الفرقان آية ۱
تَبٰـرَكَ الَّذِىْ نَزَّلَ الْـفُرْقَانَ عَلٰى عَبْدِهٖ لِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرًا ۙ
طاہر القادری:
(وہ اللہ) بڑی برکت والا ہے جس نے (حق و باطل میں فرق اور) فیصلہ کرنے والا (قرآن) اپنے (محبوب و مقرّب) بندہ پر نازل فرمایا تاکہ وہ تمام جہانوں کے لئے ڈر سنانے والا ہو جائے،
English Sahih:
Blessed is He who sent down the Criterion upon His Servant that he may be to the worlds a warner –
1 Abul A'ala Maududi
نہایت متبرک ہے وہ جس نے یہ فرقان اپنے بندے پر نازل کیا تاکہ سارے جہان والوں کے لیے نذیر ہو
2 Ahmed Raza Khan
بڑی برکت والا ہے وہ کہ جس نے اتارا قرآن اپنے بندہ پر جو سارے جہان کو ڈر سنانے والا ہو
3 Ahmed Ali
وہ بڑی برکت والا ہے جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل کیا تاکہ تمام جہان کے لیےڈرانے والا ہو
4 Ahsanul Bayan
بہت بابرکت ہے وہ اللہ تعالٰی جس نے اپنے بندے پر فرقان (١) اتارا تاکہ وہ تمام لوگوں کے (٢) لئے آگاہ کرنے والا بن جائے۔
١۔١ فرقان کے معنی ہیں حق و باطل، توحید و شرک اور عدل و ظلم کے درمیان کا فرق کرنے والا، اس قرآن نے کھول کر ان امور کی وضاحت کر دی ہے، اس لئے اسے فرقان سے تعبیر کیا۔
١۔٢ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت عالم گیر ہے اور آپ تمام انسانوں اور جنوں کے لئے ہادی و رہنما بنا کر بھیجے گئے ہیں، جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا ( قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعاً) 7۔ الاعراف;158) (صحیح مسلم) ' پہلے نبی کسی ایک قوم کی طرف مبعوث ہوتا تھا اور میں تمام لوگوں کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں ' رسالت و نبوت کے بعد، توحید کا بیان کیا جا رہا ہے۔ یہاں اللہ کی چار صفات بیان کی گئی ہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
وہ (خدائے غزوجل) بہت ہی بابرکت ہے جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل فرمایا تاکہ اہل حال کو ہدایت کرے
6 Muhammad Junagarhi
بہت بابرکت ہے وه اللہ تعالیٰ جس نے اپنے بندے پر فرقان اتارا تاکہ وه تمام لوگوں کے لئے آگاه کرنے واﻻ بن جائے
7 Muhammad Hussain Najafi
بابرکت ہے وہ خدا جس نے اپنے (خاص) بندہ پر فرقان نازل کیا ہے تاکہ وہ تمام جہانوں کیلئے ڈرانے والا بن جائے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
بابرکت ہے وہ خدا جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل کیا ہے تاکہ وہ سارے عالمین کے لئے عذاب الٰہی سے ڈرانے والا بن جائے
9 Tafsir Jalalayn
وہ (خدائے عزوجل) بہت ہی بابرکت ہے جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل فرمایا تاکہ اہل عالم کو ہدایت کرے
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آیت نمبر 1 تا 9
ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان اور نہایت رحم والا ہے، برکت والی برتر ہے وہ ذات جس نے فرقان یعنی قرآن اپنے بندے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا قرآن کو فرقان اس لئے کہا گیا ہے کہ اس نے حق و باطل کے درمیان فرق کردیا، تاکہ عالم والوں یعنی انسانوں اور جنوں کے لئے نہ کہ فرشتوں کے لئے ڈرانے والا ہو یعنی اللہ کے عذاب سے ڈرانے والا ہو ایسی ذات کہ اس کے لئے آسمانوں اور زمین کی حکومت حاصل ہے اور اس نے کسی کو اولاد قرار نہیں دیا اور نہ ملک میں اس کا کوئی شریک ہے اور اس نے ہر اس شئ کو پیدا کیا جس کی شان مخلوق ہونا ہے پھر اس کو اچھی طرح درست کیا اور کفار نے اللہ کو چھوڑ کر اس کے غیر کو معبود بنا لیا وہ بت ہیں وہ کسی چیز کے خالق نہیں بلکہ وہ خود مخلوق ہیں اور وہ خود اپنے لئے نہ کسی نقصان یعنی اس کو دفع کرنے کا اختیار رکھتے ہیں اور نہ کسی نفع کا یعنی اس کو حاصل کرنے کا اور نہ کسی کے مرنے کا اختیار رکھتے ہیں اور نہ جینے کا یعنی نہ کسی کو مارنے کا اور نہ کسی کو زندہ کرنے کا اور دوبارہ زندہ کرنے کا یعنی نہ مردوں کو زندہ کرنے کا اور کافر لوگ قرآن کے بارے میں یوں کہتے ہیں یہ قرآن کچھ بھی نہیں نرا جھوٹ ہے جس کو اس شخص محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گھڑ لیا ہے اور دوسرے لوگوں نے اس گھڑنے میں اس کی مدد کی ہے اور وہ اہل کتاب میں سے بعض لوگ ہیں سو یہ لوگ بڑے ظالم اور جھوٹ کے مرتکب ہوئے کفر اور کذب کے، یعنی دونوں کا ارتکاب کیا اور یہ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ قرآن پہلے لوگوں کے خرافاتی قصے ہیں یعنی جھوٹ کا پلندہ ہے (اَسَاطیر) اُسْطُوْرَۃٌ بالضم کی جمع ہے ان خرافاتی قصوں کو اس قوم (یہود) سے کسی دوسرے کے ذریعہ نقل کرا لیتے ہیں پھر وہی خرافاتی قصے اس کو صبح و شام پڑھ کر سنائے جاتے ہیں تاکہ ان کو محفوظ کرلے، ان پر رد کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا آپ کہہ دیجئے اس (قرآن) کو تو اس ذات پاک نے نازل کیا ہے جس کو آسمانوں اور زمین کی مغیبات کا علم ہے واقعی اللہ تعالیٰ مومنین کے لئے غفور ان کے لئے رحیم ہے اور یہ کافر لوگ یوں کہتے ہیں کہ اس رسول کو کیا ہوا کہ وہ کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے اس کے پاس کوئی فرشتہ کیوں نہیں بھیجا گیا ؟ وہ اس کے ساتھ رہ کر (لوگوں) کو ڈراتا اس کی نبوت کی تصدیق کرتا یا آسمان سے اس کے پاس کوئی خزانہ آپڑتا جس سے اس کو فائدہ ہوتا اور طلب معاش کے لئے بازاروں میں (مارا مارا) نہ پھرتا یا اس کے پاس کوئی باغ ہوتا کہ اس سے یعنی اس کے پھلوں کو کھاتا اور اس پر اکتفا کرتا، اور ایک قرأۃ میں (یَاْکُلُ ) کے بجائے نَاکُلُ نون کے ساتھ ہے یعنی ہم کھاتے، جس کی وجہ سے ہم پر اس کو ایک قسم کی فوقیت حاصل ہوتی اور یہ ظالم کافر مومنین سے یوں کہتے ہیں کہ تم لوگ ایک سحر زدہ فریب خوردہ مغلوب العقل شخص کے پیچھے چل رہے ہو اللہ تعالیٰ نے فرمایا دیکھو تو سہی یہ لوگ آپ کے لئے کیسی عجیب عجیب باتیں کرتے ہیں سحر زدہ ہونے کی، خرچہ کا محتاج ہونے کی اور فرشتہ کا محتاج ہونے کی تاکہ اس کے ساتھ ذمہ داری میں شریک ہو، اسی (ضرب الامثال کی وجہ سے) راہ ہدایت سے گمراہ ہوگئے کسی طرح راہ حق پر نہیں آسکتے۔
تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد
سورة فرقان مکی ہے مگر تین آیتیں (یہ سورة ) ہجرت سے پہلے نازل ہوئی تھی تمام سورتوں کے نام اور ان کی ترتیب اور آیات کی ترتیب توقیفی ہے البتہ آیات کی تعداد توقیفی نہیں ہے، یہ سورة توحید اور احوال معاد کے مضامین پر مشتمل ہے (جمل) ۔
قولہ : الیٰ رحیماً یہ کل تین آیتیں ہیں۔ قولہ : تاعلیٰ یہ تَبَارَکَ کی تفسیر ہے یعنی اللہ اپنی ذات وصفات اور افعال میں اپنے ماسوا سے برتر ہے تَبَارَکَ (تفاعل) کی ماضی ہے اس کا مصارع اسم فاعل اور مصدر مستعمل نہیں ہے اور نہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کسی کے لئے مستعمل ہے، برکت کے معنی نمو اور زیادتی کے ہیں خواہ حساً ہو یا معنیً (جمل) ۔
قولہ : لأنَّہٗ فَرَّقَ بین الحق والباطل یہ قرآن کو فرقان کہنے کی علت ہے قرآن نے چونکہ حق و باطل کے درمیان فرق کردیا ہے اس لئے اس کا نام فرقان رکھا گیا ہے، بعض حضرات نے کہا ہے کہ فرقان اس لئے کہا جاتا ہے کہ قرآن متفرق طور پر 23 سال کی مدت میں نازل ہوا ہے اسی وجہ سے قرآن کے بارے میں نَزَّلَ کہا گیا ہے جو کہ تکثیر تفریق پر دلالت کرتا ہے (جمل) ۔
قولہ : لِیَکونَ یہ نزول کی علت ہے اس کے اندر جو ضمیر ہے وہ عبدٌ کی طرف راجع ہے اس لئے کہ وہ قریب ہے، فرقان کی طرف بھی راجع ہوسکتی ہے اور منزل یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف بھی راجع ہوسکتی ہے۔ قولہ : للعلمین، نَذِیرًا کے متعلق ہے فواصل کی رعایت کی وجہ سے مقدم کردیا گیا۔ قولہ : مِن شانہٖ اَنْ یُّخلَقَ اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ذات باری تعالیٰ کو مخلوق ہونے سے خارج کرنا ہے اس لئے کہ ذات باری تعالیٰ شئ ہے اس لئے کہ اگر شئ نہ مانا جائے تو لاشئ ماننا ہوگا ورنہ تو ارتفاع نقیضین لازم آئے گا لہٰذا شئ ماننا ضروری ہے جب ذات باری تعالیٰ کا شئ ہونا ثابت ہوگیا تو خَلَقَ کل شئ میں داخل ہوگیا اور جب خَلَقَ کل شئ میں داخل ہوگیا تو ذات باری کا مخلوق ہونا ثابت ہوگیا اور یہ محال ہے، اسی اعتراض کو دفع کرنے کے لئے مفسر علام نے مِن شانہٖ اَنْ یُخْلَقَ کا اضافہ فرمایا ہے۔
جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ تخلیق کہتے ہیں عدم سے وجود میں لانے کو اور عدم سے وجود میں وہ شئ آسکتی ہے جو معدوم ہو اور اللہ تعالیٰ کی شان معدوم ہونا نہیں ہے، اس لئے کہ ذات باری پر کبھی بھی عدم طاری نہیں ہوا، لہٰذا ذات باری مخلوق ہونے سے خارج ہوگئی۔ قولہ : سَوَّاہ تَسْوِیَۃً اس عبارت کے اضافہ کا مقصد بھی ایک اعتراض کا دفعیہ ہے، اعتراض یہ ہے کہ وخَلُقَ کُلَّ شئ فقدَّرَہٗ تقدیراً میں قلب ہے اس لئے کہ اصل میں وَقَدَّرَہٗ فَخَلَقَ کُلَّ شئ ہونا چاہیے، اس لئے کہ تقدیر ازلی ہے اور تخلیق حادث ہے، اس لئے کہ تقدیر کے معنی مقدر کرنا اندازہ کرنا، پلاننگ کرنا اور خلق کے معنی بنانا، ظاہر ہے کہ تقدیر اور پلاننگ پہلے ہوتی ہے اور اس کے مطابق بعد میں تخلیق ہوتی ہے جیسے کہ مکان کا نقشہ پہلے بنتا ہے مکان بعد میں بنتا ہے، نہ یہ کہ مکان پہلے بنتا ہے اور نقشہ بعد میں، تو معلوم ہوا آیت میں رعایت فواصل کے لئے قلب ہوا ہے۔
