الانبیاء آية ۵۱
وَلَـقَدْ اٰتَيْنَاۤ اِبْرٰهِيْمَ رُشْدَهٗ مِنْ قَبْلُ وَ كُنَّا بِهٖ عٰلِمِيْنَۚ
طاہر القادری:
اور بیشک ہم نے پہلے سے ہی ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کے (مرتبہ کے مطابق) فہم و ہدایت دے رکھی تھی اور ہم ان (کی استعداد و اہلیت) کو خوب جاننے والے تھے،
English Sahih:
And We had certainly given Abraham his sound judgement before, and We were of him well-Knowing
1 Abul A'ala Maududi
اُس سے بھی پہلے ہم نے ابراہیمؑ کو اُس کی ہوش مندی بخشی تھی اور ہم اُس کو خوب جانتے تھے
2 Ahmed Raza Khan
اور بیشک ہم نے ابراہیم کو پہلے ہی سے اس کی نیک راہ عطا کردی اور ہم اس سے خبردار تھے،
3 Ahmed Ali
اور ہم نے پہلے ہی سے ابراھیم کو اس کی صلاحیت عطا کی تھی اور ہم اس سے واقف تھے
4 Ahsanul Bayan
یقیناً ہم نے اس سے پہلے ابراہیم کو اسکی سمجھ بوجھ بخشی تھی اور (١) ہم اسکے احوال سے بخوبی واقف تھے (٢)۔
٥١۔١ مِنْ قَبْلُ سے مراد تو یہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کو رشد و ہدایت (یا ہوشمندی) دینے کا واقع، موسیٰ علیہ السلام کو ابتدائے تورات سے پہلے کا ہے یہ مطلب ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کو نبوت سے پہلے ہی ہوش مندی عطا کر دی تھی۔
٥١۔٢ یعنی ہم جانتے تھے کہ وہ اس رشد کا اہل ہے اور وہ اس کا صحیح استعمال کرے گا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور ہم نے ابراہیمؑ کو پہلے ہی سے ہدایت دی تھی اور ہم ان کے حال سے واقف تھے
6 Muhammad Junagarhi
یقیناً ہم نے اس سے پہلے ابراہیم کو اس کی سمجھ بوجھ بخشی تھی اور ہم اس کے احوال سے بخوبی واقف تھے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور یقیناً ہم نے اس (عہد موسوی) سے پہلے ابراہیم (ع) کو (ان کے مقام کے مطابق) سوجھ بوجھ عطا فرمائی تھی اور ہم ان کو خوب جانتے تھے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور ہم نے ابراہیم علیھ السّلامکو اس سے پہلے ہی عقل سلیم عطا کردی تھی اور ہم ان کی حالت سے باخبر تھے
9 Tafsir Jalalayn
اور ہم نے ابراہیم کو پہلے ہی سے ہدایت دی تھی اور ہم ان کے حال سے واقف تھے۔
آیت نمبر 51 تا 67
ترجمہ : اور ہم نے پہلے ہی ابراہیم کو یعنی سن بلوغ کے پہنچنے سے پہلے ہوشمندی عطا فرمائی تھی اور ہم اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ وہ اس کا اہل ہے جبکہ اس نے اپنے باپ سے اور اپنی قوم سے کہا یہ مورتیاں (بت) جن کے تم مجاور بنے بیٹھے ہو کیا ہیں ؟ یعنی ان کی بندگی میں لگے ہوئے ہو تو سب نے جواب دیا ہم نے اپنے آباو اجداد کو انہیں کی عبادت کرتے ہوئے پایا ہے لہٰذا ہم نے انہیں کی اقتداء اختیار کیا ہے تو ابراہیم (علیہ السلام) نے ان سے کہا پھر تو تم اور تمہارے آبا ان کی بندگی کرنے کی وجہ سے کھلی گمراہی میں ہو، تو کہنے لگے کیا تم اپنے اس قول میں ہم سے سچ بات کہتے ہو ؟ یا اس بات میں (یوں ہی) مذاق کر رہے ہو ؟ ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا نہیں، بلکہ تمہارا رب جو کہ مستحق عبادت ہے وہ رب مالک ہے زمین اور آسمانوں کا جس نے ان کو بغیر کسی سابق نمونے کے پیدا فرمایا اور میں تو اس بات پر جو میں نے کہی ہے گواہ ہوں (قائل ہوں) اور خدا کی قسم میں تمہارے بتوں کے ساتھ تمہارے چلے جانے کے بعد ضرور ایک چال چلوں گا تو ان کے اپنی عید کے دن اپنے میلے میں چلے جانے کے بعد ان بتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا جُذَاذًا جیم کے ضمہ اور کسرہ کے ساتھ، تبر سے ٹکڑے ٹکڑے کردیا مگر ان میں کے بڑے کو (چھوڑ دیا) اور تبر اس کی گردن میں لٹکا دیا تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں ان کے (میلے) سے لوٹنے اور ان کے ساتھ جو حرکت کی گئی تھی اس کو دیکھنے کے بعد کہنے لگے ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ حرکت کس نے کی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ شخص اس معاملہ میں ظالموں میں سے ہے تو ان لوگوں نے آپس میں کہا ہم نے ایک نوجوان کو جس کو ابراہیم کہا جاتا ہے ان بتوں کی تنقیص (برائی) کرتے سنا ہے تو وہ لوگ کہنے لگے تو اچھا اس کو سب کے سامنے برسر عام حاضر کرو تاکہ لوگ اس کے خلاف اس بات کی گواہی دیں کہ یہی ہے (یہ حرکت) کرنے والا شخص تو اس کے آنے کے بعد لوگوں نے اس سے معلوم کیا کہ کیا تو نے ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ حرکت کی ہے اے ابراہیم ؟ اپنے فعل سے سکوت اختیار کرتے ہوئے کہا نہیں بلکہ ان کے اس بڑے (گرو) نے کی ہے، یہ حرکت کرنے والے کے بارے میں ان ہی سے معلوم کرو اگر یہ بول سکتے ہوں ؟ اس میں جواب شرط مقدم ہے اور ماقبل میں مشرکین کیلئے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جت جن کا عاجز عن الفعل ہونا معلوم اور متعین ہے وہ معبود نہیں ہوسکتے، چناچہ یہ لوگ (حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی تقریر سن کر) سوچ میں پڑگئے اور اپنے دلوں میں کہنے لگے تم ہی درحقیقت ظالم ہو ایسی چیز کی بندگی کرکے جو بول بھی نہ سکے پھر ان کی کھوپڑی اوندھی ہوگئی (یعنی جہل وعناد کی طرف پلٹ گئے) یعنی اپنے کفر کی طرف پلٹ گئے، اور کہنے لگے واللہ (اے ابراہیم) تم تو جانتے ہی ہو کہ یہ بولنے پر قادر نہیں ہیں یعنی پھر تم ہم کو ان سے سوال کرنے کیلئے کیوں کہتے ہو ؟ تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ کیا خدا کو چھوڑ کر یعنی اس کے عوض ایسی چیز کی عبادت کرتے ہو کہ جو تم کو رزق وغیرہ کا کچھ نفع نہیں پہنچا سکتی اور اگر تم ان کی عبادت نہ کرو تو تم کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتی تف ہے تم پر، فا کے فتحہ اور کسرہ کیساتھ مصدر کے معنی میں یعنی تبًّا وقُبْحًا (کے معنی میں) اور ان پر بھی جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو کیا تمہیں اتنی سی بھی عقل نہیں ؟ یعنی یہ بت عبادت کے مستحق نہیں اور نہ معبود بننے کی ان میں صلاحیت ہے عبادت کا مستحق تو اللہ تعالیٰ ہی ہے۔
تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد
ولقد آتینا ابراہیم واؤ قسمیہ ہے ای وَعِزَّتِنَا وَجَلالِنا ابراہیم رشدہ رشد صلاحیت، ہوشیاری، ہدایت، حسن تدبیر من قبل مضاف الیہ محذوف ہے ای قبل بلوغہ، قبلہٗ کی ضمیر حضرت موسیٰ و عیسیٰ و محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف بھی راجع ہوسکتی ہے، التماثیلُ جمع تمثال پتھر یا دھات وغیرہ کی مورتی عاکفون جمع عاکفٍ ملازم، معتکف، مجاور۔ قولہ : لھا عاکفون، عاکف کا صلہ علیٰ آتا ہے لیکن یہاں لام استعمال ہوا ہے مفسر علام نے اشارہ کردیا کہ لام بمعنی علیٰ ہے اور اگر عاکف متضمن بمعنی عابد لیا جائے تو اس وقت لام صلہ لانا درست ہوگا اور اگر لام تعدیہ کے بجائے اختصاص کے لئے لے لیا جائے تو صلہ لام لانا بھی صحیح ہوگا جیسا کہ قالوا وجدنا آبائنا لھا عابدین میں عابدین کا صلہ لام استعمال ہوا ہے۔
