طٰہٰ آية ۱۲۹
وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ لَــكَانَ لِزَامًا وَّاَجَلٌ مُّسَمًّىۗ
طاہر القادری:
اور اگر آپ کے رب کی جانب سے ایک بات پہلے سے طے نہ ہو چکی ہوتی اور (ان کے عذاب کے لئے قیامت کا) وقت مقرر نہ ہوتا تو (ان پر عذاب کا ابھی اترنا) لازم ہو جاتا،
English Sahih:
And if not for a word that preceded from your Lord, it [i.e., punishment] would have been an obligation [due immediately], and [if not for] a specified term [decreed].
1 Abul A'ala Maududi
اگر تیرے رب کی طرف سے پہلے ایک بات طے نہ کر دی گئی ہوتی اور مہلت کی ایک مدّت مقرّر نہ کی جا چکی ہوتی تو ضرور اِن کا بھی فیصلہ چکا دیا جاتا
2 Ahmed Raza Khan
اور اگر تمہارے رب کی ایک بات نہ گزر چکی ہوتی تو ضرور عذاب انھیں لپٹ جاتا اور اگر نہ ہوتا ایک وعدہ ٹھہرایا ہوا
3 Ahmed Ali
اور اگر تیرے رب کی طرف سے ایک بات پہلے طے شدہ نہ ہوتی اور معیاد معین نہ ہوتی تو عذاب لازمی طور پر ہوتا
4 Ahsanul Bayan
اگر تیرے رب کی بات پہلے ہی سے مقرر شدہ اور وقت معین کردہ نہ ہوتا تو اسی وقت عذاب آچمٹتا (١)۔
١٢٩۔١ یعنی یہ مکذبین اور مشرکین مکہ دیکھتے نہیں کہ ان سے پہلے کئی امتیں گزر چکی ہیں، جن کے جانشین ہیں اور ان کی رہائش گاہوں سے گزر کر آگے جاتے ہیں انہیں ہم اسکے جھٹلانے کی وجہ سے ہلاک کر چکے ہیں، جن کے عبرت ناک انجام میں اہل عقل و دانش کے لئے بڑی نشانیاں ہیں، لیکن اہل مکہ ان سے آنکھیں بند کئے ہوئے انہی کی روش اپنائے ہوئے ہیں۔ اگر اللہ تعالٰی نے پہلے سے یہ فیصلہ نہ کیا ہوتا کہ وہ تمام حجت کے بغیر اور اس مدت کے آنے سے پہلے جو وہ مہلت کے لئے کسی قوم کو عطا فرماتا ہے، کسی کو ہلاک نہیں کرتا۔ تو فورا! انہیں عذاب الٰہی آ چمٹتا اور یہ ہلاکت سے دو چار ہو چکے ہوتے۔ مطلب یہ ہے کہ تکذیب رسالت کے باوجود اگر ان پر اب تک عذاب نہیں آیا تو یہ سمجھیں کہ آئندہ بھی نہیں آئے گا بلکہ ابھی ان کو اللہ کی طرف سے مہلت ملی ہوئی ہے، جیسا کہ وہ ہر قوم کو دیتا ہے۔ مہلت عمل ختم ہو جانے کے بعد ان کو عذاب الٰہی سے بچانے والا کوئی نہیں ہوگا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور اگر ایک بات تمہارے پروردگار کی طرف سے پہلے صادر اور (جزائے اعمال کے لئے) ایک میعاد مقرر نہ ہوچکی ہوتی تو (نزول) عذاب لازم ہوجاتا
6 Muhammad Junagarhi
اگر تیرے رب کی بات پہلے ہی سے مقرر شده اور وقت معین کرده نہ ہوتا تو اسی وقت عذاب آچمٹتا
7 Muhammad Hussain Najafi
اور (اے رسول(ص)) اگر آپ کے پروردگار کی طرف سے ایک بات طے نہ کر دی گئی ہوتی اور ایک (مہلت کی) مدت معین نہ ہو چکی ہوتی تو (عذاب) لازمی طور پر آچکا ہوتا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور اگر آپ کے رب کی طرف سے بات طے نہ ہوچکی ہوتی اور وقت مقرر نہ ہوتا تو عذاب لازمی طور پر آچکا ہوتا
9 Tafsir Jalalayn
اور اگر ایک بات تمہارے پروردگار کی طرف سے پہلے صادر اور (جزائے اعمال کے لئے) ایک میعاد مقرر نہ ہوچکی ہوتی تو (نزول) عذاب لازم ہوچکا ہوتا
