المؤمنون آية ۱
قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ
طاہر القادری:
بیشک ایمان والے مراد پا گئے،
English Sahih:
Certainly will the believers have succeeded.
1 Abul A'ala Maududi
یقیناً فلاح پائی ہے ایمان والوں نے جو:
2 Ahmed Raza Khan
بیشک مراد کو پہنچے ایمان والے
3 Ahmed Ali
ٰبے شک ایمان والے کامیاب ہو گئے
4 Ahsanul Bayan
یقیناً ایمان والوں نے فلاح حاصل کر لی (١)
١۔١ فَلَاح کے لغوی معنی ہیں چیرنا، کاٹنا، کاشت کار کو فَلَاح کہا جاتا ہے کہ وہ زمین کو چیر پھاڑ کر اس میں بیج بوتا ہے، شریعت کی نظر میں کامیاب وہ ہے جو دنیا میں رہ کر اپنے رب کو راضی کر لے اور اس کے بدلے میں آخرت میں اللہ کی رحمت و مغفرت کا مستحق قرار پا جائے۔ اس کے ساتھ دنیا کی سعادت و کامرانی بھی میسر آ جائے تو سبحان اللہ۔ ورنہ اصل کامیابی تو آخرت ہی کی کامیابی ہے۔ گو دنیا والے اس کے برعکس دنیاوی آسائشوں سے بہرہ ور کو ہی کامیاب سمجھتے ہیں۔ آیت میں ان مومنوں کو کامیابی کی نوید سنائی گئی ہے جن میں ذیل کی صفات ہوں گی۔ مثلًا اگلی آیات ملاحظہ ہوں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
بےشک ایمان والے رستگار ہوگئے
6 Muhammad Junagarhi
یقیناً ایمان والوں نے فلاح حاصل کرلی
7 Muhammad Hussain Najafi
یقیناً وہ اہلِ ایمان فلاح پاگئے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
یقینا صاحبانِ ایمان کامیاب ہوگئے
9 Tafsir Jalalayn
بیشک ایمان والے رستگار ہوگئے
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آیت نمبر ١ تا 22
ترجمہ : بلاشبہ مومنین کامیاب ہوئے جو اپنی نمازوں میں تواضع اختیار کرنے والے ہیں، قَدْ تحقیق کیلئے ہے اور جو لغو باتوں وغیرہ سے اعراض کرنے والے ہیں اور جو زکوۃ ادا کرنے والے ہیں اور جو حرام سے اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں لیکن اپنی بیبیوں سے یا ان عورتوں سے جن کے وہ مالک ہیں یعنی باندیوں سے کیونکہ ان کے پاس آنے میں (جماع کرنے میں) ان پر کوئی الزام نہیں ہاں جو ان کے علاوہ یعنی بیبیوں اور باندیوں کے علاوہ مثلاً استمنا بالید کا طالب ہو تو ایسے لوگ حد سے بڑھنے والے ہیں یعنی ایسی چیز کی طرف تجاوز کرنے والے ہیں جو ان کیلئے حلال نہیں ہے اور جو اپنی امانتوں کی امانات جمع اور مفرد دونوں قرأتیں ہیں آپسی (معاملات) اور اپنے اور اللہ کے درمیان عہد و پیمان (مثلاً ) نماز وغیرہ کی حفاظت کرنے والے ہیں اور جو اپنی نمازوں کی صلوات جمع اور مفرد دونوں قرأتیں ہیں، ان کے اوقات میں پابندی کے ساتھ قائم کرنے والے ہیں ایسے ہی لوگ وارث ہونے والے ہیں نہ کہ دوسرے جو فردوس کے وارث ہوں گے وہ اعلیٰ درجہ کی جنت ہے (اور) وہ اس میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے، اس (آیت) میں معاد (انجام) کی جانب اشارہ ہے اس کے بعد مبدا کا ذکر مناسب ہے، قسم ہے ہماری ذات کی کہ ہم نے انسان آدم کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا کیا اور سلالۃ سَلَلْتُ الشئَ من الشئِ سے ماخوذ ہے یعنی میں نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا اور وہ جو ہر مٹی کا خلاصہ ہے، مِنَ الطین کا تعلق سلالۃً سے ہے، پھر ہم نے انسان یعنی نسل آدم کو نطفہ منی سے بنایا جو کہ ایک محفوظ جگہ میں رہا وہ رحم ہے پھر ہم نے اس نطفہ کو خون کا لوتھڑا (یعنی) بستہ خون بنایا، پھر ہم نے خون کے اس لوتھڑے کو چبائے جانے کے لائق (چھوٹی) گوشت کی بوٹی بنادیا پھر ہم نے اس بوٹی کو ہڈیاں بنادیا پھر ہم نے ان ہڈیوں پر گوشت چڑھا دیا، اور ایک قرأت میں دونوں جگہوں پر (عظام کے بجائے) عظم ہے۔ اور خَلَقْنَا تینوں جگہوں پر صَیَّرنا کے معنی میں ہے پھر ہم نے اس کو اس میں روح پھونک کر ایک دوسری ہی مخلوق بنادیا سو کیسی شان ہے اللہ کی جو تمام صناعوں سے بڑھ کر صانع ہے اور خالقین بمعنی مقدرین (اندازہ کرنے والا) ہے اور اَحْسَنَ کی تمیز خلّقًا اس کے معلوم (متعین) ہونے کی وجہ سے محذوف ہے پھر تم اس کے بعد بالیقین مرنے والے ہو پھر تم یقیناً اس کے بعد قیامت کے دن حساب اور جزاء کیلئے اٹھائے جانے والے ہو اور ہم نے تمہارے اوپر سات آسمان بنائے طرائق بمعنی آسمان ہے اور طرائق طریقۃ کی جمع ہے اس لئے کہ آسمان فرشتوں کے راستہ ہیں اور ہم آسمان کے نیچے مخلوق سے بیخبر نہ تھے کہ آسمان ان کے اوپر گرجائے پس وہ ہلاک ہوجائیں بلکہ ہم آسمانوں کو تھامے ہوئے ہیں جیسا کہ ایک آیت میں ہے یمسک السماءَ أنْ تَقَعَ عَلَی