الحج آية ۱۱
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّعْبُدُ اللّٰهَ عَلٰى حَرْفٍ ۚ فَاِنْ اَصَابَهٗ خَيْرٌ ِطْمَاَنَّ بِهٖ ۚ وَاِنْ اَصَابَتْهُ فِتْنَةُ ِنْقَلَبَ عَلٰى وَجْهِهٖ ۚ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةَ ۗ ذٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِيْنُ
طاہر القادری:
اور لوگوں میں سے کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جو (بالکل دین کے) کنارے پر (رہ کر) اﷲ کی عبادت کرتا ہے، پس اگر اسے کوئی (دنیاوی) بھلائی پہنچتی ہے تو وہ اس (دین) سے مطمئن ہو جاتا ہے اور اگر اسے کوئی آزمائش پہنچتی ہے تو اپنے منہ کے بل (دین سے) پلٹ جاتا ہے، اس نے دنیا میں (بھی) نقصان اٹھایا اور آخرت میں (بھی)، یہی تو واضح (طور پر) بڑا خسارہ ہے،
English Sahih:
And of the people is he who worships Allah on an edge. If he is touched by good, he is reassured by it; but if he is struck by trial, he turns on his face [to unbelief]. He has lost [this] world and the Hereafter. That is what is the manifest loss.
1 Abul A'ala Maududi
اور لوگوں میں کوئی ایسا ہے جو کنارے پر رہ کر اللہ کی بندگی کرتا ہے، اگر فائدہ ہوا تو مطمئن ہو گیا اور جو کوئی مصیبت آ گئی تو الٹا پھر گیا اُس کی دنیا بھی گئی اور آخرت بھی یہ ہے صریح خسارہ
2 Ahmed Raza Khan
اور کچھ آدمی اللہ کی بندگی ایک کنارہ پر کرتے ہیں پھر اگر انہیں کوئی بھلائی پہنچ گئی جب تو چین سے ہیں اور جب کوئی جانچ آکر پڑی منہ کے بل پلٹ گئے، ف۳۲) دنیا اور آخرت دونوں کا گھاٹا یہی ہے صر یح نقصان
3 Ahmed Ali
اور بعض وہ لوگ ہیں کہ الله کی بندگی کنارے پر ہو کر کرتے ہیں پھر اگر اسے کچھ فائدہ پہنچ گیا تو اس عبادت پر قائم ہو گیا اور اگر تکلیف پہنچ گئی تو منہ کے بل پھر گیا دنیا اور آخرت گنوائی یہی وہ صریح خسارا ہے
4 Ahsanul Bayan
بعض لوگ ایسے بھی ہیں کہ ایک کنارے پر (کھڑے) ہو کر اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔ اگر کوئی نفع مل گیا تو دلچسپی لینے لگتے ہیں اور اگر کوئی آفت آگئی تو اسی وقت منہ پھیر لیتے ہیں (١) انہوں نے دونوں جہان کا نقصان اٹھا لیا واقع یہ کھلا نقصان ہے۔
١١۔١ حرف کے معنی ہیں کنارہ۔ ان کناروں پر کھڑا ہونے والا، غیر مستقر ہوتا ہے یعنی اسے قرار و ثبات نہیں ہوتا۔ اسی طرح جو شخص دین کے بارے میں شک و تذبذب کا شکار رہتا ہے اس کا حال بھی یہی ہے، اسے دین پر استقامت نصیب نہیں ہوتی کیونکہ اس کی نیت صرف دنیاوی مفادات کی رہتی ہے، ملتے رہے تو ٹھیک ہے، بصورت دیگر وہ پھر دین آبائی یعنی کفر اور شرک کی طرف لوٹ جاتا ہے۔ اس کے برعکس جو سچے مسلمان ہوتے اور ایمان اور یقین سے سرشار ہوتے ہیں۔ بعض روایات میں یہ وصف نو مسلم اعرابیوں کا بیان کیا گیا ہے (فتح الباری، باب مذکور)
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور لوگوں میں بعض ایسا بھی ہے جو کنارے پر (کھڑا ہو کر) خدا کی عبادت کرتا ہے۔ اگر اس کو کوئی (دنیاوی) فائدہ پہنچے تو اس کے سبب مطمئن ہوجائے اور اگر کوئی آفت پڑے تو منہ کے بل لوٹ جائے (یعنی پھر کافر ہوجائے) اس نے دنیا میں بھی نقصان اٹھایا اور آخرت میں بھی۔ یہی تو نقصان صریح ہے
6 Muhammad Junagarhi
