وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّعْبُدُ اللّٰهَ عَلٰى حَرْفٍ ۚ فَاِنْ اَصَابَهٗ خَيْرٌ ِطْمَاَنَّ بِهٖ ۚ وَاِنْ اَصَابَتْهُ فِتْنَةُ ِنْقَلَبَ عَلٰى وَجْهِهٖ ۚ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةَ ۗ ذٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِيْنُ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
اور لوگوں میں کوئی ایسا ہے جو کنارے پر رہ کر اللہ کی بندگی کرتا ہے، اگر فائدہ ہوا تو مطمئن ہو گیا اور جو کوئی مصیبت آ گئی تو الٹا پھر گیا اُس کی دنیا بھی گئی اور آخرت بھی یہ ہے صریح خسارہ
English Sahih:
And of the people is he who worships Allah on an edge. If he is touched by good, he is reassured by it; but if he is struck by trial, he turns on his face [to unbelief]. He has lost [this] world and the Hereafter. That is what is the manifest loss.
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
اور لوگوں میں کوئی ایسا ہے جو کنارے پر رہ کر اللہ کی بندگی کرتا ہے، اگر فائدہ ہوا تو مطمئن ہو گیا اور جو کوئی مصیبت آ گئی تو الٹا پھر گیا اُس کی دنیا بھی گئی اور آخرت بھی یہ ہے صریح خسارہ
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
اور کچھ آدمی اللہ کی بندگی ایک کنارہ پر کرتے ہیں پھر اگر انہیں کوئی بھلائی پہنچ گئی جب تو چین سے ہیں اور جب کوئی جانچ آکر پڑی منہ کے بل پلٹ گئے، ف۳۲) دنیا اور آخرت دونوں کا گھاٹا یہی ہے صر یح نقصان
احمد علی Ahmed Ali
اور بعض وہ لوگ ہیں کہ الله کی بندگی کنارے پر ہو کر کرتے ہیں پھر اگر اسے کچھ فائدہ پہنچ گیا تو اس عبادت پر قائم ہو گیا اور اگر تکلیف پہنچ گئی تو منہ کے بل پھر گیا دنیا اور آخرت گنوائی یہی وہ صریح خسارا ہے
أحسن البيان Ahsanul Bayan
بعض لوگ ایسے بھی ہیں کہ ایک کنارے پر (کھڑے) ہو کر اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔ اگر کوئی نفع مل گیا تو دلچسپی لینے لگتے ہیں اور اگر کوئی آفت آگئی تو اسی وقت منہ پھیر لیتے ہیں (١) انہوں نے دونوں جہان کا نقصان اٹھا لیا واقع یہ کھلا نقصان ہے۔
١١۔١ حرف کے معنی ہیں کنارہ۔ ان کناروں پر کھڑا ہونے والا، غیر مستقر ہوتا ہے یعنی اسے قرار و ثبات نہیں ہوتا۔ اسی طرح جو شخص دین کے بارے میں شک و تذبذب کا شکار رہتا ہے اس کا حال بھی یہی ہے، اسے دین پر استقامت نصیب نہیں ہوتی کیونکہ اس کی نیت صرف دنیاوی مفادات کی رہتی ہے، ملتے رہے تو ٹھیک ہے، بصورت دیگر وہ پھر دین آبائی یعنی کفر اور شرک کی طرف لوٹ جاتا ہے۔ اس کے برعکس جو سچے مسلمان ہوتے اور ایمان اور یقین سے سرشار ہوتے ہیں۔ بعض روایات میں یہ وصف نو مسلم اعرابیوں کا بیان کیا گیا ہے (فتح الباری، باب مذکور)
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
اور لوگوں میں بعض ایسا بھی ہے جو کنارے پر (کھڑا ہو کر) خدا کی عبادت کرتا ہے۔ اگر اس کو کوئی (دنیاوی) فائدہ پہنچے تو اس کے سبب مطمئن ہوجائے اور اگر کوئی آفت پڑے تو منہ کے بل لوٹ جائے (یعنی پھر کافر ہوجائے) اس نے دنیا میں بھی نقصان اٹھایا اور آخرت میں بھی۔ یہی تو نقصان صریح ہے
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
بعض لوگ ایسے بھی ہیں کہ ایک کنارے پر (کھڑے) ہو کر اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔ اگر کوئی نفع مل گیا تو دلچسپی لینے لگتے ہیں اور اگر کوئی آفت آگئی تو اسی وقت منھ پھیر لیتے ہیں، انہوں نے دونوں جہان کانقصان اٹھا لیا۔ واقعی یہ کھلا نقصان ہے
