پھر ابراہیم (علیہ السلام) نے ان (بتوں) کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا سوائے بڑے (بُت) کے تاکہ وہ لوگ اس کی طرف رجوع کریں،
English Sahih:
So he made them into fragments, except a large one among them, that they might return to it [and question].
1 Abul A'ala Maududi
چنانچہ اس نے اُن کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور صرف ان کے بڑے کو چھوڑ دیا تاکہ شاید وہ اس کی طرف رجوع کریں
2 Ahmed Raza Khan
تو ان سب کو چورا کردیا مگر ایک کو جو ان کا سب سے بڑا تھا کہ شاید وہ اس سے کچھ پوچھیں
3 Ahmed Ali
پھر ان کے بڑے کے سوا سب کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا تاکہ اس کی طرف رجوع کریں
4 Ahsanul Bayan
پس اس نے سب کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے ہاں صرف بڑے بت کو چھوڑ دیا یہ بھی اس لئے کہ وہ سب اس کی طرف ہی لوٹیں (١)
٥٨۔١ چنانچہ وہ جس دن اپنی عید یا کوئی جشن مناتے تھے، ساری قوم اس کے لئے باہر چلی گئی اور ابراہیم علیہ السلام نے موقع غنیمت جان کر انہیں توڑ پھوڑ کر رکھ دیا صرف ایک بڑا بت چھوڑ دیا، بعض کہتے ہیں کہ کلہاڑی اس کے ہاتھ میں پکڑا دی تاکہ وہ اس سے پوچھیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
پھر ان کو توڑ کر ریزہ ریزہ کردیا مگر ایک بڑے (بت) کو (نہ توڑا) تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں
6 Muhammad Junagarhi
پس اس نے ان سب کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے ہاں صرف بڑے بت کو چھوڑ دیا یہ بھی اس لئے کہ وه سب اس کی طرف ہی لوٹیں
7 Muhammad Hussain Najafi
چنانچہ آپ نے ان کے ایک بڑے بت کے سوا باقی سب کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
پھر ابراہیم علیھ السّلامنے ان کے بڑے کے علاوہ سب کو حُور چوِر کردیا کہ شاید یہ لوگ پلٹ کر اس کے پاس آئیں
9 Tafsir Jalalayn
پھر ان کو توڑ کر ریزہ ریزہ کردیا مگر ایک بڑے (بت) کو (نہ توڑا) تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں
10 Tafsir as-Saadi
چنانچہ جب وہ وہاں سے چلے گئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام چپکے سے ان بتوں کے پاس گئے ﴿فَجَعَلَهُمْ جُذَاذًا ﴾ اور ان بتوں کو ریزہ ریزہ کردیا۔ تمام بت ایک ہی بت خانے میں جمع تھے، اس لئے ان سب کو توڑ دیا۔ ﴿إِلَّا كَبِيرًا لَّهُمْ﴾ سوائے ان کے بڑے بت کے اور اسے ایک خاص مقصد کے لئے چھوڑ دیا، جسے عنقریب اللہ تعالیٰ بیان فرمائے گا۔ ذرا اس عجیب ” احتراز“ پر غور فرمائیے کیونکہ ہر وہ چیز جو اللہ تعالیٰ کے ہاں مغضوب ہے۔ اس پر تعظیم کے الفاظ کا اطلاق صحیح نہیں سوائے اس صورت میں کہ تعظیم کی اضافت تعظیم کرنے والوں کی طرف ہو۔ جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ تھا کہ آپ جب زمین کے مشرک بادشاہوں کی طرف خط لکھتے تو اس طرح مخاطب فرماتے : (( ِلٰی عَظِيمَ الْفُرْسِ أَوْ إِلٰی عَظِيمِ الرُّوْمِ ))یعنی ” اہل فارس کے بڑے کی طرف یا اہل روم کے بڑے کی طرف“ اور ﴿ إِلَى الْعَظِيمِ ﴾ ” یعنی بڑی ہستی کی طرف“ جیسے الفاظ استعمال نہیں فرمائے۔ یہاں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿إِلَّا كَبِيرًا لَّهُمْ ﴾ ” ان کے بڑے بت کو چھوڑ دیا۔“ اور یہ نہیں فرمایا ( كَبِيرًامِّنْ أَصْنَامِهِمْ )” ان کے بتوں میں سے بڑے بت کو“ پس یہ بات اس لائق ہے کہ آدمی اس پر متنبہ رہے اور اس ہستی کی تعظیم سے احتراز کرے جسے اللہ تعالیٰ نے حقیر قرار دیا ہے۔ البتہ اس تعظیم کی اضافت ان لوگوں کی طرف کی جاسکتی ہے جو اس کی تعظیم کرتے ہیں۔ ﴿ لَعَلَّهُمْ إِلَيْهِ يَرْجِعُونَ ﴾ یعنی ابراہیم علیہ السلام نے ان کے اس بڑے بت کو چھوڑ دیا تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں اور آپ کی حجت و دلیل سے زچ ہو کر اس حجت کی طرف التفات کریں اور اس سے روگردانی نہ کریں اسی لئے آیت کریمہ کے آخر میں فرمایا : ﴿ فَرَجَعُوا إِلَىٰ أَنفُسِهِمْ ﴾ ” پس انہوں نے اپنے دل میں غور کیا۔ “
11 Mufti Taqi Usmani
chunacheh Ibrahim ney unn kay baray butt kay siwa saray button ko tukrray tukrray kerdiya , takay woh log unn ki taraf rujoo keren .