آیت نمبر 129 تا 135
ترجمہ : اگر تیرے رب کی بات (حکم ازلی) یعنی ان سے عذاب کو قیامت تک مؤخر کرنے کی بات پہلے سے طے شدہ اور وقت معین نہ ہوتا تو ہلاکت دنیا ہی میں (فوری طور پر) آچمٹتی مُسَمًّی مضروب لہ کے معنی میں ہے (یعنی مقرر کردہ) اور اَجَلٌ مُسمَّی کا عطف کان کے اندر ضمیر مستتر پر ہے اور کان کی خبر کا فصل تاکید کے قائم مقام ہے، سو آپ ان باتوں پر صبر کیجئے یہ حکم آیت قتال سے منسوخ ہے، اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ پاکی بیان کرتے رہئے اور نماز پڑھتے رہئے یعنی ایسی تسبیح کرتے رہئے کہ جو حمد پر مشتمل ہو طلوع شمس سے پہلے فجر کی نماز اور غروب شمس سے پہلے عصر کی نماز اور رات کے واقات میں تسبیح بیان کیجئے یعنی مغرب اور عشاء کی نماز پڑھئے اور دن کے اطراف میں اور اطراف النہار کا عطف من آناء اللیل کے محل پر ہے جو منصوب ہے یعنی ظہر کی نماز پڑھئے اس کا وقت زوال شمس سے داخل ہوتا ہے اور وہ (نہار) کے نصف اول کا (آخری) اور نصف ثانی کا (ابتدائی) کنارہ ہے تاکہ آپ عطا کردہ ثواب سے خوش ہوں اور آپ ہرگز ان چیزوں کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھئے جن سے ہم نے کافروں کے مختلف گروہوں کو ان کی آزمائش کے لئے متمتع کر رکھا ہے بایں طور کہ وہ سرکشی کریں یہ (محض) دنیوی زندگی کی زینت اور رونق ہے، اور جنت میں تیرے رب کا عطیہ اس سے جو ان کو دنیا میں دیا گیا ہے بدر جہا بہتر اور پائیدار ہے اور اپنے متعلقین کو نماز کا حکم کرتے رہئے اور کود بھی اس کے پابند رہئے اور ہم آپ سے معاش کا سوال نہیں کرتے یعنی ہم آپ کو اپنے لئے اور دوسروں کے لئے معاش کا مکلّف نہیں بناتے رزق تو آپ کو ہم دیں گے اور انجام یعنی جنت تو اہل تقویٰ کے لئے ہے اور مشرک کہتے ہیں کہ محمد ہمارے پاس اپنے رب کے پاس سے وہ نشانی کیوں نہیں لاتے جس کا وہ مطالبہ کرتے ہیں اَوَلم یاتیھِمْ تا اور یا کے ساتھ ہے کیا ان کے پاس پہلی کتابوں کا بیان نہیں پہنچا وہ (بیان) کہ قرآن اس پر مشتمل ہے اور وہ بیان امم ماضیہ کی خبریں اور رسولوں کی تکذیب کی وجہ سے ان کو ہلاک کرنے کی خبریں ہیں اور اگر ہم ان کو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد سے پہلے کسی عذاب کے ذریعہ ہلاک کردیتے تو یہ لوگ قیامت کے دن یوں کہتے اے ہمارے رب آپ نے ہمارے پاس کوئی رسول کیوں نہیں بھیجا تھا ؟ کہ ہم اس کے لائے ہوئے آپ کے احکام پر چلتے قبل اس کے کہ ہم قیامت میں جہنم میں ذلیل اور رسوا ہوتے تو آپ ان سے کہہ دیجئے کہ ہم اور تم سب کے سب منتظر ہیں کہ انجام کیا ہوتا ہے ؟ اور انتظار کرلو عنقریب قیامت کے دن تم کو معلوم ہوجائے گا کہ راہ راستی والے کون ہیں ؟ اور ضلالت سے بچ کر کون ہدایت پر پہنچا ؟ ہم یا تم (یعنی ہر ایک انجام کا منتظر ہے پس تم بھی انتظار میں رہو)
تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد
قولہ : لَولاَ کلمۃ سَبَقَتْ الخ اگر اللہ تعالیٰ کے علم ازلی میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اکرام میں آپ کی امت سے عام عذاب کی تاخیر مقدر نہ ہوچکی ہوتی تو امم ماضیہ کے مانند اس امت پر بھی عام عذاب نازل ہوگیا ہوتا، لہٰذا یہ تاخیر امہال ہے نہ اہمال، تاکہ کفار بقیہ عمر میں گزشتہ کوتاہیوں کی تلافی کرسکیں۔
قولہ : معطوف علی الضمیر المستتر فی کان مطلب یہ ہے کہ واجلٌ مسمّٰی کا عطف کان کی ضمیر مستتر پر ہے، تقدیر عبارت یہ ہے وکان الاِھْلاک والاجل المعین لہٗ لزاماً اور لزامًا مصدر بمعنی لازمًا ہے۔
سوال : اِھْلاک اور اَجَلٌ مُّسَمّٰی دونوں کَانَ کے اسم ہیں تو اس کی خبر بھی تثنیہ ہونی چاہیے لہٰذا لِزَامًا کے بجائے لازمین ہونی چاہیے۔
جواب : لزامًا اگرچہ یہاں لازمًا کے معنی میں ہے اگر اصل میں مصدر ہے لہٰذا اس کا تثنیہ کے معنی میں استعمال درست ہے۔
قولہ : قام الفصل یہ بھی ایک سوال مقدر کا جواب ہے، سوال یہ ہے کہ جب ضمیر مرفوع متصل پر عطف ہوتا ہے تو ضمیر مرفوع کی تاکید ضمیر مرفوع منفصل کے ذریعہ ضروری ہوتی ہے، یہاں کان کی ضمیر مستتر اھلاک پر اجلٌ مسمّٰی کا عطف ہو رہا ہے حالانکہ یہاں ضمیر مستتر کی تاکید ضمیر مرفوع منفصل کے ذریعہ نہیں ہے، جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ عطف کے جواز کی ایک صورت اور ہے اور وہ یہ ہے کہ ضمیر منفصل کے علاوہ اگر وہ کسی چیز کا فصل واقع ہوجائے تب بھی عطف درست ہوجاتا ہے، یہاں کان کی خبر لزامًا کا فصل آنے کی وجہ سے عطف درست ہوگیا ہے۔
قولہ : واَجَلٌ مسمّٰی اجلٌ کے مرفوع ہونے کی دو وجہ ہوسکتی ہیں ایک تو یہی کہ اَجَلٌ کا عطف کان کی ضمیر مستتر پر ہو، مفسر علام نے اسی کو اختیار کیا ہے، دوسری وجہ یہ ہے کہ اجلٌ کا عطف کلمۃً ٌپر ہو اور لولا کے تحت میں داخل ہو، تقدیر عبارت یہ ہوگی لولا کلمۃ واَجَلٌ مسمّٰی لکان العذاب لا زماً لھم۔ قولہ : فاصبر علیٰ ما یقولون فاصبر میں فاجزائیہ ہے شرط محذوف ہے تقدیر عبارت یہ ہے ای اذا کان الامر علی ما ذکر من اَنّ تاخیر عذابھم لیس باھمال بل ھو امھال وھو لازم لھم البتۃ فاصبر علیٰ ما یقولون من کلمات الکفر من آناء اللیل آناء جمع اِنًا بمعنی وقت اور مِن بمعنی فی ای فی آناء اللیل۔
قولہ : واَطراف النھار ای صلّ اطراف النھار من آناء اللیل کے محل پر عطف ہونے کی وجہ سے منصوب ہے اور من آناء اللیل یسبّح کی وجہ سے منصوب ہے وَلاَ تمُدَّنَّ عَیْنَیْکَ کا عطف فاصبر پر ہے۔ قولہ : ازواجًا متَّعنَا کا مفعول بہ ہونے کی وجہ سے منصوب ہے اور بہٖ کی ضمیر مجرور جو کہ ما کی طرف راجع ہے سے حال واقع ہونے کی وجہ سے بھی ازواجًا منصوب ہوسکتا ہے۔ قولہ : زھرۃَ الحیوٰۃِ الدنیا زھرۃً کے منصوب ہونے کی چند وجوہ ہوسکتی ہیں (1) مَتَّعْنَا کا مفعول ثانی ہونے کی وجہ سے مفعول اول اَزْوَاجًا ہے اور مَتَّعْنَا چونکہ اعطینا کے معنی کو متضمن ہے اس لئے متعدی بدو مفعول ہوگا (2) ازواجًا سے بدل ہونے کی وجہ سے یا تو حذف مضاف کے ساتھ ای ذوی زھرۃٍ یا مبالغۃً (3) فعل محذوف کی وجہ سے منصوب ہو جس پر مَتَّعْنَا دلالت کر رہا ہے ای جعلنا زھَرَۃً (4) منصوب علی الذم ای اَذُمُّ زھرۃَ الحیوٰۃِ الدنیا ان کے علاوہ پانچ وجوہ نصب اور ہوسکتی ہیں اختصاراً ترک کردیا گیا۔
