قُلْ يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّمَاۤ اَنَاۡ لَـكُمْ نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌۚ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
(اے پیغمبر) کہہ دو کہ لوگو ! میں تم کو کھلم کھلا نصیحت کرنے والا ہوں
آیت نمبر 49 تا 57
ترجمہ : آپ اعلان کر دیجئے کہ اے لوگو یعنی مکہ والو میں تم کو واضح طور ڈرانے والا ہوں یعنی کھلے طور پر آگاہ کرنے والا ہوں اور میں مومنین کو خوشخبری دینے والا ہوں، پس جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے ان کے لئے (سابقہ) گناہوں کی بخشش ہے اور عزت کی روزی ہے وہ جنت ہے، اور وہ لوگ جو ہماری آیات میں یعنی قرآنی آیات کے ابطال کے روپے رہتے ہیں عاجز کرنے کے لئے ان لوگوں کو جنہوں نے اتباع کی ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یعنی ان کی طرف عاجز ہونے کی نسبت کرنے کے لئے، اور روکتے ہیں ان کو ایمان سے یا ہم کو عاجز گمان کرتے ہوئے ان کی گرفت سے، اور ایک قرأۃ میں معاجزین بمعنی مسابقین ہے یعنی ہمارے بارے میں یہ گمان کرتے ہوئے کہ وہ (ہماری گرفت سے) بعث و عقاب کا انکار کرکے نکل بھاگیں گے، یہی ہیں دوزخی اور ہم نے آپ کے قبل کوئی رسول، رسول وہ نبی ہوتا ہے جس کو تبلیغ کا حکم دیا گیا ہو اور کوئی نبی یعنی جس کو تبلیغ کا حکم نہ دیا گیا ایسا نہیں بھیجا کہ جس کو یہ قصہ پیش نہ آیا ہو کہ جب بھی اس نے کچھ پڑھا ہو اور شیطان نے اس کے پڑھنے میں ایسی چیز (شبہ) نہ ڈالی ہو کہ جو قرآن نہیں ہے اور وہ ایسا شبہ ہو کہ جس سے مرسل الیہم خوش ہوں، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورة نجم میں قریش کی مجلس میں افرایتم اللات والعزی ومنات الثلثۃ الاخری کے بعد لاعلمی میں آپ کی زبان پر القاء شیطانی کی وجہ سے تلک الغرانیق العلیٰ وان شفاعتھن لترتجی پڑھا (ترجمہ) یہ اونچے درجہ کی دیویاں ہیں، ان کی شفاعت کی یقیناً امید کی جاتی (مشرکین مکہ) اس سے بہت خوش ہوئے، پھر حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے آپ کو اس واقعہ کی خبر دی جو شیطان نے آپ کی زبان مبارک پر القاء کردیا تھا، تو آپ رنجیدہ ہوئے تو آپ کو آئندہ آیت کے ذریعہ تسلی دی گئی تاکہ آپ مطمئن ہوجائیں اللہ تعالیٰ شیطان کے ڈالے ہوئے شبہات کو نیست و نابود کو دیتا ہے پھر اپنی آیات کو زیادہ مضبوط کردیتا ہے اللہ تعالیٰ القاء شیطانی سے بخوبی واقف ہے جس کا ماسبق میں ذکر ہوچکا ہے، اور اللہ حکیم ہے اپنی طرف سے شیطان کو قدرت دینے میں وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے، تاکہ اللہ تعالیٰ القاء شیطانی کو ان لوگوں کے لئے آزمائش بنا دے جن کے قلوب میں شک و نفاق کا مرض اور ان کے قلوب سخت ہیں یعنی مشرکین کے قلوب قبول حق کے بارے میں سخت ہیں اور واقعی یہ ظالم کافر لوگ بڑی گمراہی میں ہیں یعنی نبی اور مونین کے ساتھ طویل گمراہی میں ہیں اس لئے کہ آپ کی زبان مبارک پر ان کے معبودوں کا ایسا ذکر جاری ہوگیا جس نے ان کو خوش کردیا، پھر اس ذکر کو باطل قرار دیدیا اور تاکہ وہ لوگ کہ جن کو توحید اور قرآن کا علم دیا گیا ہے جان لیں کہ وہ یعنی قرآن تیرے رب کی جانب سے حق ہے تو اس پر ایمان لے آئیں پھر ان کے قلوب اس پر مطمئن ہوجائیں اور واقعی ایمان والوں کو اللہ راہ راست کی طرف رہنمائی کرتا ہے یعنی دین اسلام کی جانب اور کافر لوگ قرآن کے بارے میں ہمیشہ شک میں مبتلا رہیں گے، اس شبہ کی وجہ سے کہ شیطان نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان پر القاء کیا پھر اس کو (اللہ نے) باطل کردیا، یہاں تک کہ ان پر دفعتاً قیامت آجائے یعنی موت کی گھڑی یا (واقعی) قیامت اچانک آجائے، یا ان پر کسی منحوس دن کا عذاب آجائے اور وہ بدر کا دن تھا کہ جس میں کافروں کے لئے کوئی خیر نہیں تھی، جیسا کہ ریح عقیم کوئی خیر نہیں لاتی یا یوم عقیم سے مراد قیامت کا دن ہے کہ اس کے لئے رات نہیں ہوگی اور بادشاہی اس دن یعنی قیامت کے دن صرف اللہ کے لئے ہوگی اور جو لفظ استقر کے معنی کو متضمن ہے وہی ظرف (یومئذ) کا ناصب ہوگا اور وہ ان کے یعنی مومنین اور کافرین کے درمیان اس کے ذریعہ فیصلہ کر دے گا جس کو بعد میں بیان کیا ہے، سو جو لوگ ایمان لائے ہوں گے اور نیک عمل کئے ہوں گے تو وہ اللہ کے فضل سے نعمتوں کی جنت میں ہوں گے اور جن لوگوں نے کفر کیا ہوگا اور ہماری آیتوں کی تکذیب کی ہوگی تو ان لوگوں کے لئے ان کے کفر کے سبب شدید ذلت کا عذاب ہوگا۔
تحقیق و ترکیب و تفسیری فوائد
قل یا ایھا الناس اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان طلب عذاب کے بارے میں جلدی کرنے والوں سے کہہ دیجئے کہ میں تو صاف صاف ڈرانے والا اور خوشخبری دینے والا ہوں تعجیل یا تاخیر عذاب میں میرا کوئی دخل نہیں ہے۔ قولہ : بابطالھا کے اضافہ کا مقصد حذف مضاف کی طرف اشارہ ہے ای سعوا فی ابطال آیاتنا، بابطالھا میں با بمعنی فی ہے معجزین یہ سعوا کی ضمیر سے حال ہے اور من اتبع النبی، معجزین کا مفعول ہے، یا معجزین کا مفعول اللہ ہے ای معجزین اللہ مطلب یہ ہے کہ ہماری آیات کے ابطال میں سعی کرتے ہیں ہم کو اپنی گرفت سے عاجز مان کر، اور ایک قرأۃ میں معاجزین ہے بمعنی سابقین (مفاعلہ) یہ گمان کرتے ہوئے کہ وہ ہماری پکڑ سے نکل بھاگیں گے، اور مسابقت کا مطلب یہ ہے کافر اللہ کے عذاب سے فرار کی سعی کرتے ہیں ہم کو اپنی گرفت سے عاجز مان کر، اور ایک قرأۃ میں معاجزین ہے بمعنی سابقین (مفاعلہ) یہ گمان کرتے ہوئے کہ وہ ہماری پکڑ سے نکل بھاگیں گے، اور مسابقت کا مطلب یہ ہے کہ کافر اللہ کے عذاب سے فرار کی سعی کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان پر عذاب نازل کرنے، نہ بھاگنے دینے میں مسابقت کرتا ہے۔
قولہ : وما ارسلنا من (الآیۃ) وان یکذبوک کے بعد یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دوسری تسلی ہے من قبلک میں من ابتداء غایت کے لئے ہے اور من رسولٍ میں من زائدہ ہے، قولہ : اذا تمنی القی الشیطن، اذا تمنی شرط ہے اور القی الشیطان فی امنیتہٖ اس کی جزاء ہے، اور جملہ شرطیہ ہو کر نبی سے حال ہے تقدیر عبارت یہ ہے وما ارسلنا نبیا الا حالہٗ ھٰذہ اور مستثنیٰ منقطع ہونے کی وجہ سے بھی منصوب ہوسکتا ہے۔
قولہ : الغرانیق اس کا واحد غرنوق بروزن فردوس ہے اور بعض نے غرنوق بروزن عصفور کہا ہے، مرغ آبی کو کہتے ہیں فینسخ اللہ نسخ سے نسخ لغوی مراد ہے نہ کہ اصطلاحی، نسخ کے معنی زائل کرنے اور مٹانے کے ہیں۔ قولہ : لیجعل کے لام میں ظاہر یہ ہے کہ یہ یحکم کے متعلق ہے ای ثم یحکم اللہ آیاتہ لیجعل اور واللہ علیم حکیم جملہ معترضہ ہے، یہ بھی احتمال ہے کہ لیجعل ینسخ کے متعلق ہو، قولہ : والقاسیۃ بمعنی القسوۃ سخت دل، القاسیۃ میں الف لام موصول کا ہے اور اس کا عطف الذین فی قلوبھم پر ہے۔ قولہ : وان الظلمین اسم ظاہر کو یہاں زیادتی قباحت کو بیان کرنے کے لئے اسم ضمیر کی جگہ رکھا گیا ہے اصل میں انھم یومئذٍ کا عامل ناصب استقر یا اس کے ہم معنی فعل محذوف ہے۔ قولہ : یحکم بینھم جملہ مستانفہ ہے یہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے، سوال یہ ہے ما ذا یصنع بھم ؟ فقیل یحکم بینھم اور جملہ حالیہ بھی ہوسکتا ہے۔
