Skip to main content

وَهُوَ الَّذِىْۤ اَرْسَلَ الرِّيٰحَ بُشْرًۢا بَيْنَ يَدَىْ رَحْمَتِهٖۚ وَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاۤءِ مَاۤءً طَهُوْرًا ۙ

And He
وَهُوَ
اور وہ اللہ
(is) the One Who
ٱلَّذِىٓ
وہ ذات ہے
sends
أَرْسَلَ
جس نے بھیجا
the winds
ٱلرِّيَٰحَ
ہواؤں کو
(as) glad tidings
بُشْرًۢا
خوش خبری کے طور پر
before before
بَيْنَ يَدَىْ
آگے آگے
His Mercy
رَحْمَتِهِۦۚ
اپنی رحمت کے
and We send down
وَأَنزَلْنَا
اور نازل کیا ہم نے
from
مِنَ
سے
the sky
ٱلسَّمَآءِ
آسمان (سے)
water
مَآءً
پاک
pure
طَهُورًا
پانی

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

اور وہی ہے جو اپنی رحمت کے آگے آگے ہواؤں کو بشارت بنا کر بھیجتا ہے پھر آسمان سے پاک پانی نازل کرتا ہے

English Sahih:

And it is He who sends the winds as good tidings before His mercy [i.e., rainfall], and We send down from the sky pure water.

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

اور وہی ہے جو اپنی رحمت کے آگے آگے ہواؤں کو بشارت بنا کر بھیجتا ہے پھر آسمان سے پاک پانی نازل کرتا ہے

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

اور وہی ہے جس نے ہوائیں بھیجیں اپنی رحمت کے آگے مژدہ سنائی ہوئی اور ہم نے آسمان سے پانی اتارا پاک کرنے والا،

احمد علی Ahmed Ali

اوروہی تو ہے جو اپنی رحمت سے پہلے خوشخبری لانے والی ہوائیں چلاتا ہے اور ہم نے آسمان سے پاک پانی نازل فرمایا

أحسن البيان Ahsanul Bayan

اور وہی ہے جو باران رحمت سے پہلے خوشخبری دینے والی ہواؤں کو بھیجتا ہے اور ہم آسمان سے پاک پانی برساتے ہیں (١)

٤٨۔١ طَھُور فعول کے وزن پر آلے کے معنی میں ہے۔ یعنی ایسی چیزیں جس سے پاکیزگی حاصل کی جاتی ہے جیسے وضو کے پانی کو وضو اور ایندھن کو وقود کہا جاتا ہے اس معنی میں پانی طاہر خود بھی پاک اور مطہر دوسروں کو پاک کرنے والا بھی ہے حدیث میں بھی ہے ان الماء طہور لا ینجسہ شیء ابو داؤد۔ ذائقہ بدل جا‏ئے تو ایسا پانی ناپاک ہے کما فی الحدیث

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

اور وہی تو ہے جو اپنی رحمت کے مینھہ کے آگے ہواؤں کو خوش خبری بنا کر بھیجتا ہے۔ اور ہم آسمان سے پاک (اور نتھرا ہوا) پانی برساتے ہیں

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

اور وہی ہے جو باران رحمت سے پہلے خوش خبری دینے والی ہواؤں کو بھیجتا ہے اور ہم آسمان سے پاک پانی برساتے ہیں

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

اور وہ وہی ہے جو ہواؤں کو اپنی رحمت (بارش) سے پہلے خوشخبری بنا کر بھیجتا ہے۔ اور ہم آسمان سے پاک اور پاک کرنے والا پانی برساتے ہیں تاکہ اس کے ذریعہ کسی مردہ شہر (غیر آباد) کو زندہ کریں اور اپنی مخلوق میں سے بہت سے جانوروں اور انسانوں کو پلائیں۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

اور وہی وہ ہے جس نے ہواؤں کو رحمت کی بشارت کے لئے رواں کردیا ہے اور ہم نے آسمان سے پاک و پاکیزہ پانی برسایا ہے

طاہر القادری Tahir ul Qadri

اور وہی ہے جو اپنی رحمت (کی بارش) سے پہلے ہواؤں کو خوشخبری بنا کر بھیجتا ہے، اور ہم ہی آسمان سے پاک (صاف کرنے والا) پانی اتارتے ہیں،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