قولہ : بِاَنْ یَطْغَوْا باسببیہ ہے ای نَفْتِنَھُمْ بِسَبَبِ طُغْیَانِھِمْ بَھْجَۃ رونق خوبصورتی (س، ف، ک) یَقْتَرِحُوْنَہٗ اِقْتِرَاحٌ خواہش کرنا، تجویز پیش کرنا، مطالبہ کرنا۔ قولہ : اَوَلَمْ یَاْتِیْھِمْ ہمزہ محذوف پر داخل ہے اور واو عاطفہ ہے ای اَعَمُوْا وَلَمْ تَاتِیْھِمْ ۔ قولہ : وَلَوْ اَنَّا اَھْلَکْنٰھُمْ یہ جملہ مستانفہ ہے ماقبل کی تاکید کے لئے لایا گیا ہے۔ قولہ : فَنَتَّبِعَ لولا استفہامیہ کا جواب ہے اَن مقدر کی وجہ سے منصوب ہے ای فأنْ نَتَّبِعَ
قولہ : مَنْ اَصْحابُ الصراط مبتداء خبر ہیں، علامہ محلی نے مَنْ اھتَدیٰ کی تفسیر مِنَ الضلالَۃِ سے کرکے اصحٰب الصراط السویِّ اور مَنِ اھْتدیٰ میں فرق کی جانب اشارہ کردیا، اصحاب الصراط وہ لوگ ہیں جو شروع ہی سے ہدایت پر ہوں جیسے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور وہ لوگ جو اسلام کی حالت میں بالغ ہوئے جیسے حضرت علی (رض) وغیرہ۔ وَمَنِ اھْتدیٰ وہ لوگ جن پر کفر کا زمانہ گزرا اور بعد میں اسلام لائے ومَنِ اھتدیٰ میں مَنْ استفہامیہ ہے اور محل خبر میں بھی ہوسکتا ہے الصراط پر عطف کرتے ہوئے ای اصحاب من اھتدیٰ ۔
تفسیر و تشریح
لَوْلا کلمۃ سبقت یہ مشرکین و مکذبین مکہ دیکھتے نہیں کہ ان سے پہلے کئی امتیں گزر چکی ہیں جن کے یہ جانشین ہیں اور ان کی رہائش گاہوں سے گزر کر آتے جاتے ہیں، انہیں ہم اس تکذیب کی وجہ سے ہلاک کرچکے ہیں، جن کے عبرتناک انجام میں اہل عقل و دانش کے لئے بڑی نشانیاں ہیں، لیکن یہ اہل مکہ ان سے آنکھیں بند کئے ہوئے انہی کی روش اپنائے ہوئے ہیں، اگر اللہ نے پہلے سے یہ فیصلہ نہ کیا ہوتا کہ وہ اتمام حجت کے بغیر اور اس مدت کے آنے سے پہلے جو وہ مہلت کے لئے کسی قوم کو عطا فرماتا ہے کسی کو ہلاک نہیں کرتا تو فوراً انہیں عذاب الٰہی آچمٹتا اور یہ ہلاکت سے دو چار ہوچکے ہوتے، مطلب یہ ہے کہ تکذیب رسالت کے باوجود اگر ان پر اب تک عذاب نہیں آیا تو یہ نہ سمجھیں کہ آئندہ بھی نہیں آئے گا، بلکہ ابھی ان کو اللہ کی طرف سے مہلت ملی ہوئی ہے جیسا کہ وہ ہر قوم کو دیتا ہے، مدت مہلت ختم ہوجانے کے بعد ان کو عذاب الٰہی سے بچانے والا کوئی نہ ہوگا۔
فاصبر علی ما یقولون اہل مکہ جو ایمان سے بھاگنے کے طرح طرح کے حیلے بہانے تلاش کرتے تھے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو برے القاب سے یاد کرتے تھے کوئی ساحر کہتا تھا تو کوئی کاذب کہہ کر پکارتا تھا تو کوئی کاہن نام رکھتا تھا تو کوئی شاعر کے لقب سے نوازتا تھا جس سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فطری طور پر بڑی تکلیف ہوتی تھی، قرآن کریم نے ان اذیتوں کا علاج دو طریقہ سے تجویز فرمایا ہے اول یہ کہ ان کے کہنے کی طرف توجہ نہ دیں بلکہ صبر کریں، دوسری چیز اللہ کی عبادت میں مشغول رہیں، فسبح بحمد ربک میں اسی دوسرے علاج کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
