النور آية ۲۷
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُيُوْتًا غَيْرَ بُيُوْتِكُمْ حَتّٰى تَسْتَأْنِسُوْا وَتُسَلِّمُوْا عَلٰۤى اَهْلِهَا ۗ ذٰ لِكُمْ خَيْرٌ لَّـكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ
طاہر القادری:
اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو، یہاں تک کہ تم ان سے اجازت لے لو اور ان کے رہنے والوں کو (داخل ہوتے ہی) سلام کہا کرو، یہ تمہارے لئے بہتر (نصیحت) ہے تاکہ تم (اس کی حکمتوں میں) غور و فکر کرو،
English Sahih:
O you who have believed, do not enter houses other than your own houses until you ascertain welcome and greet their inhabitants. That is best for you; perhaps you will be reminded [i.e., advised].
1 Abul A'ala Maududi
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو جب تک کہ گھر والوں کی رضا نہ لے لو اور گھر والوں پر سلام نہ بھیج لو، یہ طریقہ تمہارے لیے بہتر ہے توقع ہے کہ تم اس کا خیال رکھو گے
2 Ahmed Raza Khan
اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا اور گھروں میں نہ جاؤ جب تک اجازت نہ لے لو اور ان کے ساکنوں پر سلام نہ کرلو یہ تمہارے لیے بہتر ہے کہ تم دھیان کرو،
3 Ahmed Ali
اے ایمان والو اپنے گھروں کے سوا اور کسی کے گھروں میں نہ جایا کرو جب تک اجازت نہ لے لو او رگھر والوں پر سلام نہ کر لو یہ تہارے لیے بہتر ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو
4 Ahsanul Bayan
اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا اور گھروں میں نہ جاؤ جب تک کہ اجازت نہ لے لو اور وہاں کے رہنے والوں کو سلام نہ کرلو (١) یہی تمہارے لئے سراسر بہتر ہے تاک تم نصیحت حاصل کرو (٢)
٢٧۔١گزشتہ آیات میں زنا اور قذف اور ان کی حدوں کا بیان گزرا، اب اللہ تعالٰی گھروں میں داخل ہونے کے آداب بیان فرما رہا ہے تاکہ مرد و عورت کے درمیان اختلاط نہ ہو جو عام طور زنا یا قذف کا سبب بنتا ہے۔ اَسْتِیْنَاس کے معنی ہیں، معلوم کرنا، یعنی جب تک تمہیں یہ معلوم نہ ہو جائے کہ اندر کون ہے اور اس نے تمہیں اندر داخل ہونے کی اجازت دے دی ہے، اس وقت تک داخل نہ ہو۔ آیت میں داخل ہونے کی اجازت طلب کرنے کا ذکر پہلے اور سلام کرنے کا ذکر بعد میں ہے۔ لیکن حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پہلے سلام کرتے اور پھر داخل ہونے کی اجازت طلب کرتے اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول بھی تھا کہ تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اجازت طلب فرماتے اگر کوئی جواب نہیں آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوٹ آتے۔ اور یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ اجازت طلبی کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم دروازے کے دائیں یا بائیں جانب کھڑے ہوتے، تاکہ ایک دم سامنا نہ ہو جائے جس بےپردگی کا امکان رہتا ہے (ملاحظہ ہو صحیح بخاری) اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دروازے پر کھڑے ہو کر اندر جھانکنے سے بھی نہایت سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے حتیٰ کہ اگر کسی شخص نے جھانکنے والے کی آنکھ پھوڑ دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس پر کوئی گناہ نہیں (البخاری) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو بھی ناپسند فرمایا کہ جب اندر سے صاحب بیت پوچھے ، کون ہے؟ تو اس کے جواب میں "میں""میں"کہا جاءے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نام لے کر اپنا تعارف کرائے (صحیح بخاری)
٢٧۔٢ یعنی عمل کرو، مطلب یہ ہے کہ اجازت طلبی اور سلام کرنے کے بعد گھر کے اندر داخل ہونا، دونوں کے لئے اچانک داخل ہونے سے بہتر ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
مومنو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے (لوگوں کے) گھروں میں گھر والوں سے اجازت لئے اور ان کو سلام کئے بغیر داخل نہ ہوا کرو۔ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے (اور ہم) یہ نصیحت اس لئے کرتے ہیں کہ شاید تم یاد رکھو
6 Muhammad Junagarhi
اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا اور گھروں میں نہ جاؤ جب تک کہ اجازت نہ لے لو اور وہاں کے رہنے والوں کو سلام نہ کرلو، یہی تمہارے لئے سراسر بہتر ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو
7 Muhammad Hussain Najafi
اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو۔ جب تک کہ اجازت نہ لے لو۔ اور گھر والوں پر سلام نہ کرو۔ یہی تمہارے لئے بہتر ہے۔ تاکہ نصیحت حاصل کرو۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ایمان والو خبردار اپنے گھروں کے علاوہ کسی کے گھر میں داخل نہ ہونا جب تک کہ صاحبِ خانہ سے اجازت نہ لے لو اور انہیں سلام نہ کرلو یہی تمہارے حق میں بہتر ہے کہ شاید تم اس سے نصیحت حاصل کرسکو
9 Tafsir Jalalayn
مومنو ! اپنے گھروں کے سوا دوسرے (لوگوں کے) گھروں میں گھر والوں سے اجازت لئے اور ان کو سلام کئے بغیر داخل نہ ہوا کرو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے (اور ہم یہ نصیحت اس لئے کرتے ہیں کہ) شاید تم یاد رکھو
آیت نمبر 27 تا 34
ترجمہ : اے ایمان والو ! تم اپنے گھروں کے سوا دوسروں کے گھروں میں اس وقت تک داخل نہ ہو جب تک کہ اجازت حاصل نہ کرلو اور اہل خانہ کو سلام نہ کرلو پس ہر اجازت لینے والے کو چاہیے کہ کہے السلام علیکم أادخُلُ کیا میں داخل ہوسکتا ہوں ؟ جیسا کہ حدیث میں وارد ہوا ہے یہی تمہارے لئے بہتر ہے بغیر اجازت داخل ہونے سے تاکہ تم خیال رکھو اجازت کے خیر ہونے کا پھر تم اس پر عمل کرو تائے ثانیہ کو ذال میں ادغام کرکے سو اگر تم گھروں میں کسی کو نہ پاؤ کہ تم کو اجازت دے تو ان میں داخل نہ ہو جب تک کہ تم کو اجازت نہ دیدی جائے اور اگر اجازت طلب کرنے کے بعد تم سے کہہ دیا جائے کہ لوٹ جاؤ تو لوٹ آیا کرو یہی لوٹ آنا تمہارے دروازہ پر بیٹھ رہنے سے بہتر ہے اللہ تعالیٰ کو تمہارے اعمال دخول بالاذن اور دخول بغیر الاذن کی سب خبر ہے لہٰذا ان اعمال پر جزا دے گا تم کو ایسے مکانات میں (بغیر اجازت) داخل ہونے میں کوئی گناہ نہ ہوگا جو رہائشی نہ ہوں اور جن سے تمہاری بھی کچھ منفعت وابستہ ہو (مثلاً گرمی سردی سے بچنے وغیرہ کی منفعت جیسا کہ عام سرائے کے طور پر استعمال ہونے والے مکانات اور دکان اور جو کچھ تم علانیہ کرتے ہو اور پوشیدہ طور پر کرتے ہو دوسروں کے گھروں میں اصلاح یا غیر اصلاح کے ارادہ سے داخل ہونے کو اللہ سب جانتا ہے اور یہ (مضمون) عنقریب آرہا ہے کہ لوگ جب اپنے گھروں میں داخل ہوں تو خود کو سلام کریں آپ مسلمان مردوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نگاہوں کو ان چیزوں سے نیچی رکھیں جن کا دیکھنا ان کے لئے حلال نہیں ہے، اور من زائدہ ہے اور اپنی شرمگاہوں کو ان افعال سے محفوظ رکھیں جن کا ارتکاب ان کیلئے حلال نہیں ہے، یہ ان کے لئے زیادہ پاکیزگی کی بات ہے یعنی بہتر ہے اللہ تعالیٰ کو سب معلوم ہے جو کچھ وہ اپنی آنکھوں اور شرمگاہوں سے کرتے ہیں اور مسلمان عورتوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نگاہوں کو نیچی رکھیں ان چیزوں سے کہ جن کا دیکھنا جائز نہیں ہے اور اپنی شرمگاہوں کو ان کاموں سے محفوظ رکھیں جن کا ارتکاب ان کیلئے حلال نہیں ہے اور اپنی زینت کو ظاہر نہ ہونے دیں سوائے اس کے جو ظاہر ہے اور وہ چہرہ اور ہتھیلیاں ہیں اجنبی کے لئے ایک قول میں ان اعضاء کا دیکھنا جائز ہے اگر فتنہ کا خوف نہ ہو اور دوسرے قول میں حرام ہے، اس لئے کہ یہ محل فتنہ ہیں اور (دوسرے قول کو) سد اللباب راجح قرار دیا گیا ہے اور اپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رہا کریں یعنی سروں گردنوں اور سینوں کو دوپٹوں سے ڈھانپے رہا کریں، اور اپنی پوشیدہ زینت کو ظاہر نہ ہونے دیں اور وہ چہرے اور ہتھیلیوں کے علاوہ ہے مگر اپنے شوہروں پر (بعول) بعْل کی جمع ہے بمعنی شوہر اور اپنے باپ پر یا اپنے شوہر کے باپ پر یا اپنے بیٹوں پر یا اپنے شوہر کے بیٹوں پر یا اپنے بھائیوں پر یا اپنے بھتیجوں پر یا اپنے بھانجوں پر یا اپنی عورتوں پر (یعنی مسلمان عورتوں پر) یا اپنی لونڈیوں پر ان لوگوں کیلئے ناف اور گٹھنے کے درمیان کے علاوہ دیکھنا جائز ہے لہٰذا ناف اور گٹھنے کے درمیانی حصہ کو شوہروں کے علاوہ کیلئے دیکھنا حرام ہے، اور نِسائھنّ کی قید سے کافر عورتیں خارج ہوگئیں، لہٰذا مسلمان عورتوں کے لئے کافر عورتوں کے روبرو بےپردہ ہونا جائز نہیں ہے اور مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُنَّ کا لفظ (اپنے عموم کی وجہ سے) غلاموں کو بھی شامل ہے یا ان مردوں پر جو طفیلی ہوں یعنی ایسے لوگ جو بچے ہوئے کھانے کے متلاشی ہوں ان کی اور کوئی غرض نہ ہو غیر جر کے ساتھ (التابعین) کی صفت ہوگی اور نصب استثناء کی وجہ سے ہوگا اُولِی الاِرٌبَۃِ وہ مرد جو کھانے وغیرہ کے لئے عورتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں (ان کا اور کوئی مقصد نہیں ہوتا) ہر ایسا شخص کہ جس کے عضو تناسل میں انتشار ہو یا ایسے لڑکوں پر جو (ابھی) عورتوں کی پردے کی یعنی جماع وغیرہ کی باتوں سے واقف نہیں ہوئے ہیں اور طفل بمعنی اطفال ہے، تو ایسے لوگوں کیلئے (مابین السرۃ والرکبۃ) کے علاوہ ظاہر کرنا جائز ہے اور اپنے پاؤں زور سے نہ رکھیں کہ ان کا مخفی زیور ظاہر ہوجائے کہ وہ بجنے والی پازیب ہے اور اے مومنوں تم سب اللہ کے سامنے توبہ کرو نظر ممنوع وغیرہ سے جو تم سے واقع ہوگئی ہے تاکہ تم فلاح پاؤ یعنی تاکہ تم اس سے (یعنی نظر ممنوع کے گناہ سے) نجات پاؤ، اللہ کے توبہ کو قبول کرنے کے ذریعہ، اور آیت میں مذکر کو مؤنث پر غلبہ ہے اور تم میں سے جو بےنکاح ہوں ان کا نکاح کردیا کرو اَیَامٰی اَیِّمْ کی جمع ہے وہ وہ عورت ہے جس کا شوہر نہ ہو خواہ باکرہ ہو یا ثیبہ اور وہ مرد جس کی بیوی نہ ہو اور یہ (حکم) آزاد مرد اور عورتوں کا ہے اور تم اپنے مومن غلام اور باندیوں کا بھی (نکاح کردیا کرو) اور عِبَاد عبدٌ کی جمع ہے اگر وہ افراد مفلس ہوں گے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس نکاح کی برکت سے غنی کر دے گا اور اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کیلئے وسعت والا ہے اور (ان کے حالات) کا جاننے والا ہے اور ایسے لوگ جو نکاح پر مہر و نفقہ نہ ہونے کی وجہ سے قدرت نہیں رکھتے ان کو چاہیے کہ زنا سے ضبط سے کام لیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے فضل سے غنی کر دے یعنی ان کو وسعت عطا فرما دے پھر وہ نکاح کرلیں اور تمارے مملوکوں میں سے جو مکاتبت کے خواہاں ہوں غلام اور باندیوں میں سے تو ان کو مکاتب بنادیا کرو اگر تم ان میں بہتری سمجھو یعنی امانت اور بدل کتابت ادا کرنے کیلئے کمانے کی قدرت اور (رہا) مکاتبت کا صیغہ تو مثلاً یوں کہے میں نے تجھ کو دو ماہ میں دو ہزار پر مکاتب بنادیا ہر ماہ میں ایک ہزار جب تو اس کو ادا کر دے گا تو آزاد ہے غلام کہے کہ مجھے یہ منظور ہے اور اللہ کے اس مال میں سے جو اس نے تم کو دیا ہے ان کو بھی دو اس بدل کتابت کی ادائیگی میں مدد حاصل کریں جس کو انہوں نے تمہارے لئے (اپنے اوپر) لازم کرلیا ہے، یہ سرداروں کو حکم ہے اور جو انہوں نے (اپنے اوپر) لازم کرلیا ہے اس میں سے کچھ کم کردینا یہ بھی دینے کے حکم میں ہے اور اپنی لونڈیوں کو یعنی باندیوں کو زنا پر مجبور نہ کرو اگر وہ پاکدامن رہنا چاہیں یعنی زنا سے بچنا چاہیں اور یہ یعنی ارادۂ تحصن ہی محل اکراہ ہے، لہٰذا شرط کے مفہوم مخالف کا کوئی اعتبار نہیں ہے تاکہ تم اکراہ کے ذریعہ دنیوی کچھ فائدہ حاصل کرو یہ آیت عبداللہ بن ابی کے بارے میں نازل ہوئی جو کہ اپنی باندیوں کو زنا کے ذریعہ کسب کرنے پر مجبور کرتا تھا اور جو شخص ان کو مجبور کرے گا تو اللہ تعالیٰ ان کے مجبور کئے جانے کے بعد ان کو بخشنے والا مہربان ہے اور بلاشبہ ہم نے تمہارے پاس اس سورت میں کھلے احکام نازل کئے (مبینت) میں یا کے فتحہ اور کسرہ کے ساتھ ہے اس (سورت) میں وہ احکام بیان کئے گئے ہیں جو مذکور ہوئے یا (احکام کو) واضح کرنے والی آیات نازل کی ہیں اور عجیب خبر نازل کی اور وہ حضرت عائشہ (رض) کا واقعہ ہے کہ جو آپ سے پہلے گذرے ہوئے لوگوں کی خبر کی جنس سے ہے (عجیب ہونے میں) یعنی ان لوگوں کی اخبار عجیبہ کی جنس سے ہے، جیسا کہ حضرت یوسف ( علیہ السلام) و مریم ( علیہ السلام) کی خبر اور ڈرنے والوں کیلئے نصیحت کی باتیں (نازل فرمائیں) اللہ تعالیٰ کے قول وَلاَ تَاخُذُکُمْ بِھِمَا رَأفَۃً فِیْ دِیْنِ اللہِ (الآیہ) میں (اور) لَوْلاَ اِذْ سَمِعْتُمُوْہُ ظَنَّ المُؤمِنُوْنَ (الآیہ) میں اور وَلَوْلاَ اِذْ سَمِعْتُمُوْہُ قُلْتُمْ (الآیہ) میں (اور) یَعِظُکُمْ اللہ اَنْ تَعُوْدُوْا (الآیہ) میں متقین کی تخصیص اس لئے ہے کہ یہی لوگ نصیحت سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد
یا ایھا۔۔۔۔۔ تستاذنوا، سابقہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے ستر و حجاب عفت و پاکدامنی کے احکام بیان فرمائے منجملہ انہی احکام کے کسی کے گھر میں بلا اجازت داخل نہ ہونا ہے لہٰذا ستر و حجاب کے احکام کے بعد مسئلہ استیذان کو بیان فرمایا، سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے گھروں میں داخل ہونے کے آداب کو بیان فرمایا اس لئے کہ اجنبی مرد وزن کا اختلاط بعض اوقات فتنہ کا سبب بن جاتا ہے قولہ : تَسْتَانِسُوْا بمعنی تَسْتَاذِنُوْا ہے یہ استیذان سے مشتق ہے اس کے معنی اجازت لینا، انسیت پیدا کرنا۔ قولہ : لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ یہ لاتَدْخُلُوْا بُیُوتًا سے بمنزلہ استثناء ہے۔ قولہ : اِسْتکنانٌ یہ کِنِّ سے مشتق ہے اس کے معنی چھپنے کے ہیں یعنی سردی، گرمی یا بارش وغیرہ سے چھپ کر راحت حاصل کرنا۔
قولہ : رُبُطٌ رباطٌ کی جمع ہے اس کے اصل معنی تو اصطبل یا بیرک کے ہیں مگر یہاں وہ سرائے اور عام مسافر خانے مراد ہیں جن میں آمدورفت کی عام اجازت ہوتی ہے اور جو منفعت عامہ کیلئے بنائے جاتے ہیں المَسْبَلۃ اس راستہ کو کہتے ہیں جو خوب چلتا ہو اسی مناسبت سے اس مکان کو بھی کہتے ہیں جس میں عام آمدورفت کی اجازت ہو مَسْبَلۃ دراصل رُبْطٌ کی صفت ہے لہٰذا اگر اس کو رُبُطٌ کے متصل ذکر کرتے تو زیادہ واضح ہوتا خطیب کی عبارت اس طرح ہے کبُیُوتِ الخَاناتِ والربط المسبلۃ (جمل) خَانَات خَانَۃ کی جمع دکان کو کہتے ہیں جہاں خریدوفروخت کیلئے آنے کی عام اجازت ہوتی ہے، المَسْبَلۃ، ربُط اور خانات دونوں کی صفت بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
قولہ : بالمَقَانِع یہ مِقنَعٌ یا مِقْنعۃ کی جمع ہے، دوپٹہ اوڑھنی وغیرہ۔ قولہ : اوِ التابعینَ ای التَّابعِیْنَ للنساءِ وہ خفیف العقل اور نیم پاگل لوگ جو کھانے وغیرہ کی جستجو میں عورتوں کے ساتھ ہو لیتے ہیں۔ خَلْخال پازیب (ج) خلاخیل تَقَعْقَعَ یَتَعْقَعُ حرکت کے ساتھ آواز نکالنا، قولہ : الصَّالِحِینَ ای المومنین یہاں صالحین سے وہ مومنین مراد ہیں جو حقوق نکاح کے ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
قولہ : وَالَّذِیْنَ یَبْتَغُوْنَ الکِتٰبَ وَالَّذِیْنَ موصول صلہ سے مل کر مبتداء متضمن بمعنی شرط ہونے کی وجہ سے محلاً مرفوع ہے، اس صورت میں فکاتبوہ اس کی خبر ہے اور مما ملکت ایمانکم یبتغون کی ضمیر سے حال ہے، اور فعل مقدر کی وجہ سے نصب بھی جائز ہے اس صورت میں محلاً منصوب ہوگا اور باب اشتغال سے ہوگا۔
قولہ : ھٰذہ الإرادۃ محل الاکراہ فلا مفھوم للشرط یہ ایک اعتراض کا جواب ہے، اعتراض یہ ہے کہ اِنْ اَردنْ تحصنًا حرف شرط سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر باندیاں پاکدامن رہنا چاہیں تو ان کو زنا پر مجبور نہ کیا جائے اور اگر پاکدامن رہنا نہ چاہیں تو مجبور کرسکتے ہیں، جواب یہ ہے کہ اجبار کی ضرورت ہی جب پڑے گی جب وہ پاکدامن رہنا چاہیں اور اگر وہ خود ہی پاکدامن رہنا نہ چاہیں تو اجبار کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی، وہ خود اپنی مرضی سے فعل زنا کرلے گی۔ قولہ : اَوْبَیِّنۃ بمعنی مُبَیّنَۃٍ اسم فاعل احکام کو واضح کرنے والی آیات۔ قولہ : مثلاً یعنی اس سورت میں یا اس قرآن میں ہم نے تمہارے لئے واضح احکام نازل کئے اور حضرت عائشہ صدیقہ کا عجیب واقعہ بھی نازل کیا جو عجیب ہونے میں گذرے ہوئے لوگوں مثلاً حضرت یوسف و مریم (علیہما السلام) کے واقعہ کے مشابہ ہے اس لئے کہ ان دونوں حضرات پر بھی تہمت لگائی گئی تھی اور اللہ تعالیٰ نے ان حضرات کی برأۃ بھی ظاہر فرما دی تھی۔
تفسیر و تشریح
یایھا الذین۔۔۔۔۔ بیوتا (الآیہ)
سبب نزول : عدی بن ثابت ایک انصاری شخص سے روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ میں بعض اوقات گھر میں ایسی حالت میں ہوتی ہوں کہ میں پسند نہیں کرتی کہ کوئی اس حالت میں مجھے دیکھے نہ بیٹا اور نہ باپ تو اچانک کوئی آنے والا آجاتا ہے تو میں کیا کروں ؟ تو مذکورہ آیت نازل ہوئی۔
مکانات کی قسمیں : مکانات کی چار قسمیں ہیں (1) اول اپنا خاص مکان یا کمرہ کہ جس میں دوسرے کے آنے کا احتمال ہی نہ ہو۔ (2) دوسرے وہ مکان جس میں دیگر حضرات بھی رہتے ہوں گو وہ محارم ہی کیوں نہ ہوں یا کسی کے آجانے کا احتمال ہو۔ (3) تیسرا جس میں بالفعل کسی کا رہنا یا نہ رہنا دونوں محتمل ہوں۔ (4) چوتھا جس میں کسی خاص سکونت کا نہ ہونا متقین ہو، جیسے مدرسہ، خانقاہ، مسجد، سرائے۔ قسم اول کا حکم تو یہ ہوے کہ اس میں کسی کی اجازت لینے کی ضرورت نہیں، اس لئے کہ علت استیذان جو آئندہ معلوم ہوگی منتفی ہے، دوسری اقسام کا حکم اگلی آیتوں میں مذکور ہے۔
استیذان کی مصلحت : سب سے بڑی مصلحت تو فواحش و بےحیائی کا انسداد ہے، بلا اجازت کسی کے مکان میں داخل ہوجانے سے یہ احتمال ہے کہ غیر محرم عورتوں پر نظر پڑے اور شیطان دل میں کوئی مرض پیدا کر دے، اسی مصلحت کے پیش نظر احکام استیذان کو قرآن کریم میں حد زنا اور حد قذف وغیرہ کے متصل بیان فرمایا ہے، ایک اہم مصلحت یہ بھی ہے کہ انسان بعض اوقات اپنے گھر میں تنہائی میں کوئی ایسا کام کر رہا ہوتا ہے جس پر دوسروں کو مطلع کرنا مناسب نہیں سمجھتا، اگر ایسے وقت میں کوئی شخص بغیر اجازت گھر میں آجائے تو یہ جس چیز کو دوسروں سے پوشیدہ رکھنا چاہتا ہے اس پر وہ شخص مطلع ہوجائے گا کسی کے پوشیدہ راز کو زبردستی معلوم کرنے کی فکر کرنا بھی گناہ اور دوسروں کیلئے موجب ایذاء ہے۔
مسئلہ : ان آیات یَاَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا (الآیہ) اگرچہ خطاب مردوں کو ہے مگر عورتیں بھی اس حکم میں داخل ہیں، قرآن کا عام اسلوب بھی یہ ہے کہ خطاب مردوں کو ہوتا ہے اور عورتیں بھی اس حکم میں داخل ہوتی ہیں، بجز مخصوص مسائل کے کہ جن کی خصوصیت مردوں کے ساتھ بیان کردی جاتی ہے، چناچہ حضرات صحابہ کی مستورات کا بھی یہی دستور تھا کہ جب کسی کے گھر جاتیں تو داخل ہونے سے پہلے اجازت طلب کرتیں، حضرت ام ایاس فرماتی ہیں کہ ہم چار عورتیں اکثر حضرت عائشہ صدیقہ کے پاس جاتا کرتی تھیں اور گھر میں داخل ہونے سے پہلے استیذان کرتی تھیں، جب وہ اجازت دیدیتیں تو اندر جاتی تھیں۔ (ابن کثیر بحوالہ ابی حاتم)