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
اور لوگوں میں کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جو کنارہ پر رہ کر خدا کی عبادت کرتا ہے۔ سو اگر اسے کوئی فائدہ پہنچ جائے تو وہ اس سے مطمئن ہو جاتا ہے اور اگر اسے کوئی آزمائش پیش آجائے (یا کوئی مصیبت پہنچ جائے) تو فوراً (اسلام سے) منہ موڑ لیتا ہے۔ اس نے دنیا و آخرت کا گھاٹا اٹھایا اور یہ کھلا ہوا خسارہ ہے۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو خدا کی عبادت ایک ہی رخ پراور مشروط طریقہ سے کرتے ہیں کہ اگر ان تک خیر پہنچ گیا تو مطمئن ہوجاتے ہیں اور اگر کوئی مصیبت چھوگئی تو دین سے پلٹ جاتے ہیں یہ دنیا اور آخرت دونوں میں خسارہ میں ہیں اور یہی خسارہ کھلا ہوا خسارہ ہے
طاہر القادری Tahir ul Qadri
اور لوگوں میں سے کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جو (بالکل دین کے) کنارے پر (رہ کر) اﷲ کی عبادت کرتا ہے، پس اگر اسے کوئی (دنیاوی) بھلائی پہنچتی ہے تو وہ اس (دین) سے مطمئن ہو جاتا ہے اور اگر اسے کوئی آزمائش پہنچتی ہے تو اپنے منہ کے بل (دین سے) پلٹ جاتا ہے، اس نے دنیا میں (بھی) نقصان اٹھایا اور آخرت میں (بھی)، یہی تو واضح (طور پر) بڑا خسارہ ہے،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
شک کے مارے لوگ
" حرف " کے معنی شک کے ایک طرف کے ہیں۔ گویا وہ دین کے ایک کنارے کھڑے ہوجاتے ہیں فائدہ ہوا تو پھولے نہیں سماتے، نقصان دیکھا بھاگ کھڑے ہوئے۔ صحیح بخاری شریف میں (ابن عباس سے مروی) ہے کہ اعراب ہجرت کرکے مدینے پہنچتے تھے اب اگر بال بچے ہوئے جانوروں میں برکت ہوئی تو کہتے یہ دین بڑا اچھا ہے اور اگر نہ ہوئے تو کہتے یہ دین تو نہایت برا ہے۔ ابن حاتم میں آپ سے مروی ہے کہ اعراب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آتے اسلام قبول کرتے واپس جاکر اگر اپنے ہاں بارش، پانی پاتے، جانوروں میں، گھر بار میں برکت دیکھتے تو اطمینان سے کہتے بڑا اچھا دین ہے اور اگر اس کے خلاف دیکھتے تو جھٹ سے بک دیتے کہ اس دین میں سوائے نقصان کے اور کچھ نہیں۔ اس پر یہ آیت اتری۔ بروایت عوفی حضرت ابن عباس (رض) سے منقول ہے کہ ایسے لوگ بھی تھے جو مدینے پہنچتے ہی اگر ان کے ہاں لڑکا ہوتا یا ان کی اونٹنی بچہ دیتی تو انہیں راحت ہوئی تو خوش ہوجاتے اور ان کی تعریفیں کرنے لگتے اور اگر کوئی بلا، مصیبت آگئی، مدینے کی ہوا موافق نہ آئی، گھر میں لڑکی پیدا ہوگئی، صدقے کا مال میسر نہ ہوا تو شیطانی وسوسے میں آجاتے اور صاف کہہ دیتے کہ اس دین میں تو مشکل ہی مشکل ہے۔ عبدالرحمن کا بیان ہے کہ یہ حالت منافقوں کی ہے۔ دنیا اگر مل گئی تو دین سے خوش ہیں جہاں نہ ملی یا امتحان آگیا فوراً پلہ جھاڑلیا کرتے ہیں، مرتد کافر ہوجاتے ہیں۔ یہ پورے بدنصیب ہیں دنیا آخرت دونوں برباد کرلیتے ہیں اس سے زیادہ اور بربادی کیا ہوتی ؟ جن ٹھاکروں، بتوں اور بزرگوں سے یہ مدد مانگتے ہیں، جن سے فریاد کرتے ہیں، جن کے پاس اپنی حاجتیں لے کر جاتے ہیں، جن سے روزیاں مانگتے ہیں وہ تو محض عاجز ہیں، نفع نقصان ان کے ہاتھ ہی نہیں۔ سب سے بڑی گمراہی یہی ہے۔ دنیا میں بھی ان کی عبادت سے نقصان نفع سے پیشتر ہی ہوجاتا ہے۔ اور آخرت میں ان سے جو نقصان پہنچے گا اس کا کہنا ہی کیا ہے ؟ یہ بت تو ان کے نہایت برے والی اور نہایت برے ساتھی ثابت ہوں گے۔ یا یہ مطلب کہ ایسا کرنے والے خود بہت ہی بد اور بڑے ہی برے ہیں لیکن پہلی تفسیر زیادہ اچھی ہے واللہ اعلم۔