النمل آية ۱۵
وَلَـقَدْ اٰتَيْنَا دَاوٗدَ وَ سُلَيْمٰنَ عِلْمًا ۚ وَقَالَا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِىْ فَضَّلَنَا عَلٰى كَثِيْرٍ مِّنْ عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِيْنَ
طاہر القادری:
اور بیشک ہم نے داؤد اور سلیمان (علیہما السلام) کو (غیر معمولی) علم عطا کیا، اور دونوں نے کہا کہ ساری تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جس نے ہمیں اپنے بہت سے مومن بندوں پر فضیلت بخشی ہے،
English Sahih:
And We had certainly given to David and Solomon knowledge, and they said, "Praise [is due] to Allah, who has favored us over many of His believing servants."
1 Abul A'ala Maududi
(دوسری طرف) ہم نے داؤدؑ و سلیمانؑ کو علم عطا کیا اور انہوں نے کہا کہ شکر ہے اُس خدا کا جس نے ہم کو اپنے بہت سے مومن بندوں پر فضیلت عطا کی
2 Ahmed Raza Khan
اور بیشک ہم نے داؤد اور سلیمان کو بڑا علم عطا فرمایا اور دونوں نے کہا سب خوبیاں اللہ کو جس نے ہمیں اپنے بہت سے ایمان والے بندوں پر فضیلت بخشی
3 Ahmed Ali
اور ہم نے داؤد اور سلیمان کو علم دیا اور کہنے لگے الله کا شکر ہے جس نے ہمیں بہت سے ایمان دار بندوں پر فضیلت دی
4 Ahsanul Bayan
اور یقیناً ہم نے داؤد اور سلیمان کو علم دے رکھا تھا (۱) اور دونوں نے کہا، تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس نے ہمیں اپنے بہت سے ایمان دار بندوں پر فضیلت عطا فرمائی ہے۔
۱۵۔۱ سورت کے شروع میں فرمایا گیا تھا کہ یہ قرآن اللہ کی طرف سے سکھلایا جاتا ہے اس کی دلیل کے طور پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مختصرا قصہ بیان فرمایا اور اب دوسری دلیل حضرت داؤد علیہ السلام و سلیمان علیہ السلام کا یہ قصہ ہے انبیا علیہم السلام کے یہ واقعات اس بات کی دلیل ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں علم سے مراد نبوت کے علم کے علاوہ وہ علم ہے جن سے حضرت داؤد علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام کو بطور خاص نوازا گیا تھا جیسے حضرت داؤد علیہ السلام کو لوہے کی صنعت کا علم اور حضرت سلیمان علیہ السلام کو جانوروں کی بولیوں کا علم عطا کیا گیا تھا ان دونوں باپ بیٹوں کو اور بھی بہت کچھ عطا کیا گیا تھا لیکن یہاں صرف علم کا ذکر کیا گیا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ علم اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہے ۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور ہم نے داؤد اور سلیمان کو علم بخشا اور انہوں نے کہا کہ خدا کا شکر ہے جس نے ہمیں بہت سے مومن بندوں پر فضلیت دی
6 Muhammad Junagarhi
اور ہم نے یقیناً داؤد اور سلیمان کو علم دے رکھا تھا۔ اور دونوں نے کہا، تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں اپنے بہت سے ایماندار بندوں پر فضیلت عطا فرمائی ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور ہم نے داؤد اور سلیمان کو (خاص) علم عطا فرمایا۔ اور ان دونوں نے کہا کہ ہر قِسم کی تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس نے ہمیں اپنے بہت سے مؤمن بندوں پر فضیلت عطا کی ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور ہم نے داؤد اور سلیمان کو علم عطا کیا تو دونوں نے کہا کہ خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں بہت سے بندوں پر فضیلت عطا کی ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور ہم نے داؤد اور سلیمان کو علم بخشا اور انہوں نے کہا کہ خدا کا شکر ہے جس نے ہمیں بہت سے اپنے مومن بندوں پر فضیلت دی
