الحج آية ۲۶
وَاِذْ بَوَّأْنَا لِاِبْرٰهِيْمَ مَكَانَ الْبَيْتِ اَنْ لَّا تُشْرِكْ بِىْ شَيْـًٔـا وَّطَهِّرْ بَيْتِىَ لِلطَّاۤٮِٕفِيْنَ وَالْقَاۤٮِٕمِيْنَ وَ الرُّكَّعِ السُّجُوْدِ
طاہر القادری:
اور (وہ وقت یاد کیجئے) جب ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کے لئے بیت اﷲ (یعنی خانہ کعبہ کی تعمیر) کی جگہ کا تعین کر دیا (اور انہیں حکم فرمایا) کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرانا اور میرے گھر کو (تعمیر کرنے کے بعد) طواف کرنے والوں اور قیام کرنے والوں اور رکوع کر نے والوں اور سجود کرنے والوں کے لئے پاک و صاف رکھنا،
English Sahih:
And [mention, O Muhammad], when We designated for Abraham the site of the House, [saying], "Do not associate anything with Me and purify My House for those who perform ‹Tawaf and those who stand [in prayer] and those who bow and prostrate.
1 Abul A'ala Maududi
یاد کرو وہ وقت جب ہم نے ابراہیمؑ کے لیے اِس گھر (خانہ کعبہ) کی جگہ تجویز کی تھی (اِس ہدایت کے ساتھ) کہ "میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو، اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور قیام و رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک رکھو
2 Ahmed Raza Khan
اور جب کہ ہم نے ابراہیم کو اس گھر کا ٹھکانا ٹھیک بتادیا اور حکم دیا کہ میرا کوئی شریک نہ کر اور میرا گھر ستھرا رکھ طواف والوں اور اعتکاف والوں اور رکوع سجدے والوں کے لیے
3 Ahmed Ali
اور جب ہم نے ابراھیم کے لیے کعبہ کی جگہ معین کر دی کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کراور میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور قیام کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک رکھ
4 Ahsanul Bayan
جبکہ ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے کعبہ کے مکان کی جگہ مقرر کر دی (١) اس شرط پر کہ میرے ساتھ کسی کو شریک (٢) نہ کرنا اور میرے گھر کو طواف قیام رکوع سجدہ کرنے والوں کے لئے پاک صاف رکھنا (٣)۔
٢٦۔١ یعنی بیعت اللہ کی جگہ بتلا دی اور وہاں ہم نے ذریت ابراہیم علیہ السلام کو ٹھہرایا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ طوفان نوح علیہ السلام کی ویرانی کے بعد خانہ کعبہ کی تعمیر سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھوں سے ہوئی ہے۔ جیسا کہ صحیح حدیث سے بھی ثابت ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ' سب سے پہلی مسجد جو زمین میں بنائی گئی، مسجد حرام ہے، اور اس کے چالیس سال بعد مسجد اقصٰی تعمیر ہوئی '
(مسند احمد ٥۔١٥٠،١٦٦، ١٦٧ و مسلم کتاب المساجد)
ف٤ یہ خانہ کعبہ کی تعمیر کی غرض بیان کی کہ اس میں صرف میری عبادت کی جائے اس سے یہ بتلانا مقصود ہے کہ مشرکین نے اس میں جو بت سجا رکھے ہیں جن کی وہ یہاں آکر عبادت کرتے ہیں یہ ظلم صریح ہے کہ جہاں صرف اللہ کی عبادت کرنی چاہیے تھی وہاں بتوں کی عبادت کی جاتی ہے۔
٢٦۔٢ کفر بت پرستی اور دیگر گندگیوں اور نجاستوں سے۔ یہاں ذکر صرف نماز پڑھنے والوں کا کیا ہے، کیونکہ یہ دونوں عبادت خانہ کعبہ کے ساتھ خاص ہیں، نماز میں رخ اس کی طرف ہوتا ہے اور طواف صرف اسی کے گرد کیا جاتا ہے۔ لیکن اہل بدعت نے اب بہت سی قبروں کا طواف بھی ایجاد کر لیا ہے اور بعض نمازوں کے لیے قبلہ بھی کوئی اور۔ اعاذنا اللہ منہما
5 Fateh Muhammad Jalandhry
(اور ایک وقت تھا) جب ہم نے ابراہیم کے لئے خانہ کعبہ کو مقرر کیا (اور ارشاد فرمایا) کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کیجیو اور طواف کرنے والوں اور قیام کرنے والوں اور رکوع کرنے والوں (اور) سجدہ کرنے والوں کے لئے میرے گھر کو صاف رکھا کرو