بعض لوگ ایسے بھی ہیں کہ ایک کنارے پر (کھڑے) ہو کر اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔ اگر کوئی نفع مل گیا تو دلچسپی لینے لگتے ہیں اور اگر کوئی آفت آگئی تو اسی وقت منھ پھیر لیتے ہیں، انہوں نے دونوں جہان کانقصان اٹھا لیا۔ واقعی یہ کھلا نقصان ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور لوگوں میں کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جو کنارہ پر رہ کر خدا کی عبادت کرتا ہے۔ سو اگر اسے کوئی فائدہ پہنچ جائے تو وہ اس سے مطمئن ہو جاتا ہے اور اگر اسے کوئی آزمائش پیش آجائے (یا کوئی مصیبت پہنچ جائے) تو فوراً (اسلام سے) منہ موڑ لیتا ہے۔ اس نے دنیا و آخرت کا گھاٹا اٹھایا اور یہ کھلا ہوا خسارہ ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو خدا کی عبادت ایک ہی رخ پراور مشروط طریقہ سے کرتے ہیں کہ اگر ان تک خیر پہنچ گیا تو مطمئن ہوجاتے ہیں اور اگر کوئی مصیبت چھوگئی تو دین سے پلٹ جاتے ہیں یہ دنیا اور آخرت دونوں میں خسارہ میں ہیں اور یہی خسارہ کھلا ہوا خسارہ ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور لوگوں میں بعض ایسا بھی ہے جو کنارے پر (کھڑا ہو کر) خدا کی عبادت کرتا ہے اگر اسکو کوئی (دنیاوی) فائدہ پہنچے تو اس کے سبب مطمئن ہوجائے اور اگر کوئی آفت پڑے تو منہ کے بل لوٹ جائے (یعنی پھر کافر ہوجائے) اس نے دنیا میں بھی نقصان اٹھایا اور آخرت میں بھی یہی تو نقصان صریح ہے
آیت نمبر 11 تا 22
ترجمہ : اور بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ اللہ کی بندگی ایک کنارے پر کھڑے ہو کر کرتے ہیں یعنی اس کی عبادت تذبذب کے ساتھ کرتے ہیں شک کے ساتھ عبادت کرنے والے کی حالت کو عدم ثبات میں اس شخص کی حالت کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے جو پہاڑ کے کنارہ پر کھڑا ہو، لہٰذا اگر اس کو کوئی خیر پہنچ گئی یعنی اس کے جان و مال میں صحت و سلامتی تو اس دین پر مطمئن ہوجاتے ہیں اور اگر کوئی آفت یعنی اس کی جان و مال میں محنت اور مرض لاحق ہوگیا تو وہ منہ اٹھا کر چلدیتا ہے یعنی کفر کی جانب پلٹ جاتا ہے، جس دنیا کے ملنے کی امید تھی اس کے نہ ملنے سے دنیا کا نقصان ہوا اور کفر کی وجہ سے آخرت کا نقصان ہوا، یہی کھلا نقصان ہے اللہ کو چھوڑ کر بت کی بندگی کرتا ہے، اگر اس کی بندگی نہ کی جائے تو وہ اس کو نقصان نہیں پہنچا سکتا اور اگر اس کی بندگی کرے تو اس کو کوئی نفع نہیں پہنچا سکتا یہ بندگی انتہا درجہ کی حق سے گمراہی ہے ایسے کی بندگی کر رہا ہے کہ اس کی عبادت کا نقصان اس کے نفع سے زیادہ قریب ہے بالفرض اگر اس کے خیال کے مطابق نفع ہو، لمن میں لام زائدہ ہے، یقیناً ایسا مولیٰ یعنی ناصر برا ہے اور وہ برار رفیق ہے، شک کرنے والے کے نقصان کے ذکر کے بعد مومنین کے ثواب کا ذکر فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو اور ان لوگوں کو جنہوں نے اعمال صالحہ فرائض و نوافل کے (قبیل) سے کئے ہوں گے ایسے باغوں میں داخل کرے گا جس میں نہریں جاری ہوں گی اور اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کہ گزرتا ہے خواہ اس کی اطاعت کرنے والے کا اکرام ہو یا اس کے نافرمان کی اہانت ہو اور جو شخص یہ خیال کرتا ہو کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دنیا و آخرت میں مدد نہ کرے گا تو ایسے شخص کو چاہیے کہ اونچائی پر ایک رسہ باندھ لے، یعنی