Skip to main content

وَ لَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَقَفَّيْنَا مِنْۢ بَعْدِهٖ بِالرُّسُلِۖ وَاٰتَيْنَا عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنٰتِ وَاَيَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِۗ اَفَكُلَّمَا جَاۤءَكُمْ رَسُوْلٌۢ بِمَا لَا تَهْوٰۤى اَنْفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْۚ فَفَرِيْقًا كَذَّبْتُمْ وَفَرِيْقًا تَقْتُلُوْنَ

And indeed
وَلَقَدْ
اور البتہ تحقیق
We gave
ءَاتَيْنَا
دی ہم نے
Musa
مُوسَى
موسیٰ کو
the Book
ٱلْكِتَٰبَ
کتاب
and We followed up from
وَقَفَّيْنَا مِنۢ
اور پے در پے بھیجے ہم نے
after him
بَعْدِهِۦ
اس کے پیچھے / بعد
with [the] Messengers
بِٱلرُّسُلِۖ
رسول
And We gave
وَءَاتَيْنَا
اور دیں ہم نے
Isa
عِيسَى
عیسیٰ
(the) son
ٱبْنَ
ابن
(of) Maryam
مَرْيَمَ
مریم کو
[the] clear signs
ٱلْبَيِّنَٰتِ
روشن نشانیاں
and We supported him
وَأَيَّدْنَٰهُ
اور قوت دی ہم نے اس کو / تائید کی ہم نے اس کی
(with)
بِرُوحِ
ساتھ روح
the Holy Spirit
ٱلْقُدُسِۗ
پاک کے
Is it (not) so (that) whenever
أَفَكُلَّمَا
کیا بھلا جب کبھی
came to you
جَآءَكُمْ
لایا تمہارے پاس
a Messenger
رَسُولٌۢ
کوئی رسول
with what
بِمَا
ساتھ اس کے جو
(does) not
لَا
نہیں
desire
تَهْوَىٰٓ
چاہتے تھے (اسے)
yourselves
أَنفُسُكُمُ
تمہارے دل
you acted arrogantly?
ٱسْتَكْبَرْتُمْ
تکبر کیا تم نے
So a party
فَفَرِيقًا
تو ایک گروہ کو
you denied
كَذَّبْتُمْ
جھٹلایا تم نے
and a party
وَفَرِيقًا
اور گروہ کو
you kill(ed)
تَقْتُلُونَ
تم قتل کرتے رہے

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

ہم نے موسیٰؑ کو کتاب دی، اس کے بعد پے در پے رسول بھیجے، آخر کار عیسیٰؑ ابن مریمؑ کو روشن نشانیاں دے کر بھیجا اور روح پاک سے اس کی مدد کی پھر یہ تمہارا کیا ڈھنگ ہے کہ جب بھی کوئی رسول تمہاری خواہشات نفس کے خلاف کوئی چیز لے کر تمہارے پاس آیا، تو تم نے اس کے مقابلے میں سرکشی ہی کی، کسی کو جھٹلایا اور کسی کو قتل کر ڈالا

English Sahih:

And We did certainly give Moses the Scripture [i.e., the Torah] and followed up after him with messengers. And We gave Jesus, the son of Mary, clear proofs and supported him with the Pure Spirit [i.e., the angel Gabriel]. But is it [not] that every time a messenger came to you, [O Children of Israel], with what your souls did not desire, you were arrogant? And a party [of messengers] you denied and another party you killed.

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

ہم نے موسیٰؑ کو کتاب دی، اس کے بعد پے در پے رسول بھیجے، آخر کار عیسیٰؑ ابن مریمؑ کو روشن نشانیاں دے کر بھیجا اور روح پاک سے اس کی مدد کی پھر یہ تمہارا کیا ڈھنگ ہے کہ جب بھی کوئی رسول تمہاری خواہشات نفس کے خلاف کوئی چیز لے کر تمہارے پاس آیا، تو تم نے اس کے مقابلے میں سرکشی ہی کی، کسی کو جھٹلایا اور کسی کو قتل کر ڈالا

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

اور بے شک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی اور اس کے بعد پے در پے رسول بھیجے اور ہم نے عیسیٰ بن مریم کو کھیلی نشانیاں عطا فرمائیں اور پاک روح سے اس کی مدد کی تو کیا جب تمہارے پاس کوئی رسول وہ لے کر آئے جو تمہارے نفس کی خواہش نہیں تکبر کرتے ہو تو ان (انبیاء) میں ایک گروہ کو تم جھٹلاتے ہو اور ایک گروہ کو شہید کرتے ہو -