6 Muhammad Junagarhi
اور جبکہ ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو کعبہ کے مکان کی جگہ مقرر کر دی اس شرط پر کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا اور میرے گھر کو طواف قیام رکوع سجده کرنے والوں کے لئے پاک صاف رکھنا
7 Muhammad Hussain Najafi
اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے ابراہیم (ع) کیلئے خانہ کعبہ کی جگہ معین کر دی۔ (اور حکم دیا کہ) میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا۔ اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں، قیام کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کیلئے پاک رکھنا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور اس وقت کو یاد دلائیں جب ہم نے ابراہیم علیھ السّلامکے لئے بیت اللہ کی جگہ مہیا کی کہ خبردار ہمارے بارے میں کسی طرح کا شرک نہ ہونے پائے اور تم ہمارے گھر کو طواف کرنے والے ,قیام کرنے والے اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے پاک و پاکیزہ بنادو
9 Tafsir Jalalayn
جب ہم نے ابراہیم کے لئے خانہ کعبہ کو مقام مقرر کیا (اور ارشاد فرمایا) کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کیجئیو اور طواف کرنے والوں اور قیام کرنے والوں اور رکوع کرنے والوں (اور) سجدہ کرنے والوں کے لئے میرے گھر کو صاف رکھا کرو
آیت نمبر 26 تا 33
ترجمہ : اور اس واقعہ کا ذکر کیجئے جب ہم نے ابرا ہیم کو خانہ کعبہ کی جگہ کی نشا ند ہی کردی تاکہ اس کی تعمیر کریں اور بیت اللہ کو طوفان (نو ح) کے زما نہ میں اٹھا لیا گیا، اور ہم نے اس کو یہ حکم دیا کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرنا، اور میرے گھر کو بتوں سے طواف کرنے والوں کے لئے اور قیام اور رکوع اور سجود کرنے والوں کے لئے پاک رکھنا، رُکعٍ جمع راکعٍ اور سجود جمع ساجدٍ اور مراد تمام پڑھنے والے ہیں، اور لوگوں میں حج کا اعلان کردے، چناچہ (حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے) جبل ابی قبیس پر چڑھ کر اعلان فرمایا ” اے لوگو ! تمہارے رب نے ایک گھر بنایا ہے اور تمہارے اوپر اس کا حج کرنا واجب کیا ہے لہٰذا تم اپنے رب کی ندا پر لبیک کہو اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے چہرے کو دائیں بائیں اور شرقاً و غرباً گھمایا، چناچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی آواز پر مردوں کی پشت سے اور عورتوں کے ارحام سے ہر اس شخص نے لبیک کہا کہ جس کی قسمت میں حج لکھا ہوا تھا ” لبیک اللھم لبیک “ اور جواب امر ” یاتوک رجالا “ ہے رجالاً کے معنی پاپیادہ کے ہیں اور رجال رجل کی جمع ہے جیسے قائم کی جمع قیام ہے، چلے آئیں گے لوگ تیرے پاس پیدل اور سوار ہو کر دبلے اونٹوں پر، ضامر دبلے اونٹ کا کہتے ہیں اس کا اطلاق نر و مادہ دونوں پر ہوتا ہے آئیں گی وہ انٹنیاں دور و دراز راستہ سے یا تین بصیغہ جمع ضامر کے معنی کی رعایت کی وجہ سے لایا گیا ہے تاکہ تجارت کے ذریعہ اپنے دنیوی فوائد کے لئے یا اخروی فوائد یا دونوں فوائد کے لئے اپنے منافع کی جگہ حاضر ہوں یہ تین قول ہیں اور (اس لئے آویں) تاکہ ایام مقررہ یعنی عشرۂ ذی الحجہ یا یوم عرفہ یا یوم نحر میں ایام تشریق کے آخری دن تک، یہ تین قول ہیں، ان چوپایوں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے ان کو دئیے ہیں وہ اونٹ اور گائے اور بکریاں ہیں جو کہ یوم نحر میں اور اس کے بعد ہدایا اور ضحایا میں سے ذبح کی جاتی ہیں پس تم خود بھی کھاؤ اگر وہ مستحب ہوں اور صاحب فقر کو یعنی شدید حاجت مند کو کھلاؤ پھر ان کو چاہیے کہ اپنا میل کچیل دور کرکے نذر پوری کریں والیوفوا فا کی تخفیف اور تشدید کے ساتھ ہے، اور بیت عتیق کا طواف افاضہ (زیارت) کریں یعنی قدیم گھر کا، اس لئے کہ وہ پہلا گھر ہے جو بنایا گیا ذٰلک مبتداء محذوف کی خبر ہے (تقدیر عبارت یہ ہے) الامر ذٰلک المذکور یا الشان ذٰلک المذکور یعنی مذکورہ بات تو پوری ہوئی اور جو شخص اللہ کی محترم چیزوں کی تعظیم کرے گا اور وہی وہ چیزیں ہیں کہ جن کی بےحرمتی جائز نہیں تو ان کی تعظیم اس کے حق میں اس کے رب کے نزدیک آخرت میں بہتر ہے اور تمہارے لئے جانوروں کو ذبح کرنے کے بعد حلال کردیا گیا ہے باستثناء ان جانوروں کے کہ جن کی حرمت تم کو حرمت علیکم المیتۃ (الآیۃ) میں بتادی گئی ہے سو یہ مستثنیٰ منقطع ہے اور اس کا مستثنیٰ متصل ہونا بھی جائز ہے اور حرمت موت وغیرہ کے لاحق ہونے کی وجہ سے ہے سو تم گندگی سے جو کہ وہ بت ہیں کنارہ کش رہو من بیانیہ ہے یعنی رجس جو کہ وہ بت ہیں اور جھوٹی بات سے بچتے رہو یعنی شرک فی التلبیہ سے اور جھوٹی گواہی سے بچتے رہو اس طور سے کہ اللہ کی طرف جھکے رہو تابع فرمان رہو، اس کے دین کے علاوہ ہر چیز سے اعراض کرتے رہو اس کے ساتھ کسی کو شریک مت ٹھہراؤ یہ ماقبل کی تاکید ہے اور یہ دونوں (حنفاء اور غیر مشرکین) اجتنبوا کے واؤ سے حال ہیں اور جس شخص نے اللہ کے ساتھ شرک کیا تو گویا کہ وہ آسمان سے گرپڑا پھر یا تو پرندے اس کو اچک لیں گے یعنی جلدی سے اس کو پکڑ لیں گے یا ہوا اس کو دور دراز جگہ پر ڈالدے گی اور مکان بعید یہ ہے کہ اس کی خلاصی کو توقع نہیں کی جاسکتی، یہ سن لیا ذٰلک سے پہلے الامر مبتدا محذوف اور سنو جو شخص شعائر اللہ کی عزت و حرمت کرے گا بیشک ان کی تعظیم ان کی پرہیزگاری کی وجہ سے ہے اور وہ، وہ بدنے ہیں جو حرم کی جانب سے بطور ہدی بھیجے جاتے ہین، اور شعائر اللہ کی تعظیم کی صورت یہ ہے کہ ان کی اچھی طرح دیکھ بھال کرے اور ان کو (کھلا پلا کر) فربہ کرے، اور ان (قربانی کے جانوروں) کو شعائر اس لئے کہا جاتا ہے کہ ان کے کوئی ایسی علامت لگا دی جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ پہچانے جاتے ہیں جیسا کہ ان کی گواہان میں نیزہ سے زخم لگا دینا اور تمہارے لئے ان میں وقت مقرر یعنی ذبح ہونے تک کچھ منافع ہیں، مثلاً ان پر سوار ہونا اور ان پر کسی ایسی چیز کا لادنا کہ جو ان کے لئے مضرت رساں نہ ہو پھر ان کے مقام یعنی ان کے قربان کرنے کی جگہ بیت اللہ کے قریب ہے اور مراد پورا حرم ہے۔
تحقیق و ترکیب و تفسیری فوائد
قولہ : بعانا بوا تبویۃً سے ماضی جمع متکلم ہے، ہم نے جگہ دی ہے، زجاج نے کہا ہے بوانا کے معنی بینا لہ مکان البیت لیبنیہ ویکون مباءۃ لہٗ مفسر علام نے بوانا کی تفسیر بینا سے کرکے اس بات کی طرف اشارہ کردیا کہ لابراھیم میں لام زائدہ نہیں ہے بلکہ بطور صلہ تعدیہ کے لئے ہے اور اگر بوانا، انزلنا کے معنی میں ہو تو لام کو زائدہ ماننا پڑے گا اس لئے کہ بوأنا اس وقت متعدی بنفسہ ہے، قولہ : امرناہ کی تقدیر سے اشارہ کیا ہے کہ أن لا تشرک بہ محذوف کا معمول ہے اور اس محذوف کا عطف بوانا پر ہے، وطھر بیتی اس سے پہلے امرنا یا قلنا محذوف ہے۔
قولہ : یاتوک خطاب کا صیغہ یا تو اس وجہ سے استعمال فرمایا ہے کہ حجاج کی بیت اللہ میں حاضری حضرت ابراہیم ہی کے اعلان کے نتیجہ میں ہوتی ہے، یا پھر مضاف محذوف ہے ای یا تو بیتک اور بیت کی اضافت کا ف خطاب کی جانب تعمیر کی وجہ سے ہے،
قولہ : ضامر دبلا جس کی کمر پتلی ہو یہ ضمور سے مشتق ہے تضمیر کہتے ہیں گھوڑے کو فربہ کرنے کے بعد دوڑا کر دبلا کرنا تاکہ وہ تیز رفتار ہوجائے۔ قولہ : یاتین یہ جمع کا صیغہ ہے ضامر کی صفت ہے حالانکہ ضامر مفرد ہے، کل ضامر جمع کے معنی میں ہے معنی ہی کی رعایت کی وجہ سے یاتین بصیغہ جمع لایا گیا ہے ورنہ تو یاتی واحد مذکر غائب کا صیغہ لانا چاہیے تھا۔ قولہ : لیشھدوا اس کا تعلق اذن اور یاتوک دونوں سے ہوسکتا ہے ثانی ظاہر ہے۔ اذا کانت مستحبۃ امام شافعی (رح) کے یہاں چونکہ ضحایا واجبہ سے مالدار کے لئے کھانا درست نہیں ہے، اس لئے مفسر علام نے اذا کانت مستحبۃ کا اضافہ فرمایا امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک سوائے دم جنایت کے مالداروں کے لئے کھانا جائز ہے، جیسے دم تمتع اور دم قران۔
