Skip to main content

وَاَوْحَيْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰۤى اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِىْۤ اِنَّكُمْ مُّتَّبَعُوْنَ

And We inspired
وَأَوْحَيْنَآ
اور وحی کی ہم نے
to
إِلَىٰ
طرف
Musa
مُوسَىٰٓ
موسیٰ کی
[that]
أَنْ
یہ کہ
"Travel by night
أَسْرِ
راتوں رات لے چل
with My slaves
بِعِبَادِىٓ
میرے بندوں کو
indeed you
إِنَّكُم
بیشک تم
(will be) followed"
مُّتَّبَعُونَ
پیچھا کیے جانے والے ہو

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

ہم نے موسیٰؑ کو وحی بھیجی کہ "راتوں رات میرے بندوں کو لے کر نکل جاؤ، تمہارا پیچھا کیا جائے گا"

English Sahih:

And We inspired to Moses, "Travel by night with My servants; indeed, you will be pursued."

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

ہم نے موسیٰؑ کو وحی بھیجی کہ "راتوں رات میرے بندوں کو لے کر نکل جاؤ، تمہارا پیچھا کیا جائے گا"

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

اور ہم نے موسٰی کو وحی بھیجی کہ راتوں را ت میرے بندو ں کو لے نکل بیشک تمھارا پیچھا ہو نا ہے، ف۵۵)

احمد علی Ahmed Ali

اور ہم نے موسی ٰکو حکم بھیجا کہ میرے بندوں کو رات کو لے نکل البتہ تمہارا پیچھا کیا جائے گا

أحسن البيان Ahsanul Bayan

اور ہم نے موسیٰ کو وحی کی کہ راتوں رات میرے بندوں کو نکال لے چل تم سب پیچھا کئے جاؤ گے (١)

٥٢۔١ جب مصر میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قیام لمبا ہو گیا اور ہر طرح سے انہوں نے فرعون اور اس کے درباریوں پر حجت قائم کر دی۔ لیکن اس کے باوجود وہ ایمان لانے پر تیار نہیں ہوئے، تو اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ گیا تھا کہ انہیں عذاب سے دوچار کر کے سامان عبرت بنا دیا جائے۔ چنانچہ اللہ تعالٰی نے موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ راتوں رات بنی اسرائیل کو لے کر یہاں سے نکل جائیں، اور فرمایا کہ فرعون تمہارے پیچھے آئے گا، گھبرانا نہیں۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

اور ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ ہمارے بندوں کو رات کو لے نکلو کہ (فرعونیوں کی طرف سے) تمہارا تعاقب کیا جائے گا

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

اور ہم نے موسیٰ کو وحی کی کہ راتوں رات میرے بندوں کو نکال لے چل تم سب پیچھا کیے جاؤ گے

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

اور ہم نے موسیٰ کو وحی کی کہ راتوں رات میرے بندوں کو لے کر نکل جاؤ کیونکہ تمہارا پیچھا کیا جائے گا۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

اور ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی کہ میرے بندوں کو لے کر راتوں رات نکل جاؤ کہ تمہارا پیچھا کیا جانے والا ہے

طاہر القادری Tahir ul Qadri

اور ہم نے موسٰی (علیہ السلام) کی طرف وحی بھیجی کہ تم میرے بندوں کو راتوں رات (یہاں سے) لے جاؤ بیشک تمہارا تعاقب کیا جائے گا،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

