اور اسی سے میں امید رکھتا ہوں کہ روزِ قیامت وہ میری خطائیں معاف فرما دے گا،
English Sahih:
And who I aspire that He will forgive me my sin on the Day of Recompense."
1 Abul A'ala Maududi
اور جس سے میں امید رکھتا ہوں کہ روزِ جزا میں وہ میری خطا معاف فرما دے گا"
2 Ahmed Raza Khan
اور وہ جس کی مجھے آس لگی ہے کہ میری خطائیں قیامت کے دن بخشے گا
3 Ahmed Ali
اور وہ جو مجھے امید ہے کہ میرے گناہ قیامت کے دن مجھے بخش دے گا
4 Ahsanul Bayan
اور جس سے امید بندھی ہوئی ہے کہ وہ روز جزا میں میرے گناہوں کو بخش دے گا (١)
٨٤۔١ یہاں امید، یقین کے معنی میں ہے۔ کیونکہ کسی بڑی شخصیت سے امید، یقین کے مترادف ہی ہوتی ہے اور اللہ تعالٰی تو کائنات کی سب سے بڑی ہستی ہے، اس سے وابستہ امید، یقینی کیوں نہیں ہوگی اسی لئے مفسرین کہتے ہیں کہ قرآن میں جہاں بھی اللہ کے لئے عَسَیٰ کا لفظ استعمال ہوا ہے وہ یقین ہی کے مفہوم میں ہے۔ خطیئتی، خطیئۃ واحد کا صیغہ ہے لیکن خطایا جمع کے معنی میں ہے انبیاء علیہم السلام اگرچہ معصوم ہوتے ہیں اس لیے ان سے کسی بڑے گناہ کا صدور ممکن نہیں پھر بھی اپنے بعض افعال کو کوتاہی پر محمول کرتے ہوئے بارگاہ الہی میں عفو وطلب ہوں گے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور وہ جس سے میں امید رکھتا ہوں کہ قیامت کے دن میرے گناہ بخشے گا
6 Muhammad Junagarhi
اور جس سے امید بندھی ہوئی ہے کہ وه روز جزا میں میرے گناہوں کو بخش دے گا
7 Muhammad Hussain Najafi
اور جس سے میں امید رکھتا ہوں کہ وہ جزا و سزا کے دن میری خطا معاف کر دے گا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور اسی سے یہ امید ہے کہ روزِ حساب میری خطاؤں کو معاف کردے
9 Tafsir Jalalayn
اور وہ جس سے میں امید رکھتا ہوں کہ قیامت کے دن میرے گناہ بخشے گا
10 Tafsir as-Saadi
پھر ان میں سے بعض ضروریات کا خاص طور پر ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿وَالَّذِي هُوَ يُطْعِمُنِي وَيَسْقِينِ وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ وَالَّذِي يُمِيتُنِي ثُمَّ يُحْيِينِ وَالَّذِي أَطْمَعُ أَن يَغْفِرَ لِي خَطِيئَتِي يَوْمَ الدِّينِ ﴾ ” اور وہی مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے اور جب میں بیمار پڑجاتا ہوں تو مجھے شفا بخشتا ہے اور وہی ہے جو مجھے مارے گا اور پھر زندہ کرے گا اور وہی ہے جس سے میں امید رکھتا ہوں کہ روز قیامت میرے گناہ بخش دے گا۔“ یعنی ان تمام افعال کو اکیلاوہی سرانجام دیتا ہے اس لئے واجب ہے کہ صرف اسی کی عبادت اور اطاعت کی جائے اور ان بتوں کی عبادت چھوڑدی جائے جو تخلیق پر قادر ہیں نہ ہدایت پر، جو کسی کو بیمار کرسکتے ہیں نہ شفا دے سکتے ہیں، جو کھلا سکتے ہیں نہ پلاسکتے ہیں، جو مار سکتے ہیں نہ زندہ کرسکتے ہیں اور نہ وہ اپنے عبادت گزاروں کی تکلیف کو دور کرکے ان کو کوئی فائدہ پہنچاسکتے ہیں اور نہ وہ گناہوں کو بخش سکتے ہیں۔ یہ ایسی قطعی دلیل اور روشن حجت ہے جس کا تم اور تمہارے آباء واجداد و مقابلہ نہیں کرسکتے۔ پس یہ چیز گمراہی میں تمہارے اشتراک، اور رشد و ہدایت کے راستے کو چھوڑ دینے پر دلالت کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ وَحَاجَّهُ قَوْمُهُ قَالَ أَتُحَاجُّونِّي فِي اللّٰـهِ وَقَدْ هَدَانِ ۔۔۔ الایات﴾ (الانعام : 6؍80) ” اور ابراہیم سے اس کی قوم نے جھگڑا کیا، ابراہیم نے کہا، کیا تم مجھ سے اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہو، حالانکہ اسی نے مجھے ہدایت دی۔۔۔ “
11 Mufti Taqi Usmani
aur jiss say mein yeh umeed lagaye huye hun kay woh hisab o kitab kay din meri khata bakhsh dey ga .