A'ala Maududi
باطل کا رنگ چڑھا کر حق کو مشتبہ نہ بناؤ اور نہ جانتے بوجھتے حق کو چھپانے کی کوشش کرو
2 Ahmed Raza Khan
اور حق سے باطل کو نہ ملاؤ اور دیدہ و دانستہ حق نہ چھپاؤ -
3 Ahmed Ali
اور سچ میں جھوٹ نہ ملاؤ اور جان بوجھ کر حق کو نہ چھپاؤ
4 Ahsanul Bayan
اور حق کو باطل کے ساتھ خلط ملط نہ کرو اور نہ حق کو چھپاؤ، تمہیں تو خود اس کا علم ہے۔
nilnil
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور حق کو باطل کے ساتھ نہ ملاؤ، اور سچی بات کو جان بوجھ کر نہ چھپاؤ
6 Muhammad Junagarhi
اور حق کو باطل کے ساتھ خَلط مَلط نہ کرو اور نہ حق کو چھپاؤ، تمہیں تو خود اس کا علم ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور حق کو باطل کے ساتھ خلط ملط نہ کرو اور جانتے بوجھتے ہوئے حق کو نہ چھپاؤ۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
حقکو باطل سے مخلوط نہ کرو اور جان بوجھ کر حق کی پردہ پوشی نہ کرو
9 Tafsir Jalalayn
اور حق کو باطل کے ساتھ نہ ملاؤ اور سچی بات کو جان بوجھ کر نہ چھپاؤ
وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَکْتُمُوا الْحَقَّ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ : اس آیت کو سمجھنے سے پہلے تمہید کے طور پر یہ بات سمجھ لینی چاہیے، کہ اہل عرب \&\& بالعموم \&\& ناخواندہ تھے، ان کے مقابلہ میں یہود تعلیم یافتہ تھے، اس وجہ سے عربوں پر یہودیوں کا علمی رعب بہت زیادہ تھا، اس کے علاوہ ان کے علماء اور مشائخ نے اپنے مذہبی درباروں کی ظاہری شان جما کر اور اپنی جھاڑ پھونک اور تعویذ گنڈوں کا کاروبار چلا کر اس رعب کو اور بھی زیادہ وسیع کردیا تھا، ان حالات میں جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے آپ کو نبی کی حیثیت سے پیش کیا اور لوگوں کو اسلام کی دعوت دینی شروع کی، تو قدرتی بات تھی کہ ان پڑھ عرب اہل کتاب یہودیوں سے جا کر پوچھتے کہ آپ لوگ بھی ایک نبی کے پیرو ہیں اور ایک کتاب کو مانتے ہیں، آپ ہمیں بتائیں کہ یہ صاحب ہمارے اندر نبوت کا دعویٰ لے کر اٹھے ہیں ان کے متعلق، ان کی تعلیم کے متعلق آپ حضرات کی کیا رائے ہے۔ مگر علماء یہود نے کبھی لوگوں کو صحیح بات نہ بتائی حالانکہ ان کے مذہبی نوشتوں میں ایک نبی آخر الزمان کی آمد کی صراحت کے ساتھ پیشین گوئی موجود تھی اور آنے والے نبی کے اوصاف کا بھی ذکر تھا سیدھی اور صاف بات بتانے کے بجائے، انہوں نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ ہر سائل کے دل میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف، آپ کی جماعت کے خلاف اور آپ کے مشن کے خلاف کوئی نہ کوئی وسوسہ ڈال دیتے تھے، غرض کہ وہ حق کو چھپانے اور اس پر پردہ ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کرتے کبھی کوئی ایسا شوشہ چھوڑ دیتے تھے کہ جس سے لوگ شکوک و شبہات میں پڑجائیں اور کبھی لوگوں کو الجھن میں ڈالنے والے سوالات سکھا دیتے تاکہ لوگ خود ہی تذبذب کا شکار ہوجائیں، یہود کے اسی رویے کی بنا پر فرمایا جا رہا ہے کہ حق پر باطل کا پردہ نہ ڈالو، حق و باطل کو خلط ملط کرکے دنیا کو دھوکا نہ دو ۔