اپنے گھر کی چھت میں رسے کا (ایک سرا) باندھ لے اور (دوسرا) سرا اپنی گردن میں باندھ لے، پھر اس سے اپنا گلا گھونٹ لے خود کشی کرلے بایں طور کہ اپنا سانس دنیا سے منقطع کرلے (صحاح میں ایسا ہی) پھر غور کرے آیا اس کی یہ تدبیر خود کشی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عدم نصرت کے بارے میں اس چیز کو ختم کرسکتی جس نے اس کو غصہ میں ڈال رکھا ہے، آیت کے معنی یہ ہیں اس کی وجہ سے خود کشی کرلینی چاہیے، اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نصرت ضروری ہے اور اسی طرح یعنی جس طرح آیات سابقہ کو ہم نے نازل کیا ہے باقی قرآن کو بھی نازل کیا ہے حال یہ ہے کہ واضح آیتیں ہیں آیات، انزلناہ کی ضمیر سے حال ہے اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ جس کی ہدایت کا ارادہ فرماتے ہیں اس کو ہدایت نصیب فرماتے ہیں اور ان اللہ یھدی الخ کا عطف انزلناہ کی ہ پر ہے (تقدیر عبارت یہ ہے انزلنا القرآن وانزلنا ان اللہ یھدی من یرید) اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مومنین اور وہ لوگ جنہوں نے یہود یت اختیار کی اور وہ یہود ہیں اور صائبین جو کہ یہود ہی کی ایک جماعت ہے اور نصاریٰ اور مجوسی اور مشرکین اللہ تعالیٰ ان سب کے درمیان قیامت کے روز مومنین کو جنت اور غیر مومنین کو جہنم میں داخل کرکے فیصلہ کر دے گا بیشک اللہ تعالیٰ ان کے اعمال میں سے ہر چیز سے واقف ہے یعنی اس کو علم مشاہدہ حاصل ہے اے مخاطب کیا تجھ کو یہ بات معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے سب عاجزی کرتے ہیں جو کہ آسمانوں میں ہیں اور زمینوں میں ہیں اور شمس و قمر ستارے اور پہاڑ اور درخت اور چوپائے بھی یعنی ہر ایک اس کے حکم کے تابع ہے اس بات میں جو اس سے مطلوب ہے اور بہت سے آدمی بھی (عاجزی کرتے ہیں) اور وہ مومنین ہیں، سجدہ صلوٰۃ میں (عام) خضوع پر زیادتی کے ساتھ اور بہت سے ایسے ہیں کہ جن پر عذاب کا استحقاق ثابت ہوگیا ہے اور وہ کافر ہیں اس لئے کہ انہوں نے اس سجدہ کا انکار کردیا جو ایمان پر موقوف ہے، اور جس کو خدا ذلیل کرے شقی کرے اس کو کوئی عزت دینے والا نہیں یعنی سعید کرنے والا نہیں، اللہ اہانت اور اکرام سے جو چاہتا ہے کرتا ہے یہ دو فریق ہیں مومنین ایک فریق ہیں اور کفار خمسہ دوسرا فریق اور خصم کا اطلاق واحد اور جمع دونوں پر ہوتا ہے، انہوں نے اپنے رب یعنی اس کے دین کے بارے میں جھگڑا کیا ہے سو کافروں کے لئے اگ کے کپڑے بیونت کر کاٹے جائیں گے اس کو پہنیں گے یعنی آگ ان کا احاطہ کرے گا اور ان کے سروں پر ماء حمیم یعنی نہایت شدید گرم پانی بہایا جائے جس سے ان کے پیٹ کی سب چیزیں پگھلا دی (گلا دی) جائیں گی چربی وغیرہ، اور کھالیں اس گرم پانی کی وجہ سے بھون دی جائیں گی، اور ان (کی سزا) کے لئے لوہے کے ہتھوڑے ہیں یعنی ان کے سروں پر مارنے کے لئے اور جب بھی اس آگ سے ان کو غم لاحق ہونے کی وجہ سے نکل بھاگنے کا ارادہ کریں گے ہتھوڑوں کے ذریعہ اسی میں لوٹا دئیے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا جلنے کا عذاب چکھو یعنی جلانے کی انتہائی حد کو پہنچا ہوگا۔
تحقیق و ترکیب و تفسیری فوائد