قولہ : طواف الافاضہ یہ طواف رکن ہے، اسی کو طواف زیارت بھی کہتے ہیں اس کو افاضہ اس لئے کہا کہ اس کا وقت عرفات سے فارغ ہونے کے بعد ہے۔ قولہ : البیت العتیق، عتیق دو معنی میں مستعمل ہے اول بمعنی قدیم چونکہ عبادت خانہ کے طور پر بیت اللہ کو سب سے اول بنایا گیا تھا، اس لئے اس کو عتیق یعنی قدیم کہنا درست ہے اور دوسرے معنی، آزاد کے ہیں یعنی عتیق بمعنی معتق حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے چونکہ اس کو جبابرہ کے تسلط سے آزاد کردیا ہے، اس لئے اس کو عتیق کہا گیا ہے، اب رہا حجاج بن یوسف کا تسلط تو وہ حضرت زبیر (رض) کو بیت اللہ سے نکالنے کے لئے تھا نہ کہ بیت اللہ کو منہدم کرنے کے ارادہ سے مقصد پورا ہونے کے بعد حجاج نے دوبارہ بیت اللہ کی تعبیر کرا دی تھی، اور بعض حضرات نے عتیق کے معنی کریم کے بھی بیان کئے ہیں، ای البیت الکریم (جمل)
قولہ : تحریمہ کے اضافہ کا مقصد اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ یتلیٰ کا نائب فاعل محذوف ہے، مفسر علام اگر تحریمہ محذوف ماننے کے بجائے آیت التحریم محذوف مانتے تو زیادہ بہتر ہوتا اس لئے کہ متلوآیۃ تحریم ہے نہ کہ تحریم۔ قولہ : فالاستثناء منقطع الا ما یتلیٰ علیکم یہ مستثنیٰ منقطع ہے اس لئے کہ مستثنیٰ جو کہ المیتۃُ والدمُ ولحم الخنزیر الآیۃ ہے مستثنیٰ منہ الانعام کی جنس سے نہیں ہے لہٰذا یہ مستثنیٰ منقطع ہے اور مستثنیٰ متصل بھی ہوسکتا ہے بایں طور کہ الا ما یتلیٰ علیکم میں ما سے مراد وہ مردار ہے جو عارض موت کی وجہ سے مرگیا ہو یا غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا گیا، اس صورت میں چونکہ مستثنیٰ مستثنیٰ منہ کی جنس سے ہے لہٰذا مستثنیٰ متصل ہوگا۔
قولہ : حنفاء یہ اجتنبوا کی ضمیر واؤ سے حال ہے۔ قولہ : شعائر اللہ اعمال حج کو کہتے ہیں اس کا واحد شعیرۃٌ یا شعارۃٌ ہے اور مشاعر مواضع المناسک کے معنی میں ہے۔ قولہ : ھی البدن سیاق پر حمل کرتے ہوئے شعائر کی تفسیر بُدُن سے کی ہے، بہتر یہ تھا کہ اس کو عام رکھتے جو دیگر شعائر کو بھی شامل ہوجاتا۔ قولہ : من تقوی القلوب منھم منہم کا اضافہ کرکے اشارہ کردیا کہ من یعظم میں من موصولہ ہے اور من تقوی القلوب جملہ ہو کر صلہ ہے جس میں عائد کا ہونا ضروری ہے اور وہ منھم ہے۔ قولہ : طعن نیزہ سے زخم لگانا سنام اونٹ کی کوہان کو کہتے ہیں۔ قولہ : کر کو بھا یہ امام شافعی (رح) کے نزدیک ہے احناف کے نزدیک بغیر حالت اضطراری کے سوار ہونا درست نہیں ہے۔
قولہ : المراد الحرم قرب شئ کو عین شئ کا حکم دیدیا گیا ہے، اس لئے کہ ہدی بیت اللہ میں ذبح نہیں کی جاتی بلکہ حدود حرم میں ذبح کرنا ضروری ہے نہ کہ بیت اللہ یا مسجد حرام میں، امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک ہدی کا حدود حرم میں ذبح ہونا ضروری ہے۔
قولہ : محلھا الی البیت العتیق یعنی ہدایا اور ضحایا کے ذبح کرنے کی جگہ بیت اللہ کے قریب ہے یعنی حدود حرم میں خواہ مکہ میں ہو یا منیٰ میں
تفسیر و تشریح