الاَرضِ اور ہم نے (مناسب) مقدار کے ساتھ بقدر کفایت آسمان (بادل) سے پانی برسایا، پھر ہم نے اس (پانی) کو زمین پر ٹھہرا دیا اور ہم اس (پانی) کو معدوم کردینے پر بھی قادر ہیں سو سب کے سب معہ اپنے جانوروں کے پیاس سے مرجائیں پھر ہم نے اس پانی کے ذریعہ تمہارے لئے کھجوروں اور انگوروں کے باغات پیدا کئے مذکورہ دونوں چیزیں عرب میں بکثرت پیدا ہونے والے میوے (پھل) ہیں ان میں سے تم کھاتے بھی ہو گرمی اور سردیوں میں اور ہم نے ایک درخت پیدا کیا جو سیناء پہاڑ میں پیدا ہوتا ہے سَیِنا سین کے کسرہ اور فتحہ دونوں کے ساتھ ہے اور غیر منصرف مانا گیا ہے علمیت کی وجہ سے اور بقعہ کے معنی میں ہونے کی وجہ سے تانیث کے پائے جانے کی سبب سے جو اگتا ہے تیل لئے ہوئے تنبتُ میں رباعی اور ثلاثی دونوں درست ہیں، پہلی (یعنی رباعی کی) صورت میں با زائدہ ہے، اور دوسری (یعنی ثلاثی کی) صورت میں با تعدیہ کیلئے ہے اور وہ زیتون کا درخت ہے اور کھانے والوں کیلئے سالن لئے ہوئے اس کا عطف الدھن پر ہے یعنی سالن جو رنگ دیتا ہے لقمہ کو اس میں ڈبونے کی وجہ سے اور وہ نیل ہے اور تمہارے لئے مویشیوں میں یعنی اونٹ گائے اور بکریوں میں عبرت ہے، یعنی نصیحت ہے کہ جن سے تم عبرت حاصل کرسکتے ہو، کہ ہم تم کو ان کے جوف کی چیز میں سے یعنی دودھ پینے کیلئے دیتے ہیں نسقیکم نون کے ضمہ اور فتحہ دونوں کے ساتھ ہے اور تمہارے لئے ان میں اور بھی بہت سے فائدے ہیں اور ان سے اور اونٹوں کے بالوں سے اور گائے (وغیرہ) کے بالوں سے اور ان میں سے بعض کو تم کھاتے ہو اور اونٹوں پر اور کشتیوں پر (سوار ہوکر) کودے پھرتے ہو۔
تحقیق و ترکیب و تفسیری فوائد
قَدْ تحقیق کیلئے ہے یعنی جب ماضی پر داخل ہوتا ہے تو ثبات پر دلالت کرتا ہے اسی وجہ سے ماضی کو حال کے قریب کردیتا ہے اور متوقع کو ثابت کردیتا ہے مومنین چونکہ فضل خداوندی کے امیدوار تھے اس لئے ان کی بشارت کو قد سے شروع فرمایا، اور چونکہ اس بشارت کا وقوع یقینی ہے اس لئے ماضی کے صیغہ سے تعبیر فرمایا۔
قولہ : اَفلحَ فلاح لغت میں مقصد میں کامیابی اور مکروہات سے نجات کو کہتے ہیں (کما فی ابو سعود) اور بعض حضرات نے فرمایا فلاح بقاء فی الخیر کو کہتے ہیں۔
قولہ : للذکوۃ فاعلون، زکوٰۃ معنی مصدری یعنی زکوٰۃ ادا کرنے اور مال زکوٰۃ کو کہتے ہیں یہاں معنی مصدری مراد ہیں اس لئے کہ فاعل معنی حدثی کا ہوتا ہے نہ کہ محل فعل کا، یعنی وہ لوگ کامیاب ہوئے جو زکوٰۃ ادا کرتے ہیں، اب رہا یہ سوال کہ اداء زکوٰۃ کے سلسلہ میں معروف تعبیر مثلاً ایتاء الزکاۃ یؤتونَ الزکوٰۃ یا اٰتَوْ الزکوٰۃ کو چھوڑ کر للزکوٰۃِ فاعِلُوْنَ کی تعبیر کیوں اختیار فرمائی، جواب یہ ہے کہ للزکوٰۃ فاعلون بھی کلام عرب میں مستعمل ہے، امیہ بن ابی صلت نے کہا المُطْعِمون الطَّعامَ فی السنۃِ الاَّزمَۃِ والفاعلون للزکوٰۃ (روح البیان) دوسرا جواب یہ ہے کہ فواصل کی رعایت مقصود ہے بعض حضرات نے کہا ہے کہ یہاں عین زکوٰۃ بھی مراد ہوسکتی ہے مگر مضاف محذوف ماننا ہوگا ای والَّذِینَ ھُمْ لتادیتہ الزکوٰۃ فاعلون۔
قولہ : والَّذِیْنَ ھُمْ لفُرُوْجِھِمْ حٰفِظُوْنَ اس آیت سے حرمت متعہ پر استدلال کیا ہے، اَخْرَجَ ابن ابی حاتم عن القاسم بن محمد انہ سُئِلَ عن المتعۃِ فقرأ ھٰذہ الآیۃ قال فَمن ابتغٰی وراءَ ذٰلک فَھوَ عادٍ ، وروی عن ابن ابی ملیکۃ سألتُ عائشۃ (رض) عن المتعۃِ فقالت بینی وبینھمُ القرآن، ثم قرء الآیۃ قالت فمَن ابتغٰی وراءَ ذٰلک غیر مازوجہ اللہ او ملکہ یمینہٗ فَقَدْ عَدا۔
قولہ : ای من ازواجھم اس میں اشارہ ہے کہ علی بمعنی مِن ہے۔
قولہ : اَوْمَا ملکت، ما سے مراد باندیاں ہیں مَنْ کی بجائے ما سے تعبیر کرنے کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ عورتیں ناقصات العقل ہوتی ہیں اور خاص طور پر جو مملوکہ بھی ہوں لہٰذا مشابہ بالبہائم ہونے کی وجہ سے ما سے تعبیر فرمایا ہے مَا ملکت اپنے عموم کی وجہ سے اگرچہ غلام اور باندی دونوں کو شامل ہے مگر یہاں صرف باندیاں ہی مراد ہیں اس لئے کہ مالکن کا اپنے غلام سے وطی کرنا بالاتفاق جائز نہیں ہے غیر ملومین میں اس طرف اشارہ ہے کہ اسی کو مقصد بنا لینا کوئی قابل ستائش بات نہیں ہے ہاں البتہ انسانی طبعی ضروریات کو پورا کرنا کی حد تک اجازت ہے۔
قولہ : کالاستمناء بالید امام مالک (رح) اور شافعی (رح) نیز ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک استمناء بالید حرام ہے امام احمد بن حنبل (رح) نے فرمایا کہ تین شرطوں کے ساتھ جائز ہے (1) زنا میں مبتلا ہونے کے اندیشہ کے پیش نظر (2) مہر ادا کرنے یا باندی خریدنے کی استطاعت نہ رکھنے کی صورت میں (3) یہ اپنے ہاتھ سے ہو نہ کہ اجنبی یا اجنبیہ کے ہاتھ سے، (حاشیہ جلالین) ۔