قولہ : علیٰ حرفٍ یہ یعبد کی ضمیر فاعل سے حال ہے ای یعبد متزلزلاً ، قولہ : شبہ بالحال علی حرف جبلٍ فی عدم ثباتہٖ اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آیت میں استعارہ تمثیلیہ ہے اور وہ یہ ہے کہ آیت میں اس کی حالت کو جو بغیر یقین و اعتقاد کے ساتھ اسلام میں داخل ہوا ہو تزلزل اور عدم ثبات میں اس شخص کے حال کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے جو کسی شئ کے کنارے پر گھڑا ہو ہر وقت اس کو بےاطمینانی کی کیفیت رہتی ہے، قولہ : ما أملہ یہ ماضی کا صیغہ بھی ہوسکتا ہے اور امل بمعنی امید بھی ہوسکتا ہے، قولہ اللام زائدۃ لمن پر لام زائدہ ہے اور من یدعوا کا مفعول ہے ضرہ مبتداء ہے اور اقرب اپنے متعلق سے مل کر اس کی خبر ہے اور پھر جملہ ہو کر من موصولہ کا صلہ ہے اور موصول صلہ سے ملکر یدعوا کا مفعول بہ ہے، قولہ : بعبادتہ ای بسبب عبادتہ۔
قولہ : لبئس المولیٰ ھو، ھو مخصوص بالذم ہے، الناصر مولیٰ کی تفسیر ہے، اسی طرح الصاحب، العشیر کی تفسیر ہے اور ھو مخصوص بالذم ہے قول المفسر بالخسراب متلبسا محذوف سے متعلق ہو کر شاک سے ھال ہے وکذا یقال فیما بعدہ، قول المفسر بذکر المومنین عقب سے متعلق ہے قولہ تعالیٰ ان اللہ یدخل الذین الخ ذکر ثانی کی صفت ہے ای الذکر الکائن فی ھذہٖ الآیۃ، قول المفسر من اکرام میں یطیعہ الخ اس میں لف و نشر غیر مرتب ہے ینصرہٗ میں ضمیر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف راجع ہے معہود فی الذہن ہونے کی وجہ سے، السماء سر کے اوپر جو شئ ہو اس کو سماء کہہ سکتے ہیں، مقولہ ہے کل ما ھو علیٰ رأسہٖ فھو سماء، قولہ : فلیمدد من کان میں من اگر شرطیہ ہو تو فلیمدد اس کی جزا ہوگی اور اگر من موصولہ ہو تو فا فلیمدد میں مشابہ جزاء ہونے کی وجہ سے ہوگی۔
قولہ : بان یقطع نفسہ نفسہ کا اضافہ کرکے اشارہ کردیا کہ لیقطع کا مفعول محذوف ہے من الارض ارض سے مراد حیات دنیوی ہے جب کہ نفسہٗ فا کے فتحہ کے ساتھ پڑھا جائے اور اگر نفسہ فا کے سکون کے ساتھ ہو تو اس صورت میں نفس سے مراد خود اس کی ذات ہوگی، اور ارض سے مراد زمین ہوگی، مطلب یہ ہوگا کہ چھت وغیرہ میں رسی کا ایک سرا باندھ لے اور دوسرا سرا اپنی گردن میں باندھ لے اور کسی چیز پر کھڑے ہو کر زمین سے اپنا تعلق ختم کرلے تاکہ پھندے سے دم گھٹ کر اس کی موت واقع ہوجائے، ما یغیظ منھا، منھا، ما کا بیان ہے اور مراد اس سے نصرت ہے، ما یغیظ میں ما موصولہ بمعنی الذی ہے، یغیظ اس کا صلہ ہے عائد اس میں محذوف ہے، اور موصول صلہ سے مل کر یذھبن کا مفعول ہے تقدیر عبارت یہ ہے ھل یذھبن کیدہ الشئ الذی یغیظہ وھو نصرۃ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، یغیظہ میں ضمیر فاعل الذی اسم موصول کی طرف راجع ہے، اور ضمیر مفعول من کان، یظن کی طرف راجع ہے۔
قولہ : غیظا منھا ای من اجلھا، قولہ : فلابد منھا ای من النصرۃ تقدیر عبارت یہ ہے فلیحنتنق لانہ لابد من النصرۃ، قولہ : حال یعنی لفظ آیات انزلناہُ کی ضمیر سے حال ہے اور بینات آیات کا صفت ہے، قولہ : ھداہٗ کا اضافہ اشارہ ہے یرید کے مفعول محذوف کی طرف
قولہ : وأن اللہ یھدی اس کا عطف انزلناہ کی ضمیر پر ہے، ای انزلناہ وانزلنا ان اللہ یھدی من یرید، قولہ : و کثیر من الناس کا عطف یسجد کے فاعل یعنی من فی السموات پر ہے، یعنی تکوینی اور اضطراری خضوع کے علاوہ بعض انسان اختیاری یعنی سجدہ وغیرہ کے ذریعہ بھی خضوع کرتے ہیں، قولہ : ھٰذان خصمان اوپر چھ فریقوں کا ذکر ہوا ہے ان میں ایک فریق مومن ہے اور بقیہ پانچ کافر ہیں، اس طریقہ سے کل دو نوع ہیں، ایک فریق مومن اور دوسرا کافر، اسی وجہ سے خصمان بصیغہ تثنیہ کہا گیا ہے، فریق مومن کے مقابل پانچ فریقوں کو خصم واحد کے صیغہ سے تعبیر کیا ہے اسلئے کہ خصم مصدر ہے اور مصدر کا اطلاق واحد اور جماعت دونوں پر ہوتا ہے۔