قولہ : فجعلھم من ھم ضمیر مذکر ذوالعقول کے لئے مشرکین کے گمان کے اعتبار سے استعمال ہوئی ہے۔ قولہ : جذاذا مصدر ہونے کی وجہ سے جمع نہیں لایا گیا اور بعض حضرات نے جذاذ کو جذاذۃ کی جمع کہا ہے جیسا کہ زجاج زجاجۃٌ کی جمع ہے، اور بعض حضرات نے جُذاذٌ مصدر بمعنی مجذوذ کے لیا ہے۔ قولہ : مَنْ فعل ھٰذا من مبتداء ہے اور فعل ھذا اس کی خبر ہے اور انہ لمن الظلمین جملہ مستانفہ ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ من موصولہ اپنے صلہ سے ملکر مبتداء اور انہ لمن الظلمین اس کی خبر۔ قولہ سمعنا فتی یذکر، سمعنا، چونکہ ایسی شئ پر داخل ہے کہ جو مسموع نہیں ہوسکتی اور وہ فتی ہے اس لئے کہ فتی دیکھنے کی چیز ہے نہ کہ سننے کی ایسی صورت میں سمع متعدی بدو مفعول ہوتا ہے، لہٰذا یہاں سمعنا متعدی بدو مفعول ہے مفعول اول فتی ہے اور یذکرھم جملہ ہو کر مفعول ثانی ہے، اور اگر سمع شئ مسموع پر داخل ہو تو متعدی بیک مفعول ہوتا ہے جیسا کہ تو کہے سمعت کلام زیدٍ ۔ قولہ : یقال لہ ابراہیم یہ فتی کی صفت ثانیہ ہے ابراہیم کے مرفوع ہونے کی چند وجوہ ہوسکتی ہیں اول، یقال کا نائب فاعل ہونے کی وجہ سے یقال لہ ابراہیم ای یسمی لہ ابراہیم اس صورت میں ابراہیم سے مراد لفظ ابراہیم ہوگا نہ کہ مسمی ابراہیم، دوسری وجہ یہ ہے کہ ابراہیم مبتدا محذوف کی خبر ہو ای یقال لہ ھذا ابراہیم، یا ابراہیم مبتداء ہو اور اس کی خبر محذوف ہو ای یقال لہ ابراھیم فاعل ذٰلک۔
قولہ : کبیرھم ھٰذا، ھذا کبیرھم سے بدل ہے یا صفت ہے۔ قولہ : نکسوا علی رؤسھم جمہور کی قرأت میں نکسوا مبنی للمفعول ہے یعنی ان کی کھوپڑی الٹ دی گئی اور الٹنے والا اللہ تعالیٰ ہے، مطلب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی تقریر سے بتوں کا عاجز اور بےبس ہونا سمجھ میں آگیا تھا اور قریب تھا کہ حق کی طرف رجوع کریں مگر ان کی کھوپڑی پھر گئی جس کی وجہ سے کفر کی طرف پلٹ گئے، مفسر علام نے من اللہ کا اضافہ فرما کر اسی قرأت کی طرف اشارہ کیا ہے اور شاذ قرأت میں نکسوا نون کے فتحہ اور کاف کی تشدید کے ساتھ مبنی للفاعل بھی ہے اس صورت میں نکسوا کے فاعل خود مشرکین ہوں گے اور مطلب یہ ہوگا کہ مشرکین نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی مدلل تقریر سن کر شرمندگی اور ندامت کی وجہ سے سرجھکا لیا مگر کچھ دیر کے بعد کفر کی طرف پلٹ گئے۔ قولہ : قالوا واللہ یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ لَقَد علمے قسم محذوف کا جواب ہے۔ قولہ : افلا تعقلون فا عاطفہ ہے معطوف علیہ فعل محذوف ہے جس پر ہمزہ داخل ہے تقدیر عبارت یہ ہے اجھلتم فلا تعقلون۔
تفسیر و تشریح