قولہ : سَرَاری سُرِّیَّۃ کی جمع ہے بمعنی باندی، یہ سرِّ سے ماخوذ ہے جس کے معنی جماع یا اخفا کے ہیں اس لئے کہ بسا اوقات انسان باندی کے ساتھ ہمبستری اپنی آزاد بیوی سے مخفی رکھنا چاہتا ہے اسی لئے اس کو سریہ کہتے ہیں یا پھر سرور سے مشتق ہے جس کے معنی خوشی کے ہیں چونکہ مالک باندی سے خوش ہوتا ہے اس لئے اس کو سرّیہ کہتے ہیں۔
قولہ : فإنھم غیر ملومین یہ استثناء کی علامت ہے۔
قولہ ؛ اولئک ھم الوارثون لاغیرھم لاغیرھم کا اضافہ جملہ معرفۃ الطرفین سے حصر مستفاد کو ظاہر کرنا، جملہ جب معرفۃ الطرفین ہو جیسا کہ مذکورہ جملہ ہے تو اس سے حصر مستفاد ہوتا ہے، نیز طرفین کے درمیان ضمیر ھم یہ بھی حصر پر دلالت کرتی ہے، یہاں حصر سے حصر اضافی مراد ہے نہ کہ حقیقی، اس لئے کہ یہ بات ثابت ہے کہ مذکورہ اشخاص کے علاوہ مثلاً بچے اور مجانین وغیرہ بھی جنت میں داخل ہوں گے اور اگر حصر حقیقی مراد ہو تو جنت الفردوس کے اعتبار سے ہوگا یعنی جنت الفردوس میں مذکورہ اشخاص ہی داخل ہوں گے گو دیگر جنتوں میں دیگر اشخاص بھی داخل ہوں گے۔
قولہ : ویناسبہ ذکر المبداء بعدہ اس عبارت کے اضافہ کا مقصد اس آیت اور سابقہ آیت کے درمیان مناسبت ربط کو بیان کرنا ہے
قولہ : واللہ لقَدْ خلقنا لفظ اللہ کو محذوف مان کر اشارہ کردیا کہ واؤ قسمیہ ہے اور لقد میں لام جواب قسم پر داخل ہے۔
قولہ : جعلناہ ای الانسان نسل آدم ہٗ ضمیر ماقبل میں مذکور انسان کی طرف راجع ہے مگر مراد نسل آدم ہے اور انسان سے جو کہ مرجع ہے، آدم مراد ہے غرضیکہ یہاں کلام میں صنعت است خدام ہے، صنعت است خدام اس کو کہتے ہیں کہ مرجع سے ایک معنی مراد ہوں اور مرجع کی طرف لوٹنے والی ضمیر سے دوسرے معنی مراد ہوں۔
قولہ : وانشانا شَجَرَۃً انشانا محذوف مان کر اشارہ کردیا کہ شجرۃ کا عطف جنات پر ہے۔
قولہ : اَحْسَنُ الخالقین ای المقدرین، المقدرین کے اضافہ کا مقصد اس شبہ کو دور کرنا ہے کہ اسم تفصیل مشارکت کا تقاضہ کرتا ہے حالانکہ خدا کے سوا کوئی خالق نہیں ہے تو جواب دیا کہ خلق سے مراد تقدیر و تصویر ہے نہ کہ ایجاد و تخلیق لہٰذا اب کوئی اعتراض نہیں
قولہ : للعلم بہ چونکہ لفظ خالقین خلقاً پر دلالت کرتا ہے لہٰذا اس قرینہ کی وجہ سے تمیز کو حذف کردیا۔
قولہ : فوقکُمْ سَبْع طرائقِ فوق سے مراد مطلقاً علو ہے نہ کہ انسانوں کے سروں کے اوپر اس لئے کہ جس وقت آسمانوں کو پیدا کیا گیا تھا اس وقت انسان موجود نہیں تھا تو پھر فوقکم کہنا کس طرح درست ہے، معلوم ہوا فوقکُمْ سے مطلقاً علو مراد ہے۔
تفسیر و تشریح
قد افلح المؤمنون، لفظ فلاح قرآن و سنت میں بکثرت استعمال ہوا ہے اذان و اقامت میں بھی پانچوں وقت مسلمانوں کو صلاح و فلاح کی طرف دعوت دی جاتی ہے، فلاح کے معنی یہ ہیں کہ ہر مراد حاصل ہو اور ہر تکلیف دور ہو، اور یہ ظاہر ہے کہ مکمل فلاح کہ ایک مراد بھی ایسی نہ رہے کہ جو پوری نہ ہو اور ایک بھی تکلیف ایسی نہ ہو کہ دور نہ ہو یہ دنیا میں کسی بڑے سے بڑے انسان کے بس میں نہیں چاہے دنیا کا سب سے بڑا بادشاہ ہفت اقلیم کا مالک ہی کیوں نہ ہو، یا بڑے سے بڑا رسول اور پیغمبر ہی کیوں نہ ہو اس دنیا میں یہ ممکن نہیں کہ کوئی چیز خلاف طبع پیش نہ آئے اور ہر خواہش ہر وقت پوری ہوجائے، یہ متاع گراں مایہ تو ایک دوسرے عالم یعنی آخرت ہی میں جنت میں مل سکتی ہے، البتہ اکثری حالات کے اعتبار سے فلاح دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو عطا فرما سکتے ہیں، آیات مذکورہ میں اللہ تعالیٰ نے فلاح پانے کا وعدہ ان مؤمنین سے کیا ہے جن میں وہ سات صفات موجود ہوں جن کا ذکر ان آیات کے اندر آیا ہے۔
فلاح کیلئے مومن کامل کے سات اوصاف : سب سے پہلا وصف تو مومن ہونا ہے، ایمان کے اصل الاصول اور بنیادی اصول ہونے کی وجہ سے الگ ذکر فرمایا ہے (پہلا وصف) نماز میں خشوع و خضوع ہے، خشوع کے لغوی معنی قلب وجوارح میں سکون کا ہونا یعنی دل اللہ کی طرف مائل اور اعضاء بدن میں سکون ہو عبث اور فضول حرکتیں نہ کرے، حضرت ابو ذر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نماز کے وقت اپنے بندے کی طرف برابر متوجہ رہتا ہے جب تک وہ دوسری طرف التفات نہ کرے جب بندہ دوسری طرف التفات کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے رخ پھیر لیتے ہیں (رواہ احمد و النسائی وغیرہ) حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کو دیکھا کہ نماز میں اپنی ڈاڑھی سے کھیل رہا ہے تو آپ نے فرمایا لو خَشِبَ قلبُ ھٰذا لخشعَتْ جوارحُہٗ (رواہ حاکم والترمذی بسند ضعیف) یعنی اگر اس شخص کے دل میں خشوع ہوتا تو اس کے