قولہ : اختصموا یہاں جمع کا صیغہ استعمال کیا ہے اس لئے کہ فریق چند افراد پر مشتمل ہوتا ہے، لہٰذا فریق لفظ کے اعتبار سے واحد اور معنی کے اعتبار سے جمع ہے، جیسے قومٌ ورھطٌ۔ قولہ : فی دینہ یہ اشارہ ہے کہ مضاف محذوف ہے۔
قولہ : وتشویٰ بہٖ الجلودُ اس میں اشارہ ہے کہ جلود فعل محذوف کی وجہ سے مرفوع ہے، اس لئے کہ ما فی بطونھم پر عطف درست نہیں کیوں کہ جلد پگھلنے کی چیز نہیں ہے۔ قولہ : تعالیٰ ولَھم مقامع لھم کی ضمیر میں دو احتمال ہیں اول یہ کہ الذین کفروا کی طرف راجع ہو اس صورت میں لام استحقاق کے لئے ہوگا اور دوسرا احتمال یہ کہ ھم ضمیر زبانیہ (دوزخ کے داروغہ) کی طرف راجع ہوگی اور یہ سیاق وسباق سے معلوم ہوتا ہے، قولہ : المقامع جمع مقمعۃٍ ہتھوڑا۔
تفسیر و تشریح
شان نزول : ومن الناس من یعبد اللہ علی حرفٍ اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ بخاری اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہجرت کرے مدینہ طیبہ میں مقیم ہوگئے تو بعض ایسے لوگ بھی آکر مسلمان ہوجاتے تھے کہ جن کے دل میں ایمان کی پختگی نہیں ہوتی تھی، اگر اسلام لانے کے بعد اس کی اولاد و مال میں ترقی ہوگئی تو کہتا تھا کہ یہ دین اچھا ہے اور اگفر اس کے خلاف ہوا تو کہتا تھا کہ یہ برا دین ہے، ایسے ہی لوگوں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے کہ یہ لوگ ایمان کے ایک کنارہ پر کھڑے ہوتے ہیں اگر ان کو ایمان کے بعد دنیوی راحت و سامان مل گیا تو اسلام پر جم گئے اور اگر وہ بطور آزمائش کسی تکلیف و پریشانی میں مبتلا ہوگئے تو دین سے پھرگئے۔
حرف کے معنی کنارہ کے ہیں، جس طرح کنارہ پر کھڑے ہونے والے کو قرار و ثبات نہیں ہوتا اسی طرح جو شخص دین کے بارے میں شک و ریب اور تذبذب کا شکار رہتا ہے اس کا حال بھی یہی ہے، ایسے شخص کو دین پر استقامت نصیب نہیں ہوتی، کیونکہ اس کی نیت صرف دنیوی مفادات کی ہوتی ہے، حاصل ہوتے رہیں تو ٹھیک بصورت دیگر وہ پھر آبائی دین یعنی کفر و شرک کی طرف لوٹ جاتا ہے، اس کے برخلاف جو سچے مسلمان ہوتے ہیں اور ایمان و یقین سے سرشار ہوتے ہیں وہ عسر و یسر کی پرواہ کئے بغیر دین پر قائم رہتے ہیں، نعمتوں سے بہرہ ور ہوتے ہیں تو شکر ادا کرتے ہیں اور اگر تکلیفوں سے دو چار ہوتے ہیں تو صبر کرتے ہیں۔
ومن کان یظن أن لن ینصر اللہ الآیۃ اس آیت کے دو مطلب بیان کئے گئے، ایک یہ کہ جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کی مدد نہ کرے کیونکہ اس کے غلبہ اور فتح سے اس کو تکلیف ہوتی ہے تو وہ اپنے گھر کی چھت میں رسی لٹکا کر اپنے گلے میں اس کا پھندا لیکر گلاگھونٹ لے، شاید یہ خود کشی اسے غیظ و غضب سے بچا لے جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بڑھتے ہوئے اثر و نفوذ کو دیکھ کر اپنے دل میں پاتا ہے اس صورت میں سماء سے مراد گھر کی چھت ہوگی، دوسرے معنی یہ ہیں کہ ایسا شخص ایک رسہ لیکر آسمان پر چڑھ جائے اور آسمان سے جو مدد اور وحی آتی ہے اس کا سلسلہ ختم کر دے (اگر وہ کرسکتا ہے) اور دیکھے کہ کیا اس کے بعد اس کا کلیجہ ٹھنڈا ہوگیا ؟ امام ابن کثیر (رح) نے پہلے مفہوم کو پسند کیا ہے اور شوکانی نے دوسرے مفہوم کو۔
