الحج آية ۵۸
وَالَّذِيْنَ هَاجَرُوْا فِىْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ثُمَّ قُتِلُوْۤا اَوْ مَاتُوْا لَيَرْزُقَنَّهُمُ اللّٰهُ رِزْقًا حَسَنًاۗ وَاِنَّ اللّٰهَ لَهُوَ خَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ
طاہر القادری:
اور جن لوگوں نے اﷲ کی راہ میں (وطن سے) ہجرت کی پھر قتل کر دیئے گئے یا (راہِ حق کی مصیبتیں جھیلتے جھیلتے) مرگئے تو اﷲ انہیں ضرور رزقِ حسن (یعنی اُخروی عطاؤں) کی روزی بخشے گا، اور بیشک اﷲ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے،
English Sahih:
And those who emigrated for the cause of Allah and then were killed or died – Allah will surely provide for them a good provision. And indeed, it is Allah who is the best of providers.
1 Abul A'ala Maududi
اور جن لوگوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی، پھر قتل کر دیے گئے یا مر گئے، اللہ ان کو اچھّا رزق دے گا اور یقیناً اللہ ہی بہترین رازق ہے
2 Ahmed Raza Khan
اور وہ جنہوں نے اللہ کی راہ میں اپنے گھر بار چھوڑے پھر مارے گئے یا مرگئے تواللہ ضرور انہیں اچھی روزی دے گا اور بیشک اللہ کی روزی سب سے بہتر ہے،
3 Ahmed Ali
اور جنہوں نے الله کی راہ میں ہجرت کی پھر قتل کیے گئے یا مر گئے البتہ انہیں الله اچھا رزق دے گا اور بے شک الله سب سے بہتر رزق دینے والا ہے
4 Ahsanul Bayan
اور جن لوگوں نے راہ خدا میں ترک وطن کیا پھر وہ شہید کر دیئے گئے یا اپنی موت مر گئے (١) اللہ تعالٰی انہیں بہترین رزق عطا فرمائے گا (٢) بیشک اللہ تعالٰی روزی دینے والوں میں سب سے بہتر ہے (٣)۔
٥٨۔١ یعنی اسی ہجرت کی حالت میں موت آگئی یا شہید ہوگئے۔
٥٨۔٢ یعنی جنت کی نعمتیں جو ختم نہ ہونگیں نہ فنا۔
٥٨۔٣ کیونکہ وہ بغیر حساب کے، بغیر استحقاق کے اور بغیر سوال کے دیتا ہے۔ علاوہ ازیں انسان بھی جو ایک دوسرے کو دیتے ہیں تو اسی کے دیئے ہوئے میں سے دیتے ہیں۔ اس لئے اصل رازق وہی ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جن لوگوں نے خدا کی راہ میں ہجرت کی پھر مارے گئے یا مر گئے۔ ان کو خدا اچھی روزی دے گا۔ اور بےشک خدا سب سے بہتر رزق دینے والا ہے
6 Muhammad Junagarhi
اور جن لوگوں نے راه خدا میں ترک وطن کیا پھر وه شہید کر دیئے گئے یا اپنی موت مر گئے اللہ تعالیٰ انہیں بہترین رزق عطا فرمائے گا۔ اور بیشک اللہ تعالیٰ روزی دینے والوں میں سب سے بہتر ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور جن لوگوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی پھر قتل کر دیئے گئے۔ یا اپنی موت مر گئے (دونوں صورتوں میں) اللہ ضرور انہیں اچھی روزی عطا فرمائے گا (کیونکہ) وہ بہترین روزی عطا کرنے والا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور جن لوگوں نے راسِ خدا میں ہجرت کی اور پھر قتل ہوگئے یا انہیں موت آگئی تو یقینا خدا انہیں بہترین رزق عطا کرے گا کہ وہ بیشک بہترین رزق دینے والا ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور جن لوگوں نے خدا کی راہ میں ہجرت کی پھر مارے گئے یا مرگئے ان کو خدا اچھی روزی دے گا اور بیشک خدا سب سے بہتر رزق دینے والا ہے
آیت نمبر 58 تا 64