ولقد آتینا۔۔۔۔ قبل، من قبل سے مراد یا تو یہ ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو رشد (ہدایت یا ہوشمندی) دینے کا واقعہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور موسیٰ و ہارون و عیسیٰ (علیہم السلام) سے پہلے کا ہے یا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو نبوت عطا کرنے سے پہلے ہی ہوشمندی عطا کردی گئی تھی، اور یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ بلوغ سے پہلے ہی آپ کو ہوشمندی اور صلاحیت عطا کردی گئی تھی اور ہم اپنے علم ازلی کے اعتبار سے اس بات کو جانتے تھے کہ وہ اس رشد کا اہل ہے اور وہ اس کا صحیح استعمال کرے گا، جبکہ اس نے اپنے باپ سے اور اپنی قوم سے کہا کہ یہ مورتیاں جن کے تم مجاور بنے بیٹھے ہو کیا ہیں ؟ یعنی ذرا ان کی اصلیت اور حقیقت کو بیان کرو آخر پتھر کی خودتراشیدہ مورتیاں خدا کس طرح بن گئیں قالوا وجدنا آباءنا الخ یعنی عقل اور فطرت اور نقل معتدبہ کی کوئی شہادت ہماری تائید میں نہیں ہے نہ سہی لیکن سب سے بڑی اور بھاری دلیل بت پرستی کے حق و صواب ہونے کی یہ ہے کہ اوپر سے ہمارے باپ دادا انہیں کی پوجا کرتے چلے ائے ہیں پھر ہم اپنے بڑوں کا طریقہ کیسے چھوڑ دیں۔
قال لقد کنتم انتم الخ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ اس دلیل سے تمہاری حقانیت اور عقلمندی ثابت نہیں ہوئی البتہ یہ ثابت ہوا کہ تمہارے باپ دادا بھی تمہاری طرح گمراہ اور بیوقوف تھے جنکی کو رانہ تقلید میں تم گمراہ ہو رہے ہو۔
پوری قوم کے عقیدہ کے خلاف ابراہیم (علیہ السلام) کی ایسی سخت اور مدلل گفتگو سن کر ان میں ہلچل مچ گئی کہنے لگے کیا سچ مچ تیرا عقیدہ یہی ہے یا ہنسی اور دل لگی کرتا ہے، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جواب دیا، میرا عقیدہ ہی یہ ہے اور پورے یقین اور بصیرت کے ساتھ اس کی شہادت دیتا ہوں میرا تمہارا سب کا رب وہی ایک خدا ہے جس نے آسمان اور زمین پیدا کئے۔
حضرت ابراہیم نے آہستہ سے کہا کہ تمہارے چلے جانے کے بعد تمہارے بتوں کا علاج کر دوں گا، یہ بات حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یا تو اپنے دل میں کہی یا کمزور قسم کے لوگوں کے سامنے آہستہ سے کہی، یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ زبانی نہی عن المنکر تو میں کرچکا اب نہی عن المنکر فعلی کروں گا، چناچہ جب قوم جش منانے کے لئے میلے میں باہر چلی گئی تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے موقعہ کو غنیمت سمجھ کر سب بتوں کو توڑ پھوڑ کر دکھ دیا اور صرف بڑے بت کو جو جسم و جثہ کے اعتبار سے سب سے بڑا تھا چھوڑ دیا اور کلہاڑی اس کے گلے میں لٹکا دی، تاکہ وہ لوگ جب واپس آکر یہ صورت حال دیکھیں تو قدرتی طور پر ان کا خیال اس بڑے بت کی طرف ہو، یا الزاماً اس کی طرف رجوع کرایا جاسکے، چناچہ جب وہ لوگ میلے سے واپس آئے تو بڑا حیرت انگیز منظر دیکھا کہ سب بت ٹوٹے پڑے ہیں اور کلہاڑی بڑے بت کے گلے میں لٹکی ہوئی ہے تو کہنے لگے یہ گستاخی اور بےادبی کی حرکت ہمارے معبودوں کے ساتھ کس نے کی ہے ؟ یقیناً جس نے یہ حرکت کی ہے بڑا ظالم اور بےرحم ہے، چناچہ بعض لوگوں نے جنہوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا مقولہ تاللہ لاکیدن اصنامکم سنا ہوگا کہنے لگے وہ نوجوان ابراہیم (علیہ السلام) ہے نا، وہ ہمارے بتوں کے خلاف باتیں کرتا ہے معلوم ہوتا ہے یہ اسی کی کارستانی ہے۔
