البقرہ آية ۸۷
وَ لَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَقَفَّيْنَا مِنْۢ بَعْدِهٖ بِالرُّسُلِۖ وَاٰتَيْنَا عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنٰتِ وَاَيَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِۗ اَفَكُلَّمَا جَاۤءَكُمْ رَسُوْلٌۢ بِمَا لَا تَهْوٰۤى اَنْفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْۚ فَفَرِيْقًا كَذَّبْتُمْ وَفَرِيْقًا تَقْتُلُوْنَ
طاہر القادری:
اور بیشک ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب (تورات) عطا کی اور ان کے بعد ہم نے پے در پے (بہت سے) پیغمبر بھیجے، اور ہم نے مریم (علیھا السلام) کے فرزند عیسیٰ (علیہ السلام) کو (بھی) روشن نشانیاں عطا کیں اور ہم نے پاک روح کے ذریعے ان کی تائید (اور مدد) کی، تو کیا (ہوا) جب بھی کوئی پیغمبر تمہارے پاس وہ (احکام) لایا جنہیں تمہارے نفس پسند نہیں کرتے تھے تو تم (وہیں) اکڑ گئے اور بعضوں کو تم نے جھٹلایا اور بعضوں کو تم قتل کرنے لگے،
English Sahih:
And We did certainly give Moses the Scripture [i.e., the Torah] and followed up after him with messengers. And We gave Jesus, the son of Mary, clear proofs and supported him with the Pure Spirit [i.e., the angel Gabriel]. But is it [not] that every time a messenger came to you, [O Children of Israel], with what your souls did not desire, you were arrogant? And a party [of messengers] you denied and another party you killed.
1 Abul A'ala Maududi
ہم نے موسیٰؑ کو کتاب دی، اس کے بعد پے در پے رسول بھیجے، آخر کار عیسیٰؑ ابن مریمؑ کو روشن نشانیاں دے کر بھیجا اور روح پاک سے اس کی مدد کی پھر یہ تمہارا کیا ڈھنگ ہے کہ جب بھی کوئی رسول تمہاری خواہشات نفس کے خلاف کوئی چیز لے کر تمہارے پاس آیا، تو تم نے اس کے مقابلے میں سرکشی ہی کی، کسی کو جھٹلایا اور کسی کو قتل کر ڈالا
2 Ahmed Raza Khan
اور بے شک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی اور اس کے بعد پے در پے رسول بھیجے اور ہم نے عیسیٰ بن مریم کو کھیلی نشانیاں عطا فرمائیں اور پاک روح سے اس کی مدد کی تو کیا جب تمہارے پاس کوئی رسول وہ لے کر آئے جو تمہارے نفس کی خواہش نہیں تکبر کرتے ہو تو ان (انبیاء) میں ایک گروہ کو تم جھٹلاتے ہو اور ایک گروہ کو شہید کرتے ہو -
3 Ahmed Ali
اور بے شک ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور اس کے بعد بھی پے در پے رسول بھیجتے رہے اور ہم نے عیسیٰ مریم کے بیٹے کو نشانیاں دیں اور روح لقدس سے اس کی تائید کی کیا جب تمہارے پاس کوئی وہ حکم لایا جسے تمہارے دل نہیں چاہتے تھے تو تم اکڑ بیٹھے پھر ایک جماعت کو تم نے جھٹلایا اور ایک جماعت کو قتل کیا
4 Ahsanul Bayan
ہم نے حضرت موسیٰ کو کتاب دی اور ان کے پیچھے اور رسول بھیجے اور ہم نے حضرت عیسیٰ ابن مریم کو روشن دلیلیں دیں اور روح القدس سے ان کی تائید کروائی (١) لیکن جب کبھی تمہارے پاس رسول وہ چیز لائے جو تمہاری طبیعتوں کے خلاف تھی، تم نے جھٹ سے تکبر کیا، پس بعض کو تو جھٹلا دیا اور بعض کو قتل بھی کر ڈالا (٢)۔