ترجمہ : اور جن لوگوں نے راہ خدا میں ترک وطن کیا یعنی اس کی طاعت میں مکہ سے مدینہ کی طرف (ہجرت کی) پھر وہ شہید کر دئیے گئے یا اپنی موت مرگئے اللہ تعالیٰ ان کو بہترین رزق عطا فرمائے گا، وہ جنت کا رزق ہے، بیشک اللہ تعالیٰ سب دینے والوں سے بہتر دینے والا ہے، یعنی عطا کرنے والوں میں بہتر عطا کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں ایسی جگہ پہنچائے گا کہ کہ وہ اس کو پسند کریں گے اور وہ جنت میں مدخلاً میم کے ضمہ کے ساتھ اور اس کے فتحہ کے ساتھ، داخل کرنا یا داخل کرنے کی جگہ اور بیشک اللہ تعالیٰ ان کی نیتوں سے واقف ہے ان کو سزا دینے کے معاملہ میں حلیم ہے، بات ایسی ہے جیسی کہ ہم نے تم کو سنائی، اور جس مومن نے بدلہ لیا (ظالم سے) اسی کے برابر جو (ظلم مشرکین کی جانب سے) اس کے ساتھ کیا گیا تھا، یعنی ان کے ساتھ اسی طرح قتال کیا جس طرح انہوں نے ماہ محرم میں مومنین کے ساتھ قتال کیا تھا، پھر اس کے ساتھ زیادتی کی جائے مشرکین کی جانب سے یعنی اس کو اس کے گھر سے نکال کر اس پر ظلم کیا گیا، تو یقیناً اللہ تعالیٰ اس کی مدد فرمائے گا، بیشک اللہ تعالیٰ مومنین کو بہت معاف کرنے والا اور درگذر کرنے والا ہے، شہر حرام میں ان کے قتال کرنے کو اور یہ مدر اس وجہ سے ہوگی کہ بیشک اللہ تعالیٰ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کردیتا ہے یعنی ایک کو دوسرے میں داخل کردیتا ہے بایں طور کہ ہر ایک میں اضافہ کردیتا ہے اور یہ ایلاج اس کی قدرت کی دلیل ہے جسکے ذریعہ نصرت ہوتی ہے اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ مومنین کی دعا کو سننے والا ہے اور ان کے احوال کو دیکھنے والا ہے اس طریقہ پر کہ ان کو مومن بنایا پھر ان کی دعا کو شرف قبولیت بخشا اور یہ نصرت بھی اس سبب سے ہے کہ اللہ ہی معبود برحق ہے اور بلاشبہ جس کو یہ لوگ یا تم لوگ اس کو چھوڑ کر پکارتے ہو اور وہ بت ہیں وہ باطل ہے زائل ہونے والا ہے اور بلاشبہ اللہ ہی ہر شئ پر عالی ہے اپنی قدرت کے اعتبار سے اور ایسا عظمت والا ہے کہ اس کے سوا اس کی عظمت کے سامنے ہر شئ ذلیل ہے کی اتو نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے بارش برسائی جس سے زمین نباتات کے ذریعہ سرسبز ہوگئی اور یہ اسکی قدرت کا اثر ہے، بیشک اللہ تعالیٰ پانی کے ذریعہ نباتات پیدا کرنے میں اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے اور بارش کی تاخیر کی صورت میں جو خیالات بندوں کے دلوں میں آتے ہیں ان سے باخبر ہے آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اسی کی ملک ہے اور بیشک اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں کا محتاج نہیں اور اپنے اولیاء کی تعریف کا سزا وار ہے۔
تحقیق و ترکیب و تفسیری فوائد
قولہ : والذین ھاجروا مبتدا ہے لیرزقنھم اللہ اس کی خبر ہے والذین ھاجروا اگرچہ الذین آمنوا میں داخل ہیں، مگر ان کی عظمت شان کی وجہ سے خاص طور پر ان کا ذکر کیا گیا ہے گویا کہ یہ تخصیص بعد العمیم کے قبیل سے ہے، لیرزقنھم قسم محذوف کا جواب ہے ای واللہ لیرزقنھم قسم اور جواب قسم مل کر جملہ ہو کر والذین ھاجروا کی خبر ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جملہ قسمیہ مبتداء کی خبر واقع ہوسکتا ہے رزقا حسناً لیرزقنھم کا مفعول ثانی ہے اور لیرزقنھم کا مفعول مطلق برائے تاکید بھی ہوسکتا ہے۔ قولہ : خیر الرازقین کے بعد افضل المعطین کے اضافہ کا مقصد اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ خیرٌ اسم تفضیل اسم تفضیل ہی کے معنی میں ہے قرآن پاک میں عام طور پر اس تفضیل اسم فاعل کے معنی میں ہوتا ہے مگر یہاں ایسا نہیں ہے، اول تو اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسا رزق مخصوص ہے جس پر کوئی دوسرا قادر نہیں ہے، اور رزق میں یہی اصل ہے، دوسری بات یہ ہے کہ بظاہر غیر اللہ جو رزق دیتا ہے وہ اللہ ہی کے عطا کردہ رزق میں سے دیتا ہے، تیسری بات یہ ہے کہ غیر اللہ جو رزق دیتا ہے اس کا مقصد طلب عوض ہوتا ہے کم از کم اجر آکرت ہی سہی، اور اللہ تعالیٰ کا جو رزق ہوتا ہے وہ محض بطور احسان ہوتا ہے۔
قولہ : لیدخلنھم یہ لیرزقنھم سے بدل بھی ہوسکتا ہے اور جملہ مستانفہ بھی۔ قولہ : مدخلا یہ باب افعال کا مصدر ہے ای ادخالا ومدخلاً اس صورت میں یہ لیدخلنھم کا مفعول مطلق ہوگا اور اس کا مفعول بہ محذوف ہوگا ای لیدخلنھم الجنۃ ادخالا یرضونہ اور فتحہ میم کے ساتھ ظرف مکان ہوگا ای موضع دخول اس صورت میں مدخلاً ہی لیدخلنھم کا مفعول فیہ ہوگا ای لیدخلنھم مکاناً یرضونہ، قولہ : ذٰلک یہ مبتدا محذوف کی خبر ہے ای الامر ذٰلک یعنی مومنین و کافرین سے جو وعدے ہیں وہ اپنی جگہ پر صحیح اور برحق ہیں، جب ایک کلام سے دوسرے کلام کی طرف انتقال مطلوب ہوتا ہے تو اس وقت الامر ذٰلک بولتے ہیں۔ قولہ : ومن عاقب یہ تعاقب سے ماخوذ ہے جس کے معنی مجئ الشئ بعد الشئ ای جاز۔
قولہ : ای قاتلھم کما قاتلواہ فی الشھر المحرم مفسر کے اس قول میں آیۃ کے شان نزول کی طرف اشارہ ہے، مقاتل (رح) نے کہا ہے کہ مذکورہ آیت مشرکین مکہ میں سے ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی کہ جس کی مڈ بھیڑ مسلمانوں کی ایک جماعت سے ہوگئی تھی، حالانکہ ابھی ماہ محرم کے ختم ہونے میں دور وز باقی تھے مشرکین نے یہ سمجھتے ہوئے کہ اصحاب محمد شہر حرام میں قتال کو ناپسند کرتے ہیں حملہ کردیا، مسلمانوں نے شہر حرام میں جنگ نہ کرنے کے لئے مشرکین کو قسم دی مگر انہوں نے ایک نہ سنی، مجبوراً مسلمان بھی ان کے مقابلہ میں ڈٹ گئے، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو مشرکین پر غلبہ عطا فرمایا، شہر حرام میں قتال کرنے کی وجہ سے مسلمانوں کے دل میں ایک قسم کی خلش اور وسوسہ باقی تھا اگرچہ مسلمانوں نے بدرجہ مجبوری شہر حرام میں قتال کیا تھا، اسی وسوسہ کو زائل کرنے کے لئے مذکورہ آیت نازل ہوئی، ظلم کا بدلہ لینے کو عاقب کے لفظ سے تعبیر کیا ہے، یہ مجازاً مشاکلت کے طور پر کیا گیا ہے، جیسے جزء السیئۃ سیئۃ میں کہا گیا ہے، یا یہ تسمیہ السبب باسم المسبب کے قبیل سے ہے، یعنی مشرکین کا ظلم ان سے انتقام لینے کا سبب بنا۔ قولہ : ومن عاقب مبتدا ہے لینصرنہ اس کی خبر ہے اور یہ اس صورت میں ہے کہ جب من موصولہ ہو اور یہ بھی صحیح ہے کہ من شرطیہ ہو اور لینصرنہ اس کی جزاء ہو۔
قولہ : ذٰلک النصر مبتدا ہے اور بأن اللہ یولج اللیل (الآیۃ) اس کی خبر ہے۔ قولہ : ذٰلک من أثر قدرتہِ یعنی رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرنا یہ اس کی قدرت کا اثر ہے، اسلئے کہ نصرت قدرت کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ قولہ : فتصبح رفع کے ساتھ اس کا عطف انزل پر ہے۔ اس صورت میں بہ عائد محذوف ہوگا ای فتصبح بہٖ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ فاسببیہ ہو نہ کہ عاطفہ اس صورت میں تقدیر عائد کی ضرورت نہ ہوگی۔