فسبح بحمد ربک تسبیح کے معنی اللہ کی پاکی بیان کرنے کے ہیں اور یہ عام ہے اس سے زبانی تسبیح وتحمید بھی مراد ہوسکتی ہے اور نماز بھی مراد ہوسکتی ہے اس لئے کہ نماز قولی اور فعلی دونوں قسم کی تسبیح پر مشتمل ہوتی ہے بعض مفسرین نے آئندہ آیت سے نماز کے پانچ اوقات مراد لئے ہیں، اور دیگر حضرات نے مطلقاً وقت مراد لیا ہے، یعنی ہر وقت ذکر لسانی میں مشغول رہنا مراد ہے۔
لا تمدن عینیک اس آیت میں اگرچہ خطاب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے مگر مراد امت ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ مالداروں اور سرمایہ داروں کو قسم قسم کی دنیوی رونق اور طرح طرح کی نعمتیں حاصل ہیں، آپ ان کی طرف مطلقاً توجہ نہ کیجئے، یہ سب نعمتیں فانی اور چند روزہ ہیں، اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو اور آپ کے ذریعہ مومنین کو عطا فرمائیں ہیں وہ کافروں کی ان چند روزہ رونق حیات سے بدرجہا بہتر ہیں۔
حدیث ایلاء میں آیا ہے کہ حضرت عمر (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے دیکھا کہ آپ ایک کھرّی چٹائی پر لیٹے ہوئے ہیں اور بےسروسامانی کا یہ عالم ہے کہ گھر میں چمڑے کی دو چیزوں کے علاوہ کچھ نہیں ہے، حضرت عمر (رض) کی آنکھوں میں بےاختیار آنسو آگئے، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت فرمایا عمر کیا بات ہے ؟ روتے کیوں ہو ؟ عرض کیا یا رسول اللہ ! قیصر و کسریٰ کس طرح آرام و راحت کی زندگی گزار رہے ہیں اور آپ کا باوجود اس بات کے کہ آپ افضل الخلق ہیں یہ حال ؟ فرمایا عمر کیا تم اب تک شک میں ہو ؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کے آرام کی چیزیں دنیا ہی میں دیدی گئی ہیں یعنی آخرت میں ان کے لئے کچھ نہیں۔ (بخاری شریف سورة تحریم، مسلم باب الایلاء)
ابن ابی حاتم نے بروایت ابو سعید خدری (رض) روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ :
اِنَّ اخوَفَ ما اخافُ علیکم مَا یَفْتَحُ اللہ لکم من زھرۃ الدنیا۔ مجھے تم لوگوں کے بارے میں جس چیز کا سب سے زیادہ خوف اور خطرہ ہے وہ دنیا کی دولت اور زینت ہے جو تم پر کھولدی جائے گی۔ (ابن کثیر)
کاشفی نے مذکورہ آیت کے شان نزول کے سلسلہ میں ابو رافع سے ایک روایت نقل فرمائی ہے جس کا ما حصل حسب ذیل ہے، ابو رافع فرماتے ہیں کہ ایک روز ایک مہمان آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا، اتفاق سے گھر میں کوئی ایسی چیز موجود نہیں تھی کہ جس سے مہمان کی خاطر تواضع کی جاسکتی، حضرت ابو رافع فرماتے ہیں کہ مجھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک یہودی کے پاس بھیجا، اور فرمایا کہ یہودی سے کہنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ ہمارے گھر مہمان آیا ہے اور گھر میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے کہ مہمان کی تواضع کی جاسکے، لہٰذا اتنی مقدار (دوصاع) آٹا ادھار فروخت کردو، ماہ رجب کے شروع میں قیمت ادا کردی جائے گی، ابو رافع فرماتے ہیں کہ میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پیغام