٨٧۔ ١ آیت ( وَقَفَّيْنَا مِنْ بَعْدِهٖ بِالرُّسُلِ )2۔بقرہ;87) کے معنی ہیں موسیٰ علیہ السلام کے بعد مسلسل پپیغمبر آتے رہے حتٰی کہ بنی اسرائیل میں انبیاء کا سلسلہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ختم ہو گیا (بَیِّنَاتِ) سے معجزات مراد ہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دئیے گئے تھے جیسے مردوں کو زندہ کرنا، کوڑھی اور اندھے کو صحت یاب کرنا وغیرہ جن کا ذکر ( وَرَسُوْلًا اِلٰى بَنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ ڏ اَنِّىْ قَدْ جِئْتُكُمْ بِاٰيَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ ۙ اَنِّىْٓ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّيْنِ كَهَيْــــَٔــةِ الطَّيْرِ فَاَنْفُخُ فِيْهِ فَيَكُوْنُ طَيْرًۢ ا بِاِذْنِ اللّٰهِ ۚ وَاُبْرِئُ الْاَكْمَهَ وَالْاَبْرَصَ وَاُحْىِ الْمَوْتٰى بِاِذْنِ اللّٰهِ ۚ وَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَاْكُلُوْنَ وَمَا تَدَّخِرُوْنَ ۙفِيْ بُيُوْتِكُمْ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ 49ۚ) 3۔آل عمران;49) میں ہے۔ ایک اور آیت میں حضرت جبرائیل علیہ السلام کو (رُوحُ لْآمین) فرمایا گیا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسان کے متعلق فرمایا (اے اللہ روح القدس سے اس کی تائید فرما) ایک دوسری حدیث میں ہے (جبرائیل علیہ السلام تمہارے ساتھ ہیں) معلوم ہوا کہ روح القدوس سے مراد حضرت جبرائیل ہی ہیں (فتح البیان ابن کثیر بحوالہ الحواشی)۔
٨٧۔٢ جیسے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جھٹلایا اور حضرت زکریا و یحیٰی علیہما السلام کو قتل کیا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور ہم نے موسیٰ کو کتاب عنایت کی اور ان کے پیچھے یکے بعد دیگرے پیغمبر بھیجتے رہے اور عیسیٰ بن مریم کو کھلے نشانات بخشے اور روح القدس (یعنی جبرئیل) سے ان کو مدد دی۔تو جب کوئی پیغمبر تمہارے پاس ایسی باتیں لے کر آئے، جن کو تمہارا جی نہیں چاہتا تھا، تو تم سرکش ہو جاتے رہے، اور ایک گروہ (انبیاء) کو تو جھٹلاتے رہے اور ایک گروہ کو قتل کرتے رہے
6 Muhammad Junagarhi
ہم نے (حضرت) موسیٰ کو کتاب دی اور ان کے پیچھے اور رسول بھیجے اور ہم نے (حضرت) عیسیٰ ابن مریم کو روشن دلیلیں دیں اور روح القدس سے ان کی تائید کروائی۔ لیکن جب کبھی تمہارے پاس رسول وه چیز ﻻئے جو تمہاری طبیعتوں کے خلاف تھی، تم نے جھٹ سے تکبر کیا، پس بعض کو تو جھٹلادیا اور بعض کو قتل بھی کرڈاﻻ
7 Muhammad Hussain Najafi
البتہ ہم نے موسیٰ کو کتاب (توراۃ) عطا کی۔ اور ان کے بعد ہم نے پے در پے رسول بھیجے اور عیسیٰ بن مریم کو کھلی نشانیاں عطا کیں اور روح القدس کے ذریعہ سے ان کی تائید کی۔ (اس کے باوجود جب بھی کوئی رسول تمہاری خواہشات نفسی کے خلاف کوئی حکم لے کر تمہارے پاس آیا تو تم نے تکبر کیا سو بعض کو جھٹلایا اور بعض کو قتل کر ڈالا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ہم نے موسٰی علیھ السّلام کو کتاب دی ان کے پیچھے رسولوںکا سلسلہ قائم کیا. عیسٰی علیھ السّلام بن مریم کو واضح معجزات عطا کئےً روح القدس سے ان کی تائید کرادی لیکن کیا تمہارا مستقل طریقہ یہی ہے کہ جب کوئی رسول علیھ السّلام تمہاری خواہش کے خلاف کوئی پیغام لے کر آتا ہے تو اکڑ جاتے ہو اور ایک جماعت کو جھٹلا دیتے ہو اور ایک کو قتل کردیتے ہو
9 Tafsir Jalalayn
اور ہم نے موسیٰ کو کتاب عنایت کی اور ان کے پیچھے یکے بعد دیگرے بھیجتے رہے اور عیسیٰ بن مریم کو کھلے نشانات بخشے اور روح القدس (یعنی جبرئیل) سے ان کو مدد دی، تو جب کوئی پیغمبر تمہارے پاس ایسی باتیں لے کر آئے جن کو تمہارا جی نہیں چاہتا تھا تو تم سرکش ہوجاتے رہے اور ایک گروہ (انبیاء) کو تو جھٹلاتے رہے اور ایک گروہ کو قتل کرتے رہے