اعضاء میں بھی سکون ہوتا۔ (مظہری)
نماز میں خشوع کا درجہ : امام غزالی و قرطبی اور بعض دوسرے حضرات کے نزدیک نماز میں خشوع فرض ہے اگر پوری نماز بغیر خشوع کے گذر جائے تو نماز ادا ہی نہ ہوگی، دیگر بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خشوع نماز کی روح ہے اس کے بغیر نماز بےجان ہوتی ہے مگر رکن کی حیثیت سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ خشوع کے بغیر نماز ہی درست نہ ہوگی، اس کا اعادہ ضروری ہوگا، حکیم الامت حضرت تھانوی (رح) نے فرمایا ہے کہ خشوع صحت صلوٰۃ کے لئے موقوف علیہ نہیں ہے ہاں البتہ قبولیت صلوٰۃ کیلئے موقوف علیہ ہوسکتا ہے۔
دوسرا وصف : لغو سے پرہیز کرنا ہے، لغو کے معنی فضول کلام یا فضول کام کے ہیں یعنی جس میں کوئی فائدہ نہ ہو لغو کا اعلیٰ درجہ معصیت اور گناہ سے اجتناب لازم ہے، اور ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ نہ مفید ہو اور نہ مضر، اس کا ترک کم از کم اولیٰ اور موجب مدح ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا من حسن اسلام المرأ ترکہ مالا یعنیہ یعنی انسان کا اسلام جب اچھا ہوتا ہے جب وہ بےفائدہ چیزوں کو چھوڑ دے
تیسرا وصف زکوٰۃ : زکوٰۃ کے معنی لغت میں پاک کرنے کے ہیں اور اصطلاح شرع میں مال کا ایک مخصوص حصہ کچھ شرائط کے ساتھ صدقہ کرنا ہے، اور قرآن کریم میں یہ لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے، اس آیت میں یہ معنی بھی مراد ہوسکتے ہیں، اس پر یہ شبہ کہ آیت مکی ہے اور زکوٰۃ مدینہ میں فرض ہوئی ہے، اس کا جواب ابن کثیر مفسرین وغیرہ نے یہ دیا ہے کہ اصولی طور پر زکوٰۃ کی فرضیت مکہ ہی میں ہوچکی تھی، سورة مزمل جو بالاتفاق مکی ہے اسمیں اقیموا الصلوٰۃ کے ساتھ آتو الزَّکوٰۃ کا ذکر موجود ہے، مگر اس کے نصاب کی تفصیلات اور سرکاری طور پر اس کے وصول کرنے کا نظام ہجرت کے بعد ہوا ہے، بعض حضرات نے یہاں زکوٰۃ کے لغوی معنی مراد لئے ہیں یعنی تزکیہ نفس اس کی دلیل یہ بیان کی ہے کہ قرآن کریم میں جہاں کہیں زکوٰۃ سے اصطلاحی کے معنی مراد لئے گئے ہیں وہاں ایتاء الزکوٰۃ، یوتون الزکوٰۃ، وآتوالزکوٰۃ کے عنوان سے بیان کیا گیا ہے یہاں عنوان بدل کر للزکوٰۃ فاعلون کی تعبیر اختیار فرمائی ہے، یہ اس بات کا قرینہ ہے کہ یہاں زکوٰۃ کے اصطلاحی معنی مراد نہیں ہیں اگر یہاں زکوٰۃ کے اصطلاحی معنی مراد لئے جائیں تو بغیر تاویل کے نہیں ہوسکتا لہٰذا یہاں تزکیہ نفس ہی مراد ہوگا یعنی اپنے نفس کو رذائل سے پاک صاف کرنا تو وہ بھی فرض ہی ہے کیونکہ شرک، ریاء، تکبر، حسد، بغض وغیرہ رذائل نفس کو پاک کرنا تزکیہ کہلاتا ہے۔
چوتھا وصف : شرمگاہ کی حفاظت حرام سے، والذین ھم لفروجھم حافظون الا علیٰ ازواجھم او ما ملکت ایمانھم یعنی وہ لوگ جو اپنی بیویوں اور شرعی لونڈیوں کے علاوہ سے اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں یعنی ناجائز شہوت رانی نہیں کرتے تو ایسے لوگوں کیلئے بھی فلاح کی ضمانت ہے فانھم غیر ملومین اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس ضرورت کو ضرورت کے درجہ میں رکھنا چاہیے، مقصد زندگی نہیں بنانا چاہیے ایسا کرنے والا قابل ملامت نہیں۔
فمن ابتغی۔۔۔۔ العدون، یعنی منکوحہ بیوی یا شرعی باندی سے شرعی قاعدے سے قضاء شہوت کرنے کے علاوہ کوئی صورت حلال نہیں ہے اس میں زنا بھی داخل ہے اور جو عورت اس پر شرعاً حرام ہے اس سے نکاح بھی بحکم زنا ہے، اسی طرح متعہ نیز اپنی بیوی سے حالت حیض و نفاس میں یا غیر فطری طور پر جماع کرنا بھی اس میں داخل ہے یعنی کسی مرد یا جانور سے شہوت پوری کرنا بھی اور جمہور کے نزدیک استمناء بالید بھی (بیان القرآن، قرطبی بحوالہ معارف)
پانچواں وصف : امانت کا حق ادا کرنا والذین ھم لأمانتھم کے لغوی معنی ہر اس چیز کو شامل ہیں جس کی ذمہ داری کسی شخص نے اٹھائی ہو اور اس پر اعتماد بھروسہ کیا گیا ہو اس کی قسمیں چونکہ بیشمار ہیں اسی لئے مصدر ہونے کے باوجود صیغۂ جمع کے ساتھ لایا گیا ہے تاکہ امانت کی تمام قسموں کو شامل ہوجائے خواہ حقوق اللہ سے متعلق ہوں یا حقوق العباد سے حقوق اللہ سے متعلق تمام فرائض و واجبات کا ادا کرنا اور تمام محرمات و مکروہات سے اجتناب کرنا اور حقوق العباد سے متعلق امانات میں مالی امانت تو مشہور و معروف ہے ہی، اس کے علاوہ کسی نے کوئی راز کی بات کسی سے کہی اور ظاہر کرنے سے منع کردیا بھی یہ امانت ہے بغیر شرعی اذن کے کسی کا راز ظاہر کرنا امانت میں خیانت ہے، اسی طرح مزدور و ملازم کو جا کام سونپا گیا ہے اس کیلئے جتنا وقت صرف کرنا طے کیا گیا ہے اس کو اس کام میں لگانا بھی امانت ہے، کام کی چوری یا وقت کی چوری خیانت ہے۔