بناء بیت اللہ کی ابتداء : واذ بوانا لابراھیم اس سے پہلی آیت میں مسجد حرام اور حرم سے روکنے والوں کے لئے شدید عذاب اور وعید شدید آئی ہے، آگے کی آیت میں بیت اللہ کے فضائل اور عظمت کا بیان ہے بوءً لغت میں ٹھکانہ دینے کو کہتے ہیں، اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حضرت ابراہیم اور ان کے صاحبزادے اسماعیل کو ملک شام سے ہجرت کراکر مکہ میں قیام پذیر کردیا، اور مقام بیت اللہ کی نشاندہی بھی فرما دی تاکہ ازسر نو اس کی تعمیر کی جاسکے، بیت اللہ کا وجود اگرچہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے وجود کے ساتھ ساتھ ہوا تھا مگر طوفان نوح میں اس کو اٹھالیا گیا، اور مدتوں تک بےنشان رہا، جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بیت اللہ کے قریب قیام پذیر ہوگئے اور بیت اللہ کی تعمیر کا ارادہ فرمایا تو اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی کہ الٰہ العالمین تو مجھے مقام بیت اللہ کی نشاندہی فرما دے، کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک زور دار ہوا بھیجی جس کی وجہ سے بیت اللہ کی بنادیں ظاہر ہوگئیں، ایک روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ بیت اللہ کے بقدر ایک بدلی آئی اور مقام بیت اللہ پر سایہ فگن ہوگئی اس میں ایک سر نمودار ہوا جو یہ نداء کرتا تھا، اے ابراہیم تم میری حدود کے مطابق بیت اللہ کی تعمیر شروع کرو، چناچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اسی کے مطابق بیت اللہ کی تعمیر فرمائی (جمل) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” سب سے پہلی مسجد جو روئے زمین پر تعمیر ہوئی وہ مسجد حرام (بیت اللہ) ہے اور اس کے چالیس سال بعد مسجد اقصیٰ تعمیر ہوئی “۔ (مسند احمد 5/150، 166، 167، و مسلم کتاب المساجد)
قولہ : أن لا تشرک بکی شیئاً یہ بناء بیت اللہ کی غرض کا بیان ہے، یعنی اس میں صرف میری عبادت کی جائے، مشرکین نے جو اس میں صدہا بت سجا رکھے ہیں جن کی وہ عبادت کرتے ہیں یہ ظلم عظیم ہے، قولہ : وطھر بیتی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو حکم دیا جا رہا ہے کہ میرے گھر کو آپ ظاہری اور باطنی ہر قسم کی نجاست سے پاک رکھئے، بیت اللہ چونکہ محض چہار دیواری کا نام نہیں ہے بلکہ اس قطعہ ارضی کا نام ہے جہاں بیت اللہ بنا ہوا ہے لہٰذا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ بیت اللہ کی جگہ کو بھی پاک رکھئے، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ خطاب اگرچہ حضرت خلیل (علیہ السلام) کو ہے مگر مراد آئندہ آنے والی امت ہو۔
واذن فی فی الناس بالحج ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس (رض) نے نقل کیا ہے کہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو فرضیت حج کے اعلان کا حکم ہوا تو حضرت ابراہیم نے عرض کیا، یہاں جنگل ہے جہاں آبادی ہے، وہاں میری آواز کس طرح پہنچے گی اللہ تعالیٰ نے فرمایا آپ کی ذمہ داری صرف اعلان کرنے کی ہے پوری دنیا میں پہنچانے اور پھیلانے کی ذمہ داری ہماری ہے، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے مقام ابراہیم پر اور ایک روایت میں جبل ابی قبیس پر کھڑے ہو کر دونوں کانوں میں انگلیاں ڈال کر یمیناً وشمالاً ، شرقاً و غرباً ہر طرف یہ ندا دی کہ اے لوگو ! تمہارے رب نے اپنا گھر بنایا ہے اور تم پر اس کا حج فرض کیا تم سب اس کے حکم کی تعمیل کرو، اسی روایت میں یہ بھی ہے کہ بطور معجزہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی آواز پوری دنیا میں پہنچا دی بلکہ ان تک بھی پہنچا دی جو ابھی تک پیدا بھی نہیں ہوئے تھے، بلکہ اصلاب آباء یا ارحام امہات میں تھے اور جس روح نے بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی آواز پر لبیک کہا اور جتنی مرتبہ کہا وہ ضرور بیت اللہ حاضر ہوگا۔
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نداء کی تاثیر : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی آواز کو جو اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں تک جو پہنچایا تھا اس کی تاثیر قیامت تک کے لئے قائم ہوگئی اور وہ ” یأتوک رجالاً وعلیٰ کل ضامرٍ یاتین من کل فج عمیق “ یعنی اطراف عالم سے لوگ بیت اللہ کی طرف چلے آویں گے کوئی پیادہ تو کوئی سوار اور سواری سے آنے والے بھی دور دراز ملکوں سے آئیں گے، جس کی وجہ سے ان کی سواریاں بھی لاغر ہوجائیں گی چناچہ ہزار ہا سال گزر چکے ہیں مگر بیت اللہ کی طرف آنے والوں کی یہی کیفیت ہے