آیات نمبر ٨٧ تا ٩٠
ترجمہ : اور ہم نے موسیٰ کو کتاب تورات عطا کی اور ان کے بعد پے در پے یکے بعد دیگرے رسول بھیجے اور عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کو واضح معجزات عطا کئے مثلاً مردوں کو زندہ کرنا اور مادر زاد اندھوں کو بینا کرنا اور مبروص (کوڑھی) کو اچھا کرنا اور پاکیزہ روح (یعنی جبرئیل (علیہ السلام) کے ذریعہ ہم نے ان کی تائید کی (روح القدس) میں اضافت موصوف الی الصفت ہے، ای الروح المقدسۃ (قدس کہا) ان کے (نافرمانی سے) پاک ہونے کی وجہ سے (ان کی تائید بایں طور کی) کہ جہاں وہ جاتے تو حضرت جبرائیل بھی ساتھ رہتے، پھر بھی یہ لوگ راہ راست پر نہیں آئے، (لیکن) کیا یہ بات نہیں کہ جب بھی تمہارے پاس کوئی رسول وہ چیز (یعنی حق) لے کر آیا جو تم کو ناپسند ہوتی تو تم نے اس کی اتباع سے تکبر کیا (اِسْتَکْبَرْتُمْ ) کلَّمَا کا جواب ہے اور یہی محل استفہام ہے اور (استفہام) کا مقصد توبیخ ہے تو ان میں سے بعض کی تم نے تکذیب کی جیسا کہ (حضرت) عیسیٰ (علیہ السلام) اور بعض کو قتل کر ڈالا، جیسا کہ (حضرت) زکریا (علیہ السلام) اور یحییٰ (علیہ السلام) اور (ماضی کے بجائے) مضارع حکایت حال ماضیہ کے لئے ہے یعنی تم نے قتل کردیا اور نبی سے تمسخراً کہا کہ ہمارے قلوب پر پردے ہیں غُلفٌ، اَغْلَفْ کی جمع ہے، یعنی پردوں میں مستور ہیں لہٰذا جو آپ کہتے ہیں اس کو محفوظ نہیں کرتے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں بات ایسی نہیں بلکہ (دراصل بات یہ ہے) کہ ان کے کفر کی وجہ سے انہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے دور کردیا ہے اور قبول حق سے محروم کردیا ہے، بَلْ ، اضراب کے لئے ہے اور ان کا (حق) کو قبول نہ کرنا کسی قلبی (دماغی) خلل کی وجہ سے نہیں تھا، سو وہ بہت کم باتوں پر یقین رکھتے ہیں، مَا، تاکید قلت کے لئے زائدہ ہے یعنی ان کا ایمان بہت ہی کم باتوں پر ہے اور اب جب کہ ان کے پاس اللہ کی کتاب (قرآن) جو اس کتاب کی جو ان کے پاس موجود ہے (یعنی) تورات کی تصدیق کرتی ہے، آئی حالانکہ اس کے آنے سے پہلے (اس کے ذریعہ) کافروں پر فتح و نصرت کی دعاء کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے، کہ اے اللہ ! تو ہم کو کافروں پر بنی آخر الزمان کے طفیل میں غلبہ عطا فرما، چناچہ جب جب اس حق کا جس کو وہ پہچانتے تھے، اور وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت ہے ان کے پاس آیا تو حسد اور زوال ریاست کے خوف سے انکار کر بیٹھے اور پہلے لَمَّا، کے جواب پر دوسرے لَمَّا کا جواب دلالت کر رہا ہے، اللہ کی پھٹکار ہو کافروں پر نہایت بری ہے وہ شئی جس کے عوض انہوں نے اپنے آپ کو یعنی اپنے حصہ کے اجر (وثواب) کو بیچ ڈالا، اور مَا، نکرہ بمعنی شیئًا بئس کے فاعل سے تمیز ہے اور مخصوص بالذم، اَنْ یَکْفُرُوا، ہے یعنی سرکشی کی وجہ سے اس قرآن کا انکار ہے، جس کو اللہ نے نازل فرمایا، بَغْیًا، لِیَکْفُرُوا، کا فعل لہ ہے یعنی محض اس حسد کی وجہ سے کہ اللہ نے اپنا فضل (یعنی) وحی اپنے بندوں میں سے پر جس کو رسالت کے لئے پسند فرمایا نازل فرمایا (یُنَزل) میں (زاء) کی تخفیف اور تشدید دونوں قراءتیں ہیں، تو وہ نازل کردہ کے انکار کی وجہ سے اللہ کا غضب بالائے غضب لے کر لوٹے، (بغضب) کی تنکیر شدت کو