فائدہ : بعض مفسرین نے تعلق بالبعید کے طور پر یہاں اجرت علی تعلیم القرآن وغیرہ کی بحث چھیڑی ہے، قرطبی (رح) تعالیٰ نے اس بحث کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے شائقین رجوع کرسکتے ہیں۔
تعلیم قرآن پر اجرت کا مسئلہ : اجرة علیٰ تعلیم القرآن کا مسئلہ سلف سے مختلف فیہ رہا ہے، مگر اس آیت سے اس مسئلہ کا کوئی تعلق نہیں ہے، امام مالک، شافعی، احمد بن حنبل (رح) تعالیٰ جائز دیتے ہیں، اور امام ابوحنیفہ (رح) تعالیٰ اور بعض دیگر ائمہ منع فرماتے ہیں، لیکن متاخرین حنفیہ نے بھی جب ان حالات کا مشاہدہ کیا کہ قرآن مجید کے معلمین کو اسلامی بیت المال سے گزارہ ملا کرتا تھا، اب ہر جگہ اسلامی نظام میں فتور کے سبب ان معلمین کو عموماً کچھ نہیں ملتا، یہ اگر اپنی معاش کے لئے کسی محنت مزدوری یا تجارت وغیرہ میں لگ جائیں، تو بچوں کے تعلیم قرآن کا سلسلہ یکسر بند ہوجائے گا، اس لئے تعلیم قرآن پر معاوضہ لینے کو بضرورت جائز قرار دیا، صاحب ہدایہ کے بعد آنے والے دوسرے فقہاء نے بعض ایسے ہی دوسرے وظائف جن پر تعلیم قرآن کی طرح دین کی بقاء موقوف ہے، مثلاً امامت و اذان اور تعلیم حدیث وفقہ وغیرہ کو تعلیم قرآن کے ساتھ ملحق کرکے ان کی اجازت دی ہے۔ (درمختار، شامی)
ایصال ثواب کے لئے قرآن خوانی پر اجرت لینا جائز نہیں : علامہ شامی نے درمختار کی شرح میں اور اپنے رسالہ شفاء العلیل میں بڑی اور قوی دلائل کے ساتھ یہ بات واضح کردی ہے کہ تعلیم قرآن وغیرہ پر اجرت لینے کی جن متاخرین نے اجازت دی ہے اس کی علت ایک ایسی دینی ضرورت ہے جس میں خلل آنے سے دین کا پورا نظام مختل ہوجاتا ہے، اس لئے اس کو ایسی ہی ضرورت کے موقع میں محدود رکھنا ضروری ہے، اس لئے مردوں کو ایصال ثواب کے لئے ختم قرآن کرانا یا کوئی دوسرا وظیفہ پڑھوانا اجرت کے ساتھ حرام ہے۔ (معارف)
10 Tafsir as-Saadi
پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿ وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَکْتُمُوا الْحَــقَّ﴾’’’اور خلط ملط نہ کرو حق کو باطل کے ساتھ اور نہ چھپاؤ تم حق کو“ پس اللہ تعالیٰ نے ان کو دو چیزوں سے منع کیا ہے۔ (1) حق کو باطل میں خلط ملط کرنے سے۔ (2) کتمان حق سے۔ اس لئے کہ اہل کتاب اور اہل علم سے مطلوب یہ ہے کہ وہ حق کو ممیز کر کے اس کو ظاہر کریں تاکہ ہدایت کے متلاشی حق کے ذریعے سے راہ پائیں اور گم گشتہ راہ لوگ سیدھے راستے کی طرف لوٹ آئیں اور اہل عناد پر حجت قائم ہو جائے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی آیات کو کھول کھول کر بیان کردیا ہے اور اپنے دلائل واضح کردیئے تاکہ حق باطل سے بالکل الگ اور ممیز ہوجائے اور مجرموں کا راستہ واضح ہوجائے۔ پس اہل علم میں سے جو کوئی حق پر عمل پیرا ہوتا ہے وہ انبیاء و مرسلین کا جانشین اور قوموں کا راہنما بن جاتا ہے اور جو حق کو باطل میں گڈ مڈ کردیتا ہے، حق کا علم رکھنے کے باوجود حق کو باطل سے ممیز نہیں کرتا اور اس حق کو وہ چھپاتا ہے جسے وہ جانتا ہے اور جس کے اظہار کا اسے حکم دیا گیا ہے تو ایسا شخص جہنم کے داعیوں میں شمار ہوتا ہے، کیونکہ لوگ دین کے معاملے میں اپنے علماء کے سوا کسی کی پیروی نہیں کرتے۔ پس تم ان دو چیزوں میں سے اپنے لیے جو چاہو چن لو۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur haq ko batil kay sath gaddmadd naa kero , aur naa haq baat ko chupao jabkay ( asal haqeeqat ) tum achi tarah jantay ho
12 Tafsir Ibn Kathir
بدخو یہودی
یہودیوں کی اس بدخصلت پر ان کو تنبہہ کی جا رہی ہے کیونکہ وہ جاننے کے باوجود کبھی تو حق و باطل کو خلط ملط کردیا کرتے تھے کبھی حق کو چھپالیا کرتے تھے۔ کبھی باطل کو ظاہر کرتے تھے۔ لہذا انہیں ان ناپاک عادتوں کے چھوڑنے کو کہا گیا ہے اور حق کو ظاہر کرنے اور اسے کھول کھول کر بیان کرنے کی ہدایت کی حق و باطل سچ جھوٹ کو آپس میں نہ ملاؤ اللہ کے بندوں کی خیر خواہی کرو۔ یہودیت و نصرانیت کی بدعات کو اسلام کی تعلیم کے ساتھ نہ ملاؤ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بابت پیشنگوئیاں جو تمہاری کتابوں میں پاتے ہو انہیں عوام الناس سے نہ چھپاؤ تکتموا مجزوم بھی ہوسکتا ہے اور منصوب بھی یعنی اسے اور اسے جمع نہ کرو۔ ابن مسعود کی قرأت میں تکتمون بھی ہے۔ یہ حال ہوگا اور اس کے بعد کا جملہ بھی حال ہے معین یہ ہوئے کہ حق کو حق جانتے ہوئے ایسی بےحیائی نہ کرو۔ اور یہ بھی معنی ہیں کہ علم کے باوجود اسے چھپانے اور ملاوٹ کرنے کا کیسا عذاب ہوگا۔ اس کا علم ہو کر بھی افسوس کہ تم بدکرداری پر آمادہ نظر آتے ہو۔ پھر انہیں حکم دیا جاتا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نمازیں پڑھو زکوٰۃ دو اور امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ رکوع و سجود میں شامل رہا کرو، انہیں میں مل جاؤ اور خود بھی آپ ہی امت بن جاؤ، اطاعت و اخلاص کو بھی زکوٰۃ کہتے ہیں۔ ابن عباس اس آیت کی تفسیر میں یہی فرماتے ہیں زکوٰۃ دو سو درہم پر۔ پھر اس سے زیادہ رقم پر واجب ہوتی ہے نماز و زکوٰۃ و فرض و واجب ہے۔ اس کے بغیر سبھی اعمال غارت ہیں۔ زکوٰۃ سے بعض لوگوں نے فطرہ بھی مراد لیا ہے۔ رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو سے مراد یہ ہے کہ اچھے اعمال میں ایمانداروں کا ساتھ دو اور ان میں بہترین چیز نماز ہے اس آیت سے اکثر علماء نے نماز باجماعت کے فرض ہونے پر بھی استدلال کیا ہے اور یہاں پر امام قرطبی نے مسائل جماعت کو سبط سے بیان فرمایا ہے۔