سوال : فتصبح جواب امر واقع ہے لہٰذا اس کو منصوب ہونا چاہیے حالانکہ فتصبح مرفوع ہے۔
جواب : یہ استفہام تقریری بمعنی خبر ہے یعنی الم تر قدرأیت کے معنی میں ہے اور استفہام بمعنی خبر امر کا جواب نہیں ہوتا۔
اب رہا یہ سوال کہ صیغہ ماضی کے بجائے مضارع کا صیغہ استعمال کرنے کی کیا وجہ ہے ؟ یعنی فتصبح کے بجائے فاصبحت کیوں نہیں کہا ؟
جواب : یہ ہے کہ مضارع کا صیغہ بقاء اثر مطر پر دلالت کرتا ہے جو کہ مطلوب اور محمود ہے بخلاف ماضی کے صیغہ کے۔
تفسیر و تشریح
والذین ھاجزوا اس سے پہلے عام مؤمنین کے انجام کا ذکر تھا، اب یہاں ایک ممتاز جماعت کا خصوصی ذکر فرمایا یعنی جو لوگ خدا کے راستہ میں اپنا گھر بار چھوڑ کر نکل کھڑے ہوئے خواہ وہ لڑائی میں شہید ہوں یا طبعی موت مریں دونوں صورتوں میں اللہ کے یہاں ان کی خاص مہمانی ہوگی، کھانا پینا رہنا سہنا سب ان کی مرضی کے موافق ہوگا، اللہ تعالیٰ کو خوب معلوم ہے کہ وہ کس چیز سے راضی ہوں گے، اور کن لوگوں نے خالص اللہ کے لئے اپنا گھر بار ترک کیا ہے، ایسے مجاہدین و مہاجرین کی فروگذاشتوں پر حق تعالیٰ تحمل فرمائیں گے، اور شان عفو سے کام لیں گے، علیم و حلیم کی صفات اسی غرض کے لئے ذکر کی گئی ہیں۔
ومن عاقب بمثل ما عوقب یعنی مظلوم اگر ظالم سے واجبی بدلہ لے لے پھر از سر نو ظالم اس پر زیادتی کرے تو وہ پھر مظلوم باقی رہے گا، حق تعالیٰ پھر اس کی مدد فرمائیں گے جیسا کہ اس کا دستور ہے کہ وہ مظلوم کی حمایت کرتا ہے واتق دعوۃ المظلوم فانہٗ لیس بینھما وبین اللہ حجاب۔
بہ ترس از آہ مظلوماں کہ ہنگام دعاء کردن
اجابت از در حق بہر استقبال می آید
ذلک بأن اللہ یولج اللیل فی النھار ما قبل کی آیت میں مظلوموں کی نصرت کا ذکر تھا اور نصرت وہی کرسکتا ہے جو نصرت پر قادر ہو اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کا ذکر فرما رہے ہیں، یعنی جو اللہ تعالیٰ اتنی بڑی قدرت والا ہے کہ رات دن کو الٹ پلٹ کرنا اور ان کو گھٹانا بڑھانا اسی کے ہاتھ میں ہے، اسی کے تصرف سے کبھی کے دن بڑے اور کبھی کی راتیں بڑی ہوتی ہیں، پھر کیا وہ اس پر قادر نہیں کہ وہ ایک مظلوم قوم یا شخص کی مدد کرسکے، بلکہ ظالموں پر غالب اور مسلط کر دے اس آیت میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ عنقریب حالات رات دن کی طرف پلنا کھانے والے ہیں، جس طرح اللہ تعالیٰ رات کو دن میں تبدیل کردیتا ہے، اسی طرح کفر کی سرزمین کو اسلام کی آغوش میں داخل کر دے گا وأن اللہ سمیع بصیر یعنی مظلوم کی فریاد سنتا ہے اور ظالم کے کرتوت دیکھتا ہے ذٰلک النصر بأن اللہ ھو الحق یعنی ایسے عظیم الشان انقلابات معبود برحق کے سوا اور کس سے ہوسکتے ہیں واقع میں صحیح اور سچا خدا وہی ایک ہے باقی اس کو چھوڑ کر خدائی کے جو پاکھنڈ پھیلائے گئے ہیں سب غلط جھوٹ اور باطل ہیں، اسی کو خدا اور معبود بنانا چاہیے جو سب سے اوپر اور سب سے بڑا ہے اور یہ شان بالاتفاق اسی ایک اللہ کی ہے الم تر ان اللہ انزل جس طرح اللہ تعالیٰ خشک اور مردہ زمین کو آسمانی بارش سے سرسبز و شاداب کردیتے ہیں، اسی طرح کفر کی خشک اور ویران زمین کو اسلام کی بارش سے سبزہ زار بنا دے گا اور یہ کام اس کی قدرت کے لئے کوئی بڑا کام نہیں ان اللہ لطیف خبیر وہی جانتا ہے کہ بارش کے پانی سے کس طرح سبزہ اگ آتا ہے قدرت خداوندی اندر ہی اندر ایسی تدبیر و تصریف کرتی ہے کہ خشک زمین پانی کے اجزاء کو جذب کرکے سرسبز اور شاداب ہوجائے، اسی طرح وہ اپنی مہربانی، لطیف تدبیر و تربیت اور کمال خبر داری و آگاہی زمین و آسمان کہ تمام چیزیں جب اسی کی مملوک و مخلوق ہیں اور سب کو اسی کی احتیاج اور وہ کسی کا محتاج نہیں تو ان میں جس طرح چاہے تصرف اور ردو بدل کرے کوئی مانع اور مزاحم نہیں ہوسکتا، البتہ غنائے تام اور اقتداء کامل سے کرتا وہی ہے جو سراپا حکمت و مصلحت ہو اس کے تمام افعال محمود ہیں اور اس کی ذات تمام خوبیوں اور صفات حمیدہ کی جامع ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
یہ آیت کریمہ اس شخص کے لئے بہت بڑی بشارت ہے جس نے اللہ کے راستے میں ہجرت کی، وہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور دین کی نصرت کی خاطر اپنا گھر بار، مال اور اولاد چھوڑ کر وطن سے نکلا۔ اب یہ شخص خواہ اپنے بستر پر جان دے یا جہاد کرتے ہوئے اللہ کے راستے میں قتل کردیا جائے، اللہ تعالیٰ پر اس کا اجر واجب ہوگیا ﴿ لَيَرْزُقَنَّهُمُ اللّٰـهُ رِزْقًا حَسَنًا﴾ ” اللہ تعالیٰ انہیں اچھا رزق عطا کرے گا“ عالم برزخ میں اور قیامت کے روز جنت میں داخل کر کے اچھے رزق سے نوازے گا۔ اس جنت میں آرام، خوشبوئیں، حسن، احسان اور قلب و بدن کی تمام نعمتیں جمع ہوں گی۔
اس میں اس معنی کا بھی احتمال ہے کہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں ہجرت کرنے والے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں کشادہ اور اچھے رزق کی ذمہ داری اٹھائی ہے، خواہ اللہ تعالیٰ کے علم میں وہ بستر پر جان دے یا اللہ کے راستے میں شہید کردیا جائے، ان سب کے لئے رزق کی ضمانت ہے۔ اس لئے ہجرت کرنے والے کو یہ وہم لاحق نہ ہو کہ جب وہ اپنے گھر بار اور مال و اولاد کو چھوڑ کر نکلے گا تو محتاج ہوجائے گا کیونکہ اس کا رازق وہ ہے جو سب سے بہتر رزق عطا کرنے والا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur jinn logon ney Allah kay raastay mein hijrat ki , phir qatal kerdiye gaye ya unn ka intiqal hogaya , to Allah unhen zaroor acha rizq dey ga , aur yaqeen rakho kay Allah hi behtareen rizq denay wala hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
اللہ تعالیٰ کا بہترین رزق پانے والے لوگ
یعنی جو شخص اپنا وطن اپنے اہل و عیال اپنے دوست احباب چھوڑ کر اللہ کی رضامندی کے لئے اس کی راہ میں ہجرت کرجائے اس کے رسول کی اور اس کے دین کی مدد کے لئے پہنچے پھر وہ میدان جہاد میں دشمن کے ہاتھوں شہید کیا جائے یا بےلڑے بھڑے اپنی قضا کے ساتھ اپنے بستر پر موت آجائے اور اسے بہت بڑا اجر اور زبردست ثواب اللہ کی طرف سے ہے جیسے ارشاد ہے آیت (وَمَنْ يَّخْرُجْ مِنْۢ بَيْتِهٖ مُھَاجِرًا اِلَى اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ثُمَّ يُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ اَجْرُهٗ عَلَي اللّٰهِ ۭ وَكَان اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا\010\00 ) 4 ۔ النسآء :100) ۔ یعنی جو شخص اپنے گھر اور دیس کو چھوڑ کر اللہ رسول کی طرف ہجرت کرکے نکلے پھر اسے موت آجائے تو اسے اس کا اجر اللہ کے ذمے طے ہوچکا۔ ان پر اللہ کا فضل ہوگا، انہیں جنت کی روزیاں ملیں گی جس سے ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔ اللہ تعالیٰ بہترین رازق ہے۔ انہیں پروردگار جنت میں پہنچائے گا۔ جہاں یہ خوش خوش ہونگے جسے فرمان ہے کہ جو ہمارے مقربوں میں سے ہے اس کے لئے راحت اور خوشبودار پھول اور نعمتوں بھرے باغات ہیں ایسے لوگوں کو راحت ورزق اور جنت ملے گی۔ اپنی راہ کے سچے مہاجروں کو اپنی راہ میں جہاد کرنے والوں کو اپنی نعمتوں کے مستحق لوگوں کو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے۔ وہ بڑے حکم والا ہے بندوں کے گناہ معاف فرماتا ہے ان کی خطاؤں سے درگزر فرماتا ہے ان کی ہجرت قبول کرتا ہے ان کے توکل کو خوب جانتا ہے۔ جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید ہوں مہاجر ہوں یا نہ ہوں وہ رب کے پاس زندگی اور روزی پاتے ہیں۔ جسے فرمان ہے آیت ( وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا ۭ بَلْ اَحْيَاۗءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ يُرْزَقُوْنَ\016\09ۙ ) 3 ۔ آل عمران :169) ، خدا کی راہ کے شہیدوں کو مردہ نہ سمجھو وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں روزیاں دیے جاتے ہیں۔ اس بارے میں بہت سی حدیثیں ہیں جو بیان ہوچکیں۔ پس فی سبیل اللہ شہید ہونے والوں کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ ثابت ہے اس آیت سے اور اسی بارے کی احادیث سے بھی۔ حضرت شرجیل بن سمت فرماتے ہیں کہ روم کے ایک قلعے کے محاصرے پر ہمیں مدت گزر چکی اتفاق سے حضرت سلمان فار سی (رض) وہاں سے گزرے تو فرمانے لگے میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے جو شخص راہ اللہ کی تیاری میں مرجائے تو اس کا اجر اور رزق برابر اللہ کی طرف سے ہمیشہ اس پر جاری رہتا ہے اور وہ اتنے میں ڈالنے والوں سے محفوظ رہتا ہے۔ اگر تم چاہو تو یہ آیت (وَالَّذِيْنَ هَاجَرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ثُمَّ قُتِلُوْٓا اَوْ مَاتُوْا لَيَرْزُقَنَّهُمُ اللّٰهُ رِزْقًا حَسَنًاَ 58) 22 ۔ الحج :58) پڑھ لو۔ حضرت ابو قبیل اور ربیع بن سیف مغافری کہتے ہیں ہم رودس کے جہاد میں تھے ہمارے ساتھ حضرت فضالہ بن عبید (رض) بھی تھے۔ دو جنازے ہمارے پاس سے گزرے جن میں ایک شہید تھا دوسرا اپنی موت مرا تھا لوگ شہید کے جنازے میں ٹوٹ پڑے۔ حضرت فضالہ (رض) نے فرمایا یہ کیا بات ہے ؟ لوگوں نے کہا حضرت یہ شہید ہیں اور یہ دوسرے شہادت سے محروم ہیں آپ نے فرمایا واللہ مجھے تو دونوں باتیں برابر ہیں۔ خواہ اس کی قبر میں سے اٹھوں خواہ اس کی میں سے۔ سنو کتاب اللہ میں ہے پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی۔ اور روایت میں ہے کہ آپ مرے ہوئے کی قبر پر ہی ٹہرے رہے اور فرمایا تمہیں اور کیا چاہیے جنت، جگہ اور عمدہ روزی۔ اور روایت میں ہے کہ آپ اس وقت امیر تھے۔ یہ آخری آیت صحابہ (رض) کے اس چھوٹے سے لشکر کے بارے میں اتری ہے جن سے مشرکین کے ایک لشکر نے باوجود ان کے رک جانے کی حرمت کے مہینے میں لڑائی کی اللہ نے مسلمانوں کی امداد فرمائی اور مخالفین کو نیچا دکھایا اللہ تعالیٰ درگزر کرنے والا اور بخشنے والا ہے۔