چھٹا وصف : وعھدھم راعون عہد پورا کرنا، ایک عہد تو وہ ہوتا ہے جو طرفین سے ہوتا ہے اس کو عرف میں معاہدہ کہتے ہیں اس کو پورا کرنا فرض اور اس کے خلاف کرنا غدر اور دھوکا ہے، دوسرا وہ جس کو وعدہ کہتے ہیں مثلاً کسی کو کچھ دینے یا کسی کام کے کرنے کا وعدہ کرلے اس کا پورا کرنا بھی شرعاً لازم ہے، حدیث شریف میں ہے العِدۃُ دین یعنی وعدہ ایک قسم کا قرض ہے، جس طرح قرض کی ادائیگی واجب ہے وعدہ پورا کرنا بھی واجب ہے بلاعذر شرعی اس کا خلاف کرنا گناہ ہے فرق دونوں میں یہ ہے کہ معاہدہ کو پورا کرانے کے لئے فریق ثانی کو بذریعہ عدالت بھی مجبور کرسکتا ہے یک طرفہ وعدہ کو پورا کرنے کیلئے بذریعہ عدالت مجبور نہیں کرسکتا، دیانۃً اس کا بھی پورا کرنا لازم ہے۔ (معارف)
ساتواں وصف : نماز کو وقت پر آداب و حقوق کی رعایت کے ساتھ ادا کرنا، دنیوی معاملات میں پڑ کر عبادت الٰہی سے غافل نہ ہونا، یہ ہیں مومنین مصلحین کی سات صفات، یہ بات قابل گور ہے کہ ان سات اوصاف کو شروع بھی نماز سے فرمایا اور ختم بھی نماز پر کیا گیا اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ نماز خدا تعالیٰ کے نزدیک کس قدر اہم ہے اگر نماز کی پابندی اور آداب کی رعایت کے ساتھ پڑھا جائے تو باقی اوصاف اس میں خود بخود پیدا ہوجاتے ہیں۔
اولئک ھم الوارثون، اوصاف مذکورہ کے حاملین کو اس آیت میں جنت الفردوس کا وارث فرمایا گیا ہے لفظ وارث میں اس طرف اشارہ ہے کہ جس طرح مورث کا مال اس کا وارث کو پہنچنا ضروری ہے اسی طرح ان اوصاف کے حاملین کا جنت میں داخل ہونا یقینی و ضروری ہے۔
ولقد خلقنا۔۔۔ طین، اللہ تعالیٰ نے عبادت کی ترغیب اور عبادت پر اور جنت الفردوس کے وعدہ کے بعد مبداء کو بیان فرمایا سابقہ آیت میں معاد کا ذکر فرمایا تھا مبدأ اور معاد میں مناسبت ظاہر ہے۔
قولہ : ولقد، لقد قسم محذوف کا جواب ہے ای واللہ لَقَدْ ۔ قولہ : سُلالۃ بمعنی خلاصہ، جوہر۔
قولہ : طین گیلی مٹی، مطلب یہ ہے کہ زمین کے خاص اجزاء نکال کر اس سے انسان کو پیدا کیا گیا، انسان کی تخلیق کی ابتداء حضرت آدم (علیہ السلام) سے اور حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق کی ابتدا اس مٹی کے خلاصہ سے ہوئی اس لئے ابتدائی تخلیق کو مٹی کی طرف منسوب کیا گیا ہے اس کے بعد ایک انسان کا نطفہ دوسرے انسان کی تخلیق کا سبب بنا، اگلی آیت ثم جعلناہ نطفۃ میں اسی کا بیان ہے۔
تخلیق انسانی کے سات مدارج : آیات مذکورہ میں تخلیق انسانی کے سات مدارج ذکر کئے گئے ہیں سب سے پہلے سُلٰلۃ مِنْ طِین دوسرے دور میں نطفۃ تیسرے دور میں علقہ چوتھے دور میں مضغہ پانچویں دور میں عظام یعنی ہڈیاں چھٹے دور میں ہڈیوں پر گوشت چڑھانا۔ ساتواں دور۔ تخلیق کا ہے یعنی روح پھونکنے کا۔
چم انشاناہ۔۔۔ خلقاً ، آخر کی تفسیر حضرت ابن عباس، مجاہد، شعبی، عکرمہ، ضحاک، ابو العالیہ وغیرہ نے نفخ روح سے فرمائی ہے، اس روح سے روح حیوانی مراد ہے، روح حیوانی جسم لطیف مادی شئ ہے جو جسم انسانی کے ہر ہر جز میں سمایا ہوا ہوتا ہے، اطبا اور فلاسفہ اسی کو روح کہتے ہیں اس کی تخلیق بھی تمام اعضاء انسانی کی تخلیق کے بعد ہوتی ہے، اس لئے اس کو لفظ ثم سے تعبیر کیا گیا ہے، اور روح حقیقی جس کا تعلق عالم ارواح سے ہے جس کو قرآنی اصطلاح میں أمر رب کہا گیا ہے وہیں سے لاکر اس روح حیوانی کے ساتھ اس کا کوئی رابطہ حق تعالیٰ اپنی قدرت سے پیدا فرما دیتے ہیں، جس کی حقیقت کا پہچاننا انسان کے بس کی بات نہیں ہے، اس روح حقیقی کی تخلیق تو تمام انسانوں کی تخلیق سے بہت پہلے ہے، انہیں ارواح کو حق تعالیٰ نے ازل میں جمع کرکے اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ فرمایا اور سب نے بلیٰ کے لفظ سے ربوبیت کا اقرار کیا، البتہ اس کا تعلق جسم انسانی کے ساتھ تخلیق اعضاء انسانی کے بعد ہوتا ہے اس جگہ اگر نفخ روح سے یہ مراد لیا جائے کہ روح حیوانی کے ساتھ روح حقیقی کا تعلق اس وقت قائم فرمایا گیا تو یہ بھی ممکن ہے اور درحقیقت حیات انسان اسی روح حقیقی سے متعلق ہے جب یہ تعلق منقطع ہوجاتا ہے تو روح حیوانی بھی اپنا کام چھوڑ دیتی ہے اسی کو موت کہا جاتا ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے مومن بندوں کی تعریف و تعظیم اور ان کی فلاح و سعادت کا ذکر ہے، نیز اس امر کا بیان ہے کہ وہ فلاح و سعادت کیسے حاصل کرسکتے ہیں اور اس ضمن میں اہل ایمان کو ترغیب دی گئی ہے کہ وہ اپنے آپ کو ان مذکورہ صفات سے متصف کریں۔ پس بندہ مومن ان آیات کی میزان پر اپنے آپ کا وزن کرے، اور یہ معلوم کرے کہ اس کے پاس اور دوسروں کے پاس قلت و کثرت یا اضافے اور کمی کے اعتبار سے کتنا ایمان ہے۔ پس فرمایا ﴿ قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ ﴾ یعنی اہل ایمان کامیابی اور سعادت سے بہرہ مند ہوئے اور انہوں نے ہر وہ چیز حاصل کرلی جس کا حصول اہل ایمان کا مقصود و مطلوب ہے جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور انہوں نے انبیاء و مرسلین کی تصدیق کی ۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد : ﴿ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ ﴾ دلالت کرتا ہے کہ مملوکہ لونڈی کی حلت کے لئے شرط یہ ہے کہ وہ تمام کی تمام صرف اسی کی ملکیت میں ہو۔ اگر وہ صرف اس کے کچھ حصے کا مالک ہے تو یہ لونڈی اس کے لئے حلال نہیں کیونکہ وہ کامل طور پر اس کا مالک نہیں کیونکہ وہ اس کی اور کسی دوسرے شخص کی مشترکہ ملکیت ہے۔ پس جس طرح یہ جائز نہیں کہ کسی آزاد عورت کے دو شوہر ہوں، اسی طرح یہ بھی جائز نہیں کہ کسی لونڈی کی ملکیت میں دو مالکوں کا اشتراک ہو ) اور وہ اس سے مجامعت کرتے ہوں(
11 Mufti Taqi Usmani
unn emaan walon ney yaqeenan falah paali hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
دس آیتیں اور جنت کی ضمانت
نسائی، ترمذی اور مسند احمد میں مروی ہے کہ حضرت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جب وحی اترتی تو ایک ایسی میٹھی میٹھی، بھینی بھینی، ہلکی ہلکی سی آواز آپ کے پاس سنی جاتی جیسے شہد کی مکھیوں کے اڑنے کی بھنبھناہٹ کی ہوتی ہے۔ ایک مرتبہ یہی حالت طاری ہوئی۔ تھوڑی دیر کے بعد جب وحی اترچکی تو آپ نے قبلہ کی طرف متوجہ ہو کر اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر یہ دعا پڑھی کہ اے اللہ تو ہمیں زیادہ کر، کم نہ کر، ہمارا اکرام کر، اہانت نہ کر، ہمیں انعام عطا فرما، محروم نہ رکھ، ہمیں دوسروں پر کے مقابلے میں فضیلت دے، ہم پر دوسروں کو پسند نہ فرما، ہم سے خوش ہوجا اور ہمیں خوش کر دے۔ عربی کے الفاظ یہ ہیں۔ دعا ( الہم زدنا ولا تنقصنا واکرمنا ولاتہنا واعطنا ولاتحرمنا واثرنا ولاتوثر علینا وارض عنا وارضنا۔ )
پھر فرمایا مجھ پر دس آیتیں اتری ہیں، جو ان پر جم گیا وہ جنتی ہوگیا۔ پھر آپ نے مندرجہ بالا دس آیتیں تلاوت فرمائیں۔ امام ترمذی (رح) اس حدیث کو منکر بتاتے ہیں، کیونکہ اس کا راوی صرف یونس بن سلیم ہے جو محدثین کے نزدیک معروف نہیں۔ نسائی میں ہے حضرت عائشہ (رض) سے آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عادات و اخلاق کی بابت سوال ہوا تو آپ نے فرمایا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خلق قرآن تھا، پھر ان آیتوں کی (یحافظون) ۔ تک تلاوت فرمائی۔ اور فرمایا یہی حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اخلاق تھے۔ مروی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے جنت عدن پیدا کی اور اس میں درخت وغیرہ اپنے ہاتھ سے لگائے تو اسے دیکھ کر فرمایا کچھ بول۔ اس نے یہی آیتیں تلاوت کیں جو قرآن میں نازل ہوئیں۔ ابو سعید (رض) فرماتے ہیں کہ اس کی ایک اینٹ سونے کی اور دوسری چاندی کی ہے۔ فرشتے اس میں جب داخل ہوئے، کہنے لگے واہ واہ یہ تو بادشاہوں کی جگہ ہے۔ اور روایت میں ہے اس کا گارہ مشک کا تھا۔ اور روایت میں ہے کہ اس میں وہ وہ چیزیں ہیں جو نہ کسی آنکھ نے دیکھیں، نہ کسی دل میں سمائیں۔ اور روایت میں ہے کہ جنت نے جب ان آیتوں کی تلاوت کی تو جناب باری نے فرمایا مجھے اپنی بزرگی اور جلال کی قسم تجھ میں بخیل ہرگز داخل نہیں ہوسکتا۔ اور حدیث میں ہے کہ اس کی ایک اینٹ سفید موتی کی ہے اور دوسری سرخ یاقوت کی اور تیسری سبز زبرجد کی۔ اس کا گارہ مشک کا ہے اس کی گھاس زعفران ہے۔ اس روایت کے آخر میں ہے کہ اس حدیث کو بیان فرما کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت (وَمَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ۚ ) 59 ۔ الحشر :9) پڑھی الغرض فرمان ہے کہ مومن مراد کو پہنچ گئے، وہ سعادت پاگئے، انہوں نے نجات پالی۔ ان مومنوں کی شان یہ ہے کہ وہ اپنی نمازوں میں اللہ کا خوف رکھتے ہیں خشوع اور سکون کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں۔ دل حاضر رکھتے ہیں، نگاہیں نیچی ہوتی ہیں، بازو جھکے ہوئے ہوتے ہیں۔ محمد بن سیرین (رح) کا قول ہے کہ اصحاب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے اپنی نگاہیں آسمان کی طرف اٹھاتے تھے۔ لیکن اس آیت کے نازل ہونے کے بعد ان کی نگاہیں نیچی ہوگئیں، سجدے کی جگہ سے اپنی نگاہ نہیں ہٹاتے تھے۔ اور یہ بھی مروی ہے کہ جائے نماز سے ادھر ادھر ان کی نظر نہیں جاتی تھی اگر کسی کو اس کے سوا عادت پڑگئی ہو تو اسے چاہے کہ اپنی نگاہیں نیچی کرلے۔ ایک مرسل حدیث میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے ایسا کیا کرتے تھے پس یہ خضوع و خشوع اسی شخص کو حاصل ہوسکتا ہے، جس کا دل فارغ ہو، خلوص حاصل ہو اور نماز میں پوری دلچپسی ہو اور تمام کاموں سے زیادہ اسی میں دل لگتا ہو۔ چناچہ حدیث شریف میں ہے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں مجھے خوشبو اور عورتیں زیادہ پسند ہیں اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھ دی گئی ہے (نسائی) ایک انصاری صحابی (رض) نے نماز کے وقت اپنی لونڈی سے کہا کہ پانی لاؤ، نماز پڑھ کر راحت حاصل کروں تو سننے والوں کو ان کی یہ بات گراں گزری۔ آپ نے فرمایا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت بلال (رض) سے فرماتے تھے۔ اے بلال اٹھو اور نماز کے ساتھ ہمیں راحت پہنچاؤ۔
مومنوں کے اوصاف
پھر اور وصف بیان ہوا کہ وہ باطل، شرک، گناہ اور ہر ایک بیہودہ اور بےفائدہ قول وعمل سے بچتے ہیں۔ جیسے فرمان ہے آیت (وَاِذَا مَرُّوْا باللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا 72) 25 ۔ الفرقان :72) وہ لغو بات سے بزرگانہ گزر جاتے ہیں وہ برائی اور بےسود کاموں سے اللہ کی روک کی وجہ سے رک جاتے ہیں۔ اور انکا یہ وصف ہے کہ یہ مال کی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ اکثر مفسرین یہی فرماتے ہیں لیکن اس میں ایک بات یہ ہے کہ یہ آیت مکی ہے اور زکوٰۃ کی فرضیت ہجرت کے دوسرے سال میں ہوتی ہے پھر مکی آیت میں اسکا بیان کیسے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اصل زکوٰۃ تو مکہ میں واجب ہوچکی تھی ہاں اس کی مقدار، مال کا نصاب وغیرہ یہ سب احکام مدینے میں مقرر ہوئے۔ دیکھئے سورة انعام بھی مکی ہے اور اس میں یہی زکوٰۃ کا حکم موجود ہے آیت (وَاٰتُوْا حَقَّهٗ يَوْمَ حَصَادِهٖ ڮ وَلَا تُسْرِفُوْا\014\01ۙ ) 6 ۔ الانعام :141) یعنی کھیتی کے کٹنے والے دن اس کی زکوٰ ۃ ادا کردیا کرو۔ ہاں یہ بھی معنی ہوسکتے ہیں کہ مراد زکوٰۃ سے یہاں نفس کو شرک وکفر کے میل کچیل سے پاک کرنا ہو۔ جیسے فرمان ہے آیت ( قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا ۽) 91 ۔ الشمس :9) ، جس نے اپنے نفس کو پاک کرلیا اس نے فلاح پالی۔ اور جس نے اسے خراب کرلیا وہ نامراد ہوا۔ یہی ایک قول آیت ( وَوَيْلٌ لِّـلْمُشْرِكِيْنَ ۙ ) 41 ۔ فصلت :6) میں بھی ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آیت میں دونوں زکاتیں ایک ساتھ مراد لی جائیں۔ یعنی زکوٰۃ نفس بھی اور زکوٰۃ مال بھی۔ فی الواقع مومن کامل وہی ہے جو اپنے نفس کو بھی پاک رکھے اور اپنے مال کی بھی زکوٰۃ دے واللہ اعلم۔ پھر اور وصف بیان فرمایا کہ وہ سوائے اپنی بیویوں اور ملکیت کی لونڈیوں کے دوسری عورتوں سے اپنے نفس کو دور رکھتے ہیں۔ یعنی حرام کاری سے بچتے ہیں۔ زنا لواطت وغیرہ سے اپنے آپ کو بچاتے ہیں۔ ہاں ان کی بیویاں جو اللہ نے ان پر حلال کی ہیں اور جہاد میں ملی ہوئی لونڈیاں جو ان پر حلال ہیں۔ ان کے ساتھ ملنے میں ان پر کوئی ملامت اور حرج نہیں۔ جو شخص ان کے سوا دوسرے طریقوں سے یا کسی دوسرے سے خواہش پوری کرے وہ حد سے گزر جانے والا ہے۔ قتادہ (رح) فرماتے ہیں کہ ایک عورت نے اپنے غلام کو لے لیا اور اپنی سند میں یہی آیت پیش کی۔ جب حضرت عمر (رض) کو یہ معلوم ہوا تو آپ نے صحابہ کے سامنے اس معاملے کو پیش کیا۔ صحابہ نے فرمایا اس نے غلط معنی مراد لئے۔ اس پر فاروق اعظم (رض) نے اس غلام کا سر منڈوا کر جلاوطن کردیا اور اس عورت سے فرمایا اس کے بعد تو ہر مسلمان پر حرام ہے، لیکن یہ اثر منقطع ہے۔ اور ساتھ ہی غریب بھی ہے۔ امام ابن جریر نے اسے سورة مائدہ کی تفسیر کے شروع میں وارد کیا ہے لیکن اس کے وارد کرنے کی موزوں جگہ یہی تھی۔ اسے عام مسلمانوں پر حرام کرنے کی وجہ اس کے ارادے کے خلاف اسکے ساتھ معاملہ کرنا تھا واللہ اعلم۔ امام شافعی (رح) اور ان کے موافقین نے اس آیت سے استدلال کیا ہے اپنے ہاتھ سے اپنا خاص پانی نکال ڈالنا حرام ہے کیونکہ یہ بھی ان دونوں حلال صورتوں کے علاوہ ہے اور مشت زنی کرنے والا شخص بھی حد سے آگے گزرجانے والا ہے۔ امام حسن بن عرفہ نے اپنے مشہور جز میں ایک حدیث وارد کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں سات قسم کے لوگ ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ نظر رحمت سے نہ دیکھے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور نہ انہیں عالموں کے ساتھ جمع کرے گا اور انہیں سب سے پہلے جہنم میں جانے والوں کے ساتھ جہنم میں داخل کرے گا یہ اور بات ہے کہ وہ توبہ کرلیں توبہ کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ مہربانی سے رجوع فرماتا ہے ایک تو ہاتھ سے نکاح کرنے والا یعنی مشت زنی کرنے والا اور اغلام بازی کرنے اور کرانے والا۔ اور نشے باز شراب کا عادی اور اپنے ماں باپ کو مارنے پیٹنے والا یہاں تک کہ وہ چیخ پکار کرنے لگیں اور اپنے پڑوسیوں کو ایذاء پہنچانے والا یہاں تک کہ وہ اس پر لعنت بھیجنے لگے اور اپنی پڑوسن سے بدکاری کرنے والا۔ لیکن اس میں ایک راوی مجہول ہے۔ واللہ اعلم۔ اور وصف ہے کہ وہ اپنی امانتیں اور اپنے وعدے پورے کرتے ہیں امانت میں خیانت نہیں کرتے بلکہ امانت کی ادائیگی میں سبقت کرتے ہیں وعدے پورے کرتے ہیں اس کے خلاف عادتیں منافقوں کی ہوتی ہیں۔ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ منافق کی تین نشانیاں ہیں۔ \0\01 جب بات کرے، جھوٹ بولے \0\02 جب وعدہ کرے خلاف کرے \0\03 جب امانت دیا جائے خیانت کرے۔ پھر اور وصف بیان فرمایا کہ وہ نمازوں کی ان اوقات پر حفاظت کرتے ہیں۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال ہوا کہ سب سے زیادہ محبوب عمل اللہ کے نزدیک کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا نماز کو وقت پر ادا کرنا۔ پوچھا گیا پھر ؟ فرمایا ماں باپ سے حسن سلوک کرنا۔ پوچھا گیا پھر ؟ فرمایا اللہ کے راہ میں جہاد کرنا (بخاری ومسلم) حضرت قتادہ (رح) فرماتے ہیں وقت، رکوع، سجدہ وغیرہ کی حفاظت مراد ہے۔ ان آیات پر دوبارہ نظر ڈالو۔ شروع میں بھی نماز کا بیان ہوا اور آخر میں بھی نماز کا بیان ہوا۔ جس سے ثابت ہوا کہ نماز سب سے افضل ہے حدیث شریف میں ہے سیدھے سیدھے رہو اور تم ہرگز احاطہ نہ کرسکو گے۔ جان لو کہ تمہارے تمام اعمال میں بہترین عمل نماز ہے۔ دیکھو وضو کی حفاظت صرف مومن ہی کرسکتا ہے۔ ان سب صفات کو بیان فرما کر ارشاد ہوتا ہے کہ یہی لوگ وارث ہیں جو جنت الفردوس کے دائمی وارث ہونگے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے اللہ سے جب مانگو جنت الفردوس مانگو، وہ سب سے اعلی اور اوسط جنت ہے۔ وہیں سے سب نہریں جاری ہوتی ہیں اسی کے اوپر اللہ تعالیٰ کا عرش ہے ( بخاری ومسلم) فرماتے ہیں تم میں ہر ایک کی دو دو جگہیں ہیں۔ ایک منزل جنت میں ایک جہنم میں، جب کوئی دوزخ میں گیا تو اس کی منزل کے وارث جنتی بنتے ہیں۔ اسی کا بیان اس آیت میں ہے۔ مجاہد (رح) فرماتے ہیں جنتی تو اپنی جنت کی جگہ سنوار لیتا ہے اور جہنم کی جگہ ڈھا دیتا ہے۔ اور دوزخی اس کے خلاف کرتا ہے، کفار جو عبادت کے لئے پیدا کئے گئے تھے، انہوں نے عبادت ترک کردی تو ان کے لئے جو انعامات تھے وہ ان سے چھین کر سچے مومنوں کے حوالے کر دئیے گئے۔ اسی لئے انہیں وارث کہا گیا۔ صحیح مسلم میں ہے کچھ مسلمان پہاڑوں کے برابر گناہ لے کر آئیں گے، جنہیں اللہ تعالیٰ یہود و نصاری پر ڈال دے گا اور انہیں بخش دے گا۔ اور سند سے مروی ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو ایک ایک یہودی یا نصرانی دے گا کہ یہ تیرا فدیہ ہے، جہنم سے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز (رح) نے جب یہ حدیث سنی تو راوی حدیث ابو بردہ (رض) کو قسم دی انہوں نے تین مرتبہ قسم کھا کر حدیث کو دوہرا دیا۔ اسی جیسی آیت یہ بھی ہے ( تِلْكَ الْجَــــنَّةُ الَّتِيْ نُوْرِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَنْ كَانَ تَقِيًّا 63 ۔ ) 19 ۔ مریم :63) اسی جیسی آیت یہ بھی ( وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِيْٓ اُوْرِثْتُمُوْهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ 72) 43 ۔ الزخرف :72) فردوس رومی زبان میں باغ کو کہتے ہیں بعض سلف کہتے کہ اس باغ کو جس میں انگور کی بیلیں ہوں۔ واللہ اعلم۔