آپ نے فرمایا: بلکہ یہ (کام) ان کے اس بڑے (بت) نے کیا ہوگا تو ان (بتوں) سے ہی پوچھو اگر وہ بول سکتے ہیں،
English Sahih:
He said, "Rather, this – the largest of them – did it, so ask them, if they should [be able to] speak."
1 Abul A'ala Maududi
اُس نے جواب دیا "بلکہ یہ سب کچھ ان کے اس سردار نے کیا ہے، اِن ہی سے پوچھ لو اگر یہ بولتے ہوں"
2 Ahmed Raza Khan
فرمایا بلکہ ان کے اس بڑے نے کیا ہوگا تو ان سے پوچھو اگر بولتے ہوں
3 Ahmed Ali
کہا بلکہ ان کے اس بڑے نے یہ کیا ہے سو ان سے پوچھ لو اگر وہ بولتے ہیں
4 Ahsanul Bayan
آپ نے جواب دیا بلکہ اس کام کو ان کے بڑے نے کیا ہے تم اپنے خداؤں سے پوچھ لو، اگر یہ بولتے چالتے ہوں (١)
٦٣۔١ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مجمع عام میں لایا گیا اور ان سے پوچھا گیا، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیا کہ یہ کام تو اس بڑے بت نے کیا ہے، اگر یہ (ٹوٹے ہوئے بت) بول کر بتلا سکتے ہیں تو ذرا ان سے پوچھو تو سہی۔ یہ بطور اپنے مطلب کے بات کی یا انہوں نے کہا تاکہ وہ یہ بات جان لیں کہ جو نہ بول سکتا ہو نہ کسی چیز سے آگاہی کی صلاحیت رکھتا ہو، وہ معبود نہیں ہو سکتا۔ نہ اس پر الہ کا اطلاق ہی صحیح ہے ایک حدیث صحیح میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس قول بل فعلہ کبیرھم کو لفظ کذب سے تعبیر کیا گیا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے تین جھوٹ بولے دو اللہ کے لیے ایک (انی سقیم) اور دوسرا یہی اور تیسرا حضرت سارہ اپنی بیوی کو بہن کہنا (صحیح بخاری کتاب الانبیاء باب واتخذاللہ ابراہیم خلیلا) زمانہ حال کے بعض مفسرین نے اس حدیث صحیح کو قرآن کے خلاف باور کر کے اس کا انکار کر دیا ہے اور اس کی صحت پر اصرار غلو اور روایت پرستی قرار دیا ہے لیکن ان کی یہ رائے صحیح نہیں یقینا حقیقت کے اعتبار سے انہیں جھوٹ نہیں کہا جا سکتا لیکن ظاہری شکل کے لحاظ سے ان کو کذب سے خارج بھی نہیں کیا جا سکتا ہے گو یہ کذب اللہ کے ہاں قابل مواخذہ نہیں ہے کیونکہ وہ اللہ ہی کے لیے بولے گئے ہیں درآنحالیکہ کوئی گناہ کا کام اللہ کے لیے نہیں ہو سکتا اور یہ تب ہی ہو سکتا ہے کہ ظاہری طور پر کذب ہونے کے باوجود وہ حقیقتا کذب نہ ہو جیسے حضرت آدم علیہ السلام کے لیے عصی اور غوی کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں حالانکہ خود قرآن میں ہی ان کے فعل اکل شجر کو نسیان اور ارادے کی کمزوری کا نتیجہ بھی بتلایا گیا ہے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ کسی کام کے دو پہلو بھی ہو سکتے ہیں من وجہ اس میں استحسان اور من وجہ ظاہری قباحت کا پہلو۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ قول اس پہلو سے ظاہری طور پر کذب ہی ہے کہ واقعے کے خلاف تھا بتوں کو انہوں نے خود توڑا تھا لیکن اس کا انتساب بڑے بت کی طرف