مسئلہ : اسی آیت کے عموم سے معلوم ہوا کہ کسی دوسرے شخص کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے استیذان کا حکم عام ہے، عورت مرد محرم غیر محرم سب کو شامل ہے، عورت کسی عورت کے پاس جائے یا مرد کسی مرد کے پاس جائے سب کو استیذان کرنا واجب ہے، اسی طرح اگر کوئی شخص اپنی ماں بہن یا دوسری محرم عورتوں کے پاس جائے تب بھی استیذان کرنا چاہیے، امام مالک (رح) نے موطا میں مرسلاً عطاء بن یسار سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا أ أستاذِنُ علیٰ اُمِّی آپ نے فرمایا نَعَمْ اس شخص نے کہا یا رسول اللہ میرے سوا اس کا کوئی خادم نہیں ہے کیا پھر ہر مرتبہ داخل ہوتے وقت اجازت لوں ؟ تو آپ نے فرمایا أیحبُّ أن ترَھَا عُرْیَانَۃً کیا تجھے یہ بات پسند ہے کہ تو اپنی والدہ کو ننگی دیکھے ؟ اس شخص نے جواب دیا ” لا “ تو آپ نے فرمایا فَاسْتَاذِنْ عَلَیْھَا (روح المعانی)
مسئلہ : جس گھر میں صرف اپنی بیوی رہتی ہو اس میں داخل ہونے کیلئے اگرچہ استیذان واجب نہیں مگر مستحب اور سنت طریقہ یہ ہے کہ وہاں بھی اچانک اور بغیر کسی اطلاع کے اندر نہ جائے بلکہ داخل ہونے سے پہلے اپنے پاؤں کی آہٹ یا کھانس کھنکار کر یا کسی اور طریقہ سے خبر کر دے، حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کی زوجہ محترمہ فرماتی ہیں کہ عبداللہ جب کبھی باہر سے گھر آتے تو دروازے میں کھنکار کر پہلے اپنے آنے کی خبر کردیتے تھے، تاکہ وہ ہمیں اس حالت میں نہ دیکھیں جو انہیں پسند نہ ہو۔ (معارف)
قولہ : ذٰلِکُمْ اس کا مشار الیہ دخول بالاستیذان والتسلیم ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ذٰلکم سے حتی کے تحت یعنی مغیا میں مذکور دونوں فعل یعنی استیناس اور تسلیم مراد ہوں، قولہ : خیرٌ لَّکُمْ خیرٌ کو اگر اسم تفصیل ہی کے معنی میں رکھا جائے تو مفضل علیہ دخول بغیر اذن محذوف ہوگا جیسا کہ مفسر علام نے صراحت کی ہے، تو یہ الخلُّ اَحلیٰ مِنَ العَسْلِ کے قبیل سے ہوگا اور اگر خیر کو صیغہ صفت مانا جائے تو مفضل علیہ کی تقدیر کی ضرورت نہیں۔ قولہ : لعلَّکُمْ تذکرون یہ ایک جماعت کے نزدیک محذوف کی علت ہے ای أرشدتم الیٰ ذٰلک او قیل لکم ھٰذا، کَی تذکرون۔
استیذان کا مسنون طریقہ : مذکورہ آیت میں بتایا گیا ہے کہ کسی کے گھر میں اس وقت تک داخل نہ ہو جب تک کہ دو کام نہ کرلو اول استیناس اس کے لفظی معنی طلب انس کے ہیں اور جمہور کے نزدیک اس سے استیذان ہی مراد ہے یعنی اجازت حاصل کرنا استیذان کو لفظ استیناس سے ذکر کرنے میں اس طرف اشارہ ہے کہ داخل ہونے سے پہلے اجازت حاصل کرنے میں مخاطب مانوس ہوجاتا ہے اس کو وحشت نہیں ہوتی، دوسرا کام یہ کہ گھر والوں کو سلام کرو، بعض حضرات نے اس کا مفہوم یہ لیا ہے کہ پہلے اجازت حاصل کرو اور جب گھر میں داخل ہو تو سلام کرو قرطبی نے اسی کو اختیار کیا ہے اس مفہوم کے اعتبار سے آیت میں کوئی تقدیم و تاخیر نہیں، پہلے اجازت لی جائے اور جب اجازت مل جائے تو گھر میں جا کر سلام کریں، اور ماوردی نے اس میں یہ تفصیل کی ہے کہ اگر اجازت لینے سے پہلے گھر کے کسی آدمی پر نظر پڑجائے تو پہلے سلام کرے پھر اجازت طلب کرے ورنہ پہلے اجازت لے اور جب گھر میں جائے تو سلام کرے مگر عام روایات حدیث سے جو مسنون طریقہ معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ پہلے باہر سے سلام کرے السلام علیکم اس کے بعد اپنا نام لیکر کہے فلاں شخص ملنا چاہتا ہے، امام بخاری (رح) نے ادب المفرد میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ جو شخص سلام سے پہلے استیذان کرے اس کو اجازت نہ دو (کیونکہ اس نے مسنون طریقہ کے خلاف کیا) (روح المعانی بحوالہ معارف)
ابو داؤد کی حدیث میں ہے کہ بنی عامر کے ایک شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے استیذان کیا، باہر سے کہا أألِجُ ؟ میں گھس جاؤں، آپ نے اپنے خادم سے فرمایا یہ شخص استیذان کا طریقہ نہیں جانتا باہر اس کو طریقہ سکھاؤ کہ یوں کہے السلام علیکم أ أدخل ابھی یہ خادم باہر نہیں گیا تھا کہ اس شخص نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے الفاظ مبارک سن لئے اور سنت کے مطابق اجازت طلب کی آپ نے اجازت دیدی، اس واقعہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو اصلاحیں فرمائیں، ایک یہ کہ پہلے سلام کرنا چاہیے دوسرے یہ کہ أألِجُ کے بجائے أأدخل کہنا چاہیے اَلِجُ وُلُوجٌ سے مشتق ہے جس کے معنی تنگ جگہ سے گھسنے کے ہیں یہ تہذیب گفتگو کے خلاف تھا، بہرحال ان روایات سے یہ معلوم ہوا کہ آیت قرآن میں جو سلام کرنے کا حکم ارشاد ہوا ہے یہ سلام استیذان ہے تاکہ اندر والا شخص متوجہ ہوجائے اور جو الفاظ اجازت طلب کرنے کیلئے کہے گا وہ سن لے گھر میں داخل ہونے کے وقت حسب معمول دوبارہ سلام کرے۔
مسئلہ : استیذان کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ اجازت لینے والا خود اپنا نام لیکر اجازت طلب کرے جیسا کہ حضرت عمر (رض) نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے در مبارک پر نام لیکر اجازت طلب کی۔
قاسم بن اصبغ نے اور ابن عبد البر نے التمہید میں ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے، حضرت عمر (رض) نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت طلب کی فقال السلام علیٰ رسولِ اللہ السلامُ علَیْکُمْ أیَدٌخُلُ عمر ؟ (روح المعانی)
مسئلہ : اول تو اپنا نام بتا کر اجازت طلب کرے اس لئے کہ بغیر نام کے بعض اوقات آنے والے کا تعارف نہیں ہوتا، اور یہ بات اور زیادہ تکلیف کا باعث ہوتی ہے کہ اندر سے صاحب خانہ معلوم کرتا ہے کہ کون صاحب ہیں تو جواب میں کہا جاتا ہے میں ہوں، یہ مخاطب کے سوال کا جواب نہیں ہے جس نے آواز سے نہیں پہچانا وہ (میں ہوں) سے کیا پہچانے گا۔
خطیب بغدادی نے اپنی جامع میں علی بن عاصم واسطی سے نقل کیا ہے کہ وہ بصرہ گئے تو حضرت مغیرہ بن شعبہ کی ملاقات کیلئے حاضر ہوئے دروازہ پر دستک دی، حضرت مغیرہ نے اندر سے معلوم کیا کون صاحب ہیں تو جواب دیا ” أنا “ تو حضرت مغیرہ نے فرمایا میرے دوستوں میں تو کوئی بھی ایسا شخص نہیں جس کا نام أنا ہو، پھر باہر تشریف لائے اور ان کو حدیث سنائی کہ ایک روز حضرت جابر (رض) بن عبداللہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اجازت کیلئے دروازہ پر دستک دی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اندر سے پوچھا کون صاحب ہیں ؟ تو جابر نے کہہ دیا أنا آپ نے زجرو تنبیہ سے فرمایا أنا أنا یعنی أنا أنا کہنے سے کیا حاسل اس سے کوئی پہچانا نہیں جاتا۔ استیذان کا مقصد بغیر اجازت گھر میں داخل نہ ہونا ہے، استیذان کے طریقے پر زمانہ میں بدلتے رہتے ہیں ان میں سے دروازہ پر دستک اور سلام کرکے اجازت لینے کا طریقہ تو خود روایات میں موجود ہے، دروازہ پر لگی ہوئی گھنٹی بجا دیتا بھی استیذان کے مقصد کو پورا کرلینا ہے بشرطیکہ گھنٹی کے بعد اپنا نام بھی بتادے، شناختی کارڈ کے ذریعہ استیذان کا مقصد بخوبی پورا ہوجاتا ہے۔