جواب : جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ آیت میں قلب نہیں ہے بلکہ قَدَّرَہٗ تقدیرًا سَوَّاہٗ تَسْوِیَۃً کے معنی میں ہے اور تَسْوِیَّۃَ کہتے ہیں کسی شئ
کے بنانے کے بعد درست کرنا کمی اور کجی کو دور کرنا، مضبوط کرنا، یعنی نوک پلک درست کرنا، اور یہ تخلیق کے بعد ہوتا ہے، لہٰذا اب کوئی اعتراض نہیں۔
قولہ : بِھمَا اس سے اشارہ ہے کہ ظلماً وزوراً بنزع الخافض منصوب ہے، تقدیر عبارت اس طرح تھی جَاؤُا بظلمٍ وزُوْرٍ حرف جار کو حذف کردیا جس کی وجہ سے منصوب ہوگیا، شارح (رح) نے اسی کو اختیار کیا ہے اور بعض حضرات کے نزدیک جاءَ واَتٰی متعدی بنفسہٖ بھی ہیں، اس صورت میں ظلماً وزوراً مفعول بہ ہونے کی وجہ سے منصوب ہوں گے۔
قولہ : ھُوَ اسَاطِیْرُ الَاوَّلِیْنَ اساطیر الاولین ھو مبتداء محذوف کی خبر ہے جیسا کہ شارح نے اختیار کیا ہے اور اِکْتَتَبَھَا محل میں حال کے ہے، اور یہ بھی صحیح ہے کہ اَسَاطِیْرُ الاَوَلین مبتدا ہو اور اِکْتَتَبَھَا اس کی خبر، قولہ : مَال ھٰذا الرَّسول لِھٰذا کے لام کو الگ لکھا گیا ہے جو کہ عام عربی رسم الخط کے خلاف ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کا رسم الخط مصحف عثمانی کے مطابق ہے لہٰذا اس میں تغیر نہیں کیا جاتا۔ قولہ : فَیَکُوْنَ یہ چونکہ لولا بمعنی ھَلاَّ (جس کا حکم استفہام کا ہے) کا جواب ہے اس لئے منصوب ہے وَقَالَ الظّٰلِمُوْنَ اسم ضمیر کی جگہ اسم ظاہر کو ان کی صفت ظلم کو اجاگر کرنے کے لئے لایا گیا ہے ورنہ تو وَقَالُوْا کہنا بھی کافی ہوتا۔
تفسیر و تشریح
فرقان کے معنی ہیں فیصلہ کن، فرقان قرآن کریم ہی کا لقب ہے، قرآن کریم حق و باطل میں فیصلہ کرنے والی آخری کتاب ہے، اور تمام جہاں کی ہدایت و اصلاح کی کفیل ہے اور ان کو خیر کثیر اور غیر منقطع برکت عطا کرنے کا سامان بہم پہنچانے والی ہے۔ قولہ : علیٰ عبدہٖ یہاں آپ کا نام لینے کے بجائے عبدہٖ فرمایا چونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی صفت عبدیت میں کامل و اکمل تھے اس لئے گویا کہ عبداللہ آپ کا لقب ہی ہوگیا، قرآن کریم سارے جہاں کو کفر و عصیان کے انجام بد سے آگاہ کرنے والا ہے، چونکہ اس صورت میں مکذبین و معاندین کا ذکر بکثرت ہوا ہے شاید اسی لئے یہاں صفت نذیر کو بیان فرمایا، بشیر کا ذکر نہیں کیا۔
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت : قرآن کریم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کو عالمین کے لئے فرمایا ہے، یہ بات تو متفق علیہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت انبیاء سابقین کے برخلاف سارے جہان کے لئے ہے انبیاء سابقین کی بعثت علاقائی یا قومی تھی مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت علاقائی یا قومی نہیں ہے بلکہ عالمگیر ہے، اور آپ تمام جنوں اور انسانوں کے لئے ہادی اور رہنما بنا کر بھیجے گئے ہیں، قرآن کریم میں سورة اعراف میں فرمایا گیا قُل یٰاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّی رسُوْلُ اللہِ الیکُمْ جَمِیْعًا اور حدیث میں بھی فرمایا بُعِثتُ الی الاحمر والاسود (صحیح مسلم کتاب المساجد) مجھے احمر و اسود سب کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہے۔