آیت نمبر 15 تا 21
ترجمہ : اور ہم نے داؤد اور اس کے بیٹے سلیمان کو لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کا علم عطا کیا اور پرند وغیرہ کی بولی سکھائی اور ان دونوں حضرات نے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہا سب تعریفیں اس اللہ کیلئے ہیں جس نے ہم کو نبوت کے ذریعہ اور جن و انس و شیاطین کی تسخیر کے ذریعہ اپنے مومن بندوں میں سے بہت سوں پر فضیلت عطا فرمائی اور سلیمان (علیہ السلام) نبوت اور علم میں داؤد (علیہ السلام) کے وارث ہوئے اور سلیمان (علیہ السلام) نے کہا اے لوگو ! ہم کو پرندوں کی بولی یعنی ان کی آواز کی سمجھ سکھائی اور ہم کو ہر وہ شئ عطا فرمائی جو انبیاء اور ملوک کو عطا کی جاتی ہے (یعنی جس کی ان کی حاجت ہوتی ہے) بلاشبہ واقعی یہ عطا کردہ شئ اس کا بڑا فضل ہے (کھلا ہوا فضل ہے) اور سلیمان کے سامنے ایک سفر میں ان کا لشکر جمع کیا گیا جو کہ جن و انس اور پرند پر مشتمل تھا ان کو جمع کیا جاتا تھا پھر سے چلایا جاتا تھا یہاں تک کہ جب وہ چیونٹیوں کے میدان میں پہنچے وہ میدان طائف میں یا شام میں تھا، وہ چیونٹیاں چھوٹی (نسل کی) تھیں یا بڑی، ایک چیونٹی نے جو کہ چیونٹیوں کی رانی تھی کہا اور اس نے سلیمان (علیہ السلام) کے لشکر کو دیکھ لیا تھا اے چیونٹیوں اپنے سوراخوں میں داخل ہوجاؤ ایسا نہ ہو کہ سلیمان اور ان کا لشکر تم کو بیخبر ی میں روند ڈالے یعنی ان کو تمہاری ہلاکت کی خبر بھی نہ ہو، چیونٹیوں کو خطاب میں، ان سے خطاب کرتے ہوئے بمنزلہ عقلاء کے اتار لیا گیا، سلیمان (علیہ السلام) اس کی بات سنکر مسکرا کر ہنس دئیے یعنی ابتداءً مسکرائے اور آکر کار ہنس دئیے اور سلیمان (علیہ السلام) نے چیونٹی کی بات تین میل سے سن لی تھی، ہوا نے اس بات کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) تک پہنچا دیا تھا، چناچہ سلیمان (علیہ السلام) جب وادی کے قریب پہنچے تو اپنے لشکر کو روک لیا، یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنے سوراخوں میں داخل ہوگئیں، اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا لشکر اس سفر میں سوار اور پیادہ پر مشتمل تھا (حضرت سلیمان علیہ السلام) اللہ سے یہ دعا کرنے لگے کہ اے میرے پروردگار آپ مجھے الہام کیجئے (توفیق کیجئے) کہ تیری ان نعمتوں کا شکریہ ادا کروں جو تو نے میرے اور میرے والدین کو عطا فرمائی ہیں اور یہ کہ میں ایسے اعمال کرتا رہوں کہ جن سے تو خوش رہے اور اپنی رحمت سے مجھے اپنے نیک بندوں یعنی انبیاء واولیاء میں داخل فرما اور آپ نے پرندوں کی جانچ پڑتال کی تاکہ ہدہد کو دیکھیں جو پانی کو زیر زمین دیکھ لیتا ہے اور زمین پر اپنی چونچ مار کر اس کی نشاندہی کردیتا ہے اور شیاطین پانی کو سلیمان (علیہ السلام) کی نماز (وغیرہ) کی ضرورت کے لئے نکال لیتے (تھے) چناچہ (حضرت سلیمان علیہ السلام) نے ہد ہد کو نہ پایا تو (حضرت سلیمان علیہ السلام) فرمانے لگے کیا بات ہے کہ ہد ہد مجھے نظر نہیں آرہا ؟ یعنی کیا کوئی چیز میرے سامنے آڑے آگئی ہے ؟ جو مجھے اس کے دیکھنے سے مناع ہوگئی ہے کیا واقعی وہ غیر حاضر ہے کہ میں اس کو اس کی غیر حاضری کی وجہ سے نہیں دیکھ رہا ہوں جب اس کی غیر حاضری متحقق ہوگئی تو حضرت سلیمان فرمانے لگے کہ میں اس کو سخت سزا دوں گا اس کے پروں کو نوچ کر اور اس کی دم کو اکھاڑ کر اور اس کو دھوپ میں ڈال کر، جس کی وجہ سے وہ کیڑے مکوڑوں سے محفوظ نہ رہ سکے گا یا اس کا گلا کاٹ کر ذبح کردوں گا، یا میرے سامنے کوئی واضح دلیل (عذر) پیش کرے لَیَاتِیَنِّی میں نون مشدد مک سورة کے ساتھ یا نون مک سورة ملا ہو یعنی اپنے عذر کی کوئی واضح دلیل پیش کرے۔
تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد
قولہ : آتَیْنَا بمعنی اَعْطَیْنَا طَیْرٌ طائر کی جمع ہے پرندہ قَالَ یٰاَیُّھَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّیْرِ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا اپنے لئے جمع کا صیغہ استعمال کرنا یہ سیاسۃً شاہانہ طرف خطاب ہے نہ کہ تکبراً (روح البیان میں ہے) اَلنُّوْنُ نُونُ الواحد المطاع علی عادۃِ الملوکِ فَاِنَّھُمْ یتکلّمونَ مثل ذٰلک رعایتہٗ لقاعدۃ السیاسۃ اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ عُلِّمْنَا ای أناوأبی مگر یہ تاویل حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے پرندوں کی بولی سمجھنے کے اختصاص کے منافی ہے جیسا کہ مشہور ہے اگرچہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو پرندوں کے علاوہ دیگر حیوانات کی بولی سمجھنے کا معجزہ عطا فرمایا گیا تھا مگر چونکہ پرندے ہمہ وقت آپ پر سایہ فگن رہتے تھے اس لئے پرندوں کا تذکرہ خاص طور پر کیا گیا ہے مَنْطِقَ کا عطف قضاء پر ہے با کے تحت میں ہونے کی وجہ سے مجرور ہے ای عِلمًا بالقضاءِ وبمنطقِ الطیرِ ۔
قولہ : وغیرَ ذٰلکَ سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو پرندوں کی بولی سمجھنے کے علاوہ اور دیگر حیوانات کی بولی سمجھنے کا علم بھی عطا کیا گیا تھا۔ قولہ : حَتّٰی اِذا اَتَوْا یہ محذوف کی غایت ہے تقدیر عبارت یہ ہے فَسَارُوْا حَتّٰی اِذَا اَتَوْا اور بعض حضرات نے یُوْزَعُوْنَ کی غایت قرار دیا ہے تقدیر عبارت یہ ہوگی فَھُمْ یَسِیْرُوْنَ ممنوعًا بعضھم من مفارقۃِ بعض حتیّٰ اِذا اَتَوْا علیٰ وادِی النملۃِ ۔ قولہ : فی عِبَادکَ الصالحین ای فی جملۃِ عبَادِکَ الصالحین حذف مضاف کے ساتھ اور صالحین سے کامل صالحین مراد ہیں جو کہ انبیاء ہی ہوتے ہیں لہٰذا یہ شبہ ختم ہوگیا کہ نبی کا صالحین میں شامل ہونے کی دعاء سے کیا مقصد ہے ؟ جبکہ انبیاء رتبہ کے اعتبار سے اعلیٰ ہوتے ہیں۔
تفسیر و تشریح
ولقد آتینا۔۔۔۔ علمًا حق سبحانہ تعالیٰ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ بیان کرنے کے بعد داؤد (علیہ السلام) اور ان کے صاحبزادے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا قصہ بیان فرماتے ہیں، یہ قصے اور ان سے ماقبل و مابعد کے قصے دراصل وَاِنّکَ لَتُلقَی القرآنَ مِن لَّدُنْ حکیم علیم کے لئے بمنزلہ تائید و تقریر کے ہیں، اسلئے کہ ایک امی کے لئے جس کا ہل کتاب سے بھی کوئی ربط وتعلق نہیں ہے گزشتہ ہزاروں سال کے واقعات کو من و عن صحیح بیان کرتا ہے اس کی معلومات کا ذریعہ وحی الٰہی کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے ؟ گویا کہ ان واقعات کو سنانے اور بیان کرنے کا صاف اور صریح مقصد وَاِنَّکَ لَتُلْقٰی القرآنَ مِنْ لَّدُنْ حکیمٍ علیمٍ کی تائید و تقریر ہے عِلْمًا میں تنوین یا تو نوع کے لئے ہے یا پھر تعظیم کے لئے ہے یعنی علمًا کثیراً علیم کا راست مصداق تو وہی علوم ہیں جو نبوت و رسالت سے متعلق ہوتے ہیں، مگر اس کے عموم میں دیگر علوم و فنون بھی شامل ہوں تو بعید نہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کو زرہ سازی کی صفت سکھائی تھے حضرت داؤد (علیہ السلام) و سلیمان (علیہ السلام) زمرۂ انبیاء میں ایک خاص امتیاز یہ رکھتے ہیں کہ ان کو رسالت اور نبوت کے ساتھ ساتھ سلطنت بھی عطا کی گئی تھی اور سلطنت بھی ایسی بےنظیر کہ صرف انسانوں پر نہیں بلکہ جنات اور جانوروں پر بھی ان کی حکمرانی تھی، ان عظیم الشان نعمتوں میں سے سب سے پہلے نعمت علم کا ذکر فرمانے سے اشارۃ النص کے طور پر اس طرف اشارہ ہوگیا کہ نعمت علم تمام دیگر نعمتوں سے فائق اور بالا تر ہے وقالاَ الحمدُ للہِ میں واؤ عطف کے لئے ہے اور معطوف علیہ محذوف ہے اس لئے کہ یہ مقام فا کا ہے تقدیر عبارت یہ ہے وَلَقَدْ آتَیْنَاھُمَا عِلمًا فعمِلاَ وقَالاَ الحمدللہِ ۔