احمد علی Ahmed Ali

اور بے شک ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور اس کے بعد بھی پے در پے رسول بھیجتے رہے اور ہم نے عیسیٰ مریم کے بیٹے کو نشانیاں دیں اور روح لقدس سے اس کی تائید کی کیا جب تمہارے پاس کوئی وہ حکم لایا جسے تمہارے دل نہیں چاہتے تھے تو تم اکڑ بیٹھے پھر ایک جماعت کو تم نے جھٹلایا اور ایک جماعت کو قتل کیا

أحسن البيان Ahsanul Bayan

ہم نے حضرت موسیٰ کو کتاب دی اور ان کے پیچھے اور رسول بھیجے اور ہم نے حضرت عیسیٰ ابن مریم کو روشن دلیلیں دیں اور روح القدس سے ان کی تائید کروائی (١) لیکن جب کبھی تمہارے پاس رسول وہ چیز لائے جو تمہاری طبیعتوں کے خلاف تھی، تم نے جھٹ سے تکبر کیا، پس بعض کو تو جھٹلا دیا اور بعض کو قتل بھی کر ڈالا (٢)۔

٨٧۔ ١ آیت ( وَقَفَّيْنَا مِنْ بَعْدِهٖ بِالرُّسُلِ )2۔بقرہ;87) کے معنی ہیں موسیٰ علیہ السلام کے بعد مسلسل پپیغمبر آتے رہے حتٰی کہ بنی اسرائیل میں انبیاء کا سلسلہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ختم ہو گیا (بَیِّنَاتِ) سے معجزات مراد ہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دئیے گئے تھے جیسے مردوں کو زندہ کرنا، کوڑھی اور اندھے کو صحت یاب کرنا وغیرہ جن کا ذکر ( وَرَسُوْلًا اِلٰى بَنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ ڏ اَنِّىْ قَدْ جِئْتُكُمْ بِاٰيَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ ۙ اَنِّىْٓ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّيْنِ كَهَيْــــَٔــةِ الطَّيْرِ فَاَنْفُخُ فِيْهِ فَيَكُوْنُ طَيْرًۢ ا بِاِذْنِ اللّٰهِ ۚ وَاُبْرِئُ الْاَكْمَهَ وَالْاَبْرَصَ وَاُحْىِ الْمَوْتٰى بِاِذْنِ اللّٰهِ ۚ وَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَاْكُلُوْنَ وَمَا تَدَّخِرُوْنَ ۙفِيْ بُيُوْتِكُمْ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ 49؀ۚ) 3۔آل عمران;49) میں ہے۔ ایک اور آیت میں حضرت جبرائیل علیہ السلام کو (رُوحُ لْآمین) فرمایا گیا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسان کے متعلق فرمایا (اے اللہ روح القدس سے اس کی تائید فرما) ایک دوسری حدیث میں ہے (جبرائیل علیہ السلام تمہارے ساتھ ہیں) معلوم ہوا کہ روح القدوس سے مراد حضرت جبرائیل ہی ہیں (فتح البیان ابن کثیر بحوالہ الحواشی)۔
٨٧۔٢ جیسے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جھٹلایا اور حضرت زکریا و یحیٰی علیہما السلام کو قتل کیا۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

اور ہم نے موسیٰ کو کتاب عنایت کی اور ان کے پیچھے یکے بعد دیگرے پیغمبر بھیجتے رہے اور عیسیٰ بن مریم کو کھلے نشانات بخشے اور روح القدس (یعنی جبرئیل) سے ان کو مدد دی۔تو جب کوئی پیغمبر تمہارے پاس ایسی باتیں لے کر آئے، جن کو تمہارا جی نہیں چاہتا تھا، تو تم سرکش ہو جاتے رہے، اور ایک گروہ (انبیاء) کو تو جھٹلاتے رہے اور ایک گروہ کو قتل کرتے رہے

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

ہم نے (حضرت) موسیٰ کو کتاب دی اور ان کے پیچھے اور رسول بھیجے اور ہم نے (حضرت) عیسیٰ ابن مریم کو روشن دلیلیں دیں اور روح القدس سے ان کی تائید کروائی۔ لیکن جب کبھی تمہارے پاس رسول وه چیز ﻻئے جو تمہاری طبیعتوں کے خلاف تھی، تم نے جھٹ سے تکبر کیا، پس بعض کو تو جھٹلادیا اور بعض کو قتل بھی کرڈاﻻ