لیشھدوا منافع لھم یعنی ان کی یہ حاضری خود انہی کے منافع کے لئے ہے لفظ منافع کو نکرہ لانے میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس میں دینی منافع تو بیشمار ہیں ہی دنیوی منافع بھی بیشمار ہیں، دوسرا فائدہ یہ بتلایا گیا ہے کہ ویذکروا اسم اللہ فی ایام معلوماتٍ (الآیۃ) تاکہ وہ اللہ کے نام لیں ایام معلومات میں ان چوپایوں پر جو اللہ تعالیٰ نے ان کو عطا کئے ہیں، اس میں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ قربانی کے گوشت اور اس سے حاصل ہونے والے فوائد پر نظر نہ ہونی چاہیے بلکہ اصل چیز اللہ کا ذکر ہے جو ان دونوں میں جانور قربان کرنے کے وقت جانوروں پر لیا جاتا ہے اصل روح عبادت یہی ہے قربانی کا گوشت حلال کردیا گیا یہ مزید انعام ہے، ایام معلومات سے وہی ایام مراد ہیں جن میں قربانی جائز ہے یعنی ذی الحجہ کی دسویں، گیارہوں، بارہویں تاریخیں اور چونکہ مارزقھم من بھیمۃ الانعام کے الفاظ عام ہیں اس میں ہر طرح کی قربانی داخل ہے، خواہ واجب ہو یا مستحب۔
فکلوا منھا یہاں کلوا اگرچہ بصیغہ امر ایا ہے مگر مراد اس سے اباحت و جواز ہے جیسا کہ قرآن میں ” اذا حللتم فاصطادوا “ میں شکار کا حکم بمعنی اجازت ہے۔
مسئلہ : زمانہ حج میں مختلف وجوہ کی بنا پر جانور ذبح کئے جاتے ہیں ان میں ایک قسم وہ ہے جو کسی جرم کی سزا کے طور پر واجب ہوتی ہے، مثلاً حرم کے خلاف یا احرام کے خلاف کوئی عمل کرلیا، اس کی جزاء میں کسی جانور کی قربانی واجب ہوتی ہے، جس کی تفصیل کتب فقہ میں موجود ہے، اس قربانی کو اصطلاح فقہ میں دم جنایت کہتے ہیں، اس میں کچھ تفصیل ہے بعض ممنوعات کے کرلینے سے گائے یا اونٹ ہی کی قربانی کرنا ضروری ہوتی ہے اور بعض کے لئے بکرا دنبہ کافی ہوجاتا ہے، بعض میں صدقہ سے ہی کام چل جاتا ہے، یہ سب مسائل فقہ کی کتابوں میں دیکھے جاسکتے ہیں، جو قربانی دم جنایت کے طور پر واجب ہوتی ہے، وہ صرف فقراء و مساکین کا حق ہے، اس کا گوشت نہ خود کھانا درست ہے اور نہ مالداروں کے لئے، باقی قسمیں خواہ واجب ہوں یا نفل اس میں دم تمتع اور دم قران بھی داخل ہے، ان سب کا گوشت سب کے لئے کھانا درست ہے اس آیت میں اسی کا بیان ہے، اور کم از کم ایک تہائی حصہ فقراء و مساکین کو دیدیا جائے اسی امر مستحب کا بیان آیت کے اگلے جملہ میں اس طرح فرمایا ہے ” واطعموا البائس الفقیر “ مطلب یہ کہ قربانی کے گوشت میں سے فقیر اور تنگدست لوگوں کو بھی کھلانا اور دینا مستحب ہے۔
ثم لیقضوا تفثھم احرام باندھنے کے بعد سے چونکہ حجامت نہیں بنواتے اور نہ ناخن وغیرہ لیتے ہیں اور زیادہ مل ول کر غسل بھی نہیں کرسکتے، جس کی وجہ سے بدن پر میل کچیل جم جاتا ہے جو کہ عاشقانہ اور مستانہ ایک کیفیت ہے، اب دس تاریخ کو یہ تمام قصے تمام ہوجاتے ہیں، حجامت بنوا کر غسل کرکے سلے ہوئے کپڑے پہنتے ہیں اور طواف زیارت کو جاتے ہیں اور جس کو ذبح و قربانی کرنی ہوتی ہے وہ پہلے ہی کرلیتا ہے، اور منتیں پوری کرنے سے یہ مراد ہے کہ اللہ کے نام کی جو نذر مانی ہو اس کو پورا کرے اور اقرب الی الصواب نذر سے مراد مناسک حج ہیں۔
افعال حج میں ترتیب کا درجہ : افعال حج کی جو ترتیب قرآن اور حدیث میں آئی ہے اسی ترتیب سے حج کے ارکان ادا کرنا کم از کم سنت ضرور ہے، واجب ہونے میں اختلاف ہے، امام اعظم ابوحنیفہ (رح) اور امام مالک کے نزدیک واجب ہے جس کے خلاف کرنے سے دم واجب ہوتا ہے، امام شافعی (رح) کے نزدیک سنت ہے، اس لئے ان کے نزدیک ترتیب ماثور کے خلاف کرنے سے اجر وثواب میں کمی واقع ہوجاتی ہے مگر دم واجب نہیں ہوتا، حضرت ابن عباس (رض) سے مروی حدیث میں ہے ” من قدم شیئاً من نسکہٖ او اخر فلیھرق دماً “ رواہ ابن ابکی شیبہ موقوفاً وھو فی حکم المرفوع (مظہری) یعنی جس شخص نے افعال حج میں سے کسی کو مقدم یا مؤخر کیا تو اس پر دم دینا لازم ہے، یہ روایت طحاوی نے بھی مختلف طرق سے نقل کی ہے۔