انبیاء کے مال میں وراثت نہیں ہوتی، وَوَرِثَ سلیمٰنُ داوٗدَ وراثت سے وراثت علم و نبوت مراد ہے نہ کہ مالی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نحن معاشر الانبیاء لا نَرِثُ ولاَ نُورِثُ یعنی انبیاء نہ وارث ہوتے ہیں اور نہ مورث، حضرت ابو الدرداء سے ترمذی اور ابو داؤد میں روایت ہے العلماءُ ورَثَۃُ الانبیاءِ وان الانبیاءَ لَمْ یُوَرِّثوا دینارًا ولا دِرْھمًا ولکن وَرّثُوا العلمَ فمَنْ اَخَذَ بحظٍ وافر یعنی علماء انبیاء کے وارث ہیں لیکن انبیاء میں وراثت علم نبوت کی ہوتی ہے مال کی نہیں، حضرت ابو عبد اللہ کی روایت اس مسئلہ کو اور زیادہ واضح کردیتی ہے، حضرت سلیمان (علیہ السلام) حضرت داؤد (علیہ السلام) کے وارث ہوئے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے وارث ہوئے (روح عن الکینی بحوالہ معارف) عقلی طور پر بھی یہاں وراثت مالی مراد نہیں ہوسکتی اس لئے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے انیس صاحبزادے تھے اگر وارثت مالی مراد ہوتی تو سب لڑکے وارث ہوتے حضرت سلیمان کی تخصیص کی کیا وجہ ہوسکتی ہے ؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وراثت سے وراثت علم و نبوت مراد ہے، ان دلائل کے بعد طبری کی وہ روایت غلط ہوجاتی ہے جس میں انہوں نے بعض ائمہ اہل بیت کے حوالہ سے مالی وراثت مراد لی ہے۔ (روح، معارف)
حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی وفات اور خاتم الانبیاء (علیہ السلام) کی ولادت کے درمیان ایک ہزار سات سو سال کا فاصلہ ہے اور یہود یہ فاصلہ ایک ہزار چار سو سال بتاتے ہیں، سلیمان (علیہ السلام) کی عمر پچاس سال سے کچھ زیادہ ہوئی ہے اور حضرت داؤد (علیہ السلام) کی ایک سو سال ہوئی ہے، حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وارث قرار دینا وراثت علمی ہی کی صورت میں ہوسکتا ہے اسلئے کہ وراثت مالی کی مستحق تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی وہ اولاد ہے جو سلیمان (علیہ السلام) کے بعد بقید حیات رہی
بخاری اور دیگر ائمہ حدیث نے روایت کی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لا نورث ما ترکناہ صدقۃ ہم وارث نہیں بناتے جو چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہے، آیت میں وراثت اصطلاحی مراد نہیں ہے، بلکہ مجازی معنی خلافت اور جانشین مراد ہے جیسا کہ قرآن میں آیا ہے یرثون الفردوس اور حدیث شریف میں آیا ہے العلماء ورثۃ الانبیاء نیز حضرت ابوہریرہ (رض) سے منقول ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بازار نے آواز لگائی ” چلو مسجد میں میراث رسول اللہ تقسیم ہو رہی ہے “ لوگ دوڑے ہوئے مسجد میں گئے مسجد میں کچھ نہ پایا، البتہ ایک جماعت تعلیم و تعلم میں مصروف تھی، لوگوں نے کہا مال کہاں ہے ؟ فرمایا یہی ہے میراث رسول، اور اگر میراث مجازاً مراد نہ بلکہ وراثت مالی ہی مراد ہو تو جیسا کہ بعض روافض کا قول ہے تو پھر یہ سوال پیدا ہوگا حضرت داؤد (علیہ السلام) کے انیس بیٹوں میں سے دوسرے کیوں محروم کر دئیے گئے ؟ اس کا یہ جواب کہ عدم ذکر کے لئے نفی لازم نہیں، یہ خلاف سیاق ہے اس لئے کہ اگر حضرت سلیمان کی تخصیص مقصود نہ ہو تو معمولی ذکر سے کیا فائدہ ؟ ہر بیٹا باپ کا وارث ہوتا ہی ہے، اور اگر نبوت اور علم مراد ہے جیسا کہ جمہور کا مذہب ہے تو اس میں میراث، خلافت و جانشینی کے اعتبار سے ہوگی اس لئے کہ یہ اوصاف نہ مملوک ہوتے ہیں اور نہ بعینہٖ منتقل ہوتے ہیں اور جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ انبیاء کی میراث خلافت و جانشینی کی ہوتی ہے تو اس سے روافض کے اس قول کا رد بھی ہوگیا کہ سیدۃ النساء فاطمۃ الزہراء (رض) کو وراث باغ فدک سمجھے ہوئے ہیں حالانکہ وہ بطور نفقہ حضور کے متعلقین کے لئے تھا نہ کہ مملوک، اس لئے متروکہ انبیاء میراث نہیں ہوتے وقال یا اَیُّھا الناس علمنا منطق الطَّیر حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے یہ بات لوگوں سے تحدیث نعمت کے طور پر کہی، عُلِّمَ مَنْطِقَ الطَّیْرِ سے مراد پرندوں کی بولی سمجھنا ہے، بعض حضرات نے کہا ہے کہ دیگر حیوانوں کی بولی کی سمجھ بھی عطا فرمائی گئی اور پرندوں کی بولی کی فہم کی تخصیص نہیں تھی اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ پرندوں کی بولی کی ہی فہم عطا فرمائی گئی تھی دیگر حیوانوں کی بولی کی فہم عطا نہیں کی گئی تھی، بعض اوقات خاص طور پر جبکہ چیونٹی کی عمر دراز ہوجائے تو پر نکل آتے ہیں یہ چیونٹی بھی پر دار تھی لہذٰا کوئی اعتراض باقی نہیں رہتا۔
قولہ : اُوتینا وعُلِّمْنَا حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی مراد خود اپنی ذات ہی ہے اور ان دونوں صیغوں میں نون عظمت ہے جس کو ملوک و سلاطین سیاسۃً استعمال کیا کرتے ہیں۔ قولہ فی مسیرۃٍ سے علامہ محلی کا اشارہ اس طرف ہے کہ کسی خاص سفر میں کہیں جانے کیلئے انسانوں، جنوں، چرندوں و پرندوں کا یہ لاؤ لشکر جمع کیا گیا تھا۔ قولہ : یُوْزَعُوْنَ اگر وَزَعُ وزعًا سے مشتق ہو تو اس کے معنی روکنے کے ہیں تو مطلب یہ ہوگا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا لشکر اتنی بڑی تعداد میں تھا کہ راستہ میں روک روک کر ان کو درست کیا جاتا تھا تاکہ شاہی لشکر بدنظمی اور انتشار کا شکار نہ ہو اسی مادہ سے ہمزہ سلب کا اضافہ کرکے اوْزِعْنِیْ بنایا گیا ہے جو اگلی آیت (19) میں آرہا ہے، اور بعض حضرات نے یُوْزَعُوْنَ کو تَوزِیْعٌ سے مشتق مانا ہے جس کے معنی تفریق کے ہیں، مطلب یہ ہوگا کہ سب کو الگ الگ جماعتوں میں تقسیم کردیا جاتا تھا، مثلاً انسانوں کا گروہ، جنوں کا گروہ، پرندوں اور حیوانات کا گروہ وغیرہ وغیرہ، ایسا فوجی نظام کے ماتحت کیا جاتا تھا اور ہر گروہ کا الگ ذمہ دار مقرر کردیا جاتا تھا، نملۃٌ مذکر اور مؤنث دونوں کے لئے مستعمل ہے اس کی جمع نَمَلٌ آتی ہے بعض حضرات نے کہا ہے کہ جس چیونٹی کی آواز حضرت علیمان نے سنی مؤنث تھی اور دلیل قالت نملۃٌ میں فعل کی تانیث کو پیش کیا ہے، ابو حیان نے اس کا انکار کیا ہے۔ (فتح القدیر)
حتی اذا۔۔۔۔ النمل (الآیۃ) اس سے چند باتیں معلوم ہوتی ہیں (1) یہ کہ حیوانات میں بھی ایک خاص قسم کا شعور ہوتا ہے گو انسان سے بہت کم ہو (2) یہ کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اتنی عظمت اور فضیلت کے باوجود عالم الغیب نہیں تھے اسی لئے چیونٹیوں کو خطرہ محسوس ہوا کہ کہیں بیخبر ی میں ہم روند نہ دئیے جائیں ہُدہُد کے واقعہ میں اَحَطْتَّ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِہٖ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) عالم الغیب نہیں تھے۔ (3) یہ کہ حیوانات بھی اس عقیدۂ صحیحہ سے بہرہ ور ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں (4) یہ کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) پرندوں کے علاوہ دیگر حیوانات کو بولی بھی سمجھتے تھے، یہ علوم حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو بطور اعجاز عطا ہوئے تھے۔