کیا لیکن چونکہ مقصد ان کا تعریض اور اثبات توحید تھا اس لیے حقیقت کے اعتبار ہم اسے جھوٹ کے بجائے اتمام حجت کا ایک طریق اور مشرکین کی بےعقلی کے اثبات واظہار کا ایک انداز کہیں گے علاوہ ازیں حدیث میں ان کذبات کا ذکر جس ضمن میں آیا ہے وہ بھی قابل غور ہے اور وہ ہے میدان محشر میں اللہ کے روبرو جاکر سفارش کرنے سے اس لیے گریز کرنا کہ ان سے دنیا میں تین موقعوں پر لغزش کا صدور ہوا ہے درآنحالیکہ وہ لغزشیں نہیں یعنی حقیقت اور مقصد کے اعتبار وہ جھوٹ نہیں ہیں مگر وہ اللہ کی عظمت وجلا کیوجہ سے اتنے خوف زدہ ہوں گے کہ یہ باتیں جھوٹ کے ساتھ مماثلت کی وجہ سے قابل گرفت نظر آئیں گی گویا حدیث کا مقصد حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جھوٹا ثابت کرنا ہرگز نہیں ہے بلکہ اس کیفیت کا اظہار ہے جو قیامت والے دن خشیت الہی کی وجہ سے ان پر طاری ہوگی۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
(ابراہیم نے) کہا (نہیں) بلکہ یہ ان کے اس بڑے (بت) نے کیا (ہوگا) ۔ اگر یہ بولتے ہیں تو ان سے پوچھ لو
6 Muhammad Junagarhi
آپ نے جواب دیا بلکہ اس کام کو ان کے بڑے نے کیا ہے تم اپنے خداؤں سے ہی پوچھ لو اگر یہ بولتے چالتے ہوں
7 Muhammad Hussain Najafi
ابراہیم (ع)نے کہا: بلکہ ان کے بڑے بت نے یہ سب کاروائی کی ہے ان بتوں سے ہی پوچھ لو اگر وہ بول سکتے ہیں؟
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ابراہیم علیھ السّلامنے کہا کہ یہ ان کے بڑے نے کیا ہے تم ان سے دریافت کرکے دیکھو اگر یہ بول سکیں
9 Tafsir Jalalayn
(ابراہیم نے) کہا (نہیں) بلکہ یہ ان کے اس بڑے (بت) نے کیا (ہوگا) اگر یہ بولتے ہوں تو ان سے پوچھ لو
10 Tafsir as-Saadi
ابراہیم علیہ السلام نے لوگوں کے سامنے بھرے مجمع میں جواب دیا ﴿ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَـٰذَا ﴾ یعنی اس بڑے بت نے ناراض ہو کر ان کو توڑا ہے کیونکہ اس کے ساتھ ان کی بھی عبادت کی جاتی تھی اور وہ چاہتا تھا کہ عبادت صرف تمہارے اس بڑے بت کی ہو۔ اس سے ابراہیم علیہ السلام کا مقصد الزامی جواب اور حجت قائم کرنا تھا، اس لئے فرمایا : ﴿ فَاسْأَلُوهُمْ إِن كَانُوا يَنطِقُونَ ﴾ ” ان سے پوچھو، اگر یہ بول سکتے ہیں۔“ یعنی ان ٹوٹے ہوئے بتوں سے پوچھو کہ ان کو کیوں توڑا گیا؟ اور جس بت کو نہیں توڑا گیا، اس سے پوچھو کہ اس نے ان بتوں کو کیوں توڑا؟ اگر وہ بول سکتے ہیں تو تمہیں جواب دیں۔۔۔میں، تم اور ہر شخص اچھی طرح جانتا ہے کہ یہ بت بول سکتے ہیں نہ کلام کرسکتے ہیں، کوئی نفع پہنچاسکتے ہیں نہ نقصان۔ بلکہ اگر کوئی ان کو نقصان پہنچانا چاہے تو یہ خود اپنی مدد کرنے پر بھی قادر نہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
Ibrahim ney kaha : nahi , balkay yeh harkat unn kay iss baray sardar ney ki hai , abb inhi button say pooch lo , agar yeh boltay hon .