ولیطوفوا بالبیت العتیق اس سے طواف زیارت مراد ہے جو دسویں تاریخ کو رمی جمرہ اور قربانی سے فارغ ہونے کے بعد کیا جاتا ہے، یہ حج کا دوسرا رکن ہے پہلا رکن وقوف عرفہ ہے۔
احلت لکم الانعام الا ما یتلیٰ علیکم انعام سے مراد اونٹ، گائے، بکرا، مینڈھا، دنبہ وغیرہ ہیں، یہ جانور حالت احرام میں بھی حالت ہیں اور الا ما یتلیٰ سے جن جانوروں کو مستثنیٰ کرنے کا ذکر ہے ان کا بیان دوسری آیت میں آیا ہے، وہ مردار جانور اور موقوذہ اور جس پر اللہ کا نام قصداً ترک کردیا گیا ہو یا جس پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو یہ سب ہمیشہ کے لئے حرام ہیں حالت احرام ہو یا نہ ہو۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ مسجد حرام کی عظمت و جلال اور اس کے بانی، رحمان کے خلیل، ابراہیم علیہ السلام کی عظمت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاهِيمَ مَكَانَ الْبَيْتِ﴾ ” اور جب ہم نے مقرر کردی ابراہیم علیہ السلام کے لئے بیت اللہ کی جگہ۔“ یعنی ہم نے ان کیلئے اسے مہیا کردیا، آپ کو وہاں رہنے کے لئے بھیج دیا اور آپ کی اولاد کے ایک حصے کو وہاں آباد کیا تو اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو بیت اللہ کی تعمیر کا حکم دیا پس آپ نے بیت اللہ کو تقویٰ اور اطاعت الٰہی کی اساس پر تعمیر کیا۔ بیت اللہ کو آپ اور آپ کے بیٹے اسماعیل علیہ السلام نے مل کر تعمیر کیا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں، نیز یہ کہ اپنے اعمال کو اللہ کے لئے خالص کریں اور اس مقدس گھر کی اللہ تعالیٰ کے نام پر بنیاد رکھیں۔
﴿ وَطَهِّرْ بَيْتِيَ﴾ یعنی میرے گھر کو شرک، معاصی، نجاست اور گندگی سے پاک کیجئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس گھرکو شرف اور فضیلت بخشنے، بندوں کے دلوں میں اس کی عظمت کو اجاگر کرنے اور ہر جانب سے دلوں کو اس کی طرف مائل کرنے کے لئے اپنی طرف مضاف کیا ہے تاکہ یہ طواف کرنے والوں، اعتکاف کرنے والوں، ذکر، قراءت قرآن، تعلیم و تعلم اور دیگر عبادات کے لئے ٹھہرنے والوں کے لئے رب تعالیٰ کا گھر ہونے کے ناطے سے اپنی تطہیر اور تعظیم کے لئے عظیم ترین گھر ہو۔
﴿وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ﴾ ” اور رکوع سجود کرنے والوں کے لئے۔“ یعنی نماز پڑھنے والوں کے لئے، یعنی اس گھر کو ان اصحاب فضیلت کے لئے پاک کیجئے جن کا ارادہ یہ ہے کہ وہ اس گھر کے پاس اپنے آقا کی اطاعت اور اس کی خدمت کریں، نیز اس کا تقرب حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ یہی لوگ حقدار ہیں اور انہیں کے لئے اکرام ہے۔ ان کا اکرام یہ ہے کہ ان کی خاطر اس گھر کی تطہیر کا حکم دیا گیا ہے اور اس کی تطہیر میں لغو آوازوں اور شوروشغب سے اس کا پاک صاف ہونا بھی شامل ہے جو نماز اور طواف میں مصروف لوگوں کو تشویش میں ڈالتی ہیں۔
طواف کو اعتکاف اور نماز پر اس لئے مقدم رکھا ہے کیونکہ طواف صرف اسی گھر کے ساتھ مختص ہے اور پھر اعتکاف کا ذکر کیا کیونکہ وہ تمام مساجد سے مختص ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur yaad kero woh waqt jab hum ney Ibrahim ko iss ghar ( yani khana kaaba ) ki jagah bata di thi , ( aur yeh hidayat di thi kay : ) meray sath kissi ko shareek naa thehrana , aur meray ghar ko unn logon kay liye pak rakhna jo ( yahan ) tawaf keren , aur ibadat kay liye kharray hon , aur rukoo sajday baja layen .
