وَالَّذِيْنَ لَا يَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَۙ وَ اِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
(اور رحمٰن کے بندے وہ ہیں) جو جھوٹ کے گواہ نہیں بنتے اور کسی لغو چیز پر ان کا گزر ہو جائے تو شریف آدمیوں کی طرح گزر جاتے ہیں
English Sahih:
And [they are] those who do not testify to falsehood, and when they pass near ill speech, they pass by with dignity.
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
(اور رحمٰن کے بندے وہ ہیں) جو جھوٹ کے گواہ نہیں بنتے اور کسی لغو چیز پر ان کا گزر ہو جائے تو شریف آدمیوں کی طرح گزر جاتے ہیں
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
اور جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب بیہودہ پر گذرتے ہیں اپنی عزت سنبھالے گزر جاتے ہیں،
احمد علی Ahmed Ali
اور جو بے ہودہ باتوں میں شامل نہیں ہوتے اور جب بیہودہ باتوں کے پاس سے گزریں تو شریفانہ طور سے گزرتے ہیں
أحسن البيان Ahsanul Bayan
اور جو لوگ جھوٹی گواہی نہیں دیتے (١) اور جب کسی لغو چیز پر ان کا گزر ہوتا ہے تو شرافت سے گزر جاتے ہیں (۲)
٧٢۔١ زور کے معنی جھوٹ کے ہیں۔ ہر باطل چیز بھی جھوٹ ہے، اس لئے جھوٹی گواہی سے لے کر کفر و شرک اور ہر طرح کی غلط چیزیں مثلاً، گانا اور دیگر بےہودہ جاہلانہ رسوم و افعال، سب اس میں شامل ہیں اور اللہ کے نیک بندوں کی یہ صفت بھی ہے کہ وہ کسی بھی جھوٹ میں اور جھوٹی مجلس میں حاضر نہیں ہوتے۔
٧٢۔٢ لَغْو ہر وہ بات اور کام ہے، جس میں شرعاً کوئی فائدہ نہیں۔ یعنی ایسے کاموں اور باتوں میں بھی شرکت نہیں کرتے بلکہ خاموشی کے ساتھ عزت اور وقار سے گزر جاتے ہیں۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
اور وہ جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب ان کو بیہودہ چیزوں کے پاس سے گزرنے کا اتفاق ہو تو بزرگانہ انداز سے گزرتے ہیں
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
اور جو لوگ جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب کسی لغو چیز پر ان کا گزر ہوتا ہے تو شرافت سے گزر جاتے ہیں
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
اور جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے (یا جو زُور یعنی غنا کی جگہ پر حاضر نہیں ہوتے) اور جو جب کسی بیہودہ کام کے پاس سے گزرتے ہیں تو شریفانہ انداز میں گزر جاتے ہیں۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور وہ لوگ جھوٹ اور فریب کے پاس حاضر بھی نہیں ہوتے ہیں اور جب لغو کاموں کے قریب سے گزرتے ہیں تو بزرگانہ انداز سے گزرجاتے ہیں
طاہر القادری Tahir ul Qadri
اور (یہ) وہ لوگ ہیں جو کذب اور باطل کاموں میں (قولاً اور عملاً دونوں صورتوں میں) حاضر نہیں ہوتے اور جب بے ہودہ کاموں کے پاس سے گزرتے ہیں تو (دامن بچاتے ہوئے) نہایت وقار اور متانت کے ساتھ گزر جاتے ہیں،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
عباد الرحمن کے اوصاف
عباد الرحمن کے اور نیک اوصاف بیان ہو رہے ہیں کہ وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے یعنی شرک نہیں کرتے، بت پرستی سے بچتے ہیں، جھوٹ نہیں بولتے فسق و فجور نہیں کرتے کفر سے الگ رہتے ہیں لغو اور باطل کاموں سے پرہیز کرتے ہیں گانا نہیں سنتے مشرکوں کی عیدیں نہیں مناتے خیانت نہیں کرتے بری مجلسوں میں نشست نہیں رکھتے شرابیں نہیں پیتے شراب خانوں میں نہیں جاتے اس کی رغبت نہیں کرتے حدیث میں بھی ہے کہ سچے مومن کو چاہئے کہ اس دسترخوان پر نہ بیٹھے جس پر دور شراب چل رہا ہو اور یہ بھی مطلب ہے کہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔ بخاری ومسلم میں ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا میں تمہیں سب سے بڑا گناہ بتادوں ؟ تین دفعہ یہی فرمایا صحابہ (رض) نے کہا ہاں یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ نے فرمایا اللہ کے ساتھ شرک کرنا ماں باپ کی نافرمانی کرنا اس وقت تک آپ تکیہ لگائے بیٹھے ہوئے تھے اب اس سے الگ ہو کر فرمانے لگے سنو اور جھوٹی بات کہنا سنو اور جھوٹی گواہی دینا اسے باربار فرماتے رہے یہاں تک کہ ہم اپنے دل میں کہنے لگے کاش رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اب خاموش ہوجاتے۔ زیادہ ظاہر لفظوں سے تو یہ ہے کہ وہ جھوٹ کے پاس نہیں جاتے۔ اللہ کے ان بزرگ بندوں کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ قرآن کی آیتیں سن کر ان کے دل ہل جاتے ہیں ان کے ایمان اور توکل بڑھ جاتے ہیں بخلاف کفار کے کہ ان پر کلام الٰہی کا اثر نہیں ہوتا وہ اپنی بد اعمالیوں سے باز نہیں رہتے۔ نہ اپنا کفر چھوڑتے ہیں نہ سرکشی، طغیانی اور جہالت و ضلالت سے باز آتے ہیں ایمان والوں کے ایمان بڑھ جاتے ہیں اور بیمار دل والوں کی گندگی ابھر آتی ہے پس کافر اللہ کی آیتوں سے بہرے اور اندھے ہوجاتے ہیں۔ ان مومنوں کی حالت ان کے برعکس ہے نہ یہ حق سے بہرے ہیں نہ حق سے اندھے ہیں۔ سنتے ہیں سمجھتے ہیں نفع حاصل کرتے ہیں اپنی اصلاح کرتے ہیں۔ ایسے بہت سے لوگ ہیں جو پڑھتے تو ہیں لیکن اندھا پن بہرا پن نہیں چھوڑتے۔ حضرت شعبی (رح) سے سوال ہوا کہ ایک شخص آتا ہے اور دوسروں کو سجدے میں پاتا ہے لیکن اسے نہیں معلوم کہ کس آیت کو پڑھ کر سجدہ کیا ہے ؟ تو کیا وہ بھی ان کیساتھ سجدہ کرلے ؟ تو آپ نے یہی آیت پڑھی یعنی سجدہ نہ کرے اس لیے کہ اس نے نہ سجدے کی آیت پڑھی نہ سنی نہ سوچی تو مومن کا کوئی کام اندھا دھند نہ کرنا چاہئے جب تک اسکے سامنے کسی چیز کی حقیقت نہ ہو اسے شامل نہ ہونا چائیے۔ پھر ان بزرگ بندوں کی ایک دعا بیان ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے طلب کرتے ہیں کہ ان کی اولادیں بھی ان کی طرح رب کی فرمانبردار عبادت گزار موحد اور غیر مشرک ہوں تاکہ دنیا میں بھی اس نیک اولاد سے ان کا دل ٹھنڈا رہے اور آخرت میں بھی یہ انہیں اچھی حالت میں دیکھ کر خوش ہوں۔ اس دعا سے ان کی غرض خوبصورتی اور جمال نہیں بلکہ نیکی اور خوش خلقی کی ہے۔ مسلمان کی سچی خوشی اسی میں ہے کہ وہ اپنے اہل و عیال کو دوست احباب کو اللہ کا فرماں بردار دیکھے۔ وہ ظالم نہ ہو بدکار نہ ہو۔ سچے مسلمان ہوں۔ حضرت مقداد (رض) کو دیکھ کر ایک صاحب فرمانے لگے ان کی آنکھوں کو مبارک باد ہو جنہوں نے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زیارت کی ہے۔ کاش کہ ہم بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھتے اور تمہاری طرح فیض صحبت حاصل کرتے۔ اس پر حضرت مقداد (رض) ناراض ہوئے تو نفیر کہتے ہیں مجھے تعجب معلوم ہوا کہ اس بات میں کوئی برائی نہیں پھر یہ خفا کیوں ہو رہے ہیں ؟ اتنے میں حضرت مقداد (رض) نے فرمایا کہ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ اس چیز کی آرزو کرتے ہیں کہ جو قدرت نے انہیں نہیں دی۔ اللہ ہی کو علم ہے کہ یہ اگر اس وقت ہوتے تو ان کا کیا حال ہوتا ؟ واللہ وہ لوگ بھی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں تھے جنہوں نے نہ آپ کی تصدیق نہ تابعداری کی اور اوندھے منہ جہنم میں گئے۔ تم اللہ کا یہ احسان نہیں مانتے کہ اللہ نے تمہیں اسلام میں اور مسلمان گھروں میں پیدا کیا۔ پیدا ہوتے ہی تمہارے کانوں میں اللہ کی توحید اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پڑی اور ان بلاؤں سے تم بچالئے گئے جو تم سے اگلے لوگوں پر آئی تھیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو ایسے زمانے میں مبعوث ہوئے تھے جس وقت دنیا کی اندھیر نگری اپنی انتہا پر تھی۔ اس وقت دنیا والوں کے نزدیک بت پرستی سے بہتر کوئی مذہب نہ تھا۔ آپ فرقان لے کر آئے حق وباطل میں تمیز کی۔ باپ بیٹے جدا ہوگئے۔ مسلمان اپنے باپ دادوں بیٹوں پوتوں دوست احباب کو کفر پر دیکھتے ان سے انہیں کوئی محبت پیار نہیں ہوتا تھا بلکہ کڑہتے تھے کہ یہ جہنمی ہیں اسی لئے ان کی دعائیں ہوتی تھیں۔ اس دعا کا آخر یہ ہے کہ ہمیں لوگوں کا رہبر بنا دے کہ ہم انہیں نیکی کی تعلیم دیں، لوگ بھلائی میں ہماری اقتدا کریں۔ ہماری اولاد ہماری راہ چلے تاکہ ثواب بڑھ جائے اور ان کی نیکیوں کا باعث بھی ہم بن جائیں۔ رسول کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم فرماتے ہیں کہ انسان کے مرتے ہی اس کے اعمال ختم ہوجاتے ہیں مگر تین چیزیں۔ نیک اولاد جو اس کے لئے دعا کرے یا علم جس سے اس کے بعد نفع اٹھایا جائے یا صدقہ جاریہ۔