Skip to main content

قَالَ فَمَا خَطْبُكَ يٰسَامِرِىُّ

He said
قَالَ
کہا
"Then what
فَمَا
تو کیا ہے
(is) your case
خَطْبُكَ
تیرا ماجرا
O Samiri?"
يَٰسَٰمِرِىُّ
اے سامری

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

موسیٰؑ نے کہا "اور سامری، تیرا کیا معاملہ ہے؟"

English Sahih:

[Moses] said, "And what is your case, O Samiri?"

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

موسیٰؑ نے کہا "اور سامری، تیرا کیا معاملہ ہے؟"

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

موسیٰ نے کہا اب تیرا کیا حال ہے اے سامری!

احمد علی Ahmed Ali

کہا اے سامری تیرا کیا معاملہ ہے

أحسن البيان Ahsanul Bayan

موسیٰ (علیہ السلام) نے پوچھا سامری تیرا کیا معاملہ ہے۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

پھر (سامری سے) کہنے لگے کہ سامری تیرا کیا حال ہے؟

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

موسیٰ (علیہ السلام) نے پوچھا سامری تیرا کیا معاملہ ہے

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

(بعد ازاں) کہا اے سامری! تیرا کیا معاملہ ہے؟

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

پھر موسٰی نے سامری سے کہا کہ تیرا کیا حال ہے

طاہر القادری Tahir ul Qadri

(موسٰی علیہ السلام نے) فرمایا: اے سامری! (بتا) تیرا کیا معاملہ ہے،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

گائے پرست سامری اور بچھڑا۔
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے سامری سے پوچھا کہ تو نے یہ فتنہ کیوں اٹھایا ؟ یہ شخص باجروکا رہنے والا تھا اس کی قوم گائے پرست تھی۔ اس کے دل میں گائے محبت گھر کئے ہوئے تھی۔ اس نے بنی اسرائیل کے ساتھ اپنے ایمان کا اظہار کیا تھا۔ اس کا نام موسیٰ بن ظفر تھا ایک روایت میں ہے یہ کرمانی تھا۔ ایک روایت میں ہے اس کی بستی کا نام سامرا تھا اس نے جواب دیا کہ جب فرعون کی ہلاکت کے لئے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) آئے تو میں نے ان کے گھوڑے کے ٹاپ تلے سے تھوڑی سی مٹی اٹھا لی۔ اکثر مفسرین کے نزدیک مشہور بات یہی ہے حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) آئے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو لے کر چڑھنے لگے تو سامری نے دیکھ لیا۔ اس نے جلدی سے ان کے گھوڑے کے سم تلے کی مٹی اٹھا لی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو جبرائیل (علیہ السلام) آسمان تک لے گئے اللہ تعالیٰ نے تورات لکھی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) قلم کی تحریر کی آواز سن رہے تھے لیکن جب آپ کو آپ کی قوم کی مصیبت معلوم ہوئی تو نیچے اتر آئے اور اس بچھڑے کو جلا دیا۔ لیکن اس کی اثر کی سند غریب ہے۔ اسی خاک کی چٹکی یا مٹھی کو اس نے بنی اسرائیل کے جمع کردہ زیوروں کے جلنے کے وقت ان میں ڈال دی۔ جو بصورت بچھڑا بن گئے اور چونکہ بیچ میں خلا تھا وہاں سے ہوا گھستی تھی اور اس سے آواز نکلتی تھی حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو دیکھتے ہی اس کے دل میں خیال گزرا تھا کہ میں اس کے گھوڑے کے ٹاپوں تلے کی مٹی اٹھالوں میں جو چاہوں گا وہ اس مٹی کے ڈالنے سے بن جائے گا اس کی انگلیاں اسی وقت سوکھ گئی تھی۔ جب بنی اسرائیل نے دیکھا کہ ان کے پاس فرعونیوں کے زیورات رہ گئے اور فرعونی ہلاک ہوگئے اور یہ اب ان کو واپس نہیں ہوسکتے تو غمزدہ ہونے لگے سامری نے کہا دیکھو اس کی وجہ سے تم پر مصیبت نازل ہوئی ہے اسے جمع کر کے آگ لگا دو جب وہ جمع ہوگئے اور آگ سے پگھل گئے تو اس کے جی میں آئی کہ وہ خاک اس پر ڈال دے اور اسے بچھڑے کی شکل میں بنالے چناچہ یہی ہوا۔ اور اس نے کہہ دیا کہ تمہارا اور موسیٰ (علیہ السلام) کا رب یہی ہے۔ یہی وہ جواب دے رہا ہے کہ میں نے اسے ڈال دیا اور میرے دل نے یہی ترکیب مجھے اچھی طرح سمجھا دی ہے۔ کلیم اللہ نے فرمایا تو نے نہ لینے کی چیز کو ہاتھ لگایا تیری سزا دنیا میں یہی ہے کہ اب نہ تو تو کسی کو ہاتھ لگا سکے نہ کوئی اور تجھے ہاتھ لگا سکے۔ باقی سزا تیری قیامت کو ہوگی جس سے چھٹکارا محال ہے ان کے بقایا اب تک یہی کہتے ہیں کہ نہ چھونا اب تو اپنے اللہ کا حشر بھی دیکھ لے جس کی عبادت پر اوندھا پڑا ہوا تھا کہ ہم اسے جلا کر راکھ کردیتے ہیں چناچہ وہ سونے کا بچھڑا اس طرح جل گیا جیسے خون اور گوشت والا بچھڑا جلے۔ پھر اس کی راکھ کو تیز ہوا میں دریا میں ذرہ ذرہ کر کے اڑا دیا۔ مروی ہے کہ اس نے بنی اسرائیل کی عورتوں کے زیور جہاں تک اس کے بس میں تھے لئے ان کا بچھڑا بنایا جسے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جلا دیا اور دریا میں اس کی خاک بہا دی جس نے بھی اس کا پانی پیا اس کا چہرہ زرد پڑگیا اس سے سارے گوسالہ پرست معلوم ہوگئے اب انہوں نے توبہ کی اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے دریافت کیا کہ ہماری توبہ کیسے قبول ہوگی ؟ حکم ہوا کہ ایک دوسروں کو قتل کرو۔ اس کا پورا بیان پہلے گزر چکا ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ تمہارا معبود یہ نہیں۔ مستحق عبادت تو صرف اللہ تعالیٰ ہے باقی تمام جہان اس کا محتاج ہے اور اس کے ماتحت ہے وہ ہر چیز کا عالم ہے، اسکے علم نے تمام مخلوق کا احاطہ کر رکھا ہے، ہر چیز کی گنتی اسے معلوم ہے۔ ایک ذرہ بھی اس کے علم سے باہر نہیں ہر پتے کا اور ہر دانے کا اسے علم ہے بلکہ اس کے پاس کی کتاب میں وہ لکھا ہوا موجود ہے زمین کے تمام جانداروں کو روزیاں وہی پہنچاتا ہے، سب کی جگہ اسے معلوم ہے سب کچھ کھلی اور واضح کتاب میں لکھا ہوا ہے۔ علم الٰہی محیط کل اور سب کو حاوی ہے، اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں۔