مسئلہ : اگر استیذان کے جواب میں کہہ دیا جائے کہ اس وقت ملاقات نہیں ہوسکتی تو اس سے برا نہ ماننا چاہیے آیت میں صراحتاً
مذکور ہے وَاِنْ قِیْلَ لَکُمْ اِرْجِعُوْا فارجعُوْا ھُوَ اَزْکٰی لَکُمْ یعنی جب آپ سے کہہ دیا جائے کہ اس وقت ملاقات نہیں ہوسکتی تو برا ماننے کی ضرورت نہیں ہے خوش دلی سے لوٹ جانا چاہیے۔
مسئلہ : اگر استیذان کے باوجود اندر سے کوئی جواب نہیں آیا تو دوبارہ استیذان کرے اگر پھر بھی جواب نہ آئے تو تیسری مرتبہ استیذان کرے اگر اب بھی جواب نہ آئے تو اس صورت میں لوٹ جانا چاہیے اور سمجھ لینا چاہیے کہ کسی مجبوری کی وجہ سے اجازت دینا نہیں چاہتا، مسلسل دستک دیتے رہنا یا وہیں جمے رہنا موجب ایذا ہے اس سے بچنا واجب ہے ابن کثیر نے صحیح بخاری کے حوالہ سے حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اِذَا اسْتَاذَنَ اَحَدُکُمْ ثَلاثًا فَلَمْ یُؤذَنْ لَہٗ فَلْیَرْجِعُ یعنی جب تین مرتبہ اجازت طلب کرنے کے باوجود اگر اجازت نہ ملے تو لوٹآنا چاہیے، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت سعد بن عبادہ کے مکان پر تشریف لے گئے اور سنت کے مطابق استیذان کیلئے باہر سے سلام کیا، حضرت سعد (رض) نے جواب تو دیا مگر آہستہ کی حضور نہ سنیں آپ نے دوبارہ اور پھر سہ بارہ سلام کیا، حضرت سعد بن عبادہ سنتے اور آہستہ سے جواب دیتے، آپ تین مرتبہ استیذان کے بعد لوٹ گئے، جب حضرت نے دیکھا کہ اب آواز نہیں آرہی تو گھر سے نکل کر پیچھے دوڑے اور یہ عذر پیش کیا کہ یا رسول اللہ میں نے ہر مرتبہ آپ کی آواز سنی اور جواب بھی دیا مگر آہستہ دیا تاکہ آپ کی زبان مبارک سے میرے بارے میں زیادہ سے زیادہ سلام کے الفاظ نکلیں وہ میرے لئے موجب برکت ہوگا (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے عمل سے سنت طریقہ سکھایا) اس کے بعد حضرت سعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے گھر لے گئے اور کچھ ضیافت بھی کہ آپ نے اس کو قبول فرمایا۔
مسئلہ : بغیر استیذان کئے ہوئے اگر باہر کوئی شخص انتظار کرے کہ جب صاحب خانہ باہر نکلے گا تو اس وقت ملاقات کروں گا یہ اس میں داخل نہیں ہے یہ تو عین ادب ہے وَلَوْ اَنَّھُمْ صَبَرُوْا حَتّٰی تخرج اِلَیھم لکان خیراً لَّھُمْ لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تِدْخُلُوْا بُیُوتًا غَیْرَ مَسْکُوْنَۃٍ فِیْھَا مَتَاعٌ لَّکُمْ ۔
قولہ : متاعٌ متاع کے معنی لغت میں برتنے اور استفادہ کرنے کے ہیں، اور حق استعمال کو بھی کہتے ہیں، یہ وہ عوامی مقامات ہوتے ہیں جو کسی کے لئے مخصوص نہیں ہوتے بلکہ ہر شخص کو ان سے استفادہ کرنے کا حق ہوتا ہے جیسے مسافر خانے جو رفاہ عام کیلئے جاتے ہیں اور اشتراک علت کی وجہ سے مسجدیں، خانقاہیں، دینی مدارس، ہسپتال، ڈاکخانے، ریلوے اسٹیشن وغیرہ وغیرہ بھی بُیُوتًا غَیْرَ مَسْکُوْنَۃٍ فِیْھَا مَتَاعٌ لَّکُمْ میں داخل ہیں، ابن ابی حاتم نے مقاتل سے روایت کیا کہ جب یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لاَتَدْخُلُوْا (الآیہ) نازل ہوئی تو حضرت ابوبکر صدیق نے عرض کیا یا رسول اللہ اس ممانعت کے بعد قریش کے تجارت پیشہ لوگ کیا کریں گے ؟ کیونکہ مکہ اور مدینہ سے ملک شام تک ان کے تجارتی سفر ہوتے ہیں اور اس راستہ میں ان کے جا بجا مسافر خانے بنے ہوئے ہیں جن میں یہ لوگ دوران سفر قیام کرتے ہیں، ان میں کوئی مستقل رہنے والا نہیں ہوتا وہاں استیذان کی کیا صورت ہوگی، اجازت کس سے حاصل کی جائے گی، اس پر آیت مذکورہ نازل ہوئی۔ (رواہ ابن ابی حاتم، مظہری)
مسئلہ : رفاہ عام کے عمومی اداروں میں اگر منتظمین کی جانب سے داخلہ کی کچھ شرائط اور پابندیاں ہوں تو ان کی شرعاً پابندی واجب
ہوگی، یا عمومی اداروں میں کچھ کمروں کو مخصوص کرلیا گیا ہو وہ کمرے بیوت غیر مسکونۃٍ کے حکم میں نہ ہوں گے۔ (معارف)
استیذان سے متعلق چند اہم مسائل : جب یہ معلوم ہوگیا کہ استیذان کے احکام شرعیہ کا اصل مقصد لوگوں کو ایذا رسانی سے بچانا اور حسن معاشرت کے آداب سکھانا ہے تو اشتراک علت سے مسائل ذیل کا حکم بھی معلوم ہوگیا۔
ٹیلیفون سے متعلق بعض مسائل : کسی شخص کو ایسے وقت ٹیلیفون کرنا کہ عادۃً اس کے سونے یا دوسری ضروریات میں مشغول ہونے کا ہے بلا ضرورت شدید جائز نہیں، کیونکہ اس میں بھی وہی ایذا رسانی ہے جو گھر میں بغیر اجازت داخل ہونے اور اس کی آزادی میں خلل ڈالنے سے ہوتی ہے۔
مسئلہ : اگر کسی سے ٹیلیفون پر اکثر بات ہوتی رہتی ہو تو مناسب یہ ہے کہ اس سے پہلے دریافت کرلیا جائے کہ آپ کو ٹیلیفون پر بات کرنے میں کس وقت سہولت ہوتی ہے پھر اس کی پابندی کرے۔
مسئلہ : اگر ٹیلیفون پر طویل گفتگو کرنی ہو تو پہلے مخاطب سے دریافت کرلیا جائے کہ اگر آپ کو ذرا فرصت ہو تو میں اپنی بات عرض کروں، کیونکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ٹیلیفون کی گھنٹی آنے پر آدمی طبعًا مجبور ہوتا ہے کہ فوراً معلوم کرے کہ کون کیا کہنا چاہتا ہے اور اسی وجہ سے وہ کسی حال میں ہو یا کسی بھی ضروری کام میں مشغول ہو اس کو چھوڑ کر ٹیلیفون اٹھاتا ہے، اگر ایسے وقت میں کوئی لمبی بات شروع کر دے تو سخت تکلیف محسوس ہوتی ہے۔
مسئلہ : بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ٹیلیفون کی گھنٹی بجتی رہتی ہے مگر وہ کوئی پرواہ نہیں کرتے نہ پوچھتے ہیں کہ کون صاحب ہیں اور کیا کہنا چاہتے ہیں ؟ یہ اسلامی اخلاق کے خلاف اور بات کرنے والے کی حق تلفی ہے۔
مسئلہ : اگر آپ کسی کی ملاقات کیلئے کسی کے مکان پر جائیں اور اجازت کیلئے دروازہ پر کھڑے ہوں تو دروازہ یا کھڑکی سے اندر نہ جھانکیں اور دروازہ کے بالمقابل کھڑے نہ ہوں تاکہ دروازہ کھلنے پر آپ کی نظر کسی نامحرم پر نہ پڑے۔