12 Tafsir Ibn Kathir
مسجد حرام کی اولین بنیاد توحید
یہاں مشرکین کو متنبہ کیا جاتا ہے کہ وہ گھر جس کی بنیاد اول دن سے اللہ کی توحید پر رکھی گئی ہے تم نے اس میں شرک جاری کردیا۔ اس گھر کے بانی خلیل اللہ (علیہ السلام) ہیں سب سے پہلے آپ نے ہی اسے بنایا۔ آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ابوذر (رض) نے سوال کیا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی ؟ فرمایا مسجد حرام۔ میں نے کہا پھر ؟ فرمایا بیت المقدس۔ میں نے کہا ان دونوں کے درمیان کس قدر مدت کا فاصلہ ہے ؟ فرمایا چالیس سال کا۔ اللہ کا فرمان ہے آیت ( اِنَّ اَوَّلَ بَيْتٍ وُّضِــعَ للنَّاسِ لَلَّذِيْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّھُدًى لِّـلْعٰلَمِيْنَ 96ۚ ) 3 ۔ آل عمران :96) ، دو آیتوں تک۔ اور آیت میں ہے ہم نے ابراہیم واسماعیل (علیہ السلام) سے وعدہ کرلیا کہ میرے گھر کو پاک رکھنا الخ بیت اللہ شریف کی بنا کا کل ذکر ہے ہم پہلے لکھ چکے ہیں اس لئے یہاں دوبارہ لکھنے کی ضرورت نہیں۔ یہاں فرمایا اسے صرف میرے نام پر بنا اور اسے پاک رکھ یعنی شرک وغیرہ سے اور اسے خاص کردے ان کے لئے جو موحد ہیں۔ طواف وہ عبادت ہے جو ساری زمین پر بجز بیت اللہ کے میسر ہی نہیں ناجائز ہے۔ پھر طواف کے ساتھ نماز کو ملایا قیام، رکوع، سجدے، کا ذکر فرمایا اس لئے کہ جس طرح طواف اس کے ساتھ مخصوص ہے نماز کا قبلہ بھی یہی ہے ہاں اس کی حالت میں کہ انسان کو معلوم نہ ہو یا جہاد میں ہو یا سفر میں ہو نفل نماز پڑھ رہا ہو تو بیشک قبلہ کی طرف منہ نہ ہونے کی حالت میں بھی نماز ہوجائے گی واللہ اعلم۔ اور یہ حکم ملا کہ اس گھر کے حج کی طرف تمام انسانوں کو بلا۔ مذکور ہے کہ آپ نے اس وقت عرض کی کہ باری تعالیٰ میری آواز ان تک کیسے پہنچے گی ؟ جواب ملا کہ آپ کے ذمہ صرف پکارنا ہے آواز پہنچانا میرے ذمہ ہے۔ آپ نے مقام ابراہیم پر یا صفا پہاڑی پر ابو قیس پہاڑ پر کھڑے ہو کر ندا کی کہ لوگو ! تمہارے رب نے اپنا ایک گھر بنایا ہے پس تم اس کا حج کرو۔ پہاڑ جھک گئے اور آپ کی آواز ساری دنیا میں گونج گئی۔ یہاں تک کہ باپ کی پیٹھ میں اور ماں کے پیٹ میں جو تھے انہیں بھی سنائی دی۔ ہر پتھر درخت اور ہر اس شخص نے جس کی قسمت میں حج کرنا لکھا تھا باآواز لبیک پکارا۔ بہت سے سلف سے یہ منقول ہے، واللہ اعلم۔ پھر فرمایا پیدل لوگ بھی آئیں گے اور سواریوں پر سوار بھی آئیں گے۔ اس سے بعض حضرات نے استدلال کیا ہے کہ جسے طاقت ہو اس کے لئے پیدل حج کرنا سواری پر حج کرنے سے افضل ہے اس لئے کہ پہلے پیدل والوں کا ذکر ہے پھر سواروں کا۔ تو ان کی طرف توجہ زیادہ ہوئی اور ان کی ہمت کی قدر دانی کی گئی۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں میری یہ تمنا رہ گئی کہ کاش کہ میں پیدل حج کرتا۔ اس لئے کہ فرمان الٰہی میں پیدل والوں کا ذکر ہے۔ لیکن اکثر بزرگوں کا قول ہے کہ سواری پر افضل ہے کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے باوجود کمال قدرت وقوت کے پاپیادہ حج نہیں کیا تو سواری پر حج کرنا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پوری اقتدا ہے پھر فرمایا دور دراز سے حج کے لئے آئیں گے خلیل اللہ (علیہ السلام) کی دعا بھی یہی تھی کہ آیت (فاجعل افئدۃ من الناس تہوی الیہم) لوگوں کے دلوں کو اے اللہ تو ان کی طرف متوجہ کردے۔ آج دیکھ لو وہ کونسا مسلمان ہے جس کا دل کعبے کی زیارت کا مشتاق نہ ہو ؟ اور جس کے دل میں طواف کی تمنائیں تڑپ نہ رہی ہوں۔ (اللہ تعالیٰ ہمیں نصیب فرمائے )