اللہ تبارک و تعالیٰ مذکورہ برحق اور باطل فرقوں کے درمیان قیامت کے دن عملی فیصلہ فرما دیں گے اور یہ فیصلہ حاکمانہ اختیارات کے زور پر نہیں ہوگا، بلکہ عدل و انصاف کے مطابق ہوگا، کیونکہ وہ باخبر ہستی ہے اسے ہر چیز کا علم ہے۔
الم تر ان اللہ یسجد لہ الآیۃ اس آیت میں تمام مخلوقات خواہ زندہ ذی روح ہوں یا جمادات و نباتات سب کا حق سبحانہ تعالیٰ کے لئے مطیع اور فرما نبردار ہونا بعنوان سجدہ بیان فرما کر بنی نوع انسان کی دو قسمیں بیان فرمائی ہیں، ایک مطیع و فرمانبردار سجدہ میں سب کے ساتھ شریک اور دوسری قسم سرکش و باغی سجدہ کرنے سے منحرف، اور تابع فرمان ہونے کو سجدہ کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے، جس کا ترجمہ عاجزی کرنے سے کیا ہے تاکہ مخلوق کی ہر نوع اور ہر قسم کو شامل ہوجائے کیونکہ ان میں سے ہر ایک کا سجدہ اس کے مناسب حال ہوتا ہے، انسان کا سجدہ زمین پر پیشانی رکھنے کا نام ہے، دوسری مخلوقات کا سجدہ اپنی اپنی خدمت جس کے لئے ان کو پیدا کیا گیا ہے، اس کو انجام دینے کا نام ہے۔
تمام مخلوق کے فرمانبردار ہونے کی حقیقت : تمام کائنات کا اپنے خالق کے زیر حکم اور تابع مشیئت ہونا ایک تو تکوینی اور تقدیری طور پر غیر اختیاری ہے جس سے مخلوق کا کوئی فرد مومن ہو یا کافر نباتات میں سے ہو یا جمادات میں سے مستثنیٰ نہیں، اس حیثیت سے سب کے سب یکساں طور پر حق تعالیٰ کے زیر حکم و مشیئت ہیں، جہاں کا کوئی ذرہ یا پہاڑ اس کے اذن و مشیئت کے بغیر کوئی ادنیٰ حرکت نہیں کرسکتا۔
دوسری طاعت و فرمانبرداری اختیاری ہے کوئی مخلوق اپنے قصد و اختیار سے اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت کرے اس سے مومن و کافر فرق ہوتا ہے کہ مومن اطاعت شعار و فرمانبردار ہوتا ہے، کافر اس سے منحرف اور منکر ہوتا ہے یہ اس بات کا قرینہ ہے کہ اس میں سجدہ اور اطاعت سے مراد صرف تکوینی و تقدیری اطاعت نہیں بلکہ اختیاری اور ارادی اطاعت ہے، کسی کو یہ شبہ ہوسکتا ہے کہ اختیاری اور ارادی اطاعت تو صرف ذوی العقول یعنی جن و انسان وغیرہ میں ہوسکتی ہے، حیوانات، نباتات، جمادات میں عقل و شعور ہی نہیں ہوتا تو پھر قصد و ارادہ کہاں اور اطاعت اختیاری کیسی ؟ کیونکہ قرآن کریم کی بیشمار نصوص اور تصریحات سے یہ بات ثابت ہے کہ عقل و شعور اور قصد و ارادہ سے کوئی مخلوق خالی نہیں، کمی بیشی کا فرق ہے، انسان اور جنات کو اللہ تعالیٰ نے عقل و شعور کا کامل درجہ عطا فرمایا ہے اور اسی لئے ان کو امر و نواہی کا مکلف بنایا گیا ہے، اس کے علاوہ باقی مخلوقات میں سے ہر نوع اور ہر صنف کو اس صنف کی ضرورت کے مطابق عقل و شعور دیا گیا ہے، انسان کے بعد سب سے زیادہ عقل و شعور حیوانات میں ہے، اس کے بعد نباتات میں، تیسرے درجہ میں جمادات میں، حیوانات کا عقل و شعور تو عام طور پر محسوس کیا جاتا ہے، نباتات کا عقل و شعور بھی ذرا سا غور کرنے سے پہچان لیا جاتا ہے لیکن جمادات کا عقل و شعور اتنا کم اور مخفی ہے کہ عام انسان اس کو نہیں پہچان سکتے، مگر ان کے خالق ومالک نے خبر دی ہے کہ وہ بھی عقل و شعور نیز قصد و ارادہ کے مالک ہیں۔