قل للمؤمنین۔۔۔۔ ابصارھم یہ جواب امر ہے اور قُلْ کا مفعول مقدر ہے، تقدیر عبارت یہ ہے اِنْ تَقُلْ لَھُمٌ غَضُّوْا یَغُضُّوْا بدنظری عموماً زنا کی پہلی سیڑھی ہے اسی سے بڑے بڑے فواحش کا دروازہ کھلتا ہے، قرآن کریم نے بدکاری اور بےحیائی کا انسداد کرنے کیلئے اول اسی سوراخ کو بند کرنا چاہا ہے یعنی مسلمان مرد اور عورت کو حکم دیا کہ بدنظری سے بچیں، اور اپنی اپنی شہوات کو قابو میں رکھیں، اگر ایک مرتبہ بےساختہ مرد کو کسی اجنبی عورت پر یا عورت کی کسی اجنبی مرد پر نظر پٖڑ جائے تو دوبارہ ارادۃً اس کی طرف نظر نہ کرے کیونکہ یہ دوبارہ دیکھنا اس کے اختیار سے ہوگا، جس میں وہ معذور نہیں سمجھا جائے گا، اگر آدمی نگاہ نیچے رکھنے کی عادت ڈال لے اور اختیار و ارادہ سے ناجائز امور کی طرف نظر اٹھا کر نہ دیکھا کرے تو بہت جلد اس کے نفس کا تزکیہ ہوسکتا ہے، پہلی نظرچوں کی شہوت و نفسانیت سے نہیں ہوتی اس لئے حدیث شریف میں اس کو معاف رکھا گیا ہے شاید یہاں بھی مِنْ اَبْصَارِھِمْ میں من کو تبعیضیہ لے کر اسی کی طرف اشارہ ہو۔
وقل۔۔۔۔ ابصارھن، اس آیت کے ابتدائی حصہ میں تو وہی حکم ہے جو اس سے پہلی آیت میں مردوں کو دیا گیا ہے کہ اپنی نظرین پست رکھیں، مردوں کے اس حکم میں عورتیں بھی شامل تھیں مگر مسئلہ کی اہمیت اور نزاکت کے پیش نظر عورتوں کو مستقیل حکم دیا گیا ہے، بعض علماء نے کہا ہے کہ عورتوں کیلئے مطلقاً غیر محرم مرد کو دیکھنا حرام ہے خواہ شہوت اور بری نیت سے ہو یا بغیر شہوت کے اور اس پر ام سلمہ (رض) کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ جس میں نابینا صحابی رسول حضرت عبداللہ ابن ام مکتوم کے اچانک آنے کا واقعہ مذکور ہے، حضرت ام سلمہ اور حضرت میمونہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں کہ حضرت عبداللہ ابن ام مکتوم نابینا صاحبی تشریف لے آئے آپ نے دونوں ازواج سے فرمایا تم تو نابینا نہیں ہو۔ (رواہ ابو داؤد الترمذی)
بعض دیگر علماء نے فرمایا کہ بغیر شہوت کے غیر مرد کو دیکھنے میں عورت کیلئے کوئی مضائقہ نہیں ان کا استدلال حضرت عائشہ صدیقہ کی وہ حدیث ہے جس میں مذکور ہے کہ مسجد نبوی کے احاطہ میں کچھ حبشی نوجوان عید کے روز اپنا سپاہیانہ کھیل دکھا رہے تھے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اسکو دیکھنے لگے اور صدیقہ عائشہ (رض) نے بھی آپ کی آڑ میں کھڑے ہو کر ان کا کھیل دیکھا اور اس وقت تک دیکھتی رہیں جب تک خود ہی اس کھیل سے نہ اکتا گئیں، اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ نظر شہوت حرام ہے بغیر نظر شہوت خلاف اولیٰ ہے۔
ولا یبدین زینتھن اور عورتوں کو چاہیے کہ اپنی زیبائش کو ظاہر نہ کریں زیبائش خلقی ہو یا کسبی، خلقی زیبائش سے مراد جسم کی پیدائش ساخت ہے اور کسبی سے پوشاک اور ظاہری ٹیپ ٹاپ جیسے مسی، سرمہ، مہندی، پاؤڈر، لب اسٹک وغیرہ، مطلب یہ ہے کہ کسی کے سامنے کسی قسم کی زیبائش کا اظہار نہ کرے، بجز محارم کے جن کا ذکر آئندہ آیت میں آتا ہے، ہاں جس قدر زیبائش کا ظہور ناگزیر ہے اس کے کھلا رکھنے میں بدرجہ مجبوری کوئی مضائقہ نہیں، بشرطیکہ فتنہ کا خوف نہ ہو، احادیث و آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ چہرہ اور ہتھیلیاں اِلاَّ مَا ظَھَرَ میں داخل ہیں، اگر ان کو مطلقاً چھپانے کا حکم دیا جائے تو اس میں سخت قسم کی دشواری پیش آئے گی فقہاء نے علت مشترکہ کی وجہ سے قدموں کو بھی اسی حکم میں داخل کیا ہے، خلقی زیبائش میں سب سے زیادہ نمایاں چیز سینہ کا ابھار ہے اس کے ستر کی خاص طور پر تاکید فرمائی اور جاہلیت کی رسم کو منانے کی صورت بھی بتلا دی، جاہلیت میں عورتیں ہتی سر پر ڈال کر اس کے دونوں پلے پشت پر ڈال لیتی تھیں اس طرح سینہ کی ہیئت نمایاں رہتی تھی یہ گویا کہ حسن کا مظاہرہ تھا، قرآن کریم نے بتلا دیا کہ اوڑھنی کو سر سے لاکر گریبان پر ڈالنا چاہیے تاکہ اس طرح کان، گردن، اور سینہ پوری طرح مستور ہوجائیں، اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے وَلِیَضْرِبْنَ بِخُمُرِھِنَّ عَلیٰ جُیُوْبِھِنَّ سے بیان فرمایا ہے۔
ولا یبدین۔۔۔ لبعولتھن یہ دوسرا استثناء ان مردوں کا بیان کیا گیا ہے جن سے شرعاً پردہ نہیں، اس کے دو سبب ہیں اول تو جن مردوں کو مستثنیٰ کیا گیا ہے ان سے عام طور سے کسی فتنہ کا خوف نہیں یہ محارم ہیں جن کی طبائع کو حق تعالیٰ نے خلقۃً ایسا بنایا ہے کہ وہ ان عورتوں کی عصمت کے محافظ ہوتے ہیں، ان سے خود کسی فتنہ کا احتمال نہیں، دوسرے ہر وقت ایک جگہ رہنے سہنے کی ضرورت بھی سہولت پیدا کرنے کی متقاضی ہے، اس آیت میں آٹھ قسم کے محرم مردوں اور چار دوسرے قسم کے پر دو سے استثناء کیا گیا ہے، سورة احزاب میں جو نزول میں اس سے مقدم ہے اس میں صرف سات اقسام کا ذکر ہے پانچ کا اضافہ سورة نور میں کیا گیا ہے جو اس کے بعد نازل ہوئی ہے، اس مقام پر ماموں اور چچا کا ذکر نہیں کیا گیا مگر جمہور علماء کے نزدیک یہ بھی ان محارم میں داخل ہیں جن کے سامنے اظہار زینت کی اجازت دی گئی ہے۔
قولہ : اَوْ نِسَائِھِنَّ یہاں اپنی عورتوں سے مسلمان عورتیں مراد ہیں یہ بھی محرم کے حکم میں ہیں، امام رازی نے فرمایا کہ اصل بات یہ ہے کہ نِسَائِھِنَّ میں تو مسلم اور کافر سب عورتیں داخل ہیں اور سلف صالحین سے جو کافر عورتوں سے پردہ کرنے کی روایات منقول ہیں اور استحباب پر مبنی ہیں، روح المعانی میں مفتی بغداد علامہ آلوسی نے اسی کو اختیار فرمایا ہے، فرماتے ہیں ھٰذا القول اوفق بالناس الیوم فاِنَّہٗ لایکادُ یمکن احتجاب المسلمات عن الذمیات (روح المعانی) ۔ ترجمہ : یہی قول آج کل لوگوں کے مناسب حال ہے کیونکہ اس زمانہ میں مسلمان عورتوں کا کافر عورتوں سے پردہ تقریباً ناممکن سا ہوگیا ہے۔
او ما ملکت ایمانھن اور وہ جو ان عورتوں کے مملوک ہوں آیت کے الفاظ کے عموم میں تو غلام اور باندیاں سب داخل ہیں یعنی مالکن اپنا اتنا جسم کھول سکتی ہے جتنا دیگر محارم کے سامنے امام شافعی (رح) کا یہی مسلک ہے لیکن دیگر اکثر ائمہ فقہاء اس سے صرف لونڈیاں ہی مراد لیتے ہیں اور غلام کو اجنبی کے حکم میں رکھتے ہیں۔ (تفصیل کیلئے کتب فقہ کی طرف رجوع فرمائیں)
او التبعین۔۔۔ الاربۃ یعنی وہ خدمت گار مراد ہیں جو محض اپنے کام سے کام رکھیں اور کھانے سونے میں غرق ہوں، شوخی نہ رکھتے ہوں یا فاتر العقل پاگل جن کے حواس وغیرہ ٹھکانے نہ ہوں محض کھانے پینے کے چکر میں گھر والوں کے پیچھے لگ لیتے ہوں (فوائد عثمانی) حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا اس سے مراد وہ مغفل اور بدحواس قسم کے لوگ ہیں جن کو عورتوں کی طرف کوئی رغبت نہ ہو۔ (ابن کثیر)