وَتَفَقَّدَ الطَّیْرَ ، تَفَقَّدَ کے معنی جانچ پڑتال کرنا، حاضر وغیر حاضر کی تحقیق کرنا ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حاکم کو رعایا کی خبر گیری کرنی چاہیے اور ان کی حالت سے واقفیت کے طریقوں کو استعمال کرنا چاہیے یہ اس کے فرائض میں داخل ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بھی عادت شریفہ تھی کہ صحابہ کرام کی حالت سے باخبر رہنے کا اہتمام فرماتے تھے جو شخص غیر حاضر ہوتا اور مسجد میں نظر نہ آتا اس کے بارے میں دریافت فرماتے اگر بیمار ہوتا تو عیادت کے لئے تشریف لیجاتے اور اگر کسی پریشانی میں مبتلا ہوتا تو اس کے ازالہ کی تدبیر فرماتے۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ ان آیات کریمہ میں حضرت داؤد اور ان کے فرزند سلیمان علیہما السلام پر اپنے احسان کا ذکر کرتا ہے کہ اس نے انہیں وسیع علم عطا کیا اور اس معنی کی دلیل یہ ہے کہ ” علم“ کو نکرہ کے صیغے میں بیان کیا جیسا کہ ایک دوسرے مقام پر فرمایا : ﴿ وَدَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ إِذْ يَحْكُمَانِ فِي الْحَرْثِ إِذْ نَفَشَتْ فِيهِ غَنَمُ الْقَوْمِ وَكُنَّا لِحُكْمِهِمْ شَاهِدِينَ فَفَهَّمْنَاهَا سُلَيْمَانَ ۚ وَكُلًّا آتَيْنَا حُكْمًا وَعِلْمًا ﴾ (الانبیاء : 21؍78۔ 79)” اور یاد کیجئے داؤد اور سلیمان کو جبکہ وہ دونوں ایک کھیت کے جھگڑے میں فیصلہ کر رہے تھے اس کھیت میں کچھ لوگوں کی بکریاں رات کے وقت چر گئی تھیں ہم ان کے فیصلے کو خود دیکھ رہے تھے۔ پس صحیح فیصلہ ہم نے سلیمان کو سمجھا دیا حالانکہ حکم اور علم سے ہم نے دونوں ہی کو سرفراز کیا تھا۔ “
﴿ وَقَالَا ﴾ ان دونوں نے اس احسان پر کہ اللہ نے ان کو تعلیم دی، اپنے رب کا شکر بجا لاتے ہوئے کہا : ﴿ لْحَمْدُ لِلّٰـهِ الَّذِي فَضَّلَنَا عَلَىٰ كَثِيرٍ مِّنْ عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِينَ ﴾ ” اللہ کا شکر ہے جس نے ہمیں اپنے بہت سے مومن بندوں پر فضیلت دی۔“ پس ان دونوں نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی کہ اس نے انہیں ایمان سے بہرہ مند کیا اور انہیں سعادت مند لوگوں میں شامل کی اور وہ ان کے خواص میں شمار ہوتے ہیں۔۔۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کہ اہل ایمان کے چار درجے ہیں۔ صالحین، ان سے اوپر شہداء، ان سے اوپر صدیقین اور سب سے اوپر انبیاء۔ داؤد اور سلیمان علیہما السلام اللہ تعالیٰ کے خاص رسولوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اگرچہ ان کا درجہ پانچ اولوالعزم رسولوں کے درجے سے کم تر ہے۔ تاہم وہ جملہ اصحاب فضیلت انبیاء و رسل میں شمار ہوتے ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں نہایت تعظیم کے ساتھ ذکر کیا ہے اور ان کی بہت زیادہ مدح و توصیف بیان کی ہے۔ پس انہوں نے اس منزلت کے عطا ہونے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ یہ بندے کی سعادت کا عنوان ہے کہ وہ تمام دینی اور دنیاوی نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے اور یہ ایمان رکھے کہ تمام نعمتیں صرف اس کے رب کی طرف سے عطا ہوتی ہیں۔ وہ ان نعمتوں پر فخر کرے نہ ان پر تکبر کرے بلکہ وہ یہ سمجھے کہ یہ نعمتیں اس پر یہ لازم کرتی ہیں کہ ان پر اللہ تعالیٰ کا بے انتہا شکر ادا کیا جائے۔