بیان کرنے کے لئے ہے (یعنی) غضب کے تو وہ تورات کو ضائع کرنے اور عیسیٰ (علیہ السلام) کا انکار کرنے کی وجہ سے پہلے ہی مستحق ہوچکے تھے، اور کافروں کے لئے ذلت آمیز عذاب ہے، یعنی رسوا کن عذاب۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : قَفَّیْنَا، ماضی جمع متکلم (تفعیل) تَقْفِیَۃً ، پیچھے بھیجنا، قَفّٰی، دو مفعول چاہتا ہے، عام طور پر اس کے مفعولوں پر حرف جرد اخل نہیں ہوتا، جیسے : ” قَفّیْتُ زیدًا عمرًا “ میں نے زید کو عمر کے پیچھے بھیجا اور کبھی دوسرے مفعول پر، ب، داخل ہوتی ہے، قرآن مجید میں اس کا استعمال ہے، جیسا کہ اسی آیت میں ہے ” وَقَفَّیْنَا مِنْ بَعْدِہٖ بِالرُّسُلِ “ ہم نے ان کے بعد پیہم رسول بھیجے۔
قولہ : مَرْیَمْ ، یہ سریانی لفظ ہے اس کے معنی ہیں خادمہ، انگریزی میں اس کا تلفظ میری (Mery) ۔
حضرت مریم اور ان کا نسب : حضرت مریم کی والدہ کا نام حنہ اور والد کا نام عمران تھا، نسب اس طرح ہے مریم بنت عمران بن ماتان۔ حضرت مریم کا نبی ہونا مختلف فیہ ہے اہل سنت کا عقیدہ ہے، کہ کوئی عورت نبی نہیں ہوئی، لیکن بچپن ہی سے آپ کے صاحب کرامت ولیہ ہونے میں شبہ نہیں، بچپن میں ہی اللہ کی طرف سے بےموسم پھل آپ کو بھیجے جاتے تھے، (لغات القرآن) سال وفات مسیحی روایتوں کے مطابق ٤٨ ق م ہے۔
تاریخی اختلاف کے باوجود صحیح فیصلہ یہ ہے کہ : آپ نے کبھی نکاح نہیں کیا اسی لئے آپ کو مریم عذراء کہا جاتا ہے (دوشیزہ) آپ کے بطن سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بغیر باپ کے پیدا ہوئے کہا جاتا ہے کہ یوسف نجار سے آپ کی نسبت ہوگئی تھی نکاح اور رخصتی نہیں ہوئی تھی۔ (لغات القرآن)
عیسیٰ (علیہ السلام) سلسلہ انبیاء بنی اسرائیل کے خاتم ہیں : عیسیٰ (علیہ السلام) عجمی لفظ ہے سریانی میں یسوع کہتے ہیں جس کے معنی مبارک کے ہیں عیسیٰ (علیہ السلام) سلسلہ انبیاء بنی اسرائیل کے خاتم ہیں، سنہ عیسوی آپ ہی کے نام سے جاری ہے، آپ کے بعد صرف نبوت محمدی ہوئی ہے، ملک شام کے علاقہ ارض گلیل میں ایک قصہ ناصرہ نامی ہے آپ کا وہی مادری وطن ہے ولادت بیت المقدس کے ایک گوشہ میں ہوئی ٣٣ سال کی عمر میں آپ جمہور امت کے عقیدہ کے مطابق اور مسیحی عقیدہ کے مطابق تین دن کے لئے وفات پاکر آسمان پر اٹھالئے گئے، آپ کی رفع آسمانی سے انکار صرف بعض جدید فرقوں نے کیا ہے۔ (ماجدی، ملخصا)
قولہ : رُوْحُ الْقُدُسِ ، یہ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کا مشہور لقب ہے، مسیحی اصطلاح میں اقانیم ثلثہ میں سے اقنوم ثالث ہے۔
قولہ : وَلَقَدْ اٰتَیْنَا، واؤ حرف عطف ہے، لام قسم محذوف کے جواب پر داخل ہے، قد حرف تحقیق ہے۔
قولہ : بِطَھَارَتِہٖ ، یہ المقدس (طاہر) ہونے کی علت ہے۔
قولہ : یَسِیْرُ معہ، حیث سارَ ، ایَّدْنَاہ کی تفسیر ہے۔
قولہ : فلم تَسْتَقِیْمُوْا، یہ جملہ ہی مقصود کلام ہے، یعنی مذکورہ سب کچھ ہونے کے بعد بھی وہ راہ راست پر نہیں آئے، نیز اس میں اس کی طرف بھی اشارہ ہے کہ، اَفَکُمَّمَا، کا مقدر پر عطف ہے، تقدیر عبارت یہ ہے، فَلَمْ تَسْتَقِیْمُوْا فَاسْتکبرتُمْ اَفَکُلّما جاء کم رسول الخ، معطوف اور معطوف علیہ کے درمیان ہمزہ استفہام توبیخ کے لئے ہے۔
قولہ : تَھْوَیٰ ، مضارع واحد مؤنث غائب وہ خواہش کرتی ہے، (س) ھُوًی خواہش کی طرف نفس کا مائل ہونا۔ (لغات القرآن)
قولہ : مِنَ الْحَقّ ، یہ مَا کا بیان ہے۔