او الطفل۔۔۔۔ یظھروا (الآیہ) یہ بارہ اقسام میں سے آخری قسم ہے، اس سے مراد وہ نابالغ بچے ہیں جو ابھی بلوغ کے قریب بھی نہیں پہنچے اور عورتوں کے مخصوص حالات وصفات سے بھی واقف نہیں ہیں، اور جو لڑکا ان امور سے دلچسپی رکھتا ہو وہ مراہق یعنی قریب البلوغ ہے اس سے پردہ واجب ہے، پردے سے مستثینات کا بیان ختم ہوا۔
ولا یضربن بارجلھن (الآیہ) اور اپنے پیر زمین پر زور سے نہ رکھیں جس سے زیور کی آواز نکلے اور ان کی مخفی زینت مردوں پر ظاہر ہو، شروع آیت میں عورتوں کو اپنی زینت مردوں پر ظاہر کرنے سے منع کیا گیا تھا آخر میں اس کی مزید تاکید ہے کہ مواضع زینت سر اور سینہ وغیرہ کا چھپانا تو واجب تھا ہی اپنی مخفی زینت کا اظہار خواہ کسی ذریعہ سے ہو وہ بھی جائز نہیں، زیور خواہ خود بجنے والا ہو کہ اس میں گھونگر و وغیرہ لگے ہوں یا آپس میں ٹکرا کر بجتا ہو یا زمین پر پیر زور سے رکھنے سے بجتا ہو اور غیر محرم مراد اس آواز کو سنیں یہ سب چیزیں اس آیت کی رو سے ناجائز ہیں۔
عورت کی آواز : کیا عورت کی آواز فی نفسہٖ ستر میں داخل ہے ؟ اور غیر محرم کو آواز سنانا جائز ہے ؟ اس مسئلہ میں ائمہ کا اختلاف ہے امام شافعی (رح) کی کتب میں عورت کی آواز کو ستر میں داخل نہیں کیا گیا ہے، حنفیہ کے بھی مختلف اقوال ہیں، ابن ہمام نے نوازل کی روایت کی بنا پر ستر میں داخل قرار دیا ہے اسی لئے حنفیہ کے نزدیک عورت کی آذان مکروہ ہے، لیکن حدیث سے ثابت ہے کہ ازواج مطہرات نزول حجاب کے بعد بھی پردے کے پیچھے سے غیر محارم سے بات کرتی تھیں، مجموعی طور پر یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جس موقع اور محل میں عورت کی آواز سے فتنہ پیدا ہونے کا خطرہ ہو وہاں ممنوع اور جہاں خطرہ نہ ہو جائز۔ (واللہ اعلم)
وتوبوا الی اللہ۔۔۔۔ المؤمنون بعض قرأتوں میں اَیُّہَ المّؤمِنُوْنَ الف کو ساقط کرکے فتحہ کے ساتھ ہے اور ابن عامر نے اَیُّہُ ہا کے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے، ہا کے ضمہ کو ماقبل کے تابع کرکے یعنی اے مومنو تم سب کے سب اللہ سے توبہ کرو اس آیت کے اول حصہ میں پہلے مردوں کو نظریں نیچی رکھنے کا حکم دیا گیا اس کے بعد عورتوں کو اسی کا حکم دیا گیا اب اس جملہ میں سب مردوں اور عورتوں کو شامل کرکے ہدایت دی گئی ہے کہ شہوت نفسانی کا مسئلہ بڑا دقیق ہے دوسروں کو اس پر اطلاع ہونا مشکل ہے مگر اللہ تعالیٰ پر ظاہر و پوشیدہ یکساں ہے، اسلئے اگر کسی سے احکام مذکورہ میں کسی وقت کوتاہی ہوگئی ہو تو اس پر لازم ہے کہ اس سے توبہ کرے اور اظہار ندامت کرے اور آئندہ نہ کرنے کا عزم مصمم کرے۔
وانکحوا۔۔۔ ایامی اَیِمْ کی جمع ہے بےنکاحے مراد اور بےنکاحی عورت کو کہتے ہیں، اَیَامٰی دراصل اَیَایِمْ جمع اَیِمْ تھا، اس لئے کہ فَیْعَلٌ کی جمع فَعَالیٰ کے وزن پر نہیں آتی، لہٰذا اس میں قلب کیا گیا میم کو مقدم کرکے تخفیفاً فتحہ دیدیا گیا اوری کے متحرک اور ماقبل مفتوح ہونے کی وجہ سے الف سے بدل دیا گیا، اَیَامٰی ہوگیا، کما ذَھَبَ الیہ زمخشری، ابن مالک نے کہا یہ جمع شاذ ہے اس میں قلب نہیں ہے۔ (روح المعانی)
اسلام ایک معتدل نطام ہے : اسلام میں ایک طرف ناجائز شہوت رانی سے روکا گیا ہے تو دوسری طرف اس کا جائز اور صحیح اور متبادل طریقہ بھی بتایا گیا ہے اس کے علاوہ بقاء نسلی کا عقلی اور شرعی تقاضا بھی یہی ہے کہ کچھ حدود کے اندر رہ کر مردو عورت کے اختلاط کی کوئی صورت تجویز کی جائے اسی کا نام قرآن و سنت کی اصطلاح میں نکاح ہے، اس آیت میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ جن کا نکاح نہیں ہوا یا بیوہ ہوگئیں یا بیوی مرگئی اور مرد بغیر بیوی کے رہ گیا تو مناسب موقع ملنے پر نکاح کردیا کرو، ایک حدیث میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے علی ! تین کاموں میں دیر نہ کرو، نماز فرض کا جب وقت آجائے، جنازہ جب موجود ہو، اور بیوہ عورت جب اس کا جوڑ مل جائے، جو قومیں بیواؤں کے نکاح پر ناک بھوئیں چڑھاتی ہیں یا جس معاشرہ میں بیواؤں کے نکاح کو معیوب سمجھا جاتا ہے ان کو سمجھ لینا چاہیے کہ ان کا ایمان سلامت نہیں۔ (فوائد عثمانی ملخصاً )
اپنے باندی اور غلام کو اگر اس لائق سمجھو کہ وہ حقوق زوجیت ادا کرسکیں گے اور نکاح ہوجانے پر مغرور ہو کر تمہاری خدمت نہ چھوڑ بیٹھیں گے تو ان کا بھی نکاح کردیا کرو، اور اس موہوم خطرہ سے کہ نکاح ہوجانے کے بعد بیوی بچوں کا بار کیسے اٹھے گا، ان کو نکاح سے مت روکو، روزی تو تمہاری اور بیوی بچوں کی اللہ کے ہاتھ میں ہے، کیا معلوم کہ خدا ان ہی کی قسمت سے تمہاری روزی میں کشادگی اور وسعت پیدا کر دے، اور جن لوگوں کو فی الحال اتنا مقدور نہیں کہ نکاح کا یا نان نفقہ کا خرچ برداشت کرسکیں تو جب تک خدا ان کو قدرت و سعت دے چاہیے کہ اپنے نفس کو قابو میں رکھیں کچھ بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس ضبط نفس اور عفت کی برکت سے ان کو غنی کر دے اور نکاح کا بہتر موقع مہیا ہوجائے، اگر کوئی شخص وسائل کی کمی کی وجہ سے نکاح کرنے پر قدرت نہ رکھتا ہو تو اس کو چاہیے کہ اسباب کی فراہمی کیلئے کوشش کرتا رہے اور فراہمی اسباب تک صبر اور ضبط نفس سے کام لے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسے شخص کیلئے فرمایا کہ مسلسل روزے رکھے اس سے غلبہ شہوت کو سکون ہوجاتا ہے، اس کے علاوہ خوش خورا کی ترک کر دے نیز مہیج شہوت غذا اور عقاقیر سے اجتناب کرے، مسند احمد میں روایت ہے کہ عکاف (رض) سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت فرمایا کہ کیا تمہاری بیوی ہے ؟ انہوں نے عرض کیا نہیں، پھر معلوم کیا شرعی باندی ہے ؟ عرض کیا نہیں، پھر آپ نے دریافت کیا، کیا تم صاحب وسعت ہو ؟ عرض کیا صاحب وسعت ہوں، اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” پھر تو تم شیطان کے بھائی ہو “ اور فرمایا ہماری سنت نکاح ہے، تم میں بدترین شخص وہ ہے جو بےنکاح ہو، اور تمہارے مردوں میں سب سے زیادہ رذیل وہ ہیں جو بےنکاح مرگئے (مظہری بحوالہ معارف) اس روایت کو جمہور علماء نے اس حالت پر محمول کیا ہے کہ نکاح نہ کرنے کی صورت میں گناہ کا خطرہ غالب ہو، غالباً حضرت عکاف کا حال آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معلوم ہوگا کہ وہ صبر نہیں کرسکیں گے۔