پس جب اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام کی مشترک مدح کی پھر سلیمان علیہ السلام کا خصوصی ذکر کیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک عظیم سلطنت عطا کی اور انہوں نے وہ کارنامے سرانجام دئیے جو ان کے باپ داؤد علیہ السلام سرانجام نہ دے سکے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur hum ney dawood aur suleman ko ilm ata kiya . aur unhon ney kaha : tamam tareefen Allah ki hain jiss ney hamen apney boht say momin bandon per fazilat ata farmaee hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیھما السلام پر خصوصی انعامات
ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ ان نعمتوں کی خبر دے رہا ہے جو اس نے اپنے بندے اور نبی حضرت سلیمان اور حضرت داؤد (علیہ السلام) پر فرمائی تھیں کہ کس طرح دونوں جہان کی دولت سے انہیں مالا مال فرمایا۔ ان نعمتوں کے ساتھ ہی اپنے شکرئیے کی بھی توفیق دی تھی۔ دونوں باپ بیٹے ہر وقت اللہ کی نعمتوں پر اس کی شکر گزاری کیا کرتے تھے اور اس کی تعریفیں بیان کرتے رہتے تھے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز (رح) نے لکھا ہے کہ جس بندے کو اللہ تعالیٰ جو نعمتیں دے اور ان پر وہ اللہ کی حمد کرے تو اس کی حمد ان نعمتوں سے بہت افضل ہے دیکھو خود کتاب اللہ میں یہ نکتہ موجود ہے پھر آپ نے یہی آیت لکھ کر لکھا کہ ان دونوں پیغمبروں کو جو نعمت دی گئی تھی اس سے افضل نعمت کیا ہوگی۔ حضرت داؤد کے وارث حضرت سلیمان ہوئے اس سے مراد مال کی وراثت نہیں بلکہ ملک ونبوت کی وراثت ہے۔ اگر مالی میراث مراد ہوتی تو اس میں صرف حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا نام نہ آتا کیونکہ حضرت داؤد کی سو بیویاں تھیں۔ انبیاء کی مال کی میراث نہیں بٹتی۔ چناچہ سید الانبیاء (علیہ السلام) کا ارشاد ہے ہم جماعت انبیاء ہیں ہمارے ورثے نہیں بٹا کرتے ہم جو کچھ چھوڑ جائیں صدقہ ہے حضرت سلیمان اللہ کی نعمتیں یاد کرتے فرماتے ہیں یہ پورا ملک اور یہ زبردست طاقت کہ انسان جن پرند سب تابع فرمان ہیں پرندوں کی زبان بھی سمجھ لیتے ہیں یہ خاص اللہ کا فضل وکرم ہے۔ جو کسی انسان پر نہیں ہوا۔ بعض جاہلوں نے کہا ہے کہ اس وقت پرند بھی انسانی زبان بولتے تھے۔ یہ محض ان کی بےعلمی ہے بھلا سمجھو تو سہی اگر واقعی یہی بات ہوتی تو پھر اس میں حضرت سلیمان کی خصوصیت ہی کیا تھی جسے آپ اس فخر سے بیان فرماتے کہ ہمیں پرندوں کی زبان سکھا دی گئی پھر تو ہر شخص پرند کی بولی سمجھتا اور حضرت سلیمان کی خصوصیت جاتی رہتی۔ یہ محض غلط ہے پرند اور حیوانات ہمیشہ سے ہی ایسے ہی رہے ان کی بولیاں بھی ایسی ہی رہیں۔ یہ خاص اللہ کا فضل تھا کہ حضرت سلیمان ہر چرند پرند کی زبان سمجھتے تھے۔ ساتھ ہی یہ نعمت بھی حاصل ہوئی تھی۔ کہ ایک بادشاہت میں جن جن چیزوں کی ضروت ہوتی ہے سب حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو قدرت نے مہیا کردی تھیں۔ یہ تھا اللہ کا کھلا احسان آپ پر۔ مسند امام احمد میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں حضرت داؤد (علیہ السلام) بہت ہی غیرت والے تھے جب آپ گھر سے باہر جاتے تو دروازے بند کر جاتے پھر کسی کو اندر جانے کی اجازت نہ تھی ایک مرتبہ آپ اسی طرح باہر تشریف لے گئے۔ تھوڑی دیر بعد ایک بیوی صاحبہ کی نظر اٹھی تو دیکھتی ہیں کہ گھر کے بیچوں بیچ ایک صاحب کھڑے ہیں حیران ہوگئیں اور دوسروں کو دکھایا۔ آپس میں سب کہنے لگیں یہ کہاں سے آگئے ؟ دروازے بند ہیں یہ کہاں سے آگئے ؟ اس نے جواب دیا وہ جسے کوئی روک اور دروازہ روک نہ سکے وہ کسی بڑے سے بڑے کی مطلق پرواہ نہ کرے۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) سمجھ گئے اور فرمانے لگے مرحبا مرحبا آپ ملک الموت ہیں اسی وقت ملک الموت نے آپ کی روح قبض کی۔ سورج نکل آیا اور آپ پر دھوپ آگئی تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے پرندوں کو حکم دیا کہ وہ حضرت داؤد پر سایہ کریں انہوں نے اپنے پر کھول کر ایسی گہری چھاؤں کردی کہ زمین پر اندھیرا سا چھا گیا پھر حکم دیا کہ ایک ایک کرکے اپنے سب پروں کو سمیٹ لو۔ حضرت ابوہریرہ (رض) نے پوچھا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پرندوں نے پھر پر کیسے سمیٹے ؟ آپ نے فرمایا اپنا ہاتھ سمیٹ کر بتلایا کہ اس طرح۔ اس پر اس دن سرخ رنگ گدھ غالب آگئے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا لشکر جمع ہوا جس میں انسان جن پرند سب تھے۔ آپ سے قریب انسان تھے پھر جن تھے پرند آپ کے سروں پر رہتے تھے۔ گرمیوں میں سایہ کرلیتے تھے۔ سب اپنے اپنے مرتبے پر قائم تھے۔ جس کی جو جگہ مقررر تھی وہ وہیں رہتا۔ جب ان لشکروں کو لے کر حضرت سلیمان (علیہ السلام) چلے۔ ایک جنگل پر گذر ہوا جہاں چیونٹیوں کا لشکر تھا۔ لشکر سلیمان کو دیکھ کر ایک چیونٹی نے دوسری چیونٹیوں سے کہا کہ جاؤ اپنے اپنے سوراخوں میں چلی جاؤ کہیں ایسا نہ ہو کہ لشکر سلیمان چلتا ہوا تمہیں روند ڈالے اور انہیں علم بھی نہ ہو۔ حضرت حسن فرماتے ہیں اس چیونٹی کا نام حرمس تھا یہ بنو شعبان کے قبیلے سے تھی۔ تھی بھی لنگڑی بقدر بھیڑیئے کے اسے خوف ہوا کہیں سب روندی جائیں گی اور پس جائیگی یہ سن کر حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو تبسم بلکہ ہنسی آگئی اور اسی وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اے اللہ مجھے اپنی ان نعمتوں کا شکریہ ادا کرنا الہام کر جو تو نے مجھ پر انعام کی ہیں مثلا پرندوں اور حیوانوں کی زبان سکھا دینا وغیرہ۔ نیز جو نعمتیں تو نے میرے والدین پر انعام کی ہیں کہ وہ مسلمان مومن ہوئے وغیرہ۔ اور مجھے نیک عمل کرنے کی توفیق دے جن سے تو خوش ہوا اور جب میری موت آجائے تو مجھے اپنے نیک بندوں اور بلند رفقاء میں ملادے جو تیے دوست ہیں۔ مفسین کا قول ہے کہ یہ وادی شام میں تھی۔ بعض اور جگہ بتاتے ہیں۔ یہ جیونٹی مثل مکھوں کے پر دار تھی۔ اور بھی اقوال ہیں نوف بکالی کہتے ہیں یہ بھیڑئیے کے برابر تھی۔ ممکن ہے اصل میں لفظ ذباب ہو یعنی مکھی کے برابر اور کاتب کی غلطی وہ ذیاب لکھ دیا گیا ہو یعنی بھیڑیا۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) چونکہ جانوروں کی بولیاں سمجھتے تھے اس کی بات کو بھی سمجھ گئے اور بےاختیار ہنسی آگئی۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) بن داؤد (علیہ السلام) استسقاء کے لئے نکلے تو دیکھا کہ ایک چیونٹی الٹی لیٹی ہوئی اپنے پاؤں آسمان کی طرف اٹھائے ہوئے دعا کر رہی ہے کہ اے اللہ ہم بھی تیری مخلوق ہیں پانی برسنے کی محتاجی ہمیں بھی ہے۔ اگر پانی نہ برسا تو ہم ہلاک ہوجائیں گے یہ دعا اس چیونٹی کی سن کر آپ نے لوگوں میں اعلان کیا لوٹ چلو کسی اور ہی کی دعا سے تم پانی پلائے گئے۔ حضور فرماتے ہیں نبیوں میں سے کسی نبی کو ایک چیونٹی نے کاٹ لیا انہوں نے چیونٹیوں کے سوراخ میں آگ لگانے کا حکم دے دیا اسی وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آئی کہ اے پیغمبر محض ایک چونٹی کے کاٹنے پر تو نے ایک گروہ کے گروہ کو جو ہماری تسبیح خواں تھا۔ ہلاک کردیا۔ تجھے بدلہ لینا تھا تو اسی سے لیتا۔