آپ کی بعثت ملائکہ کی طرف : اس میں تو کوئی اختلاف نہیں کہ آپ کی بعثت جن و انس کے لئے ہے اختلاف اس بات میں ہے کہ آپ کی بعثت ملائکہ کی طرف ہے یا نہیں، اکثر مفسرین کی رائے یہ ہے کہ آپ کی بعثت ملائکہ کی طرف نہیں ہے علامہ جلال الدین محلی کی بھی یہی رائے ہے جیسا کہ تفسیر سے ظاہر ہے، حلبی اور بیہقی نے بھی یہی فرمایا ہے، امام رازی نے اسی آیت کی تفسیر میں اسی رائے پر اجماع نقل کیا ہے، البتہ امام سبکی نے کہا ہے کہ عالم ما سوی اللہ کو کہتے ہیں جس میں جن و انس و ملائکہ سب داخل ہیں لہٰذا عالمین کا لفظ ملائکہ کو بھی شامل ہوگا، ملائکہ کو خارج کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ قولہ : ولَمْ یتخذہٗ ولدًا سے یہود و نصاریٰ پر رد ہے اور وَلَمْ یکُنْ لَہٗ شَرِیْکٌ فِی المُلْکِ سے مشرک اور بت پرستوں پر رد ہے فَقَدَّرَہٗ تقدیراً ہر شی کو ایک خاص اندازہ میں رکھا کہ اس سے وہی خواص و افعال ظاہر ہوتے ہیں جن کے لئے پیدا کی گئی ہے، اپنے دائرہ سے باہر قدم نہیں نکال سکتی اور نہ اپنی حدود میں عمل و تصرف کرنے سے قاصر رہتی ہے وَاتَّخذُوْا مِنْ دُوْنِہِ آلِھَۃً کس قدر ظلم اور تعجب و حیرت کا مقام ہے کہ ایسے قادر مطلق مالک الکل، حکیم علی الاطلاق کی زبردست ہستی کو کافی نہ سمجھ کر دوسرے معبود اور حاکم تجویز کر لئے گئے، حالانکہ ان بیچاروں کا خود اپنا وجود بھی اپنے گھر کا نہیں وہ ایک ذرہ کے پیدا کرنے کا بھی اختیار نہیں رکھتے، اور نہ مارنا جلانا ان کے قبضہ میں ہے اور نہ اپنے مستقل اختیار سے کسی کو ادنیٰ نفع و نقصان پہنچا سکتے ہیں، ایسی عاجز اور مجبور ہستیوں کو خدا کا شریک ٹھہرانا کس قدر سفاہت اور بےحیائی ہے۔
ربط : یہ تو قرآن نازل کرنے والے کی صفات کا ذکر تھا اور اس کے متعلق مشرکین جو بےتمیزیاں کر رہے تھے ان کی تردید تھی، آگے خود قرآن اور حامل قرآن کی نسبت سفیہانہ نکتہ چینیوں کا جواب ہے، وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِنْ ھٰذَا اِلاَّ اِفْکً اِفْتَرَاہٗ الآیۃ۔ مطلب یہ ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ کہنا کہ یہ خدا کا نازل کردہ کلام ہے اور میں اس کا نبی ہوں سب کہنے کی باتیں ہیں، حقیقت یہ ہے کہ محمد نے چند یہودیوں کی مدد سے ایک کلام تیار کرلیا ہے اور اس کو خدا کی طرف منسوب کردیا ہے اور کچھ لوگ اس کے ساتھ لگ گئے ہیں جنہوں نے اس کی تشہیر شروع کردی ہے اس قول کا قائل نضر بن حارث تھا، مشرکین کے اس قول کو رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس سے بڑھ کر اور ظلم و جھوٹ کیا ہوگا کہ ایسے کلام معجز کو کہ جس کی عظمت و صداقت آفتاب سے زیادہ روشن ہے کذب و افتراء کہا جائے، کیا چند یہودی غلاموں کی مدد سے ایسا کلام بنایا جاسکتا ہے جس کے مقابلہ سے تمام دنیا کے فصیح وبلیغ، عالم و حکیم بلکہ جن و انس ہمیشہ کے لئے عاجز ہوجائیں۔