قرآن کریم نے آسمان اور زمین کے بارے میں فرمایا ہے ” قالتا اتینا طائعین “ یعنی جب اللہ نے آسمان اور زمین کو حکم دیا کہ تم کو ہمارے تابع فرمان رہنا ہے اپنی خوشی سے فرمانبردار اختیار کرو ورنہ جبراً و حکماً تابع رہنا ہی ہے تو آسمان اور زمین نے عرض کیا کہ ہم اپنے ارادے اور خوشی سے اطاعت اور فرمانبرداری قبول کرتے ہیں، اور دوسری جگہ کہ جو اللہ تعالیٰ کی خشیت اور خوف کے مارے اوپر سے نیچے لڑھک جاتے ہیں، اسی طرح احادیث کثیرہ میں پہاڑوں کی باہم گفتگو اور دوسری مخلوقات میں عقل و شعور کی شہادتیں بکثرت ملتی ہیں، اس لئے اس آیت میں فرمانبرداری کو سجدہ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے، اس سے اطاعت اختیاری وارادی مراد ہے، اور معنی آیت کے یہ ہیں کہ نوع انسان کے علاوہ (جن کے ضمن میں جنات بھی داخل ہیں) باقی تمام مخلوقات اپنے قصد و ارادہ سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سجدہ ریز یعنی تابع فرمان ہیں، صرف انسان اور جن ایسی مخلوق ہے جن میں دو حصے ہوگئے، ایک مومن و مطیع سجدہ گزار، دوسرے کافرو نافرمان، سجدہ سے منحرف جن کو اللہ نے ذلیل کردیا ہے ان کو سجدہ کی توفیق نہیں بخشی۔
ھذان خصمان جن کا ذکر اوپر آیت ” ان الذین آمنوا “ میں ہوا ہے، یہ دو فریق ہیں ایک مومن دوسرا کافر، پھر کافروں کی پانچ قسمیں ہیں یہود، نصاریٰ صائبین، مجوس، بت پرست۔
جنہوں نے اپنے رب کے بارے میں باہم اختلاف کیا اس اختلاف کا فیصلہ قیامت کے دن ہوگا، یہ دو فریق کن کا ذکر اس آیت میں ہے عام مومنین اور ان کے مقابلہ میں تمام گروہ کفار ہیں خواہ قرآن اول کے ہوں یا مابعد کے، البتہ اس آیت کا نزول دو فریقوں کے بارے میں ہوا ہے، جو میدان بدر کے مبارزہ میں ایک دوسرے کے مقابل بنرد آزما تھے، مسلمانوں میں سے حضرت علی و حمزہ و ابو عبیدہ (رض) اور کفار میں سے عتبہ ابن ربیعہ اور شیبہ ابن ربیعہ اور ولید ابن عتبہ تھے، جن میں سے کفار تو تینوں مارے گئے تھے اور مسلمانوں میں حضرت علی (رض) اور حضرت حمزہ (رض) صحیح وسالم واپس آئے اور ابو عبیدہ شدید زخمی ہو کر آئے، اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قدموں میں پہنچ کر دم توڑ دیا، آیت کا نزول ان مبارزین کے بارے میں ہونا بخاری و مسلم کی احادیث سے ثابت ہے، لیکن یہ ظاہر ہے کہ یہ حکم ان کے ساتھ مخصوص نہیں پوری امت کے لئے عام ہے، خواہ کسی بھی زمانہ میں ہوں۔ (معارف)
10 Tafsir as-Saadi
یعنی لوگوں میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو ضعیف الایمان ہے جس کے دل میں ایمان داخل نہیں ہوا، ایمان کی بشاشت اس کے دل میں جاگزیں نہیں ہوئی۔ بلکہ وہ یا تو خوف سے ایمان لایا ہے یا محض عادت کی بنا پر اور وہ بھی اس طریقے سے کہ وہ سختیاں برداشت کرنے کی ہمت نہیں رکھتا۔ ﴿فَإِنْ أَصَابَهُ خَيْرٌ اطْمَأَنَّ بِهِ ﴾ یعنی اگر اسے وافر رزق مل رہا ہے اور اسے کوئی تکلیف نہیں پہنچی، تو وہ ایمان پر نہیں، بلکہ پہنچنے والی بھلائی پر مطمئن ہوتا ہے۔۔۔ اور اللہ تعالیٰ بسا اوقات اسے عافیت میں رکھتا ہے اور اسے ایسے فتنوں میں مبتلا نہیں کرتا جو اسے اس کے دین سے پھیر دیں۔