قولہ : تَکَبَّرتُمْ ، اِسْتَکْبَرْتُمْ ، کی تفسیر تکبّرتُمْ ، سے کرکے اشارہ کردیا کہ (سین، تاء) زائدہ ہیں، نہ کہ طلب کے لئے۔
قولہ : جَوَابِ کُلَّمَا، کُلَّما متضمن بمعنی شرط ہے اور اِسْتکبرتُمُ ، اس کا جواب ہے اور محل استفہام یہی جواب ہے اور یہ استفہام توبیخی ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کے لئے استفہام برائے سوال ممکن نہیں ہے، یعنی جب جب بھی تمہارے پاس رسول آئے تب تب تم نے تکبر کیا۔
قولہ : فَفَرِیْقًا، کَذَّبْتُمْ فریقًا کذّبتُمْ کا مفعول مقدم ہے، اور کَذَّبْتُمْ کا عطف اِسْتَکبرتُمْ پر ہے اسی طرح فَرِیْقًا تقتلون ہے۔
قولہ : المضارع لحکایۃ الحال الماضیۃ اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک سوال مقدر کا جواب ہے
سوال : فَرِیْقًا تَقْتُلُوْنَ ، میں مضارع کا صیغہ استعمال ہوا ہے جو زمانہ حال پر دلالت کرتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ یہود اس آیت کے نزول کے وقت بھی انبیاء کو قتل کر رہے تھے، حالانکہ یہ واقعہ کے خلاف ہے۔
جواب : گزشتہ واقعہ کی منظر کشی کے طور پر مضارع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے گویا کہ قتل انبیاء کا واقعہ فی الحال نظروں کے سامنے ہو رہا ہے، اسی کو حکایت حال ماضیہ کہتے ہیں۔
قولہ : غُلْفٌ، یہ اَغْلَفْ کی جمع ہے، غیر مختون کو کہتے ہیں، ای لا یَعْیَیْ وَلَایَفْھَمُ ، مفسر علام نے بھی معنی مرادی لئے ہیں، بعض حضرات نے کہا ہے کہ غُلْفٌ غِلافٌ کی جمع ہے، معنی یہ ہوں گے کہ ہمارے قلوب گنجینہ علوم ہیں، معارف موسوی سے لبریز ہیں ہمیں کسی نئی تعلیم کے قبول کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ھِیَ جمع غلافٍ ای ھِیَ اَوْعیَۃُ العلم۔ (راغب)
قولہ : فَقِلِیْلاً ، یہ اِیْمَانًا موصوف محذوف کی صفت ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔
قولہ : قَبْلَ مَجِیْئِہٖ ، اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ قَبْلُ مضاف الیہ محذوف منوی ہونے کی وجہ سے مبنی برضم ہے۔
قولہ : باعُوا، اِشْتَروا کی تفسیر باعوا سے کرکے اشارہ کردیا کہ اِشْتریٰ اضداد میں سے ہے اس کے معنی بیع اور شریٰ دونوں آتے ہیں۔
قولہ : مِنَ الحَقِ ، مَا، کا بیان ہے، مِن الحق سے، ما کی تفسیر کرکے ایک اعتراض کے جواب کی طرف اشارہ کردیا۔
اعتراض : جس کو یہود نبی آخر الزمان کے طور پر پہنچانتے تھے، وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات مبارک تھی، جیسا کہ ارشاد باری ہے : ” یَعْرِفُوْنَہٗ کَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآءَھُمْ “ پھر یہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لفظ، مَا، سے کیوں تعبیر کیا ؟
جواب : مراد اس سے حق ہے، نہ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخصوص ذات اور آپ کا رسول برحق ہونا معجزات اور تورات میں مذکور علامات سے ظاہر تھا۔
قولہ : حَسَدًا، یہ اس سوال کا جواب ہے کہ کفر جہل کی وجہ سے ہوا کرتا ہے جب وہ آپ کو اور آپ کی نبوت کو بخوبی جانتے تھے، تو پھر کفر کیونکر ہوا۔
جواب : یہ کفر و انکار جہل اور عدم معرفت کی وجہ سے نہیں ہوا بلکہ حسد اور قومی تعصب کی وجہ سے ہوا۔
قولہ : دَلَّ عَلَیہِ جَوابُ الثَّانِیۃِ ، وَھُوْ قولہ کفروا بہٖ ، مطلب یہ ہے کہ : کفروا بہ، لَمَّا ثانیہ کا جواب ہے اور اسی کی دلالت کی وجہ سے لَمَّا، اولیٰ کا جواب محذوف ہے، تقدیر عبارت یہ ہے، وَلَمَّا جَآءَھُمْ کِتٰبٌ مِّنْ عِنْدِ اللہِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَھُمْ کَفَرُوْا بِہٖ ، اس سے مبرد کا رد بھی مقصود ہے مبرد کا کہنا ہے کہ : کَفَرُوْا بِہٖ ، لَمِّا، اولیٰ کا جواب ہے اور ثانی لَمَّا طول کلام کی وجہ سے تکرار کے طور پر لایا گیا ہے لہٰذا اس کو جواب کی ضرورت نہیں ہے، وجہ رد یہ ہے کہ اگر لَمَّا، کو مکرر مانا جائے تو وہ محض تاکید کے لئے ہوگا اور تاکید سے تاسیس اولیٰ ہے، اور وکانوا مِن قبلُ الخ تقدیر قَدْ ، کے ساتھ جملہ حالیہ ہے۔
قولہ : بِئْسَمَا، میں مَا، بِئس کے اندر ضمیر مستتر ھُوَ ، سے تمیز ہے تقدیر عبارت یہ ہے : بئس الشئُ شیئًا اور اشتَرَوا، مَا، کی صفت ہے اور اَنْ یکفروا مخصوص بالذم ہے۔
قولہ : ذُوْاِھَانَۃٍ ، اس میں اشارہ ہے کہ اہانت کی اسناد عذاب کی جانب مجازًا ہے، اس لئے کہ عذاب ذلیل نہیں ہوا کرتا بلکہ صاحب عذاب (معذَّب) ذلیل ہوا کرتا ہے لہٰذا عذاب، مہین نہ ہوگا بلکہ صاحب عذاب (معذَّب) مہین ہوگا۔
قولہ : مُھِیْنٌ، مُھِیْنٌ، اصل میں مُھْوِنٌ، واؤ کا کسرہ نقل کرکے ہاء، کو دیدیا واؤ ساکن ما قبل مکسور ” یاء “ سے بدل گیا، مُھِیْنٌ، ہوگیا۔
تفسیر و تشریح
وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ ، ان آیات کی ضروری تفسیر، تحقیق و ترکیب کے زیر عنوان گزر چکی ہے، ملاحظہ کرلی جائے، باقی یہاں تحریر کی جاتی ہے، یہ بنی اسرائیل کی بعض جنایات کا بیان ہے کلام کو جملہ قسمیہ سے شروع کرنے میں کمال توجہ کی طرف اشارہ ہے۔
الکِتٰب، سے مراد تورات ہے، بنی اسرائیل کو ایک مستقل دستور شریعت انعام خصوصی کے طور پر عطا ہوا تھا، بنو اسرائیل میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد بھی انبیاء کا متواتر اور مسلسل آتے رہنا تاریخ کا ایک مسلم و مشہور واقعہ ہے، یہاں تک کہ اسی سلسلہ کے آخری نبی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہوئے گویا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سلسلہ انبیاء بنی سرائیل کے خاتم ہیں۔
حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ توریت ایک ہی مرتبہ میں یکمشت نازل کی گئی تھی، جب اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اس کے اٹھانے کا حکم دیا تو آپ نے اٹھا سکے، تو اللہ نے تورات کے جملہ حروف کی تعداد کے برابر فرشتے نازل فرمائے پھر بھی نہ اٹھا سکے، تو اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے موسیٰ (علیہ السلام) پر تخفیف فرما کر سہولت فرمائی جس کی وجہ سے آپ اٹھا سکے۔ (روح المعانی)
10 Tafsir as-Saadi
﴿ وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ﴾” اور تحقیق ہم نے موسیٰ کو کتاب دی“ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر اپنے احسانات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس نے اپنے کلیم حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ان میں مبعوث فرمایا، ان کو تورات عطا کی۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد ان میں پے در پے انبیاء اور رسول مبعوث فرمائے جو تورات کے مطابق فیصلے کرتے تھے۔ یہاں تک کہ بنی اسرائیل کے آخری نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مبعوث فرمایا اور انہیں واضح نشانیاں عطا کیں جن پر انسان ایمان لے آتا ہے۔ ﴿وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ﴾ یعنی ” حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو روح القدس کے ذریعے تقویت دی۔