پھر سب کہنے لگے اس کو مجمع عام کے سامنے لاؤ تاکہ سب لوگ دیکھیں چناچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو مجمع عام میں لایا گیا اور ان سے معلوم کیا گیا، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ یہ کام تو اس بڑے بت نے کیا ہے اگر یہ (ٹوٹے ہوئے بت) بول سکتے ہیں تو انہیں سے معلوم کرو یہ خود ہی اپنے توڑنے والے کو بتادیں گے، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ بات بطور تعریض و تبکیت کہی تاکہ لوگ یہ جان لیں کہ جو نہ بول سکتا ہو اور اپنی مصیبت کی فریاد بھی نہ کرسکتا ہو اور نہ خود اپنا دفاع کرسکتا ہو بلکہ پڑا پڑا مار کھا تا رہے وہ معبود نہیں ہوسکتا۔
ایک حدیث میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس قول بل فعلہ کبیرھم کو لفظ کذب سے تعبیر کیا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے تین جھوٹ بولے دو اللہ کے لئے ایک انی سقیم اور دوسرا بل فعلہ کبیرھم ھذا اور تیسرا حضرت سارہ کو اپنی بہن کہنا (صحیح بخاری کتاب الانبیاء باب واتخذ اللہ ابراھیم خلیلاً ) زمانہ حال کے بعض مفسرین نے مرزا قادیانی اور کچھ دوسرے مستشرقین سے مغلوب مسلمانوں نے اس حدیث کو صحیح السند ہونے کے باوجود اس لئے غلط اور باطل کہہ دیا ہے کہ اس سے حضرت خلیل اللہ کی طرف جھوٹ کی نسبت ہوتی ہے اور سند کے تمام راویوں کو جھوٹا کہہ دینا اس سے بہتر ہے کہ خلیل اللہ کو جھوٹا قرار دیا جائے، کیونکہ وہ قرآن کے خلاف ہے لیکن ان کی یہ رائے صحیح نہیں ہے، یقیناً حقیقت کے اعتبار سے انہیں جھوٹ نہیں کہا جاسکتا بلکہ یہ توریہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا ذو معنیین لفظ بولا جائے کہ متکلم اس کا ایک معنی مراد لے اور مخاطب دوسرے معنی سمجھے، دینی ضرورت اور مصلحت کے لئے تو ریہ درست ہے، ظلم سے بچنے کے لئے باتفاق فقہاء بالکل جائز ہے۔
توریہ شیعوں کے تقیہ سے بالکل مختلف چیز ہے، تقیہ میں صریح جھوٹ بولا جاتا ہے اور اس پر عمل بھی کیا جاتا ہے، توریہ میں صریح جھوٹ نہیں ہوتا بلکہ جس معنی سے متکلم بول رہا ہے وہ بالکل صحیح ہوتے ہیں، جیسے اسلامی رشتہ سے بیوی اور شوہر کا بھائی بہن ہونا، سفر ہجرت کے دوران جب کہ حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گرفتاری کے لئے سو اونٹ انعام رکھا ہوا تھا، ایک شخص کا راستہ میں ملنا اور حضرت ابوبکر صدیق سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں دریافت کرنا کہ یہ کون ہے ؟ حضرت ابوبکر صدیق کا رجل یھدینی السبیل توریہ کے طور پر فرمانا، یہ دینی السبیل کے دو معنی ہیں دینی رہنمائی کرنے والا اور سفر کے لئے رہبری کرنے والا، حضرت ابوبکر کا مقصد آخرت اور دینی رہبری تھی اور مخاطب سفر کی رہبری سمجھا اسی کو توریہ کہتے ہیں صحابہ اور اسلاف کی زندگی میں اس قسم کی صدہا مثالیں آپ کو مل سکتی ہیں۔
حدیث شریف میں بھی حضرت ابراہیم خلیل اللہ کے بارے میں کذبات ثلٰثہ کا ذکر ہے، ان کا پہلا کذب فعلہ کبیرھم ھٰذا ہے اس کی بہت سی توجیہات کی گئیں ہیں مگر ان میں سب سے صاف اور بےغبار توجیہ یہ ہے کہ یہ اسناد مجازی کے قبیل سے ہے، عربی میں اس کی بہت سی مثالیں مذکور ہیں مثلاً انبت الربیع البقل چونکہ موسم ربیع بقل کو اگانے کا بظاہر سبب ہے اس لئے انبات کی نسبت بقل کی جانب کردی گئی ہے، ورنہ حقیقت میں انبات اللہ تعالیٰ کا فعل ہے، دوسری مثال بنی الامیر المدینۃ ہے چونکہ امیر کے حکم سے مدینہ کی تعبیر ہوئی ہے اس لئے نباء کی نسبت امیر کی جانب کردی گئی ہے ورنہ بنانے والے تو درحقیقت معمار اور بنائین ہیں، اسی طرح فعلہٗ کبیرھم ھٰذا