﴿وَإِنْ أَصَابَتْهُ فِتْنَةٌ﴾اس کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے یا کوئی محبوب چیز اس سے چھن جاتی ہے ﴿انقَلَبَ عَلَىٰ وَجْهِهِ ﴾ ” پھر جاتا ہے اپنے چہرے پر۔“ یعنی اپنے دین سے پھر جاتا ہے۔ ﴿خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةَ﴾ ” خسارہ اٹھایا اس نے دنیا اور آخرت کا۔“ دنیا میں خسارہ یہ ہے کہ جس امید پر وہ مرتد ہوا اور جس امید کو اس نے سرمایہ قرار دے رکھا تھا وہ پوری نہ ہوئی اور وہ عوض جس کے حاصل ہونے کا اسے یقین تھا حاصل نہ ہوا۔ پس اس کی کوشش ناکام ہوئی اور اسے صرف وہی کچھ حاصل ہوا جو اس کی قسمت میں لکھا ہوا تھا۔ رہا آخرت کا خسارہ، تو ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنت کو جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے، اس پر حرام کردیا اور وہ جہنم کا مستحق ہوا۔ ﴿ذٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ ﴾ اور یہ واضح اور کھلا خسارہ ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur logon mein woh shaks bhi hai jo aik kinaray per reh ker Allah ki ibadat kerta hai . chunacheh agar ussay ( duniya mein ) koi faeeda phonch gaya to woh uss say mutmaeen hojata hai , aur agar ussay koi aazmaesh paish aagae to woh mun morr ker ( phir kufr ki taraf ) chal deta hai . aesay shaks ney duniya bhi khoi , aur aakhirat bhi . yehi to khula huwa ghaata hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
شک کے مارے لوگ
" حرف " کے معنی شک کے ایک طرف کے ہیں۔ گویا وہ دین کے ایک کنارے کھڑے ہوجاتے ہیں فائدہ ہوا تو پھولے نہیں سماتے، نقصان دیکھا بھاگ کھڑے ہوئے۔ صحیح بخاری شریف میں (ابن عباس سے مروی) ہے کہ اعراب ہجرت کرکے مدینے پہنچتے تھے اب اگر بال بچے ہوئے جانوروں میں برکت ہوئی تو کہتے یہ دین بڑا اچھا ہے اور اگر نہ ہوئے تو کہتے یہ دین تو نہایت برا ہے۔ ابن حاتم میں آپ سے مروی ہے کہ اعراب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آتے اسلام قبول کرتے واپس جاکر اگر اپنے ہاں بارش، پانی پاتے، جانوروں میں، گھر بار میں برکت دیکھتے تو اطمینان سے کہتے بڑا اچھا دین ہے اور اگر اس کے خلاف دیکھتے تو جھٹ سے بک دیتے کہ اس دین میں سوائے نقصان کے اور کچھ نہیں۔ اس پر یہ آیت اتری۔ بروایت عوفی حضرت ابن عباس (رض) سے منقول ہے کہ ایسے لوگ بھی تھے جو مدینے پہنچتے ہی اگر ان کے ہاں لڑکا ہوتا یا ان کی اونٹنی بچہ دیتی تو انہیں راحت ہوئی تو خوش ہوجاتے اور ان کی تعریفیں کرنے لگتے اور اگر کوئی بلا، مصیبت آگئی، مدینے کی ہوا موافق نہ آئی، گھر میں لڑکی پیدا ہوگئی، صدقے کا مال میسر نہ ہوا تو شیطانی وسوسے میں آجاتے اور صاف کہہ دیتے کہ اس دین میں تو مشکل ہی مشکل ہے۔ عبدالرحمن کا بیان ہے کہ یہ حالت منافقوں کی ہے۔ دنیا اگر مل گئی تو دین سے خوش ہیں جہاں نہ ملی یا امتحان آگیا فوراً پلہ جھاڑلیا کرتے ہیں، مرتد کافر ہوجاتے ہیں۔ یہ پورے بدنصیب ہیں دنیا آخرت دونوں برباد کرلیتے ہیں اس سے زیادہ اور بربادی کیا ہوتی ؟ جن ٹھاکروں، بتوں اور بزرگوں سے یہ مدد مانگتے ہیں، جن سے فریاد کرتے ہیں، جن کے پاس اپنی حاجتیں لے کر جاتے ہیں، جن سے روزیاں مانگتے ہیں وہ تو محض عاجز ہیں، نفع نقصان ان کے ہاتھ ہی نہیں۔ سب سے بڑی گمراہی یہی ہے۔ دنیا میں بھی ان کی عبادت سے نقصان نفع سے پیشتر ہی ہوجاتا ہے۔ اور آخرت میں ان سے جو نقصان پہنچے گا اس کا کہنا ہی کیا ہے ؟ یہ بت تو ان کے نہایت برے والی اور نہایت برے ساتھی ثابت ہوں گے۔ یا یہ مطلب کہ ایسا کرنے والے خود بہت ہی بد اور بڑے ہی برے ہیں لیکن پہلی تفسیر زیادہ اچھی ہے واللہ اعلم۔