Skip to main content

فَرَجَعُوْۤا اِلٰۤى اَنْـفُسِهِمْ فَقَالُوْۤا اِنَّكُمْ اَنْـتُمُ الظّٰلِمُوْنَۙ

So they returned
فَرَجَعُوٓا۟
تو وہ پلٹے
to
إِلَىٰٓ
کی طرف
themselves
أَنفُسِهِمْ
اپنے نفسوں
and said
فَقَالُوٓا۟
تو انہوں نے کہا
"Indeed you
إِنَّكُمْ
بیشک تم
[you]
أَنتُمُ
تم ہی
(are) the wrongdoers"
ٱلظَّٰلِمُونَ
ظالم ہو

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

یہ سُن کر وہ لوگ اپنے ضمیر کی طرف پلٹے اور (اپنے دلوں میں) کہنے لگے "واقعی تم خود ہی ظالم ہو"

English Sahih:

So they returned to [blaming] themselves and said [to each other], "Indeed, you are the wrongdoers."

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

یہ سُن کر وہ لوگ اپنے ضمیر کی طرف پلٹے اور (اپنے دلوں میں) کہنے لگے "واقعی تم خود ہی ظالم ہو"

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

تو اپنے جی کی طرف پلٹے اور بولے بیشک تمہیں ستمگار ہو

احمد علی Ahmed Ali

پھر وہ اپنے دل میں سوچ کر کہنے لگے بے شک تم ہی بے انصاف ہو

أحسن البيان Ahsanul Bayan

پس یہ لوگ اپنے دلوں میں قائل ہوگئے اور کہنے لگے واقع ظالم تو تم ہی ہو (١)

٦٤۔١ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس جواب سے وہ سوچ میں پڑ گئے اور ایک دوسرے کو لاجواب ہو کر، کہنے لگے، واقع ظالم تو تم ہی ہو، جو اپنی جان کو بچانے پر اور نقصان پہنچانے والے کا ہاتھ پکڑنے پر قادر نہیں وہ مستحق عبادت کیونکر ہو سکتا ہے؟ بعض نے یہ مفہوم بیان کیا کہ معبودوں کی عدم حفاظت پر ایک دوسرے کو ملامت کی اور ترک حفاظت پر ایک دوسرے کا ظالم کہا۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

انہوں نے اپنے دل غور کیا تو آپس میں کہنے لگے بےشک تم ہی بےانصاف ہو

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

پس یہ لوگ اپنے دلوں میں قائل ہوگئے اور کہنے لگے واقعی ﻇالم تو تم ہی ہو

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

وہ لوگ (ابراہیم کا یہ جواب سن کر) اپنے دلوں میں سوچنے لگے اور آپس میں کہنے لگے واقعی تم خود ہی ظالم ہو۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

اس پر ان لوگوں نے اپنے دلوں کی طرف رجوع کیا اور آپس میں کہنے لگے کہ یقینا تم ہی لوگ ظالم ہو

طاہر القادری Tahir ul Qadri

پھر وہ اپنی ہی (سوچوں کی) طرف پلٹ گئے تو کہنے لگے: بیشک تم خود ہی (ان مجبور و بے بس بتوں کی پوجا کر کے) ظالم (ہوگئے) ہو،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

اپنی حماقت سے پریشان کافر
بیان ہو رہا ہے کہ خلیل اللہ (علیہ السلام) کی باتیں سن کر انہیں خیال تو پیدا ہوگیا۔ اپنے آپ کو اپنی بیوقوفی پر ملامت کرنے لگے۔ سخت ندامت اٹھائی اور آپس میں کہنے لگے کہ ہم نے بڑی غلطی کی، اپنے معبودوں کے پاس کسی کو حفاظت کیلئے نہ چھوڑا اور چل دئیے۔ پھر غور وفکر کرکے بات بنائی کہ آپ جو کچھ ہم سے کہتے ہیں کہ ان سے ہم پوچھ لیں کہ تمہیں کس نے توڑا ہے تو کیا آپ کو علم نہیں کہ یہ بت بےزبان ہیں ؟ عاجزی حیرت اور انتہائی لاجوابی کی حالت میں انہیں اس بات کا اقرار کرنا پڑا اب حضرت خلیل اللہ (علیہ السلام) کو خاصا موقعہ مل گیا اور آپ فوراً فرمانے لگے کہ بےزبان بےنفع وضرر چیز کی عبادت کیسی ؟ تم کیوں اس قدر بےسمجھ رہے ہو ؟ تف ہے تم پر اور تمہارے ان جھوٹے خداؤں پر آہ کس قدر ظلم وجہل ہے کہ ایسی چیزوں کی پرستش کی جائے اور اللہ واحد کو چھوڑ دیا جائے ؟ یہی تھی وہ دلیلیں جن کا ذکر پہلے ہوا تھا کہ ہم نے ابراہیم کو دلیلیں سکھا دیں جن سے قوم حقیقت تک پہنچ جائے۔