میں بھی اسناد مجازی ہے، چونکہ مشرکوں نے بڑے بت کو خدا کا درجہ دے رکھا تھا اور رات دن اس کی بندگی کرتے تھے تو گویا کہ بتوں کو توڑنے پر اس بڑے بت نے ہی آمادہ کیا گویا کہ بڑا بت ہی ان بتوں کو توڑنے کا سبب بنا اسی سببیت کی وجہ سے فعل کی نسبت بڑے بت کی طرف کردی گئ ہے، دوسرا انی سقیم ہے سقیم کے معنی جس طرح بیماری کے آتے ہیں اسی طرح دلی رنج وغم کے بھی آتے ہیں، اس میں شک کی کیا گنجائش ہے کہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ اپنی قوم کی گمراہی کو دیکھ کر کس قدر رنجیدہ اور غم زدہ ہوں گے لہٰذا آپ کی انی سقیم کہنا اپنی جگہ درست اور بالکل صحیح تھا، تیسرا حضرت سارہ کو بہن بتانا تو یہ بھی کوئی خلاف واقعہ بات نہیں تھی اس لئے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت سارہ دونوں آپس میں دینی اور اسلامی بھائی بہن تھے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس کی وضاحت بھی کردی تھی کہ میں نے ظالم بادشاہ کے سامنے تم کو اپنی بہن بتایا ہے لہٰذا تم بھی اس کے خلاف نہ کہنا اور ہم دونوں دینی اور اسلامی بھائی ہیں، ظالم بادشاہ کی دست درازی اور اس کے شل ہونے نیز حضرت سارہ کو صحیح سلامت رخصت کرنے کے واقعہ کے لئے تفسیر کی کتابوں کی طرف رجوع کریں۔
حدیث میں کذبات ثلٰثہ کا ذکر جس ضمن میں آیا ہے وہ بھی قابل غور ہے اور وہ ہے میدان محشر میں اللہ کے روبرو جاکر سفارش کرنے سے اس لئے گریز کرنا کہ ان سے دنیا میں تین موقعوں پر لغزش کا صدور ہوا ہے درآنحالیکہ وہ لغزشیں نہیں ہیں یعنی حقیقت اور مقصد کے اعتبار سے وہ جھوٹ نہیں ہے مگر اللہ کی عظمف اور جلال کی وجہ سے اتنے خوف زدہ ہوں گے کہ یہ باتیں جھوٹ کے ساتھ ظاہری مماثلت کی وجہ سے قابل گرفت نظر آئیں گی گویا کہ حدیث کا مقصد حضرت ابراہیم کو جھوٹا ثابت کرنا ہرگز نہیں ہے بلکہ اس کیفیت کا اظہار ہے جو قیامت کے دن خشیت الٰہی کی وجہ سے ان پر طاری ہوگی۔
علامہ شبیر احمد عثمانی نے فوائد عثمانی میں بل فعلہ کبیرھم ھذا کی توجیہ اس طرح فرمائی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے علیٰ سبیل الفرض فعلہ کبیرھم ھذا فرمایا تھا جیسا کہ مناظروں میں ہوتا ہے یعنی مجھ سے دریافت کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ یہ فرض کرلیا جائے کہ اس بڑے گرو گھنٹال نے جو صحیح سالم کھڑا ہے اور توڑنے کا آلہ بھی اس کے پاس موجود ہے یہ کام کیا ہوگا، لیجئے بحث و تحقیق کے وقت بطور الزام و تبکیت میں یہ دعویٰ کرتا ہوں کہ بڑے بت نے سب چھوٹوں کو توڑ ڈالا اب آپ کے پاس کیا دلیل ہے کہ ایسا نہیں ہوا کیا دنیا میں ایسا ہوتا نہیں ہے کہ بڑے سانپ چھوٹے سانپوں کو بڑی مچھلی چھوٹی مچھلیوں کو نگل جاتی ہے، اور بڑے بادشاہ چھوٹی سلطنتوں کو تباہ کر ڈالتے ہیں، اس لئے فیصلہ کی بہتر صورت میرے اور تمہارے درمیان یہ ہے کہ تم خود اپنے معبودوں ہی سے دریافت کرلو کہ یہ ماجرا کس طرح ہوا گر یہ کچھ بول سکتے ہیں، تو کیا ایسے اہم معاملہ میں بول کر میرے جھوٹ سچ کا فیصلہ نہ کردیں گے، مذکورہ تقریر سے ظاہر ہوگیا کہ بل فعلہ کبیرھم ھذا کہنا خلاف واقعہ خبر دینے کے طور پر نہ تھا جسے حقیقۃً جھوٹ کہا جائے بلکہ ان کی تجہیل و تحمیق کے لئے ایک فرضی احتمال کو بصورت دعوی لیکر بطور تعریض والزام کلام کیا تھا جیسا کہ عموماً بحث و مناظرہ میں ہوتا ہے توڑ پھوڑ کر بڑے بت کی جانب منسوب کرنے میں ایک مصلحت دینی یہ تھی کہ شاید لوگوں کو اس طرف توجہ ہوجائے کہ شاید اس بڑے بت کو اس پر غصہ آگیا ہو کہ میرے ساتھ عبادت میں ان چھوٹے بتوں کو کیوں شریک کیا جاتا ہے اگر یہ خیال ان کے دلوں میں پیدا ہو تو توحید کا راستہ کھل جاتا ہے کہ جب ایک بڑا بت چھوٹے بتوں کی شرکت گوارا نہیں کرتا تو رب العالمین ان پتھروں کی شرکت اپنے ساتھ کیسے گوارہ کرے، اسی طرح بعض احادیث میں اس پر
لفظ کذب کا اطلاق صورتاً کیا گیا ہے، مفسرین نے اس کے علاوہ اس کی توجیہ میں اور بھی کئی محمل بیان کئے ہیں۔
فرجعوا الیٰ انفسھم پھر وہ سوچ میں پڑگئے، اور اپنے دل میں کہنے لگے کہ واقعتاً تم ہی ظاہم ہو ان بےزبان پتھروں کو پوجنے سے کیا حاصل ؟ جو مصیبت کے وقت خود اپنی مدد بھی کرسکیں اور پڑے ہوئے اپنے ہاتھ پیر توڑ واتے رہیں جو خود اپنی مدد نہ کرسکے، وہ دوسروں کی کیا مدد کرسکتا ہے گویا کہ حق کی ایک کرن ان کے دل میں روشن ہوئی مگر پھر تسویل شیطانی کی وجہ سے پلٹ گئے اور کفر و ضلالت کو حق و ہدایت پر ترجیح دینے لگے، اور کہنے لگے کہ تو جان بوجھ کر ہم سے ایسی ناممکن بات کا مطالبہ کیوں کرتا ہے کہیں پتھر بھی بولتے ہیں ؟ جب مشرکوں نے اپنے بتوں کی بےبسی اور عاجزی کا اقرار کرلیا تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو گرفت کرنے اور الزام دینے کا موقعہ مل گیا، اور فرمایا پھر تو تم کو ڈوب مرنا چاہیے کہ جو بت اس قدر مجبور و بےبس ہوں کہ ایک لفظ نہ بول سکتے ہوں اور کسی آڑے وقت میں کچھ کام نہ آسکتے ہوں ایسے بےاختیار بتوں کو خدائی کا درجہ دینا کس قدر حماقت اور بےعقلی کی بات ہے، کیا تم اتنی موٹی سی بات بھی نہیں سمجھ سکتے۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام علیہ السلام اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ور ان کی جلیل القدر کتابوں کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا : ﴿وَلَقَدْ آتَيْنَا إِبْرَاهِيمَ رُشْدَهُ مِن قَبْلُ﴾ یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) بعثت اور ان کی کتابوں کے نازل ہونے سے پہلے، اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو زمین و آسمان کی بادشاہی کا مشاہدہ کروایا اور انہیں رشد و ہدایت عطا کی، جس سے ان کے نفس کو کمال حاصل ہوا اور آپ نے لوگوں کو اس کی طرف دعوت دی، جو اللہ تعالیٰ نے محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی کو عطا نہیں کی اور آپ کے ہدایت یافتہ ہونے کے باعث، آپ کے حسب حال اور آپ کے بلند مرتبہ کی بنا پر رشد کو آپ کی طرف مضاف کیا گیا ورنہ ہر مومن کو اس کے حسب ایمان رشد و ہدایت سے نوازا گیا ہے۔
﴿ وَكُنَّا بِهِ عَالِمِينَ ﴾ ” اور ہم اس کو جانتے تھے۔“ یعنی ہم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو رشد و ہدایت عطا کی، ان کو رسالت کے لئے منتخب کیا، انہیں اپنا خلیل بنایا اور دنیا و آخرت میں انہیں اپنے لئے چن لیا اس لئے کہ ہم جانتے تھے کہ وہ اس مرتبہ کے اہل اور اپنی پاکیزگی اور ذہانت کی بنا پر اس کے مستحق ہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur iss say pehlay hum ney Ibrahim ko woh samajh boojh ata ki thi jo unn kay laeeq thi , aur hum unhen khoob jantay thay .