“ اکثر مفسرین کہتے ہیں کہ روح القدس سے مراد حضرت جبرائیل علیہ السلام ہیں۔ بعض کی رائے یہ ہے کہ اس سے مراد وہ ایمان ہے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو قوت اور استقامت عطا کرتا ہے۔ پھر ان نعمتوں کے باوجود، جن کی قدر و عظمت کے اندازہ نہیں کیا جاسکتا، جب وہ تمہارے پاس وہ کچھ لائے﴿بِمَا لَا تَهْوَىٰ أَنفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ﴾ ” جن کو تمہارا دل نہیں چاہتا تھا تو تم نے (ایمان لانے کی بجائے) تکبر کیا۔“ ﴿فَفَرِيقًا﴾ یعنی انبیاء میں سے ایک فریق کو ﴿كَذَّبْتُمْ وَفَرِيقًا تَقْتُلُونَ﴾” تم نے جھٹلایا اور ایک فریق کو تم نے قتل کردیا۔“ پس تم نے خواہشات نفس کو ہدایت پر مقدم رکھا اور دنیا کو آخرت پر ترجیح دی۔ اس آیت کریمہ میں جو زجر و توبیخ اور تشدید ہے، وہ ڈھکی چھپی نہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur beyshak hum ney musa ko kitab di , aur uss kay baad pey-dar-pay Rasool bhejay . aur hum ney essa ibn-e-maryam ko khuli khuli nishaniyan den , aur rooh-ul-qudus say unn ki taeed ki . phir yeh aakhir kiya moamla hai kay jab kabhi koi Rasool tumharay paas koi aesi baat ley ker aaya jo tumhari nafsani khuwaishaat ko pasand nahi thi to tum akarr gaye ? chunacheh baaz ( anbiya ) ko tum ney jhutlaya , aur baaz ko qatal kertay rahey .
12 Tafsir Ibn Kathir
خود پرست اسرائیلی
بنی اسرائیل کے عناد وتکبر اور ان کی خواہش پرستی کا بیان ہو رہا ہے کہ توراۃ میں تحریف و تبدل کیا حضرت موسیٰ کے بعد انہی کی شریعت آنے والے انبیاء کی بھی مخالفت کی چناچہ فرمایا آیت (اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰىةَ فِيْهَا هُدًى وَّنُوْرٌ) 5 ۔ المائدہ :44) یعنی ہم نے توراۃ نازل فرمائی جس میں ہدایت اور نور تھا جس پر انبیاء بھی خود بھی عمل کرتے اور یہودیوں کو بھی ان کے علماء اور درویش ان پر عمل کرنے کا حکم کرتے تھے غرض پے درپے یکے بعد دیگرے انبیاء کرام بنی اسرائیل میں آتے رہے یہاں تک کہ یہ سلسلہ عیسیٰ (علیہ السلام) پر ختم ہوا انہیں انجیل ملی جس میں بعض احکام توراۃ کے خلاف بھی تھے اسی لئے انہیں نئے نئے معجزات بھی ملے جیسے مردوں کو بحکم رب العزت زندہ کردینا مٹی سے پرند بنا کر اس میں پھونک مار کر بحکم رب العزت اڑا دینا، بیماروں کو اپنے دم جھاڑے سے رب العزت کے حکم سے اچھا کردینا، بعض بعض غیب کی خبریں رب العزت کے معلوم کرانے سے دینا وغیرہ آپ کی تائید پر روح القدس یعنی حضرت جبرائیل کو لگا دیا لیکن بنی اسرائیل اپنے کفر اور تکبر میں اور بڑھ گئے اور زیادہ حسد کرنے لگے اور ان تمام انبیاء کرام کے ساتھ برے سلوک سے پیش آئے۔ کہیں جھٹلاتے اور کہیں مار ڈالتے تھے محض اس بنا پر کہ انبیاء کی تعلیم ان کی طبیعتوں کے خلاف ہوا کرتی تھی ان کی رائے اور انہیں ان کے قیاسات اور ان کے بنائے ہوئے اصول و احکام ان کی قبولیت سے ٹکراتے تھے اس لئے دشمنی پر تل جاتے تھے حضرت عبداللہ بن مسعود حضرت عبداللہ بن عباس محمد بن کعب اسماعیل بن خالد سدی ربیع بن انس عطیہ عوفی اور قتادہ وغیرہ کا قول یہی ہے کہ روح القدس سے مراد حضرت جبرائیل ہیں جیسے قرآن شریف میں اور جگہ ہے آیت (نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُ ) 26 ۔ الشعرآء :193) یعنی اسے لے کر روح امین اترے ہیں صحیح بخاری میں تعلیقاً مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حسان شاعر کے لئے مسجد میں منبر رکھوایا وہ مشرکین کی ہجو کا جواب دیتے تھے اور آپ ان کے لئے دعا کرتے تھے کہ اے اللہ عزوجل حسان کی مدد روح القدس سے فرما جیسے کہ یہ تیرے نبی کی طرف سے جواب دیتے ہیں بخاری و مسلم کی ایک اور حدیث میں ہے کہ حضرت حسان (رض) خلافت فاروقی کے زمانے میں ایک مرتبہ مسجد نبوی میں کچھ اشعار پڑھ رہے تھے حضرت عمر نے آپ کی طرف تیز نگاہیں اٹھائیں تو آپ نے فرمایا میں تو اس وقت بھی ان شعروں کو یہاں پڑھتا تھا جب یہاں تم سے بہتر شخص موجود تھے پھر حضرت ابوہریرہ (رض) کی طرف دیکھ کر فرمایا ابوہریرہ تمہیں اللہ کی قسم کیا تم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے نہیں سنا ؟ کہ اے حسان تو مشرکوں کے اشعار کا جواب دے اے اللہ تعالیٰ تو حسان کی تائید روح القدس سے کر۔ حضرت ابوہریرہ نے فرمایا ہاں اللہ کی قسم میں نے حضور سے یہ سنا ہے بعض روایتوں میں یہ بھی ہے کہ حضور نے فرمایا حسان تم ان مشرکین کی ہجو کرو جبرائیل بھی تمہارے ساتھ ہیں حضرت حسان کے شعر میں بھی جبرائیل کو روح القدس کہا گیا ہے ایک اور حدیث میں ہے کہ جب یہودیوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روح کی بابت پوچھا تو آپ نے فرمایا تمہیں اللہ کی قسم اللہ کی نعمتوں کو یاد کر کے کہو کیا خود تمہیں معلوم نہیں کہ وہ جبرائیل ہیں اور وہی میرے پاس بھی وحی لاتے ہیں ان سب نے کہا بیشک (ابن اسحاق) ابن حبان میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں جبرائیل (علیہ السلام) نے میرے دل میں کہا کہ کوئی شخص اپنی روزی اور زندگی پوری کئے بغیر نہیں مرتا۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور دنیا کمانے میں دین کا خیال رکھو بعض نے روح القدس سے مراد اسم اعظم لیا ہے بعض نے کہا ہے فرشتوں کا ایک سردار فرشتہ ہے بعض کہتے ہیں قدس سے مراد اللہ تعالیٰ اور روح سے مراد جبرائیل ہے کسی نے کہا ہے قدس یعنی برکت کسی نے کہا ہے پاک کسی نے کہا ہے روح سے مراد انجیل ہے جیسے فرمایا آیت (وَكَذٰلِكَ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا) 42 ۔ الشوری :52) یعنی اسی طرح ہم نے تیری طرف روح کی وحی اپنے حکم سے کی۔ امام ابن جریر (رح) کا فیصلہ یہی ہے کہ یہاں مراد روح القدس سے حضرت جبرائیل ہیں جیسے اور جگہ ہے اذ اید تک بروح القدس الخ اس آیت میں روح القدس کی تائید کے ذکر کے ساتھ کتاب و حکمت توراۃ و انجیل کے سکھانے کا بیان ہے معلوم ہوا کہ یہ اور چیز ہے اور وہ اور چیز علاوہ ازیں روانی عبارت بھی اس کی تائید کرتی ہے قدس سے مراد مقدس ہے جیسے حاتم جود اور رجل صدق میں روح القدس کہنے میں اور روح منہ کہنے میں قربت اور بزرگی کی ایک خصوصیت پائی جاتی ہے یہ اس لئے بھی کہا گیا ہے کہ یہ روح مردوں کی پیٹھوں اور حیض والے رحموں سے بےتعلق رہی ہے بعض مفسرین نے اس سے مراد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پاکیزہ روح لی ہے پھر فرمایا کہ ایک فرقے کو تم نے جھٹلایا اور ایک فرقے کو تم قتل کرتے ہو جھٹلانے میں ماضی کا صیغہ لائے لیکن قتل میں مستقبل کا اس لئے کہ ان کا حال آیت کے نزول کے وقت بھی یہی رہا چناچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے مرض الموت میں فرمایا کہ اس زہر آلود لقمہ کا اثر برابر مجھ پر رہا جو میں نے خیبر میں کھایا تھا اس وقت اس نے رک رک کر جان کاٹ دی۔