Skip to main content

وَنَجَّيْنٰهُ وَلُوْطًا اِلَى الْاَرْضِ الَّتِىْ بٰرَكْنَا فِيْهَا لِلْعٰلَمِيْنَ

And We delivered him
وَنَجَّيْنَٰهُ
اور نجات دی ہم نے اس کو
and Lut
وَلُوطًا
اور لوط کو
to
إِلَى
کی طرف
the land
ٱلْأَرْضِ
اس زمین
which
ٱلَّتِى
وہ جو
We (had) blessed
بَٰرَكْنَا
برکت دی تھی ہم نے
[in it]
فِيهَا
اس میں
for the worlds
لِلْعَٰلَمِينَ
جہان والوں کے لیے

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

اور ہم نے اُسے اور لوطؑ کو بچا کر اُس سرزمین کی طرف لے گئے جس میں ہم نے دنیا والوں کے لیے برکتیں رکھی ہیں

English Sahih:

And We delivered him and Lot to the land which We had blessed for the worlds [i.e., peoples].

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

اور ہم نے اُسے اور لوطؑ کو بچا کر اُس سرزمین کی طرف لے گئے جس میں ہم نے دنیا والوں کے لیے برکتیں رکھی ہیں

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

اور ہم اسے اور لوط کو نجات بخشی اس زمین کی طرف جس میں ہم نے جہاں والوں کے لیے برکت رکھی

احمد علی Ahmed Ali

اور ہم اسے اورلوط کو بچا کراس زمین کی طرف لے آئے جس میں ہم نے جہان کے لیے برکت رکھی ہے

أحسن البيان Ahsanul Bayan

اور ہم ابراہیم اور لوط کو بچا کر اس زمین کی طرف لے چلے جس میں ہم نے تمام جہان والوں کے لئے برکت رکھی تھی (١)۔

٧١۔١ اس سے مراد اکثر مفسرین کے نزدیک ملک شام ہے۔ جسے شادابی اور پھلوں اور نہروں کی کثرت نیز انبیاء علیہم السلام کا مسکن ہونے کے لحاظ سے بابرکت کہا گیا ہے۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

اور ابراہیم اور لوط کو اس سرزمین کی طرف بچا نکالا جس میں ہم نے اہل عالم کے لئے برکت رکھی تھی

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

اور ہم ابراہیم اور لوط کو بچاکر اس زمین کی طرف لے چلے جس میں ہم نے تمام جہان والوں کے لئے برکت رکھی تھی

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

اور ہم نے انہیں اور لوط کو نجات دی اور اس سر زمین (شام) کی طرف لے گئے جسے ہم نے دنیا جہان والوں کیلئے بابرکت بنایا ہے۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

اور ابراہیم علیھ السّلام اور لوط علیھ السّلام کو نجات دلاکر اس سرزمین کی طرف لے آئے جس میں عالمین کے لئے برکت کا سامان موجود تھا

طاہر القادری Tahir ul Qadri

اور ہم ابراہیم (علیہ السلام) کو اور لوط (علیہ السلام) کو (جو آپ کے بھتیجے یعنی آپ کے بھائی ہاران کے بیٹے تھے) بچا کر (عراق سے) اس سرزمینِ (شام) کی طرف لے گئے جس میں ہم نے جہان والوں کے لئے برکتیں رکھی ہیں،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