12 Tafsir Ibn Kathir
یہودی روایتوں سے بچو
فرمان ہے کہ خلیل اللہ علیہ صلوات اللہ کو اللہ تعالیٰ نے ان کے بچپن سے ہی ہدایت عطا فرمائی تھی۔ انہیں اپنی دلیلیں الہام کی تھیں اور بھلائی سمجھائی تھی جیسے آیت میں ہے وتلک حجتنا اتیناہا ابراہیم علی قومہ۔ یہ ہیں ہماری زبردست دلیلیں جو ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو دی تھیں تاکہ وہ اپنی قوم کو قائل کرسکیں۔ یہ جو قصے مشہور ہیں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دودھ پینے کے زمانے میں ہی انہیں ان کے والد نے ایک غار میں رکھا تھا جہاں سے مدتوں بعد وہ باہر نکلے اور مخلوقات الٰہی پر خصوصا چاند تاروں وغیرہ پر نظر ڈال کر اللہ کو پہچانا یہ سب بنی اسرائیل کے افسانے ہیں۔ قاعدہ یہ ہے کہ ان میں سے جو واقعہ اس کے مطابق ہو جو حق ہمارے ہاتھوں میں ہے یعنی کتاب وسنت وہ تو سچا ہے اور قابل قبول ہے اس لئے کہ وہ صحت کے مطابق ہے اور جو خلاف ہو وہ مردود ہے۔ اور جس کی نسبت ہماری شریعت خاموش ہو، موافقت و مخالفت کچھ نہ ہو، گو اس کا روایت کرنا بقول اکثر مفسرین جائز ہے لیکن نہ تو ہم اسے سچا کرسکتے ہیں نہ غلط۔ ہاں یہ ظاہر ہے کہ وہ واقعات ہمارے لئے کچھ سند نہیں، نہ ان میں ہمارا کوئی دینی نفع ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ہماری جامع نافع کامل و شامل شریعت اس کے بیان میں کوتاہی نہ کرتی۔ ہمارا اپنا مسلک تو اس تفسیر میں یہ رہا ہے کہ ہم ایسی بنی اسرائیلی روایتوں کو وارد نہیں کرتے کیونکہ اس میں سوائے وقت ضائع کرنے کے کہ کوئی نفع نہیں ہاں نقصان کا احتمال زیادہ ہے۔ کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ بنی اسرائیل میں روایت کی جانچ پڑتال کا مادہ ہی نہ تھا وہ سچ جھوٹ میں تمیز کرنا جانتے ہی نہ تھے ان میں جھوٹ سرایت کر گیا تھا جیسے کہ ہمارے حفاظ ائمہ نے تشریح کی ہے۔ غرض یہ ہے کہ آیت میں اس امر کا بیان ہے کہ ہم نے اس سے پہلے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ہدایت بخشی تھی اور ہم جانتے تھے کہ وہ اس کے لائق ہے بچپنے میں ہی آپ نے اپنی قوم کی غیر اللہ پرستی کو ناپسند فرمایا۔ اور نہایت جرات سے اس کا سخت انکار کیا اور قوم سے برملا کہا کہ ان بتوں کے اردگرد مجمع لگا کر کیا بیٹھے ہو ؟ حضرت اصبح بن بناتہ راہ سے گزر رہے تھے جو دیکھا کہ شطرنج باز لوگ بازی کھیل رہے ہیں۔ آپ نے یہی تلاوت فرما کر فرمایا کہ تم میں سے کوئی اپنے ہاتھ میں جلتا ہوا انگارا لے لے یہ اس شطرنج کے مہروں کے لینے سے اچھا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اس کھلی دلیل کا جواب ان کے پاس کیا تھا جو دیتے ؟ کہنے لگے کہ یہ تو پرانی روش ہے، باپ دادوں سے چلی آتی ہے۔ آپ نے فرمایا واہ یہ بھی کوئی دلیل ہوئی ؟ ہمارا اعتراض جو تم پر ہے وہی تمہارے اگلوں پر ہے ایک گمراہی میں تمہارے بڑے مبتلا ہوں اور تم بھی اس میں مبتلا ہوجاؤ تو وہ بھلائی بننے سے رہی ؟ میں کہتا ہوں تم اور تمہارے باپ دادا سبھی راہ حق سے برگشتہ ہوگئے ہو اور کھلی گمراہی میں ڈوبے ہوئے ہو۔ اب تو ان کے کان کھڑے ہوئے کیونکہ انہوں نے اپنے عقل مندوں کی توہین دیکھی، اپنے باپ دادوں کی نسبت نہ سننے والے کلمات سنے۔ اپنے معبودوں کی حقارت ہوتی ہوئی دیکھی تو گھبراگئے اور کہنے لگے ابراہیم کیا واقعی تم ٹھیک کہہ رہے ہو یا مذاق کررہے ؟ ہم نے تو ایسی بات کبھی نہیں سنی۔ آپ کو تبلیغ کا موقعہ ملا اور صاف اعلان کیا کہ رب تو صرف خالق آسمان و زمین ہی ہے۔ تمام چیزوں کا خالق مالک وہی ہے، تمہارے یہ معبود کسی ادنیٰ سی چیز کے بھی خالق ہیں نہ مالک۔ پھر معبود مسجود کیسے ہوگئے ؟ میری گواہی ہے کہ خالق ومالک اللہ ہی لائق عبادت ہے نہ اسکے سوا کوئی رب نہ معبود۔