قولہ : بما بین بعدہ ای فالذین آمنوا وعملوا الصلحات مبتدا ہے فی جنت نعیم اس کی خبر ہے ای مستقرون فیھا اسی طرح والذین کفروا وکذبوا بآیتنا مبتدا ہے اور فاولئک لھم عذاب مھین جملہ ہو کر اس کی خبر ہے، اول خبر پر فانہ داخل کرنا اور ثانی خبر پر فا کا داخل کرنا یہ بتانے کے لئے ہے کہ جنت میں داخل اعمال کی وجہ سے نہیں ہوگا بلکہ اللہ کے فضل و کرم کی وجہ سے ہوگا، اسی بات کی طرف اشارہ کرنے کے لئے مفسر علام نے فضلا من اللہ کا اضافہ کیا ہے، بخلاف عذاب جہنم کے اس کا ترتیب اعمال ہی پر ہوگا اسی لئے فاولئک پر فاجزائیہ داخل کی گئی۔ (جمل)
تفسیر و تشریح
قل یا ایھا الناس قرآن کریم میں عام طور پر یایھا الناس سے مشرکین مکہ کو خطاب ہوتا ہے، چناچہ یہاں بھی مشرکین مکہ میں سے وہ لوگ مراد ہیں جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عذاب کئ جلدی آنے کا مطالبہ کرتے تھے، چونکہ مشرکین مکہ نزول عذاب کے منکر تھے اس لئے نزول عذاب کی وعید کو محض ذراوا سمجھتے تھے اسی لئے وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عذاب کے جلدی لانے کا بار بار تقاضا کرتے تھے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کہہ دیجئے کہ میں تو واضح طور پر ڈرانے والا ہوں میرا کام آگاہ اور ہوشیار کردینا ہے، عذاب لے آنا میرے قبضہ میں نہیں ہے، یہ تو خدا ہی کے قبضہ کی بات ہے، البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ نیکو کاروں کو جزاء اور بدکاروں کا سزا دیں گے۔
وما ارسلنا من قبلہ من رسول ولا نبی ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اور نبی دونوں کا مفہوم الگ الگ ہے، دونوں میں فرق کیا ہے ؟ اس میں اقوال مختلف ہیں مشہور اور واضح بات یہ ہے کہ نبی تو اس کو کہتے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے منصب نبوت قوم کی اصلاح کے لئے عطا کیا گیا ہو اور اس کو تبلیغ رسالت کی ذمہ داری سپرد کی گئی ہو اور اس کے پاس اللہ کی طرف سے وغی آئی ہو خواہ اس کو کوئی مستقل کتاب یا شریعت دی گئی ہو یا کسی پہلے نبی ہی کی کتاب یا شریعت کی تبلیغ کے لئے مامور ہو، پہلے کی مثال حضرت موسیٰ و عیسیٰ اور خاتم الانبیاء محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور دوسرے کی مثال حضرت ہارون (علیہ السلام) کی ہے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی کتاب اور شریعت کی تبلیغ وتعلیم پر مامور تھے، اور رسول وہ ہے کہ جسے مستقل شریعت اور کتاب ملی ہو، اس سے معلوم ہوا کہ ہر رسول کا نبی ہونا ضروری ہے مگر ہر نبی کا رسول ہونا ضروری نہیں، اب رہا فرشتہ کو رسول کہنا تو یہ اصطلاحی معنی میں نہیں ہے بلکہ لغوی معنی میں ہے لہٰذا وہ اس کے منافی نہیں ہے۔