یہودی کو پہنچا دیا، یہودی نے جواب دیا ہم ادھار نہیں کرتے ہاں البتہ کوئی چیز رہن رکھ دو تو دے سکتے ہیں، ابو رافع فرماتے ہیں کہ میں نے پوری صورت حال آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کردی، آپ نے فرمایا وَاللہِ اِنی لَاَمِیْنٌ فی السماءِ واَمینٌ فِی الارضِ اگر وہ میرے ساتھ معاملہ کرتا تو میں اس کا حق ادا کردیتا چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی زرہ عنایت فرمائی اور میں نے وہ زرہ یہودی کے یہاں رہن رکھ کردو صاع آٹا لے لیا، اس پر یہ آیت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی کے لئے نازل ہوئی۔ (روح البیان)
وامر اھلک بالصلوٰۃ الخ اس آیت میں اہل سے مراد پوری امت ہے جس میں خاص اپنے اہل و عیال اور متعلقین بھی داخل ہیں، بظاہر اس آیت میں دو حکم ہیں ایک اپنے اہل و عیال کو نماز کی تاکید اور دوسرے خود پابندی، دراصل بات یہ ہے کہ انسان کی خود اپنی نماز کی پابندی کے لئے ضروری ہے کہ گھر کا ماحول دیندار ہو اور اہل خانہ اور متعلقین نماز کے پابند ہوں اس لئے کہ اگر ماحول اس کے خلاف ہو تو طبعی طور پر انسان خود بھی کوتاہی کا شکار ہوجاتا ہے، جب مذکورہ آیت نازل ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
روزانہ صبح کو نماز کے وقت حضرت علی (رض) اور فاطمہ کے مکان پر جا کر آواز دیتے تھے ” الصلوٰۃ الصلوٰۃ “ (قرطبی)
قولہ : لانسئلک رِزْقًا یعنی ہم تم سے یہ مطالبہ نہیں کرتے کہ تم اپنا اور اپنے اہل و عیال کا رزق اپنے زور علم و عمل سے پیدا کرو بلکہ یہ معاملہ ہم نے اپنے دست قدرت میں رکھا ہے، انسان زیادہ سے زیادہ کسب معاش کے اسباب کو اختیار کرسکتا ہے اس کے آگے کچھ نہیں کرسکتا، ایک کاشتکار زمین کو قابل کاشت بنا کر اس میں بیج ڈال دیتا ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتا، آگے پورا کام قدرت کا ہے چاہے اس کو اگائے اور بار آور کرے یا زمین ہی میں سڑا کر مٹی کر دے، غرضیکہ روزی کا مسئلہ قدرت نے اپنے اختیار میں رکھا ہے البتہ جو شخص عبادت خداوندی میں مشغول ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے یہ بار محنت بھی آسان فرما دیتے ہیں۔ (ترمذی)
قولہ : فستعلمون الخ یعنی آج تو اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کو زبان دی ہوئی ہے ہر ایک اپنے طریقہ اور اپنے عمل کو بہتر اور صحیح ہونے کا دعویٰ کرسکتا ہے لیکن یہ دعویٰ کچھ کام آنے والا نہیں۔
بہتر اور صحیح طریقہ وہی ہوسکتا ہے جو اللہ کے نزدیک مقبول اور صحیح ہو اور اس کا پتہ قیامت کے روز سب کو لگ جائیگا کہ کون غلطی اور گمراہی پر تھا اور کون صحیح اور سیدھے راستہ پر ؟
10 Tafsir as-Saadi
اس آیت کی تفسیر اگلی آیت کے ساتھ ملاحظہ کیجئے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur agar tumharay rab ki taraf say aik baat pehlay hi tey naa kerdi gaee hoti , aur ( uss kay nateejay mein azab ki ) aik miyaad muqarrar naa hoti , to lazimi tor per azab ( unn ko ) chimat chuka hota .