مشرکین کا یہ بھی کہنا تھا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل کتاب سے کچھ خرافاقی قصہ سن کر نوٹ کرا لئے ہیں وہی باتیں ان کے سامنے شب و روز پڑھی اور رٹی جاتی ہیں، نئے نئے اسلوب سے ان ہی کی الٹ پھیر کرتے رہتے ہیں اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے قل انزلہ الذی یَعْلَمُ السرّ الآیۃ یعنی آپ فرما دیجئے کہ یہ کتاب کسی ایک انسان یا کمیٹی کی بنائی ہوئی نہیں، بلکہ اس خدا کی اتاری ہوئی کتاب ہے جس کے احاطہ علمی سے زمین و آسمان کی کوئی چیز باہر نہیں ہوسکتی۔ (فوائد عثمانی)
سابقہ آیات میں مشرکین کا وہ کلام ذکر کیا گیا ہے جو وہ قرآن کے بارے میں کہا کرتے تھے اور اب وَقَالُوْا مَالِ ھٰذَا الرَّسول سے ان خرافات کا بیان ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں کہا کرتے تھے مشرکین کا یہ طعن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بشریت پر ہے کیونکہ ان کے خیال میں بشریت عظمت رسالت کی متحمل نہیں تھی اسلئے انہوں نے کہا یہ کیسا رسول ہے یہ تو کھاتا پیتا ہے اور بازاروں میں گھومتا پھرتا ہے اور ہمارے ہی جیسا بشر ہے یعنی ہم پر بھی اس کو کوئی فضیلت و فوقیت حاصل نہیں ہے مطلب یہ کہ نہ ملک ہے اور نہ ملِک، تو یہ رسول کیسے ہوسکتا ہے ؟
لَولا اُنْزِلَ اِلَیْہِ مَلَکٌ یعنی فرشتوں کی فوج نہ ہی کم از کم ایک فرشتہ ان کی نبوت کی شہادت دینے کے لئے ساتھ رہتا جسے دیکھ کر خواہ مخواہ لوگوں کو جھکنا پڑتا، یہ کیا کہ کس مپرسی کی حالت میں اکیلے ہی دعوائے نبوت کرتے پھر رہے ہیں، یا اگر فرشتہ بھی ہمرای نہ ہو تو کم از کم آسمان سے سونے چاندی کا کوئی غیبی خزانہ مل جاتا کہ لوگوں پر بےدریغ خرچ کرکے ہی اپنی طرف کھینچ لیا کرتے، اور خیر یہ بھی نہ سہی معمولی رئیسوں اور زمینداروں کی طرف انگوروں اور کھجوروں وغیرہ کا ایک باغ تو ان کی ملک میں ہوتا، دوسروں کو نہ دیتے مگر کم از کم خود تو بےفکری سے کھایا پیا کرتے جب اتنا بھی نہیں تو کس طرح یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ نے رسالت کے عہدہ جلیلہ کے لئے معاذ اللہ ایسی معمولی شخصیت کو منتخب کیا ہے ؟
قَالَ الظّٰلِمُوْنَ مطلب یہ ہے کہ میاں کی یہ یوزیشن اور حیثیت ؟ اور اتنے اونچے دعوے ؟ بجز اس کے اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ عقل کھوئی گئی ہے، یا کسی نے جادو کے زور سے عقل مختل کردی ہے جو ایسی بہکی بہکی باتیں کرتے ہیں۔ (العیاذ باللہ) (فوائد عثمانی)
اُنْظُرْ کَیْفَ ضَرَبُوْا لَکَ الَامْثَالَ یعنی کبھی کہتے ہیں کہ یہ خدا پر افتراء ہے، کبھی کہتے ہیں کہ دوسروں سے پڑھ سیکھ کر لوگوں کو سناتے ہیں، اور کبھی آپ کو سحر زدہ کہتے ہیں اور کبھی ساحر اور کبھی کاہن تو کبھی شاعر تو کبھی مجنون، یہ اضطراب خود بتلا رہا ہے کہ ان میں سے کوئی بات آپ پر منطبق نہیں اور یہ محض الزام ہی الزام ہے، لہٰذا جو لوگ نبی کی شان میں گستاخیاں کرکے گمراہ ہوگئے ہیں ان کے راہ راست پر آنے کی کوئی توقع نہیں۔
10 Tafsir as-Saadi
یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی عظمت کاملہ، ہر لحاظ سے واحدانیت میں اس کے متفرد ہونے، اس کی بھلائی اور احسان کی کثرت کا بیان ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿ تَبَارَكَ ﴾ یعنی وہ بہت بڑا ہے اس کے تمام اوصاف نہایت کامل اور اس کے احسانات بہت زیادہ ہیں۔ اس کا سب سے بڑا احسان اور سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ اس نے یہ عظیم قرآن نازل فرمایا جو حلال و حرام، ہدایت و ضلالت، اہل سعادت اور اہل شقاوت کے درمیان فرق بیان کرتا ہے۔ ﴿ عَلَىٰ عَبْدِهِ ﴾ یہ فرقان عظیم اس نے اپنے بندے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل فرمایا جنہوں نے تمام مراتب عبودیت مکمل کرلیے اور اللہ نے ان کو تمام انبیاء و مرسلین پر فوقیت عطا کی۔ ﴿ لِيَكُونَ ﴾ ’’تاکہ وہ ہوجائے۔‘‘ یعنی اپنے بندے پر اس فرقان کا نازل کرنا۔ ﴿ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا ﴾ ’’جہانوں کے لیے ڈرانے والا۔‘‘ جو ان کو اللہ تعالیٰ کے عذاب اور غصے سے ڈراتا ہے اور ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی ناراضگی کے مقامات کو واضح کرتا ہے۔ جو کوئی اس کے انداز کو قبول کر کے اس پر عمل پیرا ہوتا ہے وہ دنیا و آخرت میں نجات پانے والوں میں شمار ہوتا ہے، جنہیں ابدی سعادت اور سرمدی بادشاہی حاصل ہوتی ہے۔ پس کیا اللہ تعالیٰ کی اس نعمت اور اس کے اس فضل و احسان سے بڑھ کر بھی کوئی اور چیز ہے؟ پس نہایت ہی بابرکت ہے وہ ذات، جس کے احسانات و برکات میں قرآن بھی شامل ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
bari shaan hai uss zaat ki jiss ney apney banday per haq o batil ka faisla ker-denay wali yeh kitab nazil ki , takay woh duniya jahan kay logon ko khabrdar kerday .
12 Tafsir Ibn Kathir
اللہ تعالیٰ ابن رحمت کا بیان فرماتا ہے تاکہ لوگوں پر اس کی بزرگی عیاں ہوجائے کہ اس نے اس پاک کلام کو اپنے بندے حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل فرمایا ہے۔ سورة کہف کے شروع میں بھی اپنی حمد اسی انداز سے بیان کی ہے یہاں اپنی ذات کا بابرکت ہونا بیان فرمایا اور یہی وصف بیان کیا۔ یہاں لفظ نزل فرمایا جس سے باربار بکثرت اترنا ثابت ہوتا ہے۔ جیسے فرمان ہے آیت (وَالْكِتٰبِ الَّذِيْ نَزَّلَ عَلٰي رَسُوْلِهٖ\013\06 ) 4 ۔ النسآء :136) پس پہلی کتابوں کو لفظ انزل سے اور اس آخر کتاب کو لفظ نزل سے تعبیر فرمانا ہے اسی لئے ہے کہ پہلی کتابیں ایک ساتھ اترتی رہیں اور قرآن کریم تھوڑا تھوڑا کر کے حسب ضرورت اترتا رہا کبھی کچھ آیتیں، کبھی کچھ سورتیں کبھی کچھ احکام۔ اس میں ایک بڑی حکمت یہ بھی تھی کہ لوگوں کو اس پر عمل کرنا مشکل نہ ہو اور خوب یاد ہوجائے اور مان لینے کے لئے دل کھل جائے۔ جیسے کہ اسی سورت میں فرمایا ہے کہ کافروں کا ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ قرآن کریم اس نبی پر ایک ساتھ کیوں نہ اترا ؟ جواب دیا گیا ہے کہ اس طرح اس لئے اترا کہ اس کے ساتھ تیری دل جمعی رہے اور ہم نے ٹھہرا ٹھہرا کر نازل فرمایا۔ یہ جو بھی بات بنائیں گے ہم اس کا صحیح اور جچا تلا جواب دیں جو خوب مفصل ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں اس آیت میں اس کا نام فرقان رکھا۔ اس لئے کہ یہ حق وباطل میں ہدایت و گمراہی میں فرق کرنے والا ہے اس سے بھلائی برائی میں حلال حرام میں تمیز ہوتی ہے۔ قرآن کریم کی یہ پاک صفت بیان فرما کر جس پر قرآن اترا ان کی ایک پاک صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ خاص اس کی عبادت میں لگے رہنے والے ہیں اس کے مخلص بندے ہیں۔ یہ وصف سب سے اعلیٰ وصف ہے اسی لئے بڑی بڑی نعمتوں کے بیان کے موقعہ پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہی وصف بیان فرمایا گیا ہے۔ جیسے معراج کے موقعہ پر فرمایا آیت ( سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِيْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِيَهٗ مِنْ اٰيٰتِنَا ۭ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ ) 17 ۔ الإسراء :1) اور جیسے اپنی خاص عبادت نماز کے موقعہ پر فرمایا آیت ( وَّاَنَّهٗ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللّٰهِ يَدْعُوْهُ كَادُوْا يَكُوْنُوْنَ عَلَيْهِ لِبَدًا 19ۉ) 72 ۔ الجن :19) اور جب بندہ اللہ یعنی حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عبادت کرنے کھڑے ہوتے ہیں یہی وصف قرآن کریم کے اترنے اور آپ کے پاس بزرگ فرشتے کے آنے کے اکرام کے بیان کرنے کے موقعہ پر بیان فرمایا۔ پھر ارشاد ہوا کہ اس پاک کتاب کا آپ کی طرف اترنا اس لئے ہے کہ آپ تمام جہان کے لئے آگاہ کرنے والے بن جائیں، ایسی کتاب جو سراسر حکمت و ہدایت والی ہے جو مفصل مبین اور محکم ہے جس کے آس پاس بھی باطل پھٹک نہیں سکتا جو حکیم وحمید اللہ کی طرف سے اتاری ہوئی ہے۔ آپ اس کی تبلیغ دنیا بھر میں کردیں ہر سرخ وسفید کو ہر دور و نزدیک والے کو اللہ کے عذابوں سے ڈرادیں، جو بھی آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر ہے اس کی طرف آپ کی رسالت ہے۔ جیسے کہ خودحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے میں تمام سرخ وسفید انسانوں کی طرف بھیجا گیا ہوں اور فرمان ہے مجھے پانچ باتیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئی تھیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ ہر نبی اپنی اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا رہا لیکن میں تمام دنیا کی طرف بھیجا گیا ہوں۔ خود قرآن میں ہے آیت ( قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَۨا الَّذِيْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ يُـحْيٖ وَيُمِيْتُ\015\08 ) 7 ۔ الاعراف :158) اے نبی اعلان کردو کہ اے دنیا کے لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا پیغمبر ہوں۔ پھر فرمایا کہ مجھے رسول بنا کر بھیجنے والا مجھ پر یہ پاک کتاب اتارنے والا وہ اللہ ہے جو آسمان و زمین کا تنہا مالک ہے جو جس کام کو کرنا چاہے اسے کہہ دیتا ہے کہ ہوجاوہ اسی وقت ہوجاتا ہے۔ وہی مارتا اور جلاتا ہے اس کی کوئی اولاد نہیں نہ اس کا کوئی شریک ہے ہر چیز اس کی مخلوق اور اس کی زیر پرورش ہے۔ سب کا خالق، مالک، رازق، معبود اور رب وہی ہے۔ ہر چیز کا اندازہ مقرر کرنے والا اور تدبیر کرنے والا وہی ہے۔