اذا تمنی القی الشیطن فی امنیتہ، تمنیٰ اس جگہ قرأ کے معنی میں ہے اور أمنیۃ کے معنی قرأت کے ہیں، ابو حیان نے بحر محیط میں اور بہت سے دوسرے حضرات نے اسی کو اختیار کیا ہے، کتب حدیث میں اس جگہ ایک واقعہ نقل کیا گیا ہے جو واقعہ غرانیق کے نام سے معروف ہے یہ واقعہ جمہور محدیثین کے نزدیک ثابت نہیں ہے، بعض حضرات نے اس کو موضوع، ملحدین و زنادقہ کی ایجاد قرار دیا ہے اور جن حضرات نے اس واقعہ کو کچھ معتبر مانا ہے تو اس کے ظاہری الفاظ سے جو شبہات قرآن و سنت کی قطعیت پر عائد ہوتے ہیں ان کے مختلف جوابات دئیے ہیں، لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ اس آیت کی تفسیر اس واقعی پر موقوف نہیں ہے۔
مفسرین کی ایک جماعت نے مذکورہ آیت کے شان نزول میں واقعہ غرانیق بیان کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک روز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مشرکین مکہ کی ایک مجلس میں تشریف فرماں تھے، آپ پر سورة نجم کا نزول ہوا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورة نجم پڑھنی شروع کی، جب آپ افرأیتم اللات والعزی ومنات الثلثۃ الاخری پر پہنچے تو القاء شیطانی سے آپ کی زبان مبارک پر تلک الغرانیق العلیٰ وان شفاعتھین لترتجی جاری ہوگیا جب قریش نے یہ کلمات سنے تو بہت خوش ہوئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرأت جاری رکھی حتی کہ سورة کے ختم تک تلاوت فرمائی اور جب آخر میں آپ نے سجدہ کیا تو مجلس کے حاضرین نے بھی سجدہ کیا، اس واقعہ کے بعد مشرکین خوشی خوشی منتشر ہوگئے اور کہنے لگے کہ آج محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمارے معبودوں کی ستائش فرمائی، چناچہ جبرئیل تشریف لائے اور فرمایا آپ نے یہ کیا کیا ؟ آپ نے تو لوگوں کو وہ سنا دیا جو میں آپ کے پاس اللہ کی طرف سے لے کر نہیں آیا، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس واقعہ سے سخت رنج ہوا اور شدید خوف زدہ بھی ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلی کے لئے مذکورہ آیت نازل فرمائی، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ معاملہ تنہا آپ کے ساتھ نہیں ہوا بلکہ ہر رسول اور نبی کے ساتھ ہوا ہے لہٰذا رنجیدہ ہونے کی بات نہیں ہے، مگر وہ واقعہ کسی طرح بھی ثابت نہیں ہے بلکہ اس کا بطلان کتاب اللہ سے ثابت ہے قال اللہ تعالیٰ لو تقول علینا بعض الاقاویل لاخذنا منہ بالیمین ثم لقطعن منہ الوتین وقال اللہ تعالیٰ وما ینطق عن الھوٰی امام بیہقی (رح) نے اس قصہ کے بارے میں فرمایا ھٰذہ القصۃُ غیر ثابتۃٌ من جھۃ النقل امام ابن خزیمہ (رح) نے فرمایا اِن ھٰذہ القصۃ من وضع الزنادقۃ بعض مفسرین نے قصہ غرانیق کے ساتھ حبشہ سے مہاجرین کے واپس ہونے کا قصہ بھی لگا دیا ہے، جس کی مزید تفصیل سورة نجم میں انشاء اللہ ملاحظہ فرمائیں گے کہ تمنیٰ کے معنی قرأ کے ہیں اور معنی القی الشیطان فی أمنیتہٖ ای فی تلاوتہٖ وقرأتہٖ کے ہیں ابن جریر نے کہا کہ یہ قول تاویل کلام کے زیادہ مشابہ ہے، آیت کے حاصل معنی یہ ہیں کہ شیطان نے مشرکین کے کانوں میں بغیر اس کے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک پر مذکورہ کلمات جاری ہوں خود ہی مذکورہ کلمات ڈالدئیے۔ (فتح القدیر) اللہ تعالیٰ شیطان کے القاء کردہ کلمات کو مٹا دے گا، اور اپنی آیات کو محکم کر دے گا۔
English Sahih:
Say, "O people, I am only to you a clear warner."
1 Abul A'ala Maududi
اے محمدؐ، کہہ دو کہ "لوگو، میں تو تمہارے لیے صرف وہ شخص ہوں جو (برا وقت آنے سے پہلے) صاف صاف خبردار کردینے والا ہوں