ہجرت خلیل (علیہ السلام)
اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ اس نے اپنے خلیل کو کافروں کی آگ سے بچا کر شام کے مقدس ملک میں پہنچا دیا۔ ابی بن کعب (رض) فرماتے ہیں تمام میٹھا پانی شام کے صخرہ کے نیچے سے نکلتا ہے۔ قتادہ (رح) فرماتے ہیں آپ کو عراق کی سرزمین سے اللہ نے نجات دی اور شام کے ملک میں پہنچایا۔ شام ہی نبیوں کا ہجرت کدہ رہا۔ زمین میں سے جو گھٹتا ہے وہ شام میں بڑھتا ہے اور شام کی کمی فلسطین میں زیادتی ہوتی ہے۔ شام ہی محشر کی سرزمین ہے۔ یہیں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اتریں گے، یہیں دجال قتل کیا جائے گا۔ بقول کعب آپ حران کی طرف گئے تھے۔ یہاں آکر آپ کو معلوم ہوا کہ یہاں کے بادشاہ کی لڑکی اپنی قوم کے دین سے بیزار ہے اور اس سے نفرت رکھتی ہے بلکہ ان کے اوپر طعنہ زنی کرتی ہے تو آپ نے ان سے اس قرار پر نکاح کرلیا کہ وہ آپ کے ساتھ ہجرت کرکے یہاں سے نکل چلے انہی کا نام حضرت سارہ ہے (رض) ۔ یہ روایت غریب ہے اور مشہور یہ ہے کہ حضرت سارہ آپ کے چچا کی صاحبزادی تھیں، اور آپ کے ساتھ ہجرت کرکے چلی آئی تھیں۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں یہ ہجرت مکہ شریف میں ختم ہوئی مکہ ہی کی نسبت جناب باری فرماتا ہے کہ یہ اللہ کا پہلا گھر ہے جو برکت و ہدایت والا ہے، جس میں علاوہ اور بہت سی نشانیوں کے مقام ابراہیم بھی ہے۔ اس میں آجانے والا امن و سلامتی میں آجاتا ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ ہم نے اسے اسحاق دیا اور یعقوب کا عطیہ بھی کیا۔ یعنی لڑکا اور پوتا جیسے فرمان ہے آیت ( فَبَشَّرْنٰهَا بِاِسْحٰقَ ۙ وَمِنْ وَّرَاۗءِ اِسْحٰقَ يَعْقُوْبَ 71؀) 11 ۔ ھود ;71) چونکہ خلیل اللہ (علیہ السلام) کے سوال میں ایک لڑکے ہی کی طلب تھی دعا کی تھی کہ آیت (رب ہب لی من الصالحین) اللہ تعالیٰ نے یہ دعا بھی قبول فرمائی اور لڑکے کے ہاں بھی لڑکا دیا جو سوال سے زائد تھا اور سب کو نیکو کاربنایا۔ ان سب کو دنیا کا مقتدا اور پیشوا بنادیا کہ بحکم الٰہی خلق اللہ کو راہ حق کی دعوت دیتے رہے۔ ان کی طرف ہم نے نیک کاموں کی وحی فرمائی۔ اس عام بات پر عطف ڈال کر پھر خاص باتیں یعنی نماز اور زکوٰۃ کا بیاں فرمایا۔ اور ارشاد ہوا کہ وہ علاوہ ان نیک کاموں کے حکم کے خود بھی ان نیکیوں پر عامل تھے۔ پھر حضرت لوط (علیہ السلام) کا ذکرشروع ہوتا ہے۔ لوط بن ہاران بن آزر علیہ السلام۔ آپ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر ایمان لائے تھے اور آپ کی تابعداری میں آپ ہی کے ساتھ ہجرت کی تھی۔ جیسے کلام اللہ شریف میں ہے آیت ( فَاٰمَنَ لَهٗ لُوْطٌ ۘ وَقَالَ اِنِّىْ مُهَاجِرٌ اِلٰى رَبِّيْ 26؀) 29 ۔ العنکبوت ;26) حضرت لوط (علیہ السلام) آپ پر ایمان لائے اور فرمایا کہ میں اپنے رب کی طرف ہجرت کرنے والا ہوں، پس اللہ تعالیٰ نے انہیں حکمت وعلم عطا فرمایا اور وحی نازل فرمائی اور نبیوں کے پاک زمرے میں داخل کیا۔ اور سدوم اور اس کے آس پاس کی بستیوں کی طرف آپ کو بھیجا۔ انہوں نے نہ مانا مخالفت پر کمربستگی کرلی۔ جس کے باعث عذاب الٰہی میں گرفتار ہوئے اور فناکردئیے گئے، جن کی بربادی کے واقعات اللہ تعالیٰ کی کتاب عزیز میں کئی جگہ بیان ہوئے ہیں یہاں فرمایا کہ ہم نے انہیں بدترین کام کرنے والے فاسقوں کی بستی سے نجات دے دی اور چونکہ وہ اعلیٰ نیکوکار تھے ہم نے انہیں اپنی رحمت میں داخل کرلیا۔