بارش سے پہلے بارش کی خوشخبری
اللہ تعالیٰ اپنی ایک اور قدرت کا بیان فرما رہا ہے کہ وہ بارش سے پہلے بارش کی خوشخبری دینے والی ہوائیں چلاتا ہے۔ ان ہواؤں میں رب نے بہت سے خواص رکھے ہیں۔ بعض بادلوں کو پراگندہ کردیتی ہیں، بعض انہیں اٹھاتی ہیں، بعض انہیں لے چلتی ہیں بعض خنک اور بھیگی ہوئی چل کر لوگوں کو باران رحمت کی طرف متوجہ کردیتی ہیں بعض اس سے پہلے زمین کو تیار کردیتی ہیں بعض بادلوں کو پانی سے بھردیتی ہیں اور انہیں بوجھل کردیتی ہیں۔ آسمان سے ہم پاک صاف پانی برساتے ہیں کہ وہ پاکیزگی کا آلہ بنے۔ یہاں طہور ایسا ہی ہے جیسا سحور اور وجور وغیرہ بعض نے کہا ہے کہ یہ فعول معنی میں فاعل کے ہے یا مبالغہ کے لئے مبنی ہے یا متعدی کے لئے۔ یہ سب اول لغت اور حکم کے اعتبار سے مشکل ہیں۔ پوری تفصیل کے لائق یہ مقام نہیں واللہ اعلم۔ حضرت ثابت بنانی (رح) کا بیان ہے کہ میں حضرت ابو العالیہ (رح) کے ساتھ بارش کے زمانہ میں نکلا۔ بصرے کے راستے اس وقت بڑے گندے ہو رہے تھے، آپ نے ایسے راستہ پر نماز ادا کی۔ میں نے آپ کی توجہ دلائی تو آپ نے فرمایا اسے آسمان کے پاک پانی نے پاک کردیا۔ اللہ فرماتا ہے کہ ہم آسمان سے پاک پانی برساتے ہیں۔ حضرت سعید بن میسب رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ نے اسے پاک اتارا ہے اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی۔ حضرت ابو سعید خدری (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا گیا کہ بیر بضاعہ سے وضو کرلیں ؟ یہ ایک کنواں ہے جس میں گندگی اور کتوں کے گوشت پھینکے جاتے ہیں آپ نے فرمایا پانی پاک ہے اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی۔ امام شافعی اور امام احمد نے اسے وارد کی ہے۔ امام ابو داؤد اور امام ترمذی نے اسے صحیح کہا ہے۔ نسائی میں بھی یہ روایت ہے۔ عبد الملک بن مروان کے دربار میں ایک مرتبہ پانی کا ذکر چھڑا تو خالد بن یزید نے کہا بعض پانی آسمان کے ہوتے ہیں بعض پانی وہ ہوتے ہیں جسے بادل سمندر سے پیتا ہے اور اسے گرج کڑک اور بجلی میٹھا کردیتی ہے لیکن اس سے زمین میں پیداوار نہیں ہوتی ہاں آسمانی پانی سے پیداوار اگتی ہے۔ عکرمہ رحمۃ اللہ فرماتے ہیں آسمان کے پانی کے ہر قطرہ سے چارہ گھاس وغیرہ پیدا ہوتا ہے یا سمندر میں لولو اور موتی پیدا ہوتے ہیں یعنی ' فی البر بر و فی البحر در ' زمین میں گیہوں اور سمندر میں موتی۔ پھر فرمایا کہ اسی سے ہم غیر آباد بنجر خشک زمین کو زندہ کردیتے ہیں وہ لہلہانے لگتی ہے اور تروتازہ ہوجاتی ہے جیسے فرمان ہے آیت (فَاِذَآ اَنْزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَاۗءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ 39؀) 41 ۔ فصلت ;39) علاہ مردہ زمین کے زندہ ہوجانے کے یہ پانی حیوانوں اور انسانوں کے پینے میں آتا ہے ان کے کھیتوں اور باغات کو پلایا جاتا ہے۔ جیسے فرمان ہے کہ وہ اللہ وہی ہے جو لوگوں کی کامل ناامیدی کے بعد ان پر بارشیں برساتا ہے۔ اور آیت میں ہے کہ اللہ کے آثار رحمت کو دیکھو کہ کس طرح مردہ زمین کو زندہ کردیتا ہے۔
پھر فرماتا ہے ساتھ ہی میری قدرت کا ایک نظارہ یہ بھی دیکھو کہ ابر اٹھتا ہے گرجتا ہے لیکن جہاں میں چاہتا ہوں برستا ہے اس میں بھی حکمت وحجت ہے۔ ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ کوئی سال کسی سال کم وبیش بارش کا نہیں لیکن اللہ جہاں چاہے برسائے جہاں سے چاہے پھیرے۔ پس چاہئے تھا کہ ان نشانات کو دیکھ کر اللہ کی ان زبردست حکمتوں کو اور قدرتوں کو سامنے رکھ کر اس بات کو بھی مان لیتے کہ بیشک ہم دوبارہ زندہ کئے جائیں گے اور یہ بھی جان لیتے کہ بارشیں ہمارے گناہوں کی شامت سے بند کردی جاتی ہیں تو ہم گناہ چھوڑ دیں لیکن ان لوگوں نے ایسا نہ کیا بلکہ ہماری نعمتوں پر اور ناشکری کی۔ ایک مرسل حدیث ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) سے کہا کہ بادل کی نسبت کچھ پوچھنا چاہتا ہوں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا بادلوں پر جو فرشتہ مقرر ہے وہ یہ ہے آپ ان سے جو چاہیں دریافت فرمالیں اس نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس تو اللہ کا حکم آتا ہے کہ فلاں فلاں شہر میں اتنے اتنے قطرے برساؤ ہم تعمیل ارشاد کرتے ہیں۔ بارش جیسی نعمت کے وقت اکثر لوگوں کے کفر کا طریقہ یہ بھی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم فلاں فلاں ستارے کی وجہ سے یہ بارش برسائے گئے۔ چناچہ صحیح حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ بارش برس چکنے کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لوگو ! جانتے ہو تمہارے رب نے کیا فرمایا ؟ انہوں نے کہا اللہ اور اس کو رسول خوب جاننے والا ہے۔ آپ نے فرمایا سنو ! میرے بندوں میں سے بہت سے میرے ساتھ مومن ہوگئے اور بہت سے کافر ہوگئے جنہوں نے کہا کہ صرف اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے یہ بارش ہم پر برسی ہے وہ تو میرے ساتھ ایمان رکھنے والے اور ستاروں سے کفر کرنے والے ہوئے اور جنہوں نے کہا کہ فلاں فلاں تارے کے اثر سے پانی برسایا گیا انہوں نے میرے ساتھ کفر کیا اور تاروں پر ایمان لائے۔