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

البتہ ہم نے موسیٰ کو کتاب (توراۃ) عطا کی۔ اور ان کے بعد ہم نے پے در پے رسول بھیجے اور عیسیٰ بن مریم کو کھلی نشانیاں عطا کیں اور روح القدس کے ذریعہ سے ان کی تائید کی۔ (اس کے باوجود جب بھی کوئی رسول تمہاری خواہشات نفسی کے خلاف کوئی حکم لے کر تمہارے پاس آیا تو تم نے تکبر کیا سو بعض کو جھٹلایا اور بعض کو قتل کر ڈالا۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

ہم نے موسٰی علیھ السّلام کو کتاب دی ان کے پیچھے رسولوںکا سلسلہ قائم کیا. عیسٰی علیھ السّلام بن مریم کو واضح معجزات عطا کئےً روح القدس سے ان کی تائید کرادی لیکن کیا تمہارا مستقل طریقہ یہی ہے کہ جب کوئی رسول علیھ السّلام تمہاری خواہش کے خلاف کوئی پیغام لے کر آتا ہے تو اکڑ جاتے ہو اور ایک جماعت کو جھٹلا دیتے ہو اور ایک کو قتل کردیتے ہو

طاہر القادری Tahir ul Qadri

اور بیشک ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب (تورات) عطا کی اور ان کے بعد ہم نے پے در پے (بہت سے) پیغمبر بھیجے، اور ہم نے مریم (علیھا السلام) کے فرزند عیسیٰ (علیہ السلام) کو (بھی) روشن نشانیاں عطا کیں اور ہم نے پاک روح کے ذریعے ان کی تائید (اور مدد) کی، تو کیا (ہوا) جب بھی کوئی پیغمبر تمہارے پاس وہ (احکام) لایا جنہیں تمہارے نفس پسند نہیں کرتے تھے تو تم (وہیں) اکڑ گئے اور بعضوں کو تم نے جھٹلایا اور بعضوں کو تم قتل کرنے لگے،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