فرعونیوں کا انجام
موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی نبوت کا بہت سارا زمانہ ان میں گزارا۔ اللہ کی آیتیں ان پر واضح کردیں لیکن ان کا سر نیچا نہ ہوا ان کا تکبر نہ ٹوٹا ان کی بد دماغی میں کوئی فرق نہ آیا۔ تو اب سوا اس کے کے کوئی چیز باقی نہ رہی کہ ان پر عذاب الہٰی آجائے اور یہ غارت ہوں۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کی وحی آئی کہ راتوں رات بنی اسرائیلیوں کو لے کر میرے حکم کے مطابق چل دو ۔ بنو اسرائیل نے اس موقع پر قبطیوں سے بہت سے زیور بطور عاریت کے لئے اور چاند چڑھنے کے وقت چپ چاپ چل دئیے۔ مجاہد رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ اس رات چاند گہن تھا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے راستے میں دریافت فرمایا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی قبر کہاں ہے ؟ بنو اسرائیل کی ایک بڑھیا نے قبر بتلادی۔ آپ نے تابوت یوسف اپنے ساتھ اٹھالیا۔ کہا گیا کہ خود آپ نے ہی اسے اٹھایا تھا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی وصیت تھی کہ بنی اسرائیل جب یہاں سے جانے لگیں تو آپ کا تابوت اپنے ہمراہ لیتے جائیں۔ ابن ابی حاتم کی ایک حدیث میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی اعرابی کے ہاں مہمان ہوئے اس نے آپ کی بڑی خاطر تواضع کی واپسی میں آپ نے فرمایا کبھی ہم سے مدینے میں بھی مل لینا کچھ دنوں بعد اعرابی آپ کے پاس آیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کچھ چاہئے ؟ اس نے کہاں ہاں ایک تو اونٹنی دیجئے مع ہودج کے اور ایک بکری دیئجے جو دودھ دیتی ہو آپ نے فرمایا افسوس تو نے بنی اسرائیل کی بڑھیا جیسا سوال نہ کیا۔ صحابہ (رض) نے پوچھا۔ وہ واقعہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا جب حضرت کلیم اللہ بنی اسرائیل کو لے کر چلے تو راستہ بھول گئے ہزار کوشش کی لیکن راہ نہیں ملتی۔ آپ نے لوگوں کو جمع کرکے پوچھایہ کیا اندھیر ہے ؟ تو علمائے بنی اسرائیل نے کہا بات یہ ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے آخری وقت ہم سے عہد لیا تھا کہ جب ہم مصر سے چلیں تو آپ کے تابوت کو بھی یہاں سے اپنے ساتھ لیتے جائیں۔ حضرت موسیٰ کلیم اللہ نے دریافت فرمایا کہ تم میں سے کون جانتا ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کی تربت کہاں ہے ؟ سب نے انکار کردیا ہم نہیں جانتے ہم میں سوائے ایک بڑھیا کے اور کوئی بھی آپ کی قبر سے واقف نہیں آپ نے اس بڑھیا کے پاس آدمی بھیج کر اس سے کہلوایا کہ مجھے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی قبر دکھا۔ بڑھیا نے کہا ہاں دکھاؤں گی لیکن پہلے اپنے حق لے لوں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا تو کیا چاہتی ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ جنت میں آپ کا ساتھ مجھے میسر ہو۔ آپ پر اس کا یہ سوال بھاری پڑا اسی وقت وحی آئی کہ اس کی بات مان لو اور اسکی شرط منظور کرلو اب وہ آپ کو ایک جھیل کے پاس لے گئی جس کے پانی کا رنگ بھی متغیر ہوگیا تھا کہا کہ اس کا پانی نکال ڈالو جب پانی نکال ڈالا اور زمین نظر آنے لگی تو کہا اب یہاں کھودو۔ کھودنا شروع ہوا تو قبر ظاہر ہوگئی اسے ساتھ رکھ لیا اب جو چلنے لگے تو راستہ صاف نظر آنے لگا اور سیدھی راہ لگ گئے۔ لیکن یہ حدیث بہت ہی غریب ہے بلکہ زیادہ قریب تو یہ ہے کہ یہ موقوف ہے یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان نہیں۔ واللہ اعلم۔ یہ لوگ تو اپنے راستے لگ گئے ادھر فرعون اور فرعونیوں کی صبح کے وقت جو آنکھ کھلتی ہے تو چوکیدار غلام وغیرہ کوئی نہیں۔ سخت پیچ وتاب کھانے لگے اور مارے غصے کے سرخ ہوگئے جب یہ معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل رات کو سب کے سب فرار ہوگئے ہیں تو اور بھی سناٹا چھا گیا۔ اسی وقت اپنے لشکر جمع کرنے لگا۔ سب کو جمع کرکے ان سے کہنے لگا۔ کہ یہ بنی اسرائیل کا ایک چھوٹا سا گروہ ہے محض ذلیل کمین اور قلیل لوگ ہیں ہر وقت ان سے ہمیں کوفت ہوتی رہتی ہے تکلیف پہنچتی رہتی ہے۔ اور پھر ہر وقت ہمیں ان کی طرف سے دغدغہ ہی لگا رہتا ہے یہ معنی حاذرون کی قرأت پر ہیں سلف کی ایک جماعت نے اسے حذرون بھی پڑھا ہے یعنی ہم ہتھیار بند ہیں میں ارادہ کرچکا ہوں کہ اب انہیں ان کی سرکشی کا مزہ چکھا دوں۔ ان سب کو ایک ساتھ گھیر گھار کر گاجر مولی کی طرح کاٹ ڈال دوں۔ اللہ کی شان یہی بات اسی پر لوٹ پڑی اور وہ مع اپنی قوم اور لاؤ لشکر کے یہ یک وقت ہلاک ہوا۔ لعنۃ اللہ علیہ وعلی من تبعہ۔ جناب باری کا ارشاد ہے کہ یہ لوگ اپنی طاقت اور اکثریت کے گھمنڈ پر بنی اسرائیل کے تعاقب میں انہیں نیست ونابود کرنے کے ارادے سے نکل کھڑے ہوئے اس بہانے ہم نے انہیں ان کے باغات چشموں نہروں خزانوں اور بارونق مکانوں سے خارج کیا اور جہنم واصل کیا۔ وہ اپنے بلند وبالا شوکت وشان والے محلات ہرے بھرے باغات جاری نہریں خزانے سلطنت ملک تخت وتاج جاہو مال سے چھوڑ کر بنی اسرائیل کے پیچھے مصر سے نکلے۔ اور ہم نے ان کی یہ تمام چیزیں بنی اسرائیل کو دلوادیں جو آج تک پست حال تھے ذلیل ونادار تھے۔ چونکہ ہمار ارادہ ہوچکا تھا کہ ہم ان کمزوروں کو ابھاریں اور ان گرے پڑے لوگوں کو برسر ترقی لائیں اور انہیں پیشوا اور وارث بنادیں اور ارادہ ہم نے پورا کیا۔