والصالحین۔۔۔ وامائکم یعنی اپنے غلام اور باندیوں میں جو صالح ہوں ان کے نکاح کرادیا کرو، اس جگہ صالحین کا لفظ زوجیت و نفقہ و مہر معجل ادا کرنے کے قابل ہوں اور اگر صالحین کے معروف معنی لئے جائیں جیسا کہ علامہ محلی نے الصالحین کی تفسیر المومنین سے کرکے یہی معنی لئے ہیں تو پھر ان کی تخصیص اس وجہ سے ہوگی کہ نکاح کا اصل مقصد حرام سے بچنا ہے اور وہ صالحین میں ہوسکتا ہے، دوسری وجہ یہ ہے کہ عبید و اماء اگر صالح ہوں گے تو ان کے مالکوں کو ان سے محبت ہوگی اور وہ ان کو اپنی اولاد کی جگہ سمجھ کر ان کی خیرخواہی کریں گے خیر خواہی میں ان کا نکاح بھی داخل ہے، قولہ : نکَاحًا ای ما ینکحوْنَ بہٖ الخ سے کرکے اشارہ کیا ہے کہ نکاح بمعنی آلۂ نکاح ہے جیسا کہ مفسر علام نے من مہر و نفقہ کا اضافہ کرکے صراحت بھی کردی ہے، اس لئے کہ نکاح بروزن فعالٌ یہ اسم آلہ کا وزن ہے، جیسے کہ اِزَارٌ۔
فکاتبوھم۔۔۔۔ خیرا یہ بھی غلاموں اور باندیوں کے ساتھ حسن سلوک کی ایک صورت ہے اس آیت میں آقاؤں کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ اگر باندی اور غلام مکاتبت کا معاملہ کرنا چاہیں تو ان کی اس خواہش کو پورا کردینا چاہیے اور آقاؤں کیلئے یہ افضل اور مستحب ہے، مکاتبت کی صورت یہ ہے کہ مملوک اپنے آقا سے کہے کہ آپ مجھ سے کچھ رقم مقرر کردیں یا میں آپ کو اتنی رقم کما کر ادا کر دوں، تو میں آزاد ہوجاؤں اور آقا اس کو قبول کرلے یا خود آقا اپنے غلام یا باندی سے کہے کہ اگر تو مجھے اتنی رقم کما کر لا کر دیدے تو تو آزاد ہے اور غلام اس کو قبول کرلے تو یہ معاملہ مکاتبت تام ہوگیا اب آقا کو اس کے فسخ کرنے کا اختیار نہیں ہے تاآنکہ غلام خود بدل کتابت ادا کرنے سے عاجز ہونے کا اقرار نہ کرلے، اگر غلام بدل کتابت ادا کرنے سے عاجز ہوجائے اور مولی سے معذرت کر دے تو وہ پھر غلام ہوجائیگا۔
ان علمتم فیھم خیرا خیر سے مراد اکثر حضرات ائمہ نے قوت کسب لی ہے یعنی جس شخص میں یہ دیکھو کہ اگر اس کو مکاتب بنادیا تو بدل کتابت ادا کرسکے گا اور صاحب ہدایہ نے خیر سے مراد یہ لیا ہے کہ اس کے آزاد ہونے کے بعد اس سے مسلمانوں کو کوئی خطرہ نہ ہو، دونوں چیزیں بھی مراد لی جاسکتی ہیں۔
وآتوھم۔۔۔ اتکم، یہ دولت مند مسلمانوں کو فرمایا کہ ایسے غلام اور باندی کی مدد کرو خواہ زکوٰۃ کے مال سے ہو یا صدقات و خیرات کے مال سے، مصارف زکوٰۃ میں جو ” وفی الرقاب “ کی ایک مد مذکور ہے وہ یہی ہے کہ مکاتبوں کی بدل کتابت ادا کرنے میں مدد کی جائے، خلفاء راشدین کے زمانہ میں بیت المال سے ایسے غلاموں کی مدد کی جاتی تھی، اور اگر مالک بدل کتابت کا کچھ حصہ کم کر دے تو یہ بھی بڑی امداد ہے۔
ولاتکرھوا فتیاتکم، یعنی باندیوں کو اس پر مجبور نہ کرو کہ وہ زنا کے ذریعہ تم کو مال کما کر تمہیں دیا کریں زمانہ جاہلیت میں بہت سے لوگ باندیوں کو اسی کام کیلئے استعمال کرتے تھے، اسلام نے جب زنا پر سخت سزائیں جاری کیں، آزاد اور غلام سب کو اس کا پابند کیا تو ضروری تھا کہ جاہلیت کی اس رسم کو مٹانے کیلئے خاص احکام دے۔
امام مسلم اور ابو داؤد نے حضرت جابر (رض) سے روایت کیا ہے کہ عبداللہ بن ابی کے پاس دو باندیاں تھیں، ایک کا نام مَسِیکۃ اور دوسری کا نام اُمَیْمَۃْ تھا وہ اس بدکاری کو ناپسند کرتی تھیں اور عبداللہ بن ابی کو زنا کے ذریعہ کسب پر مجبور کرتا تھا، تو ان دونوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شکایت کی تو مذکور آیت نازل ہوئی۔ کہا گیا ہے کہ اس لعین عبداللہ بن ابی کے پاس چھ باندیاں تھیں معاذہ، مسیکہ، امیمہ، عمرہ، ارویٰ ، قتیلہ، عبداللہ بن ابی ان کو زنا پر مجبور کرتا تھا اور ان کے اوپر مال کی کچھ مقدار لازم کردی تھی ان میں سے دونے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شکایت کی تو یہ آیت نازل ہوئی۔ (روح المعانی)
قولہ : اِنْ اَرَسْنَ تحصنًا اس کی تشریح تحقیق و ترکیب کے ذیر عنوان گزر چکی ہے وہاں دیکھ لیا جائے۔
فان اللہ۔۔۔۔ رحیم، اس کا مطلب یہ ہے کہ باندیوں کو زنا پر مجبور کرنا حرام ہے اگر کسی نے ایسا کیا اور وہ آقا کے جبرو اکراہ سے مجبور و مغلوب ہو کر زنا میں مبتلا ہوگئی تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ کو معاف فرما دیں گے اور اس کا پورا گناہ مجبور کرنے والے پر ہوگا۔ (مظہری) قولہ : آیٰتٍ بفتح الیاء وکسرھا ای واضحاتٍ او موضحاتٍ ۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ باری تعالیٰ اپنے بندوں سے فرماتا ہے کہ وہ اپنے گھر کے سوا دوسرے گھروں میں اجازت لیے بغیر داخل نہ ہوا کریں، کیونکہ اس میں متعدد مفاسد ہیں :
(1) جس کا ذکر کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :” اجازت طلبی نظر پڑنے سے بچاؤ ہی کے لیے مقرر کی گئی ہے۔‘‘ [صحیح البخاری، الاستئذان، من اجل البصر، ح:6241وصحیح مسلم، الآداب،باب تحریم النظر فی بیت غیرہ،ح:2156]
اجازت طلبی میں خلل واقع ہوجانے سے گھر کے اندر ستر پر نظر پڑتی ہے۔ کیونکہ گھر انسان کے لیے باہر کے لوگوں سے ستر اور پردہ ہے جیسے کپڑا جسم کو چھپاتا ہے۔
(2) اجازت طلب کئے بغیر گھر میں داخل ہونا، داخل ہونے والے کے بارے میں شک کا موجب ہے اور وہ برائی یعنی چوری وغیرہ سے متہم ہوتا ہے کیونکہ گھر میں خفیہ طور پر داخل ہونا شر پر دلالت کرتا ہے۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو اپنے گھروں کے سوا دوسروں کے گھروں میں داخل ہونے سے منع کردیا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اجازت طلب کرلیں۔ یہاں ( اِسْتئِذَان ) کو ( سْتِئنَاس ) اس لیے کہا گیا ہے کہ اس سے انس حاصل ہوتا ہے اور اس کے معدوم ہونے سے وحشت حاصل ہوتی ہے۔ ﴿ وَتُسَلِّمُوا عَلَىٰ أَهْلِهَا ﴾ ” اور گھر میں رہنے والوں کو سلام کرو“ حدیث شریف میں اس کا یہ طریقہ بیان ہوا ہے کہ کسی کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے کہو : ” السلام علیکم ! اور پھر پوچھو، کیا میں اندر آجاؤں؟“ ﴿ ذَٰلِكُمْ ﴾ ” یعنی یہ مذکورہ اجازت طلبی ﴿ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ﴾ ” تمہارے لیے بہتر ہے، تاکہ تم نصیحت پکڑو۔“ کیونکہ اجازت طلبی متعدد مصالح پر مشتمل ہے اور اس کا شمار ایسے مکارم اخلاق میں ہوتا ہے جن کو اپنا نا واجب ہے۔ پس اگر گھر میں داخل ہونے کی اجازت دے دی جائے تو اجازت طلب کرنے والے کو داخل ہونا چاہیے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aey emaan walo ! apney gharon kay siwa doosray gharon mein uss waqt tak dakhil naa ho jab tak ijazat naa ley lo , aur unn mein basney walon ko salam naa kerlo . yehi tareeqa tumharay liye behtar hai , umeed hai kay tum khayal rakho gay .