خود پرست اسرائیلی
بنی اسرائیل کے عناد وتکبر اور ان کی خواہش پرستی کا بیان ہو رہا ہے کہ توراۃ میں تحریف و تبدل کیا حضرت موسیٰ کے بعد انہی کی شریعت آنے والے انبیاء کی بھی مخالفت کی چناچہ فرمایا آیت (اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰىةَ فِيْهَا هُدًى وَّنُوْرٌ) 5 ۔ المائدہ ;44) یعنی ہم نے توراۃ نازل فرمائی جس میں ہدایت اور نور تھا جس پر انبیاء بھی خود بھی عمل کرتے اور یہودیوں کو بھی ان کے علماء اور درویش ان پر عمل کرنے کا حکم کرتے تھے غرض پے درپے یکے بعد دیگرے انبیاء کرام بنی اسرائیل میں آتے رہے یہاں تک کہ یہ سلسلہ عیسیٰ (علیہ السلام) پر ختم ہوا انہیں انجیل ملی جس میں بعض احکام توراۃ کے خلاف بھی تھے اسی لئے انہیں نئے نئے معجزات بھی ملے جیسے مردوں کو بحکم رب العزت زندہ کردینا مٹی سے پرند بنا کر اس میں پھونک مار کر بحکم رب العزت اڑا دینا، بیماروں کو اپنے دم جھاڑے سے رب العزت کے حکم سے اچھا کردینا، بعض بعض غیب کی خبریں رب العزت کے معلوم کرانے سے دینا وغیرہ آپ کی تائید پر روح القدس یعنی حضرت جبرائیل کو لگا دیا لیکن بنی اسرائیل اپنے کفر اور تکبر میں اور بڑھ گئے اور زیادہ حسد کرنے لگے اور ان تمام انبیاء کرام کے ساتھ برے سلوک سے پیش آئے۔ کہیں جھٹلاتے اور کہیں مار ڈالتے تھے محض اس بنا پر کہ انبیاء کی تعلیم ان کی طبیعتوں کے خلاف ہوا کرتی تھی ان کی رائے اور انہیں ان کے قیاسات اور ان کے بنائے ہوئے اصول و احکام ان کی قبولیت سے ٹکراتے تھے اس لئے دشمنی پر تل جاتے تھے حضرت عبداللہ بن مسعود حضرت عبداللہ بن عباس محمد بن کعب اسماعیل بن خالد سدی ربیع بن انس عطیہ عوفی اور قتادہ وغیرہ کا قول یہی ہے کہ روح القدس سے مراد حضرت جبرائیل ہیں جیسے قرآن شریف میں اور جگہ ہے آیت (نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُ ) 26 ۔ الشعرآء ;193) یعنی اسے لے کر روح امین اترے ہیں صحیح بخاری میں تعلیقاً مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حسان شاعر کے لئے مسجد میں منبر رکھوایا وہ مشرکین کی ہجو کا جواب دیتے تھے اور آپ ان کے لئے دعا کرتے تھے کہ اے اللہ عزوجل حسان کی مدد روح القدس سے فرما جیسے کہ یہ تیرے نبی کی طرف سے جواب دیتے ہیں بخاری و مسلم کی ایک اور حدیث میں ہے کہ حضرت حسان (رض) خلافت فاروقی کے زمانے میں ایک مرتبہ مسجد نبوی میں کچھ اشعار پڑھ رہے تھے حضرت عمر نے آپ کی طرف تیز نگاہیں اٹھائیں تو آپ نے فرمایا میں تو اس وقت بھی ان شعروں کو یہاں پڑھتا تھا جب یہاں تم سے بہتر شخص موجود تھے پھر حضرت ابوہریرہ (رض) کی طرف دیکھ کر فرمایا ابوہریرہ تمہیں اللہ کی قسم کیا تم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے نہیں سنا ؟ کہ اے حسان تو مشرکوں کے اشعار کا جواب دے اے اللہ تعالیٰ تو حسان کی تائید روح القدس سے کر۔ حضرت ابوہریرہ نے فرمایا ہاں اللہ کی قسم میں نے حضور سے یہ سنا ہے بعض روایتوں میں یہ بھی ہے کہ حضور نے فرمایا حسان تم ان مشرکین کی ہجو کرو جبرائیل بھی تمہارے ساتھ ہیں حضرت حسان کے شعر میں بھی جبرائیل کو روح القدس کہا گیا ہے ایک اور حدیث میں ہے کہ جب یہودیوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روح کی بابت پوچھا تو آپ نے فرمایا تمہیں اللہ کی قسم اللہ کی نعمتوں کو یاد کر کے کہو کیا خود تمہیں معلوم نہیں کہ وہ جبرائیل ہیں اور وہی میرے پاس بھی وحی لاتے ہیں ان سب نے کہا بیشک (ابن اسحاق) ابن حبان میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں جبرائیل (علیہ السلام) نے میرے دل میں کہا کہ کوئی شخص اپنی روزی اور زندگی پوری کئے بغیر نہیں مرتا۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور دنیا کمانے میں دین کا خیال رکھو بعض نے روح القدس سے مراد اسم اعظم لیا ہے بعض نے کہا ہے فرشتوں کا ایک سردار فرشتہ ہے بعض کہتے ہیں قدس سے مراد اللہ تعالیٰ اور روح سے مراد جبرائیل ہے کسی نے کہا ہے قدس یعنی برکت کسی نے کہا ہے پاک کسی نے کہا ہے روح سے مراد انجیل ہے جیسے فرمایا آیت (وَكَذٰلِكَ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا) 42 ۔ الشوری ;52) یعنی اسی طرح ہم نے تیری طرف روح کی وحی اپنے حکم سے کی۔ امام ابن جریر (رح) کا فیصلہ یہی ہے کہ یہاں مراد روح القدس سے حضرت جبرائیل ہیں جیسے اور جگہ ہے اذ اید تک بروح القدس الخ اس آیت میں روح القدس کی تائید کے ذکر کے ساتھ کتاب و حکمت توراۃ و انجیل کے سکھانے کا بیان ہے معلوم ہوا کہ یہ اور چیز ہے اور وہ اور چیز علاوہ ازیں روانی عبارت بھی اس کی تائید کرتی ہے قدس سے مراد مقدس ہے جیسے حاتم جود اور رجل صدق میں روح القدس کہنے میں اور روح منہ کہنے میں قربت اور بزرگی کی ایک خصوصیت پائی جاتی ہے یہ اس لئے بھی کہا گیا ہے کہ یہ روح مردوں کی پیٹھوں اور حیض والے رحموں سے بےتعلق رہی ہے بعض مفسرین نے اس سے مراد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پاکیزہ روح لی ہے پھر فرمایا کہ ایک فرقے کو تم نے جھٹلایا اور ایک فرقے کو تم قتل کرتے ہو جھٹلانے میں ماضی کا صیغہ لائے لیکن قتل میں مستقبل کا اس لئے کہ ان کا حال آیت کے نزول کے وقت بھی یہی رہا چناچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے مرض الموت میں فرمایا کہ اس زہر آلود لقمہ کا اثر برابر مجھ پر رہا جو میں نے خیبر میں کھایا تھا اس وقت اس نے رک رک کر جان کاٹ دی۔